السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن داؤد بھائی! امام مالکؒ سے تو ہاتھ باندھ کر پڑھنے کا بھی ثبوت نہیں ہے یعنی باقاعدہ بالسند ثبوت نہیں ہے۔
یعنی کے ارسال کا ثبوت بھی نہیں ہے!
تو بلا ثبوت امام مالک سے بد ظنی کیوں کی جائے! پھر یہی حسن ظن کیوں نہ رکھا جائے کہ امام مالک ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے کے قائل تھے!
لیکن فقہ کی آراء میں وہی مسلک کہلاتا ہے جس کی تصریح اس مسلک کے علماء کریں۔ مثلاً امام ابوحنیفہؒ کا مسلک تمام علماء احناف ایک بیان کریں تو وہ ان کی رائے اور مسلک ہوتا ہے۔ اسی طرح امام مالکؒ کا مسلک وہ ہوتا ہے جسے مالکی علماء بیان کریں۔
زبردست!
یعنی کہ پیروکاروں کے کاموں کو امام کے ذمہ ڈال دیا جائے!
یہ ایک قرینہ تو ہو سکتا ہے، لیکن ثبوت نہیں!
کل کو کوئی منچلا آکر کہہ دے گا کہ عیسی علیہ السلام کے عقائد و نظریات و مسلک بھی وہی ہوتا ہے جو عیسائی علماء بیان کریں!
دوم کہ آپ نے بھی کہا کہ تمام علماء احناف اگر ایک بیان کریں، تو وہ امام ابو حنیفہ کا مسلک ہوتا ہے، لیکن یہاں ہاتھوں کو نماز میں باندھنے میں مالکی علماء کا اختلاف ہے!
اور وہ امام مالک سے ہی مختلف روایت کرتے ہیں!
لہٰذا یوں بھی ارسال کو امام مالک کا مسلک قرار دینا ثابت نہیں ہوتا!
قال: وقال مالك: في وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة؟ قال: لا أعرف ذلك في الفريضة وكان يكرهه ولكن في النوافل إذا طال القيام فلا بأس بذلك يعين به نفسه
یہاں پہلے قائل ابن القاسم ہیں۔ چنانچہ ترجمہ ہوگا: "(ابن القاسم نے) کہا: مالک نے نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنے کے بارے میں کہا: میں اسے فرض (نماز) میں نہیں پہچانتا اور وہ اسے ناپسند کرتے تھے لیکن نوافل میں جب قیام طویل ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس سے اپنی مدد کرے۔"
سحنون عن ابن القاسم عن مالک مشہور سند ہے امام مالکؒ کے اقوال کی اور سب سے مضبوط سند بھی یہی ہے۔ مالکی علماء اس کے کتنے حوالے دیتے ہیں، یہ مالکی فقہ پڑھنے والے جانتے ہیں۔ ابن رشد (الجد) نے اس کے لیے مقدمہ لکھا ہے جس میں اس کی مدح کی ہے، ابن عبد البر نے اس سے روایات نقل کی ہیں، باجی مالکیؒ نے اس کے حوالے دیے ہیں وغیرہ۔ چنانچہ یہ امام مالکؒ کا مسلک ہے۔
آپ نے ایک روایت بیان کرکے، اسے امام مالک کا مسلک قرار دیدیا!
لیکن آپ نے یہ تحقیق نہیں کی کہ مالکیہ کے ہاں اس روایت کے علاوہ بھی روایات ہیں!
اور مالکیہ اس مؤقف کو امام مالک سے زیادہ ''المدونہ '' کا مسلک قرار دیتے ہیں!
اور مالکیہ خود اس کی توضیح پیش کرتے ہیں کہ یہاں کراہت استحباب کی نفی نہیں، بلکہ اعتقاد للوجوب کے لئے ہے!
آگے اس کی تفصیل پیش کروں گا!
یہاں ابن القطانؒ وغیرہ کی مدونہ پر جرح نقل نہیں کیجیے تو بہتر ہے کہ وہ ایک تو مالکی نہیں ہیں اور مالکی فقہاء امام مالکؒ کی فقہ کو زیادہ جانتے ہیں دوسرا اس کتاب سے ان کا کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے کیوں کہ یہ حدیث کی کتاب نہیں ہے، یہ امام مالکؒ کی آراء کی کتاب ہے۔
کیوں بھای ! امام مالک پر مالکیہ کی اجارہ داری ہے کیا؟
اشماریہ بھائی! ویسے ایک سوال ہے، یہ تحقیقی اصول آپ اپنے دماغ پر بوجھ ڈال کر خود تراشتے ہیں؟ یا کوئی اور ایسی پٹی پڑھاتا ہے؟
خیر! ابھی آپ کے اس اصول کے بطلان کا بیان تو چھوڑتے ہیں!
لیکن یہ بات آپ کو تو قبول ہوگی، کہ مالکی تو آپ بھی نہیں! تو آپ کی بات کہ امام مالک کا یہ مسلک ہے یا وہ مسلک ہے، کیوں مانا جائے!
ہم مالکیہ سے ہی پوچھ لیتے ہیں؛
(جاری ہے)