(ا) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت جیسے شرک، بے حیائی یا اس قسم کی کوئی اور چیز پائی جائے۔ اس کے حرام ہونے پر سب علماء کا اتفاق ہے۔ موجودہ دور کی ۹۰ فیصد موسیقی اسی قسم کی ہے۔
(ب) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو اور نہ ہی سازوں کا استعمال ہو۔ اس کے جواز کے تمام علماء قائل ہیں۔ حمد و نعت، قومی ترانے اور اصلاحی نظمیں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔
(ج) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو مگر سازوں کا استعمال کیا جائے۔ اس کے بارے میں قدیم و جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک سازوں کے استعمال کے باعث ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ جو علماء اسے ناجائز سمجھتے ہیں، وہ ایسا اس حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں:
وقال هشام بن عمار: حدثنا صدقة بن خالد: حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر: حدثنا عطية بن قيس الكلابي: حدثنا عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال: حدثني أبو عامر - أو أبو مالك - الأشعري، والله ما كَذَبَني: سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (ليكوننَّ من أمتي أقوام، يستحلُّون الْحِرَ والحرير، والخمر والمعازف، ولينزلنَّ أقوام إلى جنب عَلَم، يروح عليهم بسارحة لهم، يأتيهم - يعني الفقير - لحاجة فيقولوا: ارجع إلينا غداً، فيُبيِّتهم الله، ويضع العلم، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة). (بخاری ، کتاب الاشربہ، حدیث 5268)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالی رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کےلئے بندر و خنزیر بنا دے گا۔"
جو علماء موسیقی کو جائز سمجھتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں اس موسیقی کی مذمت ہے جس میں بے حیائی اور فحاشی پائی جاتی ہو، جیسا کہ آج کل کی اکثر موسیقی میں ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ حدیث میں موسیقی کا ذکر بدکاری، شراب اور ریشم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دور جاہلیت کے عربوں کے ہاں بھی ڈانس پارٹیاں ہوا کرتی تھیں جن میں رقاصائیں ریشمی لباس پہن کر آتیں، شراب کے دور چلتے اور موسیقی سنی و سنائی جاتی اور پھر نوبت بدکاری تک جا پہنچتی۔ ایسی موسیقی کی حرمت کے بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ایسی موسیقی جس میں بے حیائی نہ ہو، اس کے جواز میں وہ یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا إسماعيل قال: حدثني ابن وهب: قال عمرو: حدثني أبو الأسود، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، فدخل أبو بكر فانتهرني وقال: مزمارة الشيطان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: (دعهما). فلما غفل غمزتهما فخرجتا. وقالت: وكان يوم عيد، يلعب السودان بالدرق والحراب، فإما سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإما قال: (تشتهين تنظرين). فقالت: نعم، فأقامني وراءه، خدي على خده، ويقول: (دونكم بني أرفدة). حتى إذا مللت، قال: (حسبك). قلت: نعم، قال: فاذهبي). (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 2750)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے تو میرے پاس دو بچیاں تھیں جو کہ جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ آ کر میرے بستر پر لیٹ گئے اور رخ مبارک دوسری جانب کر لیا۔ ابوبکر گھر میں آئے تو بولے: رسول اللہ کے پاس شیطانی گیت؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانب رخ انور پھیر کر ارشاد فرمایا: "انہیں چھوڑ دو۔" پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ وہ عید کا دن تھا۔ سوڈانی لوگ اپنے نیزوں اور ڈھال کی مدد سے کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ نے خود ہی فرمایا: "تم یہ دیکھنا چاہتی ہو؟" میں نے کہا، "جی ہاں۔" تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کے ساتھ تھا۔ آپ فرما رہے تھے: "بہت خوب، بنو ارفدہ۔" جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: "بس۔" پھر فرمایا: "جاؤ۔"
حدثنا مسدد: حدثنا بشر بن المفضل: حدثنا خالد بن ذكوان قال: قالت الربيع بنت معوذ بن عفراء: جاء النبي صلى الله عليه وسلم فدخل حين بني علي، فجلس على فراشي كمجلسك مني، فجعلت جويريات لنا، يضربن بالدف ويندبن من قتل من أبائي يوم بدر، إذ قالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال: (دعي هذا، و قولي بالذي كنت تقولين). (بخاری ، کتاب النکاح، حدیث 4852)
ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ یہاں میرے بستر پر ایسے بیٹھے جیسے تم لوگ بیٹھے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے والد اور چچا جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، ان کی تعریف کرنے لگیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "اسے چھوڑو اور وہ گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔"
ّآپ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کر کے اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
(ب) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو اور نہ ہی سازوں کا استعمال ہو۔ اس کے جواز کے تمام علماء قائل ہیں۔ حمد و نعت، قومی ترانے اور اصلاحی نظمیں اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔
(ج) وہ موسیقی جس میں کوئی اخلاقی قباحت نہ ہو مگر سازوں کا استعمال کیا جائے۔ اس کے بارے میں قدیم و جدید علماء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ بعض کے نزدیک یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک سازوں کے استعمال کے باعث ناجائز۔ دونوں گروہوں کے اپنے اپنے دلائل ہیں۔ جو علماء اسے ناجائز سمجھتے ہیں، وہ ایسا اس حدیث کی بنیاد پر کہتے ہیں:
وقال هشام بن عمار: حدثنا صدقة بن خالد: حدثنا عبد الرحمن بن يزيد بن جابر: حدثنا عطية بن قيس الكلابي: حدثنا عبد الرحمن بن غنم الأشعري قال: حدثني أبو عامر - أو أبو مالك - الأشعري، والله ما كَذَبَني: سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (ليكوننَّ من أمتي أقوام، يستحلُّون الْحِرَ والحرير، والخمر والمعازف، ولينزلنَّ أقوام إلى جنب عَلَم، يروح عليهم بسارحة لهم، يأتيهم - يعني الفقير - لحاجة فيقولوا: ارجع إلينا غداً، فيُبيِّتهم الله، ويضع العلم، ويمسخ آخرين قردة وخنازير إلى يوم القيامة). (بخاری ، کتاب الاشربہ، حدیث 5268)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالی رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کےلئے بندر و خنزیر بنا دے گا۔"
جو علماء موسیقی کو جائز سمجھتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں اس موسیقی کی مذمت ہے جس میں بے حیائی اور فحاشی پائی جاتی ہو، جیسا کہ آج کل کی اکثر موسیقی میں ہے۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ حدیث میں موسیقی کا ذکر بدکاری، شراب اور ریشم کے ساتھ کیا گیا ہے۔ دور جاہلیت کے عربوں کے ہاں بھی ڈانس پارٹیاں ہوا کرتی تھیں جن میں رقاصائیں ریشمی لباس پہن کر آتیں، شراب کے دور چلتے اور موسیقی سنی و سنائی جاتی اور پھر نوبت بدکاری تک جا پہنچتی۔ ایسی موسیقی کی حرمت کے بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
ایسی موسیقی جس میں بے حیائی نہ ہو، اس کے جواز میں وہ یہ احادیث پیش کرتے ہیں:
حدثنا إسماعيل قال: حدثني ابن وهب: قال عمرو: حدثني أبو الأسود، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، فدخل أبو بكر فانتهرني وقال: مزمارة الشيطان عند رسول الله صلى الله عليه وسلم. فأقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: (دعهما). فلما غفل غمزتهما فخرجتا. وقالت: وكان يوم عيد، يلعب السودان بالدرق والحراب، فإما سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإما قال: (تشتهين تنظرين). فقالت: نعم، فأقامني وراءه، خدي على خده، ويقول: (دونكم بني أرفدة). حتى إذا مللت، قال: (حسبك). قلت: نعم، قال: فاذهبي). (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 2750)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے تو میرے پاس دو بچیاں تھیں جو کہ جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ آ کر میرے بستر پر لیٹ گئے اور رخ مبارک دوسری جانب کر لیا۔ ابوبکر گھر میں آئے تو بولے: رسول اللہ کے پاس شیطانی گیت؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانب رخ انور پھیر کر ارشاد فرمایا: "انہیں چھوڑ دو۔" پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ وہ عید کا دن تھا۔ سوڈانی لوگ اپنے نیزوں اور ڈھال کی مدد سے کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ نے خود ہی فرمایا: "تم یہ دیکھنا چاہتی ہو؟" میں نے کہا، "جی ہاں۔" تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کے ساتھ تھا۔ آپ فرما رہے تھے: "بہت خوب، بنو ارفدہ۔" جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: "بس۔" پھر فرمایا: "جاؤ۔"
حدثنا مسدد: حدثنا بشر بن المفضل: حدثنا خالد بن ذكوان قال: قالت الربيع بنت معوذ بن عفراء: جاء النبي صلى الله عليه وسلم فدخل حين بني علي، فجلس على فراشي كمجلسك مني، فجعلت جويريات لنا، يضربن بالدف ويندبن من قتل من أبائي يوم بدر، إذ قالت إحداهن: وفينا نبي يعلم ما في غد، فقال: (دعي هذا، و قولي بالذي كنت تقولين). (بخاری ، کتاب النکاح، حدیث 4852)
ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ یہاں میرے بستر پر ایسے بیٹھے جیسے تم لوگ بیٹھے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے والد اور چچا جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، ان کی تعریف کرنے لگیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "اسے چھوڑو اور وہ گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔"
ّآپ دونوں جانب کے دلائل کا مطالعہ کر کے اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔