جناب میں جو باتیں کرنا چاہتا تھا ان میں سے اکثر باتیں محترم خضر حیات صاحب اور بقیہ اصول محترم عبدالرحمن بھٹی صاحب نے پیش کردیا یہی اصل ہے ، البتہ مزید اس حوالے سے میں اپنا حصہ اسی بارے میں ڈال دیتا ہوں، جو نکتہ آخر میں دوبارہ اٹھایا گیا ہے۔ یعنی کسی سائنسی ایجاد سے علماء کا پہلے روکنا اور پھر اجازت دینا ۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ ہر نئی چیز کے ابتدائی ادوار میں اس چیز کے حوالے سے خاصے پردے ہوتے ہیں ، یعنی اس کے تمام زاویے واضح نہیں ہوتے اور جس حدتک اس کے فہم کے حوالے سے نقص ہوتا ہے اسی حد تک اس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جس میں شک و شبہ کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے اور کلی طور پر کسی ایک جانب کو تقویت نہیں مل پاتی ، شریعت کا حکم ہے مشتبہات میں داخل ہونا گویا کہ حرام میں داخل ہونا ہے اس لیے اس سے بچو۔(صحیح بخاری:2051) اسی نکتہ کو سامنے رکھتے ہوئے علماء اس مشتبہ چیز سے روکنا شروع کردیتے ہیں۔ اور احتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ پھر جیسے جیسے اس چیز کا استعمال بڑھتا ہے اس سے متعلقہ پردے بھی واضح ہوتے جاتے ہیں ، علماء کے مابین بھی اس کی حلت و حرمت کے حوالے سے گفتگو چلتی ہے ، جو اس کے بارے میں حلال و حرام کے حوالے سے کسی ایک جانب کے تعین کا سبب بن جاتی ہے۔
تو علماء کا پہلے حرام قرار دینا بھی صحیح تھا کیونکہ احتیاط کا تقاضہ یہی تھا ، اور اس چیز کے تمام زاویے واضح نہ تھے۔
بعد میں حلال قرار دینا بھی صحیح کیونکہ اس سے متعلقہ شکوک و شبہات مرتفع ہوچکےہوتے ہیں۔