ان دو عیبوں میں ایک ایسا عیب ہے جو الا ماشاء اللہ دین دار طبقے میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور وہ ہے تکبر۔۔۔اسكو ہم دوسرے الفاظ میں خود پسندی یا اپنی نیکیوں پر غرور بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔
شیطان ایک بہترین ماہر نفسیات ہے وہ اپنے ہر شکار کو اس کی نفسیات ملحوظِ خاطر رکھ کر بہکاتا ہے ۔۔۔دیندار طبقے کو وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ نماز نہ پڑھو یا زکاۃ نہ ادا کرو۔۔۔وہ انھیں ایسی برائیوں اور خرابیوں میں مبتلا کرتا ہے جو بظاہر چھپی ہوتی ہیں لیکن اتنی مہلک ہوتی ہیں کہ انسان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہیں ۔۔۔شیطان کے انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک تکبر ہے جس میں با آسانی دین دار طبقہ گرفتار ہو جاتا ہے
شیخ سعدی کی ایک حکایت کہیں پڑھی تھی ۔۔۔اس کی صحت کا تو پتہ نہیں لیکن بات درست ہے ۔۔وہ اور ان کا بیٹا تہجد کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے ۔۔۔معاً ان کے بیٹے نے سوئے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ایسی بات کہی جس سے کچھ خود پسندی کی بو آتی تھی ۔۔شیخ سعدی نے اپنے بیٹے سے کہا
یہ بات کرنے سے بہتر تھا تم ان کے ساتھ ہی جا کر سو جاتے
اپنی نیکیوں پر خود پسندی کا شکار ہو جانا اور اس بناء پر دوسروں کو حقیر جاننے لگنا۔۔۔اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے دل کو ٹٹولے تو دل کے نہاں خانوں میں یہ مہلک جذبہ موجود ہو گا اور یہی تکبر ہے ۔۔۔۔یاد رکھیے !!نیکی کرنے کی توفیق عطا ہو جانا اس ربِ کائنات کا انعام ہے جس کی دو انگلیوں میں بنی آدم کے دل ہیں۔۔۔اس توفیق پر سر شکر گزاری کے جذبے سے مزید جھک جانا چاہیے۔۔۔اس پر تکبر اور خود پسندی چہ معنی دارد۔۔؟؟؟؟؟
اگر کوئی شخص دین کی خدمت میں مصروف ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ دین اس کا یا اس کے کاموں کا محتاج نہیں ۔۔۔۔اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت معمولی پرندوں کے ذریعہ کی تھی۔۔۔اگر وہ ایسی توفیق کسی کو بخش دیتا ہے تو یہ اس کا احسان ہے اور احسان کا جواب نیاز مندی اور احسان مندی ہی ہونا چاہیے نہ کہ تکبر میں مبتلا ہونا جس کو مقلب القلوب نے اپنی چادر کھینچنے سے تشبیہ دی ہے
وثلاثةٌ لا تَسْأَلْ عَنهم : رجلٌ نازَع اللهَ رداءَه ؛ فإنَّ رداءَه الكِبْرُ ، وإزارَه العِزُّ ، ورجلٌ في شَكٍّ من أمرِ اللهِ ، والقانِطُ من رحمةِ اللهِ .
الراوي: فضالة بن عبيد المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1887
خلاصة حكم المحدث: صحيح
وأنهاك عن الكِبْرِ فإنه لا يدخلُ أحدٌ الجنةَ وفي قلبِه مثقالُ حبةٍ من خردلٍ من كِبْرٍ فقال معاذُ بنُ جبلَ يا رسولَ اللهِ من الكبرِ أن يكون لأحدِنا النَّعلانِ يلبَسُهما أو الدابةُ يركبُها أو الثيابُ يلبسُها أو الطعامُ يَجمعُ عليه أصحابَه قال فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لا ولكنَّ الكبرَ أن تُسفِّهَ الحقَّ وتَغمِصَ المؤمنَ
- يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ العِزُّ إِزارِي والكِبْرياءُ رِدائِي فمَن نازَعنِي شيئًا مِنهُما عذَّبتُه
الراوي: أبو سعيد الخدري و أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 2898
خلاصة حكم المحدث: صحيح