- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
کرامات اولیاء اور احوالِ شیطانی میں فرق
اولیاء کی کرامات اور ان احوال شیطانی میں جو کہ کرامات ِ اولیاء سے مشابہ ہوتے ہیں۔ چند امور کا فرق ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اولیاء کی کرامات کا سبب ایمان و تقویٰ ہوتا ہے اور احوالِ شیطانی کا سبب وہ چیزیں ہیں۔ جن سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے منع کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللہِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ ۳۳ (الاعراف: ۷؍۳۳)
''اے پیغمبر! ان لوگوں سے کہو کہ میرے پروردگار نے صرف بے حیائی کے کاموں کو منع فرمایا ہے، وہ بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو اور اس بات کو کہ تم کسی کو اللہ کا شریک قرار دو، جس کی اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں علم نہیں۔''
سو بغیر علم کے اللہ تعالیٰ کی شان میں کچھ کہہ دینا، اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، ظلم کرنا اور بے حیائی کے کاموں کا ارتکاب کرنا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حرام کر دیا ہے اور اس طرح کے افعال ان کے مرتکب کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے کرامتوں سے سرفراز کیے جانے کا سبب نہیں بنتے۔ اس لیے جب امورِ خارقہ نماز، ذکر اور قرآن خوانی سے نہیں بلکہ ان چیزوں سے حاصل ہوں جنہیں شیطان پسند کرتا ہے اور ان امور سے حاصل ہوں جن میں شرک ہو۔ مثلاً مخلوق سے فریاد کرنا یا وہ ایسے امور ہوں، جن کے ذریعہ لوگوں پر ظلم کرنے اور بے حیائی کے کام کرنے کی اعانت ہوتی ہو تو یہ احوالِ شیطانیہ میں سے ہیں نہ کہ کرامات ِ رحمانیہ میں سے۔
ان لوگوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں جو سیٹیاں اور تالیاں بجانے کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں اور اس وقت ان پر شیطان اترتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ انہیں ہوا میں اٹھا لیتے اور اسے اس گھر سے نکال لے جاتے ہیں۔ اگر اولیاء اللہ میں سے کوئی آدمی وہاںمل جائے تو وہ اس کے شیطان کو بھگا دیتا ہے اور جس شخص کو وہ اٹھا کر لے جارہے ہوتے ہیں وہ گر پڑتا ہے چنانچہ کئی اشخاص کے ساتھ اس طرح کا ماجرا ہوچکا ہے۔
بعض لوگ مخلوق سے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ حاجتیں مانگتے ہیں اور اس کی بھی کوئی قید نہیں کہ وہ مسلم ہو یا نصرانی یا مشرک تو جس سے حاجت مانگی جاتی ہے۔ شیطان اس کی صورت بنا کر حاجت مانگنے والے کی کوئی حاجت پوری کر دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ وہی شخص ہے جس سے حاجت مانگی گئی ہے۔ یا وہ فرشتہ ہے جو کہ اس کی صورت بنا کر سامنے آگیا ہے۔ حالانکہ وہ شیطان ہوتا ہے جوکہ اس کو اس لیے گمراہ کرتا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ہے۔
جس طرح شیاطین بتوں میں داخل ہو کر مشرکین کے ساتھ باتیں کرتے ہیں، بعض کے پاس شیطان خاص صورت میں ظاہر ہو کر کہتا ہے کہ میں خضر ہوں۔
بسا اوقات اسے بعض باتیں بتاتا ہے اور اس کے بعض مقاصد میں اس کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ اس طرح کا ماجرا کئی مسلمانوں ، یہودیوں اور نصرانیوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ارضِ مشرق و مغرب کے بہت سے کفار کے ساتھ ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ ان کا کوئی آدمی مر جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد شیطان اس کی صورت بنا کر آتا ہے اور وہ یہ عقیدہ رکھنے لگتے ہیں کہ یہ وہی میت ہے۔ چنانچہ وہ قرضے ادا کرتا ہے۔ امانتیں واپس کرتا ہے اور وہ تمام کام کرتا ہے جو کہ اس میت کے متعلق ہوتے ہیں۔ اس کی بیوی کے پاس آجاتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے حالانکہ بسا اوقات کفارِ ہند کی طرح میت کو آگ سے جلا چکے ہوتے ہیں۔ ان کا گمان یہ ہوتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد زندہ ہوگیا ہے۔
مصرمیں ایک شیخ نے اپنے نوکر کو وصیت کی کہ جب میں مرجائوں تو کسی کو اجازت نہ دینا کہ مجھے نہلائے۔ میں خود آئوں گا اور اپنے آپ کو نہلائوں گا۔ جب وہ مر گیا تو اس کے نوکر کو ایک شخص اس کی صورت کا نظر آیا۔ اسے خیال ہوا کہ وہی ہے چنانچہ وہ اندر آیا اور اپنے آپ کو نہلایا۔ جب وہ اندر آنے والا غسل کرچکا یا میت کو غسل دے چکا تو غائب ہوگیا۔ یہ حقیقت میں شیطان تھا۔ جس نے میت کو گمراہ کیا تھا کہ تم مرنے کے بعد آئو گے اور اپنے آپ کو غسل دو گے، سو جب وہ مر گیا تو اس کی صورت بنا کر آیا تاکہ جس طرح اس نے مرنے والے کو گمراہ کیا تھا۔ اسی طرح اب زندوں کو بھی گمراہ کرے۔
کسی آدمی کو ہوا میں تخت نظر آتا ہے، جس پر روشنی ہوتی ہے اور اسے کسی کہنے والے کی یہ آواز سنائی دیتی ہے کہ میں تیرا رب ہوں۔ اگر کوئی معرفت والا یعنی علم والا ہو تو سمجھ جاتا ہے کہ وہ شیطان ہے اور وہ اسے ڈانٹتا اور اس سے وہ اللہ تعالیٰ کے پاس پناہ لیتا ہے تو وہ بھاگ جاتا ہے۔ کسی آدمی کو بیداری ہی کی حالت میں چند اشخاص نظر آتے ہیں اور ان میں سے کوئی نبی یا صدیق یا شیخِ صالح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور یہ واقعہ کئی آدمیوں کیساتھ ہوا ہے۔
کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی قبر کی زیارت کرنے جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ قبر پھٹ گئی اور اس سے کوئی صورت نکلتی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ میت ہے (جو قبر میں مدفون ہے) حالانکہ وہ تو جن ہوتا ہے جو وہ صورت اختیار کر لیتا ہے اور کچھ لوگ کسی گھڑسوار کو قبر میں داخل ہوتا یا نکلتا دیکھتے ہیں (وہ بھی انسان نہیں بلکہ) جن ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ اس نے قبر کے پاس اپنی آنکھوں کے ساتھ کسی نبی کو دیکھا ہے (وہ غلط کہتا ہے کیونکہ) وہ تو ایک وہم ہوتا ہے۔
کسی شخص کو خواب میں دکھائی دیتا ہے کہ اکابر اُمت مثلاً سیدناصدیق رضی اللہ عنہ یا ان کے سوا کسی بڑے آدمی نے اس کے بال کاٹے، یا مونڈ ڈالے یا اسے اپنی کلاہ یا کپڑا پہنایا ہے۔ صبح ہوتی ہے تو اس کے سر پر کلاہ رکھا ہوتا ہے اور اس کے بال مونڈے ہوئے یا کترے ہوئے ہوتے ہیں۔ درحقیقت یہ جنوں کی کارستانی ہوتی ہے جو اس کا سر مونڈ ڈالتے ہیں یا بال کاٹ کر چھوٹے کر دیتے ہیں۔ یہ سب احوال شیطانی اسے حاصل ہوتے ہیں جو کتاب و سنت کا باغی ہوجائے ایسے لوگوں کے کئی درجے ہیں۔
جن جنوں کا ان کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ وہ بھی انہی کی جنس سے اور انہی کے مذہب پر ہوتے ہیں۔ جنوں میں کافر، فاسق اور گناہگار بھی ہوتے ہیں۔ اگر انسان کا فریافاسق یا جاہل ہو تو اس کے ساتھ کفر، فسق اور گمراہی میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جب وہ ان کے مرغوبِ خاطر کفریات میں ان کی موافقت کرتا ہے۔ مثلاً جنوں میں جن افراد کی وہ تعظیم کرتے ہیں، ان کی قسمیں دیتا ہے۔ سورۂ فاتحہ، سورۂ اخلاص اور آیۃ الکرسی وغیرہ کو الٹ پلٹ کرتا اور ان کو نجاست کے ساتھ لکھتا ہے تو وہ اس کے لیے پانی کو گہرا کر دیتے ہیں اور اسے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ ان کو اس طرح کی کفریات سے خوش کر دیتا ہے، کبھی وہ اس کی خواہش کی چیزوں یعنی عورت یا لڑکے کو ہوا میں اڑا کر یا دھکیل کر اس کے پاس لے آتے ہیں۔
اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں، جن کو بیان کرنا موجبِ طوالت ہے اور ان چیزوں پر ایمان لانا ایسا ہی ہے جیسا جبت و طاغوت کے ساتھ ایمان لانا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْكِتٰبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوْتِ (النساء:۴؍۵۱)
''یعنی کیا آپ نے وہ لوگ نہیں دیکھے جن کو کتاب کا حصہ دیا گیا ہے اور وہ جبت اور طاغوت کے ساتھ ایمان لاتے ہیں۔''
جبت سے مراد جادو اور طاغوت سے مراد شیطان اور بت ہیں۔ اگر انسان اللہ اور رسول کا ظاہر و باطن میں فرمانبردار ہو۔ تو وہ ان کو ایسی باتوں میں اپنے ساتھ مداخلت کرنے کا موقع نہیں دیتا اور نہ ان سے صلح و رواداری کا علاقہ رکھتا ہے۔ چونکہ اہل اسلام کی مشروع عبادت مسجدوں میں ہوتی ہے جو کہ اللہ کے گھر ہیں۔ اس لیے مسجدوں کے آباد کرنے والے احوالِ شیطانیہ سے بعید تر ہوتے ہیں۔ اہلِ شرک و بدعت جو قبروں اور فوت شدگان کے مزارات کی تعظیم کرتے ہیں۔ وہ میت سے دعا مانگتے ہیں۔ یا دعا میں اس کو وسیلہ بناتے ہیں۔ یا یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ دعا ان کے پاس اگر کی جائے تو مستجاب ہوتی ہے۔ اس لیے وہ احوالِ شیطانیہ کے قرب تر ہوتے ہیں۔ صحیحین میں جناب محمد رسول اللہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لَعَنَ اللہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَائِھِمْ مَسَاجِدَ۔
''اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ کی جگہیں بنا لیا۔''
(بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب ماجاء فی قبرالنبیﷺ و ابی بکر و عمر رقم: ۱۳۹۰ ، و مسلم، کتاب المساجد، باب النہی عن بناء المسجد علی القبور ، رقم: ۱۱۸۴، ابوداؤد، کتاب الجنائز، باب فی البناء علی القبر، رقم: ۳۲۲۷۔)