آپ کا منہج یہ ہے کہ بغاوت نہیں دعوت اور ہمارا منہج ہے دعوت اور پھر قتال فی سبیل اللہ۔۔
میں یہاں پر کچھ کہنا چاہوں گا۔۔۔
ارسلان بھائی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے۔۔۔
ابوبصیریہ بتائیں دعوت کس چیز کی؟؟؟۔۔۔ ولیمہ کی؟؟؟۔۔۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے تیئس سال میں شریعت کو مکمل کردیا تھا۔۔۔
یعنی جب وہ آیت نازل ہوئی کہ آج ہم نے تمہارے دین کو مکمل کردیا۔۔۔
تو اب کون سی دعوت؟؟؟۔۔۔
ہرمکتبہ فکر کو پتہ ہے اسلام کیا ہے؟؟؟۔۔۔ مسئلہ ہے ہٹ دھرمی کا؟؟؟۔۔۔
چلو ایک لمحے کو ہم تسلیم کئے لیتے ہیں کے دعوت دینی چاہئے۔۔۔
لیکن مجھے یہ بتائیں کے یہ دعوت کس کو دیں؟؟؟۔۔۔ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں۔۔۔
اور عبادتیں قبروستانوں، امام بارگاہوں میں کرتے ہیں۔۔۔ کیا ان لوگوں کو نہیں پتہ۔۔۔
وہ احادیث جو آپ اپنی دعوت میں پیش کرنے جائیں گے۔۔۔ یہاں پر ایسے ایسے فنکار ہیں۔۔۔
کے وصی بنانا ہو تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تو موسٰی اور ہارون علیہ السلام۔۔۔
کے کہانیاں سناتے ہیں۔۔۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ملاحظہ کیجئے توشہ کاریاں۔۔۔
حضرت مجدد الف ثانی نے مکتوبات شریف دفتر سوم مکتوب ۱۲۳میں تحریر فرمایا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہونے کے دوراستے ہیں۔ پہلا راستہ قرب نبوت سے تعلق رکھتا ہے اور یہی اصل الاصل ہے اور اس راستے کے واصلان انبیاء ؑ ہیں اور ان کے اصحاب۔ اور تمام امتوں میں سے جن کو بھی وہ اس ذریعہ ¿ دولت سے نوازنا چاہیں ان میں شامل ہیں۔ دوسرا راستہ قرب ولایت کا ہے ۔جس کے ذریعے اقطاب ، اوتاد، ابدال ، نُجباءو عام اولیاءواصل باللہ ہوتے ہیں۔ "راہ سلوک" اسی کو کہتے ہیں۔ اس راستے کے واصلین کے پیشوا اور ان کے فیض کا منبع حضرت علی المرتضیٰ ؓہیں اور حضرت سیّدہ فاطمہؓ و حضرات حسنینؓ اس مقام میں ان کے ساتھ شامل ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ حضرت علیؓ قبل از ظہور ِ وجودِ عنصری بھی اس مقام پر فائز تھے اور اس راہ کے واصلین آپ ہی کی روحانیت کے توسل و واسطہ سے منزل مقصود تک پہنچتے رہے۔ آپ کے بعد یہ منصب علی الترتیب حسنین کریمینؓ کو تفویض ہوا اور پھر یکے بعد دیگر ائمہ اہلِ بیت کرام اس مقام پر فائز ہوئے۔ ان سے ماسوا جن کو بھی مذکورہ مقامات عطا ہوئے ان ہی کے واسطے سے ہوئے۔ حتیٰ کہ حضرت غوث الاعظم کا دور آنے پر یہ منصبِ عظیم یعنی قطبیتِ کُبریٰ آپ کی ذات سے مختص کر دیا گیا۔ اب جس کسی کو بھی اس راستے سے فیض و برکات حاصل ہوتی ہیں، آنجناب کے توسط سے ہی ہوتی ہیں۔
واللہ جن کے لئے یہ باتیں کی گئی ہیں۔۔۔
اگر وہ آج زندہ ہوتے تو جوتوں سے اس مکتبہ فکر کی تواضع کرتے۔۔۔
اور جو کہتے کہ دعوت دو ان کو کوڑے لگواتے کہ کس بات کی دعوت؟؟؟۔۔۔
لیکن سوال یہ ہے اب بھی آپ دعوت کی بات کریں گے۔۔۔
یہ قصہ گو کوفی نسل یہ دعوت کی سرحدوں سے دور جاچکی ہے۔۔۔
یہ مزاروں کے مزارع ہیں۔۔۔ ادھر دعوت کام نہیں آئے۔۔۔
یہاں کام آئے گی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی سنت۔۔۔ جو منکرین زکوۃٰ پر جاری کی تھی۔۔۔
یہ باتوں کے بھوت نہیں ہیں۔۔۔ باقی دوسری مطلب خود سمجھ جائیں۔۔۔ کیونکہ عقلمند کو ارشارہ کافی ہے۔۔۔