میں نے آپ سےخودپوچھاہے کہ کسی کی تصنیف میں کسی ایسی حدیث کے موجود ہونے سے جس کے ماخذ کا علم نہ ہو کیایہ ثابت ہوتاہے کہ وہی اس کا واضع ہے؟
عزیز آپ کی ان باتوں کا صاف مطلب ہے کہ
1۔ آپ کو ان کتب پر شک ہے جن کتب میں اس طرح کی لغو باتوں کو درج کیا گیا ہے۔مثلا مجموعہ رسائل، تحفہ اہلحدیث، ایضاح الادلہ ، فتح القدیر ، ہدایہ، در مختار ، عمدة القار ی،
2۔آپ کو یہ بھی لگ رہا ہے کہ یہ کتب مصنفین کے بعد تحریف کے مرتکب ہوئی ہیں۔ تو جب تحریف کی مرتکب ہوئی ہیں تو پھر چھوڑ کیوں نہیں دیتے ان کتب کو۔ یا پھر ان میں موجود اس طرح کی باتیں جب پیش کی جاتی ہیں تو اس پر بغیر بحث کیے مان کیوں نہیں لیتے۔
3۔اگر بقول آپ کے کہ یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ وہی مصنف ہی ان کا واضع ہے؟ تو بھائی جان احناف کی کتب میں ان باتوں کا وجود اس بات پر تو دال ہے ناں کہ ان کے واضع علمائے احناف ہی ہیں۔ چلو ایک منٹ کےلیے ہم اس بات کو تسلیم کرلیتے ہیں کہ اس بات کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ان کتب میں موجود ایسی بے ہودہ باتیں خود مصنفین نے ہی شامل کی ہیں؟ تو پھر آپ مجھے بتائیں یہ کن کی کرم فرمائیاں ہیں۔کیا مذہب حنفی سے وابستہ علماء اپنے اکابرین کی کتب کی اس طرح عزت کرتے ہیں۔ بعد میں جو من میں آیا وہ شامل کردیا اور جو جی میں آیا وہ نکال دیا۔
4۔آپ کی ان باتوں سے پورے مذہب حنفی کی کتب مشکوک ٹھہرتی ہیں کیونکہ ہوسکتا ہے اس میں جو باتیں شامل ہیں وہ مصنفین سے ثابت ہی نہ ہوں۔ کیا آپ مذہب حنفی کی کتب میں موجود تمام باتوں کو پہلے خود مصنف سے ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کو تسلیم کرتے ہیں۔
عزیز آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس اصولی بات کی طرف نہ آئیں اور مان لیں کہ چاہے مصنف نے یہ عظیم کام سرانجام دیا ہے یا پھر کسی اور نے۔ پر صریح جھوٹ ہے ہیں۔ اور پھر حیرانگی مجھے اس بات پر ہے کہ آپ نے ابھی تک تھریڈ ٹائٹل پر بھی غور نہیں کیا
’’کچھحنفی علماء کا حدیثیں گھڑنے کا ثبوت‘‘ یہاں حنفی علماء کا لفظ بھی ہے۔اس لفظ کی موجودگی میں آپ اس اصولی بات کا پیچھا نہیں کرسکتے۔ اس لیے آپ اصولی نہ بنیں آپ جو بات بیان ہے اس کو یا ثابت کریں یا پھر مان لیں کہ جھوٹ باندھا گیاہے۔ اور پھر ساتھ مجھے یہ بھی بتائیں کہ جس نے جھوٹ باندھا ہے اس کاحکم کیا ہے؟ بات دوبارہ کوٹ کردیتا ہوں۔
”آپ نمازپڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور ساتھ گدھی بھی تھی دونوں کی شرمگاہوں پر نظر پڑ تی رہی “۔ ( مجموعہ رسائل ص350ج3حوالہ نمبر198)
آپ اس اصولی بات کے جواب کودرکنارکرتے ہوئے ایک ذیلی بات کے جواب پر اصرار کررہے ہیں۔آپ اگراس اصولی بات کاجواب دے دیں تواس سے آپ کے مضمون میں موجود تمام مصنفین کی جانب وضع حدیث کی نسبت کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ فردافردابات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
آپ اس اصولی بات کے پیچھے نہ پڑیں ورنہ اس اصول کی پاسداری آپ کےلیے بھی مشکل ہوجائے گی۔ آپ سے گزارش ہے کہ جو بات بیان ہے اس پر ہی گفتگو کو رکھیں۔