• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
غیب کی لغوی تعریف
غیب کا معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ۔

المنجد، 892

امام راغب فرماتے ہیں غیب مصدر ہے۔ سورج آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو کہتے ہیں غابت الشمس سورج غائب ہو گیا۔

کل غائب عن الحاسه وعما یغیب عن علم الانسان بمعنی الغائب یقال للشئ غیب وغائب باعتباره بالناس لا باﷲ تعالی فانه لا یغیب عنه الشئ قوله عالم الغیب والشهادة أی ما یغیب عنکم وما تشهدونه والغیب في قوله ’’یومنون بالغیب‘‘ ما لا یقع تحت الحواس ولا تقتضیه بدایة العقول وانما یعلم بخبر الانبیاء علیهم السلام وبدفعه یقع علی الانسان اسم الالحاد

مفردات راغب : 367

’’جو چیز حاسہ سے غائب ہو اور جو کچھ انسانی علم سے چھپا ہو بمعنی غائب ہے۔ کسی چیز کو غیب یا غائب لوگوں کے اعتبار سے کہا جاتا ہے نہ کہ اﷲ کے اعتبار سے کہ اس سے تو کوئی چیز غائب نہیں اور فرمان باری تعالیٰ (عالم الغیب والشہادۃ) کا مطلب ہے جو تم سے غائب ہے اﷲ اسے بھی جاننے والا ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو اسے بھی اور (یومنون بالغیب) میں غیب کا معنی ہے جو کچھ حواس سے بھی معلوم نہ ہو اور عقلوں میں بھی فوراً نہ آئے اسے صرف انبیاء کرام علیہم السلام کے بتانے سے جانا جا سکتا ہے جو اس کا انکار کرے اسے ملحد کہتے ہیں۔ ‘‘
نبی کا معنی
عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔

والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من اﷲ الاخبار عن اﷲ وما یتعلق به تعالی

المنجد، 784

’’نبوت کا مطلب ہے اﷲ کی طرف سے الہام پا کر غیب یا مستقبل کی خبر دینا۔ نبی کا مطلب اﷲ اور اس کے متعلقات کی خبر دینے والا۔ ‘‘
النبی المخبر عن اﷲ لانه انباء عن اﷲ عزوجل فعیل بمعنی فاعل.

لسان العرب لابن منظور، افریقی، 14 : 9

’’نبی کا معنی اﷲ کی خبر دینے والا کیونکہ نبی نے اﷲ کی خبر دی۔ فعیل فاعل کے معنی میں۔ ‘‘

النباء (محرکه الخبر) وهما مترادفان وفرق بینهما بعض وقال الراغب النباء خبر ذو فائده عظیمة یحصل به علم او غلبة الظن ولا یقال للخبر فی الاصل نباحتی یتضمن هذه الاشیاء الثلاثة ویکون صادقا و حقه ان یعتری عن الکذب کالمتواتر و خبر اﷲ وخبر الرسول صلی الله علیه وآله وسلم و نتضمنه معنی الخبر یقال انباته بکذا او لتضمنه معنی العلم یقال انباته کذا والنبی المخبر عن اﷲ فان اﷲ تعالی اخبره عن توحیده واطلعه علی غیبه واعلمه انه نبیه.

تاج العروس شرح القاموس للزبیدی، 1 : 121


’’نبا (حرکت کے ساتھ) اور خبر مترادف ہیں۔ بعض نے ان میں فرق کیا ہے۔ امام راغب کہتے ہیں نبا بڑے فائدے والی خبر ہے۔ جس سے علم قطعی یا ظن غالب ہے جس سے علم قطعی یا ظن غالب حاصل ہو جب تک ا ن تین شرائط کو متضمن نہ ہو خبر کو نبا نہیں کہا جاتا اور یہ خبر سچی ہوتی ہے۔ اس کا حق ہے کہ جھوٹ سے پاک ہو جیسے متواتر اور اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر چونکہ نبا خبرچونکہ نبا خبر کے معنی کو مضمن ہوتی ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے میں نے اسے خبر بتائی اور چونکہ معنی علم کو متضمن ہوتی ہے اس لئے کہاجاتا ہے کہ میں نے اسے یوں خبر بتائی۔ نبی اﷲ کی طرف سے خبر دینے والا، بے شک اﷲ نے آپ کو اپنی توحید کی خبر دی اور آپ کو اپنے غیب پر اطلاع دی اور آپ کو آپ کا نبی ہونا بتایا۔ ’‘
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
معاملہ عالم الغیب کا ہے، اور بھائی جان غیب کی تعریف بیان فرما رہیں ہیں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ماننے والوں کے پر کفر کا فتوی بالصراحت فقہائے احناف نے دیا ہے!
ایک بار پھر پیش کردیتا ہوں، بھائی کو ایک بات کئی کئی بار پیش کرنا پڑتی ہے، خیر کوئی بات نہیں یہ کاپی پیسٹ کا آپشن بہت مفید ہے:
بالجملة، العلم الغيب أمر تفرد به سبحانه ولا سبيل للعباد إليه إلا بإعلام منه و إلهام بطريق المعجزة أو الكرامة أو إرشاد إلی الإستدلال بالأمارات فيما يمكن فيه ذلك، ولهذا ذكر في الفتاوی أن قول القائل عند رؤية هالة القمر، أي دائرته يكون مطر: مدعيا علم الغيب لا بعلامة كفر. ومن اللطائف ما حكاه بعض أرباب الظرائف أن منجما صلب فقيل له: هل رأيت هذا في نجمك؟ فقال: رأيت رفعة ولکن ما عرفت أنها فوق خشبة.
ثم اعلم أن الأنبياء عليهم الصلاة والسلام لم يعلموا المغيبات من الأشياء إلا ما أعلمهم الله تعالی أحيانا.
وذكر الحنفية تصريحا بالتكفير بإعتقاد ان النبي عليه الصلاة والسلام يعلم الغيب
لمعارضة قوله تعالي: «قل لا يعلم من في السماوات والارض الغيب إلا الله» كذا في المسائرة.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 422 جلد 01 شرح الفقه الأكبر - ملا علی القاري الحنفي - دار البشاءر الاسلامية للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 137 جلد 01 - شرح الفقه الأكبر - ملا علي القاري الحنفي - دار الكتب العربية الكبرى - مصر

(وكذا علم المغيبات) أي وكعدم علم بعض المسائل عدم علم المغيبات فلا يعلم النبي منها (الا ما أعلمه الله تعالی به أحيانا وذكر الحنفية) في فروعهم (تصريحا بالتكفير باعتقاد أن النبي يعلم الغيب لمعارضة قوله تعالی «قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ» والله اعلم
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 202 جلد 01 المسامرة شرح المسايرة في العقائد المنجية في الآخرة -أبو المعالي المقدسي - كمال الدين ابن الهمام - مطبعة الكبری الاميرية ببولاق - مصر
اردو ترجمہ کی ضرورت ہو تو بتلا دیں!!
کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہنے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو اﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم اﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب اﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔
یہ سب باتیں آپ کو بھی معلوم ہو گئیں، تو اس قاعدے سے تو آپ بھی ''عالم الغیب'' قرار پائے! کہیں آپ خود کو بھی تو ''عالم الغیب '' نہیں سمجھتے!!
 
Last edited:

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
السلام علیکم
معاملہ عالم الغیب کا ہے، اور بھائی جان غیب کی تعریف بیان فرما رہیں ہیں!
پتہ نہیں کس کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے کیا اپنے آپ کو کیوں کہ دھاگے کا موضوع ہے
کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟
غیب کی تعریف یوں پیش کی گئی کہ جب آپ سے عرض کی گئی کہ
ایک بات بتائیں یہ غیب کہتے کیسے ہے ؟
اس پر آپ نے پھر وہی تجاہلوہابیانہ سے کام لیتے ہوئے ارشاد فرمایا
ثابت علم الغیب آپ کرنے بیٹھے ہو اور ابھی یہ بھی نہیں پتا کہ علم الغیب کہتے کسے ہیں!!
لیکن جب غیب کی تعریف بیان کردی گئی تو اب تجاہل وہابیانہ سے کام لیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا جارہا کہ معاملہ عالم الغیب کا ہے، اور بھائی جان غیب کی تعریف بیان فرما رہیں ہیں!
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا
یہ سب باتیں آپ کو بھی معلوم ہو گئیں، تو اس قاعدے سے تو آپ بھی ''عالم الغیب'' قرار پائے! کہیں آپ خود کو بھی تو ''عالم الغیب '' نہیں سمجھتے!!
کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہینے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو اﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم اﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب اﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔
اور مجھے یہ لگتا ہے کہ آپ اب تک ان سب غیب کی باتوں پر ایمان نہیں لائے اللہ ان باتوں پر ایمان لانے کی توفیق عنایت فرمائے
اور آپ کے سوال کا جواب یہ کہ صحیح بخاری کی حدیث میں آیا ہے کہ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ" جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کے ان ارشادات عالیہ کو جس پاک ہستی نے مکمل طور سے یاد رکھا اس پاک ہستی نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انداز میں یہ نعرہ بھی لگایا کہ سَلُوْنِيجو چاہے پوچھوں اب اس طرح کا نعرہ پوری اسلامی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس پاک ہستی کے سواء کسی نے نہیں لگایا
اب اگر آپ کو یا مجھے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک کی ساری تفصیل یاد ہے یا بقول اسحاق سلفی آپ نے بھی وہ کتابیں پڑھی ہیں یا آپ کے پاس ان کتابوں کی نقل موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء فرمائیں تھیں جن میں تما م جنتیوں اور جہنمیوں کے نام ان کے والد اور قبیلوں کے نام درج تھے اور آپ نے ان کتابوں کو پڑھ کر یاد بھی رکھا ہے تو( ویسے تو آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آپ سے کس امر کے لئے پوچھا گیا ) آپ بھی غیب کی باتیں جانتے ہیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
ہم اس مکمل متن صحیح بخاری سے نقل کرتے ہیں اور اس کا مرادی مفہوم بھی بتاتے ہیں ۔ان شاء اللہ العزیز۔۔وما توفیقی الا باللہ

عن انس رضي الله عنه قال:‏‏‏‏ سالوا النبي صلى الله عليه وسلم حتى احفوه بالمسالة"فصعد النبي صلى الله عليه وسلم ذات يوم المنبر فقال:‏‏‏‏ لا تسالوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت انظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف راسه في ثوبه يبكي فانشا رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير ابيه فقال:‏‏‏‏ يا نبي الله من ابي فقال:‏‏‏‏ ابوك حذافة ثم انشا عمر فقال:‏‏‏‏ رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط فكان قتادة يذكر هذا الحديث عند هذه الآية:‏‏‏‏ يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101.
(صحیح البخاری :حدیث نمبر: 7089 )
ویسے صحیح بخاری میں ایک جگہ اور یہ حدیث بیان ہوئی کہ

أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم خرج حين زاغت الشمس فصلَّى الظهر ، فلما سلم قام على المنبر ، فذكر الساعة ، وذكر أن بين يديها أمورا عظاما ، ثم قال : ( من أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه ، فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا ) . قال أنس : فأكثر الناس البكاء ، وأكثر رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يقول : ( سلوني ) . فقال أنس : فقام إليه رجلٌ فقال : أين مدخلي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( النار ) . فقام عبد الله بن حذافة فقال : من أبي يا رسولَ اللهِ ؟ قال : ( أبوك حذافة ) . قال : ثم أكثر أن يقول : ( سلوني ، سلوني ) . فبرك عمر على ركبتيه فقال : رضينا بالله ربا ، وبالإسلام دينا ، وبمحمد صلَّى اللهُ عليه وسلَّم ورسولا . قال : فسكت رسول الله صلَّى اللهُ عليه وسلَّم حين قال عمر ذلك ، ثم قال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : ( أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر ) .
الراوي : أنس بن مالك | المحدث :البخاري | المصدر : صحيح البخاري

الصفحة أو الرقم: 7294 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

اردو ترجمہ شیخ السلام ڈاکٹر طاہر القادری
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب آفتاب ڈھلا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر سلام پھیرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور قیامت کا ذکر کیا اور پھر فرمایا : اس سے پہلے بڑے بڑے واقعات و حادثات ہیں، پھر فرمایا : جو شخص کسی بھی نوعیت کی کوئی بات پوچھنا چاہتا ہے تو وہ پوچھے، خدا کی قسم! میں جب تک یہاں کھڑا ہوں تم جو بھی پوچھو گے اس کا جواب دوں گا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے زاروقطار رونا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کے سبب بار بار یہ اعلان فرما رہے تھے کہ کوئی سوال کرو، مجھ سے (جو چاہو) پوچھ لو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا ٹھکانہ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دوزخ میں۔ پھر حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیرا باپ حذافہ ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار فرماتے رہے مجھ سے سوال کرو مجھ سے سوال کرو، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہوئے۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رسول ہونے پر راضی ہیں (اور ہمیں کچھ نہیں پوچھنا)۔ راوی کہتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ گذارش کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! ابھی ابھی اس دیوار کے سامنے مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئیں جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا تو آج کی طرح میں نے خیر اور شر کو کبھی نہیں دیکھا۔‘‘
اگر آنکھوں پر شرکیہ عقیدہ کی پٹی نہ بندھی ہو اور عقل پر تعصب کے پردے نہ ہوں تو اس حدیث کا متن پکار ،پکار کر بتا رہا ہے ،کہ رسول اکرم ﷺ یہ باتیں وحی کی بنیاد پر بتا رہے تھے ،اس حدیث میں ایک جملہ ہے :
(( فقال النبي صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ ما رايت في الخير والشر كاليوم قط إنه صورت لي الجنة والنار حتى رايتهما دون الحائط ))
(( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خیر و شر آج جیسا دیکھا، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میرے سامنے جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا۔ ))
یعنی اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا ،جس کے ذریعے پوشیدہ حقائق بیان کیئے جارہے تھے ۔۔
اسی لئے تو واقعہ کے بعد اللہ تعالی نے ایسے سوال کرنے والوں کو تنبیہ کی (( يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم ))
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ صحیح بخاری کی مذکورہ بلا روایت سے آپ کا مرادی مفہوم باطل ہوگیا ہے ؟؟
کیوں آپ یہ فرمارہے ہیں جب جنت و دوزخ کی صورت پیش کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں دیوار کے قریب دیکھا یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب فرمارہے تھے جب کہ مذکورہ بالا روایت میں یہ صریح طور سے بیان ہوا کہ یہ معاملہ اس وقت کا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرمارہے تھے حدیث کے الفاظ
أولى ، والذي نفسي بيده ، لقد عرضت علي الجنة والنار آنفا في عرض هذا الحائط ، وأنا أصلي ، فلم أر كاليومَ في الخير والشر

ویسے آپ کے یہ الفاظ بھی کافی قابل غور ہیں طلب ہیں کہ
اس وقت براہ راست اوپر رابطہ تھا
براہ راست کا مطلب یہی ہے نہ کہ حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطے کے بغیر
جس وقت کی یہ روایت ہے اگر اس وقت کوئی وہابی وہاں موجود ہوتا تو حضرت عمر کا مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کر عرض گذار ہونا بہت برا لگتا اور شاید وہابی حضرت عمر کے اس فعل پر شرک کا فتویٰ بھی لگا دیتا کیا خیال ہے آپ کا ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم

پتہ نہیں کس کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے کیا اپنے آپ کو کیوں کہ دھاگے کا موضوع ہے
کیا اس حدیث سے علم غیب ثابت ہوتا ہے؟
غیب کی تعریف یوں پیش کی گئی کہ جب آپ سے عرض کی گئی کہ

اس پر آپ نے پھر وہی تجاہلوہابیانہ سے کام لیتے ہوئے ارشاد فرمایا

لیکن جب غیب کی تعریف بیان کردی گئی تو اب تجاہل وہابیانہ سے کام لیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا جارہا کہ معاملہ عالم الغیب کا ہے، اور بھائی جان غیب کی تعریف بیان فرما رہیں ہیں!
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا

کلمہ طیبہ لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ نماز، زکوٰۃ، حج، حج کے مہینے دن جگہ، زکوٰۃ کی شرح و شرائط، اور نماز (صلوٰۃ) کی شکل و صورت سب غیب تھا صرف اور صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتانے سے ہمیں ان کی تفسیر و تشریح معلوم ہوئی۔ جو شخص نبی کے علم غیب کا انکار کرے وہ ان شرعی احکام کو قرآن یا لغت کی مدد سے ثابت کر کے دکھائے۔ قیامت تک نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہنے سے پہلے کہ نبی کو اﷲ نے غیب کا علم نہیں دیا۔ اس کے نتائج اور اپنی عاقبت پر نگاہ رکھے۔ امت کو گمراہ نہ کرے۔ رہی یہ حقیقت کہ علم اﷲ کی عطا سے ہے تو ہم ہزار بار اعلان کرتے ہیں کہ کسی مخلوق کی نہ ذات مستقل ہے نہ کوئی صفت، سب اﷲ کی عطا و کرم سے ہے مگر جو ہے اسے تسلیم تو کرنا فرض ہے۔ یہی ایمان ہے، یہی دیانت ہے۔
اور مجھے یہ لگتا ہے کہ آپ اب تک ان سب غیب کی باتوں پر ایمان نہیں لائے اللہ ان باتوں پر ایمان لانے کی توفیق عنایت فرمائے
اور آپ کے سوال کا جواب یہ کہ صحیح بخاری کی حدیث میں آیا ہے کہ حَفِظَ ذَلِکَ مَنْ حَفِظَهُ وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ" جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کے ان ارشادات عالیہ کو جس پاک ہستی نے مکمل طور سے یاد رکھا اس پاک ہستی نے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انداز میں یہ نعرہ بھی لگایا کہ سَلُوْنِيجو چاہے پوچھوں اب اس طرح کا نعرہ پوری اسلامی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس پاک ہستی کے سواء کسی نے نہیں لگایا
اب اگر آپ کو یا مجھے رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی مخلوقات کی ابتدا سے لے کر جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہو جانے تک کی ساری تفصیل یاد ہے یا بقول اسحاق سلفی آپ نے بھی وہ کتابیں پڑھی ہیں یا آپ کے پاس ان کتابوں کی نقل موجود ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطاء فرمائیں تھیں جن میں تما م جنتیوں اور جہنمیوں کے نام ان کے والد اور قبیلوں کے نام درج تھے اور آپ نے ان کتابوں کو پڑھ کر یاد بھی رکھا ہے تو( ویسے تو آپ کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آپ سے کس امر کے لئے پوچھا گیا ) آپ بھی غیب کی باتیں جانتے ہیں
یہی تو رافضی علم الکلام کی معراج ہے کہ انہیں، ''مطلع علی الغیب'' اور ''عالم الغیب'' کے فرق کا بھی معلوم نہیں ہوتا!
ہم منچلے کو یہی تو سمجھا رہے ہیں کہ غیب کی اطلاع ملنے پر اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ''عالم الغیب'' مانا جائے، تو کون امتی ہے جس پر اس اطلاع کی وجہ سے ''عالم الغیب'' کی فہرست سے خارج کیا جا سکتا ہے!
بہر حال منچلے پر فقہائے احناف کا کفر کا فتوی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ''عالم الغیب'' مانےکی وجہ سے!!
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
غیب کی لغوی تعریف
غیب کا معنی چھپنا، پوشیدہ ہونا وغیرہ۔
اسلامی عقیدہ کے اتنے بنیادی مسئلہ کیلئے ۔۔پہلا حوالہ ۔۔ایک عیسائی ادیب ’’ لوئیس معلوف ‘‘ کا دینا ،کون سا اسلام ہے
المنجد ‘‘ کے مصنف کا تعارف ہم کرواتے ہیں :
’’ لويس بن نقولا ضاهر المعلوف اليسوعي: صاحب " المنجد " في اللغة. من الآباء اليسوعيين. ولد في زحلة (بلبنان) وسماه أبوه ظاهراً، ثم حُول بالرهبانية إلى " لويس ". تعلم في الكلية اليسوعية ببيروت، والفلسفة في إنجلترة، واللاهوت في فرنسة، وأجاد عدة لغات شرقية وإفرنجية.
وتولى إدارة جريدة " البشير " سنة 1906 وتوفي ببيروت.

’’ لوئیس بن نقولا ‘‘ یسوعی صاحب " المنجد "باپ دادا سے یسوعی (پادری ) تھا ،،لبنان کے شہر ’’ زحلہ ‘‘ میں پیدا ہوا،
بیروت کے ’’ یسوعی ‘‘ کالج میں تعلیم حاصل کی ۔پھر۔England سے فلسفہ کی تعلیم ،اور پھر فرانس سے ِ’’ الٰہیات ‘‘ کی اعلی تعلیم پائی،اور کئی مشرقی زبانوں کی مہارت حاصل تھی ؛؛
’’ المنجد ‘‘ مترجم اردو کے دیباچہ میں صاف لکھا ہے :
المنجد 2.jpg


اب ہمیں ایک عیسائی بتائے گا کہ ۔۔نبی ۔۔کے معنی لغت اور دین میں کیا ہوتے ہیں ؟
نبی کا معنی
عربی زبان میں نبی کا مطلب ہے۔ غیب کی خبریں دینے والا اور ظاہر ہے کہ غیب کی خبر وہی دے گا جسے غیب کا علم ہو گا بغیر علم کے خبر جھوٹی ہوتی ہے جبکہ نبی کی خبر قطعی سچی ہوتی ہے۔ عربی کی لغت کی معتبر کتاب المنجد میں ہے۔
والنبوه الاخبار عن الغیب أو المستقبل بالهام من اﷲ الاخبار عن اﷲ وما یتعلق به تعالی
المنجد، 784
جب ایک عیسائی ۔۔نبی ۔۔کے معنی بتائے گا تو ۔۔علم غیب ۔۔کیا چیز ہے ،وہ تو نبی کو خدا کا بیٹا ( نعوذ باللہ ) بھی کہے گا ۔۔پھر مانگنا ۔۔امام غائب ۔۔سے مدد !
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
علم غیب کا مالک صرف اللہ ھے-
===================


الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ وہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرتا ہے۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿قُل لَّا يَعۡلَمُ مَن فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ ٱلۡغَيۡبَ إِلَّا ٱللَّهُۚ وَمَا يَشۡعُرُونَ أَيَّانَ يُبۡعَثُونَ﴾--النمل:65

''کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں، اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ وہ کب (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔''


اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ سب لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی آسمانوں اور زمین میں غیب نہیں جانتا، لہٰذا جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے، وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تکذیب کرتا ہے۔ اس بنیادپران لوگوں سے ہم یہ بھی کہیں گے کہ تمہارے لیے غیب جاننا کیسے ممکن ہے، جب کہ غیب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی نہیں جانتے تھے؟ کیا تم افضل ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ اگر یہ کہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشرف ہیں تو وہ اس بات کی وجہ سے بھی کافر ہو جائیں گے اور اگر وہ یہ کہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشرف تھے تو پھر ہم ان سے پوچھیں گے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو غیب نہ جانتے ہوں اور تم اسے جانتے ہو؟

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿عَٰلِمُ ٱلۡغَيۡبِ فَلَا يُظۡهِرُ عَلَىٰ غَيۡبِهِۦٓ أَحَدًا-إِلَّا مَنِ ٱرۡتَضَىٰ مِن رَّسُولٖ فَإِنَّهُۥ يَسۡلُكُ مِنۢ بَيۡنِ يَدَيۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ رَصَدٗا﴾--الجن:26۔27

''وہی غیب (کی بات) جاننے والا ہے اوروہ کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا، ہاں جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس (کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس) کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔''


یہ دوسری آیت ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ علم غیب کا دعویٰ کرنے والا کافر ہے،

اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی( صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ حکم دیا ہے کہ


آپ لوگوں کے سامنے یہ اعلان فرما دیں:

﴿قُل لَّآ أَقُولُ لَكُمۡ عِندِي خَزَآئِنُ ٱللَّهِ وَلَآ أَعۡلَمُ ٱلۡغَيۡبَ وَلَآ أَقُولُ لَكُمۡ إِنِّي مَلَكٌۖ إِنۡ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰٓ إِلَيَّۚ﴾--الانعام:50

''کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ (یہ کہ) میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے (اللہ کی طرف سے) آتا ہے۔''


وباللہ التوفیق..
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
یہ سب باتیں آپ کو بھی معلوم ہو گئیں، تو اس قاعدے سے تو آپ بھی ''عالم الغیب'' قرار پائے! کہیں آپ خود کو بھی تو ''عالم الغیب '' نہیں سمجھتے!!



قال ابن عباس : فظهر موسى على الصخرة حتى إذا انتهيا إليها ، فإذا رجل متلفف في كساء له ، فسلم موسى ، فرد عليه العالم ثم قال له : ما جاء بك إن كان لك في قومك لشغل ؟ . قال له موسى : جئتك لتعلمني مما علمت رشدا ( قال إنك لن تستطيع معي صبرا ) وكان رجلا يعلم علم الغيب قد علم ذلك -
 
Top