• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا ائمہ اربعہ کے علاوہ کوئی مجتہد نہیں ؟؟؟

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
میں آپ کی بات شاید اپنی کم فہمی کے باعث سمجھ نہیں سکا۔
میں نے کب ان مسائل کے نہ ہونے یا گمراہی کا کہا ہے؟ یہ تو ایک اصولی بات ہے کہ مجتہد مطلق غیر منتسب اسے کہیں گے جو اپنے اصول و فروع پر متصرف ہو اور مجتہد مطلق منتسب اسے کہتے ہیں جو اصول و فروع میں متبع ہو۔ اور یہ کوئی اس شخص میں کمی نہیں ہے۔ اس کا اصول و فروع میں متبع ہونا اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے ماقبل مجتہدین نے کسی خاص جگہ ممکنہ صورتیں بیان کر دیں اور اس نے ایک کو اپنی ترجیح و فہم کے مطابق اختیار کر لیا اور اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے جو اصول ذہن میں سمجھا اسی پر ایک امام کا مسلک پہلے سے موجود تھا تو اس کی طرف نسبت ہو گئی اور اس وجہ سے بھی کہ ابتدا میں اس نے جو اصول پڑھے انہیں اس نے اختیار کیا اور جہاں اپنی سمجھ میں فرق پایا وہاں چھوڑ دیا۔ ضروری تو نہیں کہ اس نے فہم میں اس درجہ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ہی ان اصولوں کو اختیار کیا ہو۔
بہر حال میں نہ تو امام بخاری کی نقص شان کرتا ہوں اور نہ ابو حنیفہ و دیگر مجتہدین کی۔ یہ سب علم و عمل کے اس مقام پر تھے جس کا شاید کم از کم میرے لیے تصور بھی ممکن نہیں ہے۔
بلکہ بسا اوقات تو میں حیران بھی ہوتا ہوں کہ یہ لوگ اس دقیق مقام تک کیسے پہنچے؟
نہ سمجھ آنے والی بات تو کوئی نہیں تھی ۔ بہر صورت گزارش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اکثر جگہوں پر آپ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کی تقلید کرتے ہیں کہ اس کے اصول و فروع موجود ہیں فلاں کی بات نہیں مانتے کہ اس کے اصول و فروع موجود نہیں ۔الغرض آپ کی بحثوں میں اکثر جگہ پر بات یہی ہوتی ہے فلاں کے اصول و فروع ہیں اور فلاں کے نہیں ہیں ۔
میرا گزارش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ اصول و فروع ہونا یا نہ ہونا یہ ایک نظری بحث ہے ۔ عملی میدان میں اس کی کوئی حیثیت محسوس نہیں ہوتی ۔ کیونکہ مسائل کا حل تو ہر کوئی پیش کرتا ہے ۔ حتی کہ وہ بھی جن کے پاس بقول آپ کے ’’ اصول و فروع ‘‘ ہی نہیں ہیں ۔

اس کے لیے بطور مثال دو امام لے لیں امام بخاری اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ ۔ اب آپ کے نزدیک ایک کے اصول و فروع ہیں دوسرے کے نہیں ہیں ۔
میری عرض یہ ہے کہ ان اصول و فروع کے وجود و عدم وجود کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دو اماموں کی فقیہانہ بصیرت یا مہارت سے استفادہ کرنے میں جوہری فرق کیا ہے ؟
میں اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔ فقہ الحدیث دوسرے کے مقابلے میں کہیں آسان اور عام چیز ہے اور صرف اس کی بنیاد پر مسائل میں مضبوط مذہب عموما نہیں نکلتا۔ امام بخاری کو میں مجتہد ہونے کی وجہ سے فقہ المذہب پر بھی دسترس رکھنے والا سمجھتا ہوں۔
کیونکہ آپ کا اور میرا ’’ فقہ الحدیث ‘‘ اور ’’ فقہ المذاہب ‘‘ کے تصور میں ہی فرق ہے ۔ جس پر اختصار کے ساتھ کسی جگہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں ۔
جس چیز کو آپ فقہ المذاہب سمجھتے ہیں یقینا امام بخاری ان معنوںمیں بھی فقہ کی بام عروج کو پہنچے ہوئے تھے ۔
البتہ اس سے راضی نہیں ہوں کہ وہ سید الفقہاء و المحدثین تھے۔ یہ تحکم ہے۔
کوئی بات نہیں یہ فطری چیزیں ہوتی ہیں ۔


و عين الرضا عن كل عيب كليلة
و عين السخط تبدي المساويا

امام بخاری کی الجامع الصحیح کے بعد کسی کے ماننے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
ہاں اگر اس کو مزید مناقشہ کی صورت دینا چاہتے ہیں تو آپ ذرا بتادیں آپ کے نزدیک ’’ سید الفقہاء ‘‘ کون ہے ۔ پھر دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کے نزدیک فقہی سیادت و قیادت کا معیار کیا ہے ۔۔۔؟
باقی ’’ سید الفقہاء کےساتھ آپ نے ’’ المحدثین ‘‘ کے لفظ اضافہ کرکے بخاری کے اس مقام و مرتبہ میں شک کا اظہار کیا ہے جس پر پوری امت متفق ہے ۔ بلکہ غالبا کسی جگہ سنا تھا کہ حافظ ابن رُشید نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو ’’ أمیر ُأمراءِ المؤمنین فی الحدیث ‘‘کے لقب سےیاد کیا ہے ۔
اور اس سے پہلے نقل کرچکا ہوں کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے بخاری کو ’’ امام الدنیا فی فقہ الحدیث ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا ہے ۔
الغرض یہ ایک لمبا موضوع ہے جس پر مستقل تصانیف موجود ہیں ۔علماء کے جم غفیر کے فیصلے کو ’’ تحکم ‘‘ قرار دینا بذات خود ایک قسم کا ’’ تحکم ‘‘ ہے ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
امام بخاری و مسلم و دیگر مجتہد مطلق منتسب ہیں۔ مجتہد مطلق منتسب وہ ہوتا جو اصول میں کسی امام کے متبع ہوتا ہے اور بوقت ضرورت اختلاف بھی کرتا ہے۔
چند ایسے اصول بتا دیں جن میں امام بخاری کسی معین امام کے متبع تھے؟
اور اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ ائمہ اربعہ مجتہد مطلق منتسب نہیں تھے؟ یا غیر منتسب تھے! خصوصا امام ابو حنیفہ!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
نہ سمجھ آنے والی بات تو کوئی نہیں تھی ۔ بہر صورت گزارش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اکثر جگہوں پر آپ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کی تقلید کرتے ہیں کہ اس کے اصول و فروع موجود ہیں فلاں کی بات نہیں مانتے کہ اس کے اصول و فروع موجود نہیں ۔الغرض آپ کی بحثوں میں اکثر جگہ پر بات یہی ہوتی ہے فلاں کے اصول و فروع ہیں اور فلاں کے نہیں ہیں ۔
میرا گزارش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ اصول و فروع ہونا یا نہ ہونا یہ ایک نظری بحث ہے ۔ عملی میدان میں اس کی کوئی حیثیت محسوس نہیں ہوتی ۔ کیونکہ مسائل کا حل تو ہر کوئی پیش کرتا ہے ۔ حتی کہ وہ بھی جن کے پاس بقول آپ کے ’’ اصول و فروع ‘‘ ہی نہیں ہیں ۔

اس کے لیے بطور مثال دو امام لے لیں امام بخاری اور دوسری طرف امام ابو حنیفہ ۔ اب آپ کے نزدیک ایک کے اصول و فروع ہیں دوسرے کے نہیں ہیں ۔
میری عرض یہ ہے کہ ان اصول و فروع کے وجود و عدم وجود کو مدنظر رکھتے ہوئے ان دو اماموں کی فقیہانہ بصیرت یا مہارت سے استفادہ کرنے میں جوہری فرق کیا ہے ؟
محترم خضر حیات بھائی۔ اصول درحقیقت کسی مجتہد کے قرآن و حدیث کو سمجھنے اور ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینے کا انداز ہوتے ہیں۔
اس چیز کے بغیر کوئی بھی مجتہد اجتہاد نہیں کر سکتا۔ وہ ان طریقوں کا اظہار بھی گاہے گاہے کرتا رہتا ہے جیسے امام مدینہؒ نے موطا میں بعض جگہوں پر اظہار کیا ہے اور امام اعظمؒ نے عثمان البتی کی جانب بھیجے گئے رسالے میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان کی تدوین بھی خود کرے۔ یہ تدوین اس کے شاگرد یا ان کے شاگرد اپنے اساتذہ کی نگرانی و رہنمائی میں کرتے ہیں۔
ہمیں جب فتوی دینا ہوتا ہے تو ان اصول و قواعد کی بنیاد پر ہم بآسانی فتوی دیدیتے ہیں یعنی ہمارے سامنے واضح ہوتا ہے کہ امام صاحب کی فلاں رائے ہے تو کس قاعدے کی بنیاد پر۔ اسی سے اگر کوئی رائے خلاف قواعد نظر آتی ہے تو اسے مرجوح قرار دیا جاتا ہے کہ قاعدہ تو فلاں ہے امام کے سمجھنے کا اور رائے اس کے خلاف ہے بغیر علت کے۔
یہ ہم خود تک پہنچنے کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم تک اصول و فروع یا قواعد پہنچے ہیں تو ہم اس کی تقلید بآسانی کر لیتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ امام بخاری اگر مجتہد مطلق تھے تو ان کے پاس اصول ہی نہیں تھے قرآن و حدیث کے لیے یعنی طرز فہم اور ترجیح ہی نہیں تھا۔ جو سامنے نظر آتا اسے من و عن قبول کرلیتے تھے چاہے وہ ایک دوسرے کے معارض ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ان کی فہم کے یہ قواعد ہم تک نہیں پہنچے اس لیے ہم ان کی غیر موجودگی میں ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اور اسی کی بنیاد پر ہم انہیں اصول میں متبع قرار دیتے ہیں۔ جو مسئلہ جن کے اصولوں پر متفرع ہو ان کا متبع۔ ورنہ حقیقت میں ایسا ہونا کوئی ضروری و لازمی نہیں۔
اور یہ صرف بخاریؒ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ علماء میں ابن جریرؒ کے بارے میں یہ بحث چل چکی ہے جس کی طرف شاہ صاحب نے الانصاف میں اشارہ کیا ہے۔
اب اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ ان میں کوئی فقیہانہ فرق نہ ہو لیکن ہمارے لیے ان کی تقلید میں یہی فرق ہے۔ ہم امام بخاریؒ کے مسلک کے مطابق بہت سے جدید مسائل کا حل نہیں نکال سکتے لیکن ائمہ اربعہ کے مسلک کے مطابق نکال سکتے بھی ہیں اور نکالتے بھی ہیں۔ جیسے ایک مثال محمد علی جواد بھائی نے ہوائی جہاز والے مسئلے اور نماز کے مسئلے کی دی۔
آپ کا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ ایک نظری بحث ہے اور علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نظر نہیں آتی کیوں کہ مسائل کا حل ہر کوئی پیش کرتا ہے لیکن یہ ان کی موجودگی تک تو درست ہے بعد میں نہیں۔
اگر آج آپ یہ دعوی کریں کہ آپ صرف مسلک بخاریؒ کی اتباع کریں گے تو کیا آپ اپنے اکثر مسائل کا حل اس مسلک کے مطابق پیش کر سکتے ہیں؟ حالاں کہ امام بخاریؒ نے اپنے مسائل کا حل پیش کیا تھا۔

کیونکہ آپ کا اور میرا '' فقہ الحدیث '' اور '' فقہ المذاہب '' کے تصور میں ہی فرق ہے ۔ جس پر اختصار کے ساتھ کسی جگہ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں ۔
جس چیز کو آپ فقہ المذاہب سمجھتے ہیں یقینا امام بخاری ان معنوںمیں بھی فقہ کی بام عروج کو پہنچے ہوئے تھے ۔

ممکن ہے اس تصور کے بارے میں آپ کی رائے صواب ہو۔ بہر حال میں ان کی صلاحیت اجتہاد میں کمی نہیں سمجھتا۔


وئی بات نہیں یہ فطری چیزیں ہوتی ہیں ۔
و عين الرضا عن كل عيب كليلة
و عين السخط تبدي المساويا
امام بخاری کی الجامع الصحیح کے بعد کسی کے ماننے نہ ماننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

میں اسے برائی یا کمی کے انداز میں نہیں کہتا نہ میری امام الحدیثؒ سے کوئی لڑائی ہے۔ الجامع الصحیح ان کا ایک کارنامہ ہے جو ان سے پہلے اس انداز میں کسی نے سرانجام نہیں دیا تھا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے اللہ پاک اپنے ایک بندے سے کوئی کام اور دوسرے سے کوئی اور کام لیتا ہے اور اس کام میں اس کو معروف کر دیتا ہے۔ امام مدینہؒ کی موطا کو الجامع الصحیح کی طرح نہیں سمجھا جاتا لیکن اس سے امام مالکؒ میں کوئی نقص نہیں آتا اسی طرح امام بخاریؒ کے مسلک فقہی کو مالکؒ کی طرح نہیں مانا جاتا تو اس سے ان میں کوئی نقص نہیں آتا۔ لکل فن رجال۔

ہاں اگر اس کو مزید مناقشہ کی صورت دینا چاہتے ہیں تو آپ ذرا بتادیں آپ کے نزدیک '' سید الفقہاء '' کون ہے ۔ پھر دیکھ لیتے ہیں کہ آپ کے نزدیک فقہی سیادت و قیادت کا معیار کیا ہے ۔۔۔؟
باقی '' سید الفقہاء کےساتھ آپ نے '' المحدثین '' کے لفظ اضافہ کرکے بخاری کے اس مقام و مرتبہ میں شک کا اظہار کیا ہے جس پر پوری امت متفق ہے ۔ بلکہ غالبا کسی جگہ سنا تھا کہ حافظ ابن رُشید نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو '' أمیر ُأمراءِ المؤمنین فی الحدیث ''کے لقب سےیاد کیا ہے ۔
اور اس سے پہلے نقل کرچکا ہوں کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمہ نے بخاری کو '' امام الدنیا فی فقہ الحدیث '' کے لقب سے ملقب فرمایا ہے ۔

اصل میں یہ کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس پر مناقشہ کیا جائے۔ جو جس سے عقیدت رکھتا ہے وہ اسے مانتا ہے۔ بہرحال۔۔۔۔۔
سید الفقہاء کو ہم کس معنی میں سید کہیں گے؟ اگر اس کی کوئی وضاحت کردیں تو ہم اس مرتبہ کا اہل کسی ایک ذات معین کو سمجھ سکتے ہیں ورنہ جسے جس کی فقہ و سمجھ پر اطمینان ہے اس کو وہی سید الفقہاء معلوم ہوگا۔
البتہ "المحدثین" لفظ کو میں تنہا استعمال نہیں کر رہا۔ جب یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال ہوں "سید الفقہاء و المحدثین" تو ایک الگ ہی قسم کی بڑائی ظاہر کرتے ہیں۔ گویا کہ ہر دو علم حدیث و فقہ میں سب ان کے نیچے ہیں اور یہ سب سے بلند۔ ہو بھی سکتے ہیں اپنی ذات میں لیکن ہمارے پاس یہ کہنے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ باقی امیر المؤمنین فی الحدیث انہیں بہت سے علماء مانتے ہیں۔ مجھے اس میں اختلاف نہیں۔

علماء کے جم غفیر کے فیصلے کو '' تحکم '' قرار دینا بذات خود ایک قسم کا '' تحکم '' ہے ۔
تحکم بلا دلیل بات کو کہتے ہیں۔ اور میں علماء کے "جم غفیر" میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے انہیں بیک وقت دونوں صفات میں سب کا سردار قرار دیا ہو۔
ہمارے سامنے جو کچھ موجود ہے اس میں جو ان کا اعلی مقام ہے ہم انہیں اس پر رکھیں گے اور اس سے نیچے نہیں لائیں گے اور جو دیگر کا اعلی مقام ہے ہم انہیں اس پر رکھیں گے۔ محبت میں مبالغہ کیا جاتا ہے لیکن اس مبالغہ کو قبول نہیں کیا جاتا۔
واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات بھائی۔ اصول درحقیقت کسی مجتہد کے قرآن و حدیث کو سمجھنے اور ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینے کا انداز ہوتے ہیں۔
اس چیز کے بغیر کوئی بھی مجتہد اجتہاد نہیں کر سکتا۔ وہ ان طریقوں کا اظہار بھی گاہے گاہے کرتا رہتا ہے جیسے امام مدینہؒ نے موطا میں بعض جگہوں پر اظہار کیا ہے اور امام اعظمؒ نے عثمان البتی کی جانب بھیجے گئے رسالے میں۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ان کی تدوین بھی خود کرے۔ یہ تدوین اس کے شاگرد یا ان کے شاگرد اپنے اساتذہ کی نگرانی و رہنمائی میں کرتے ہیں۔
ہمیں جب فتوی دینا ہوتا ہے تو ان اصول و قواعد کی بنیاد پر ہم بآسانی فتوی دیدیتے ہیں یعنی ہمارے سامنے واضح ہوتا ہے کہ امام صاحب کی فلاں رائے ہے تو کس قاعدے کی بنیاد پر۔ اسی سے اگر کوئی رائے خلاف قواعد نظر آتی ہے تو اسے مرجوح قرار دیا جاتا ہے کہ قاعدہ تو فلاں ہے امام کے سمجھنے کا اور رائے اس کے خلاف ہے بغیر علت کے۔
یہ ہم خود تک پہنچنے کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔ اگر ہم تک اصول و فروع یا قواعد پہنچے ہیں تو ہم اس کی تقلید بآسانی کر لیتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ امام بخاری اگر مجتہد مطلق تھے تو ان کے پاس اصول ہی نہیں تھے قرآن و حدیث کے لیے یعنی طرز فہم اور ترجیح ہی نہیں تھا۔ جو سامنے نظر آتا اسے من و عن قبول کرلیتے تھے چاہے وہ ایک دوسرے کے معارض ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ان کی فہم کے یہ قواعد ہم تک نہیں پہنچے اس لیے ہم ان کی غیر موجودگی میں ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ اور اسی کی بنیاد پر ہم انہیں اصول میں متبع قرار دیتے ہیں۔ جو مسئلہ جن کے اصولوں پر متفرع ہو ان کا متبع۔ ورنہ حقیقت میں ایسا ہونا کوئی ضروری و لازمی نہیں۔
اور یہ صرف بخاریؒ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ علماء میں ابن جریرؒ کے بارے میں یہ بحث چل چکی ہے جس کی طرف شاہ صاحب نے الانصاف میں اشارہ کیا ہے۔
اب اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ ان میں کوئی فقیہانہ فرق نہ ہو لیکن ہمارے لیے ان کی تقلید میں یہی فرق ہے۔ ہم امام بخاریؒ کے مسلک کے مطابق بہت سے جدید مسائل کا حل نہیں نکال سکتے لیکن ائمہ اربعہ کے مسلک کے مطابق نکال سکتے بھی ہیں اور نکالتے بھی ہیں۔ جیسے ایک مثال محمد علی جواد بھائی نے ہوائی جہاز والے مسئلے اور نماز کے مسئلے کی دی۔
آپ کا یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ ایک نظری بحث ہے اور علمی میدان میں اس کی کوئی حیثیت نظر نہیں آتی کیوں کہ مسائل کا حل ہر کوئی پیش کرتا ہے لیکن یہ ان کی موجودگی تک تو درست ہے بعد میں نہیں۔
اگر آج آپ یہ دعوی کریں کہ آپ صرف مسلک بخاریؒ کی اتباع کریں گے تو کیا آپ اپنے اکثر مسائل کا حل اس مسلک کے مطابق پیش کر سکتے ہیں؟ حالاں کہ امام بخاریؒ نے اپنے مسائل کا حل پیش کیا تھا۔
امام بخاری علیہ الرحمہ کے بھی طرز استدلال اور فقہی مسائل کے استخراج کا طریقہ کار شراح بخاری اور تراجم ابواب بخاری کی خدمت کرنے والوں نےخوب واضح کیا ہے ۔
میں اس مسئلہ پر اس وجہ سے زور نہیں دے رہا کہ ہم امام بخاری کی تقلید کی طرف دعوت دیتےہیں یا خود کرتےہیں ۔ میں توا س وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ شروع سے لےکر اب تک علماء کا جم غفیر اور خیر کثیر ان صفات سے متصف گزرا ہےجو قرآن وحدیث کو براہ راست سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور بعد میں آنے والے لوگ بلا تعصب ان کی علمی کاوشوں سےمستفید ہوکر قرآن وسنت کےمطابق مسائل کا حل جان سکتے ہیں ۔
البتہ آپ کا کہنا یہ ہےچونکہ صرف گنتی کے چند افراد کے اصول و فروعِ اجتہاد معلوم ہیں اس لیے ان کے سوا کسی اور سے اس ضمن میں استفادہ ممکن نہیں ۔ نقلا تو اس کی دلیل ہے ہی نہیں البتہ عقلا بھی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ۔ اور امر واقع بھی اس کے خلاف ہے ۔
باقی جو اعتراضات آپ امام بخاری علیہ الرحمہ کےحوالے سےکر رہےہیں وہ اعتراضات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سمیت کسی بھی مجتہد پر وارد کیے جاسکتےہیں ۔ فلیفہم ہذا ۔
اصل میں یہ کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس پر مناقشہ کیا جائے۔ جو جس سے عقیدت رکھتا ہے وہ اسے مانتا ہے۔ بہرحال۔۔۔۔۔
سید الفقہاء کو ہم کس معنی میں سید کہیں گے؟ اگر اس کی کوئی وضاحت کردیں تو ہم اس مرتبہ کا اہل کسی ایک ذات معین کو سمجھ سکتے ہیں ورنہ جسے جس کی فقہ و سمجھ پر اطمینان ہے اس کو وہی سید الفقہاء معلوم ہوگا۔
اسی لیے تو میں نے گزارش کی تھی کہ جن کو آپ سید الفقہاء مانتےہیں ان کی ذرا وضاحت کردیں پھر دیکھ لیں گے کہ وہ صفات امام بخاری کے اندر پائی جاتی ہیں کہ نہیں ۔
باقی اگر صرف کہنےکی بات ہےتو امام صاحب کی تفقہ میں سیادت کا اعتراف تو ان کے اساتذہ کو بھی تھا ۔ محمد بن بشار البندار آپ کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں انہوں نے آپ کو ’’ سید الفقہاء ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے جیساکہ سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں مذکور ہے ۔
تحکم بلا دلیل بات کو کہتے ہیں۔ اور میں علماء کے "جم غفیر" میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جس نے انہیں بیک وقت دونوں صفات میں سب کا سردار قرار دیا ہو۔
ہمارے سامنے جو کچھ موجود ہے اس میں جو ان کا اعلی مقام ہے ہم انہیں اس پر رکھیں گے اور اس سے نیچے نہیں لائیں گے اور جو دیگر کا اعلی مقام ہے ہم انہیں اس پر رکھیں گے۔ محبت میں مبالغہ کیا جاتا ہے لیکن اس مبالغہ کو قبول نہیں کیا جاتا۔
واللہ اعلم
بلا دلیل کا اعتراض ہے اب رفع ہوگیا ہوگا ۔ جیساکہ اوپر بندار کے حوالے سے گزر چکا ہے ۔ مزید حوالہ جات بھی ان شاء اللہ تلاش کیے جائیں تو مل سکتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
امام بخاری علیہ الرحمہ کے بھی طرز استدلال اور فقہی مسائل کے استخراج کا طریقہ کار شراح بخاری اور تراجم ابواب بخاری کی خدمت کرنے والوں نےخوب واضح کیا ہے ۔
میں اس مسئلہ پر اس وجہ سے زور نہیں دے رہا کہ ہم امام بخاری کی تقلید کی طرف دعوت دیتےہیں یا خود کرتےہیں ۔ میں توا س وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ شروع سے لےکر اب تک علماء کا جم غفیر اور خیر کثیر ان صفات سے متصف گزرا ہےجو قرآن وحدیث کو براہ راست سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور بعد میں آنے والے لوگ بلا تعصب ان کی علمی کاوشوں سےمستفید ہوکر قرآن وسنت کےمطابق مسائل کا حل جان سکتے ہیں ۔
البتہ آپ کا کہنا یہ ہےچونکہ صرف گنتی کے چند افراد کے اصول و فروعِ اجتہاد معلوم ہیں اس لیے ان کے سوا کسی اور سے اس ضمن میں استفادہ ممکن نہیں ۔ نقلا تو اس کی دلیل ہے ہی نہیں البتہ عقلا بھی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ۔ اور امر واقع بھی اس کے خلاف ہے ۔
باقی جو اعتراضات آپ امام بخاری علیہ الرحمہ کےحوالے سےکر رہےہیں وہ اعتراضات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سمیت کسی بھی مجتہد پر وارد کیے جاسکتےہیں ۔ فلیفہم ہذا ۔

اسی لیے تو میں نے گزارش کی تھی کہ جن کو آپ سید الفقہاء مانتےہیں ان کی ذرا وضاحت کردیں پھر دیکھ لیں گے کہ وہ صفات امام بخاری کے اندر پائی جاتی ہیں کہ نہیں ۔
باقی اگر صرف کہنےکی بات ہےتو امام صاحب کی تفقہ میں سیادت کا اعتراف تو ان کے اساتذہ کو بھی تھا ۔ محمد بن بشار البندار آپ کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں انہوں نے آپ کو ’’ سید الفقہاء ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا ہے جیساکہ سیر اعلام النبلاء وغیرہ میں مذکور ہے ۔

بلا دلیل کا اعتراض ہے اب رفع ہوگیا ہوگا ۔ جیساکہ اوپر بندار کے حوالے سے گزر چکا ہے ۔ مزید حوالہ جات بھی ان شاء اللہ تلاش کیے جائیں تو مل سکتے ہیں ۔
اسی لیے میں نے عرض کیا تھا:۔
اصل میں یہ کوئی ایسی چیز ہے ہی نہیں جس پر مناقشہ کیا جائے۔ جو جس سے عقیدت رکھتا ہے وہ اسے مانتا ہے۔ بہرحال۔۔۔۔۔
سید الفقہاء کو ہم کس معنی میں سید کہیں گے؟ اگر اس کی کوئی وضاحت کردیں تو ہم اس مرتبہ کا اہل کسی ایک ذات معین کو سمجھ سکتے ہیں ورنہ جسے جس کی فقہ و سمجھ پر اطمینان ہے اس کو وہی سید الفقہاء معلوم ہوگا۔

اور اسی لیے میں نے ابو حنیفہ رح کو سید الفقہاء نہیں کہا۔ ورنہ امید ہے حوالہ جات تو اس پر بھی مل جائیں گے۔
خیر اس ساری بحث کو سمیٹتے ہیں۔
آپ نے کہا:۔
امام بخاری علیہ الرحمہ کے بھی طرز استدلال اور فقہی مسائل کے استخراج کا طریقہ کار شراح بخاری اور تراجم ابواب بخاری کی خدمت کرنے والوں نےخوب واضح کیا ہے ۔
اتنا تو مجھے بھی علم ہے لیکن ان چار مسالک میں سے کسی کی طرز پو کثیر کام ہوا ہو خصوصا جس طرح فقہ حنفی میں کام ہوا ہے مجھے اس کا علم نہیں۔

البتہ آپ کا کہنا یہ ہےچونکہ صرف گنتی کے چند افراد کے اصول و فروعِ اجتہاد معلوم ہیں اس لیے ان کے سوا کسی اور سے اس ضمن میں استفادہ ممکن نہیں ۔ نقلا تو اس کی دلیل ہے ہی نہیں البتہ عقلا بھی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ۔ اور امر واقع بھی اس کے خلاف ہے ۔

وليس في الكتاب والسنة فرق في الأئمة المجتهدين بين شخص وشخص، فمالك والليث بن سعد والأوزاعي، والثوري، هؤلاء أئمة في زمانهم، وتقليد كل منهم كتقليد الآخر، لا يقول مسلم: إنه يجوز تقليد هذا دون هذا، ولكن من منع من تقليد أحد هؤلاء في زماننا فإنما منعه لأحد شيئين: أحدهما: اعتقاده أنه لم يبق من يعرف مذاهبهم، وتقليد الميت فيه نزاع مشهور، فمن منعه قال: هؤلاء موتى، ومن سوغه قال: لا بد أن يكون في الأحياء من يعرف قول الميت.
والثاني: أن يقول الإجماع اليوم قد انعقد على خلاف هذا القول.
وينبني ذلك على مسألة معروفة في أصول الفقه، وهي: أن الصحابة مثلا أو غيرهم من أهل الأعصار إذا اختلفوا في مسألة على قولين، ثم أجمع التابعون أو أهل العصر الثاني على أحدهما، فهل يكون هذا إجماعا يرفع ذلك الخلاف؟ وفي المسألة نزاع مشهور في مذهب أحمد، وغيره من العلماء، فمن قال: إن مع إجماع أهل العصر الثاني لا يسوغ الأخذ بالقول الآخر؛ وأعتقد أن أهل العصر أجمعوا على ذلك يركب مع هذين الاعتقادين المنع. ومن علم أن الخلاف القديم حكمه باق؛ لأن الأقوال لا تموت بموت قائليها فإنه يسوغ الذهاب إلى القول الآخر للمجتهد الذي وافق اجتهاده.
وأما التقليد فينبني على مسألة تقليد الميت، وفيها قولان مشهوران أيضا في مذهب الشافعي، وأحمد وغيرهما.
وأما إذا كان القول الذي يقول به هؤلاء الأئمة أو غيرهم قد قال به بعض العلماء الباقية مذاهبهم، فلا ريب أن قوله مؤيد بموافقة هؤلاء ويعتضد به، ويقابل بهؤلاء من خالفهم من أقرانهم.
الفتاوی الکبری لابن تیمیہ

صرف یہ ہائیلائٹ کیا ہوا حصہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ یہ بات قدیم سے چلتی آرہی ہے کوئی انہونی و انوکھی بات نہیں۔ اور بھی حوالہ جات تلاش کیے جا سکتے ہیں اگر حکم کریں تو۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964

وليس في الكتاب والسنة فرق في الأئمة المجتهدين بين شخص وشخص، فمالك والليث بن سعد والأوزاعي، والثوري، هؤلاء أئمة في زمانهم، وتقليد كل منهم كتقليد الآخر، لا يقول مسلم: إنه يجوز تقليد هذا دون هذا، ولكن من منع من تقليد أحد هؤلاء في زماننا فإنما منعه لأحد شيئين: أحدهما: اعتقاده أنه لم يبق من يعرف مذاهبهم، وتقليد الميت فيه نزاع مشهور، فمن منعه قال: هؤلاء موتى، ومن سوغه قال: لا بد أن يكون في الأحياء من يعرف قول الميت.
والثاني: أن يقول الإجماع اليوم قد انعقد على خلاف هذا القول.
وينبني ذلك على مسألة معروفة في أصول الفقه، وهي: أن الصحابة مثلا أو غيرهم من أهل الأعصار إذا اختلفوا في مسألة على قولين، ثم أجمع التابعون أو أهل العصر الثاني على أحدهما، فهل يكون هذا إجماعا يرفع ذلك الخلاف؟ وفي المسألة نزاع مشهور في مذهب أحمد، وغيره من العلماء، فمن قال: إن مع إجماع أهل العصر الثاني لا يسوغ الأخذ بالقول الآخر؛ وأعتقد أن أهل العصر أجمعوا على ذلك يركب مع هذين الاعتقادين المنع. ومن علم أن الخلاف القديم حكمه باق؛ لأن الأقوال لا تموت بموت قائليها فإنه يسوغ الذهاب إلى القول الآخر للمجتهد الذي وافق اجتهاده.
وأما التقليد فينبني على مسألة تقليد الميت، وفيها قولان مشهوران أيضا في مذهب الشافعي، وأحمد وغيرهما.
وأما إذا كان القول الذي يقول به هؤلاء الأئمة أو غيرهم قد قال به بعض العلماء الباقية مذاهبهم، فلا ريب أن قوله مؤيد بموافقة هؤلاء ويعتضد به، ويقابل بهؤلاء من خالفهم من أقرانهم.
الفتاوی الکبری لابن تیمیہ

صرف یہ ہائیلائٹ کیا ہوا حصہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ یہ بات قدیم سے چلتی آرہی ہے کوئی انہونی و انوکھی بات نہیں۔ اور بھی حوالہ جات تلاش کیے جا سکتے ہیں اگر حکم کریں تو۔
پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے شعوری یا لاشعوری طور پر آپ یہ ذہن میں بٹھائے ہوئےہیں کہ جب ہم کسی عالم دین کے ’’ مجتہد ‘‘ ہونے کی بات کرتے ہیں تو شاید اس سے مراد ہماری ’’ ان کی تقلید کرنا ‘‘ ہے ۔ حالانکہ میں واضح الفاظ میں گزارش کر چکا ہوں :
امام بخاری علیہ الرحمہ کے بھی طرز استدلال اور فقہی مسائل کے استخراج کا طریقہ کار شراح بخاری اور تراجم ابواب بخاری کی خدمت کرنے والوں نےخوب واضح کیا ہے ۔
میں اس مسئلہ پر اس وجہ سے زور نہیں دے رہا کہ ہم امام بخاری کی تقلید کی طرف دعوت دیتےہیں یا خود کرتےہیں ۔ میں توا س وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ شروع سے لےکر اب تک علماء کا جم غفیر اور خیر کثیر ان صفات سے متصف گزرا ہےجو قرآن وحدیث کو براہ راست سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور بعد میں آنے والے لوگ بلا تعصب ان کی علمی کاوشوں سےمستفید ہوکر قرآن وسنت کےمطابق مسائل کا حل جان سکتے ہیں ۔
خیر یہ ’’ لڑی ‘‘ بھی دیگر چند لڑیوں کی طرح بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے خاتمےکی طرف جارہی ہے ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہےکہ ہم دونوں جس جس موقف کے حامی ہیں اس کو خوداچھی طرح سے نہیں جانتے ۔ یہی وجہ ہےکہ ’’ ہماری گفتگو ‘‘ کا حال عموما عوامی خطباء کی طرح ہے بات سےبات نکلتی کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور آخر میں نتیجہ کچھ بھی نہیں ۔ بہر صورت میں پر امید ہوں کہ اس طرح کی غیر منظم اور آزادانہ بحثیں ضرور کسی متعین موقف اور منظم سوچ تک پہنچنے میں مدد دیں گی ۔ ان شاء اللہ ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے شعوری یا لاشعوری طور پر آپ یہ ذہن میں بٹھائے ہوئےہیں کہ جب ہم کسی عالم دین کے ’’ مجتہد ‘‘ ہونے کی بات کرتے ہیں تو شاید اس سے مراد ہماری ’’ ان کی تقلید کرنا ‘‘ ہے ۔ حالانکہ میں واضح الفاظ میں گزارش کر چکا ہوں :
امام بخاری علیہ الرحمہ کے بھی طرز استدلال اور فقہی مسائل کے استخراج کا طریقہ کار شراح بخاری اور تراجم ابواب بخاری کی خدمت کرنے والوں نےخوب واضح کیا ہے ۔
میں اس مسئلہ پر اس وجہ سے زور نہیں دے رہا کہ ہم امام بخاری کی تقلید کی طرف دعوت دیتےہیں یا خود کرتےہیں ۔ میں توا س وجہ سے کہہ رہا ہوں کہ شروع سے لےکر اب تک علماء کا جم غفیر اور خیر کثیر ان صفات سے متصف گزرا ہےجو قرآن وحدیث کو براہ راست سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں اور بعد میں آنے والے لوگ بلا تعصب ان کی علمی کاوشوں سےمستفید ہوکر قرآن وسنت کےمطابق مسائل کا حل جان سکتے ہیں ۔
خیر یہ ’’ لڑی ‘‘ بھی دیگر چند لڑیوں کی طرح بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے خاتمےکی طرف جارہی ہے ۔
شاید اس کی وجہ یہ ہےکہ ہم دونوں جس جس موقف کے حامی ہیں اس کو خوداچھی طرح سے نہیں جانتے ۔ یہی وجہ ہےکہ ’’ ہماری گفتگو ‘‘ کا حال عموما عوامی خطباء کی طرح ہے بات سےبات نکلتی کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے اور آخر میں نتیجہ کچھ بھی نہیں ۔ بہر صورت میں پر امید ہوں کہ اس طرح کی غیر منظم اور آزادانہ بحثیں ضرور کسی متعین موقف اور منظم سوچ تک پہنچنے میں مدد دیں گی ۔ ان شاء اللہ ۔
ابتسامہ۔ میں نے جس چیز کے جواب میں یہ اقتباس دیا تھا وہ تو شاید آپ نے دیکھی ہی نہیں۔

آپ بخاریؒ کو مجتہد مطلق غیر منتسب قرار دیتے ہیں ان کی جلالت شان کی وجہ سے۔
اور میں ان کی جلالت شان تسلیم کرتے ہوئے مجتہد مطلق منتسب قرار دیتا ہوں ان کے ائمہ اربعہ کے مذاہب کی طرح اصول و فروع ہم تک نہ پہنچنے کی وجہ سے۔
اعتبارات کا فرق ہے۔
آپ کی اتنی بات درست ہوگی کہ ان کے طرز استدلال پر بات کی گئی ہے لیکن اس قدر نہیں جس قدر ائمہ اربعہ کے طرز استدلال پر کام کیا گیا ہے اور انہوں نے یا ان کے شاگردوں نے کیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ یہ بحث کسی فائدے کی نہیں ہے۔ میں مان لیتا ہوں کہ وہ مجتہد مطلق غیر منتسب تھے۔ اور بھی تھے۔ اس سے کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اور میں ان کی جلالت شان تسلیم کرتے ہوئے مجتہد مطلق منتسب قرار دیتا ہوں ان کے ائمہ اربعہ کے مذاہب کی طرح اصول و فروع ہم تک نہ پہنچنے کی وجہ سے۔
یا تو آپ مجتہد مطلق کہہ لیں یا مجتہد منتسب کہہ لیں، یہ مجتہد مطلق منتسب کیا چیز ہے؟ آپ انہیں علی الاطلاق مجتہد کہہ کر بھی کسی کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ خیر یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ امام بخاری کس کی طرف منتسب ہیں اور ان کی طرف منتسب کرنے کے آپ کے پاس کیا دلائل ہیں؟
اور آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ کسی کے مجتہد ہونے کے لئے لازمی ہے کہ اس کی اصول و فروع آپ تک پہنچائے جائیں۔ یعنی ہر مجتہد کو اپنے آپ کو مجتہد ثابت کرنے کے لئے آپ کو اپنے اصول آپ تک پہنچانے پڑیں گے۔ بات یہ نہیں ہے کہ ان کے اصول آپ تک پہنچے یا نہیں بات یہ ہے کہ انہوں نے اصول میں بھی قرآن و حدیث سے براہ راست رہنمائی لی یا کسی امام سے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے دلیل درکار ہے!
جہاں تک امام بخاری کے اصولوں کا ہم تک پہنچنے کا تعلق ہے گو وہ ضروری تو نہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ امام بخاری کے اصول و فروع بھی ہم تک پہنچے ہیں اور یہ بات ہر اس شخص پر واضح ہو گی جو ان کی جامع الصحیح کے تراجم و ابواب کادقیق نظر سے مطالعہ کرے گا۔ اسی لئے محدثین میں یہ محوارہ مشہور ہے کہ "فقہ البخاری فی تراجمہ" یعنی امام بخاری کی تمام فقہ ان کے تراجم ابواب میں ہے۔ اب اگر آپ جیسے مقلدین ہی مجتہدین پر اپنی محدود نظر کے مطابق حکم لگانے لگے تو ہو گیا کام!
دوسرا یہ کہ کسی مجتہد کی پہچان تبھی ہو سکتی ہے جب وہ اجتہاد کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے۔ اب کیا آپ اس انوکھے اجتہاد کی شرائط کو بیان کرنا پسند فرمائیں گے جو صرف ائمہ اربعہ میں موجود تھی، تا کہ ہم یہ جانچ سکیں کہ کیا امام بخاری میں بھی وہ شرائط پائی جاتی تھیں یا نہیں!
ورنہ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ محض آپ کے کہنے پر ہی آپ کی بات مان لیں اور کوئی دلیل بھی نہ دیں تو پہلے آپ کو اپنے آپ کو مجتہد ثابت کرنا پڑے گا۔ ابتسامہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,476
پوائنٹ
964
Top