لگے رہو انبیاء علیہم السلام کو جھوٹا ثابت کرنے میں لیکن جھوٹ نہیں بول سکتے تو صرف امام بخاری نہیں بول سکتے کیونکہ وہ نبی تو ہیں نہیں اور وہابی کا عقیدہ یہ ظاہر ہورہا ہے کہ صرف انبیاء ہی جھوٹے ہوتے ہیں لعنت ہے ایسی سوچ پر
یہ ان کے لئے ہے جو قرآن کو سمجھنا چاہتے ہیں اور ھدایت حاصل کرنا چاہتے ہے
ابو الانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ان بتوں کو توڑا مگر ایک کو چھوڑ دیا
اب اس بات کو سمجھوں کہ انبیاء کے عمل کو اللہ اپنی جانب نسبت دیتا ہے جیسا کہ قرآن میں فرماتا ہے کہ
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ
(اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے،
ایسی طرح یہاں بھی حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بتوں کے توڑنے کا عمل اللہ تعالیٰ کا عمل ہے یعنی ان بتوں کو ابراھیم علیہ السلام نے نہ توڑا بلکہ اللہ نے توڑا
ویسے تو صرف ایسی بات پر ابراھیم علیہ السلام پر سے جھوٹا ہونے کی تہمت ہٹ جاتی ہے لیکن اس بات کو مذید پختہ کردو اللہ کی دی ہوئی توفیق سے
ابراھیم علیہ السلام سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا یعنی یہ فعل اس کبیر یعنی بڑے کا ہے
اب ابراھیم علیہ السلام کے قول کبیر پر غور کرتے ہیں
اللہ تعالیٰ قرآن میں مشرکوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ
فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّاھُمْ اِلیٰ الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔
سورۃ العنکبوت آیت 65
یہ لوگ جب کشتیوں میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ ہی کو پکارتے ہیں اسی کے لیے عبادت کو خالص کر کے پھر جب وہ ان کو خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو اسی وقت شرک کرنے لگتے ہیں ۔
یعنی مشرک بھی اللہ تعالیٰ ہی کو سب سے بڑا مانتے ہیں یعنی کبیر
اور یہ جو ابراھیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے نے یہ کام کیا تو مطلب یہ ہوا کہ یہ کام اللہ تعالیٰ نے کیا کیونکہ ہم یہ سمجھ چکے ہیں کہ نبی کے افعال کو اللہ تعالیٰ اپنا عمل کہتا ہے اس لئے کسی کا ان آیت سے ابراھیم علیہ السلام کے جھوٹا ہونے کا استدلال کرنا باطل ہوجاتا ہے
والسلام
اگر ہم عربی لغت کی طرف رجوع کریں تو جھوٹ کے کئی معانی ہمارے سامنے آتے ہیں اصل غلط فہمی لفظ کذب کو نا سمجھنے کی وجہ سے پیدا ھوئی ہے یہان پر کذب کا لغوی معنی ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ کذب کے معنی ترغیب دلانا بھی مستعمل ہے، کذبتہ نفسہ کے معنی ہیں:اس کے دل نے اسے ترغیب دلائی۔
2۔ کذب، وجوب کے معنی میں آتا ہے:
قال الجوھری:کذب قد یکون بمعنی وجب وقال الفراء کذب علیک ای وجب علیک (نھایہ ابن اثیر: 12/4) .. [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
جوہری اور فراء کہتے ہیں:کذب معنی وجب پر ہے۔
3۔ کذب، لزم کے معنی میں آیا ہے۔ کذب علیکم الحج و العمرۃ۔ تم پر حج اور عمرہ لازم ہو گیا ہے۔ [النھایۃ فی غریب الاثر لابن الاثیر 282/4ْْ]
4۔ غلطی یا خطا کے معنی میںبھی یہی لفظکذب استعمال ہوتا ہے۔ حدیثمیںہے:کذب ابو محمد [ابو داؤد: برقم 425] یعنی ابو محمد نے غلطی کی۔ ذو الرمہ شاعر نے کہا: ما فی سمعہ کذب۔ اس کے سماع میں غلطی نہیں۔ [النھایۃ: 282/4]
اسی طرح خطا بھی کئی معنی میں مستعمل ہوا ہے۔
5۔ اجتہادی غلطی پر بھی کذب کا لفظ بولا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں نوف بقالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا: کذب عدو اللہ۔ نوف نے غلطی کی۔
اسی طرح راغب نے مفردات القرآن 288/2 میں فرمایا، اور دیگر کتب لغات میں بھی اسی قسم کی تفصیل موجود ہے۔ مثلاً دیکھئے:
لسان العرب : 708/1
الفائق للزمخشری: 250/3
القاموس المحیط: 166
تاج العروس: 897/1
اوپر ذکر کی گئی عبارت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس ایک لفظ کی بنیاد پر احادیث، ائمہ حدیث اور راویان حدیث پر سب و شتم کا سارا کھڑاگ پھیلایا گیا ہے۔ اس سے استدلال میں لازمی طور پر جھوٹ ہی کا معنی کرنا ، بجائے خود کتنی کمزور دلیل ہے۔
تعریض اور توریہ:
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ وضاحت کی ہے کہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کے قصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے۔ اس لحاظ سے اس کی تین صورتیں ہوں گی۔
متکلم صحیح اور واقعہ کے مطابق کہے اور مخاطب کو وہی سمجھانا چاہے جو فی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے۔
متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کو اپنے مقصد سے آگاہ نہ کرنا چاہے بلکہ ایک تیسری صورت پیدا کر دے جو نہ صحیح ہو اور نہ ہی متکلم کا مطلب اور مراد ہو۔ یہ واقعہ اور ارادہ دونوں لحاظ سے جھوٹ ہوگا۔
لیکن اگر متکلم صحیح اور نفس الامر کے مطابق گفتگو کرے لیکن مخاطب کو اندھیرے میں رکھنا چاہے اور اپنے مقصد کو اس پر ظاہر نہ ہونے دے اسے تعریض اور توریہ کہا جاتا ہے۔ یہ متکلم کے لحاظ سے صدق ہے اور تفہیم کے لحاظ سے کذب ہے۔
راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
"تعریض ایسی گفتگو ہوتی ہے، جس کے ہر دو پہلو ہوتے ہیں۔ من وجہ صدق اور من وجہ کذب۔ جیسے فیما عرضتم بہ من خطبۃ النساء سے واضح ہے۔" [مفردات القرآن : 85/2]
جھوٹ بولنے کے جواز کے بارے کلینی صاحب نے لکھا ہے:
وأبغض الكذب في غير الاصلاح، إن إبراهيم (عليه السلام)
إنما قال: " بل فعله كبيرهم هذا " إرادة الاصلاح
سب سے نا پسندیدہ جھوٹ وہ ہے جو اصلاح کے علاوہ کسی کام میں بولا جاے کیوں کہ ابراہیم علیہ السلام کا یہ کہنا کہ یہ کام ان کے بڑے نے کیا ہے بنیت اصلاح تھا "
اس بات کو ثابت کرنے کےلیے کلینی نے ایک حدیث کا بھی ذکر کیا ہے :
عن عيسى بن حسان قال: سمعت
أبا عبد الله (عليه السلام) يقول: كل كذب مسؤول عنه صاحبه يوما إلا
[ كذبا ] في ثلاثة: رجل كائد في حربه فهو موضوع عنه، أو رجل أصلح
بين اثنين يلقى هذا بغير ما يلقى به هذا، يريد بذلك الاصلاح ما
بينهما، أو رجل وعد أهله شيئا وهو لا يريد أن يتم لهم.
یعنی تین چیزوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے "
بلکہ اسی جگہ وہ لکھتے ہیں کہ سب سے پسندیدہ جھوٹ وہ ہے جو اصلاح کے لیے بولا جاے:
وأحب الكذب في الاصلاح (الکافی:۵ص۱۸۵
تمہارے بڑے تو اس کو پسندیدہ جھوٹ کہہ رہے ہیں اور تم اپنے بڑوں کا خلاف کر رہے ہو آخر کیوں یہ مخالفت
اس حدیث کی سند
یہ حدیث تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ یعنی:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ، امام مسلم، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ابو عوانہ رحمہم اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔
اس روایت کا کوئی بھی راوی منفرد نہیں۔
یہ حدیثامام بخاری رحمہ اللہ کی پیدائش سے بھی پہلے امام عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ نے بیان کر رکھی ہے۔ ان کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کے استادوں مثلاً امام احمد بن حنبل ، امام ابن ابی شیبہ، معاصرین مثلاً امام ابو داؤد رحمہ اللہ وغیرہ اور بعد والے محدثین نے بھی روایت کی ہے۔
کسی ایک بھی محدثنے اس حدیثپر جرح نہیں کی اور نہ کسی ایک سے بھی اس کا انکار ثابت ہے۔
لیکن آج یہودیوں کی اولاد نے اس حدیث کا انکار شروع کر دیا ہے اور یہ لوگ عبد اللہ بن سبا کی روح کو خوب شانتی پہنچا رہے ہیں