• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کربلا کا واقعہ ( واللہ اعلم )

شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
عمر بن سعد نے اپنے میمنہ پر عمرو بن الحجاج الذبیدی اور میسرہ پر شمر بن ذی الجوشن کو امیر مقرر کیا ۔ ذی الجوشن کا نام شرجیل بن الاعور بن عمرو بن معاویہ تھا جو بنی الضباب بن الکلاب کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اور سواروں پر عزرہ بن قیس الحمسی پیادوں پر اثبت بن ربعی کو امیر مقرر کیا اور اپنے غلام وردان کو جھنڈا دے دیا ۔ اس جگہ لوگ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے ۔ حسین {رض} نصب کئے ہوئے خیمے میں واپس آگئے اور اس میں غسل کیا اور چونے کی مالش کی اور بہت سی کستوری کی خوشبو لگائی ۔ آپ کے بعد کچھ امراء آئے اور انہوں نے بھی آپ کی طرح غسل کیا اور خوشبو لگائی ۔ انہوں نے ایک دوسرے سے کہا اس وقت میں یہ کیا ہورہا ہے ؟
بعض نے کہا اس معاملہ کو چھوڑیئے ، اللہ کی قسم اس وقت میں یہ کام بےکار نہیں
یزید بن حصین نے کہا اللہ کی قسم میری قوم کے لوگوں کو معلوم ہے کہ میں نے جوانی اور بڑھاپے میں بےکار کام کو پسند نہیں کیا ۔ لیکن اللہ کی قسم میں اس بات سے خوش ہوں جس کام کو ہم کرنے والے ہیں ۔ اللہ کی قسم ہمارے درمیان اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کے درمیان صرف اتنا ہی فاصلہ ہے کہ یہ لوگ ہم پر حملہ کریں اور ہمیں قتل کردیں ۔
پھر حسین {رض} اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور قرآن پاک کو لے کر اپنے آگے رکھ دیا ۔ پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر لوگوں کی طرف منہ کرکے دعا کرنے لگے ۔ اے اللہ تو میرے لیے ہر مصیبت میں قابل بھروسہ اور سختی میں میری امید ہے
حسین {رض} نے اعلان کیا اے لوگوں میں تمہیں جو نصحیت کرنے لگا ہوں اسے غور سے سنو ۔
سب لوگ خاموش ہوگئے آپ {رض} نے اللہ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا اے لوگوں تم میری بات مانو اور مجھ سے انصاف کرو تم اس سے بڑے سعادت مند بن جاؤ گے اور تمہارے لیے مجھ پر کوئی حجت نہ ہوگی اور اگر تم میری بات کو قبول نہ کرو تو پھر " اب تم سب مل کر اپنا کام مقرر کرو اور اپنے شریکوں کو جمع کرو پھر تمہیں اپنے کام میں شبہ نہ رہے تو پھر وہ کام میرے ساتھ کر گزرو اور مجھے مہلت نہ دو ۔ " اور " بے شک میرا حمایتی اللہ ہے جس نے کتاب نازل فرمائی ، اور وہ نیکو کاروں کی حمایت کرتا ہے ۔ "
حسین {رض} نے سورۃ الاعراف اور سورۃ یونس کی یہ آیات تلاوت کیں ۔
آپ {رض} کی بہنوں اور بیٹیوں نے جب یہ آیات سنیں تو بلند آواز میں رونے لگیں ۔ اس موقع پر حسین {رض} نے فرمایا اللہ تعالی ابن عباس کو اپنے رحم سے دور نہ کرے
کیونکہ انہوں نے حسین {رض} کو یہ مشورہ دیا تھا کہ آپ عورتوں کو اس سفر میں ساتھ نہ لے جائیں اور حکومت کے منتظم ہونے تک انہیں مکہ میں چھوڑ جائیں ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
پھر حسین {رض} نے اپنے بھائی عباس کو بھیجا تو انہوں نے ان عورتوں کو خاموش کرایا ۔
آپ {رض} فرمانے لگے اپنے نفوس کو ٹٹولو اور ان کا محاسبہ کرو ۔ کیا میرے جیسے شخص سے جنگ کرنا تمہارے لیے مناسب ہے ؟ ۔ میں تمہارے نبی کی بیٹی کا بیٹا ہوں ۔ اور روئے زمین پر میرے علاوہ نبی کی بیٹی کا کوئی بیٹا موجود نہیں ۔ علی {رض} میرے باپ ، جعفر ذوالجناحین میرے چچا اور حمزہ سید الشہداء میرے باپ کے چچا ہیں ۔ رسول اللہ {ص} نے مجھے اور میرے بھائی سے فرمایا کہ ہم دونوں جنت میں نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ پس اگر تم میری بات کی تصدیق کرو تو یہ حق ہے ۔ اور اللہ کی قسم جب سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ جھوٹ سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے تو میں نے جھوٹ بولنے کا ارادہ ہی نہیں کیا ۔ اگر آپ میری بات نہیں مانتے تو رسول اللہ کے صحابہ ابوسعید {رض} ، سہل بن سعد {رض} ، زید بن ارقم {رض} اور انس بن مالک {رض} سے پوچھ لو ۔ وہ تمہیں اس بارے میں بتائیں گے ۔ تم ہلاک ہوجاؤ گے ۔ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے ؟ ۔
اس موقع پر شمر بن ذی الجوشن نے کہا یہ کنارے پر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ، جو یہ کہتے ہیں کہ میں اسے جانتا ہوں
حبیب بن مظاہر نے شمر سے کہا اے شمر اللہ کی قسم تو کناروں پر اللہ کی عبادت کرتا ہے اور اللہ کی قسم حسین {رض} جو بیان کرتے ہیں وہ ہمیں بھی معلوم ہے ۔ اللہ نے تیرے دل پر مہر لگا دی ہے
حسین {رض} نے فرمایا مجھے واپس جانے دو ، میں اپنے وطن کی طرف واپس چلا جاتا ہوں
انہوں نے کہا آپ کو اپنے چچا زاد بھائیوں کا فیصلہ قبول کرنے سے کس نے روکا ہے ؟
آپ {رض} نے فرمایا میں ہر متکبر سے جو قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتا ، اپنے اور تمہارے رب کی پناہ مانگتا ہوں
آپ نے اپنی سواری کو بٹھایا ۔ عقبہ بن سمعان نے آپ کے حکم سے سواری کی ٹانگ باندھ دی
پھر فرمایا مجھے بتاؤ ، کیا تم مجھے اپنے کسی مقتول کی وجہ سے تلاش کرتے ہو ؟ جس کو میں نے قتل کیا ہے ۔ یا میں نے تمہارا مال کھایا ہے ؟ یا کسی کو زخم پہنچانے کی وجہ سے مجھے تلاش کرتے ہو ؟
راوی بیان کرتا ہے وہ آپ سے بات نہیں کرتے تھے ۔
آپ {رض} نے آواز دی اے شبعت بن ربعی ، اے حجار بن البجر ، اے قیس بن اشعت ، اے زید بن الحارث کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک چکے ہیں اور صحن سرسبز ہوچکا ہے ، آپ ہمارے پاس آئیں بلاشبہ آپ ایک جمع شدہ فوج کے پاس آئیں گے ۔
انہوں نے کہا ہم نے خط نہیں لکھے
حسین {رض} نے فرمایا سبحان اللہ ۔ اللہ کی قسم تم نے خط لکھے ہیں ۔ اے لوگوں اگر مجھے ناپسند کرتے ہو تو مجھے چھوڑ دو میں تم کو چھوڑ کر واپس چلا جاتا ہوں ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی بیان کرتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ حسین {رض} کی طرف بڑھنے لگے اور ان میں سے تقریبا تیس سواروں کی ایک ٹولی آپ {رض} کی فوج کی طرف سمٹ آئی جن میں ابن زیاد کی فوج کے ہر اول دستہ کا امیر حر بن یزید بھی شامل تھا اس نے اس سلوک کے بارے میں حسین {رض} سے معذرت کی جو سلوک وہ آپ کے ساتھ کرچکے تھے اور کہا اگر مجھے ان باتوں کا علم ہوتا تو میں آپ {رض} کے ساتھ ہزید کے پاس جاتا ۔
حسین {رض} نے اس کی معذرت قبول کرلی ۔ پھر اس نے حسین {رض} کے ساتھیوں کے آگے ہوکر عمر بن سعد کو مخاطب کرکے کہا تم ہلاک ہوجاؤ ۔ کیا تم رسول اللہ {ص} کی بیٹی کے بیٹے کی پیش کردہ تین باتوں میں سے ایک بات بھی قبول نہیں کرتے ؟ ۔ اگر وہ مجھے پیشکش کرتے تو میں قبول کرلیتا ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں سے زبیر بن القیس اپنے گھوڑے پر ہتھیاروں سے مسلح ہوکر باہر نکلے اور کہا اے کوفہ والوں اللہ تعالی کے ٰعذاب سے ڈرو ۔ مسلمان پر اپنے مسلمان بھائی کی خیر خواہی کرنا فرض ہے اور ہم ابھی تک بھائی بھائی ہیں اور ایک دین پر ہیں اور جب تک ہمارے اور تمہارے درمیان تلوار نہ چلے ہم ایک ملت ہیں اور جب تلوار چلے گی تو عصمت ختم ہوجائے گی اور تم ایک جماعت ہونگے اور ہم ایک جماعت ۔ اللہ نے ہمیں اور تمہیں اپنے نبی کی اولاد کے ذریعے سے آزمایا ہے تاکہ اللہ ہماری اور تمہاری عملی کیفیت کو دیکھے ۔ ہم آپ کو حسین {رض} کی مدد کرنے اور ابن زیاد کی مدد چھوڑنے کی طرف دعوت دیتے ہیں اور تم لوگوں نے ابن زیاد کے عمومی اقتدار میں برائی کے علاوہ کچھ نہیں پایا ۔ وہ تمہاری آنکھوں میں سلائی پھیرتے ہیں ۔ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹتے ہیں اور تمہارا مثلہ کرتے ہیں ۔ تمہارے بہترین آدمیوں کو اور قاریوں کو جیسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی یا ہانی بن عروۃ جیسے لوگوں کو قتل کرتے ہیں ۔
راوی کہتا ہے کہ انہوں نے زبیر بن القیس کو گالیاں دیں اور ابن زیاد کی تعریف کی اور اس کے لیے دعا کی اور کہنے لگے ہم جب تک تمہارے سردار اور اس کے ساتھیوں کو قتل نہ کردیں ہم باز نہیں آئیں گے
زبیر بن القیس نے کہا بلاشبہ فاطمہ {رض} کا بیٹا سمیعہ کے بیٹے کے مقابلے زیادہ محبت اور مدد کا مستحق ہے ۔ اگر تم نے ان کی مدد نہ کی تو میں تمہیں ان کے قتل سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں ۔ حسین {رض} اور ان کے چچا زاد یزید بن معاویہ کے درمیان سے ہٹ جاؤ ۔ وہ جہاں جانا چاہیں جانے دو ۔ بلاشبہ حسین {رض} کے قتل کے بغیر بھی یزید تمہاری اطاعت سے راضی ہوجاَئے گا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی بیان کرتا ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے اسے تیر مارا اور کہا اللہ تجھے خاموش کرائے ، تو خاموش ہوجا ، تو نے اپنی باتوں سے ہمیں تنگ کردیا ہے ۔
زبیر نے اس سے کہا اے اپنی ایڑیوں پر پیشاب کرنے والے میں تجھ سے بہتر ہوں ۔ تو تو ایک جانور ہے ۔ اللہ کی قسم میرا خیال ہے کہ کتاب اللہ میں سے دو آیتیں بھی نہیں پڑھ سکتا ۔ تجھے قیامت والے دن ذلت و رسوائی اور درد ناک عذاب کی بشارت ہو ۔
شمر نے اس سے کہا اللہ تجھے اور تیرے سردار کو عنقریب ہلاک کرنے والا ہے
زبیر نے اس سے کہا کیا تو مجھے موت سے ڈراتا ہے ؟ ۔ پھر زبیر لوگوں کے پاس آئے اور بلند آواز میں کہا اے خدا کے بندوں یہ دیہاتی بےوقوف تمہیں تمہارے دین کے بارے میں دھوکہ نہ دے ۔ اللہ کی قسم ان لوگوں کو محمد {ص} کی شفاعت نصیب نہ ہوگی جنہوں نے آپ کی اولاد کا خون بہایا ہے اور ان کے مددگاروں اور ان کے حریم کا دفاع کرنے والوں کو قتل کیا ہے ۔
حر بن یزید نے عمر بن سعد سے کہا اللہ آپ کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے کیا آپ حسین {رض} شخص سے جنگ کرنے والے ہیں
اس نے کہا ہاں اللہ کی قسم ایسی جنگ کہ جس کے معمولی حصہ سے جسموں سے سر ساقط ہوجائیں گے اور ہاتھ بکھر جائیں گے
حر بن یزید چونکہ کوفہ کے بڑے بہادروں میں سے تھا اس نے حسین {رض} کی طرف ہونے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے ایک ساتھی نے جب اس فیصلہ پر ملامت کی تو حر نے کہا اللہ کی قسم ، اپنے نفس کو جنت اور جہنم کے درمیان کا اختیار دوں تو میں جنت کے علاوہ کسی اور چیز کو اختیار نہیں کروں گا خواہ میرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں یا جلا دیا جائے ۔
پھر وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر حسین {رض} سے جا ملا ۔ آپ سے معذرت کی پھر دشمنوں سے مخاطب ہوا اور کہا اے کوفے والوں تمہاری مائیں تمہیں گم پائیں گی ، تم حسین {رض} کو اپنے پاس بلاتے ہو اور وہ جب تمہارے پاس آتے ہیں تو تم انہیں بےیار و مددگار چھوڑ دیتے ہو ۔ تم نے گمان کیا تھا کہ تم حسین {رض} کی حفاظت میں اپنی جانیں لڑاؤ گے اور اب تم نے انہیں قتل کرنے کے لیے ان پر حملہ کردیا ۔ اور تم نے اللہ کی اس وسیع و عریض علاقوں میں جانے سے روک دیا ۔ تم حسین {رض} اور دریائے فرات کے بہتے ہوئے پانی کے درمیان حائل ہوگئے ۔ جس پانی کو یہود و نصاری تک پیتے ہیں ۔ تم رسول اللہ {ص} کی اولاد کے بارے میں بدترین فرد ہو ۔ اگر آج اس کام سے توبہ نہ کی اور رجوع نہ کیا تو اللہ تعالی روز قیامت تمہیں سیراب نہیں کرے گا ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی بیان کرتا ہے کہ عمر بن سعد نے آگے بڑھ کر اپنے غلام سے کہا اے درید اپنے جھنڈے کو قریب کرو
اس نے قریب کیا تو عمر بن سعد نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور تیر مارتے ہوئے کہا میں ان لوگوں پر تیر مارنے والا پہلا شخص ہوں
راوی بیان کرتا ہے کہ ان لوگوں نے آپس میں تیراندازی کی ۔ زیاد کے غلام یسار اور عبیداللہ کے غلام سالم نے باہر نکل کر کہا کون مقابلہ کرے گا ؟
تو حسین {رض} سے اجازت لے کر عبیداللہ بن عمرالکلمی ان دونوں کے مقابلے میں نکلے اور انہوں نے پہلے یسار کو اور پھر اس کے بعد سالم کو قتل کردیا مگر اس مقابلے کے دوران سالم نے تلوار مار کر ان کے بائیں ہاتھ کی انگلیاں اڑادیں
پھر سامنے سے عبداللہ بن حوزہ نامی شخص آگے بڑھا یہاں تک کہ حسین {رض} کے سامنے کھڑا ہوکر آپ سے کہنے لگا اے حسین {رض} آپ کو دوزخ کی بشارت ہو
حسین {رض} نے اس سے کہا تو ہلاک ہوجائے ۔ میں اپنے رحیم اور شفیع پروردگار کے پاس جارہا ہوں اور تو زیادہ دوزخ کا مستحق ہے ۔
حسین {رض} نے اس سے اس کے متعلق پوچھا تو اس نے کہا میں ابن حوزہ ہوں
حسین {رض} نے اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ اسے آگ میں داخل فرما
ابن حوزہ نے یہ سن کر آپ پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو اس کو لے کر گھوڑا جولانی کرنے لگا ۔ مسلم بن عوسجہ نے اس پر حملہ کرکے اسے تلوار ماری ۔ اور اس کے پاؤں ، پنڈلی اور ران کٹ گئی ۔ اس کا گھوڑا اسے لے کر دوڑ پڑا اور وہ جس پتھر کے قریب سے گزرتا اس سے اس کے سر میں چوٹ لگتی یہاں تک کہ وہ مرگیا ۔
پھر ابن زیاد کی فوج کے میمنہ کے امیر عمرو بن الحجاج نے حملہ کردیا اور کہنے لگا جو دین سے خارج ہوگیا اور جماعت کو چھوڑ دیا اس سے جنگ کرو
حسین {رض} نے کہا اے حجاج تو ہلاک ہوجائے ۔ کیا تو لوگوں کو میرے خلاف کر رہا ہے ؟ کیا ہم دین سے خارج اور تو اس پر قائم ہے ؟ جب ہماری روحیں ہمارے جسموں سے جدا ہوجائیں گی تو جلد ہی تجھے علم ہوجائے گا کہ کون دوزخ میں داخل ہونے کا مستحق ہے ۔
عمرو بن الحجاج نے اس حملے میں مسلم بن عوسجہ کو شدید زخمی کردیا ۔ وہ اس وقت آخری سانسوں میں تھے ۔ حبیب بن مطہر نے ان سے کہا تمہیں جنت کی بشارت ہو
انہوں نے کمزور آواز میں کہا اللہ تعالی تمہیں بھلائی کی بشارت دے
حبیب بن مطہر نے کہا اگر مجھے علم نہ ہوتا کہ میں تمہارے پیچھے آنے والا ہوں تو میں تمہاری وصیت کو ادا کرتا
مسلم بن عوسجہ نے حسین {رض} کی طرف اشارہ کرکے ان سے کہا میں تمہیں ان کے متعلق وصیت کرتا ہوں کہ تم ان کی حفاظت کرتے ہوئے مرنا
حسین {رض} چل کر مسلم بن عوسجہ کے پاس گئے اور ان کے لئے رحمت کی دعا کی یہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں سے قتل ہونے والے پہلے شخص تھے ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
مورخین نے بیان کیا ہے کہ شمر بن ذی الجوشن نے میسرہ پر حملہ کردیا ۔ اور اس نے حسین {رض} کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ کے گھڑ سوار ساتھیوں نے آپ کا اچھا دفاع کیا اور اس کی زبردست مدافعت کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے عمر بن سعد سے تیر انداز دستے کا مطالبہ کیا تو اس نے تقریبا پانچ سو جوانوں کو اس کے پاس بھیج دیا ۔ وہ تیر انداز حسین {رض} اور ان کے ساتھیوں پر تیر اندازی کرنے لگے ۔ انہوں نے سب کو زخمی کردیا ۔ جب انہوں نے حر بن یزید کے گھوڑے کو زخمی کردیا تو تو وہ تلوار ہاتھ میں لئے نیچے اترے اور شیر کی مانند دھاڑ کر کہنے لگے اگر تم مجھے زخمی کر بھی دو تو میں شریف زادہ ہوں اور میں عیال دارشیر سے زیادہ بہادر ہوں
راوی کہتا ہے کہ عمر بن سعد نے ان خیموں کو اکھاڑنے کا حکم دیا جو حسین {رض} نے اعلی حکمت عملی کے تحت نصب کئے تھے ۔ اور وہ خیمے عمر بن سعد کے لئے رکاوٹ بن رہے تھے ۔ مگر جو شخص بھی ان خیموں کو اکھاڑنے کی کوشش کرتا تو حسین {رض} کے ساتھی اس کو قتل کردیتے ۔ آخر کار عمر بن سعد نے ان خیموں کو جلانے کا حکم دے دیا ۔ حسین {رض} نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا ان کو جلانے دو ، بلاشبہ یہ لوگ ان کی آگ سے گزرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ شمر بن ذی الجوشن حسین {رض} کے پاس آکر کہنے لگا میرے پاس آگ لاؤ تاکہ ان خیموں میں جو کچھ ہے میں اس سمیت جلادوں ۔ خیموں میں موجود عورتیں چلا اٹھیں اور خیموں سے باہر نکل آئیں ۔ پھر خیموں کو جلادیا گیا ۔
حسین {رض} نے کہا شمر اللہ تجھے آگ سے جلائے
شبث بن ربعی شمر کے پاس آیا اور اس نے اسے کہا میں نے تیرے قول و فعل اور اس موقف سے برا مقام نہیں دیکھا ۔ کیا تو عورتوں کو ڈرانا چاہتا تھا ؟
حمید بن مسلم نے بیان کیا ہے کہ میں نے شمر سے کہا سبحان اللہ یہ بات تیرے لئے مناسب نہیں ہے ۔ کیا تم اپنی ذات پر دو باتیں جمع کرنا چاہتے ہو ؟ تم اللہ کا عذاب بھی دیتے ہو اور بچوں اور عورتوں کو قتل بھی کرتے ہو ۔ اللہ کی قسم تمہارا مردوں کو قتل کرنے سے تمہارا امیر قتل نہیں ہوگا ۔
زبیر بن القین نے حسین {رض} کے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ شمر بن ذی الجوشن پر حملہ کیا ۔ اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ۔ اس حملے کے دوران ابو عزۃ الضبابی جو شمر کے ساتھیوں میں سے تھا اس کو قتل کردیا گیا ۔
چونکہ حسین {رض} کے ساتھیوں کی تعداد کم تھی اس لئے جب بھی ان میں سے کوئی قتل ہوجاتا تو نمایاں ہوجاتا جبکہ ابن زیاد کے ساتھیوں میں سے بہت سے لوگ قتل ہوئے مگر ان کی کثرت کی وجہ سے نمایاں نہ ہوتے ۔
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
جب ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تو حسین {رض} نے فرمایا انہیں حکم دو کہ وہ جنگ سے رک جائیں تاکہ ہم نماز پڑھ لیں
اہل کوفہ میں سے ایک شخص جس کا نام بدیل بن صریم اور تعلق بنی غطفان سے تھا ، اس نے کہا آپ کی یہ بات قبول نہیں ہوگی
تو حبیب بن مطہر نے اس سے کہا کہ تو ہلاک ہوجائے ، کیا تیری بات قبول ہوگی اور آل رسول کی بات قبول نہ ہوگی ؟
حبیب بن مطہر نے اس سے خوب مقابلہ کیا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگیا
حبیب بن مطہر بولے میں حبیب ہوں اور میرا باپ مطہر ہے ، جو جنگ کا شہسوار اور جنگوں کو بھڑکانے والا ہے ، تم بڑی تعداد والے مگر ہم تم سے زیادہ وفادار اور صابر ہیں ۔ ہم محبت کے لحاظ سے اعلی اور حق کے لحاظ سے نمایاں ہیں ، اور تم سے زیادہ ثابت قدم اور پاکباز ہیں
پھر حبیب بن مطہر پر بنو تمیم کے ایک شخص نے حملہ کیا اور نیزے سے انہیں زخمی کردیا جس پر وہ گر پڑے ۔ جب دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی تو حصین بن نمیر نے ان کے سر پر تلوار ماری ، تمیمی شخص نے پاس آکر ان کا سر کاٹ دیا ، جسے بعد میں وہ ابن زیاد کے پاس لے گیا
ابومخنف نے بیان کیا ہے کہ محمد بن قیس نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ جب حبیب بن مطہر قتل ہوئے تو اس بات نے حسین {رض} کو کمزور کردیا ، اس موقع پر آپ نے فرمایا میں نے اپنے آپ کو کھو دیا
حر بن یزید نے حسین {رض} سے کہا میں نے قسم کھائی ہے کہ جب تک میں قتل نہ ہوجاؤں ، آپ پر آنچ نہ آنے دوں گا ۔ آج کے دن سامنے آکر مصیبت کا سامنا کروں گا اور تلوار کے ساتھ انہیں کاٹنے والی ضربیں لگاؤں گا کیونکہ نہ ہم دشمن سے کمزور ہیں اور نہ بےیارو مددگار ہیں
حر بن یزید اور زہیر بن القین نے مل کر دشمنوں کے حملوں کا سامنا کیا مگر پھر کچھ جوانوں نے حر بن یزید پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا
زہیر بن القین بڑی جرات مندی سے لڑتا رہا اس نے دشمنوں کے کئی لوگ مارے ، اس مقام پر زہیر بن القین نے رجزیہ اشعار پڑھے
میں زہیر ہوں القین کا بیٹا ہوں ، میں تمہیں تلوار سے حسین {رض} سے دور کردوں گا
راوی بیان کرتا ہے کہ زہیر بن القین نے حسین {رض} سے کہا آپ آگے بڑھیے اور ہادی و مہدی بن کر رہنمائی کیجئے ، آج آپ اپنے نانا محمد {ص} ، بھائی حسن {رض} ، والد علی {رض} اور شجاع ذوالجناحین اور اللہ تعالی کے شیر زندہ شہید سے جاملیں گے
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی کہتا ہے کہ حسین {رض} کے ساتھیوں میں ایک نافع بن ہلال الجملی بھی تھے ۔ جنہوں نے اپنے تیروں پر کچھ تحریر کر رکھا تھا اور وہ اپنے تیروں کو زہر آلود کرکے دشمنوں پر پھینکا کرتے تھے ۔ دشمنوں سے لڑتے ہوئے وہ یہ اشعار پڑھ رہے تھے " ان کا سوفار میرا ہدف ہے ، نفس کی مخالفت کا کچھ حاصل نہیں ، میں جملی ہوں اور علی {رض} کے دین پر ہوں " جب وہ زخمی ہوئے اور ان کے دونوں بازو ڈھلک گئے ۔ پھر انہیں گرفتار کرکے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا
نافع کو زخمی حالت میں دیکھ کر عمر بن سعد نے کہا تو ہلاک ہو ۔ تجھے یہ سب کچھ کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا ؟
نافع نے جواب دیا میرے رب کو میری مراد کا علم ہے ۔ پھر کہا اللہ کی قسم میں نے تیرے کئی لوگ زخمی کئے اور بارہ آدمیوں کو قتل کیا اور میں اپنے آپ کو اس بات پر ملامت نہیں کرتا ۔ اگر میرے بازو باقی ہوتے تو تم مجھے قیدی نہیں بناسکتے تھے
جب شمر بن ذی الجوشن نے عمر بن سعد کو نافع کو قتل کرنے کا حکم دیا تو وہ بولے اسے تو تو خود میرے پاس لایا ہے اگر چاہتا ہے تو خود اسے قتل کردے
شمر اٹھا اور اپنی تلوار تانی تو نافع نے اس سے کہا اللہ کی قسم اے شمر اگر تو مسلمان ہوتا تو ہمارا خون اپنی گردن میں لے کر اللہ تعالی سے ملاقات کرنا تجھے گراں گزرتا ۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہماری موت اپنی مخلوق میں سے بدترین انسانوں کے ہاتھوں مقدر کی ۔
اس کے بعد شمر نے نافع کو قتل کردیا
پھر شمر بن ذی الجوشن نے کئی آدمیوں کے ساتھ حسین {رض} اور ان کے باقی بچے ساتھیوں پر ایک بھرپور حملہ کیا ۔ اور حسین {رض} کے ساتھیوں کو اندازہ ہوگیا کہ اب ان کے اندر اپنی جانوں اور حسین {رض} کی جان کی حفاظت کی طاقت نہیں ہے ، تو اس لئے انہوں نے آپ {رض} سے پہلے قتل ہوجانے کو پسند کرلیا
عذرہ غفاری کے بیٹے عبدالرحمان اور عبداللہ نے حسین {رض} کے پاس آکر کہا آپ پر سلامتی ہو
آپ {رض} نے کہا تم دونوں کو خوش آمدید ہو ۔ میرے قریب آجاؤ
چنانچہ وہ قریب ہوگئے اور آپ کے نزدیک رہ کر جنگ کرنے لگے ۔ آپ {رض} کے دیگر ساتھی جو چند رہ گئے تھے وہ بھی آپ کے پاس آکر آپ کے دفاع میں جنگ کرنے لگے
اس وقت حسین {رض} نے اپنے ساتھیوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی آپ لوگوں کو متقیوں کی بہترین جزا دے ۔
آپ کے ساتھی بھی آپ پر سلامتی بھیجتے اور جنگ کرتے رہے ۔ حتی کہ وہ قتل ہوگئے
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
حسین {رض} کے ساتھیوں نے آپ کے دفاع میں جنگ لڑی یہاں تک کہ سب ختم ہوگئے سوائے سوید بن عمرو بن ابی مطاع کے ۔ ان کے علاوہ باقی رہ گئے بنی ابو طالب میں سے وہ لوگ جو آپ {رض} کے اہل تھے ۔ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں تھے اٹھارہ سالہ علی اکبر بن حسین بن علی ۔ لیلی بنت ابی مرہ ان کی والدہ کا نام تھا ۔ مره بن‌ منقذ بن نعمان العبدی جب حسین {رض} کو قتل کرنے کے غرض سے آگے بڑھا تو علی اکبر اپنے والد کو بچانے کے لئے درمیان میں آگئے
علی بن حسین نے کہا میں علی بن حسین بن علی ہوں ، بیت اللہ کی قسم ہمیں حضور {ص} سے زیادہ قرابت کا تعلق ہے ۔ اللہ کی قسم متبنی کا بیٹا ہمارے اوپر حکومت نہیں کرسکتا ، تم آج میرے والد کا کیسا خیال کرتے ہو ؟
پس جونہی علی اکبر نے نیزہ چلایا تو دشمنوں نے انہیں گھیر لیا اور مره بن‌ منقذ نے نیزہ مار کر قتل کردیا
حسین {رض} نے فرمایا جن لوگوں نے تجھے قتل کیا ہے ان پر اللہ کی لعنت ۔ یہ لوگ اللہ تعالی اور اس کی حرام کردہ چیزوں کی بےحرمتی میں کس قدر جری ہیں ۔
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد زینب بنت علی جو فاطمہ {رض} کے بطن سے تھیں آئیں اور علی اکبر پر جھک گئیں جبکہ وہ مقتول پڑے تھے ۔ کہنے لگیں ہائے میرے بھائی ، ہائے میرے بھتیجے
حسین {رض} نے زینب کو ہاتھ سے پکڑ کر الگ کردیا
علی اکبر کے بعد آپ {رض} کے چچازاد بھائی چودہ سالہ عبداللہ بن مسلم بن عقیل کو قتل کیا گیا ۔ اس کے بعد عبداللہ بن جعفر کے دونوں بیٹوں عون اور محمد جن کی والدہ زینب بنت علی اور نانی فاطمہ {رض} تھیں کو قتل کیا گیا اور پھر قاسم بن حسن بن ابی طالب قتل ہوئے
مورخین نے لکھا ہے کہ حسین {رض} دن بھر تن تنہا ٹھہرے رہے ۔ جو بھی آپ کے پاس آتا چھوڑ کر واپس چلا جاتا تھا اور وہ آپ کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا ناپسند کرتا ۔ یہاں تک کہ بنی بداء کا مالک بن بشیر نامی ایک شخص آپ {رض} کے پاس آیا اور اس نے آپ کے سر پر تلوار ماری جس سے آپ کا سر زخمی ہوگیا اور خون بہنے لگا
( واللہ اعلم )
 
شمولیت
جولائی 05، 2020
پیغامات
88
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
17
راوی کا بیان ہے کہ پھر حسین {رض} تھک کر چور ہوگئے اور آکر اپنے خیمے کے دروازے پر بیٹھ گئے ۔ آپ کی اولاد میں سے آپ کے پاس ایک بچہ لایا گیا ۔ جسے عبداللہ کہا جاتا تھا ۔ آپ نے اسے گود میں لیا ، چوما ، سونگھا اور الوداع کہا ۔ اور اپنے اہل خانہ کو وصیت کرنے لگے ۔ لیکن اتنے میں بنی اسد کے ایک شخص جسے ابن موقد النار کہا جاتا ہے ، اس نے تیر مار کر عبداللہ کو قتل کردیا ۔ آپ {رض} نے عبداللہ کے خون کو ہاتھ میں لیا اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا اے ہمارے پروردگار اگر آپ نے ہم سے آسمانی امداد کو روک لیا ہے تو اسے وہ چیز بنا جو بہتر ہو ، اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے ۔
اتنی دیر میں عمر بن سعد کے لشکر میں شامل عبداللہ بن عقبہ غنوی نے ابوبکر بن حسین کو تیر مار کر قتل کردیا
پھر حسین {رض} کے بھائی اور علی بن ابی طالب کے بیٹے عبداللہ ، عباس ، عثمان ، جعفر اور محمد یہ تمام قتل ہوئے
حسین {رض} کی پیاس شدت اختیار کرگئی اور آپ نے کوشش کی کہ دریائے فرات کے پانی پر پہنچ کر پانی پی لیں ۔ مگر آپ نے نہ صرف اس کی طاقت نہ پائی بلکہ دشمنوں نے بھی اس سے روک لیا ۔ پھر آپ نے فرات کے اس حصہ کی جانب جانے لگے جہاں تھوڑا بہت پانی تھا اور پینے کے قابل تھا تو ایک شخص جسے حصین بن تمیم کہا جاتا تھا آپ کے تالو میں تیر مار کر آرپار کردیا ۔ حسین {رض} نے اس تیر کو اپنے تالو سے کھینچا تو خون بہہ پڑا ۔ آپ نے خون کو دونوں ہاتھوں میں لیا اور خون بھرے ہاتھوں کو آسمان کی جانب اٹھا کر فرمایا اے اللہ ان کی تعداد کو شمار کر اور انہیں الگ الگ کرکے قتل کر اور زمین پر ان میں سے کسی کو نہ چھوڑ ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ جب عمر بن سعد ، حسین {رض} کے قریب ہوا تو زینب نے اس سے کہا اے عمر کیا ابو عبداللہ تیرے دیکھتے دیکھتے قتل ہونگے ؟
تو وہ روپڑا اور اس نے اپنا چہرہ پھیر لیا
ابومخنف نے بیان کیا ہے کہ الصقعب بن زبیر نے حمید بن مسلم کے حوالے سے مجھے بیان کیا کہ حسین {رض} جوانوں پر حملہ کرنے لگے اور کہنے لگے کیا تم میرے قتل کو پسند کرتے ہو ؟ اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ اللہ تعالی تمہاری اذیت سے مجھے عزت دے گا ۔ پھر اللہ تم سے میرا بدلہ لے گا کہ تمہیں احساس بھی نہ ہوگا ۔ اور اللہ کی قسم اگر تم نے مجھے قتل کردیا تو اللہ تمہارے درمیان آپس میں جنگ اور خون بہانا ڈال دے گا ۔ پھر تم سے راضی نہ ہوگا ۔ حتی کہ تمہیں دوہرا عذاب دے گا ۔
راوی بیان کرتا ہے کہ آپ {رض} دن کا بڑا حصہ ٹھہرے رہے ۔ یہاں تک کہ شمر بن ذی الجوشن نے اپنے ساتھیوں کو آواز دی کہ تم ان کے قتل میں کس بات کا انتظار کررہے ہو ؟
پس زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ {رض} کی طرف بڑھ کر آپ کے کندھے پر تلوار ماری ۔ پھر سنان بن انس بن عمرو نخعی نے آپ کو نیزہ مارا ۔ پھر گھوڑے سے اتر کر آپ کا سر کاٹ دیا اورخولی بن یزید اصبحی کو دے دیا
( واللہ اعلم )
۔
۔
۔ ۔ ۔
ختم شد
 
Top