حافظ عمران الہی
سینئر رکن
- شمولیت
- اکتوبر 09، 2013
- پیغامات
- 2,100
- ری ایکشن اسکور
- 1,460
- پوائنٹ
- 344
بہرام صاحب یہ کیا ہے ؟ تمہارا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبی سے خطا نہیں ہوتی تو یہ کیا ہے ؟حضرت آدم علیہ سلام کا بھی یہی معاملہ ہے، آپ سے گناہ سرزد ہوا مگر اس وقت وہ کسی کو شریعت پہنچانے پر مقرر نہ تھے
حضرت یونس علیہ سلام کو نبی مچھلی کے واقعے کے بعد مقرر کیا گیا۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
فاصبر لحکم ربک و لا تکن کصاحب الحوت اذ نادی و ھو مکظوم 0 لو لا ان تدارکہ من ربہ لنبذ بالعراء و ھو مزموم 0 فاجتباہ ربہ فجعلہ من الصالحین
اور جہاں تک ابراہیم علیہ سلام کا تعلق ہے تو ایک تو ان کے جھوٹ توریہ تھے اور دوسرے یہ کہ یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے کہ اس وقت کی شریعت میں کن صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز تھا۔ جیسا کہ شریعت محمدی کے مطابق تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے۔
و اللہ اعلم
امام باقر کا علم حضرت موسی سے زیادہ تھا۔
بصائر الدرجات: محمد بن الحسين عن أحمد بن بشير عن كثير عن أبي عمران قال: قال أبو جعفر (عليه السلام): لقد سأل موسى العالم مسألة لم يكن عنده جوابها ولقد سئل العالم موسى مسألة لم يكن عنده جوابها ولو كنت بينهما لأخبرت كل واحد منهما بجواب مسئلته ولسألتهما عن مسألة لا يكون عندهما جوابها
امام باقر نے فرمایا کہ موسی علیہ السلام نے ایک عالم سے ایک مسئلہ پوچہا جس کا جواب اس سے نہ بن پڑا تو اس عالم نے موسی سے سوال پوچھا جس کا جواب موسی سے نہ بن پڑا۔ اگر میں ان دونوں کے پاس ہوتا تو دونوں کو اپنے اپنے سوالوں کا جواب دیتا اور پھر میں سوال کرتا تو وہ دونوں جواب نہ دے پاتے ( بحارالانوار ص 195 جلد 26)۔
اس خود ساختہ مناظرے میں تم نے حضرت موسی کی گستاخی کی ہے، جو چاہے سو آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے