محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کفار سے دوستی کی دنیا میں سزا
کفارچونکہ اللہ تعالیٰ کے دشمن ہیں اس لیے ان سے دوستی کرنا دراصل اللہ کے دشمنوں سے دوستی کرنا ہے،کفار کے مطالبات تسلیم کرنا،دراصل اللہ کے دشمنوں کے مطالبات تسلیم کرنا ہے۔کفار کے مفادات کا تحفظ کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے مفادات کا تحفظ کرنا ہے،لہذا اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت بڑا گناہ ہے جس کی دنیا میں بھی شدید ترین سزا ہے اور آخرت میں اس سے کہیں زیادہ شدید۔ہم قرآن کی آیات کے حوالہ سے ان دونوں سزاؤں کا یہاں الگ الگ تذکرہ کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے سعد فطرت لوگ اپنے آپ کو اس فتنہ عظیم سے محفوظ رکھنے کی ضرور کوشش کریں گے۔
کفار سے دوستی کی دنیا میں درج ذیل پانچ سزائیں ہیں:
اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محرومی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
۞ يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَتَّخِذُوا۟ ٱلْيَهُودَ وَٱلنَّصَٰرَىٰٓ أَوْلِيَآءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۢ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُۥ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلظَّٰلِمِينَ ﴿51﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ جو لوگ اسلام دشمن کافروں سے دوستی کریں گے اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی راہنمائی نہیں فرمائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محرومی کے بعد کون ہے جو کسی قوم کو خوشحالی یا کامیابی کا راستہ دکھا سکے؟عبرت کے لیے بنی اسرائیل کا واقعہ یاد کر لیجیے جب حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر نکلے تو بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینہ میں خیمہ زن ہوئے،اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اب تم لوگ ارض مقدس یعنی فلسطین پر فوج کسی کرو تم لوگ فاتح کی حیثیت سے شہر میں داخل ہو گے،بنی اسرائیل نے جہاد کرنے سے انکار کر دیا،کہنے لگےترجمہ: اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا (سورۃ المائدہ،آیت 51)
فَٱذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَٰتِلَآ إِنَّا هَٰهُنَا قَٰعِدُونَ ﴿24﴾
اللہ تعالیٰ نےانہیں اس نافرمانی کی سزا یہ دی کہ اپنی رہنمائی سے محروم فرما دیا ۔ارشاد فرمایا:ترجمہ: پس تم اور تمہارا رب جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے (سورۃ المائدہ،آیت 24)
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ ۛ أَرْبَعِينَ سَنَةًۭ ۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَٰسِقِينَ ﴿26﴾
اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محروم ہونے کے بعد چھ لاکھ افراد پر مشتمل یہ قوم صرف نوے (90)میل لمبے اور ستائیس (27) میل چوڑے علاقے سے مسلسل چالیس سال تک نکلنے کا راستہ تلاش کرتی رہی لیکن تلاش نہ کر سکی وہی جگہ جہاں سے بیسیوں مرتبہ گزر کر وہ اپنے ملک مصر جا چکے تھے ،واپس مصر جانے کے لیے راستہ تلاش کرتے تو مصر کا راستہ بھی نہ پا سکے۔ہوتا یہ کہ سارا دن سفر کرتے رہتے جب شام ہوتی تو معلوم ہوتا کہ پھر پھرا کر وہیں آ گئے ہیں جہاں صبح کے وقت تھے۔ترجمہ: اللہ نے فرمایا کہ وہ ملک ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دیا گیا (کہ وہاں جانے نہ پائیں گے اور جنگل کی) زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تو ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو (سورۃ المائدہ،آیت 26)
ان چالیس سالوں کے دوران حضرت ہارون علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور بنی اسرائیل کے وہ بزدل افراد ،جو جہاد سے جی چرانے والے تھے ،مرکھپ گئے،جذبہ جہاد سے سرشار نئی نوجوان نسل تیار ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا ان کی قیادت میں مجاہدین نے فوج کشی کی اور فاتح کی حیثیت سے ارض مقدس میں داخل ہوئے۔(معارف القرآن)
کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کا اپنی رہنمائی سے محروم فرمادینا ،بڑی سخت سزا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے محروم ہونے کے بعد وہ قوم اسی طرح بے منزل،بے ٹھکانہ اور بے مقصد سرگرداں پھرتی رہے گی جس طرح بنی اسرائیل پھرتی رہی۔
مَن يُضْلِلِ ٱللَّهُ فَلَا هَادِىَ لَهُۥ ۚ
اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومیترجمہ: جسے الله گمراہ کر دے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں (سورۃ الاعراف،آیت 186)
اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی اور اتحاد کرنے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنی نصرت سے محروم کر دیتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَئِنِ ٱتَّبَعْتَ أَهْوَآءَهُم بَعْدَ ٱلَّذِى جَآءَكَ مِنَ ٱلْعِلْمِ ۙ مَا لَكَ مِنَ ٱللَّهِ مِن وَلِىٍّۢ وَلَا نَصِيرٍ ﴿120﴾
اللہ تعالیٰ نے یہ بات رسول اکرم ﷺ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی ہے کہ اگر آپ ﷺ نے یہودونصاری کی باتیں مانیں اور ان کے مطالبات تسلیم کیے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جاؤ گے اور کوئی دوسرا تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:ترجمہ: اور اگر تم نے ان کی خواہشوں کی پیروی کی اس کے بعد جو تمہارے پاس علم آ چکا تو تمہارے لیے الله کے ہاں کوئی دوست اور مددگار نہیں ہوگا (سورۃ البقرۃ،آیت 120)
لَّا يَتَّخِذِ ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ ٱللَّهِ فِى شَىْءٍ
جس قوم سے اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اٹھا لیں اور اپنا تعلق ختم کر لیں اور اپنی رہنمائی سے محروم کر دیں اس کی مثال اس شخص سے مختلف کیسے ہو سکتی ہے جو اندھا بھی ہو،بہرا بھی ہو،گونگا بھی ہو اور کوئی دوسرا اس کی مدد کرنے والا بھی نہ ہو کیا ایسا شخص کبھی اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا تصور کر سکتا ہے؟ترجمہ: مؤمنوں کو چاہئے کہ مؤمنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں (سورۃ آل عمران،آیت 28)
خسارہ ہی خسارہ
یہ کفار سے دوستی کرنے اور ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی تیسری سزا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِن تُطِيعُوا۟ ٱلَّذِينَ كَفَرُوا۟ يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰٓ أَعْقَٰبِكُمْ فَتَنقَلِبُوا۟ خَٰسِرِينَ﴿149﴾
خسارے میں مبتلا ہونے سے مراد یہاں زندگی کے کسی ایک پہلو میں خسارہ نہیں بلکہ ہر طرح کا خسارہ ہے۔عقائد و نظریات میں خسارہ ،تہذیب و تمدن اور طرز معاشرت میں خسارہ ،اخلاق و کردار میں خسارہ ،عزت و وقار میں خسارہ،امن و سلامتی میں خسارہ،معاشی اور اقتصادی خسارہ،غرض زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں رہے گا جس میں مسلمان خسارے سے دوچار نہ ہوں۔ترجمہ: مومنو! اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر کر (مرتد کر) دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے (سورۃ آل عمران،آیت 149)
خسارے کے بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ خسارے کا مطلب ہمیشہ اعداد و شمار کا خسارہ نہیں ہوتا عین ممکن ہے ہے کہ اعداد و شمار کے اعتبار سے ملک کا خزانہ بھرا ہوا ہو لیکن اس کے مقابل آفات سماوی،طوفان،زلزلے،بیماریاں،قحط سالی وغیرہ اس کثرت سے آئیں کہ بھرا ہوا خزانہ بھی ان سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہو۔ایسی صورت حال بھی درحقیقت خسارہ ہی ہے جو اعداد و شمار میں نظر آنے والے خسارے سے کہیں زیادہ خطرناک خسارہ ہے۔جس قوم کو اللہ تعالیٰ خسارے سے دوچار کر دے اسے ساری دنیا مل کر بھی نفع پہنچانا چاہے تو نہیں پہنچا سکتی۔رسول اکرم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو یہ نصیحت فرمائی تھی (حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے) "اللہ تعالیٰ کے احکام کی حفاظت کر،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔اللہ تعالیٰ کو یاد کر تو اسے اپنے پاس پائے گا۔سوال کرنا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے کر۔مدد مانگنی ہو تو صرف اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اچھی طرح جان لے اگر سارے لوگ تجھے نفع پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جواللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے لوگ تجھے نقصان پہنچانے کے لیے اکھٹے ہو جائیں تو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔"(ترمذی)
ذلت اور رسوائی
کفار سے دوستی کی چوتھی سزا دنیا میں ذلت اور رسوائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ٱلَّذِينَ يَتَّخِذُونَ ٱلْكَٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِن دُونِ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ ٱلْعِزَّةَ فَإِنَّ ٱلْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًۭا﴿139﴾
جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کفار سے دوستی کر کے ہمیں عزت اور وقار حاصل ہو گا اللہ تعالیٰ انہیں خبردار فرما رہے ہیں ،سنو! عزت اور ذلت میرے ہاتھ میں ہے عزت اور وقار کا مالک میں ہوں ،لہذا جو لوگ میرے دشمنوں سے دوستی کر کے عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ ذلیل اور رسوا ہوں گے اور وقار وہی پائے گا جو میری طرف رجوع کرے گاترجمہ: جو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں عزت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو عزت تو سب اللہ ہی کی ہے (سورۃ النساء،آیت 139)
وَمَن يُهِنِ ٱللَّهُ فَمَا لَهُۥ مِن مُّكْرِمٍ ۚ
یہ بات یاد ہے کہ کفار کی اس دنیا میں شان و شوکت اور عزت بالکل عارضی اور ناپائیدار ہے اس سے کسی مسلمان کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے اس دنیا کے بعد آخرت میں ان کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہو گی،لہذا ان سے حاصل کی ہوئی عزت اور وقار بھی عارضی اور ناپائیدار ہو گا۔پھر آخرت میں ان کفار کے ساتھ ان کے دوستوں کے لیے بھی ہمیشہ ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عزت دنیا سے لے کر آخرت تک دائمی اور حقیقی عزت ہے جس کے بعد کسی کو ذلت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے :ترجمہ:اور جسے الله ذلیل کرتا ہے پھر اسے کوئی عزت نہیں دےسکتا (سورۃ الحج،آیت 18)
انه لا يذل من واليت ولايعز من عاديت
ندامت اور پشیمانی"بے شک جسے اللہ دوست رکھے وہ کبھی ذلیل نہیں ہوتا اور جس سے اللہ تعالیٰ دشمنی رکھے وہ کبھی عزت حاصل نہیں کرتا۔"(نسائی)
کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے پانچویں سزا یہ ہے کہ انہیں اس دنیا میں ہی کفار سے دوستی پر ندامت اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَتَرَى ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌۭ يُسَٰرِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰٓ أَن تُصِيبَنَا دَآئِرَةٌۭ ۚ فَعَسَى ٱللَّهُ أَن يَأْتِىَ بِٱلْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍۢ مِّنْ عِندِهِۦ فَيُصْبِحُوا۟ عَلَىٰ مَآ أَسَرُّوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ نَٰدِمِينَ ﴿52﴾
آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے جو اپنے آپ کو کسی مصیبت سے بچانے کے لیے کافروں سے دوستی کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بغیر ہم کسی نہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (جس کا مفہوم ہے) کہ جب ہم اہل ایمان کی نصرت کریں گے اور انہیں فتح عطا فرمائیں گے۔اس وقت یہ لوگ ندامت اور پشیمانی سے دوچار ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کا وعدہ برحق اور سچ ہے۔جس طرح رات کے بعد سحر کا طلوع ہونا لازمی امر ہے اسی طرح مجاہدین کی قربانیوں کے بعد اللہ تعالیٰ کی نصرت کا آنا اور حالات کا بدلنا لازمی امر ہے۔اُس وقت رات کی تاریکی پر خوش ہونے والے اور طلوع سحر کا انکار کرنے والے یقینا نادم اور شرمندہ ہوں گے۔ترجمہ: تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے سو قریب ہے کہ اللہ فتح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے) پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایا کرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے (سورۃ المائدہ،آیت 52)
حاصل کلام یہ ہے کہ کفار سے دوستی کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ پانچ سزائیں دنیا میں رکھی ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے محرومی
(2) اللہ تعالیٰ کی نصرت سے محرومی
(3) ہر لحاظ سے خسارہ ہی خسارہ
(4) ذلت اور رسوائی
(5) ندامت اور پشیمانی
اللہ تعالیٰ کے ارشادات کسی تصدیق یا تائید کے محتاج نہیں
وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ قِيلًۭا﴿122﴾
تاہم وطن عزیز نے گزشتہ 11 ستمبر کے بعد کفار کے ساتھ دوستی کا جو نیاسفر شروع کیا ہے اس کے نتائج دیکھ کر ہر صاحب بصیرت یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ زمینی حقائق کے مقابلہ میں آسمانی حقائق کس قدر ٹھوس اور سچے ہیں۔لمحہ بھر کے لیے پاکستان کی مشرق اور مغرب ،جنوب اور شمال کی سرحدوں پر ایک نظر ڈال کر دیکھ لیجیے اور اندرون ملک دینی،سیاسی،اقتصادی،معاشرتی اور اخلاقی اعتبار سے نیز امن و سلامتی کے حوالے سے حالات کا جائزہ لے کر غور فرمائیے مذکورہ بالا پانچ سزاؤں میں سے کون سی ایسی سزا ہے جس سے آج پاکستان بچا ہوا ہے؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور تاریخ کی شہادت سے کوئی سبق حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں یا ہمارے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیںترجمہ: اور اللہ سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے (سورہ النساء،آیت 122)
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ ﴿24﴾
ترجمہ: پھر کیوں قرآن پر غور نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں (سورۃ محمد ،آیت 24)
کتاب "دوستی اور دشمنی کتاب وسنت کی روشنی میں" از محمد اقبال کیلانی سےاقتباس
Last edited: