• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کھانے پینے اور پہننے میں فضول خرچی اور تکبر جائز نہیں

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کتاب الادب کی سولہویں حدیث کچھ یوں ہے
وعن عمرو ابن شعیب عن ابیہ عن جدہ رضی اللہ عنھم قال قال رسول اللہ ﷺکل واشرب والبس وتصدق فی غیر سرف ولا مخیلۃ ( اخرجہ ابو داؤد واحمد وعلقہ البخاری)
عمرو بن شعیب اپنے باپ سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
کھا پی پہن اور صدقہ کر جس میں فضول خرچی نہ ہو اور تکبر نہ ہو
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اللہ تعالی نے انسان کے لیے دنیا کی ہر طیب چیز حلال فرما دی ۔۔۔کھانے کی ہو‘ پینے کی‘ یا پہننے کی‘ رہنے کی‘ ہو یا کوئی سواری ہو صرف ہو چیزیں حرام فرمائیں جو خبیث ہیں اور انسان کے دین ‘ جسم ‘عقل مال یا عزت کے لیے نقصان دہ ہوں
اللہ تعالی فرماتے ہیں

ویحل لھم الطیبت ویحرم علیھم الخبائث
وہ پاکیزہ چیزیں حلال کرتا ہے اور گندی چیزیں ان پر حرام کرتا ہے

ھو الذی خلق لھم ما فی الارض جمیعا
وہی ذات ہے جس نے دنیا کی سب چیزیں تمہارے لیے بنائیں

قل من حرم زینۃ اللہ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق

تو کہہ جس زینت کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا فرمایا اس کو اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ہر حلال چیز انسان کے لیے مباح ہے اور اس کا استعمال کرنا پسندیدہ ۔۔۔۔اگر وہ حدیث میں بیان کردہ دو نقائص سے عاری ہو تو!!!

اسراف (فضول خرچی)
تکبر

یہ حلال چیزیں اس وقت ناجائز بن جائیں گی جب وہ ضرورت کی حد سے تجاوز کریں ۔۔۔مثلا اتنا کھانا پینا جو جسم کے لیے وبال بن جائے اور صحت کو نقصان پہنچائے یا اتنا صدقہ کرنا جو استطاعت سے زیادہ ہو پھر زیر بار ہو کر پریشان رہنا یا کھانے پینے اور صدقہ کرنے میں نمود و نمائش اور لوگوں سے اونچا ہونے کا مقصد دل میں رکھنا یہ سب چیزیں تکبر اور اسراف کے ذیل میں آتی ہیں اور ایک حلال اور طیب چیز کو ممنوع اور ناپسندیدہ بنا دیتی ہیں
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
ان دو عیبوں میں ایک ایسا عیب ہے جو الا ماشاء اللہ دین دار طبقے میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور وہ ہے تکبر۔۔۔اسكو ہم دوسرے الفاظ میں خود پسندی یا اپنی نیکیوں پر غرور بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔
شیطان ایک بہترین ماہر نفسیات ہے وہ اپنے ہر شکار کو اس کی نفسیات ملحوظِ خاطر رکھ کر بہکاتا ہے ۔۔۔دیندار طبقے کو وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ نماز نہ پڑھو یا زکاۃ نہ ادا کرو۔۔۔وہ انھیں ایسی برائیوں اور خرابیوں میں مبتلا کرتا ہے جو بظاہر چھپی ہوتی ہیں لیکن اتنی مہلک ہوتی ہیں کہ انسان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہیں ۔۔۔شیطان کے انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک تکبر ہے جس میں با آسانی دین دار طبقہ گرفتار ہو جاتا ہے
شیخ سعدی کی ایک حکایت کہیں پڑھی تھی ۔۔۔اس کی صحت کا تو پتہ نہیں لیکن بات درست ہے ۔۔وہ اور ان کا بیٹا تہجد کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے ۔۔۔معاً ان کے بیٹے نے سوئے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ایسی بات کہی جس سے کچھ خود پسندی کی بو آتی تھی ۔۔شیخ سعدی نے اپنے بیٹے سے کہا
یہ بات کرنے سے بہتر تھا تم ان کے ساتھ ہی جا کر سو جاتے
اپنی نیکیوں پر خود پسندی کا شکار ہو جانا اور اس بناء پر دوسروں کو حقیر جاننے لگنا۔۔۔اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے دل کو ٹٹولے تو دل کے نہاں خانوں میں یہ مہلک جذبہ موجود ہو گا اور یہی تکبر ہے ۔۔۔۔یاد رکھیے !!نیکی کرنے کی توفیق عطا ہو جانا اس ربِ کائنات کا انعام ہے جس کی دو انگلیوں میں بنی آدم کے دل ہیں۔۔۔اس توفیق پر سر شکر گزاری کے جذبے سے مزید جھک جانا چاہیے۔۔۔اس پر تکبر اور خود پسندی چہ معنی دارد۔۔؟؟؟؟؟
اگر کوئی شخص دین کی خدمت میں مصروف ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ دین اس کا یا اس کے کاموں کا محتاج نہیں ۔۔۔۔اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت معمولی پرندوں کے ذریعہ کی تھی۔۔۔اگر وہ ایسی توفیق کسی کو بخش دیتا ہے تو یہ اس کا احسان ہے اور احسان کا جواب نیاز مندی اور احسان مندی ہی ہونا چاہیے نہ کہ تکبر میں مبتلا ہونا جس کو مقلب القلوب نے اپنی چادر کھینچنے سے تشبیہ دی ہے


وثلاثةٌ لا تَسْأَلْ عَنهم : رجلٌ نازَع اللهَ رداءَه ؛ فإنَّ رداءَه الكِبْرُ ، وإزارَه العِزُّ ، ورجلٌ في شَكٍّ من أمرِ اللهِ ، والقانِطُ من رحمةِ اللهِ .
الراوي: فضالة بن عبيد المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1887
خلاصة حكم المحدث: صحيح


وأنهاك عن الكِبْرِ فإنه لا يدخلُ أحدٌ الجنةَ وفي قلبِه مثقالُ حبةٍ من خردلٍ من كِبْرٍ فقال معاذُ بنُ جبلَ يا رسولَ اللهِ من الكبرِ أن يكون لأحدِنا النَّعلانِ يلبَسُهما أو الدابةُ يركبُها أو الثيابُ يلبسُها أو الطعامُ يَجمعُ عليه أصحابَه قال فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لا ولكنَّ الكبرَ أن تُسفِّهَ الحقَّ وتَغمِصَ المؤمنَ

- يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ العِزُّ إِزارِي والكِبْرياءُ رِدائِي فمَن نازَعنِي شيئًا مِنهُما عذَّبتُه
الراوي: أبو سعيد الخدري و أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 2898
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
علوم دنیوی ہو یا علوم دینی ۔۔۔ جب کوئی فرد اس میں محض ”قابل ذکر اسناد و مقام“ وغیرہ حاصل کرتا ہے تو اسے اپنے آس پاس لوگوں کے مقابلہ ”علم کا غرور“ سا ہونے لگتا ہے، اور اس غرور کا علاج یہی ہے کہ وہ اپنے ہی شعبہ علم کی وسعتوں پہ نظر رکھے، جس سے وہ ہنوز بہت دووور ہے۔ بقول شاعر ع

ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت​
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
ان دو عیبوں میں ایک ایسا عیب ہے جو الا ماشاء اللہ دین دار طبقے میں کثرت سے پایا جاتا ہے اور وہ ہے تکبر۔۔۔اسكو ہم دوسرے الفاظ میں خود پسندی یا اپنی نیکیوں پر غرور بھی کہہ سکتے ہیں ۔۔۔۔
شیطان ایک بہترین ماہر نفسیات ہے وہ اپنے ہر شکار کو اس کی نفسیات ملحوظِ خاطر رکھ کر بہکاتا ہے ۔۔۔دیندار طبقے کو وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ نماز نہ پڑھو یا زکاۃ نہ ادا کرو۔۔۔وہ انھیں ایسی برائیوں اور خرابیوں میں مبتلا کرتا ہے جو بظاہر چھپی ہوتی ہیں لیکن اتنی مہلک ہوتی ہیں کہ انسان کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہیں ۔۔۔شیطان کے انہی ہتھکنڈوں میں سے ایک تکبر ہے جس میں با آسانی دین دار طبقہ گرفتار ہو جاتا ہے
شیخ سعدی کی ایک حکایت کہیں پڑھی تھی ۔۔۔اس کی صحت کا تو پتہ نہیں لیکن بات درست ہے ۔۔وہ اور ان کا بیٹا تہجد کی نماز پڑھنے میں مصروف تھے ۔۔۔معاً ان کے بیٹے نے سوئے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر ایسی بات کہی جس سے کچھ خود پسندی کی بو آتی تھی ۔۔شیخ سعدی نے اپنے بیٹے سے کہا
یہ بات کرنے سے بہتر تھا تم ان کے ساتھ ہی جا کر سو جاتے
اپنی نیکیوں پر خود پسندی کا شکار ہو جانا اور اس بناء پر دوسروں کو حقیر جاننے لگنا۔۔۔اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے دل کو ٹٹولے تو دل کے نہاں خانوں میں یہ مہلک جذبہ موجود ہو گا اور یہی تکبر ہے ۔۔۔۔یاد رکھیے !!نیکی کرنے کی توفیق عطا ہو جانا اس ربِ کائنات کا انعام ہے جس کی دو انگلیوں میں بنی آدم کے دل ہیں۔۔۔اس توفیق پر سر شکر گزاری کے جذبے سے مزید جھک جانا چاہیے۔۔۔اس پر تکبر اور خود پسندی چہ معنی دارد۔۔؟؟؟؟؟
اگر کوئی شخص دین کی خدمت میں مصروف ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ دین اس کا یا اس کے کاموں کا محتاج نہیں ۔۔۔۔اللہ نے اپنے گھر کی حفاظت معمولی پرندوں کے ذریعہ کی تھی۔۔۔اگر وہ ایسی توفیق کسی کو بخش دیتا ہے تو یہ اس کا احسان ہے اور احسان کا جواب نیاز مندی اور احسان مندی ہی ہونا چاہیے نہ کہ تکبر میں مبتلا ہونا جس کو مقلب القلوب نے اپنی چادر کھینچنے سے تشبیہ دی ہے


وثلاثةٌ لا تَسْأَلْ عَنهم : رجلٌ نازَع اللهَ رداءَه ؛ فإنَّ رداءَه الكِبْرُ ، وإزارَه العِزُّ ، ورجلٌ في شَكٍّ من أمرِ اللهِ ، والقانِطُ من رحمةِ اللهِ .
الراوي: فضالة بن عبيد المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 1887
خلاصة حكم المحدث: صحيح


وأنهاك عن الكِبْرِ فإنه لا يدخلُ أحدٌ الجنةَ وفي قلبِه مثقالُ حبةٍ من خردلٍ من كِبْرٍ فقال معاذُ بنُ جبلَ يا رسولَ اللهِ من الكبرِ أن يكون لأحدِنا النَّعلانِ يلبَسُهما أو الدابةُ يركبُها أو الثيابُ يلبسُها أو الطعامُ يَجمعُ عليه أصحابَه قال فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ لا ولكنَّ الكبرَ أن تُسفِّهَ الحقَّ وتَغمِصَ المؤمنَ

- يقولُ اللهُ عزَّ وجلَّ العِزُّ إِزارِي والكِبْرياءُ رِدائِي فمَن نازَعنِي شيئًا مِنهُما عذَّبتُه
الراوي: أبو سعيد الخدري و أبو هريرة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 2898
خلاصة حكم المحدث: صحيح
یہ تکبر تو اب ’’ دین دار طبقے ‘‘کی خاص پہچان ہے۔
حدیث کے الفاظ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ تکبر یہ نہیں کہ انسان اچھے کپڑے اور اچھا کھانا کھائے ، کیونکہ اللہ تعالی جمیل ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ ۔بلکہ تکبر یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو ’’حقیر ‘‘ اور ’’ کم تر ‘‘ سمجھے !
یہاں تو حال ہی یہی ہے !
اللہ تعالی عاجزی اور تقوی کا لباس عطا کرے۔آمین
والسلام علیکم !
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کھانے پینے کی حدجس سے نہیں گذرنا چاہیے ترمذی کی ایک روایت میں بیان ہوئی ہے۔۔۔۔۔معدکرب راوی ہیں آپ ﷺ نے فرمایا

ما ملاء ادمی وعاء شرا من بطن بحسب ابن ادم اکلات یقمن صلبہ فان کان لا محالۃ فثلث لطعامہ وثلث لشرابہ ثلث لنفسہ(ترمذی)
کسی آدمی نے کوئی برتن نہیں بھرا جو پیٹ سے زیادہ برا ہو ۔۔۔ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں ۔۔۔پس اگر اسے زیادہ کھائے بغیر کوئی چارہ نہ ہو تو تیسرا حصہ کھانے کے لیے ہے اور تیسرا پینے کے لیے اور تیسرا سانس لینے کے لیے

فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ إنَّ الكافرَ يأكلُ في سبعةِ أمعاءٍ وإنَّ المؤمنَ يأكلُ في معاءٍ واحدٍ
الراوي: أبو نضرة المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 5/34
خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح

آپ ﷺ نے فرمایا
مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
اس حدیث کی روشنی میں اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو افسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔اس وقت پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار فوڈ اور اس سے متعلقہ اموربن چکے ہیں۔۔۔ایک فائیو سٹار ہوٹل سے لے کر ایک معمولی ٹھیلے تک ہر ہر بندہ اپنی استطاعت کے مطابق اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے ۔۔۔۔ایک مارکیٹ میں اگر ہم دوکانوں کی اقسام کا جائزہ لیں تو سب سے زیادہ نمبر اسی بزنس کو ملیں ٔگے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک جگہ پر اگر ایسے دس سٹال ہیں تو سارے کے سارے رش سے بھرپور ہوں گے۔۔۔۔معلوم ایسا ہوتا ہے گویا پاکستانیوں کو کھانے پینے کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں۔۔۔۔۔۔اس سے ایک قوم کے رجحانات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
مردوں کے لباس میں حد سے گذرنا یہ ہے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو ‘ ریشم کا ہو ‘ عورتوں یا کفار کے مشابہہ ہو
اور عورتوں کے لباس میں اسراف کے ذیل میں وہ ساری صورتیں آجاتی ہیں جن سے شریعت نے منع فرمایا ہو
لباس میں تکبر یہ ہے کہ انسان اچھے کپڑے پہن کر دوسروں کو حقیر خیال کرے
 

ماریہ انعام

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 12، 2013
پیغامات
498
ری ایکشن اسکور
377
پوائنٹ
164
زیر نظر حدیث میں صدقے میں بھی تکبر اور اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔۔۔۔غور کیجیے صدقہ جو ایک انتہائی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے جب اس میں اسراف سے منع فرمایا گیا ہے تو دنیاوی امور میں یہ کیونکر قابلِ برواشت ہو سکتا ہے ۔۔۔
صدقہ میں اسراف کی وضاحت قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتی ہے

وَلا تَجعَل يَدَكَ مَغلولَةً إِلىٰ عُنُقِكَ وَلا تَبسُطها كُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلومًا مَحسورًا ﴿٢٩
اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت کیا ہوا درمانده بیٹھ جائے (29)

آپ ﷺ نے فرمایا
خيرُ الصَّدقةِ ما كانَ عَن ظَهْرِ غنًى ، وابدأ بِمَن تعولُ ، واليَدُ العليا خيرٌ منَ اليدِ السُّفلى قلتُ لأيُّوبَ : ما عَن ظَهْرِ غنًى ؟ قالَ : عَن فضلِ غِناكَ
الراوي: أبو هريرة المحدث: أحمد شاكر - المصدر: مسند أحمد - الصفحة أو الرقم: 14/162
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح


اور صدقہ کرنے میں تکبر یہ ہے کہ انسان اس عمل پر اپنے آپ کو بڑا نہ جانے بلکہ اسے اللہ کی عطا جان کر مزید عاجز ہو جائے
 
Top