• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں ؟؟؟

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
یہ دعوی کرنا کہ ائمہ اربعہ کے بعد بڑے بڑے ائمہ حنفی ہیں یا شافعی و حنبلی تو یہ محض ایک واہمہ ہے اس قسم کا انتساب ان علماے کرام کے ساتھ طریقہ اجتہاد میں موافقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تقلید کی وجہ سے،امام محمد اور قاضی ابو یوسف بھی محض اسی بنا پر حنفی ہیں ورنہ فروع کے علاوہ اصول میں بھی انھوں نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔علامہ لکھنوی شیخ شہاب الدین سے نقل کرتے ہیں:
"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کی یہاں ایک فہرست ہے ،لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "
اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
کیا تقلید کے متوالے اس بارے سوچنا پسند کریں گے کہ ان کی یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ تمام حنفی علما اصول میں امام صاحب کے مقلد ہین
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ صاحب!
بات کیا ہو رہی ہے اور آپ نے جواب کیا دیا ہے ۔ بات نسبت کی ہے اور آپ اس کو جرح و تعدیل کی طرف لے گئے ہیں


میں کس طرف لے گیا ہوں اور کیا عرض کیا ہے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے۔ میں نے یہی بتایا ہے کہ یہ نسبت اسی طرح کی جاتی ہے۔ اکثر اوقات کوئی اپنے بارے میں نہیں بتاتا۔

جب ایک عالم خود کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ میں کسی کا مقلد نہیں ہوں تو آپ اس کو مقلد کیون ثابت کرنا چاہتے ہیں اور شاہ صاحب کا کسی ایسے فقیہ کو کسی کی طرف منسوب کر دینا نامناسب ہے جو خود کو مقلد نہین سمجھتا ،جیسا کہ ان علما نے وضاحت کی ہے:آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو آپ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
یہ صراحت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ محدثین کسی کو بھی اپنے لیے قابل تقلید نہیں سمجھتے تھے یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے کہ محدثین کسی کے مقلد تھے،امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
': اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔
اتنی واضح بات کے باوجود بھی آپ یہ کہیں کہ یہ لوگ مقلد ہیں تو میری آپ سے معذرت ہے اور جہاں تک شاہ صاحب کا تعلق ہے تو مجھے ان کا ایک صریح اور غیر معارض قول ثابت کر دیں کہ وہ کس کے مقلد ہیں

غالبا جناب پوسٹ پڑھنے کی کوشش ہی نہیں فرماتے۔
دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم اشماریہ صاحب!
بات کیا ہو رہی ہے اور آپ نے جواب کیا دیا ہے ۔ بات نسبت کی ہے اور آپ اس کو جرح و تعدیل کی طرف لے گئے ہیں


میں کس طرف لے گیا ہوں اور کیا عرض کیا ہے دوبارہ ملاحظہ فرمائیے۔ میں نے یہی بتایا ہے کہ یہ نسبت اسی طرح کی جاتی ہے۔ اکثر اوقات کوئی اپنے بارے میں نہیں بتاتا۔

جب ایک عالم خود کے بارے میں یہ کہہ رہا ہے کہ میں کسی کا مقلد نہیں ہوں تو آپ اس کو مقلد کیون ثابت کرنا چاہتے ہیں اور شاہ صاحب کا کسی ایسے فقیہ کو کسی کی طرف منسوب کر دینا نامناسب ہے جو خود کو مقلد نہین سمجھتا ،جیسا کہ ان علما نے وضاحت کی ہے:آپ خود ہی دیکھ لیں کہ جن کو آپ مقلدین حنفی یا شافعی کہتے ہیں وہ خود اپنے بارے میں کیا لکھتے ہیں ۔علامہ شامی لکھتے ہیں :الأئمۃ الشافعیۃ کالقفال والشیخ ابن علی والقاضی حسین رحمہ اﷲ أنھم کانوا یقولون لسنا مقلدین للشافعی رحمہ اﷲ بل وافق رأینا رأیہ ویقال مثلہ فی أصحاب أبي حنیفۃ مثل أبی یوسف رحمہ اﷲ ومحمد رحمہ اللہ بالأولی وقد خالفوہ فی کثیر من الفروع۔ (عقود رسم المفتی ص ۲۵)
یہ صراحت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ محدثین کسی کو بھی اپنے لیے قابل تقلید نہیں سمجھتے تھے یہ صرف آپ کی خام خیالی ہے کہ محدثین کسی کے مقلد تھے،امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب شرح معانی الأثار میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بے شمار مسائل رد کئے ہیں ۔
قال الطحاوی لا بن حربویہ لا یقلد الا عصبي أو غبي (عقود رسم المفتی ص۲۶)
': اما م طحاوی امام ابن حربویہ سے کہتے ہیں تقلید تو متعصب یا بے وقوف ہی کرتا ہے۔
اتنی واضح بات کے باوجود بھی آپ یہ کہیں کہ یہ لوگ مقلد ہیں تو میری آپ سے معذرت ہے اور جہاں تک شاہ صاحب کا تعلق ہے تو مجھے ان کا ایک صریح اور غیر معارض قول ثابت کر دیں کہ وہ کس کے مقلد ہیں

غالبا جناب پوسٹ پڑھنے کی کوشش ہی نہیں فرماتے۔
دوبارہ ملاحظہ فرمائیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ دعوی کرنا کہ ائمہ اربعہ کے بعد بڑے بڑے ائمہ حنفی ہیں یا شافعی و حنبلی تو یہ محض ایک واہمہ ہے اس قسم کا انتساب ان علماے کرام کے ساتھ طریقہ اجتہاد میں موافقت کی وجہ سے ہے نہ کہ تقلید کی وجہ سے،امام محمد اور قاضی ابو یوسف بھی محض اسی بنا پر حنفی ہیں ورنہ فروع کے علاوہ اصول میں بھی انھوں نے امام ابو حنیفہ کی مخالفت کی ہے۔علامہ لکھنوی شیخ شہاب الدین سے نقل کرتے ہیں:
"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کی یہاں ایک فہرست ہے ،لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "
اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
کیا تقلید کے متوالے اس بارے سوچنا پسند کریں گے کہ ان کی یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ تمام حنفی علما اصول میں امام صاحب کے مقلد ہین
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"
آپ کی اس پوسٹ پر بغیر تحقیق کیے اپنی ایک پوسٹ کا حوالہ پیش کر دیتا ہوں جو امید ہے آپ نے حسب عادت نہیں پڑھی ہوگی۔
سب سے پہلے تو ایک بات عرض کردوں کہ میں اس بات کا ہرگز قائل نہیں ہوں کہ ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد تھا ہی نہیں اور غالبا احناف میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے۔ میں اس بات کو پہلے ذکر بھی کرچکا ہوں غالبا۔
دوسری بات یہ کہ ایسے علماء کو بھی مقلد شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ یہ مجتہد فی المذہب یا مجتہد منتسب کے درجے کے ہوتے ہیں اور اصول میں اکثر کسی امام کی پیروی کی وجہ سے ان کے بعض اجتہاد ان سے ملتے ہیں جس کی وجہ سے وہ ان کی تقلید کرتے ہیں۔ اس بات کو شاہ صاحبؒ نے الانصاف میں ذکر کیا ہے۔ ان کی عبارت یہ ہے:۔

فقد قال الرافعي في أول كتاب الزكاة من الشرح تفرد ابن جرير لا يعد وجها في مذهبنا وان كان معدودا في طبقات أصحاب الشافعي قال النووي في التهذيب ذكره أبو عاصم العبادي في الفقهاء الشافعية فقال هو من أفراد علمائنا وأخذ فقه الشافعي على الربيع المرادي والحسن الزعفراني انتهى ومعنى انتسابه إلى الشافعي أنه جرى على طريقته في الاجتهاد واستقراء الأدلة وترتيب بعضها على بعض ووافق اجتهاده وإذا خالف أحيانا لم يبال بالمخالفة ولم يخرج عن طريقه إلا في مسائل وذلك لا يقدح في دخوله في مذهب الشافعي
ومن هذا القبيل محمد بن إسماعيل البخاري فانه معدود في طبقات الشافعية
وممن ذكره في طبقات الشافعية الشيخ تاج الدين السبكي وقال إنه تفقه بالحميدي والحميدي تفقه بالشافعي واستدل شيخنا العلامة على ادخال البخاري في الشافعية بذكره في طبقاتهم وكلام النووي الذي ذكرناه شاهد له وذكر الشيخ تاج الدين السبكي في طبقاته ما لفظه كل تخريج أطلقه المخرج إطلاقا فظهر أن ذلك المخرج إن كان ممن يغلب عليه المذهب والتقليد كالشيخ أبي حامد والقفال عد من المذهب وان كان ممن يكثر خروجه كالمحمدين الأربعة يعني محمد بن جرير ومحمد بن خزيمة ومحمد بن نصر المروزي ومحمد بن المنذر فلا يعد أما المزني وبعده ابن شريح فبين الدرجتين لم يخرجوا خروج المحمدين ولم يتقيدوا بقيد العراقيين والخراسانيين انتهى
وممن ذكره السبكي في طبقاته الشيخ أبا الحسن الأشعري إمام أهل السنة والجماعة وقال إنه معدود من الشافعية فانه تفقه بالشيخ أبي إسحاق المروزي انتهى قول ابن زياد
ومن شواهد ما ذكره أيضا ما في كتاب الأنوار حيث قال والمنتسبون إلى مذهب الشافعي وأبي حنيفة ومالك وأحمد أصناف
أحدها العوام وتقليدهم للشافعي متفرع على تقليد المنتسب
الانصاف ص76 ط دار النفائس

اس حوالے میں اس تھریڈ میں موجود بہت سی چیزوں کا ذکر آجاتا ہے۔ جیسے امام شافعی کا مجتہد منتسب ہونا، اور قفال وغیرہ کا شافعی ہونا۔
یہاں یہ بات یاد رہے کہ مجتہد فی المذہب کی تقلید اور عامی کی تقلید میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آپ لوگ انہیں مقلد کہنے پر اگر عامی کی طرح مقلد سمجھ رہے ہیں تو یہ آپ کی غلطی ہے۔
لیکن مجھے اگر وقت ملا تو ان شاء اللہ تفصیلا بھی لکھوں گا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
آپ کی اس پوسٹ پر بغیر تحقیق کیے اپنی ایک پوسٹ کا حوالہ پیش کر دیتا ہوں جو امید ہے آپ نے حسب عادت نہیں پڑھی ہوگی۔
جن لوگوں کے بارے میں آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ مقلد تھے وہ خود اس بات کے انکاری ہیں کہ ہم کسی کے بھی مقلد صر ف ہماری راے ان کی راے سے مل گئی ہے ، مزا تو تب ہے کہ یہ خود اس بات کا اعتراف کریں کہ ہم فلاں کے مقلد ہیں صرف اجتہادی راے کی موافقت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی کسی کا مقلد بن گیا ، اگر کوئی مورخ کسی کا انتساب کسی امام کی طرف کر دے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کا آپس میں تقلید کا رشتہ ہے جیسا کہ اس پہلے وضاحت کر دی گئی ہے،اور دوبارہ بھی اسی کو پیش کر رہا ہوں :"ولکل واحد منہم اصول مختصۃ تفردوا بہا عن ابی حنیفۃ و خالفوہ فیہا"(النافع الکبیر:ص۹۹
"ان میں سے ہر ایک کے مخصوص اصول ہیں جن میں انھوں نے امام ابوحنیفہ کی مخالفت کی ہے"

ایسی باتوں کی یہاں ایک فہرست ہے ،لیکن ہم یہاں صرف نمونے کے طورپر امام محمد کا ایک قول نقل کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں:
وَقَدْ اسْتَبْعَدَ مُحَمَّدٌ - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْلَ أَبِي حَنِيفَةَ فِي الْكِتَابِ لِهَذَا وَسَمَّاهُ تَحَكُّمًا عَلَى النَّاسِ مِنْ غَيْرِ حُجَّةٍ فَقَالَ مَا أَخَذَ النَّاسُ بِقَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ إلَّا بِتَرْكِهِمْ التَّحَكُّمَ عَلَى النَّاسِ.فَإِذَا كَانُوا هُمْ الَّذِينَ يَتَحَكَّمُونَ عَلَى النَّاسِ بِغَيْرِ أَثَرٍ، وَلَا قِيَاسٍ لِمَ يُقَلِّدُوا هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، وَلَوْ جَازَ التَّقْلِيدُ كَانَ مَنْ مَضَى مِنْ قَبْلِ أَبِي حَنِيفَةَ مِثْلُ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَإِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ رَحِمَهُمَا اللَّهُ أَحْرَى أَنْ يُقَلَّدُوا(المبسوط للسرخسی:ج۱،ص۲۸
"کہ امام محمد نے امام ابو حنیفہ کے قول کو" الکتاب"میں بعید قرار دیا ہے اور اس کا نام تحکم اور سینہ زوری رکھا ہے اور کہا ہے کہ اگر تقلید جائز ہوتی تو جوحضرات امام ابو حنیفہ سے پہلے گزر چکے ہیں ، مثلا:حسن بصری اور ابراہیم نخعی وہ زیادہ حق دار ہیں کہ ان کی تقلید کی جاے "

اب بھی یہ کہنا کہ بعد میں آنے والے لوگ اصول میں ائمہ اربعہ کے مقلد تھے جہالت اور اندھی تقلید کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اسی طرح امام طحاوی بھی حنفی معروف ہیں، حالاں کہ ان کے بارے لکھنوی صاحب رقم طراز ہیں"
"ولہم اختیارات فی الاصول والفروع" ( النافع الکبیر:۱۰۰
کہ اصول اور فروع میں ان سب کو اختیار ہے"
کیا تقلید کے متوالے اس بارے سوچنا پسند کریں گے کہ ان کی یہ بات سو فیصد غلط ہے کہ تمام حنفی علما اصول میں امام صاحب کے مقلد ہین
بلکہ جب قاضی ابو عبید جرثومہ کے ساتھ امام طحاوی کی گفتگو ہوئی تو انھوں نے صاف کہہ دیا:
"أو کل ما قالہ ابو حنیفہ أقول فقال ما ظننتک الا مقلدا، فقلت لہ و ہل یقلد الا عصی فقال لی أو غبی"(لسان المیزان:ج ۱ ،ص۲۷۰
"کیا امام ابو حنیفہ کا ہر قول میر اقول ہے، تو انھوں نے (قاضی) کہا کہ میں تو تم کو مقلد سمجھتا ہوں تو میں نے کہا کہ تقلید تو وہی کرتا ہے جو گنہگار ہے یا غبی کم عقل ہے"
اتنی وضاحت کے باوجود بھی ان لوگوں کو مقلد ہی قرار دینا کہاں کا انصاف ہے،اگر تقلید جائز ہوتی تو ان سے پہلے اور بعد میں بڑی بڑی ہستیاں موجود تھیں ان کی تقلید ہونی چاہیے تھی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
علامہ نووی نے توامام ابو اسحاق شیرازی سے نقل کیا ہے:
والصحيح الذي ذهب إليه المحققون ما ذهب إليه اصحابنا وهو انهم صاروا إلى مذهب الشافعي لا تقليدا له بل لما وجدوا طرقه في الاجتهاد والقياس
کہ ہماری اکثر علماے شافعیہ اسی طرح اجتہادمیں امام شافعی کے موافق ہیں، ان کی تقلید کی وجہ سے نہیں اور آخر میں ابو علی السنجی سے نقل کیا ہے:
وذكر أبو على السنجى فقال اتبعنا الشافعي دون غيره لاناوجدنا قوله ارجح الاقوال وأعدلها لا انا قلدناه(المجموع:ج1،ص73
"ہمارا کسی دوسرے کے علاوہ امام شافعی کا اتباع کرنا اسی لیے ہے کہ ہم نے ان کا قول سب سے زیادہ راجح اور درست پایا ہے اس لیے نہیں کہ ہم نے ان کی تقلید کی ہے"

اس لیے کسی مجتہد کا کسی مذہب کی طرف انتساب اس کے مقلد ہونے کی قطعا دلیل نہین ہے ،اسی طرح امام ابن تیمیہ کو حنبلی کہا جاتا ہے حالاں کہ وہ اس بات کی تردید کرتے ہوے کہتے ہیں:
"انما اتناول ما اتناولہ منھا علی معرفتی بمذہب احمد لا علی تقلیدی لہ"
"میں امام احمد کے مذہب سے جو کچھ لیتا ہوں معرفت دلیل کی بنا پر لیتا ہوں ان کی تقلید کی بنا پر کچھ نہیں لیتا"
(الرد علی من اخلد الی الارض:166)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
محترم حافظ عمران الٰہی بھائی۔
ایک ہی بات اگر بار بار رپیٹ کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا۔ دوسرے تھریڈ میں تقلید کی قسمیں عرض کی ہیں۔ وہ یہاں عرض کردیتا ہوں۔ آپ خود اندازہ کر لیں کہ کس حساب سے یہ حضرات ان کی تقلید کرتے ہیں اور انہیں مقلدین میں کیوں ذکر کیا جاتا ہے:۔
یہاں مناسب ہے کہ تقلید کی قسمیں عرض کرتا چلوں۔ کیوں کہ ایک اور تھریڈ میں بھی شاید ان سے ناواقفیت کی بنا پر حافظ عمران الہی بھائی ایک ہی بات کو بار بار لگا رہے ہیں۔ یہ قسمیں میرے ذہن میں تھیں لیکن جب مفتی تقی عثمانی صاحب کی "تقلید کی شرعی حیثیت" پڑھی تو اس میں بہت اچھے انداز سے لکھی ہوئی پائیں۔ وہیں سے عرض کرتا ہوں:۔
تقلید کے چار درجات ہیں:۔
عوام کی تقلید
متبحر عالم کی تقلید
مجتہد فی المذہب کی تقلید
مجتہد مطلق کی تقلید
عوام میں چوں کہ مسائل کے استنباط وغیرہ کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے وہ تقلید محض کریں گے۔
متبحر فی المذہب بعض شرائط کے ساتھ امام کے مسلک کو بعض جگہوں پر ترک کر دیتا ہے اور مختلف اقوال میں سے کوئی قول جو مناسب معلوم ہو اختیار کرتا ہے۔
مجتہد فی المذہب بہت سی فروعات میں مجتہد مطلق سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لیکن اصول میں تقلید کرتے ہیں۔
مجتہد مطلق اکثر کسی رائے سے اتفاق کی بنا پر اسے اختیار کر لیتے ہیں جسے تقلید ہی کہا جاتا ہے۔
چوں کہ تقلید ایک اصطلاحی شے ہے اس لئے لغت وغیرہ کی بنا پر اس کی ایک خاص تعریف کرنا اور ہر قسم کو اسی پر فٹ کرنا درست نہیں۔ جس کو اصطلاح میں تقلید کہا جائے گا وہ تقلید ہوگی اور جسے نہیں کہا جائے گا وہ نہیں ہوگی۔
مزید تفصیل کے لیے اگر اس کتاب کا مطالعہ کریں تو مناسب ہوگا۔ اگر کھلے ذہن سے اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو فرقہ ورانہ مباحث سے دور ایک اچھی تحقیقی کتاب ہے۔


باقی آپ نے جو کہا کہ وہ لوگ خود کہیں کہ ہم فلاں کے مقلد ہیں یہ عقلی طور پر درست نہیں۔ کیوں کہ کوئی عاقل شخص کوئی بات اس وقت کرتا ہے صراحت سے جب اس کی ضرورت محسوس کرے۔ اسی طرح کوئی خاص بحث ہو رہی ہو تو ہی اس قسم کی باتوں کو تحریر کیا جاتا ہے۔ ورنہ بعد کے علماء کرام نے ان کے فتاوی، ان کی روایات اور ان کے افعال کے ذریعے یہ حکم لگایا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی پر رافضی ہونے کا حکم لگایا جائے۔ اگر آپ کی بات کو درست مان لیں تو روافض کا ایک کثیر حصہ ثقہ راوی بن جائے گا کیوں کہ انہوں نے خود کو رافضی کہا ہی نہیں۔ چناں چہ آپ کی بات عقلا ہی درست نہیں۔
لیکن اگر آپ پھر بھی بضد ہیں تو چوں کہ علماء کرام نے یہ طبقات ذکر کیے ہیں لہذا آپ بھی اپنی سمجھ کی تائید میں کچھ علماء لے آئیے۔ اللہ پاک آپ کا حامی و ناصر ہو۔
 
Top