محمد آصف مغل
سینئر رکن
- شمولیت
- اپریل 29، 2013
- پیغامات
- 2,677
- ری ایکشن اسکور
- 4,006
- پوائنٹ
- 436
-2 فحاشی کی سرپرستی
رسول اﷲﷺ نے فرمایا '' مرد، مرد کے ستر کو نہ دیکھے اور عورت، عورت کے ستر کو نہ دیکھے اور نہ مرد ،مرد کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ عورت، عورت کے ساتھ برہنہ ایک کپڑے میں لیٹے ۔'' (صحیح مسلم)
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
''اس سے واضح ہے کہ اسلام کس طرح بے حیائی کے دروازے کو بند کرنا چاہتا ہے۔ جب ایک مرد کا مرد کے ساتھ اور عورت کا عورت کے ساتھ بغیر کپڑے کے لیٹنا منع ہے تو مرد و عورت کے بے باکانہ اختلاط کو اسلام کس طرح گوارا کرسکتا ہے؟ جو مغرب میں عام ہے یہی اخلاق باختہ ثقافت (بلکہ کثافت) ٹیلی ویژن کے ذریعے سے اسلامی ملکوں میں پھیلائی جارہی ہے۔ مغرب زدہ حکمران اس گندگی ، بے حیائی اور اخلاقی باختگی کو ''ثقافت'' باور کروا رہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان مرتد حکمرانوں سے اسلامی ملکوں کو نجات عطا فرمائے ''۔ آمین (مترجم ریاض الصالحین)
اس بات کو آپ یوں سمجھیں کہ آپ نے محلوں اور بازاروں میں فحاشی اور عریانی کی تعلیم دینے والی پاکستانی اور انڈین فلموں کے اڈے ''ویڈیو سنٹرز'' ضرور دیکھے ہونگے۔ ان میں سنسر قوانین سے جواز کی باقاعدہ سند یافتہ ''قانونی'' فلمیں بھی ہیں۔ اگر آپ غلاظت سے لتھڑی ہوئی فلموں کو بزور بند کرانے کی کوشش کریں تو قانون کی رُو سے آپ نے ویڈیو سنٹرز کے مالکان کو ان کے ''جائز'' کاروبار سے منع کرکے قانون کا ''تقدس'' پامال کیا اور قانون کی رو سے آپ نے ایسا کرکے جرم کیا۔ اگر کوئی بااختیار افسر ''مذہبی شوق'' میں فحاشی پھیلانے والے سینما گھروں کے ''جائز'' کاروبار میں رکاوٹ ڈالے تو قانون کی رُوسے اس نے ''معزز'' شہریوں کو ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا ''جرم'' کیا۔ اللہ کے دین میں یہ جرم ضرور ہوگا مگر قانونِ پاکستان کی نظر میں یہ ہرگز جرم نہیں کہ فلم انڈسٹری میں شوٹنگ کے بہانے ایک جوان مرد ایک خوبصورت نوجوان لڑکی کے ساتھ رقص کرتا اور لپٹتا ہے ، گندگی کے یہ سین (مناظر) ریکارڈ کرانے میں قانون اس کی راہ میں حائل نہیں ہے بلکہ فلم کو انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے۔کتاب و سنت میں پردے کا حکم ہے جبکہ سینما گھروں میں جو کچھ دکھایا جاتا ہے وہ اﷲ کے احکامات کی واضح مخالفت بلکہ بغاوت ہے۔ اپنی فلموں اور گانوں کے ذریعے لوگوں کو فحاشی پر اُبھارنے والی فلم ایکٹرس نورجہاں اور فلم ایکٹر دلیپ کمار کو اس ملک کے صدر رفیق تارڑ نے تمغہ امتیاز دیا۔ کون نہیں جانتا کہ ان معاملات میں قرآن کی آیات نہیں قانون کی دفعات معتبر ہیں؟ پھر بتائیے اس نظام میں قرآن کا مسجد کے علاوہ کونسا مقام رہ جاتا ہے؟ یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنانے کے بعد اب اس نظام میں حاکمیت صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے؟