• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا آپ اس کالم نگار سے متفق ہیں؟

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
میں تو انتہائی کم علم آدمی ہوں آپ کے علم میں یقیناًہوگا کہ بر صغیر پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے کچھ علماء کرام نے انگریزی سیکھنے کو بھی حرام قرار دیا تھا۔
یہ مقاطعہ کے لئے تھا نہ کہ مطلقاً۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اب علماء کرام شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لئے تصویر جائز قرار دیتے ہیں لیکن تصویر کھینچنے والے کام کو ناجائز کہتے ہیں۔
وہی علماء کرام اس وقت بھی اور آج کے علماء کرام اب بھی دیگر تصاویر کو ناجائز ہی کتے ہیں تفصیل کسی عالم سے بالمشافہ پوچھ لیں۔
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
جناب میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا ان میں سے اکثر باتیں محترم خضر حیات صاحب اور بقیہ اصول محترم عبدالرحمن بھٹی صاحب نے پیش کردیا یہی اصل ہے ، البتہ مزید اس حوالے سے میں اپنا حصہ اسی بارے میں ڈال دیتا ہوں، جو نکتہ آخر میں دوبارہ اٹھایا گیا ہے۔ یعنی کسی سائنسی ایجاد سے علماء کا پہلے روکنا اور پھر اجازت دینا ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر نئی چیز کے ابتدائی ادوار میں اس چیز کے حوالے سے خاصے پردے ہوتے ہیں ، یعنی اس کے تمام زاویے واضح نہیں ہوتے اور جس حدتک اس کے فہم کے حوالے سے نقص ہوتا ہے اسی حد تک اس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے اور کلی طور پر کسی ایک جانب کو تقویت نہیں مل پاتی ، شریعت کا حکم ہے مشتبہات میں داخل ہونا گویا کہ حرام میں داخل ہونا ہے اس لیے اس سے بچو۔(صحیح بخاری:2051) اسی نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے علماء اس مشتبہ چیز سے روکنا شروع کردیتے ہیں۔ اور احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ پھر جیسے جیسے اس چیز کا استعمال بڑھتا ہے اس سے متعلقہ پردے بھی واضح ہوتے جاتے ہیں ، علماء کے مابین بھی اس کی حلت و حرمت کے حوالے سے گفتگو چلتی ہے ، جو اس کے بارے میں حلال و حرام کے حوالے سے کسی ایک جانب کے تعین کا سبب بن جاتی ہے۔
تو علماء کا پہلے حرام قرار دینا بھی صحیح تھا کیونکہ احتیاط کا تقاضہ یہی تھا ، اور اس چیز کے تمام زاویے واضح نہ تھے۔
بعد میں حلال قرار دینا بھی صحیح کیونکہ اس سے متعلقہ شکوک و شبہات مرتفع ہوچکےہوتے ہیں۔
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
اب علماء کرام شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے لئے تصویر جائز قرار دیتے ہیں لیکن تصویر کھینچنے والے کام کو ناجائز کہتے ہیں۔
علماء نے اسے علی الاطلاق جائز قرار نہیں دیا بس عام آدمی کو اس حوالے سے مضطر کی حیثیت میں شمار کیا ہے یعنی وہ بری ہے اور معاملہ حکومت یا حکومتی اداروں کے ذمہ ہے۔ اس طرح کی تمام جدید چیزوں کے بارے میں یہی حکم لاگو ہوگا جس میں عام آدمی کے بس میں کچھ نہ ہو اور وہ چیز حرام ہو۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
جناب میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا ان میں سے اکثر باتیں محترم خضر حیات صاحب اور بقیہ اصول محترم عبدالرحمن بھٹی صاحب نے پیش کردیا یہی اصل ہے ، البتہ مزید اس حوالے سے میں اپنا حصہ اسی بارے میں ڈال دیتا ہوں، جو نکتہ آخر میں دوبارہ اٹھایا گیا ہے۔ یعنی کسی سائنسی ایجاد سے علماء کا پہلے روکنا اور پھر اجازت دینا ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر نئی چیز کے ابتدائی ادوار میں اس چیز کے حوالے سے خاصے پردے ہوتے ہیں ، یعنی اس کے تمام زاویے واضح نہیں ہوتے اور جس حدتک اس کے فہم کے حوالے سے نقص ہوتا ہے اسی حد تک اس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے اور کلی طور پر کسی ایک جانب کو تقویت نہیں مل پاتی ، شریعت کا حکم ہے مشتبہات میں داخل ہونا گویا کہ حرام میں داخل ہونا ہے اس لیے اس سے بچو۔(صحیح بخاری:2051) اسی نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے علماء اس مشتبہ چیز سے روکنا شروع کردیتے ہیں۔ اور احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ پھر جیسے جیسے اس چیز کا استعمال بڑھتا ہے اس سے متعلقہ پردے بھی واضح ہوتے جاتے ہیں ، علماء کے مابین بھی اس کی حلت و حرمت کے حوالے سے گفتگو چلتی ہے ، جو اس کے بارے میں حلال و حرام کے حوالے سے کسی ایک جانب کے تعین کا سبب بن جاتی ہے۔
تو علماء کا پہلے حرام قرار دینا بھی صحیح تھا کیونکہ احتیاط کا تقاضہ یہی تھا ، اور اس چیز کے تمام زاویے واضح نہ تھے۔
بعد میں حلال قرار دینا بھی صحیح کیونکہ اس سے متعلقہ شکوک و شبہات مرتفع ہوچکےہوتے ہیں۔
السلام علیکم

بھائی مجھے صرف یہ اشکال تھا کہ اس وجہ سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال حرام ہے۔
موبائل ، انٹرنیٹ ، وغیرہ کا غلط استعمال حرام ہے۔ یعنی ان چیزوں کی حیثیت ذریعہ کی ہے اگر اچھے کام کے لیے استعمال ہورہا ہے تو حلال اور اگر ناجائز کام کا سبب بن رہا ہے تو حرام۔
 
شمولیت
جولائی 07، 2014
پیغامات
155
ری ایکشن اسکور
51
پوائنٹ
91
بھائی مجھے صرف یہ اشکال تھا کہ اس وجہ سے مسلمان ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے۔
ہر نئی چیز ترقی نہیں ہوئی کرتی ہمیں دنیا کی ایسی ترقی ہرگز نہیں چاہییے کہ جو ہمیں دین سے دور کردے۔
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کا غلط استعمال حرام ہے۔
علماء نے سپیکر کو اذان کے لئے (نہ کہ تقاریر وغیرہ کے لئے) اس لئے منع کیا کہ اذان انسان دے نہ کہ مشین۔اسوقت کے علماء اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ مشین مؤذن کی آواز کو بڑھانے کا کام کرتی ہے اور کچھ نہیں۔ جب رک انہیں اس بات کی تحقیق نہ ہوئی ناجائز کہتے رہے جب تحقیق ہوگئی تو جائز قرار دے دیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مجتہد اپنی خطا سے مطلع ہوکر اس سے رجوع کر لیتا ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
ہر نئی چیز ترقی نہیں ہوئی کرتی ہمیں دنیا کی ایسی ترقی ہرگز نہیں چاہییے کہ جو ہمیں دین سے دور کردے۔
محترم ہر نئی ایجاد ترقی ہی ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ ایجا د کس نوعیت کی ہے ۔ اور اس کا استعمال کس مقصد کے تحت کیا جارہا ہے ۔
اب اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ انٹر نیٹ پر بھی پابندی کا فتوی لگے کیوں اس سے اچھے کام کم اور برائیاں زیادہ ہوتی ہیں یہی حال موبائل فون کا ہے ۔محض جذباتیت کسی چیز کا حل نہیں۔مسلمانوں نے جب سے علم کو پس پشت ڈالا وہ دوسروں کے رحم و کرم پر رہ گئے ۔ جس وقت بر صغیر میں تاج محل بن رہے تھے یورپ اور امریکہ میں یونیورسٹیاں تعمیر ہورہی تھیں۔ کفار ہم سے اس لئے ہی آگے بڑھے ہیں کہ انہوں نے علم کے میدا ن میں ترقی کی ہے ۔
ہمیں تو ایک دوسرے کا کافر بنانے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔
 
Top