• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کسی بھی عالم پر اعتراض کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں تاکہ بعد میں آپکو پشیمانی نہ ہو

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الٲنبیاء والمرسلین وعلي آلہ وصحبہ ٲجمعین ٲما بعد

پہلی بات تو سمجھنے کی یہ ہیکہ ہر انسان خطا کا پتلا ہے اور اس خطا سے نہ کوئی ولی مبرا ہوسکتا ہے نہ کوئی نبی’ اسی وجہ سے کوئی شخص اپنا مافی الضمیر بڑے فصیح انداز میں بیان کرتا ہے مگر دوسرا شخص آکر اس میں ایسی ایسی صریح غلطیاں نکالدیتا ہے کہ سامنے والا بعض دفعہ دنگ رہ جاتا ہے میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤنگا کیونکہ یہ بات سب کے نزدیک متفق علیہ ہے انسان خطا کا پتلا ہے۔
فقصہ کچھ یوں ہیکہ ہر عالم کی تالیفات عمر کے مختلف مراحل میں مختلف احوال سے کزرتیں ہیں چنانچہ بعض دفعہ ابتداء عمر میں انسان کی رائے کچھ اور ہوتی ہے جو عمر ڈھلتے ڈھلتے تبدیل ہوجاتی ہے اور وہ عالم اپنی کوشش کی حد تک جہاں جہاں اسے یاد ہو وہ اپنی رائے کی تصحیح کرلیتا ہے۔
دوسری بات یہ بھی سامنے آتی ہیکہ بعض دفعہ عمر کے ابتدائی مرحلہ اپنا مافی الضمیر اداء کرتا ہے مگر چند سالوں کے بعد اسے ان باریکیوں کا احساس ہوجاتا ہے جس سے وہ پہلے لا علم تھا چنانچہ حتی الوسع جہاں تک ہوسکے وہ اپنے کلام میں ترمیم کرلیتا ہے۔
بعض دفعہ وہ کہتا کچھ اور ہے مگر الفاظ اسکا ساتھ نہیں دیتے۔
اب سوال یہ ہیکہ ہم ان باتوں کی تحقیق کیسے کریں؟
تو اسکا جواب یہ ہیکہ اس عالم تالیفات کی تاریخ کا سب سے پہلے علم ہونا ضروری ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہیکہ تعارض کے وقت متاخر التالیف کتاب میں مذکورہ قول قابل اعتبار سمجھا جائے اور پہلا قول مرجوح ومنسوخ کے درجہ میں ہو۔
دوسری صورت یہ ہیکہ ایک مسئلہ میں کئی کتابوں پر بحث کی ہو کہیں مفصل اور کہیں مجمل اس صورت میں کسی ایک کتاب کو اختیار کرکے دوسری کتابوں کو چھوڑدینا اور اس رائے کو لیکر اس قائل کیطرف منسوب کردینا خیانت تک پہونچ سکتا ہے ہاں اگر تحقیق سے اتنا ثابت ہوجائے کہ تمام کتابوں کے مطالعہ کے بعد یہ رائے اس قائل کی معلوم ہوتی ہے تو یہ درست ہے۔
لیکن اگر آپکے فرصت نہیں اور کسی عالم کی کسی کتاب میں اعتراض شدہ مواد آپکو مل گیا تو اس وقت تک آپ اس موضوع پر سکونت اختیار کرینگے جب تک آپکو تحقیق نہ ہوجائے وگرنہ آپ عند اللہ سوء الظن اور بعض دفعہ غیبت یا بہتان کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں۔
لہذا اگر ان اصولوں کی بنیاد پر کوئی شخص کسی عالم کی متنازعہ بات سامنے لاتا ہے تو اس پر بحث ہوسکتی ہے وگرنہ ہر جگہ سے کاٹ پیٹ کر دو تین سطور کو متنازعہ بنانے میں تو ہر شخص ماہر ہوتا ہے۔
السلام علیکم ،
جب عالم صاحب اپنی کتاب میں بذات خود "اعتراض شدہ مواد" لکھتے ہون گے تو پھر کیسی تحقیق !!!
سوء الظن ، بہتان تو تب بنیں ،جب سنی سنائی بات بیان کر دی جائے۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
السلام علیکم ،
جب عالم صاحب اپنی کتاب میں بذات خود "اعتراض شدہ مواد" لکھتے ہون گے تو پھر کیسی تحقیق !!!
سوء الظن ، بہتان تو تب بنیں ،جب سنی سنائی بات بیان کر دی جائے۔


اعتراض شدہ مواد معترض کے خیال کے موافق لکھا جارہا ہے جب تک آپ تحقیق عادل نہ فرمالیں آپ اسے اعتراض شدہ مواد نہیں کہہ سکتے۔
کیا کہوں بے سمجھ لوگوں کے درمیان پھنس گیا ہوں
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
قابل غور بات اس دھاگہ کا موضوع ہے
کسی بھی عالم پر اعتراض کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں تاکہ بعد میں آپکو پشیمانی نہ ہو

یعنی کسی عالم پر اعتراض نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے لیکن جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں اور جن کو تمام عالمین کے کئے اللہ نے معلم بنا کر بھیجا جن کو اللہ تعالیٰ نے سب سے ذیادہ علم عطاء فرمایا ان پر ہی اعتراض کیا جارہا ہے
لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم

ارے جن مولویوں پر اعتراض نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے وہ مولوی میرے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاپوش اقدس کی دھول کے برابر بھی نہیں

بہرام صاحب بہتر ہوگا آپ جواب نہ دیں کیوں کہ بیجا اعتراض فرماکر نہ تو علمی جواب دیا آپ نے آخر میں بعض شیعہ مجتہدین کیطرح جذبات سے کھیلنے کی کوشش

پیارے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیاء کرام خدا کے مختار بندے ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں ان سے بھی خطا کا سرزد ہونا قرآن وحدیث کی صریح آیات میں موجود ہے جسکی طرف میں نے اشارہ کردیا آپ بلاوجہ اسکو ایمان وکفر کا مسئلہ بناکر بیٹھ گئے اور جب آیات کا حوالہ دیا تو جواب دینے کے قابل نہ رہے میں آپ کی کم علمی کیوجہ سے اپنا جملہ (کوئی نبی) واپس لیتا ہوں آپ خوش رہیں۔

لفظ نبی کا جملہ لکھنے کا مقصد صرف یہ ہیکہ اگر نبی سے خطا کا سرزد ہونا محتمل ہے تو ولی کیونکر اس سے بری ہوگئے (یہ جملہ صرف اہل عقل وادنش کیلئے لکھ رہا ہوں)
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
قابل غور بات اس دھاگہ کا موضوع ہے
کسی بھی عالم پر اعتراض کرنے سے پہلے ان باتوں کا خیال رکھ لیں تاکہ بعد میں آپکو پشیمانی نہ ہو

یعنی کسی عالم پر اعتراض نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے لیکن جس نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں اور جن کو تمام عالمین کے کئے اللہ نے معلم بنا کر بھیجا جن کو اللہ تعالیٰ نے سب سے ذیادہ علم عطاء فرمایا ان پر ہی اعتراض کیا جارہا ہے
لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم

ارے جن مولویوں پر اعتراض نہ کرنے کا مشورہ دیا جارہا ہے وہ مولوی میرے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاپوش اقدس کی دھول کے برابر بھی نہیں
کسی بات کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی جس کا دور دور نام و نشان نہیں ہے ہم ان کی شان میں بالکل غلو نہیں کرتے جتنا مقام اللہ نے ان کو دیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سب نبیوں اور رسولون كے سردار ہین اور جب حضرت علی کو اللہ سے ملا دیتے ہو اس وقت تمہیں اللہ کی شان یاد نہیں رہتی ؟ یہ اس بارے صحیح عقیدہ پڈھ لو:
حضرت شہید(رح) اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عصمت:اس کامعنیٰ یہ ہے کہ اُن کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کاغُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض اموراُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانون رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظ حقیقی﴿اللہ تعالیٰ﴾اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے''
﴿منصب امامت،ص:۷۱﴾
امام اعظم ابو حنیفہ(رح)، علم عقائد کے موضوع پر لکھی گئی اپنی معروف تصنیف''الفقہ الا کبر''میں تحریر فرماتے ہیں:
''والانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کلھم منزھون عن الصغائر والکبائروالکفروالقبائح، وقدکانت منہم زلات والخطایا''
''تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام صغائر اور کبائر اور کفر و قبائح سے بالکل منزہ اور پاک تھے۔ ہاں البتہ لغزش اور بھول چوک ان سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے''
﴿البیان الازہر اردو ترجمہ الفقہ الا کبر:ص۸۳﴾
قطب الا قطاب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) ''العقیدۃ الحسنۃ'' میں تحریر فرماتے ہیں:
''تمام انبیاء علیہم السلام کفر، شرک اور عمداً گناہ کبیرہ سے اور صغائرپر اِصرار کرنے سے معصوم اور پاک ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو تین طریقوں سے ان نقائص سے بچاتا اور معصوم رکھتا ہے:﴿۱﴾ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو پیدائشی طور پر ہی سلیم الفطرت اور اخلاق کے کامل اعتدال پر پیدا کرتا ہے، اس لئے وہ معاصی میں رغبت نہیں کرتے بلکہ ان سے متنفر ہوتے ہیں﴿۲﴾ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرتا ہے کہ معاصی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاہوگی اور طاعات اور نیکیوں پر اچھا بدلہ دیا جائے گا اور یہ وحی ان کیلئے گناہوں اور معاصی سے روکنے کا باعث ہوتی ہے۔اور﴿۳﴾ تیسری صورت یہ ہے کہ ان انبیائ علیہم السلام کے درمیان اور معاصی کے درمیان اللہ تعالیٰ کسی لطیفہ غیبیہ کے ذریعے حائل ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت کو دانتوں میں انگلی دبائے ہوئے ظاہر کیا گیا۔
﴿العقیدۃ الحسنۃ مع البیان الازہر : ص ۳۹﴾
امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ''عصمت الانبیاء '' کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ''عصمت'' کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔
﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔
﴿۳﴾فتویٰ و اِجتہاد سے متعلق عصمت:
اِس بارے میں تمام اُمت کا اِجماع ہے کہ ان سے فتویٰ اور اجتہاد کے باب میں عمداً تو کوئی خطائ نہیں ہو سکتی البتہ بھول چوک ہو سکتی ہے﴿ لیکن اس پر بھی انہیں برقرار نہیں رکھا جاتا فوراً صحیح صورت حال بتادی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام کے اجتہاد کی توضیح کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(رح) رقم طراز ہیں:
ہاں احکام قسم ثانی میں گاہ بگاہ خطا کابھی احتمال ہوتا ہے اور اس لئے احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے .البتہ اتنی بات مقررہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی خطا کی اصلاح ضروری ہے اور اس دعوے پر احادیث کثیرہ شاہد ہیں''
﴿کیامقتدی پرفاتحہ واجب ہے؟ص۰:۵﴾
اس سے ان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے اعلی مرتبے پر فائز ہوتے ہیں کیوں کہ غلطی اور خطا سے صرف اللہ کی ذات ہی پاک ہے اور کوئی بھی اللہ کا ہم سر اور ثانی نہیں ہے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
اعتراض شدہ مواد معترض کے خیال کے موافق لکھا جارہا ہے جب تک آپ تحقیق عادل نہ فرمالیں آپ اسے اعتراض شدہ مواد نہیں کہہ سکتے۔
کیا کہوں بے سمجھ لوگوں کے درمیان پھنس گیا ہوں
محترم بھائی!
اعتراض شدہ مواد قرآن اور صحیح حدیث سے ٹکراتا ہو ،تو اس پر معترض ہونا ، نا سمجھی نہیں !
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
محترم بھائی!
اعتراض شدہ مواد قرآن اور صحیح حدیث سے ٹکراتا ہو ،تو اس پر معترض ہونا ، نا سمجھی نہیں !

موضوع دوسرا ہے اس پر ہم نے بحث نہیں کی ہمارا موضوع ہے کسی ایک عالم کے کلام میں بظاہر اگر تعارض معلوم ہو تو تطبیق دینے کا کیا طریقہ کار ہے۔

بشکریہ دوبارہ موضوع پڑھ لیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ''عصمت الانبیاء '' کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ''عصمت'' کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔
﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔
﴿۳﴾فتویٰ و اِجتہاد سے متعلق عصمت:
اِس بارے میں تمام اُمت کا اِجماع ہے کہ ان سے فتویٰ اور اجتہاد کے باب میں عمداً تو کوئی خطائ نہیں ہو سکتی البتہ بھول چوک ہو سکتی ہے﴿ لیکن اس پر بھی انہیں برقرار نہیں رکھا جاتا فوراً صحیح صورت حال بتادی جاتی ہے۔
عصمت انبیاء علیہم السلام پر صرف خوارج کا اور اہل تشیع کا اختلاف ہے
اس قول میں آدھا سچ اور آدھا جھوٹ ہے
جھوٹ یہ کہ اہل تشیع عصمت انبیاء کے قائل نہیں جبکہ اہل تشیع عصمت انبیاء کے قائل ہیں لیکن خوارج اس سے اختلاف رکھتے ہیں اور موجود دور میں یہ خوارج وہابی کے نام سے جانے جاتے ہیں اور یہ عصمت انبیاء علیہم السلام کے قائل نہیں اس کے لئے کسی کتاب کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں یہ دھاگہ ہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ وہابی اس بات پر زور دے رہیں کہ انبیاء سے خطاء ممکن ہے لیکن دیگر لوگ اس سے اپنی براءت کا اعلان کررہےہیں
انبیاء علیہم السلام کے اجتہاد کی توضیح کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(رح) رقم طراز ہیں:
ہاں احکام قسم ثانی میں گاہ بگاہ خطا کابھی احتمال ہوتا ہے اور اس لئے احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے .البتہ اتنی بات مقررہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی خطا کی اصلاح ضروری ہے اور اس دعوے پر احادیث کثیرہ شاہد ہیں''
﴿کیامقتدی پرفاتحہ واجب ہے؟ص۰:۵﴾
اس سے ان کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے اعلی مرتبے پر فائز ہوتے ہیں کیوں کہ غلطی اور خطا سے صرف اللہ کی ذات ہی پاک ہے اور کوئی بھی اللہ کا ہم سر اور ثانی نہیں ہے
جی ہاں مولوی قاسم نانوتی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کہ نبیاء علیہم السلام سےخطاء سرزد ہوجائے تو ء ٹھیک ایسی طرح جس طرح قاسم نانوتوی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبی آجائے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاتمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا
اب ایسے لوگوں کے اقوال بھی وہابیوں کے لئے حجت ہونے لگے جو عقیدہ ختم نبوت کے ہی منکر ہیں
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
بہرام صاحب بہتر ہوگا آپ جواب نہ دیں کیوں کہ بیجا اعتراض فرماکر نہ تو علمی جواب دیا آپ نے آخر میں بعض شیعہ مجتہدین کیطرح جذبات سے کھیلنے کی کوشش

پیارے آقا نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تمام انبیاء کرام خدا کے مختار بندے ہوتے ہیں مگر عملی زندگی میں ان سے بھی خطا کا سرزد ہونا قرآن وحدیث کی صریح آیات میں موجود ہے جسکی طرف میں نے اشارہ کردیا آپ بلاوجہ اسکو ایمان وکفر کا مسئلہ بناکر بیٹھ گئے اور جب آیات کا حوالہ دیا تو جواب دینے کے قابل نہ رہے میں آپ کی کم علمی کیوجہ سے اپنا جملہ (کوئی نبی) واپس لیتا ہوں آپ خوش رہیں۔

لفظ نبی کا جملہ لکھنے کا مقصد صرف یہ ہیکہ اگر نبی سے خطا کا سرزد ہونا محتمل ہے تو ولی کیونکر اس سے بری ہوگئے (یہ جملہ صرف اہل عقل وادنش کیلئے لکھ رہا ہوں)

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔
 
شمولیت
اپریل 06، 2013
پیغامات
138
ری ایکشن اسکور
346
پوائنٹ
90
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

جو حضرات اولیاء کرام کو بھی معصوم جانیں ان سے یہی امید تھی
قاسم نانوتوی اور حضرت شہید رح کو تو آپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا باقی رازی غزالی اور قاضی عیاض کو بھی کچھ کہدو تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے پھر آپکے اسلاف شیعہ نہیں تو پھر کون ہے؟
قاضی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی ذرا صحیح سے پڑھ کر آجاؤ یا پھر امام بخاری کی یہ حدیث پڑھ لو (صحيح البخاري (9/ 29) نمبر (۶۹۸۲)
باب اول ما بدئ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ
وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم [ص:30]، فيما بلغنا، حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه تبدى له جبريل، فقال: يا محمد، إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه، وتقر نفسه)


اگر عوام کی ناسمجھی کا خطرہ نہ ہوتا تو میں خود اسکا ترجمہ کردیتا اب یاتو امام بخاری کا ایمان بھی گیا یا کچھ اور فتوی آنے والا ہے یا امام بخاری بھی شاید وہابی تھے۔
اللہ تعالی لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ کیا کہوں اتنی بے علمی ہے۔ علم سے کوئی بات ہی نہیں کرتا ہمیشہ جذبات ہمارے عقل پر حاوی ہوجاتے ہیں
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
جو حضرات اولیاء کرام کو بھی معصوم جانیں ان سے یہی امید تھی
قاسم نانوتوی اور حضرت شہید رح کو تو آپ نے جو کہنا تھا کہہ دیا باقی رازی غزالی اور قاضی عیاض کو بھی کچھ کہدو تاکہ ہمیں یہ معلوم ہوسکے پھر آپکے اسلاف شیعہ نہیں تو پھر کون ہے؟
قاضی کی الشفا بتعریف حقوق المصطفی ذرا صحیح سے پڑھ کر آجاؤ یا پھر امام بخاری کی یہ حدیث پڑھ لو (صحيح البخاري (9/ 29) نمبر (۶۹۸۲)
باب اول ما بدئ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ
وفتر الوحي فترة حتى حزن النبي صلى الله عليه وسلم [ص:30]، فيما بلغنا، حزنا غدا منه مرارا كي يتردى من رءوس شواهق الجبال، فكلما أوفى بذروة جبل لكي يلقي منه نفسه تبدى له جبريل، فقال: يا محمد، إنك رسول الله حقا، فيسكن لذلك جأشه، وتقر نفسه)


اگر عوام کی ناسمجھی کا خطرہ نہ ہوتا تو میں خود اسکا ترجمہ کردیتا اب یاتو امام بخاری کا ایمان بھی گیا یا کچھ اور فتوی آنے والا ہے یا امام بخاری بھی شاید وہابی تھے۔
اللہ تعالی لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ کیا کہوں اتنی بے علمی ہے۔ علم سے کوئی بات ہی نہیں کرتا ہمیشہ جذبات ہمارے عقل پر حاوی ہوجاتے ہیں
بہرام صاحب کی تمام پوسٹوں میں آپ کو یہ چیز عام نظر آے گی ، حق بات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیا ر نہیں ہیں تعصب کا غلبہ ہے احادیث کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتے ہیں کہ یہ صحابی کا قول ہے اور صحابہ سے بغض تو ان کا طرہ امتیا ز ہے شاہ ولی اللہ کی بات کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے اسی طرح امام صاحب کی بات کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہین ہے اور بات کرتے ہوے یہ بھی نہیں سوچتے کہ بات کا مطلب کیا ہے ؟ امام ابو حنیفہ اور شاہ ولی اللہ ، امام رازی بھی وہابی ہیں ؟ یہ کیا ہی عجیب بے عقلی کی باتیں ہیں !!!
 
Top