السلام علیکم
موضوع ہے:
کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟
اور گفتگو ہورہی کہ اللہ تعالٰی آسمان میں عرش پر ہے
اور مثال دی جارہیں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں
فرشتہ اوپر سیڑھیوں کے ذریعہ چڑھتے ہیں اور زمین سے آسمان کی مسافت اتنی ہے
تو بھائی حضرات عرض کردوں اتنا تو کمیونسٹ(لامذہب) کے علاوہ تمام انسان مانتے ہیں کہ اللہ اوپر ہے گاڈ اوپر پے ایشور اوپر ہے سپر پاور اوپر ہے اس میں کسی کو اعتراض نہیں وجہ اعتراض یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ آسمان تک ہی محدود ہے اور باقی خبروں کے لیے فرشتوں کی مدد حاصل کرتا ہے یا فرشتوں کا استعمال کرتا ہے؟
جب کہ ہمارا مطمح نظر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہے اور حاضر ناظر ہے۔اس کو جتنی قدرت آسمانوں میں ہے اتنی ہی قدرت زمین اور زمین سے نیچے بھی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا مکمل تسلط اور تصرف ہے اور علیم وخبیر ہے۔ اور یہی اس تھریڈ کا موضوع ہے تو اسی موضوع پر بات ہونی چاہئے بات کو مختلف سمتوں میں نہیں پھیلا نا چاہئے ۔ یہ تو ہیں تسلیم ہےاور ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں اپنے عرش پر ہے ۔
اب ادھر توجہ فرمائیں:
الله تعالی ہر مکان میں ہے اور ہر جگہ میں موجود ہے اور ملاحظہ فرمائیں فرمان الٰہی :
مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَۃٍ اِلَّا ہُوَرَابِعُہُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ اِلَّا ہُوَسَادِسُہُمْ وَلَآ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَلَآ اَكْثَرَ اِلَّا ہُوَمَعَہُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا۰ۚ
(کسی جگہ) تین (شخصوں) کا (مجمع اور) کانوں میں صلاح ومشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں ہوں۔
اور
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ۰ۚۖ وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ۱۶ [٥٠:١٦]
اور ہم ہی نے انسان کو پیدا کیا ہے اور جو خیالات اس کے دل میں گزرتے ہیں ہم ان کو جانتے ہیں۔ اور ہم اس کی رگ جان سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں
اور حدیث شریف میں ہےکہ:
قَلبُ المؤمنِ بَیْنَ اَصْبَعَیْنِ مِنْ اَصَابِعَ الرحمٰن
مؤمن کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے
اور حجر اسود کو اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ کہا گیا ہے
اسی طرح سے رسول صلی للہ علیہ وسلم کی بیعت کو اللہ کی بیعت کہا گیا ہے
اسی طرح سے نمازی اللہ کے سامنے ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ جہت سے پاک ہے
ایک حدیث شریف اور پیش خدمت کررہاہوں ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , جَالِسٌ مَعَ أَصْحَابِهِ إِذْ مَرَّتْ سَحَابٌ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ ؟ هَذِهِ الْعَنَانُ رَوَاءُ أَهْلِ الأَرْضِ , يَسُوقُهَا اللَّهُ إِلَى قَوْمٍ لا يَعْبُدُونَهُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ السَّمَاءُ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " هَذِهِ السَّمَاءُ مَوْجٌ مَكْفُوفٌ , وَسَقْفٌ مَحْفُوظٌ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءٌ أُخْرَى " ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ , وَيَقُولُ : " أَتَدْرُونَ مَا بَيْنَهُمَا ؟ " ، ثُمَّ يَقُولُ : " مَا بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالَ : " فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ كَمْ بَيْنَهُمَا ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " بَيْنَهُمَا خَمْسُ مِائَةِ سَنَةٍ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا هَذِهِ الأَرْضُ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " هَذِهِ الأَرْضُ " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا تَحْتَ ذَلِكَ ؟ " ، قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " تَحْتَ ذَلِكَ أَرْضٌ أُخْرَى " ، ثُمَّ قَالَ : " أَتَدْرُونَ مَا بَيْنَهُمَا ؟ " قَالُوا : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ : " بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ عَامٍ " ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ , ثُمَّ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، لَوْ دُلِّيَ رَجُلٌ بِحَبْلٍ ، حَتَّى يَبْلُغَ أَسْفَلَ الأَرْضِ السَّابِعَةِ لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ " ، ثُمَّ قَالَ : ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۳
حضرت معمر ؓ حضرت قتادہ ؓسے روایت کرتہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) بیٹھے ہوئے تھے کہ بادل آگئے۔ تو نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا ،جانتے ہو یہ کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ تب آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا ،یہ بادل ہیں جو زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ان لوگوں کی طرف ہانکتے ہیں جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور اس کی عبادت نہیں کرتے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )نے پوچھا جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ عرض کیا اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا یہ اونچی چھت ہے جس سے حفاظت کی گئی۔ اور یہ موج کی طرح ہے جو بغیر ستون کے ہے۔ پھر پوچھا کیا جانتے ہو کہ تمہارے اور اس کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟۔صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی زیادہ بہترجاتے ہیں۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا تمہارے اس کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کیا جانتے ہو اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا اس سے اوپر دو آسمان ہیں جن کے درمیان پانچ سو برس کی دوری ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اسی طرح سات آسمان گنوائے اور فرمایا ہر دو آسمانوں کے درمیان، آسمان و زمین کے درمیان کے بقدرفاصلہ ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ کیا جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے؟ صحابہ( کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا اس کے اوپر عرش ہے اور وہ آسمان سے اتنا دور ہے جتنا زمین سے آسمان۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے نیچے کیا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا یہ زمین ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے اس کے نیچے کیا ہے؟ صحابہ (کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم) نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے نیچے دوسری زمین ہے پہلی زمین اور دوسری زمین کے درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ پھر پوچھا آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے سات زمینیں شمار کروائیں اور فرمایا کہ ہر دو کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے۔ پھر آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے اگر تم لوگ نیچے زمین کی طرف رسی پھینکو گے تو وہ اللہ تک پہنچے گی اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی :
ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ۰ۚ وَہُوَبِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۳ [٥٧:٣]
وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے ۔
اب اسے اندازہ لگا لیجئے کہ اللہ کہاں کہاں ہوسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
اس موضوع سے متعلق الحمد للہ ایک مضمون لکھ سکتا ہوں لیکن اب کافی محتاط رہنا پڑتا ہے کچھ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے بات کا رخ دوسرا بن جاتا ہے یا خلط ملط ہوجاتا ہے جس سے قاری کو کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا معاملہ ہے اور یہی کچھ لوگوں کا مقصد ہوتا ہے
اللہ ہم سب کی حفاظت اور رہنمائی فرمائے اٰمین