• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی بھی عالم پر اعتراض کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں تاکہ بعد میں آپکو پشیمانی نہ ہو

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ سب کچھ کرنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا انکار کر دیا قرآن اس کو اس طرح بیا ن کرتا ہے :
قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ
اُس نے جواب دیا "بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے، اِن ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں" [21:63]
اب کہہ دو قرآن بھی نعوذ باللہ جھوٹا ہے
لگے رہو انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا ثابت کرنے میں لیکن جھوٹ نہیں بول سکتے تو صرف امام بخاری نہیں بول سکتے کیونکہ وہ نبی تو ہیں نہیں اور وہابی کا عقیدہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ صرف انبیاء ہی جھوٹے ہوتے ہیں لعنت ہے ایسی سوچ پر

یہ ان کے لئے ہے جو قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ھدایت حاصل کرنا چاہتے ہے
ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑا مگر ایک کو چھوڑ دیا
اب اس بات کو سمجھوں کہ انبیاء کے عمل کو اللہ اپنی جانب نسبت دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ
(اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے،
ایسی طرح یہاں بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بتوں کے توڑنے کا عمل اللہ تعالیٰ کا عمل ہے یعنی ان بتوں کو ابراھیم علیہ السلام نے نہ توڑا بلکہ اللہ نے توڑا
ویسے تو صرف ایسی بات پر ابراھیم علیہ السلام پر سے جھوٹا ہونے کی تہمت ہٹ جاتی ہے لیکن اس بات کو مذید پختہ کردو اللہ کی دی ہوئی توفیق سے
ابراھیم علیہ السلام سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا یعنی یہ فعل اس کبیر یعنی بڑے کا ہے
اب ابراھیم علیہ السلام کے قول کبیر پر غور کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں مشرکوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاھُمْ اِلیٰ الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔
سورۃ العنکبوت آیت 65
یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لیے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔

یعنی مشرک بھی اللہ تعالیٰ ہی کو سب سے بڑا مانتے ہیں یعنی کبیر
اور یہ جو ابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے نے یہ کام کیا تو مطلب یہ ہوا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کیا کیونکہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ نبی کے افعال کو اللہ تعالیٰ اپنا عمل کہتا ہے اس لئے کسی کا ان آیت سے ابراھیم علیہ السلام کے جھوٹا ہونے کا استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے
والسلام
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اللہ تعالیٰ قرآن میں حضرت ابراھیم علیہ السلام کا ذکر اس انداز سے فرماتا ہے

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا
اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کر، بیشک وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے
یعنی اللہ تعالیٰ ابو انبیاء علیہ السلام کو صدیق یعنی سچا کہے اور لوگ ان کے بارے میں یہ کہے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے نعوذباللہ اگر دیکھا جائے تو یہ لوگ ابراھیم علیہ السلام پر ہی جھوٹا ہونے کی تہمت نہیں رکھ رہے بلکہ یہ اللہ کو بھی جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں نعوذباللہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ابراھیم علیہ السلام سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا یعنی یہ فعل اس کبیر یعنی بڑے کا ہے
آپ کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ صرف ’’ بحث برائے بحث ‘‘ کرنے آتے ہیں ۔ ان آیات کی آپ نے جو خانہ ساز تفسیر کی ہے ۔ اس کا اگر میں آپ سے حوالہ پوچھوں گا ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ کہ سوا کسی جواب کی امید نہیں ۔ لہذا تفسیر کو ایک طرف کرکے آپ سے گزارش ہے کہ آپ نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں آپ ’’ ھم ‘‘ کا ترجمہ گول کر گئے ہیں ۔ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’ یہ فعل اِن کے اِس بڑے نے کیا ہے ‘‘ یہاں ’’ ھم ‘‘ کا معنی ہے ’’ اِن کے ‘‘ جس کو آپ سرے سے ختم کرگئے ہیں ۔
اور قرآن کے اندر یہ تحریف کرنے کا آپ نے بہانہ بنایا ہے کہ آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا دفاع کررہے ہیں ۔
قرآن کریم کا صحیح معنی سمجھنے کے لیے آپ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرنا چا ہیے تھا جس کی آپ کو توفیق نہی ہوئی لہذا تیں محظورات میں واقع ہوئے ہیں :
1۔ قرآن میں تحریف کی ۔
2۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تفسیر سمجھنے کی بجائے اپنی عقل کا گھوڑا دوڑایا ۔ جبکہ تفسیر بالرائے مذموم ہے ۔
3۔ حدیث رسول کے اندر صراحت کے ساتھ موجود ’’ کذبات ثلاث ‘‘ والی روایات کا انکار کرکے ایک نبی کا دفاع کرتے ہوئے وہی اعتراض دوسرے نبی پر کردیا ۔

انتباہ : آپ کہیں گے کہ میں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کیا بلکہ میں نےتو صحیح بخاری کا انکارکیا ہے۔ آپ کی بات مان لیتے ہیں آپ صحیح بخاری وغیرہ کو نہ لیں جن کتابوں سے آپ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محفوظ کیا ہے ان کا تو حوالہ پیش کریں ۔ پھر ہم مقارنہ کریں گے آپ کی کتب حدیث کا اور اہل سنت کی کتب حدیث کا کس کی بات قابل قبول ہے ۔
پوری شیعہ کتب حدیث مل کر درجہ استناد میں بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’ انما الأعمال بالنیات ‘‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں ۔
بخاری علیہ الرحمہ نے جن رواۃ سے بیان کیا ہے ان کو تو زمانہ جانتا ہے ۔ جبکہ دوسری طرف شیعہ کتب حدیث کے مصنفین کیا کہتے ہیں مجھے میرے گاؤں والوں نے بیان کیا ۔۔۔ مجھے بستی کے اشیاخ نے بیان کیا ۔
اگر واقعتا بحث برائے بحث نہیں کرنا چاہتے تو ہماری طرف سے ’’ صحیح بخاری ‘‘ ہے آپ اپنی طرف سے شیعہ مصادر میں سے جو مرضی کتاب لے آئیں مقارنہ کرکے دیکھ لیتے ہیں ۔


فسوف ترى اذا انكشف الغبار
أفرس تحت رجلك أم حمار

اگر بخاری کی روایات بھی آپ کے نزدیک درجہ اعتماد کو نہیں پہنچتیں تو پھر آپ کی کتب حدیث کیا آپ کا مزعومہ نسخہ قرآن بھی آپ درست ثابت نہیں کرسکتے ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آپ کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں ہے کہ آپ صرف ’’ بحث برائے بحث ‘‘ کرنے آتے ہیں ۔ ان آیات کی آپ نے جو خانہ ساز تفسیر کی ہے ۔ اس کا اگر میں آپ سے حوالہ پوچھوں گا ’’ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ‘‘ کہ سوا کسی جواب کی امید نہیں ۔
جزاکم اللہ خیرا خضر حیات بھائی۔
ان صاحب کی خانہ ساز تفسیر یا ترجمہ میں تحریف کو کیا دوش دیں۔ ان کے بڑے اپنی دانست میں انبیاء کے دفاع میں قرآن کے الفاظ تک میں تحریف پر مجبور ہوئے ۔ ملاحظہ فرمائیے، اس کی فقط ایک مثال:
لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار
احتجاج طبرسی میں منقول ہے کہ جناب امام جعفر صادق اور مجمع البیان میں ہے کہ امام رضا اس آیت کو یوں پڑھا کرتے تھے لقد تاب الله بالنبي على المهاجرين والأنصار
تفسیر قمی میں جناب جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ اسی شان سے یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ احتجاج میں ابان ابن تغلب سے منقول ہے کہ میں نے عرض کی یابن رسول اللہ ۔ عوام الناس تو اسطرح نہیں پڑھتے جیسے کہ آپ کے پاس ہے۔ دریافت فرمایا کہ اے ابن ابان وہ کیونکر پڑھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ وہ یوں پڑھتے ہیں۔
لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار
فرمایا ویل ہو انکے لئے نبی ﴿ص﴾ کا کونسا گناہ تھا جسکے بارے میں خدا نے انکی توبہ قبول کر لی۔ سوائے اس کے نہیں ہے کہ توبہ تو انکی امت کے لئے قبول کر لی گئ۔
ترجمہ مقبول، پارہ ١١ ، سورہ توبہ، ص ۳۲٦
اب بہرام صاحب کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ امام جعفر صادق کی ویل والی وعید کا مصداق بننا پسند فرماتے ہیں یا سنیوں کے قرآن کی طرح ہی اس آیت کی تلاوت کرتےہیں؟

گویا اگر اس آیت کو سنیوں کے قرآن کے موافق پڑھا جائے تواہل تشیع کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گناہگار ہونا (نعوذباللہ) لازم ٹھہرتا ہے۔
اور اس آیت کو اہل تشیع کے مطابق پڑھا جائے تو تحریف قرآن ماننا لازم ہے۔

اب علی بہرام صاحب یہ گتھی سلجھائیں تو بات ہے۔

اگر بخاری کی روایات بھی آپ کے نزدیک درجہ اعتماد کو نہیں پہنچتیں تو پھر آپ کی کتب حدیث کیا آپ کا مزعومہ نسخہ قرآن بھی آپ درست ثابت نہیں کرسکتے ۔
متفق۔
نہ صرف یہ کہ قرآن کو ثابت نہیں کر سکتے۔ بلکہ تحریف قرآن کے شیعہ عقیدے کا دفاع تک کرنے کو راضی نہیں۔ اس کا نمونہ اس دھاگے میں ملاحظہ کیجئے:
http://forum.mohaddis.com/threads/7435/
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
لگے رہو انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا ثابت کرنے میں لیکن جھوٹ نہیں بول سکتے تو صرف امام بخاری نہیں بول سکتے کیونکہ وہ نبی تو ہیں نہیں اور وہابی کا عقیدہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ صرف انبیاء ہی جھوٹے ہوتے ہیں لعنت ہے ایسی سوچ پر

یہ ان کے لئے ہے جو قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ھدایت حاصل کرنا چاہتے ہے
ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑا مگر ایک کو چھوڑ دیا
اب اس بات کو سمجھوں کہ انبیاء کے عمل کو اللہ اپنی جانب نسبت دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ
(اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے،
ایسی طرح یہاں بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بتوں کے توڑنے کا عمل اللہ تعالیٰ کا عمل ہے یعنی ان بتوں کو ابراھیم علیہ السلام نے نہ توڑا بلکہ اللہ نے توڑا
ویسے تو صرف ایسی بات پر ابراھیم علیہ السلام پر سے جھوٹا ہونے کی تہمت ہٹ جاتی ہے لیکن اس بات کو مذید پختہ کردو اللہ کی دی ہوئی توفیق سے
ابراھیم علیہ السلام سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا یعنی یہ فعل اس کبیر یعنی بڑے کا ہے
اب ابراھیم علیہ السلام کے قول کبیر پر غور کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں مشرکوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاھُمْ اِلیٰ الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔
سورۃ العنکبوت آیت 65
یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لیے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔

یعنی مشرک بھی اللہ تعالیٰ ہی کو سب سے بڑا مانتے ہیں یعنی کبیر
اور یہ جو ابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے نے یہ کام کیا تو مطلب یہ ہوا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کیا کیونکہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ نبی کے افعال کو اللہ تعالیٰ اپنا عمل کہتا ہے اس لئے کسی کا ان آیت سے ابراھیم علیہ السلام کے جھوٹا ہونے کا استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے
والسلام




اگر ہم عربی لغت کی طرف رجوع کریں تو جھوٹ کے کئی معانی ہمارے سامنے آتے ہیں اصل غلط فہمی لفظ کذب کو نا سمجھنے کی وجہ سے پیدا ھوئی ہے یہان پر کذب کا لغوی معنی ذکر کیا جاتا ہے :

1۔ کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:‌اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔
2۔ کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے:
قال الجوھری:‌کذب قد یکون بمعنی وجب وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) .. [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
جوہری اور فراء کہتے ہیں:‌کذب معنی وجب پر ہے۔
3۔ کذب، لزم کے معنی میں آیا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
4۔ غلطی یا خطا کے معنی میں‌بھی یہی لفظ‌کذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیث‌میں‌ہے:‌کذب ابو محمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔ [النھایۃ: 282/4]
اسی طرح خطا بھی کئی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
5۔ اجتہادی غلطی پر بھی کذب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں نوف بقالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا: کذب عدو اللہ۔ نوف نے غلطی کی۔
اسی طرح راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے:
لسان العرب : 708/1
الفائق للزمخشری: 250/3
القاموس المحیط: 166
تاج العروس: 897/1
اوپر ذکر کی گئی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر احادیث، ائمہ حدیث اور راویان حدیث پر سب و شتم کا سارا کھڑاگ پھیلایا گیا ہے۔ اس سے استدلال میں لازمی طور پر جھوٹ ہی کا معنی کرنا ، بجائے خود کتنی کمزور دلیل ہے۔
تعریض اور توریہ:

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔
متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔
لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔
راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
"تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔" [مفردات القرآن : 85/2]
جھوٹ بولنے کے جواز کے بارے کلینی صاحب نے لکھا ہے:
وأبغض الكذب في غير الاصلاح، إن إبراهيم (عليه السلام)
إنما قال: " بل فعله كبيرهم هذا " إرادة الاصلاح

سب سے نا پسندیدہ جھوٹ وہ ہے جو اصلاح کے علاوہ کسی کام میں بولا جاے کیوں کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے بنیت اصلاح تھا "
اس بات کو ثابت کرنے کےلیے کلینی نے ایک حدیث کا بھی ذکر کیا ہے :
عن عيسى بن حسان قال: سمعت
أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: كل كذب مسؤول عنه صاحبه يوما إلا
[ كذبا ] في ثلاثة: رجل كائد في حربه فهو موضوع عنه، أو رجل أصلح
بين اثنين يلقى هذا بغير ما يلقى به هذا، يريد بذلك الاصلاح ما
بينهما، أو رجل وعد أهله شيئا وهو لا يريد أن يتم لهم.
یعنی تین چیزوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے "
بلکہ اسی جگہ وہ لکھتے ہیں کہ سب سے پسندیدہ جھوٹ وہ ہے جو اصلاح کے لیے بولا جاے:
وأحب الكذب في الاصلاح (الکافی:۵ص۱۸۵
تمہارے بڑے تو اس کو پسندیدہ جھوٹ کہہ رہے ہیں اور تم اپنے بڑوں کا خلاف کر رہے ہو آخر کیوں یہ مخالفت
اس حدیث کی سند

یہ حدیث تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یعنی:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ رحمہم اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
اس روایت کا کوئی بھی راوی منفرد نہیں۔

یہ حدیث‌امام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے بھی پہلے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے بیان کر رکھی ہے۔ ان کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استادوں مثلاً امام احمد بن حنبل ، امام ابن ابی شیبہ، معاصرین مثلاً امام ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہ اور بعد والے محدثین نے بھی روایت کی ہے۔
کسی ایک بھی محدث‌نے اس حدیث‌پر جرح نہیں کی اور نہ کسی ایک سے بھی اس کا انکار ثابت ہے۔

لیکن آج یہودیوں کی اولاد نے اس حدیث کا انکار شروع کر دیا ہے اور یہ لوگ عبد اللہ بن سبا کی روح کو خوب شانتی پہنچا رہے ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیعہ انبیا کے سب سے بڑے گستاخ

امام موسی کاظم سے روایت ہے کہ ہماری ہی وجہ سے آدم علیہ السلام کو معافی ملی، ہمارے سبب سے ایوب علیہ السلام مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ یعقوب علیہ السلام کو صدمہ برداشت کرنا پڑا اور یوسف علیہ اسلام زندانی ٹھرے اور ہمارے ہی وسیلہ سے ان کے مصائب دور ہوئے سورج ہمارے ہی طفیل روشن ہوتا ہے اور ہمارے نام خدا کے عرش پر لکہے ہیں۔ (بحارالانوار 287 جلد 26)
اس روایت کے مطابق ایوب علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں مصیبت دی گئی، یعقوب علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں بیٹے کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، یوسف علیہ السلام نے انکار ولایت کیا تو انہیں جیل میں جانا پڑا چناچہ جب ان سب نے اقرار ولایت کیا تو ان کے مصائب دور ہوئے
اور یہ بھی یاد رکہیں کہ شیعہ کے نزدیک انکار ولایت و امامت کفر ہے چناچہ اس روایت کے مطابق ان سب انبیاء نے پہلے کفر کیا پھر توبہ کی اور اقرار ولایت کرلیا۔
صرف اتنا بتا دیں کہ یہ غلطی ان تمام انبیاء سر زد ہوئی یہ نبوت سے پہلے تھی یا بعد میں تھی؟ اور کیا واقعی ہی ان سے یہ گستاخی ہوئی تھی یا کہ حقیقت میں وہ خطا کا ر تھے ، نعوذ باللہ من ذلک، میرے بھائی توبہ کا وقت ہے اللہ سے ڈر جا نہ جانے موت کا فرشتہ کب دبوچ لے اور موقع گزر جائے یاد رکھنا میں حجت تمام کر دی تم تو اتنا غلط عقیدہ رکھتے ہو اور ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ نبی سے کوئی بھول چوک ہو سکتی اور بس لیکن تم نے حد کردی اور انبیاء سے ایک بہت بڑی غلطی کے ارتکاب کا دعوی کر دیا ہے ۔ اللہ حق بات کو سمجھ کر اس پر عمل کی توفیق دے آمین
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
شیعہ انبیا کے سب سے بڑے گستاخ

عقیدہ :تمام پیغمبرزندہ ہوکر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ماتحت ہوکر جہادکریں گے ۔(معاذ اللہ)
بحوالہ :تفسیر عیاشی جلد اول ص 181
عقیدہ :حضرت یونس علیہ السلام نے ولا یتِ علی کو قبول نہ کیا جسکی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں ڈال دیا ۔(معاذ اللہ)
بحوالہ :حیات القلوب جلد اول ص459مصنّف :ملا باقر مجلس مطبوعہ تہران
عقیدہ :مرتبہ امامت مرتبہ پیغمبری سے بالا تر ہے ۔(معاذ اللہ)
بحوالہ :حیات القلوب جلد سوم ص 2ملا مجلس مطبوعہ تہران
عقیدہ :بارہ امام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ بقیہ تمام انبیاءکے اُستاد ہیں ۔(معاذ اللہ)
بحوالہ :مجموعہ مجالس ص 29صفدر ڈوگرا سرگودھا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
quote="علی بہرام, post: 141755, member: 3577"]لگے رہو

انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا ثابت کرنے میں لیکن جھوٹ نہیں بول سکتے تو صرف امام بخاری نہیں بول سکتے کیونکہ وہ نبی تو ہیں نہیں اور وہابی کا عقیدہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ صرف انبیاء ہی جھوٹے ہوتے ہیں لعنت ہے ایسی سوچ پر



یہ ان کے لئے ہے جو قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ھدایت حاصل کرنا چاہتے ہے
ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑا مگر ایک کو چھوڑ دیا
اب اس بات کو سمجھوں کہ انبیاء کے عمل کو اللہ اپنی جانب نسبت دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ
(اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے،
ایسی طرح یہاں بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بتوں کے توڑنے کا عمل اللہ تعالیٰ کا عمل ہے یعنی ان بتوں کو ابراھیم علیہ السلام نے نہ توڑا بلکہ اللہ نے توڑا
ویسے تو صرف ایسی بات پر ابراھیم علیہ السلام پر سے جھوٹا ہونے کی تہمت ہٹ جاتی ہے لیکن اس بات کو مذید پختہ کردو اللہ کی دی ہوئی توفیق سے
ابراھیم علیہ السلام سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا
یعنی یہ فعل اس کبیر یعنی بڑے کا ہے
اب ابراھیم علیہ السلام کے قول کبیر پر غور کرتے ہیں


اللہ تعالیٰ قرآن میں مشرکوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاھُمْ اِلیٰ الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔
سورۃ العنکبوت آیت 65
یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لیے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔

یعنی مشرک بھی اللہ تعالیٰ ہی کو سب سے بڑا مانتے ہیں یعنی کبیر
اور یہ جو ابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے نے یہ کام کیا تو مطلب یہ ہوا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کیا کیونکہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ نبی کے افعال کو اللہ تعالیٰ اپنا عمل کہتا ہے اس لئے کسی کا ان آیت سے ابراھیم علیہ السلام کے جھوٹا ہونے کا استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے
والسلام[/quote]

آپ نے قرآن کی ایک آیت کو لے کر جو تفسیر بیان کی ہے وہ سرے سے ہی غلط ہے - اگر آپ سوره الانبیاء کی اگلی آیات کا مطالعہ کرتے تو آپ پر یہ بات واضح ہوجاتی کہ حضرت ابراھیم علیہ سلام کا "کبیر" سے مطلب ان کا سب سے بڑا بت تھا نہ کہ الله رب العزت -

پوری قرآن کی آیات اسطرح ہے -


قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ ٦٣
کہا بلکہ ان کے اس بڑے نے یہ کیا ہے سو اس سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں -
فَرَجَعُوا إِلَىٰ أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنْتُمُ الظَّالِمُونَ -٦٤
پھر وہ اپنے دل میں سوچ کر کہنے لگے بے شک تم ہی بے انصاف ہو-
ثُمَّ نُكِسُوا عَلَىٰ رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَٰؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ -٦٥
پھر انہو ں نے سر نیچا کر کے کہا تم جانتے ہو کہ یہ بولا نہیں کرتے-


ان آیات سے یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ یہاں كَبِيرُهُمْ سے مراد ان کا سب سے بڑا بت تھا - نہ کہ الله رب العزت -

دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ احادیث نبوی کے الفاظ پر اعتبار نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کہ بخاری کی حدیث حضرت ابراھیم علیہ سلام کی گستاخی پر مبنی ہے - (نعوزباللہ ) - تو قرآن میں بھی ایسے الفاظ ہیں جو بظاھر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک نبی کی شایان شان نہیں - مثال کے طور پر حضرت یونس علیہ سلام کے متعلق الله نے فرمایا:

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ۔۔ ﴿ الانبیاء ۔٨٧ ﴾
اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور گمان کیا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے-[/
hl]

اگر یہی الفاظ حدیث کی کی کسی کتاب میں ہوتے تو آپ شاید یہی کہتے کہ کہ ایک نبی کے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ الله اس کو نہیں پکڑ سکے گا- لیکن قرآن کی آیت پر آپ کا ایمان ہے اور صحیح بخاری جو اسی قرآن کی تشریح کرتی ہے اس پر ایمان نہیں -

اسی طرح حضرت آدم علیہ سلم کے متعلق فرمایا :

وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَىٰ آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا سوره طہ ١١٥
اور ہم نے اس سے پہلے آدم سے بھی عہد لیا تھا پھر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں پختگی نہ پائی -


یہاں بھی ایک نبی سے بھول چھوک کا ذکر ہے - لیکن اگر یہ الفاظ کسی صحیح حدیث کی کتاب میں ہوتےتو شاید آپ کا ذہن اس کوکبھی قبول نہ کرتا -

والسلام -
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
حافظ عمران بھائی اور دیگر مشارکین گفتگو کوشش کرکے الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کریں ۔
بعض دفعہ علمی و تحقیقی قسم کی باتیں اسلوب بیان کی وجہ سے اپنا فائدہ کھو بیٹھتی ہیں ۔
 
Top