Dua
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 30، 2013
- پیغامات
- 2,579
- ری ایکشن اسکور
- 4,440
- پوائنٹ
- 463
السلام علیکم ،بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الٲنبیاء والمرسلین وعلي آلہ وصحبہ ٲجمعین ٲما بعد
پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہیکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے اور اس خطا سے نہ کوئی ولی مبرا ہوسکتا ہے نہ کوئی نبی’ اسی وجہ سے کوئی شخص اپنا مافی الضمیر بڑے فصیح انداز میں بیان کرتا ہے مگر دوسرا شخص آکر اس میں ایسی ایسی صریح غلطیاں نکالدیتا ہے کہ سامنے والا بعض دفعہ دنگ رہ جاتا ہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا کیونکہ یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے انسان خطا کا پتلا ہے۔
فقصہ کچھ یوں ہیکہ ہر عالم کی تالیفات عمر کے مختلف مراحل میں مختلف احوال سے کزرتیں ہیں چنانچہ بعض دفعہ ابتداء عمر میں انسان کی رائے کچھ اور ہوتی ہے جو عمر ڈھلتے ڈھلتے تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ عالم اپنی کوشش کی حد تک جہاں جہاں اسے یاد ہو وہ اپنی رائے کی تصحیح کرلیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی سامنے آتی ہیکہ بعض دفعہ عمر کے ابتدائی مرحلہ اپنا مافی الضمیر اداء کرتا ہے مگر چند سالوں کے بعد اسے ان باریکیوں کا احساس ہوجاتا ہے جس سے وہ پہلے لا علم تھا چنانچہ حتی الوسع جہاں تک ہوسکے وہ اپنے کلام میں ترمیم کرلیتا ہے۔
بعض دفعہ وہ کہتا کچھ اور ہے مگر الفاظ اسکا ساتھ نہیں دیتے۔
اب سوال یہ ہیکہ ہم ان باتوں کی تحقیق کیسے کریں؟
تو اسکا جواب یہ ہیکہ اس عالم تالیفات کی تاریخ کا سب سے پہلے علم ہونا ضروری ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہیکہ تعارض کے وقت متاخر التالیف کتاب میں مذکورہ قول قابل اعتبار سمجھا جائے اور پہلا قول مرجوح ومنسوخ کے درجہ میں ہو۔
دوسری صورت یہ ہیکہ ایک مسئلہ میں کئی کتابوں پر بحث کی ہو کہیں مفصل اور کہیں مجمل اس صورت میں کسی ایک کتاب کو اختیار کرکے دوسری کتابوں کو چھوڑدینا اور اس رائے کو لیکر اس قائل کیطرف منسوب کردینا خیانت تک پہونچ سکتا ہے ہاں اگر تحقیق سے اتنا ثابت ہوجائے کہ تمام کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ رائے اس قائل کی معلوم ہوتی ہے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر آپکے فرصت نہیں اور کسی عالم کی کسی کتاب میں اعتراض شدہ مواد آپکو مل گیا تو اس وقت تک آپ اس موضوع پر سکونت اختیار کرینگے جب تک آپکو تحقیق نہ ہوجائے وگرنہ آپ عند اللہ سوء الظن اور بعض دفعہ غیبت یا بہتان کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
لہذا اگر ان اصولوں کی بنیاد پر کوئی شخص کسی عالم کی متنازعہ بات سامنے لاتا ہے تو اس پر بحث ہوسکتی ہے وگرنہ ہر جگہ سے کاٹ پیٹ کر دو تین سطور کو متنازعہ بنانے میں تو ہر شخص ماہر ہوتا ہے۔
جب عالم صاحب اپنی کتاب میں بذات خود "اعتراض شدہ مواد" لکھتے ہون گے تو پھر کیسی تحقیق !!!
سوء الظن ، بہتان تو تب بنیں ،جب سنی سنائی بات بیان کر دی جائے۔