• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

سوره
الۡمَعَارِجِ

آیت نمبر ٣ اور ٤

.مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ
تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏


سوره السجدہ



آیت نمبر ٥




یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ


وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے. پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔


ان دونوں آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے اور روح پچاس ہزار برس کا سفر کر کے اللہ کے پاس پونچتے ہیں


اور


امر یعنی کام اللہ کی طرف ایک ہزار سال میں سفر کرتا ہے


اور ان دونوں آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ


اللہ کی ذات ہر جگہ موجود نہیں بلکہ اس کی ذات تک پونچنے کے لیے طویل ترین سفر کرنا پڑتا ہے











 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
محترم بھائیو دوستو! اور جملہ مظلومین ومعصومین !؟؟
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ رنج و غم دکھ تکلیف سکھ چین بیماریاں اور صحت کو لگایا ہے
(۱)ان ہی میں سے ایک میں گناہ گار بندہ ہوں میں نے اپنی زندگی میں خوشی کم اور رنج زیادہ برداشت کیے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ کوئی قوت مجھے ان سب پریشانیوں کو برداشت کرنے کی قوت عطا فرمارہی ہے بعض مرتبہ تو ایسا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی کئی منزلہ عمارت سے گرتا ہے اور اس کے کھرونچ تک نہیں آتی اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک تنومند پہلوان آدمی ٹھوکر کھاتا ہے انتقال کرجاتا ہے یا شدید طور پر زخمی ہوجاتا ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ایسا کیوں ہوتا ہے ۔
(۲)ایک بات کو لیکر کچھ دنوں سے زیادہ پریشان ہوں کیوں کہ میری زندگی کا بیشتر حصہ الیکٹرونک فیلڈ میں گزرا ہے اور اب بھی گزر رہا ہے مجھے ایک صاحب نے ٹوکا کہ تمہارا اس طرح سے الیکٹرنک فلیڈ میں رہنا (اس میں مختلف قسم کی ریز، فری کوئیسیز شامل ہیں)تمہارے لیے نہایت خطرناک ہے اور ٹیومر والے مریض کے لیے تو زیادہ ہی خطرناک ہے ۔کیوں کہ یہ مختلف قسم کی ریز کینسر یا ٹیومر کا باعث ہے ۔انہوں نے یہ فرمایا اس وقت ہر انسان ان الیکٹرونک ریز سے گھرا ہوا ہے ۔ مثلاً جہاں ایکسرے مشین ہوتی ہے وہاں کا کچھ ایریا ان ریز سے متاءثر ہوتا ہے اور جیسے جیسے مشین کی قوت بڑھتی ہے یہ ریز بھی بڑھتی ہیں اسی طرح موبائل کے ٹاور دور تک اس آبادی کو متاءثر کرتے ہیں اسی طرح سے ہمارے سروں پر سیکٹروں سیٹیلائٹ موت اور بیماریاں تقسیم کررہے ہیں ۔ اب نیؓ اس تشویش میں ہوں کہ کیا یہ چیزیں جانداروں کی زندگیوں کو برباد کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور کیا کوئی جانداران سے محفوظ ہے یا نہیں؟ اور کہاں تک اس میں صداقت ہے ْ مجھے امید ہے کہ میری اس پریشانی کو دور کرنے میں آپ حضرات مدد فرمائیں گے ٹالیں گے نہیں معافی چاہوں گا موضوع سے ہٹ کر گفتگو کررہا ہوں
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

بھائ عابد الرحمن کے سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے :

اللہ تعالی نے ، جو بھی مخلوق پیدا کی ، ان میں فائدہ اور نقصان ، دونوں خصوصیات دیکھ سکتے ہیں۔

اور ان کو بے فائدہ یا بے مقصد پیدا نہیں کیا ، بلکہ حکمت کے ساتھ پیدا فرمایا ۔

جیسے پانی ، آگ ، ہوا ، شیر ،بکری ، شہد کی مکھی ، سانپ ، بچھو وغیرہ

اسی طرح سردی ، گرمی ، دھوپ ، چھاؤں، شعاع ، بجلی وغیرہ

شعاع یا ریز (lazer) بھی اللہ تعالی کی مخلوق ہے ، اس شعاع میں جو خصوصیات پائ جاتی ہیں ، اللہ تعالی نے ،پیدا کی ہیں ۔

تمام مخلوق ، اللہ تعالی کے حکم سے ، کام کرتی ہے ، اور اللہ کے حکم سے ہٹنا ، کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اسی طرح شعاع یا ریز (lazer) بھی اللہ تعالی کی مخلوق ہے ،اور اللہ کے حکم سے ہٹنا، شعاع یا ریز (lazer) کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اگر تمام مخلوق ، اللہ تعالی کے حکم سے ، کام کرتی ہے، اور نفع اور نقصان بھی ، اللہ تعالی کے حکم سے دیتی ہے ،

تو نفع اور نقصان کا مالک ، اللہ رب العزت کی ذات ہے ، کوئ مخلوق ، نفع اور نقصان کی مالک نہیں ہے۔

لہذا اللہ رب العزت کی ذات سے ہی سوال کیا جاے گا ، اور اسی سے عافیت طلب کی جاے گی۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ہارون عبد اللہ صاحب
یہ تو میں بھی جانتا ہوں کہ نفع نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ کیسے ہیں
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی موت وحیات دیتا ہے وہی بیمار کرتا ہے اور وہی صحت دیتا ہے ۔
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کی خبر رکھتا ہے تبھی تو پتھر کے اندر کیڑے کو روزی پہنچاتا ہے
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ ایک چیونٹی کی آواز بھی سنتا ہے
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر کراماً کاتبین نہ ہوں تب بھی وہ بندوں کے حال کو جانتا ہے
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اس کی کوئی جہت نہیں کیوں کہ اس نے فرمایا ’’ولله المشرق والمغرب فأينما تولوا فثم وجه الله‘‘
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ یہاں ’’وجہ ‘‘سے مراد ’’جہت‘‘ ہے یعنی جس طرف کو بھی رخ کرلو گے (تحری کے بعد) نمازہوجائے گی کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہر جہت میں ہے خانہ کعبہ کی طرف رخ کرانے میں اجتماعیت پیدا کرنا مقصود ہے
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو زمان مکان کی حاجت نہیں اس لیے کہ وہ محتاج نہیں ’’ اور محتاج مخلوق ہوتی ہے
مگر اس کی تلاش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کب بنایا اور عرش بنانے سے پہلے کہاں تھا؟ اور عرش کی کیفیت کیا ہے
۔ لیجئے صاحب بات کہنی کچھ تھی کہدی کیا میں معلوم کرنا یہ چاہ رہا تھا
کہ فی نفسہ کسی شئی میں نفع نقصان کی صلاحیت نہیں مگر جیسے پانی میں حیات ہے کھانے سے قوت حاصل ہوتی
لیکن ان الکٹرونک ریز یا لیزر یا فری کوئینسیوں نے تمام جانداروں کو گھیر رکھا ہے اور یہ ریز ہر جگہ پہنچ جاتی ہیں ان سے بچنے کا کیا طریقہ ہےْ فقط
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
بِسْمِ ٱللَّـهِ ٱلرَّحْمَـنِ ٱلرَّحِيم
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَنزَلَ عَلَيْكَ ٱلْكِتَـبَ مِنْهُ ءَايَـتٌ مُّحْكَمَـتٌ هُنَّ أُمُّ ٱلْكِتَـبِ وَأُخَرُ مُتَشَـبِهَـتٌ ۖ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَـبَهَ مِنْهُ ٱبْتِغَآءَ ٱلْفِتْنَةِ وَٱبْتِغَآءَ تَأْوِيلِهِۦ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُۥٓ إِلَّا ٱللَّـهُ ۗ وَٱلرَّسِخُونَ فِى ٱلْعِلْمِ يَقُولُونَ ءَامَنَّا بِهِۦ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُو۟لُوا۟ ٱلْأَلْبَـبِ ﴿٧﴾
سورة آل عمران
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
وعلیکم السلام !

بھائ عابدالرحمن کی پوسٹ میں ، ایک نہیں کئ سوال ہیں :

فی الحال ، کچھ سوالات ، کے جواب درج ذیل ہیں ، باقی جوابات دوسری کسی پوسٹ میں مہیا کردیے جائیں گے ۔ ان شآء اللہ

شاید ، اشکال اس بات پر ہے کہ ، اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ،

تو کوئ اور مخلوق کس طرح تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرسکتی ہے ، جیسے کہ شعاع یا ریز (laser)؟؟؟؟؟

میرے علم کے مطابق ، اسوقت جتنی بھی شعاع یا ریز (laser) دریافت ہوچکی ہیں ، انکی حدود ہیں ( یعنی کام کرنے کی حد)

اور اگر ہر شعاع یا ریز (laser) کی ( یعنی کام کرنے کی حد) ہے تو بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) کے بس کی بات نہیں ہے ۔

اور میرے علم کے مطابق ، کوئ بھی ایسی شعاع یا ریز (laser) آج تک دریافت نہیں ہوئ ، جس کے لیے ، کوئ بھی رکاوٹ نہ ہو۔

دنیا یا آسمان و زمین میں موجود تمام شعاع یا ریز (laser) کے لیے رکاوٹ ، یا توڑ موجود ہے ۔

لہذا بیک وقت تمام مخلوق کا احاطہ (گھیرا) ،کرنا ، کسی بھی شعاع یا ریز (laser) یا کسی اور مخلوق کے بس کی بات نہیں ہے ۔

صرف اللہ تعالی کی ذات نے ، تمام مخلوق کا بیک وقت احاطہ (گھیرا) کیا ہوا ہے ، اور اللہ تعالی ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔

باقی جوابات آئندہ پوسٹ میں ۔ ان شآء اللہ
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اس بحث کے ضمن میں چند باتیں آپ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالی ہمارے ایما ن کی حفاظت فرمائے۔
بعض مسائل میں بحث و مباحثہ لازمی انسان کو گمراہ کرتا ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوپاتا سوائے گمراہی کے۔
بعض مسائل کا تعلق صرف اور صرف اہل علم اور اہل فن سے ہوتا ہے۔

زیر بحث مسلے میں بحث کو میں ذاتی طور پر پہلی کیٹگری میں سمجھتا ہوں، اگر اس میں بحث کو جائز بھی سمجھا جائے تو اسے دوسری کیٹگری میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ خاص اہل علم سے ہے۔ ہر کسی کو اس میں بحث کرنے یا رب العالمین کی ذات میں سوچنے یا تفکر کرنے کی قطعی اجازت ہے نہ ہونی چاہئے۔
ایک طبقہ کا عقیدہ ہے کہ رب العالمین کی ذات کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے۔ یعنی جیسا ایک انسان کے سامنے ایک فٹ کا دائرہ ہو تو انسان کی نگاہ، اس کا اختیار بیک وقت اس دائرہ پر ممکن ہے ، اسی طرح پوری کائنات ایک دائرہ کی صورت میں رب العالمین کے سامنے ہے۔
دوسرا طبقہ رب العالمین کی ذات کو محدود مانتا ہے اور صفات سے پوری کائنات پر محیط مانتا ہے۔
ایسی صورت میں ایک عام انسان سوچنا شروع کرتا ہے کہ اللہ تعالی کتنا بڑا ہوگا یعنی جس طرح انسان اپنی سائز کا ناپ تول کرتا ہے اسی طریقے سے اللہ کس سائز کا ہوگا، العیاذ باللہ
یقینا اہل علم کے درمیان یہ بحث قطعی نہیں ہوگی لیکن میں توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب ہم ایسی بحث کو اہل علم اور ماہر فن شریعت سے چوری کرکے عام فورمز پر لے آئیں گے اور اس میں پھر ہر کوئی بحث میں حصہ لے گا تو یقینا گمراہی کے راستے اوپن ہوتے چلے جائیں گے۔
اور حاصل کچھ بھی نہیں ہوگا۔
میری درخواست ہے کہ ایسی بحث کے ذریعے ہم کوئی اسلام کی خدمت نہیں کررہے بلکہ خود بھی گمراہی کے راستے تلاش کررہے ہیں اور لوگوں کو بھی اسلام سے متنفر کررہے ہیں۔ آج اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ ملاوں نے اسلام کو مشکل بنادیا ہے تو یہی وجہ ہے۔ جو مسائل خاص اہل علم اور ماہر فن شریعت سے ہیں وہ انہی کی حدود میں اچھے لگتے ہیں، ایسے مسائل کو عام لوگوں میں گھسیٹ کر نہ لایا جائے۔

شکریہ
آپکی بات صد فیصد درست ہے
 

sufi

رکن
شمولیت
جون 25، 2012
پیغامات
196
ری ایکشن اسکور
310
پوائنٹ
63
بھائی آپ کی بات بجا ہے مگر عقیدہ کیا ہونا چاہئے اسکی سمجھ تو ہونی چاہئے۔ابھی ہمارے یہ عام بولا جاتا ہے کہا اللہ ہر جگہ موجود ہے ،تو اس مراد کیا ہے یا کہاں جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ میں اللہ کو حاضر ناظر مانتا ہوں،تو بات کی جو اصل ہے اسکی سمجھ ہونا تو ضروری ہے بھائی عبد اللہ خوبصورت انداز میں سمجھا رہئے ہیں۔
عقیل بھائی ضروریات دین آپکا لازمی عقیدہ ہوتا ہے۔ عقیدہ سے متعلق ایسے نصوص جو درجہ قطعیت میں نہ ہو بلکہ علمائے امت نے اپنے اجتہادات سے انکے مفاہیم درجہ ظن میں متعین فرمائے ہوں۔ عقیدے کے ایسے فروعی اختلافات کو اپنا لازمی عقیدہ نہیں بنانا چاہئے۔ بلکہ ان فروعات کو علماء کیلئے چھوڑ دینا چاہئے ۔ دیکھئے ایسے غیر اہم امور کو عقائد لازمہ بنا کر امت کتنے فرقوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ہمیں عقائد کے ان فروعات کی بنیاد پر شدت و غضب دکھانے کی بجائے اس باب میں ایک دوسرے کے اجتہادی آراء کا کشادہ دلی سےاحترام کرنا چاہئے ۔
 
شمولیت
اگست 08، 2012
پیغامات
115
ری ایکشن اسکور
519
پوائنٹ
57
اسلام علیکم !

عابد الرحمن ، عقیل اور آڈیل مین صاحب کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

صفات ، ذات کا حصہ یا خاصیت ہوتی ہیں ، اس کائنات ، آسمان وزمین میں کوئ ایسی ذات نہیں ہے ، جسکی صفات نہ ہوں۔

عقیدہ کے مسائل کا سیکھنا ضروری ہے ، عقیدہ کی خرابی کی بڑی وجہ ، دینی علم کی کمی ہے ۔

عرش کی تخلیق سے پہلے ،اللہ تعالی کہاں تھا ؟؟؟؟؟؟ یہ سوال درست نہیں ہے ، کیونکہ "کہاں"جگہ (space)کو ظاہر کرتا ہے ، جبکہ اللہ تعالی جگہ (space) کا محتاج نہیں ہے ۔

اللہ تعالی کے ہاتھ کیسے ہیں؟؟؟؟ یہ سوال عام طور پر اسوقت پیدا ہوتا ہے ، جب ھم اپنے ہاتھوں کے بارے میں سوچتے ہیں ،

اللہ تعالی کی صفت پر گفتگو سے پہلے ، قرآن کریم کی اس آیت کو سامنے رکھا کریں ( اسکی (اللہ) کی کوئ مثال نہیں ہے ) مفہوم

لہذا اللہ تعالی کے ہاتھوں کی مثال ، اپنے ہاتھوں سے سمجھنا ہی غلط ہے کیونکہ ( اسکی (اللہ) کی کوئ مثال ہی نہیں ہے )

اللہ تعالی کے ہاتھ، اللہ تعالی کی آنکھیں ، اللہ تعالی کی پنڈلی ، اللہ تعالی کے اعضاء نہیں ہیں ، بلکہ اسکی صفات ہیں جن کی کوئ مثال ہی نہیں ہے۔

ہمارے ہاتھ ،آنکھیں ، پنڈلی ہمارے اعضاء ہیں ، جس طرح باقی تمام مخلوق کے اعضاء ہوتے ہیں ، جو بدن کا حصہ ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی کے ہاتھ، اللہ تعالی کی آنکھیں ، اللہ تعالی کی پنڈلی کو ، اللہ تعالی کے اعضاء سمجھنا انتہائ غلط ہے ، اور مخلوق سے مشابہت ہے ۔
 
Top