• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
لکن میری گزارش ہے کہ ٹاپک کو جاری رکھا جا ے
ماہنامہ المحدث کے تحت جاری
اجرائے مُحدث کے مقاصد کا پہلا پوئنٹ

عناد اور تعصّب قوم کیلئے زہر ہلاہل کی حیثیت رکھتے ہیں!
لیکن تعصّبات سے بالا تر رہ کر افہام وتفہیم اُمت کیلئے رحمت کا باعث ہے۔
کوئی بھی انسان سوال دو بنیادوں پر کرتا ہے۔
اپنے علم کو وسعت دینے کے لئے یا
اپنے مخالف کو نیچا دکھانے یا اس کی تحقیر و تذلیل کے لئے
تعصب سے بالا تر اور اپنے علم کو وسعت دینے کے لئے کیا گیا سوال یا بحث خود کے لئے اور امت کے لئے باعث رحمت ہے۔
لیکن اگر سوال یا بحث تعصب، عناد اور حسد کی بھینٹ چڑھ جائے تو وہ سوائے نفرت انتشار و افتراق کا زینہ بن جاتی ہے۔
آخر میں میں اسی فورم سے مولاناابوالحسن علوی صاحب کی ایک پوسٹ سے ایک اقتباس ھدیہ کرنا چاہتا ہوں، جس میں انہوں نے اپنے فکری ساتھیوں کو مخاطب کیا ہے لیکن یہ نصیحت تمام مکتبہ فکر کے ساتھیوں کے لئے مناسب ہے۔ ملاحظہ فرمائیں
آخر میں ایک بات اورکرناچاہوں گا کہ ہمیں دعوت اور مناظرے میں فرق کرنا چاہیے۔ آپ کی 13سالہ مکی دور میں مناظرہ ہمیں کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا بلکہ اگر کہیں کسی جاہل اور اجڈ سے واسطہ پڑ جاتا ہے اور وہ کج بحثی پر اتر کر مناظرہ شروع کر دیتا ہے تو آپ کو یہ تلقین کی جاتی ہے ؛
واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما
جب جہلا ان سے خطاب کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ کے رخصت ہو جاتے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں بھی کسی ملامت کی پرواہ نہیں ہے کہ ہم اپنی دعوت کے پھیلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود ہیں اور اس کو آج کتاب وسنت کے داعین محسوس کرتے ہیں۔ ہماری دعوت خالص ہے اور سب دعوتوں سے بہتر ہے لیکن ہمارے رویے ، اخلاق، حکمت وفراست نبوی نہیں ہے۔ قرآن نے جہاں اللہ کی طرف دعوت کو بہترین دعوت قرار دیا ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ ایسا داعی الی اللہ اپنے آپ میں متواضع ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان سمجھتا ہوں۔ اور جبکہ یہ قرآن نازل ہو رہا تھا تو یہ دعوت الی اللہ کس کے لیے تھی؟ ظاہری بات ہے بدترین مشرکین اور کفار اور اہل کتاب کے لیے تھی۔

ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ وعمل صالحا وقال اننی من المسلمین
اور اس سے خوبصورت دعوت کس کی ہوسکتی ہے جو داعی الی اللہ ہولیکن اس کے ساتھ نیک اعمال بھی کرتا ہو اور اپنے آپ کو ایک عام مسلمان قرار دیتا ہو۔

کسی بھائی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں ۔ ہم سب کی منزل ایک ہے کہ کسی طرح لوگوں کو کتاب وسنت پر جمع کر دیں اگرچہ طریق کار میں اختلاف ہوجاتا ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کے طریق کار پر غور کرنا چاہیے اورایک دوسرے سے سیکھنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔واللہ اعلم بالصواب
مجھے فرقہ پرستی والے اختلافی مسائل میں بحث و مباحثہ میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن جہاں علماء حضرات کے درمیان ایسے مسائل میں خوش اسلوبی سے مکالمہ ہوتا ہے تو یقینا میں اسے باعث رحمت سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ان کے درمیان ادب سے دوزانوں ہو کر بیٹھ جائیں جہاں مناسب ہو وہاں ادب اور اخلاق کے دائرہ میں سوال بھی ہوجائے۔
شکریہ
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اسلام و علیکم

تمام ممبرز سے گزارش ہے اس ٹاپک پر مزید بحث و مباحثہ نہ کیا جائے جتنا الله اور اس کے نبی صل الله علیہ وسلم نے بیان کر دیا ہے اسی پر ایمان لایا جانا چاہیے - نہ کہ اپنے پاس سے عقل کے گھوڑے دوڑائیں جائیں -ہماری محدود عقل الله کی ذات کا احاطہ نہیں کر سکتی -اس کی ذات کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑنا انسان کو کفر کی حد پر پہنچا سکتا ہے -

الله قرآن میں فرماتا ہے -

لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ(شوری:۱۱)
’’کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے‘‘

لہذا اللہ کی ذات و صفات کے حقیقی معنیٰ پر ایمان لا کر بغیر کسی تاویل اور تمثیل کے ان ذات و صفات کی کیفیت کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیےجو اسماء وصفات اللہ اور اس کے رسول نے بیان فرمائے اسے ایک مسلمان تسلیم کرتا ہےاورجس چیز کی اللہ اور اس کے رسول نے نفی فرمائی اس کی نفی کرتا اورجس سے اللہ اور اس کے رسول نے خاموشی اختیار فرمائی اس سے خاموش رہتا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا سوره النسا ٥٩
اے ایمان والو الله کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا ہو جائے
تو اسے الله اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم الله اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
پلیز

اب اس تھریڈ کو بند کر دیا جا ے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521
سلام

اسی لیا تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ اب قرآن کی آیات کا مطلب بتا دیں

.مِّنَ اللّٰہِ ذِی الۡمَعَارِجِ
تَعۡرُجُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ الرُّوۡحُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗ خَمۡسِیۡنَ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ

اس اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں والا ہے
جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے‏
[SUP]سوره الۡمَعَارِجِ، آیت نمبر ٣ اور ٤[/SUP]

یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَی الۡاَرۡضِ ثُمَّ یَعۡرُجُ اِلَیۡہِ فِیۡ یَوۡمٍ کَانَ مِقۡدَارُہٗۤ اَلۡفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوۡنَ
وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے. پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔
[SUP]سوره السجدہ، آیت نمبر ٥[/SUP]

امید ہے کہ آپ قرانی آیات کا مطلب سمجھا دیں گے
السلام علیکم

محترم، موضوع "آسمان اور ہر جگہ" سے ہٹ کر بات کرتے ہیں،

آپ نے یہی موضوع مزید اندازاً ٥ کے قریب فارم میں کھولا ہوا ھے اور اسی آیت پر اپنا فوکس سیڑھیوں پر رکھا ہوا ھے جبکہ جو دو آیات پر ترجمہ آپ نے پیش کیا اس میں اللہ سبحان تعالی خود کو سیڑھیوں والا فرما رہے ہیں، آسمان سے لے کر زمین تک،

اپنے خیالات کا اظہار ضرور کرنا چاہئے مگر کسی کو تکلیف بھی نہیں پہنچانی چاہئے۔

ایک مثال میں خود سے ہی دیتا ہوں، میرا گھر جہاں میں رہتا ہوں اگر میری نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ھے تو میں اللہ کے فضل و کرم سے گھر سے باہر جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔

اب اسی طرح یہ آیات بھی ہیں،

اَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضا میں کیسے مسخر ہیں، انہیں اللہ ہی تھامے ہوئے ہے، جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
[SUP] النحل16 :79[/SUP]
اَوَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرفَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْر)
کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اپنے پر کھولتے اور بند کر لیتے ہیں۔ رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں تھامے رکھے، وہ یقینا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
[SUP]الملک67 :19[/SUP]

محترم آپ نے جو دو آیات پیش کیں ان کے ساتھ ان آیات کو بھی ملا کر اگر ہو سکے تو مزید رائے پیش کریں۔

والسلام
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
السلام علیکم

محترم، موضوع "آسمان اور ہر جگہ" سے ہٹ کر بات کرتے ہیں،

آپ نے یہی موضوع مزید اندازاً ٥ کے قریب فارم میں کھولا ہوا ھے اور اسی آیت پر اپنا فوکس سیڑھیوں پر رکھا ہوا ھے جبکہ جو دو آیات پر ترجمہ آپ نے پیش کیا اس میں اللہ سبحان تعالی خود کو سیڑھیوں والا فرما رہے ہیں، آسمان سے لے کر زمین تک،

اپنے خیالات کا اظہار ضرور کرنا چاہئے مگر کسی کو تکلیف بھی نہیں پہنچانی چاہئے۔

ایک مثال میں خود سے ہی دیتا ہوں، میرا گھر جہاں میں رہتا ہوں اگر میری نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں ھے تو میں اللہ کے فضل و کرم سے گھر سے باہر جہاں چاہوں جا سکتا ہوں۔

اب اسی طرح یہ آیات بھی ہیں،

اَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضا میں کیسے مسخر ہیں، انہیں اللہ ہی تھامے ہوئے ہے، جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں
[SUP] النحل16 :79[/SUP]
اَوَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرفَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْر)
کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اپنے پر کھولتے اور بند کر لیتے ہیں۔ رحمن کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں تھامے رکھے، وہ یقینا ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔
[SUP]الملک67 :19[/SUP]

محترم آپ نے جو دو آیات پیش کیں ان کے ساتھ ان آیات کو بھی ملا کر اگر ہو سکے تو مزید رائے پیش کریں۔

والسلام

میرے بھائی میں نے پہلے بھی قرانی آیات پیش کی ہیں ۔ لکن آپ نے ان آیات کا کوئی جواب نہیں دیا ۔

کیا آپ ان آیت کا جواب ایک ایک کر کے دے سکتے ہیں

















 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,424
پوائنٹ
521

میرے بھائی میں نے پہلے بھی قرانی آیات پیش کی ہیں ۔ لکن آپ نے ان آیات کا کوئی جواب نہیں دیا ۔

کیا آپ ان آیت کا جواب ایک ایک کر کے دے سکتے ہیں
السلام علیکم

اگر آپ نے قرآنی آیات پیش کرنے پر کوئی مقابلہ کرنا ھے تو میں بھی اس میں کچھ کم نہیں ہوں، میں نے آپکی آیت پر جواب لکھا مگر آپکو سمجھ نہیں آیا پھر اس کے بعد میں نے جو دو آیات پیش کیں اس پر آپ نے کوئی جواب نہیں دیا، مزید آپ سے بات کرکے کیا فائدہ آپ جاری رہیں۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ٱللَّـهُ ٱلَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمَـٰوَٰتٍ وَمِنَ ٱلْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ ٱلْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ ٱللَّـهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَىْءٍ عِلْمًۢا ﴿١٢
اللہ وه ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو بہ اعتبار علم گھیر رکھا ہے

فَإِنْ ءَامَنُوا۟ بِمِثْلِ مَآ ءَامَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهْتَدَوا۟
اگر وہ تم جیسا ایمان ﻻئیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وہ صریح اختلاف میں ہیں
عبداللہ بن مسلمہ، مالک، ابن شہاب، ابوسلمہ، ابوعبداللہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک وتعالیٰ ہر رات کو آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے، جس وقت کہ آخری تہائی رات باقی رہتی ہے، اور فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھے پکارے، تو میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اسے دوں؟ کون ہے جو مجھ سے مغفرت چاہے تو میں اسے بخش دوں۔ صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ١٠٧٨


علی بن عبداللہ ، یحیی بن سعید، فضیل بن غزوان، عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر میں خطبہ دیا آپ نے فرمایا کہ اے لوگوں! یہ کون سا دن ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ یوم حرام ہے، آپ نے فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ شہر حرام ہے، آپ نے فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ حرام کا مہینہ ہے، آپ نے فرمایا تمہارا خون تمہارے مال اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تم پر حرام ہے، جس طرح یہ دن تمہارے اس شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں حرام ہے، آپ نے یہ کلمات چند بار دہرائے، پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا کر فرمایا اے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا، اے میرے اللہ کیا میں نے پہنچا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، آپ نے اپنی امت کو یہی وصیت فرمائی تھی کہ جو لوگ حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں، میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگ جاؤ۔ صحیح بخاری
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
موضوع ہے:
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

اور گفتگو ہورہی کہ اللہ تعالٰی آسمان میں عرش پر ہے
اور مثال دی جارہیں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں
فرشتہ اوپر سیڑھیوں کے ذریعہ چڑھتے ہیں اور زمین سے آسمان کی مسافت اتنی ہے
تو بھائی حضرات عرض کردوں اتنا تو کمیونسٹ(لامذہب) کے علاوہ تمام انسان مانتے ہیں کہ اللہ اوپر ہے گاڈ اوپر پے ایشور اوپر ہے سپر پاور اوپر ہے اس میں کسی کو اعتراض نہیں وجہ اعتراض یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ آسمان تک ہی محدود ہے اور باقی خبروں کے لیے فرشتوں کی مدد حاصل کرتا ہے یا فرشتوں کا استعمال کرتا ہے؟
جب کہ ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اور حاضر ناظر ہے۔اس کو جتنی قدرت آسمانوں میں ہے اتنی ہی قدرت زمین اور زمین سے نیچے بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مکمل تسلط اور تصرف ہے اور علیم وخبیر ہے۔ اور یہی اس تھریڈ کا موضوع ہے تو اسی موضوع پر بات ہونی چاہئے بات کو مختلف سمتوں میں نہیں پھیلا نا چاہئے ۔ یہ تو ہیں تسلیم ہےاور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں اپنے عرش پر ہے ۔
اب ادھر توجہ فرمائیں:
الله تعالی ہر مکان میں ہے اور ہر جگہ میں موجود ہے اور ملاحظہ فرمائیں فرمان الٰہی :
مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۝۰ۚ
(کسی جگہ) تین (شخصوں) کا (مجمع اور) کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں۔
اور
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۝۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۝۱۶ [٥٠:١٦]
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں
اور حدیث شریف میں ہےکہ:
قَلبُ المؤمنِ بَیْنَ اَصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعَ الرحمٰن
مؤمن کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے
اور حجر اسود کو اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ کہا گیا ہے
اسی طرح سے رسول صلی للہ علیہ وسلم کی بیعت کو اللہ کی بیعت کہا گیا ہے
اسی طرح سے نمازی اللہ کے سامنے ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہے
ایک حدیث شریف اور پیش خدمت کررہاہوں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَالِسٌ مَعَ أَصْحَابِهِ إِذْ مَرَّتْ سَحَابٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ ؟ هَذِهِ الْعَنَانُ رَوَاءُ أَهْلِ الأَرْضِ , يَسُوقُهَا اللَّهُ إِلَى قَوْمٍ لا يَعْبُدُونَهُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ السَّمَاءُ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " هَذِهِ السَّمَاءُ مَوْجٌ مَكْفُوفٌ , وَسَقْفٌ مَحْفُوظٌ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءٌ أُخْرَى " ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ , وَيَقُولُ : " أَتَدْرُونَ مَا بَيْنَهُمَا ؟ " ، ثُمَّ يَقُولُ : " مَا بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالَ : " فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ الأَرْضُ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " هَذِهِ الأَرْضُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا تَحْتَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " تَحْتَ ذَلِكَ أَرْضٌ أُخْرَى " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا بَيْنَهُمَا ؟ " قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ " ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ , ثُمَّ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوْ دُلِّيَ رَجُلٌ بِحَبْلٍ ، حَتَّى يَبْلُغَ أَسْفَلَ الأَرْضِ السَّابِعَةِ لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ " ، ثُمَّ قَالَ : ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳
حضرت معمر ؓ حضرت قتادہ ؓسے روایت کرتہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) بیٹھے ہوئے تھے کہ بادل آگئے۔ تو نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا ،جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ تب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا ،یہ بادل ہیں جو زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں کی طرف ہانکتے ہیں جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اس کی عبادت نہیں کرتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے پوچھا جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ اونچی چھت ہے جس سے حفاظت کی گئی۔ اور یہ موج کی طرح ہے جو بغیر ستون کے ہے۔ پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟۔صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی زیادہ بہترجاتے ہیں۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا تمہارے اس کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کیا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا اس سے اوپر دو آسمان ہیں جن کے درمیان پانچ سو برس کی دوری ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اسی طرح سات آسمان گنوائے اور فرمایا ہر دو آسمانوں کے درمیان، آسمان و زمین کے درمیان کے بقدرفاصلہ ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ کیا جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا اس کے اوپر عرش ہے اور وہ آسمان سے اتنا دور ہے جتنا زمین سے آسمان۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے نیچے کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا یہ زمین ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ (کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے پہلی زمین اور دوسری زمین کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر پوچھا آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے سات زمینیں شمار کروائیں اور فرمایا کہ ہر دو کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے اگر تم لوگ نیچے زمین کی طرف رسی پھینکو گے تو وہ اللہ تک پہنچے گی اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۝۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۝۳ [٥٧:٣]
وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے ۔
اب اسے اندازہ لگا لیجئے کہ اللہ کہاں کہاں ہوسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
اس موضوع سے متعلق الحمد للہ ایک مضمون لکھ سکتا ہوں لیکن اب کافی محتاط رہنا پڑتا ہے کچھ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے بات کا رخ دوسرا بن جاتا ہے یا خلط ملط ہوجاتا ہے جس سے قاری کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے اور یہی کچھ لوگوں کا مقصد ہوتا ہے
اللہ ہم سب کی حفاظت اور رہنمائی فرمائے اٰمین
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
ما شا اللہ آپ نے بہت اچھی و ضاھت کی،آپ نے جو حادیث مبارکہ نقل کی ہیں ،الحمد للہ بلکل کشفا ایسے ہی نظر آتا ہے۔صاحب کشف احباب اس بات کی تصدیق کریں گے،سبحان اللہ۔جی تو چاہتا ہے کہ کچھ اور مزید لکھو لہکن فورم شاید اس بات کا متحمل نہ ہو۔البتہ ایک بک آپ کی طرف بیھج رہا ہوں اللہ کہ ایک ولی کے مشاھدات ہیں۔
 
Top