- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,591
- پوائنٹ
- 791
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہالسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ
کیا حمدو نعت کسی گانے کی طرز پر پڑی جاسکتی جیسا کے آجکل بریلوی دیوبندی اور اب اہل حدیث بھی ایسا کرتے عام پائے جاتے ہیں
محترم بھائی !
حمد : اللہ تعالیٰ کی تعریف و ثناء کو کہاجاتا ہے ،
نعت : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثناء کو کہتے ہیں ،
اور حمد و ثناء کا مقصد اللہ تعالیٰ اور اس کےحبیب کی محبت و شوق کی آبیاری ہے ،
حمد و نعت اور تلاوت قرآن کیلئے حسن صوت (خوبصورت اور دل کش آواز ) اور باوقار انداز ضرور اپنانا چاہیئے ،
تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو اللہ تعالی اور نبی کریم ﷺ کی طرف مائل کیا جاسکے ۔
لیکن ـــــــــــــ
اتنے عظیم مقصد کےلئے فاسقوں اور فاجروں کا بازاری انداز بالکل جائز نہیں ہوسکتا ،
حمد و نعت کی طرز و ادا کی مناسب صورت سمجھنے کیلئے تلاوت و قراءت کے متعلق پیارے مصطفیٰ ﷺ کا حکم جان لینا مفید رہے گا :
قرآن کو غناء کے ساتھ پڑھنا
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من لم يتغن بالقرآن»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (قرآن کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں)
صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول الله تعالى: {وأسروا قولكم أو اجهروا به،حدیث 7527
غنا کا مفہوم:-
قرآن مجید کو غنا کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی آواز سنوار کر پڑھے اور فطری آواز کو اچھا، سوہنا اور خوبصورت بنا کر تلاوت کرے، تلاوت قرآن کے وقت ایسی بے توجہگی نہ ہو کہ بے رخی اور سستی کے انداز میں قراءت کرے اور دل روحانیت کے بجائے بوریت محسوس کرے- سامعین سن کر فورا اکتا جائيں بلکہ ذوق و شوق کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، تلفظ کی درستگی اور آواز کی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ تلاوت کرے تاکہ صحیح معنوں میں تلاوت قرآن کے فیوض و برکات اور تجلیات اپنے دامن میں سمیٹا جاسکے-
سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
"زینواالقرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا"
(اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو، کیونکہ اچھی اور خوبصورت آواز قرآن مجید کے حسن میں اضافہ کرتی ہے"
اور سنن الدارمی (3544) میں دوسری اسناد سے مروی ہے :
«حسنوا القرآن بأصواتكم، فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنا»
إسناده صحيح
’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے حسن دیا کرو۔ کیونکہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔‘‘
سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب التغنی بالقرآن، مستدرک الحاکم 1/575، السلسلۃ الاحادیث صحیحہ 2/401 حدیث 771 )
اور مسند احمد میں حدیث مبارک ہے کہ :
عقبة بن عامر الجهني، يقول: كنا جلوسا في المسجد نقرأ القرآن، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسلم علينا، فرددنا عليه السلام، ثم قال: " تعلموا كتاب الله واقتنوه - قال قباث: وحسبته قال - وتغنوا به، فوالذي نفس محمد بيده، لهو أشد تفلتا من المخاض من العقل " عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من لم يتغن بالقرآن»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (قرآن کو غنا سے نہ پڑھنے والا ہم میں سے نہیں)
صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول الله تعالى: {وأسروا قولكم أو اجهروا به،حدیث 7527
غنا کا مفہوم:-
قرآن مجید کو غنا کے ساتھ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی آواز سنوار کر پڑھے اور فطری آواز کو اچھا، سوہنا اور خوبصورت بنا کر تلاوت کرے، تلاوت قرآن کے وقت ایسی بے توجہگی نہ ہو کہ بے رخی اور سستی کے انداز میں قراءت کرے اور دل روحانیت کے بجائے بوریت محسوس کرے- سامعین سن کر فورا اکتا جائيں بلکہ ذوق و شوق کے ساتھ، ٹھہر ٹھہر کر، تلفظ کی درستگی اور آواز کی خوبصورتی اور صفائی کے ساتھ تلاوت کرے تاکہ صحیح معنوں میں تلاوت قرآن کے فیوض و برکات اور تجلیات اپنے دامن میں سمیٹا جاسکے-
سیدنابراء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
"زینواالقرآن باصواتکم فان الصوت الحسن یزید القرآن حسنا"
(اپنی آواز سے قرآن کو مزین کرو، کیونکہ اچھی اور خوبصورت آواز قرآن مجید کے حسن میں اضافہ کرتی ہے"
اور سنن الدارمی (3544) میں دوسری اسناد سے مروی ہے :
«حسنوا القرآن بأصواتكم، فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنا»
إسناده صحيح
’’قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے حسن دیا کرو۔ کیونکہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن میں اضافہ کردیتی ہے۔‘‘
سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب التغنی بالقرآن، مستدرک الحاکم 1/575، السلسلۃ الاحادیث صحیحہ 2/401 حدیث 771 )
اور مسند احمد میں حدیث مبارک ہے کہ :
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم مسجد میں بیٹھنے قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، ہم پر سلام کہا، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کا جواب دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اللہ کی کتاب کی تعلیم حاصل کرو، اس کو محفوظ رکھو اور ترنم اور غنا کے ساتھ تلاوت کیا کرو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! یہ قرآن رسی سے نکل کر بھاگنے والی اونٹنی کی بہ نسبت (سینوں سے) جلدی نکل جانے والا ہے۔“
سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3285)
تو ان احادیث نبویہ سے واضح ہے کہ :
اللہ کا کلام خوبصورت اور دل کش آواز و انداز سے پڑھنا چاہیئے ،
حمد و ثناء اور نعت رسول ﷺ بھی اسی طرح حسین و جمیل اور دلآویز طریقہ سے سنانا چاہیئے ،
لیکن ۔۔۔ پیشہ ور میراثیوں کی ادا ،لہجہ ،انداز ،آواز کی نقل اور تقلید کسی صورت جائز نہیں ،
درج ذیل حدیث دیکھئے ۔:
عن عليم، قال: كنا جلوسا على سطح معنا رجل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال يزيد: لا أعلمه إلا عبسا الغفاري، والناس يخرجون في الطاعون، فقال عبس: يا طاعون خذني، ثلاثا يقولها، فقال له عليم: لم تقول هذا؟ ألم يقل رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يتمنى أحدكم الموت فإنه عند انقطاع عمله، ولا يرد فيستعتب " فقال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " بادروا بالموت ستا: إمرة السفهاء، وكثرة الشرط، وبيع الحكم، واستخفافا (1) بالدم، وقطيعة الرحم، ونشوا يتخذون القرآن مزامير يقدمونه يغنيهم، وإن كان أقل منهم فقها "سلسلہ احادیث صحیحہ ترقیم البانی: 3285)
تو ان احادیث نبویہ سے واضح ہے کہ :
اللہ کا کلام خوبصورت اور دل کش آواز و انداز سے پڑھنا چاہیئے ،
حمد و ثناء اور نعت رسول ﷺ بھی اسی طرح حسین و جمیل اور دلآویز طریقہ سے سنانا چاہیئے ،
لیکن ۔۔۔ پیشہ ور میراثیوں کی ادا ،لہجہ ،انداز ،آواز کی نقل اور تقلید کسی صورت جائز نہیں ،
درج ذیل حدیث دیکھئے ۔:
ترجمہ :
علیم کہتے ہیں:ہم ایک چھت پر بیٹھے ہوئے تھے ،ہمارے ساتھ ایک صحابی جناب عبس غفاری رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرماتھے ،ان دنوں لوگ طاعون کی وجہ شہر سے نکل رہے تھے ، سیدنا عبس غفاری کہنے لگے : اے طاعون! مجھ پر طاری ہو جا۔ ( انہوں نے یہ بات تین دفعہ کی)۔ یہ بات سن کر علیم نے انہیں کہا: آپ موت کی تمنا کیوں کرتے ہیں، (کیا آپ نہیں جانتے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا: ”کوئی بھی موت کی تمنا نہ کرے، کیونکہ موت اعمال کے سلسلے کو منقطع کر دینے والی چیز ہے، کسی کو (موت کے بعد) دوبارہ دنیا میں واپس نہ بھیجا جائے گا ،کہ وہ توبہ کرلے۔“
تو سیدنا عبس غفاری نے فرمایا: میں نے طاعون میں مبتلا ہونے کی دعاء اس لئے کی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”موت (آنے سے پہلے )ان چھ چیزوں سے کی طرف سبقت کرو ،(1) بیوقوفوں کی حکومت، (2)پولیس والوں کی کثرت،(3) انصاف کا بک جانا،(یا عہدوں کی خرید و فروخت )(4) قتل کو معمولی سمجھتا، (5)قطع رحمی کرنا اور(6) ایسی نئی نسل کا ظہور جو قرآن کریم کو موسیقی کی طرح گا کر پڑھیں گے ،اور اس طرح قرآن پڑھنے والے کو (امامت یا خطابت کیلئے ) آگے کیا جائے گا ، حالاں کہ اس میں دین کی سمجھ بوجھ (اس فتنہ کے زمانے کے دوسرے ) لوگوں سے بھی زیادہ کم ہو "
مسند احمد ،شیخ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :حديث صحيح ،وهذا إسناد ضعيف،
وأخرجه أبو عبيد القاسم بن سلام في "فضائل القرآن" ص 80-81 عن يزيد ابن هارون، بهذا الإسناد.
وأخرجه بنحوه البخاري في "التاريخ الكبير" 7/80، والطبراني في "الكبير" 18/ (61) من طريقين عن شريك بن عبد الله، به.
وأخرجه أبو عبيد ص 81، والبزار (1610) "
ـــــــــــــــــــــــــــــ
علیم کہتے ہیں:ہم ایک چھت پر بیٹھے ہوئے تھے ،ہمارے ساتھ ایک صحابی جناب عبس غفاری رضی اللہ عنہ بھی تشریف فرماتھے ،ان دنوں لوگ طاعون کی وجہ شہر سے نکل رہے تھے ، سیدنا عبس غفاری کہنے لگے : اے طاعون! مجھ پر طاری ہو جا۔ ( انہوں نے یہ بات تین دفعہ کی)۔ یہ بات سن کر علیم نے انہیں کہا: آپ موت کی تمنا کیوں کرتے ہیں، (کیا آپ نہیں جانتے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا: ”کوئی بھی موت کی تمنا نہ کرے، کیونکہ موت اعمال کے سلسلے کو منقطع کر دینے والی چیز ہے، کسی کو (موت کے بعد) دوبارہ دنیا میں واپس نہ بھیجا جائے گا ،کہ وہ توبہ کرلے۔“
تو سیدنا عبس غفاری نے فرمایا: میں نے طاعون میں مبتلا ہونے کی دعاء اس لئے کی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”موت (آنے سے پہلے )ان چھ چیزوں سے کی طرف سبقت کرو ،(1) بیوقوفوں کی حکومت، (2)پولیس والوں کی کثرت،(3) انصاف کا بک جانا،(یا عہدوں کی خرید و فروخت )(4) قتل کو معمولی سمجھتا، (5)قطع رحمی کرنا اور(6) ایسی نئی نسل کا ظہور جو قرآن کریم کو موسیقی کی طرح گا کر پڑھیں گے ،اور اس طرح قرآن پڑھنے والے کو (امامت یا خطابت کیلئے ) آگے کیا جائے گا ، حالاں کہ اس میں دین کی سمجھ بوجھ (اس فتنہ کے زمانے کے دوسرے ) لوگوں سے بھی زیادہ کم ہو "
مسند احمد ،شیخ شعیب ارناؤط لکھتے ہیں :حديث صحيح ،وهذا إسناد ضعيف،
وأخرجه أبو عبيد القاسم بن سلام في "فضائل القرآن" ص 80-81 عن يزيد ابن هارون، بهذا الإسناد.
وأخرجه بنحوه البخاري في "التاريخ الكبير" 7/80، والطبراني في "الكبير" 18/ (61) من طريقين عن شريك بن عبد الله، به.
وأخرجه أبو عبيد ص 81، والبزار (1610) "
ـــــــــــــــــــــــــــــ