• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198

صلَّى بنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ الفجرَ . وصعِد المنبرَ فخطبنا حتى حضرتِ الظهرُ . فنزل فصلى . ثم صعِد المنبرَ . فخطبنا حتى حضرت العصرُ . ثم نزل فصلَّى . ثم صعِد المنبرَ . فخطبَنا حتىغربتِ الشمسُ . فأخبرنا بما كان وبما هو كائنٌ . فأعلمُنا أحفظُنا .
الراوي : عمرو بن أخطب أبو زيد الأنصاري | المحدث : مسلم | المصدر : صحيح مسلم

الصفحة أو الرقم: 2892 | خلاصة حكم المحدث : صحيح

اردو ترجمہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری
’’حضرت عمرو بن اخطب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر میں ہماری امامت فرمائی اور منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہوگیا‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیچے تشریف لے آئے نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہمیں خطاب فرمایا حتی کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر منبر سے نیچے تشریف لائے اور نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ہر اس بات کی خبر دے دی جو جو آج تک وقوع پذیر ہو چکی تھی اور جو قیامت تک ہونے والی تھی۔ حضرت عمرو بن اخطب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم میں زیادہ جاننے والا وہی ہے جو ہم میں سب سے زیادہ حافظہ والا تھا۔‘‘
  • جتنا اللہ تعالی نے مطلع فرمایا اتنا ہی علم تھا اس سے زیادہ نہیں اور جب غیب کی بات کسی کو بتا دی جائے تو وہ غیب نہیں رہتی
    مراد قیامت تک پیش آنے والے اہم واقعات کا بیان ہے. ظاہر ہے ماکان ومایکون کو بیان کرنے کے لیے تو ہزارسال بھی ناکافی ہیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
چلے اس کی وضاحت شیخ @اسحاق سلفی بھائی سے پونچھ لیتے ہے
سورۃ الجن ۔۔کی ان آیات میں جس غیب کا ذکر ہے ،وہ دراصل وحی کے ذریعےدی جانے والی وہ معلومات ہیں ،جو وحی کے نزول سے قبل نبی کریم ﷺ سمیت
سب لوگوں کیلئے ’’ غیب ‘‘ تھیں ،
جیسے گذشتہ انبیاء ، اور امتوں کے حالات ،جنت و جہنم ،اور ملائکہ کے احوال ،اور روز محشر پیش آنے والے حالات و واقعات ۔اللہ عزوجل کے پسندیدہ و نا پسندیدہ اعمال ۔
وغیرہ بے شمار معلومات جو ’’ وحی ‘‘ کے ذریعہ ہی پیغمبر اکرم ﷺ کے علم میں آئیں ۔۔اور ان کے توسط سے امت کو منتقل ہوئیں ؛؛؛؛
اور یہ غیبی امور ’’ رسالات ‘‘ یعنی پیغامات ربانی کا حصہ تھے جو رسول اللہ ﷺ کی تبلیغ سے انسانوں تک پہنچے ؛؛؛؛ اس بات کا ثبوت ان آیات کے آخری آیت میں
یوں بیان کیا گیا ’’ ’’ لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ ‘‘تاکہ وہ جان لے کہ یقیناً انہوں نے اپنے رب کے ’’ پیغامات ‘‘ پہنچا دیئے۔

اور بہرام صاحب نے ان آیات سے پہلی والی آیت اسی لیئے بیان نہیں کی کہ اس میں ۔۔ان کے عقیدہ علم غیب کا بھانڈہ ۔۔پھوٹ جاتا؛
تو لیجیئے ہم پیش کیئے دیتے ہیں ،اسے پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کیجیئے :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’قُلْ اِنْ اَدْرِيْٓ اَقَرِيْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ يَجْعَلُ لَهٗ رَبِّيْٓ اَمَدًا ‘‘ (سورہ الجن ۔ 25 )
کہہ دیجئے مجھے معلوم نہیں کہ جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لئے دوری کی مدت مقرر کرے گا (١) ۔
توضیح :
٢٥۔ ١ مطلب یہ ہے کہ عذاب یا قیامت کا علم، یہ غیب سے تعلق رکھتا ہے جس کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ وہ قریب ہے یا دور۔)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰي غَيْبِهٖٓ اَحَدًا (سورہ الجن ۔ 26)
وہی غیب کا جاننے والا ہے ، اور اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ (١)

’’اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ فَاِنَّهٗ يَسْلُكُ مِنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ رَصَدًا۔(سورہ الجن ۔ 27)
سوائے اس پیغمبر کے جسے وہ پسند کر لے ، لیکن اس کے بھی آگے پیچھے پہرے دار مقرر کر دیتا ہے (١)
توضیح :
٢٧۔ ١ یعنی نزول وحی کے وقت پیغمبر کے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں اور شیاطین اور جنات کو وحی کی باتیں سننے نہیں دیتے۔

اور ابو السعود لکھتے ہیں :أي إلا رسولاً ارتضاهُ لإظهارِه على بعضِ غيوبهِ المتعلقةِ برسالتِه ‘‘
یعنی اپنے پسندیدہ رسول کو ،اسکی رسالت کے متعلق بعض غیب کی باتیں ظاہر کرتا ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ لِّيَعْلَمَ اَنْ قَدْ اَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّهِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَاَحْصٰى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا (سورہ الجن ۔ 28 )
تاکہ ان کے اپنے رب کے پیغام پہنچا دینے کا علم ہو جائے (١) اللہ تعالیٰ نے انکے آس پاس (کی چیزوں) کا احاطہ کر رکھا ہے ، اور ہرچیز کی گنتی کا شمار کر رکھا ہے ۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب سب سے پہلی آیت میں نبی کریم کی زبانی یہ اعلان کروایا کہ :
میں وحی کے ذریعے بے شمار معلومات حاصل کرلینے کے باوجود ،یہ نہیں جانتا کہ جس عذاب کا ،یا یوم حساب کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ کب واقع ہوگا ،
۔۔۔۔۔۔۔تو اس آیت سے اس علم غیب کی نفی ہوگئی ۔۔جس کا شور قبر پرست کیا کرتے ہیں ۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اور بھی کئی آیت قرآنی و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کا علم عطاء فرمایا ہے
بس انتظار کریں ''وہ قرآنی آیات '' اور ''تابوت سکینہ'' ایک ساتھ ہی ظہور پذیر ہوں گے!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بس انتظار کریں ''وہ قرآنی آیات '' اور ''تابوت سکینہ'' ایک ساتھ ہی ظہور پذیر ہوں گے!
السلام علیکم :

بھائی یہ تابوت سکینہ کیا ہے ؟؟؟؟
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
السلام علیکم :

بھائی یہ تابوت سکینہ کیا ہے ؟؟؟؟
تابوت سکینہ

یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا ۔ یہ آپ کی آخر زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا ۔
پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا ۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے ۔
یہ بڑا ہی مقدس اور با برکت صندوق تھا ۔ بنی اسرائیل جب کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہو جاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہو جاتے تھے ۔ اور جس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصرٌ مّن اللہ و فَتحٌ قَریب کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہو جایا کرتی تھی ۔
بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوت سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرت خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہو گئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہو گیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کر دیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کر ڈالا اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں کے ہجوم میں جھنجھوڑ دئیے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آ جائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کر لیں گے۔ چنانچہ صندوق آ گیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔ ( تفسیر الصاوی، ج1، ص209۔ تفسیر روح البیان، ج1، ص385۔ پ2، البقرۃ: 247 )

تابوت سکینہ میں کیا تھا ؟
اس مقدّس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے، کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاءکرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔ ( تفسیر روح البیان، ج1، ص386، پ2، البقرۃ: 248 )
قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :-
وقال لھم نبیھم ان ایۃ ملکہ ان یاتیکم التابوت فیہ سکینۃ من ربکم و بقیۃ مما ترک اٰل موسیٰ وال ھرون تحملہ الملئکۃ ط ان فی ذٰلک لایٰۃ لکم ان کنتم مؤمنین ہ ( پ2، البقرۃ: 248 )
ترجمہ کنزالایمان: اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہاری پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔
درس ہدایت
بنی اسرائیل کے صندوق کے اس واقعہ سے چند مسائل و فوائد پر روشنی پڑتی ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہیں:
(1 )معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات کی خداوند قدوس کے دربار میں بڑی عزت و عظمت ہے اور ان کے ذریعہ مخلوق خدا کو بڑے بڑے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔ دیکھ لو ! اس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جوتیاں، آپ کا عصا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی پگڑی تھی، تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ صندوق اس قدر مقبول اور مکرم و معظم ہو گیا کہ فرشتوں نے اس کو اپنے نورانی کندھوں پر اٹھا کر حضرت شمویل علیہ السلام کے دربار نبوت میں پہنچایا اور خداوندی قدوس نے قرآن مجید میں اس بات کی شہادت دی کہ فیہ سکینۃ من ربکم یعنی اس صندوق میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ یعنی مومنوں کے قلوب کا اطمینان اور ان کی روحوں کی تسکین کا سامان تھا۔مطلب یہ کہ اس پر رحمت الہٰی کے انوار و برکات کا نزول اور اس پر رحمتوں کی بارش ہوا کرتی تھی تو معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات جہاں اور جس جگہ بھی ہوں گے ضرور ان پر رحمت خداوندی کا نزول ہوگا اور اس پر نازل ہونے والی رحمتوں اور برکتوں سے مومنین کو سکون قلب اور اطمینان روح کے فیوض و برکات ملتے رہیں گے۔
(2 )اس صندوق میں اللہ والوں کے لباس و عصا اور جوتیاں ہوں جب اس صندوق پر اطمینان کا سکینہ اور انوار و برکات کا خزینہ خدا کی طرف سے اترنا، قرآن سے ثابت ہے تو بھلا جس قبر میں ان بزرگوں کا پورا جسم رکھا ہوگا، کیا ان قبروں پر رحمت و برکت اور سکینہ و اطمینان نہیں اترے گا ؟ ہر عاقل انسان جس کو خداوند عالم نے بصارت کے ساتھ ساتھ ایمانی بصیرت بھی عطا فرمائی ہے، وہ ضرور اس بات پر ایمان لائے گا کہ جب بزرگوں کے لباس اور ان کی جوتیوں پر سکینہ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ان بزرگوں کی قبروں پر بھی رحمت خداوندی کا خزینہ ضرور نازل ہو گا۔ اور جب بزرگوں کی قبروں پر رحمتوں کی بارش ہوتی ہے تو جو مسلمان ان مقدس قبروں کے پاس حاضر ہو گا ضرور اس پر بھی بارش انوار رحمت کے چند قطرات برس ہی جائیں گے کیونکہ جو موسلا دھار بارش میں کھڑا ہوگا ضرور اس کا کپڑا اور بدن بھیگے گا، جو دریا میں غوطہ لگائے گا ضرور اس کا بدن پانی سے تر ہو گا، جو عطر کی دوکان پر بیٹھے گا ضرور اس کو خوشبو نصیب ہو گی۔ تو ثابت ہو گیا کہ جو بزرگوں کی قبروں پر حاضری دیں گے ضرور وہ فیوض و برکات کی دولتوں سے مالا مال ہوں گے اور ضرور ان پر خدا کی رحمتوں کا نزول ہوگا جس سے ان کے مصائب و آلام دور ہوں گے اور دین و دنیا کے فوائد منافع حاصل ہوں گے۔
(3 )یہ بھی معلوم ہوا کہ جو لوگ بزرگوں کے تبرکات یا ان کی قبروں کی اہانت و بے ادبی کریں گے وہ ضرور قہر و قہار اور غضب جبار میں گرفتار ہوں گے کیونکہ قوم عمالقہ جنہوں نے اس صندوق کی بے ادبی کی تھی ان پر ایسا قہر الہٰی کا پہاڑ ٹوٹا کہ وہ بلاؤں کے ہجوم سے بلبلا اٹھے اور کافر ہوتے ہوئے انہوں نے اس بات کو مان لیا کہ ہم پر بلاؤں اور وباؤں کا حملہ اسی صندوق کی بے ادبی کی وجہ سے ہوا ہے۔ چنانچہ اسی لئے ان لوگوں نے اس صندوق کو بیل گاڑی پر لاد کر بنی اسرائیل کی بستی میں بھیج دیا تاکہ وہ لوگ غضب الہٰی کی بلاؤں کے پنجہ قہر سے نجات پا لیں۔
(4 )جب اس صندوق کی برکت سے بنی اسرائیل کو جہاد میں فتح مبین ملتی تھی تو ضرور بزرگوں کی قبروں سے بھی مؤمنین کی مشکلات دفع ہوں گی اور مرادیں پوری ہوں گی کیونکہ ظاہر ہے کہ بزرگوں کے لباس سے کہیں زیادہ اثر رحمت بزرگوں کے بدن میں ہوگا۔
(5 )اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو قوم سرکشی اور عصیان کے طوفان میں پڑ کر اللہ و رسول ( عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم )کی نافرمان ہو جاتی ہے اس قوم کی نعمتیں چھین لی جاتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے پڑھ لیا کہ جب بنی اسرائیل سرکش ہو کر خدا کے نافرمان ہو گئے اور قسم قسم کی بدکاریوں میں پڑ کر گناہوں کا بھوت ان کے سروں پر عفریت بن کر سوار ہو گیا تو ان کے جرموں کی نحوستوں نے انہیں یہ برا دن دکھایا کہ صندوق سکینہ ان کے پاس سے قوم عمالقہ کے کفار اٹھا لے گئے اور بنی اسرائیل کئی برسوں تک اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہو گئے۔ ( واللہ تعالیٰ اعلم
http://www.itbunyad.com/t8096
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بس انتظار کریں ''وہ قرآنی آیات '' اور ''تابوت سکینہ'' ایک ساتھ ہی ظہور پذیر ہوں گے!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(صرف ایک دفعہ علیکم کے لئے معافی چاہتا ہوں )
قرآنی آیات

وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo

النساٗ، 4 : 113

مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo

آل عمران، 3 : 179



عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo

الجن، 72 : 26۔ 27


وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo

التکویر، 81 : 24


احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے !!!!!یعنی تابوت سکینہ فی ۔۔۔۔۔

حدثنا يوسف بن موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن بريد بن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي موسى الأشعري،‏‏‏‏ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها،‏‏‏‏ فلما أكثروا عليه المسألة غضب وقال ‏"‏ سلوني ‏"‏‏.‏ فقام رجل فقال يا رسول الله من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة ‏"‏‏.‏ فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب قال إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.‏

ترجمہ داؤدراز
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 7291

وروى عيسى،‏‏‏‏ عن رقبة،‏‏‏‏ عن قيس بن مسلم،‏‏‏‏ عن طارق بن شهاب،‏‏‏‏ قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاما،‏‏‏‏ فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم،‏‏‏‏ وأهل النار منازلهم،‏‏‏‏ حفظ ذلك من حفظه،‏‏‏‏ ونسيه من نسيه‏.‏

ترجمہ داؤد راز
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا، انہوں نے قیس بن مسلم سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
َصحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3192

حدثنا موسى بن مسعود،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن الأعمش،‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ عن حذيفة ـ رضى الله عنه ـ قال لقد خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم خطبة،‏‏‏‏ ما ترك فيها شيئا إلى قيام الساعة إلا ذكره،‏‏‏‏ علمه من علمه،‏‏‏‏ وجهله من جهله،‏‏‏‏ إن كنت لأرى الشىء قد نسيت،‏‏‏‏ فأعرف ما يعرف الرجل إذا غاب عنه فرآه فعرفه‏.‏

ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 6604
جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
(صرف ایک دفعہ علیکم کے لئے معافی چاہتا ہوں )
کتابت کی غلطی پر نشاندہی پر شکریہ!
قرآنی آیات
وَأَنزَلَ اللّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاo
النساٗ، 4 : 113
مَا كَانَ اللّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَآ أَنتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌo
آل عمران، 3 : 179
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاo إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاo
الجن، 72 : 26۔ 27
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍo
التکویر، 81 : 24
احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اصح کتاب بعد کتاب اللہ سے !!!!!یعنی تابوت سکینہ فی ۔۔۔۔۔
حدثنا يوسف بن موسى،‏‏‏‏ حدثنا أبو أسامة،‏‏‏‏ عن بريد بن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي بردة،‏‏‏‏ عن أبي موسى الأشعري،‏‏‏‏ قال سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أشياء كرهها،‏‏‏‏ فلما أكثروا عليه المسألة غضب وقال ‏"‏ سلوني ‏"‏‏.‏ فقام رجل فقال يا رسول الله من أبي قال ‏"‏ أبوك حذافة ‏"‏‏.‏ ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال ‏"‏ أبوك سالم مولى شيبة ‏"‏‏.‏ فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب قال إنا نتوب إلى الله عز وجل‏.
ترجمہ داؤدراز
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بار گاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔
صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 7291
وروى عيسى،‏‏‏‏ عن رقبة،‏‏‏‏ عن قيس بن مسلم،‏‏‏‏ عن طارق بن شهاب،‏‏‏‏ قال سمعت عمر ـ رضى الله عنه ـ يقول قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم مقاما،‏‏‏‏ فأخبرنا عن بدء الخلق حتى دخل أهل الجنة منازلهم،‏‏‏‏ وأهل النار منازلهم،‏‏‏‏ حفظ ذلك من حفظه،‏‏‏‏ ونسيه من نسيه‏.‏
ترجمہ داؤد راز
اور عیسیٰ نے رقبہ سے روایت کیا، انہوں نے قیس بن مسلم سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ہمیں وعظ فرمایا اور ابتدائے خلق کے بارے میں ہمیں خبر دی۔ یہاں تک کہ جب جنت والے اپنی منزلوں میں داخل ہو جائیں گے اور جہنم والے اپنے ٹھکانوں کو پہنچ جائیں گے (وہاں تک ساری تفصیل کو آپ نے بیان فرمایا) جسے اس حدیث کو یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا۔
َصحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3192
حدثنا موسى بن مسعود،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن الأعمش،‏‏‏‏ عن أبي وائل،‏‏‏‏ عن حذيفة ـ رضى الله عنه ـ قال لقد خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم خطبة،‏‏‏‏ ما ترك فيها شيئا إلى قيام الساعة إلا ذكره،‏‏‏‏ علمه من علمه،‏‏‏‏ وجهله من جهله،‏‏‏‏ إن كنت لأرى الشىء قد نسيت،‏‏‏‏ فأعرف ما يعرف الرجل إذا غاب عنه فرآه فعرفه‏.‏
ہم سے موسیٰ بن مسعود نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور قیامت تک کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جس کا بیان نہ کیا ہو، جسے یاد رکھنا تھا اس نے یاد رکھا اور جسے بھولنا تھا وہ بھول گیا، جب میں ان کی کوئی چیز دیکھتا ہوں جسے میں بھول چکا ہوں تو اس طرح اسے پہچان لیتا ہوں جس طرح وہ شخص جس کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو کہ جب وہ اسے دیکھتا ہے تو فوراً پہچان لیتا ہے۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 6604
جنت دوزخ کی کچھ غیب کی خبریں، قیامت کا قائم ہونے کی غیب کی خبر، ماضی کے غیب کی کچھ خبریں اللہ تعالیٰ کے قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں راود ہوئی ہیں، اور ہم بھی جانتے ہیں! کہ قیامت واقع ہو گی۔
اب کو ئی منچلا خود کو''عالم الغیب'' سمجھنے لگے کہ دیکھو دیکھو ، قیامت تو مستقبل میں واقع ہو گی یہ تو غیب کی بات ہے، مجھے بھی معلوم ہے!!
بس اسی طرح کا معاملہ یہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے عالم الغیب کشید کرنے کا ہے! یہ اسے اس منچلے کا استدلال کہا جاسکتا ہے! فتدبر!!
جو ہوچکا جو ہوگا حضور جانتے ہیں
تیری عطاء سے خدایا حضور جانتے ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
یہ شعر کس منچلے کا ہے؟ اگر معلوم ہو تو بتا دیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دیوبندی مماتیوں (اشاعت توحید و السنۃ) کے ایک عالم ہیں خضر حیات بکھروی، اختلاف اپنی جگہ، لیکن انہوں نے مذکورہ بیان میں بریلوں کے دلائل کا بہت اچھی طرح جائزہ لیا ہے، اور علمائے احناف کی کتب سے بہت اچھی طرح جواب دیئے ہیں۔ 21یو ٹیوب پر حصوں پر مشتمل بیان، کافی مفید بیان ہے:
ملاحظہ فرمائیں:توحید سیمینار گجرانوالہ میں خضر حیات بکھروی کا بیان
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم :
بھائی یہ تابوت سکینہ کیا ہے ؟؟؟؟
''تابوت سکینہ'' ان چند چیزوں میں سے ایک ہے، جو شیعہ بارہ امامیہ روافض کے نزدیک ان کے ''امام منتظر'' اپنے ساتھ لے کر غَیبت کبری میں چلے گئے ہیں، جیسے کہ بقول شیعہ بارہ امامیہ روافض کے نزدیک وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ تحریف سے پاک قرآن بھی ساتھ ہی لے گئے ہیں۔ یہ چیزیں اسی وقت ''ظہور پزیر'' ہوں گی جب امام منتظر کا انتظار ختم ہو گا اور وہ ظہور پزیر ہوں گے۔
 
Top