• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا اللہ تعالٰی ہر جگہ بذاتہ موجود ہے ؟

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
توحید کے بارے میں عقیدہ سلف صالحین

توحید کے بارے میں عقیدہ سلف صالحین

قال الشیخ ابومحمد بدیع الدین شاہ الراشدی السندی رحمہ اﷲ قرأت فی کتابہ : اخبرنا ابوعبداﷲ الحافظ قال اخبرنی ابوعبداﷲ محمد بن علی الجوھری ببغد اد قال ثنا ابراھیم بن الھیثم نا محمد بن کثیر المصیصی قال سمعت الاوزاعی یقول :
امام اوزاعی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارا اور سب تابعین کا عقیدہ ہے کہ اﷲتعالیٰ عرش کے اوپر ہے ،ہم اﷲجل مجدہٗ کی جملہ صفات کو مانتے ہیں ،جو حدیث میں آئی ہیں ۔ابواسماعیل نے کلام اور متکلمین کی مذمت میں کہا :
انبانا احمد بن ابی الخیر عن یحي بن یونس انبا ابوطالب الیوسعی انبا ابواسحق البرمکی انبا علی بن عبدالعزیز قال حدثنا عبد الرحمن بن ابی حاتم قال :
عبدالرحمن بن ابی حاتم فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ اور ابوزرعہ سے اصول دین کے بارہ میں اہل سنت کا مذہب پوچھا ،اور ان سے ملنے والے علماء امصار کا عقیدہ دریافت کیا ،تو دونوں نے جواب دیا ہم حجازوعراق ،مصر وشام اور یمن کے علماء کو ملے ہیں ،ان کا مذہب یہ تھا کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ عرش پر ہے مخلوق سے جدا ،جیسا کہ اس نے اپنی صفت بیان کی ہے ،اور بلا کیف اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔انتہی(کتاب العلوللذہبی ص ۱۳۷)امام ذہبی نے اس کی ایک اور سند بھی بیان کی ہے ۔
حافظ ابو عبداﷲبن بطۃ اپنی کتاب الابانۃ میں کہتے ہے ،صحابہ وتابعین سے جملہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اﷲعرش پر ہے ،آسمانوں کے اوپر ،اور اپنی مخلوق سے جدا۔
ابونصر السخیری الحافظ کتاب الابانۃ میں کہتے ہیں:ہمارے آئمہ ثوری،مالک،ابن عینیۃ،حماد بن زید،ابن المبارک،فضیل بن عیاض،احمد اور اسحاق سب متفق ہیں کہ اﷲ تعالیٰ بذاتہٖ عرش پر ہے اور اس کا علم ہر جگہ ہے۔اسی طرح ابوالحسن الاشعری نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مستوی عرش ہے۔
امام ابوعمر طلمنکی ’’’الوصول الی معرفۃ الاصول‘‘میں کہتے ہیں ،اہل سنت کااجماع ہے کہ اﷲتعالیٰ حقیقۃًعرش پر ہے مجازاً نہیں (کذا فی مختصرالصوعق المرسلہ لابن القیم)۔
حافظ ابونعیم مؤلف حلیۃ الاولیاء کتاب الاعتقاد میں کہتے ہیں:ہمارا طریقہ سلف والا ہے ،جو کہ کتاب وسنت واجماع امت کے پابند تھے ،ان کے عقائد میں ہے کہ جن احادیث میں عرش پر اﷲتعالیٰ کا استواء ثابت ہے اسے بلاکیف وبلا تمثیل تسلیم کیا جائے ،اور یہ کہ اﷲاپنی مخلوق سے جدا ہے،ان میں حلول نہیں کرچکا ،اور نہ ان کے ساتھ ملا ہوا ہے،وہ اپنے عرش پر مستوی ہے ،آسمان پر زمین پر نہیں انتہی ،کتاب العلو للذہبی ص ۱۴۸۔
حافظ ابوبکر اسماعیل سے منقول ہے ص:۱۴۵:
کہا جان لو !اﷲتم پر رحم کرے ،اہل حدیث ،اہل سنت والجماعۃ کا مذہب ہے ،اﷲتعالیٰ ،فرشتے،اس کی کتابیں اس کے رسولوں کا اقرار کرنا اور جو اﷲکی کتاب میں آجائے اور جو رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم سے بہ سند صحیح ثابت ہو اسے بلا تحریف وتبدیل قبول کرنا ،عقیدہ رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اپنے اچھے ناموں سے پکارا جاتا ہے ،وہ ان صفات سے متصف ہے جو اس نے خود بیان کیں ،اور اس کے رسول نے بتائیں ،آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ،اس کے ہاتھ کھلے ہیں ،کس طرح کھلے ہیں اس کے اعتقاد کے بغیر ،اور وہ بلاکیف مستوی عرش ہے ۔انتہی۔
امام ابوعبداﷲالحاکم ’’معرفۃ علوم الحدیث ‘‘میں روایت کرتے ہیں کہ : سمعت محمد بن صالح بن ہانی یقول سمعت ابابکر محمد بن اسحاق بن خزیمۃ یقول :
ابوبکرمحمد بن اسحاق بن خزیمہ فرماتے ہیں جو شخص اقرار نہیں کرتا کہ اﷲ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ،سات آسمانوں کے اوپر وہ اپنے رب کا کافر ہے اس سے توبہ طلب کی جائے ،توبہ کرلے تو فبہا ورنہ اس کی گردن اڑا دی جائے اور کسی روڑی پر ڈال دیا جائے جہاں کہ مسلمان اور ذمی اس کی گندی ہو اوربدبو سے ایذاء نہ پائیں ،اس کا مال فیٔ ہے ،کوئی مسلمان اس کا وارث نہ ہوگا ،کیونکہ مسلمان کافرکا وارث نہیں ہوتا ،جیسا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:عبداﷲبن احمد امام عبدالرحمن بن مہدی سے روایت کرتے ہیں:کہ اہل ا ہواء میں اصحاب جہم سے زیادہ کوئی بھی برا نہیں ہے جو کہ کہتے ہیں آسمان میں کچھ بھی نہیں ہے ،اﷲکی قسم میں دیکھتا ہوں کہ ان سے مناکحت نہ کی جائے ،اور نہ ہی موارثت،ابن ابی حاتم نے جہمیہ کی تردید میں اس سے روایت کیا کہ کہا ان کا ارادہ ہے کہ کہیں آسمان میں کچھ بھی نہیں ،اور یہ کہ اﷲعرش پر نہیں میرا خیال ہے ان سے توبہ طلب کی جائے ،توبہ کرلیں ،تو ٹھیک ورنہ قتل کردئیے جائیں ۔انتہی ،(الحمویۃ لابن تیمیہ ص ۴۰۰)
عقیدہ سلف پر دلائل قرآن:
اس عقیدہ کی صحت پر قرآن وسنت شاہد ہیں اور قرآن مجید کی آیات میں متعدد قسموں کے ادلّہ ہیں:
وہ آیتیں جن میں صریحاً اﷲسبحانہ وتعالیٰ کا آسمانوں کے اوپر اور عرش پر مستوی ہونا مذکور ہے:
۱۔ اِنَّ رَبَّکُمُ اﷲَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ ایَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی العَرْشِ۔ [ الاعراف : ع۴ پ۸]
تحقیق تمہارا رب اﷲہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پید اکیا پھر عرش پر مستوی ہوا۔
۲۔ اِنَّ رَبُکُمُ اﷲُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی العَرْشِ۔ [یونس ع۱پ۱۱]
یقینا تمہارا رب اﷲہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا ،پھر عرش پر مستوی ہوا۔
۳۔ اَﷲُ الَّذِی رَفَعَ السَمٰوٰتِ بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔ [الرعدع۱پ۱۳]
اﷲوہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر جنہیں تم دیکھواونچا کیا،پھر عرش پر مستوی ہوا۔
۴۔ اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی۔ [طہ ع۱پ۱۶]
رحمان نے عرش پر استواء کیا۔
۵۔ اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ اَلرَّحْمٰن فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا۔ [الفرقان]
اﷲوہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے مابین کو چھ ایّام میں پیدا کیا ،پھر رحمان نے عرش پر استوا کیا اس کے بارے میں خبر والے سے پوچھ۔
۶۔ اَﷲُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔ [السجدۃ ع۱پ۲۱]
اﷲوہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی چیزیں چھ دنوں میں پیدا کیں ،پھر عرش پر استوا کیا۔
ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ۔ [الحد ید ع۱ پ۲۷]
وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے مابین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھر اس نے عرش پر استوا کیا۔

استواء بمعنی ارتفاع ہے
اور استواء کے معنی الارتفاع والعلو ہے صحیح البخاری کتاب التوحید باب وکان عرشہ علی الماء میں ہے:
ابوالعالیہ نے فرمایا کہ استوٰی الی السماء یعنی ارتفاع اونچا ہوا ،مجاہد نے کہا استویٰ بمعنی علا کے ہے ،یعنی عرش پر اونچا ہوا،ابوالعالیۃ کے اثر کو ابن جریر نے موصولاً بیان کیا ہے ،عبداﷲبن جعفر کے طریق سے وہ اپنے باپ سے اور وہ ابوالعالیۃ سے مجاہد کے اثر کو فریابی نے اپنی تفسیر میں موصول کیا ورقاء سے وہ ابن ابی نجیح سے وہ مجاہدسے ۔ [فتح الباری ج۱۷ص۱۷۶]۔
اسحق بن راہویہ فرماتے ہیں میں نے کئی مفسرین سے سنا کہ الرحمن علی العرش استوٰی کا مفہوم ہے رحمان عرش پر اونچا ہوا۔ [تفسیر محاسن التاویل للقاسمی ج۷ ص۲۷۰۳]۔

استواء بمعنی استیلاء کرنا بالکل غلط ہے
ابوسمٰعیل ہروی کتاب الفاروق میں داؤد بن خلف سے باسند نقل کرتا ہے کہ اس نے کہا ہم ابوعبداﷲبن الاعرابی یعنی محمد بن زیاد اللغوی کے پاس تھے ،ایک شخص نے اس سے کہا ،الرحمن علی العرش استوٰی جواب دیا وہ عرش پر ہی ہے ،جس طرح کہ اس نے خبر دی ہے،اس شخص نے کہا غلبہ پالیا جواب دیا استولی علی الشیٔ اس وقت کہا جاتا ہے جب کوئی اس کا مقابل ہو(لہٰذا یہ معنیٰ نہیں بن سکتا)اور محمد بن احمد النضرالازدی کے طریق سے ہے میں نے ابن الاعرابی سے سنا کہ احمد بن ابوداؤد نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ لغت عرب میں تلاش کرو استوٰی بمعنی استولی آتا ہو میں نے کہا اﷲکی قسم مجھے یہ نہیں ملا۔ [فتح الباری ج۱۷ص۱۷۷]
اور حافظ ابن قیم نے الصواعق المرسلہ میں اس کے بطلان پر بیالیس (۴۲) وجوہ لکھے ہیں منجملہ ان سے :
تیسری وجہ یہ ہے کہ خطابی نے اپنی کتاب شعارالدین میں کہا بعض لوگوںکا خیال ہے کہ اس جگہ استواء بمعنی استیلا ہے ،اور ایک مجہول بیت سے استدلال کیا یہ بیت کسی معروف شاعر کا مقولہ نہیں کہ اس سے استدلال صحیح ہو ۔اگر اس جگہ استواء بمعنی استیلا ہو تو کلام بے فائدہ بن جاتاہے،اس لئے کہ اﷲتعالیٰ کا علم وقدرت ہر چیز کو محیط ہے آسمانوں اور زمین کا چپہ چپہ اس کے تصرف میں ہے ،تو صرف عرش پر استیلاء و قبضہ کی بات کیا معنی رکھتی ہے ،استیلا وقبضہ کا مفہوم تو یہ ہے کسی کو ایک چیز سے روکا جارہا ہے اور وہ اس پر کامیاب ہوجائے ،پھر کہا جاتا ہے استولی علیہ یعنی اس پر قبضہ کرلیا ہے،یہاں (حق تعالیٰ کے لیے)کون سی منع ہے کہ اسے استیلا سے موصوف قرار دیا جائے ،خطابی ائمہ لغت سے ہیں ،پانچویں وجہ یہ ہے کہ ایسا کہنا قرآن پاک کی تفسیر بالرأی کے زمرے میں آتا ہے کسی صحابی یا تابعی نے ایسا نہیں کہا نہ مسلمانوں کے کسی امام نے یہ بات کہی ہے ،اور نہ ہی مفسرین میں سے کوئی یہ تفسیر بیان کرتا ہے جو کہ اقوال سلف نقل کرتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرے وہ اپنی جگہ جہنم میں بنالے دسویں وجہ یہ ہے کہ استواء اور استیلاء دو متغائر لفظ ہیں جن کا الگ الگ معنی ہے،ایک کو دوسرے پر محمول کرنا اگر بطریق وضع ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ عرب نے استواء کو استیلاء کے معنی میں وضع نہیں کیا،اگر لغت عرب میں استعمال کے طرق سے ہے تو بھی جھوٹ ہے کہ استعمالات اہل عرب نظم ونثر میںایسا نہیں ملتا ،استوی کا لفظ قرآن ،سنت اور محاورات عرب میں تلاش کیجئے ،کہیں بھی استیلاء کے معنیٰ میں مستعمل ہے ؟ہاں ہاں صرف اس بناوٹی اور مخترع بیت میں اگر ایک کا محمول کرنا دوسرے کے مجاز کے طور پر کہا جائے تو ایسا کہنے والے کا اپنا استعمال ہوگا کسی اور انسان کے کلام کو بھی اس پر محمول نہیں کیا جاسکتا ،چہ جائیکہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام کو اس پر محمول کیا جائے پندرھویں وجہ یہ ہے کہ امام اشعریؒ نے مفسرین کا اجماع نقل کیا ہے کہ استواء بمعنی استیلاء مراد لینا باطل ہے ،ستائیسویں وجہ یہ ہے کہ مخلوق میں ذات حق کے سب سے زیادہ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲتعالیٰ کے لیے عرش پر ہونے کا اطلاق فرمایا ہے (جیسا کہ احادیث ذیل میں آرہا ہے)اور یہ فوقیت آیت میں مذکور استواء کی تفسیر ہے۔ [ملحضًا من مختصر الصواعق المرسلہ ج۲ص۳۲۱-۳۲۶]۔
اوربعضوں نے چوتھی آیت میں یہ تاویل کی ہے ۔علا کو فعل بنایا ہے فاعل الرحمن اور استوی کا فاعل العرشکو بنایاہے۔زرکشی ’’البرہان فی علوم القرآن‘‘میں کہتا ہے : یہ تاویل دو وجہ سے غلط ہے ایک یہ موؤل نے صفت کو فعل بنادیا ہے،مصاحف اہل شام وعراق وحجاز سب سے اعلیٰ اس جگہ حرف ہے،اگر فعل ہوتا تو اسے لام اور الف سے لکھا جاتا جس طرح ایک دوسرے مقام پر ہے ولعلا بعضہم علی بعض دوسری وجہ یہ ہے کہ اس موؤل نے العرش کو مرفوع بنادیا ،حالانکہ قراء میں سے یہ کسی کی بھی قرات نہیں ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ اس دوسری آیت کے خلاف ہوگا۔

وہ آیات جن میںاستواء الی السماء کا ذکر ہے
۱۔ ھُوالَّذِی خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَائِ فَسَوّٰھُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَھُوَ بِکُلِّ شَیٍٔ عَلِیْمٌ۔
وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی سب چیزیں پیدا کیں ،پھر آسمان کی طرف مستوی ٰ ہوا ،اور انہیں سات آسمان بنایا اوروہ ہر چیز کو جانتا ہے ۔ [البقرۃ ع۳پ۱]۔
۲۔ ثُمَّ اسْتوٰی اِلَی السَّمَائِ وَھِیَ دُخَانٌ۔ [حم السجدۃ ع۲ پ۲۴]۔
پھر آسمان کو مستوی ہوا ،اور وہ دھواں تھا۔

معنی استواء : بخاری شریف سے ابوالعالیہ کا قول نقل ہوا ہے کہ بمعنی ارتفع اورمختصر الصواعق المرسلہ ج۲ص۳۲۰ میں ہے کہ :
ھذا بمعنی العلو والارتفاع باجماع السلف۔ باجماع سلف یہ علو اور ارتفاع کے معنی میں ہے ۔
امام بغوی تفسیر معالم التنزیل ج۱ص۳۷علی ہامش الخازن لکھتے ہیں کہ :
وقال ابن عباس واکثر مفسر السلف ای ارتفع الی السماء أھــ۔اکثر مفسرین سلف اور ابن عباسؓ نے کہا آیت کا معنیٰ ہے آسمان کی طرف اونچا ہوا ۔
اورامام ابن جریر تفسیر جامع البیان ج۱ ص۱۹۲میں فرماتے ہیں:
فرمان اﷲجل شانہٗ ثم استویٰ الیٰ السماء فسواھن کا صحیح ترین معنیٰ یہ ہے کہ وہ آسمانوں پر اونچا ہوا اور ارتفاع کیا ،اپنی قدرت سے ان کی تدبیر کی ،اور انہیں سات آسمان بنایا ،اس پر تعجب ہے ،جو اس آیت کے اس معنیٰ کا انکار کرتا ہے ،جو کلام عرب سے ماخوذ ہیں یعنی یہ کہ آسمان کی طرف مستوی ہوا یعنی علو اور ارتفاع اختیار فرمایا۔وہ اپنے خیال میں ایک مستنکر تفسیر سے بھاگنا چاہتا ہے ،پھر جو تفسیر کی ہے اس میں بھی موجود ہے جس سے ہٹنا چاہتا ہے ،اسے کہا جائے تیرے نزدیک استویٰ کی تفسیر ہے ،اقبل یعنی متوجہ ہوا ۔کیا وہ آسمان سے منہ پھیرے ہوئے تھا کہ متوجہ ہوا؟اگر کہے یہ توجہ تدبیر ہے توجہ فعل نہیں،تو اسے بھی کہہ دو کہ آسمان پر علو اور ارتفاع بھی مِلک وسلطان کا ہے ،علو انتقال وزوال نہیں ،اس بارے میں وہ جو بات کہے گا ،ہمارے بیان کردہ معنیٰ میں وہی الزام اس کو دیا جائے گا ،ہم غیر متعلق باتوں سے کتاب کی طوالت سے بچنا چاہتے ہیں ورنہ ہم ہر اس قائل کی باتوں کا فساد واضح کرتے ہیں جنہوں نے اس بارے میں اہل حق کے خلاف کوئی بات کہی ہے اور ہم نے جوبیان کیا ہے فہم وفراست کے حامل کیلئے کافی ہے انشائﷲتعالیٰ ۔
ابوجعفر کہتے ہیں اگر کوئی کہے ہمیں بتاؤاﷲجل شانہٗ کا آسمان کی طرف استواء تخلیق آسمان سے پہلے تھا ،یا بعد میں کہا جائے گا،آسمان کی تخلیق کے بعد استواہے ،مگر سات آسمان کے بنانے سے پہلے اﷲتعالیٰ نے فرمایا ہے ،’’پھر وہ آسمان کی طرف مستوی ہوا ،جبکہ وہ دھواں تھا ،اسے اور زمین کو کہا آؤبہ خوشی یا بہ کراہت ،اور استواء آسمان کو دھواں کی صور ت میں پیدا کرنے کے بعد اور سات آسمان بنانے سے پہلے تھا،بعض نے کہا استویٰ الیٰ السماء اس لئے کہا کہ جیسا کہ ایک شخص دوسرے شخص کو کہتا ہے یہ کپڑا بناؤحالانکہ اس کے پاس سوت ہے ،سواہن کا مطلب انہیں تیار کیا ،پیدا کیا ،ان میں تدبیر کی ،درست بنایا ،کلام عرب میں تسویۃ اصلاح ودرستگی کو کہتے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے فلاں نے فلاں کے لئے امر کاتسویہ کیا یعنی درست کیا ،اصلاح کی اور اسے موافق بنایا اسی طرح اﷲتعالیٰ کا آسمانوں کے تسویۃ کا مطلب ہے اپنی مشیت کے مطابق ان کی درستگی کرنا اور اپنے ارادہ کے مطابق ان میں تدبیر کرنا اور وہ بند ہوتے ہیں ،تو انہیں کھول دینا۔

وہ آیتیں جن میں اﷲسبحانہ وتعالیٰ کے عرش عظیم کا ذکر ہے
الحمد ﷲاس باب میں قرآن مجید میں کثرت سے آیات ہیں ایک آیت نقل کرنے کے بعد ہم ان آیات کے اشارات پر اکتفاء کریں گے قاری خود بذریعہ قرآن مجید ان آیات سے استفادہ حاصل کرسکتا ہے:
فَِان تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اﷲُ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ [التوبۃ:ع۱۰پ۱۱]۔
اگر اعراض کریں تو کہہ مجھے اﷲکافی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس پر توکل کرتا ہوں،اور وہی عرش عظیم کا رب ہے۔
الانبیاء ع ۲ پ ۱۷
المؤمنون ع۶پ۱۸
المؤمن ع۲ پ۲۴
المؤمنون ع۹پ۱۸
النمل ع۲پ۱۹
الزخرف ع۲پ۲۵

معنی عرش : اور عرش میں خود علو کا معنیٰ ہے کما مراور نیز احادیث میں بھی اس کی تصریح ہوگی اور صاحب عرش جب ہو کہ کہ اس پر مستوی ہو جو کہ اس کے بائن عن الخلق ہونے کو مستلزم ہے۔
امام ابوبکر آجری کتاب الشریعۃ میں لکھتے ہیں: علماء کا مذہب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ عرش پر ہے ،آسمانوں کے اوپر ۔اس کا علم ہرچیز کو محیط ہے ،اس کا علم بلندآسمانوں اور ساتوں زمینوں اور ان کے مابین تحت الثری کو محیط ہے ،وہ پوشیدہ اور مخفی ترین امور کو جانتا ہے ،خائن آنکھوں اور جو سینوں میں چھپا ہے ،سب کو جانتاہے ،دل کے کھٹکے ،اور ارادے کو جانتا ہے ،دلوں میں جو وساوس آتے ہیں ،انہیں سنتا ہے ،اور دیکھتاہے اﷲسے آسمانوں اور زمینوں میں کا کوئی ذرہ کے قدر بھی دور نہیں مگر وہ اس کا علم رکھتا ہے ،وہ اپنے عرش پر ہے ،بلند ہے اعلیٰ ہے میں اس کی تنزیہ کرتاہوں اپنی طرف بندوں کے اعمال اٹھاتا ہے اور وہ انہیں فرشتوں سے زیادہ جانتاہے جو رات دن ان اعمال کی معرفت حاصل کرتے رہتے ہیں۔انتہی۔
اورپہلی آیت کے تحت امام ابن کثیر لکھتے ہیں ج۲ص۴۰۴:
یعنی ہر چیز کا مالک ہے ،اور اس کا خالق ہے اس لئے کہ وہ بڑے عرش کا رب ہے ،یہ عرش کل مخلوق کے لیے چھت ہے ،اور کل مخلوق آسمان ہوں یا زمین یا ان کے بیچ یا ان کے درمیان و عرش کے نیچے ہے ،اور اﷲتعالیٰ کی قدرت کے زیر اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے ،اس کی تقدیر ہر چیز پر نافذاور وہ ہر چیز کا بنانے والا۔
اور تفسیر مدارک التنزیل للنسفی ص۱۵۶اور جلد ۲ میں ہے کہ: وہ عرش عظیم کا رب ہے اﷲکی مخلوق میں یہ سب سے بڑا ہے،اور آسمان والوں کے لیے مطاف اور دعا کیلئے قبلہ ہے۔
اور دوسری آیت کے تحت ابن کثیر ج۲ص۴۳۷ میں ہے : ابن عباس ؓ نے کہا عرش کو یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کہ یہ اونچا ہے ،اسماعیل بن خالد نے کہا میں نے سعد طائی سے یہ کہتے سنا کہ عرش سرخ یاقوت ہے اور محمد بن اسحاق نے اس آیت (اﷲوہ ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا ،اور اس کا عرش پانی پر تھا)کی تفسیر میں کہا حقیقت یہی ہے جو کہ اﷲتعالیٰ نے اپنی صفت میں بیان فرمائی پانی کے سوا کچھ نہیں اور اس پر عرش ہے ،اور عر ش پر جلال واکرام ،عزت وسلطنت کا مالک ہے،وہ بادشاہ صاحب قدرت ،حلم وعلم اور رحمت ونعمت والا ہے ،جو ارادہ ہو کرتاہے۔انتہی۔
نسفی میں ہے ،اس کا عرش پانی کے اوپر تھا مقصد یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین کے تخلیق سے پہلے عرش کے نیچے پانی کے سوا کچھ نہ تھا۔انتہی۔
تفسیر الفتوحات الالہیہ للجمل میں ہے اﷲتعالیٰ اپنی اسی جگہ تھا،جہاں اب ہے سات آسمانوں کے اوپر اور پانی وہیں تھا ،جہاں اب ہے یعنی ساتوں زمین کے نیچے۔
اور چوتھی آیت کے تحت ابن کثیر ج۳ص۲۵۳میں ہے : اور وہ عرش عظیم کا رب ہے وہ عرش جو کہ مخلوقات کی چھت ہے جس طرح ابوداؤد کی ایک حدیث میں ہے ،رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲکی شان اس سے بڑی ہے ،اس کا عرش آسمانوںپر ہے (پھر چند اور احادیث ذکر کیں اور کہا)ضحاک ،ابن عباسؓ سے روایت کرتاہے،کہ عرش اس لئے کہلایا کہ یہ اونچا ہے ،اعمش ،کعب الاحبار سے روایت کرتاہے کہ آسمان اور زمین عرش میں اس طرح ہے ،جیسا کہ آسمان اور زمین کے درمیان لالٹین لٹکا ہوا ہو۔مجاہد کہتا ہے ،کل آسمان اور زمین ایسے ہیں جس طرح میدان میں ایک حلقہ۔
اور پانچویں آیت کے تحت ابن کثیر ج۳ ص ۲۵۹میں ہے : عرش کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ جمیع مخلوقات کیلئے چھت ہے،اس کی صفت کریم اس لئے کہ یہ اچھے منظر والا اور خوبصورت ہے ،جس طرح کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ہم نے اس میں ہر طرح کے اچھے اچھے جوڑے اگائے ہیں ۔انتہی۔
اور نسفی جلد ۳ ص ۱۳۰میں ہے : عرش کی یہ صفت کریم اس لئے کہ رحمت وہیں سے اترتی ہے یا یہ اکرم الاکرمین کی طرف نسبت ہے ۔اور خازن میں ہے (ج۵ص۳۸)کریم یعنی خوبصورت بعض کہتے ہیں اس کا معنیٰ اونچا ہے ،انتہی ،خازن کے حاشیہ پر بغوی میں بھی اسی طرح ہے ۔
اور تفسیر فتح القدیر للشوکانی ج۲ ص۴۸۵میں ہے:عرش کی صفت کریم اس لئے کہ اس سے رحمت اور خیر نازل ہوتی ہے ،یااس پر مستوی ہونے والے کے اعتبار سے کریم ہے جیسا کہ بیت کریم اس گھر کو کہتے ہیں جس میں رہنے والے کریم(باعزت)ہوں۔
اور نویں آیت کے تحت ابن کثیر ج۴ ص ۴۹۶ میں ہے : یعنی عرش عظیم جو کہ کل مخلوق سے اونچا ہے کا مالک ہے۔
نسفی ج۴ ص ۳۴۶میں ہے ذوالعرش یعنی اس کا پیدا کرنے والا،مالک اور بزرگی والا،حمزہ اور علی نے المجیدکو مجرور پڑھا کہ العرش کی صفت ہے اﷲکا مجد اس کی عظمت ہے ،اور عرش کا مجد اس کا علو اور بڑائی ہے جلالین میں ہے ذوالعرش یعنی اس کا خالق ومالک بزرگی والا ۔المجید رفع کے ساتھ یعنی مکمل صفات علو کا مستحق ۔جمل اور محاسن التاویل میں بھی اسی طرح ہے ۔جمل ج۴ص۵۱۵،للمحاسن ج۱۷ص ۶۱۱۸۔
مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان​

دعا میں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے جاتے ہیں

امام ابن خزیمہ’’کتاب التوحید ‘‘ص ۷۳ میں فرماتے ہیں :
باب اس بیان میں کہ اﷲعزوجل اوپر ہے ،جیسا کہ اس نے قرآن محکم میں اس کی خبر دی ہے ،اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانی بھی بتایا ،اور مسلمانوں کی فطرت عادت سے ایسا ہی سمجھا جاتا ہے،کہ علماء ،جہال ،آزادوغلام ،مرد وعورت بالغ ونابالغ سب کے سب اﷲجل وعلاء کو پکارتے ہیں اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ،اور اپنے ہاتھ اوپر کو اﷲکے حضور پھیلاتے ہیں نہ کہ نیچے کو ۔
امام ابوسعید عثمان بن سعید الدارمیؒ ’’ کتاب الرد علی الجہمیۃ ‘‘ ص ۲۰ میں فرماتے ہیںکہ:
پھر پچھلے علماء وجہال سب کا اجماع ہے کہ جب اﷲسے مدد طلب کرتے ہیں یا سے پکارتے ہیں یا سوال کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلاتے ہیں ،نظر بھی اوپر ہی کو مرکوز ہوتی ہے ،اپنے نیچے زمین کے اندر اور آگے پیچھے یا دائیں بائیں توجہ کرکے اس کو نہیں پکارتے ۔صرف آسمان کی طرف توجہ ہے ۔کیونکہ ہر ایک کو پتہ ہے کہ اﷲ ان کے اوپر ہے حتیٰ کہ سب نمازی سجدہ میں کہتے ہیں :سبحان ربی الاعلیٰ رب بلندکی پاکیزگی بیان کرتا ہوں ایسے کوئی نہیں کہتا کہ میرے رب اسفل کی تسبیح کرتا ہوں۔
اور کتاب الرد علی بشر المریسی الحنفی کے رد میں فرماتے ہیں ص ۲۵: مسلمان اور کفار کا اس بات پر اتفاق ہے ،کہ اﷲ اوپر ہے صرف المریسی گمراہ اور اس کے گروہ نے انکار کیا ہے ،حتیٰ کہ نابالغ بچے بھی اس بات کو جانتے ہیں جب کسی بچہ کوکوئی بات درپیش ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے ،اور اپنے رب کو پکارتا ہے ،غرض کہ ہر کوئی اﷲاور اس کے مرتبہ کو جہمیہ گروہ سے زیادہ جانتا ہے ۔
محمد بن طاہر مقدسی نے ذکر کیا کہ شیخ ابوجعفر ہمدانی استاذ ابوالمعالی الجوینی معروف بہ امام الحرمین کی مجلس میں تھا،وہ صفت علو کی نفی میںگفتگو کررہا تھا ۔چنانچہ کہا اﷲتھا جبکہ عرش نہیں تھا اور وہ اب بھی اس طرح ہے جیسا کہ پہلے تھا،شیخ ابوجعفر نے کہا استاذ جب ہی کوئی عارف یااﷲکہتا ہے ،وہ اپنے دل میں ایک داعیہ پاتا ہے ،جو اسے علو کی طرف متوجہ کردیتا ہے ،دائیں بائیں اور کسی طرف نہیں ،ہم اپنے آپ سے اس داعیہ کو کیسے نکالیں ،ابوالمعالی نے سر پر تھپڑ مارا ،منبر سے نیچے اترا ،رویا اور کہا مجھے ہمدانی نے حیرت زدہ کردیا ،شیخ ہمدانی کا مقصد یہ تھا کہ اﷲتعالیٰ کا علو میں ہونا ایک فطری بات ہے جس پر اﷲتعالیٰ نے اپنے بندوں کو پیدا کیا ،اﷲکے رسولوں سے حاصل کئے بغیر بھی انسان اپنے دلوں میں اﷲ کی طرف توجہ محسوس کرتے ہیں ،اور وہ توجہ علو میں ہے ،شرح عقیدہ طحاویہ میں اسی طرح ہے ۔

آیت مذکورہ سے طرز استدلال:
پس اس کے خلاف عقیدہ رکھنا فطرت کے خلاف چلنا ہے آیات قرآنیہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اﷲتعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے اور بائن عن الخلق ہے ،بعض صراحتا وعبارۃً،بعض اشارۃًوکنایۃً بعض اقتصائً ولزوماً،سب کا مدلول یہی ہے ،اتنی آیات کے بعد کوئی مسلمان اب اﷲتعالیٰ کی صفت علو میں شبہ نہیں کرے گا بلکہ بموجب قولہ تعالیٰ : وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِم اٰیَاتُہٗ زَادَتْھُم اِیْمَانًا۔ اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں ان کا ایمان زیادہ ہوجاتا ہے ۔(الانفال ع۱پ۹)۔ان کا عقیدہ اس مسئلہ کے متعلق مضبوط ہوجائے گا ،اب صفت علو کا انکار کرنا یا شک کرنا اور صوفیہ کی طرح ہرجگہ اﷲکو کہنا لاموجود الاھو (اس کے سوا کوئی موجود نہیں ہے)کانعرہ لگانا ان کثیر آیات کا انکار کرنا ہے ۔کیونکہ اگر معاذاﷲبقول حلولیہ اﷲتعالیٰ عرش پر نہیں بلکہ ہر جگہ پر ہے تو جیسا کہ ان آیات کا مفہوم ہے آسمانوں کے اوپر عرش عظیم جس کو فرشتے اٹھاتے ہیں جس پر کوئی نہیں پہنچ سکتا وہ کس کا ہے؟اس پر کون مستوی ہے ؟اور آسمانوں کے اوپر کون ہے جس کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے؟

احادیث نبویہ سے مسلک اہل سنت کا اثبات
دلائل قرآنیہ کے بعد دلائل حدیثیہ ذکر کئے جاتے ہیں ،اس مسئلہ پر بے شمار احادیث وارد ہیں جن کا تواتر نہایت یقینی ہے امام ذہبی ؒنے اس پر مستقل جزء لکھا ہے جو ’’جو کتاب العلوللعلی الغفار‘‘کے نام سے مشہور ہے جس میں کئی روایت جمع کی ہیں ،ہم یہاں بالاختصار ان کو ذکر کرتے ہیں ،بعض روایات زائد بھی کریں گے لیکن مع حوالہ صفحات کتب ہوں گی اور جن پر کسی کتاب کا صفحہ مذکور نہ ہو تو اسی کتاب سے منقول سمجھیں ۔
۱۔ اخرج مسلم عن معاویۃ بن الحکم السلمی فذکر الحدیث قال وکانت لی جاریۃ ترعی غنما لي قبل احد والجوانیۃ فاطلعت ذات یوم فاذالذئب قد ذھبت بشاۃ من غنمھا وانا رجل من بنی اٰدم اٰسف کما یاسفون لکنی صککتھا صکۃ فاتیت رسول اﷲ ﷺ فعظم ذلک علي قلت یا رسول اﷲ فلا اعتقھا قال ائتنی بھا فاتیتہ بھا فقال لھا این اﷲ؟ قالت فی السماء قال من انا ؟ قالت انت رسول اﷲ قال اعتقھا فانھا مؤمنۃ واخرجہ النسائی وابوداؤد وغیر واحد من الائمۃ فی تصانیفھم ۔ ھذا حدیث صحیح رواہ جماعۃ من الثقات عن یحي بن ابی کثیر عن ھلال بن ابی میمونۃ عن عطاء بن یسار قال حدثنی صاحب الجاریۃ نفسہ قال کانت لی جاریۃ ترعی الحدیث وفیہ فمد النبی ﷺ یدہ الیھا واشار الیھا مستفھما من فی السمائ؟ قالت اﷲ قال فمن انا ؟قالت انت رسول اﷲ قال اعتقھا فانھا مسلمۃ۔
مسلم نے معاویہ بن حکم سلمی رضی اﷲ عنہ سے تخریج کی ہے (پھر حدیث ذکر کی )کہا اور میری لونڈی تھی احد اور جوانیہ کی طرف میری بکریاں چراتی تھی میں ایک دن وہاں گیا تو پتہ چلا کہ بھیڑیا ریوڑ میں سے ایک بکری لے گیا ،میں بھی انسان ہوں ،ان کی مانند مجھے غصہ آگیا تو میں نے اسے تھپڑ رسید کردیا ،اس کے بعد میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ نے اس مارنے کو میرا گھناؤنا کام ظاہر فرمایا میں نے کہا یا رسول اﷲمیں اس لونڈی کو آزاد کیوں نہ کردوں فرمایا اسے میرے پاس لے آ،چنانچہ میں اسے آپ کے پاس لے آیا آپ نے اس سے پوچھا ،اﷲکہاں ہے ،لونڈی نے جواب دیا آسمان میں فرمایامیں کون ہوں ،لونڈی نے جواب دیا آپ اﷲکے رسول ہیں ،فرمایا اسے آزاد کرو یہ مؤمنہ ہے ۔یہ حدیث امام نسائی ،ابوداؤد اور دوسرے آئمہ نے بھی اپنی تصانیف میں تخریج کی ہے ۔یہ حدیث صحیح ہے یحي بن ابی کثیر سے ثقات کی ایک جماعت روایت کرتی ہے ،اور وہ ہلال بن ابی میمونۃ سے وہ عطا بن یسار سے وہ معاویۃ سے یا عطابن یسار نے کہا مجھے لونڈی کے مالک نے خود روایت کی تھی کہا میری ایک لونڈی تھی الخ اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ لونڈی کی طرف بڑھایا اور اس کی طرف اشارہ کیا یہ پوچھتے ہوئے کہ آسمان میں کون ہے لونڈی نے کہا اﷲ فرمایا میں کون ہوں کہنے لگی آپ اﷲکے رسول ہیں فرمایا اسے آزاد کردے یہ مسلمان ہے ۔
۲۔ واخرج النسائی فی تفسیرہ فی قولہ تعالیٰ ثم استوٰی الی السماء من طریق مالک عن ھلال بن اسامۃ عن عمر بن الحکم قال اتیت رسول اﷲ ﷺ فذکر نحوہ اخرجہ ابوسعید الدارمی فی ’’الرد علی الجھمیۃ‘‘ ص ۲۲۔
امام نسائی نے اﷲ کے فرمان ثم استوی الیٰ السماء کی تفسیر میں روایت کیا ،بہ طریق مالک وہ ہلال بن اسامۃ سے وہ عمر بن حکم سے کہتا ہے میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا ،آگے اسی طرح ذکر کیا ،ابوسعید الدارمی نے الرد علی الجہمیۃ میں اس کو تخریج کیا۔
امام دارمی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی یہ حدیث دلیل ہے کہ جس مرد کو یہ پتہ نہیں کہ اﷲعزوجل آسمان پر ہے نہ کہ زمین پر وہ مؤمن نہیں ہے چاہے غلام ہی ہو رقبہ مؤمنۃ کے ذیل میں نہیں آئے گا ،اس لئے کہ اسے یہ علم نہیں کہ اﷲآسمان پر ہے ،کیوں کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے لونڈی کے ایمان کی نشانی اس کی اس معرفت کو بنایا کہ اﷲآسمان پر ہے ۔
۲۔ واخرج احمد فی مسندہ والقاضی البرنی فی مسند ابی ہریرہ قال جاء رجل الی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بجاریۃ اعجمیۃ فقال یارسول اﷲ انی علی رقبۃ مومنۃ فاعتق ھذہ فقال لھا این اﷲ؟ فاشارت الی السماء قال فمن انا؟ فاشارت الی رسول اﷲ ﷺ ثم الی السماء قال اعتقھا فانھا مومنۃ واسنادہ حسن۔
احمد نے اپنی مسند میں اور قاضی برقانی نے مسند ابوہریرۃ میں ابوہریرۃ ؓ سے روایت کی ہے کہا ایک مرد رسول اﷲصلی اﷲ کے پاس ایک گونگی لونڈی کے ساتھ آیا ،پس کہا یا رسول اﷲ میں نے ایک مؤمن آزاد کرنا ہے،اسے آزاد کردوں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اﷲکہاں ہے ،اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا ،آپ نے پوچھا میں کون ہوںاشارہ کیا کہ آپ اﷲکے رسول ہیں آپ نے فرمایا اسے آزاد اسے آزاد کر یہ مومنۃ ہے۔اس کی سند حسن ہے۔
۳۔ واخرج الذ ھبی عن ابن عباس ومحمد بن الثرید وابوحفص بن الشاہین فی کتاب الصحابۃ من عکاشۃ الغنوی والحافظ ابواحمد العسال فی کتاب المعرفۃ لہ عن اسامۃ بن زید اللیثی عن عبدالرحمن بن حاطب نحوہ واخرج ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید ص ۸۲ عن رجل من الانصار نحوہ۔
ذہبی نے ابن عباس اور محمد بن الثرید سے اور ابوحفص بن شاہین نے کتاب الصحابۃ میں عکاشہ غنوی سے اور حافظ ابواحمد العسال نے اپنی کتاب المعرفۃ میں اسامۃ بن زید لیثی سے وہ عبدالرحمن بن حاطب سے اسی طرح نکالا،اور ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں ایک انصاری مرد سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ابن مندہ اصفہانی نے کتاب الایمان ص۸ (قلمی)میں اس قسم کی حدیث پر یہ باب رکھا ہے ۔
قال ذکر ما ید ل علی ان المقربا لتوحید اشارۃ الی السماء بان اﷲ فی السماء دون الارض وان محمد ا رسول اﷲ معتقد ا الایمان یسمی بہ مومنا۔
ذکر ان احادیث کا جو دلالت کرتی ہیں کہ آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو توحید کا اقرار کرے کہ اﷲ آسمان پر ہے نہ کہ زمین پر اور محمد اﷲکے رسول ہیں ،دلی عقیدہ سے اسے مؤمن کا نام دیا جائے گا۔
اور امام ابن خزیمہ نے کتاب التوحیدص ۸۰ میں یوں لکھا ہے:
باب ذکر الدلیل علی ان الاقرار بان اﷲ عزوجل فی السماء من الایمان ۔
باب اس دلیل کے بیان میں کہ اقرار کرنا کہ اﷲآسمان میں ہے ،ایمان کا جزوہے۔
وقال الذ ھبی ص ۱۰۱ طبع الھند ھکذ ا رئینا کل من یسئل این اﷲ؟ یبادر بفطر ویقول فی السماء ففی الخبر مسئالتان احد اھما شرعیۃ قول المسلم این اﷲ وثانیتھا قول المسئول فی السماء فمن انکر ھاتین المسئلتین فانما ینکر علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم۔
ذہبی نے کہا جس آدمی سے پوچھئے اﷲکہاں ہے اس کا فوری اور فطری جواب یہی ہوگا ،آسمان پر ،اس حدیث میں دوباتیں ہیں ایک مسلمان کا پوچھنا ،اﷲکہاں ہے ؟دوسرا مسئول کا جواب دینا آسمان میں جو ان دونوں باتوں کا انکار کرے وہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر انکار کررہا ہے ۔
۴۔ واخرج مسلم عن جابر بن عبد اﷲ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال فی خطبتہ یوم عرفۃ الاھل بلغت فقالوا نعم یرفع اصبعہ الی السماء وینکبھا الیھم ویقول اللھم اشھد ۔
مسلم نے جابر بن عبداﷲسے نکالا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوم عرفہ کے خطبہ میں فرمایا خبردار کیا میں پہنچا چکا ؟صحابہ ؓ نے جواب دیا ہاں،آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور لوگوں کی اشارہ کیا اور فرمایا اے اﷲگواہ رہ۔
۵۔ واخرج البخاری ومسلم عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال الملئکۃ یتعاقبون فیکم ملائکۃ باللیل وملائکۃ بالنہار ویجتمعون فی صلوٰۃ الفجر وصلوٰۃ العصر ثم یعرج الیہ الذین باتوا فیکم فیسألھم اﷲ وھو اعلم بھم کیف ترکتم عبادی فیقولون اتیناھم وھم یصلون وترکناھم وھم یصلون۔
بخاری ومسلم نے ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا فرشتے یکے بعد دیگرے تمہارے پاس آتے ہیں ایک گروہ رات میں اور ایک گروہ دن میں نماز فجر اور نماز عصر کے وقت اکٹھے ہوجاتے ہیں ،او راﷲکی طرف رات یہاں گذارنے والے چڑھتے ہیں ،تواﷲان سے پوچھتا ہے جبکہ وہ ان سے خوب عالم ہے ،میرے بندوں کو تم نے کیسے چھوڑا فرشتے جواب دیتے ہیں ،وہ نماز پڑھ رہے تھے ،جب ہم گئے ،اور جب آئے تب بھی نماز پڑھ رہے تھے۔
واخرج ھمام بن منبہ فی الصحیفۃ الصادقۃ ص ۷۹ واحمد فی مسندہ ص ۳۱۲ ج۲ وابن خزیمۃ فی کتاب التوحید ص ۷۸ وعثمان الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ ص ۳۰ وغیرھم۔
ہمام بن منبہ نے الصحیفۃ الصادقۃ میں اور امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن خزیمہ نے کتاب التوحید میں اور عثمان الدارمی نے الرد علی الجہمیۃ میں اس حدیث کو تخریج کیاہے۔
۶۔ واخرج الذ ھبی عن ابی رزین العقیلی قال قلت یا رسول اﷲ این کان ربنا قبل ان یخلق السمٰوٰت والارض قال کان فی عماء ما فوقہ ھواء وما تحتہ ھواء ثم خلق العرش ثم استوی علیہ ورواہ الترمذی وابوداؤد وابن ماجۃ واسنادہ حسن واخرجہ ابوداؤد الطیالسی فی مسندہ ص ۱۴۷ واحمد فی مسندہ ص۱۱ ج۴ والبہیقی فی الاسماء والصفات ص ۲۹۱ طبع الھند وغیرہ۔
ذہبی نے ابورزین عقیلی سے تخریج کیا ہے کہ میں نے کہا یارسول اﷲآسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا فرمایاعماء میں تھا اس کے اوپر ہوا اور اس کے نیچے ہوا پھر عرش کو پیداکیا پھر اس پر مستوی ہوا ۔اس حدیث کو ترمذی ،ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اس کی سند حسن ہے ،ابوداؤد الطیالسی نے اپنی مسند میں اور احمد نے اپنی مسند میں اور بہیقی نے الاسماء والصفات میں اور دوسرے ائمہ نے اس حدیث کوتخریج کیا ہے۔
اس حدیث پر امام طبرانی نے ’’کتاب السنۃ‘‘میں یہ باب رکھا ہے کہ :
’’باب ماجاء فی استواء اﷲ تعالیٰ علیٰ عرشہ بائن من خلقہ (کتاب العلو طبع الھند ص ۱۴۵)‘‘
باب اس بارے میں کہ اﷲتعالیٰ عرش پر ہے ،اور اپنی مخلوق سے بائن ۔
۷۔ واخرج ابوداؤد والترمذی عن عبد اﷲ بن عمروبن العاص ان رسول اﷲ ﷺ قال الراحمون یرحمھم الرحمان ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء واخرجہ عثمان الدارمی فی الرد علی المریسی ص ۱۰۴ واخرجہ احمد والحاکم کما فی الجامع الصغیر للسیوطی ص ۳۱ ج۲ واخرجہ الذ ھبی معلقا من حدیث جریر واسندہ الطبرانی عنہ واسندہ ھو والحاکم من حدیث ابن مسعود کذ ا فی الجامع الصغیر ایضا ص ۳۲ ج۱ واخرجہ الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ ص ۲۵ من حدیث ابن مسعود مرفوعا من لم یرحم من فی الارض لم یرحمہ من فی السمائ۔
ابوداؤد اور ترمذی عبداﷲبن عمروبن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو تم پر رحم فرمائے گا۔جو آسمان میں ہے ،اس حدیث کو عثمان الدارمی نے الرد علی المریسی میں تخریج کیا ہے،احمد اور حاکم نے بھی اسے نکالا ہے جیسا کہ ’’الجامع الصغیر ‘‘للسیوطی میں ہے ،اور ذہبی نے ا س کو جریر سے معلقا تخریج کیا ہے ،اور طبرانی نے اس سے مسندا بیان کیانیز طبرانی اور حاکم نے ابن مسعود کی حدیث کو مسندا روایت کیا (بحوالہ الجامع الصغیر )دارمی نے اس ھدیث کو الرد علی الجہمیہ میں بروایت ابن مسعود مرفوعا بیان کیا ہے ،جس کے لفظ یہ ہیں ،جو زمین والوں پر رحم نہیںکرتا ،آسمان والا اس پر رحم نہیں کرتا ۔
۸۔ واخرج البخاری عن انس ان زینب بنت حجش کانت تفخر علی ازواج النبی ﷺ تقول زوجکن اھا لکن وزوجنی اﷲ من فوق سبع سماوات وفی لفظ کانت تقول انکحنی اﷲ فی السماء وفی لفظ انھا قالت للنبی ﷺ زوجنیک الرحمن من فوق عرشہ ھذ ا حدیث صحیح وذکر لہ الذھبی فی ص ۱۰۵ شاھدا مرسلا واخرجہ البھیقی فی الاسماء والصفات ص ۲۹۶ طبع الھند فی ’’باب قول اﷲ عزوجل : وھو القاھر فوق عبادہ وقولہ یخافون ربھم من فوقھم ویفعلون ما یؤمرون۔
بخاری نے انس سے نکالا کہ زینب بنت حجش ازواج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر فخر کرتی تھیں کہ تمہارے نکاح تمہارے خاندان والوں نے کئے ہیں ،اور مجھے سات آسمانوں کے اوپر اﷲنے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجہ بنایا،ایک روایت میں یہ لفظ ہیں ،میرا نکاح اﷲنے آسمان پر کیا ہے ،ایک روایت یوں ہے زینب نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہا میرا آپ کے ساتھ رحمان نے عرش پر عقد زواج کیا ہے یہ حدیث صحیح ہے ذہبی نے اس کا ایک مرسل شاہد بھی ص ۱۰۵میں درج کیا ہے ،بہیقی نے الاسماء والصفات باب قول اﷲوہوالقاہر فوق عبادہ الخ میں اسے تخریج کیا ہے ،یعنی باب ہے اﷲکے اس فرمان کی تفسیر میں (ترجمہ)وہ اپنے بندوں پر قاہر کے اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور جو حکم دئیے جائیں کرتے ہیں ۔
۹۔ اخرج الشیخان من حدیث ابی سعید قال قال رسول اﷲ ﷺ الا الاتأمنونی وانا امین السماء یاتینی خبر السماء صباحا ومساء واخرجہ ابن خزیمۃ فی کتاب التوحید ص ۷۸ فی ’’باب ذکر سنن المصطفیٰ ﷺ ‘‘ ان اﷲ عزوجل فوق کل شیٔ وانہ فی السماء کما اعلمنا فی وحیہ علی لسان نبیہ اذلا تکون سنۃ ابد ا المنقولۃ عنہ بنقل العدل موصولا الیہ الاموافقۃ لکتاب اﷲ لا مخالفۃ لہ۔
بخاری ومسلم نے ابوسعید سے حدیث تخریج کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ۔کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے اور میں آسمان میں امین ہوں ،میرے پاس صبح وشام آسمان کی خبریں آتی ہیں اور ابن خزیمہ نے یہ حدیث کتاب التوحید باب ذکر سنن المصطفیٰ صلی اﷲعلیہ وسلم الخ میں روایت کی ہے یعنی باب رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی احادیث کے بیان میں کہ اﷲ عزوجل ہر چیز کے اوپر ہے ،اور وہ آسمان میں ہے جس طرح کہ اس نے ہمیں اپنے نبی کی زبانی وحی میں اطلاع دی ،اور جو سنت آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تک بنقل ثقات رواۃ موصولا ثابت ہو وہ کتاب اﷲکے موافق ہوگی ،مخالف نہیں،
۱۰۔ واخرج مسلم عن ابی ہریرۃ رضی اﷲ عنہ ان رسول اﷲ ﷺ قال والذی نفسی بیدی مامن رجل یدعوا امراتہ الیٰ السماء ساخطا علیھا حتی یرضی عنھا زوجھا وعزاہ المنذری فی الترغیب والترھیب ص ۵۸ ج ۳ وولی الد ین الخطیب فی المشکوۃ ص ۲۸۰ الی البخاری ایضا واوردہ البھیقی فی الاسماء والصفات ص ۲۹۹ فی باب قولہ تعالیٰ : أ امنتم من فی السمائ۔
مسلم نے ابوہریرۃ رضی اﷲعنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے ،جو مرد اپنی عورت کو اپنے بستر پر بلاتاہے پھر وہ انکار کردیتی ہے ،تو آسمان والا اس پر ناراض ہوجاتا ہے ،جب تک مرد اس پر راضی نہ ہوجائے ۔منذری نے الترغیب والترہیب میں اور ولی الدین الخطیب نے مشکوٰۃ میں اس حدیث کو بخاری کی طرف بھی منسوب کیا ہے،اور بہیقی نے اس کو الاسماء والصفات میں باب قولہ تعالیٰ أ امنتم من فی السماء میں درج کیا ہے ۔
۱۱۔ اخرج الذ ھبی عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ عنہ معلقا قال رسول اﷲ ﷺ لما القی ابراھیم علیہ السلام فی النار قال اللھم انک واحد فی السماء وانا فی الارض واحد عبدک ۔ ھذ ا حد یث حسن الاسناد ووصلہ عثمان الدارمی فی الرد علی الجھمیۃ ص ۲۵ وفی الرد بشر المریسی ص ۹۵ واخرجہ عبد الرزاق فی جامعہ وابونعیم فی حلیۃ الاولیاء کما فی الفتح الکبیر فی ضم الزیاد الی جامع الصغیر للنبہانی ص ۳۱ واخرجہ البزار کما فی مجمع الزوائد ص ۲۰۲ ج۸۔
ذہبی نے ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے معلقا روایت کیا ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جب ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تو کہا اے اﷲ تو آسمان میں ایک ہے اور میں زمین میں ایک ہوں تیرا نوکر۔اس حدیث کی سند حسن ہے ،عثمان الدارمی نے کتاب الرد علی الجہمیۃ ،اور رد علی البشر المریسی میں اس کو موصولا بیان کیا ہے ،اور عبدالرزاق نے جامع اور ابونعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اس حدیث کا اخراج کیا ،جیسا کہ الفتح الکبیر فی ضم الزیادۃ الی جامع الصغیر میں ،اور بزار نے بھی اسے روایت کیا ،جیسا کہ مجمع الزوائد میں ہے۔
۱۲۔ واخرج الذ ھبی عن عمران بن خالد بن طلیق حدثنی ابی عن ابیہ عن جدہ قال اختلف قریش الیٰ حصین والد عمران فقالوا ان ھذا الرجل یذکر اٰلھتنا فنحب أن تکلمہ وتعضہ فمشوا معہ الی قریب من باب النبی ﷺ فجلسوا ودخل حصین فلما راٰہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قال اوسعوا للشیخ فقال ما ھذ ا الذی یبلغنا منک تشتم اٰلھتنا وتذکرھم وقد کا ن ابوک جعنۃ وخبزا فقال ان ابی واباک فی النار یا حصین کم تعبد الٰھا الیوم قال ابی ستۃ فی الارض والٰھا فی السماء قال فاذا اصابک الضیق فمن تدعوا قال الذی فی السماء قال فاذا ھلک المال فمن تدعوا قال الذی فی السماء وذکر الحدیث واخرجہ ابن خزیمۃ فی التوحید و اخرجہ الذ ھبی من طریق اخری وفیہ قال فایھم تعبدہ لرغبتک ورھبتک قال الذی فی السماء الحدیث واخرجہ الترمذی فی سننہ ص ۱۸۶ ج۲ وحسنہ واخرجہ الدارمی فی الرد علی المریسی ص ۲۴ ثم قال فلم ینکر النبی ﷺ علی الکافر ان عرف ان الہ العلمین فی السماء کما قالہ النبی ﷺ فحصین الخزاعی کا ن یومئذ فی کفرہ اعلم باﷲ الجلیل الاجل من المریسی واصحابہ مع ما ینتحلون من الاسلام اذمیز بین الا لہ لاخالق الذی فی السماء وبین الٰالھۃ ولاصنام التی فی الارض المخلوقۃ ، اٰ ھـ و اخرجہ البھیقی فی الاسماء والصفات ص ۳۰ طبع الھند۔
ذہبی عمران بن خالد بن طلیق سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے حدیث بیان کی وہ اپنے باپ سے وہ اس کے دادا سے کہ قریش حصین کے پاس گئے اور کہا یہ مرد ہمارے خداؤں کا تذکرہ کرتا ہے ہم پسند کرتے ہیں تو اس سے کلام کر اور اس پر گرفت کر ۔قریشی اس کے ساتھ آئے ،نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دروازے کے قریب اور بیٹھ گئے ،حصین اندر آگیا جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا شیخ کے لئے جگہ فراخ کردو ،اس نے آتے ہی یہ کہا جو ہمیں تیری طرف سے پہنچ رہا ہے کہ تو ہمارے خداؤں کو گالی دیتا ہے ،اور تیرا باپ تو تسلا اور روٹی تھا ،آپ نے فرمایا میرا اور تیرا باپ آگ میں ہیں ،اے حصین آج کل کتنے خداؤں کی عبادت کیا کرتا ہے ،ا س نے کہا سات کی چھ زمین میں اور ایک خدا آسمان میں ،آپ نے فرمایا جب تجھے تنگی ہوتی ہے کس کو پکارتا ہے ،اس نے کہا آسمان والے کو فرمایا جب مال ہلاک ہوجائے تو کس کو پکارتا ہے کہا آسمان والے کو ۔اور حدیث کو مکمل ذکر کیا ۔ابن خزیمہ نے اسے التوحید میں روایت کیا ،ذہبی نے دوسری سند سے روایت کیا ،اس میں ہے رغبت اور خوف میں کس کی عبادت کرتا ہے کہا ،اس کی جو آسمان میں ہے ،الحدیث ۔ترمذی نے اس حدیث کو السنن میں درج فرمایا اور حسن کہا ،دارمی نے الرد علی المریسی میں روایت کیا پھر کہا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کافر پر اس عقیدہ کو رد نہیں فرمایا کہ کائنات کا الٰہ آسمان میں ہے حصین الخزاعی اس وقت کفر میں تھا مگر اسے بھی المریسی اور اس کے گروہ سے اﷲجلیل اور اعظم کا علم زیادہ صحیح تھا ۔حالانکہ یہ لوگ اسلام کے ساتھ انتساب رکھتے ہیں ۔اس نے اﷲخالق جو آسمان میں ،اور ان (خودساختہ)خداؤں اور بتوں کے مابین امتیاز کردیا ،جو زمین پر تھے وہ مخلوق تھے ۔انتہی۔بہیقی رحمہ اﷲ تعالیٰ نے الاسماء والصفات میں اس کو نکالاہے۔
شرح عقیدہ طحاویہ ص۶۶۵ میں ہے کہ : دلی توجہ اور پناہ لینا ،اور طلب جو داعی اپنے اندر محسوس کرتاہے ایک فطری بات ہے ،جسے مسلمان ،کافر اورعالم وجاہل سب اپنے اندر پاتے ہیں ،عام طور پر مضطر اور اﷲسے مدد کا طالب ایسا ہی کرتا ہے جیسا کہ یہ بھی ایک فطری بات ہے کہ جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اﷲہی کو پکارتا ہے ،پھر قبلہ کا معاملہ قابل نسخ وتحویل ہے ،جیسا کہ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف تحویل ہوئی ۔دعا میں توجہ اوپر کی جہت کو ہوتی ہے اور یہ فطرت انسانیہ میں مرکوز ہے کعبہ کی طرف منہ کرنے والا جاناتا ہے کہ اﷲ وہاں نہیں ہے ،اس کے برعکس دعا کرنے والا اپنے رب کی طرف توجہ کرتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اس کی طرف سے رحمت نازل ہوگی۔
بعضوں نے یوں کہا کہ ساجد بھی اپنی پیشانی زمین پر رکھتا ہے تو یہ بھی توجہ ہے مگر کیا معاذ اﷲ اس سے جہۃ سفلیہ ثابت ہوتی ہے ؟لیکن یہ عذر بھی پہلے سے ابطل وافسد (بہت زیادہ باطل اور بہت زیادہ مفسد ہے )،کیونکہ ساجد دراصل اپنا خضوع اور اپنی ذلت ظاہر کرتا ہے ،اس بادشاہ کے لئے جو اس کے اوپر ہے نہ کہ اس کا نیچے کی طرف کوئی خیال بھی ہوتا ہے۔جبھی تو کہتا ہے ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ ۔ہاں حلولیہ (کفار)کے امام بشر المریسی سے منقول ہے کہ وہ سجدہ میں یوں کہتا تھا کہ: ’’ سبحان ربی الاسفل‘‘ میں اپنے رب اسفل کی تنزیہ کرتا ہوں۔جیسا کہ شرح العقیدہ الطحاویہ میں ہے اور ذہبی نے کتاب العلو میں کتاب الرد علی الجہمیۃ مؤلفہ ابوعبداﷲ نفطویہ النحوی سے بروایت داؤد بن علی وہ بشر سے اس کو نقل کیا ہے کہ سجدہ میں ایسے ہی کہتا تھا۔
نوٹ:۔ بشر المریسی اس کا ترجمہ عبدالقادر القرشی الحنفی نے اپنی کتاب الجواہر المضیہ فی طبقات الحنفیہ ص ۱۶۴ ج۱ میں ذکر کیا ہے ،اور لکھا ہے’’اخذ الفقہ عن ابی یوسف القاضی وبرع فیہ‘‘فقہ قاضی ابویوسف سے حاصل کی اور اس میں مہارت تامہ ہوئی ،نیز علامہ عبدالحئی نے بھی الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ ص ۵۴ میں اس کو ذکر کیا ہے ۔
۱۳۔ فاخرج الحاکم فی مستدرکہ ص ۳۲۵ ج۱ عن ابی ھریرۃ قال سمعت رسول اﷲ ﷺ یقول خرج نبی من الانبیاء لیستسقی فاذا ھو نملۃ رافعۃ بعض قوائمھا الی السماء فقال ارجعوا فقد استجیب لکم من اجل شان النملۃ ۔ صححہ الحاکم واقرہ علی ذلک الذ ھبی فی تلخیص المستدرک و ابن حجر فی بلوغ المرام ص ۱۰۴ مطبوعہ مصطفیٰ بمصر والعزیزی فی السراج المنیر شرح الجامع الصغیر ص ۲۳۱ ج ۲ واخرجہ الدارقطنی ایضا فی سننہ ص ۱۰۴ ج۲ مصری والھندی ص ۱۸۸۔
حاکم المستدرک میں ابوہریرۃ رضی اﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سنا کہ ایک نبی بارش کی دعا مانگنے کے لئے نکلا ۔اس نے ایک چیونٹی دیکھی اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہے۔نبی نے کہا واپس چلو ،چیونٹی کی وجہ سے تمہارے لئے قبولیت دعا ہوگئی ہے۔حاکم نے اس کو صحیح کہا ۔تلخیص المستدرک میں ذہبی نے اس کی تصحیح کو برقرار رکھا ،اور ابن حجر نے بلوغ المرام اور العزیزی نے السراج المنیر شرح جامع الصغیر ،اس حدیث کو دارقطنی نے بھی اپنی سنن میں تخریج کیا ہے ۔
علامہ محمد حامد الفقی حاشیہ بلوغ المرام ص ۱۰۴میں تحت الحدیث لکھتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے جانوروں میں اپنی طرف سے التجا کرنے کی فطرت ودیعت کی ہے ،اور یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا رب اور پیدا کرنے والا پاک وبلند ہے اور عرش کے اوپر ہے ،زمین کے نیچے نہیں ،اور نہ ہی ہرمکان میں ہے،البتہ بعض جانور جو انسانی شکل میں موجود ہیں ،اس فطرت کا مکابرہ کرتے ہیں ،اور اپنی جہالت کی وجہ سے اس کا انکار کردیتے ہیں ۔اور اس لئے کہ ان کی سخیف عقل اﷲکی ان صفات کے فہم سے جو اس نے اپنی کتاب میں اور اپنے رسول کی زبانی بیان کی قاصر ہے ،وہ صفات باری کو حوادث کی صفات کی طرح جانتے ہیں ،اور ان کے حقیقی معنیٰ سے تحریف کردیتے ہیں ایسا نہیں کرتے کہ ان صفات پر ایمان لے آئیں اور ان کی اصل حقیقت کا علیم وخبیر کے سپرد کردیں ۔
الغرض پرندوں اور جانوروں کو بھی علم ہے کہ اﷲتعالیٰ آسمانوں کے اوپر عرش عظیم پر ہے اور صوفیہ وحلولیہ کا مذہب فطرۃ کے خلاف ہے۔

مذہب ائمہ اربعہ

ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔امام ذہبی نے کتاب العلو میں چاروں ائمہ سے ثابت کیا ہے :
مسلک امام ابوحنیفہؒ : ذہبی نے اما م ابوحنیفہ کا مذہب بروایت ابو مطیع بلخی صاحب الفقہ الاکبر بیان کیا ہے ،کہ یہ کہتا ہے میں نے ابوحنیفہ سے پوچھا وہ شخص کیسا ہے جو کہے میں نہیں جانتا کہ رب آسمان میں ہے یا زمین میں ۔فرمایا وہ کافر ہے ۔اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : رحمن عرش پر مستوی ہوا ،اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے ،میں نے کہا وہ کہتا ہے کہ اﷲ عرش پر ہے مگر کیا معلوم عرش آسمان میں ہے یا زمین میں امام نے فرمایا جب اس نے عرش کے آسمان پر ہونے کا انکار کیا ،اس نے کفرکیا ،ابوبکر صاحب الفاروق نے اسے روایت کیا۔
اور یہ روایت الفتاوی الحمویہ لابن تیمیہ ؒ ص ۳۷ میں بھی مذکور ہے :
ذہبی کہتا ہے میں قاضی امام تاج الدین ،عبدالخالق بن علوان سے سنا اس نے کہا میں نے امام ابو محمد عبداﷲ بن احمد المقدسی مؤلف المقنع سے سنا اس نے کہا ۔مجھے ابوحنیفہ سے روایت پہنچی ہے کہ اس نے کہا جو شخص اس کا انکار کرے کہ اﷲ آسمان پر ہے اس نے کفر کیا۔
مسلک امام مالک : امام مالک کا مسلک عبداﷲ بن احمد بن حنبل نے الرد علی الجہمیۃ میں بروایت عبداﷲبن نافع بیان کیا ہے اس نے کہا کہ امام مالک بن انس نے کہا اﷲ آسمان پر ہے ،اور اس کا علم ہر جگہ ہے ،اس کے علم سے کوئی چیز جدا نہیں ہے،بہیقی نے سند صحیح کے ساتھ ابوالربیع الرشد ینی سے روایت کیا ،وہ ابن وہب سے کہ میں مالک کے پاس تھا ،ایک شخص آیا ،اور کہا اے ابوعبداﷲ رحمان عرش پر مستوی ہوا۔کیسے مستوی ہوا ۔مالکؒ نے سرنیچا کیا ،اور انہیں پسینہ آگیا ،پھر سر اٹھایا اور فرمایا،رحمن عرش پر مستوی ہے جس طرح اﷲ تعالیٰ نے اپنی یہ وصف بیان کی اسے بلا کیف تسلیم کیا جائے ،کیفیت سے وہ منزہ ہے ،اور تو مبتدع ہے اسے نکال دو، ص ۱۶۶،۱۶۷۔
مسلک امام شافعی: امام شافعی کا مسلک شیخ الاسلام ابوالحسن الہکاری اور حافظ ابومحمد المقدسی نے اپنی اسانید سے بیان کیا ہے ،کہ ابوثور اور ابوشعیب دونوں امام محمد بن ادریس الشافعی ناصر الحدیث رحمۃ اﷲ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میرا عقیدہ اور جن ائمہ کو میں نے دیکھا مثلا سفیان اور مالک وغیرہما کا عقیدہ ہے کہ دلی اقرار کیا جائے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے،اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲکا رسول ہے،اور اﷲ عرش پر ہے ،آسمان پر ،وہ اپنی مخلوق کے قریب ہوتا ہے ،جس طرح چاہے ،اور آسمان دنیا کی طرف اترتا ہے ،جس طرح چاہے اور باقی عقائد بیان کئے۔یہ روایت مختصر الصواعق المرسلہ ص ۲۷۴ ج۲میں بھی مذکور ہے ،نیز دوسری روایت بھی ذکر کی ہے ۔
شافعی کی وصیت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا میں اقرار کرتاہوں ،،اﷲکے سوا کوئی معبود نہیں ہے،وہ اکیلا ہے ،اس کا کوئی شریک نہیں ،الیٰ ان قال ۔۔۔۔۔قرآن اﷲ کا کلام ہے ۔اور غیر مخلوق اﷲ آخرت کے روز دیکھا جائے گا ،ایمان دار اس کو دیکھیں گے ،اور اس کا کلام سنیں گے ،اور وہ عرش کے اوپر بلند ہے حاکم نے اور بہیقی نے ،مناقب الشافعی میں اس کو ذکر کیا ہے۔
الفتاویٰ الحمویہ لابن تیمیہ میں ہے: شافعی ؒ نے فرمایا خلافت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ حق ہے آسمان میں اس کا فیصلہ فرمایا،اور اپنے بندوں کے دلوں کو اس پر جمع کیا ،انتہی بہیقی نے الاسماء والصفات میں لکھا یہ قول امام شافعی کا مذہب واضح کرتا ہے ۔
مسلک امام احمد بن حنبل : ذہبی کہتے ہیں ،امام احمد بن حنبل سے علو باری تعالیٰ تواتر کے ساتھ ثابت ہے ،یوسف بن موسیٰ القطان شیخ ابی بکر الخلال کہتا ہے ،امام ابوعبداﷲسے پوچھا گیا، کیا اﷲساتویں آسمان کے اوپر عرش پر ہے مخلوق سے جدا اور اس کی قدرت و علم ہر جگہ ہے،امام نے فرمایا :ہاں وہ عرش پر ہے اور اس کے علم سے کوئی چیز باہر نہیںہے۔
اس روایت کو قاضی ابوالحسن بن ابی یعلیٰ نے طبقات الحنابلہ ص ۴۲۱ ج۱ میں اور شمس الدین نابلسی نے مختصر طبقات الحنابلہ ص ۲۸۰ میں بھی ذکر کیا ہے ۔

مسلک تابعین رحمہم اﷲ اجمعین :

امام ذہبی نے ص ۱۲۳ پر ایک مستقل عنوان رکھا ہے فرماتے ہیں :ذکر ان روایات کا جو ہمیں مسئلہ علو میں تابعین سے پہنچیں ، پھر اسی عنوان کے تحت علماء تابعین ،کعب الاحبار ‘عطاء بن یسار ‘مسروق بن الاجداع‘سعید بن جبیر‘ حسن بصری ‘عبید بن عمیر ‘شریح بن عبداﷲابوقلابہ ‘عمروبن میمون ‘مجاہد ‘نوف البکائی‘حکیم بن جابر ابوعیسیٰ ‘وہب بن منبہ‘ذکوان ‘قتادہ ‘سالم بن ابی الجعد‘عکرمۃ‘ثابت البنانی‘الضحاک‘ہزیل بن شرجیل‘ابوعطاف محمد بن کعبِ‘مالک بن دینار،جریر الخطفی‘ربعیۃ بن ابی عبدالرحمن حسان بن عطیہ‘ایوب السختیانی اور سلیمان التیمی رحہم اﷲ تعالیٰ ذکر کئے ہیں،نیز ابتداء میں امام اوزاعی کا قول مذکور ہوا ہے کہ ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تابعین اس پر متفق ہیں کہ اﷲتعالیٰ عرش پر ہے:
مسلک ائمہ محدثین وفقہاء: پھر امام ذہبی نے ص ۱۲۶ پر یہ عنوان رکھا ہے کہ :اور عنوان کے تحت ائمہ اربعہ کے علاوہ کئی محدثین وفقہاء کے اقوال نقل کئے ہیں جن کے نام یہ ہیں :
عبد الملک بن جریج ،ابوعمرو الاوزاعی ،مقاتل بن حیان ، سفیان الثوری ، اللیث بن سعد ، سلام بن ابی مطیع ، حماد بن سلمۃ ، عبدالعزیز بن الماجشون ، حماد بن زید البصری ، ابن ابی لیلیٰ ، امام جعفر الصادق ، ابوالمنذر، سلام المقری ، شریک بن عبد اﷲ القاضی ، محمد بن اسحاق امام المغازی ، مسعر بن کدام ، جریر بن عبد الحمید الضبی ، عبد اﷲ بن المبارک ، الفضیل بن عیاض ، ھشیم بن بشیر ، نوح بن ابی مریم الجامع ، عباد بن العوام ، قاضی ابویوسف ، عبد اﷲ بن ادریس ، محمد بن الحسن الشیبانی ، بکیر بن جعفر السلمی ، منصور بن عمار ، ابونعیم شجاع بن ابی نصر البلخی ، ابومعاذ خالد بن سلیمان البلخی ، سفیان بن عینیۃ ، ابوبکر بن عیاش ، علی بن عاصم ، یزید بن ھارون ، سعید بن عامر الضبعی ، وکیع بن الجراح ، عبد الرحمن بن مھدی ، وھب جریر ، الاصمعی الخلیل بن احمد ، یحیی بن زیاد الفراء ، عبد اﷲ بن داؤد الخریبی ، عبد اﷲ بن ابی جعفر الرازی ، النضر بن محمد المروزی ، القعنبی عفان بن مسلم ، عاصم بن علی الواسطی ، ابوبکر بن عبد اﷲ الزبیر الحمیدی ، یحیی بن یحیی النیسابوری ، ھشام بن عبید اﷲ الرازی ، عبد الملک بن الماجشون المدنی ، محمد بن المصعب ، العابد ، سنید بن داؤد المصیصی ، نعیم بن حماد الخزاعی ، بشرالحانی الزاھد ، ابوعبید القاسم بن سلام ، احمد بن نصر الخزاعی الشہید ، قتیبۃ بن سعید ابو معمر القطیعی ، یحیی بن سعید ، علی بن المدینی ، اسحاق بن راھویۃ ، ابن الاعرابی اللغوی ، ابو جعفر النفیلی ، عبید اﷲ بن محمد العیشی ، ھشام بن عما ر ، ذوالنون مصری ، ابوثور ابراھیم بن خالد ، ابراھیم المزنی ، محمد بن یحیی الذ ھلی ، محمد بن اسماعیل البخاری ، ابوحاتم الرازی ، ابوزرعۃ الرازی ، یحیی بن معاذ الرازی ، احمد بن سنان الواسطی ، محمد بن اسلم طوسی ، عبدا لوھاب بن عبدالحکیم الوراق ، ھرب بن اسمعیل الکرما نی ، عثمان بن سعید الد ارمی ، ابومحمد الد ارمی ، احمد بن الفرات ، ابو مسعود ابواسحاق ، ابراھیم بن یعقوب الجوزجانی ، مسلم بن الحجاج القشیری ، صالح بن الامام احمد بن حنبل ، وعبد اﷲ بن الامام احمد بن حنبل ، الحافظ حنبل بن اسحاق ، ابو امیہ محمد بن ابراھیم الطوسی ، بقی بن مخلد الاندلسی ، القاضی اسماعیل بن اسحاق الازدی البصری ، یعقوب بن سفیان الفسوی ، ابوبکر احمد بن ابی خیثمۃ ، ابوزرعۃ الدمشقی ، محمد بن نصر المروزی ، ابو محمد بن قتیبۃ الدینوری ، ابوبکر بن ابی عاصم ، ابوعیسیٰ الترمذی ، ابو عبد اﷲ بن ماجۃ القزوینی ، ابوجعفر محمد بن عثمان بن ابی شیبۃ العبسی الکوفی ، سہل بن عبد اﷲ التستری ، ابو مسلم الکجی ، زکریا بن یحیی الساجی ، ابوجعفر محمد بن جریر الطبری ، حماد بن ھناد البوشبخی ، ابوبکر بن خزیمۃ ، ابوالعباس احمد بن عمرو بن سریح ، ابوبکر عبد اﷲ بن ابی داؤد السجستانی ، عمر بن عثمان المکی ، ابوالعباس السراج ، ابوعوانۃ الاسفرائینی ، ابو محمد یحیی بن محمد بن صاعد ، ابوجعفر الطحاوی ، ابو عبد اﷲ نقطویۃ النحوی ، ابوالحسن علی بن اسماعیل الاشعری ، ابوبکر احمد بن اسحاق الضبعی ، ابوالقاسم الطبرانی ، ابوبکر محمد بن الحسین الاٰجری ، ابوالشیخ الاصبہانی ابوبکر الاسماعیلی ، ابومنصور الازھری ، ابوبکر احمد بن ابراھیم شاذان ، ابوالحسن علی بن مھدی الطبری ، ابو عبد اﷲ بن بطۃ العبکری ، ابوالحسن الد ارقطنی ، ابو عبد اﷲ بن مندہ الاصبہانی ، ابو محمد ابوزید المقری ، یحیی بن عمار السجستانی ، ابو نصر الوائلی السنجری ، ابو سلیمان الخطابی ، ابو بکر محمد بن الحسن فواک ، ابوبکر محمد بن الطیب البصری الباقلانی ، ابو احمد القصاب ، ابونعیم الاصبہانی ، ابو منصور معمر بن زیاد الاصبھانی ، ابوا لقاسم ھبۃ اﷲ بن الحسن الطبری الالکائی ، القادر باﷲ احمد بن اسحاق بن المقتدر ، ابو عمر احمد بن محمد الطلمنکی الاندلسی ، ابوعثمان اسماعیل بن عبد الرحمان الصابونی ، ابوالفتح سلیم بن ایوب الراز ، ابوعمرو عثمان بن سعید الد انی ، ابو عمر ابن عبد البر ، ابو یعلیٰ محمد بن الحسین بن الفراء البغد ادی ، ابوبکر البھیقی ، ابوبکر الخطین البغد ادی ، امام الحرمین ابوالمعالی عبد الملک الجوینی ، ابوالقاسم سعد بن علی الزنجانی ، شیخ الاسلام ابو اسماعیل الانصاری ، ابو بکر محمد الحسن القیروانی ، ابو محمد الحسین بن مسعود البغوی ، ابو الحسن الکرجی ، ابوالقاسم اسماعیل بن محمد التیمی الطلحی الاصبہانی ، ابوبکر محمد بن موھب المالکی ، السید عبد القادر الجیلانی ، ابوالبیان بنا بن محمد بن محفوظ السلمی الحورانی و ابوعبد اﷲ القرطبی رحمھم اﷲ تعالیٰ اجمعین ۔
گویا کہ سلف سے خلف تک ائمہ اہل السنۃ کا یہی مسلک رہا ہے بلکہ ابتداء میں یہ ثابت کیا گیا کہ یہ مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ ہے نیز ائمہ مذکورین میں سے امام ابن قتیبہ بن سعید اور امام اسحاق بن راھویہ کے قول سے بھی یہ واضح ہوا ۔دیکھو کتاب العلو ص ۱۳۴-۱۳۵ طبع الھند۔
ابو نعیم اصبہانی کتاب المحجۃ الواثقین ومدرجۃ الوامقین میں کہتا ہے ،علماء امت کا اجماع ہے ،کہ اﷲ تعالیٰ آسمان کے اوپر عرش پر عالی ہے اور مستوی ہے مستولی نہیں جیسا کہ جہمیہ کہتے ہیں کہ وہ ہر جگہ میں ہے ۔یہ بات قرآن پاک کی تصریحات کے خلاف ہے ۔اس کے بعد آیات اور احادیث بیان کیں الحمویۃ لابن تیمیہ میں اسی طرح ہے۔

بشکریہ:الموحدین ویب سائٹ
مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان​
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
میرے بھایئو کیا یہ بندہ اب بھی مسلمان ہے ۔ میرے خیال میں یہ کافر ھو چکا ہے ۔ اپنے آخر والے جملے لکھ کر
ظالم کیا بات کر رہا ہے
ایک شیطان کا اللہ کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے
ابھی تو میں کچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ موضوع دوسری طرف چلا جائےگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون کافر ہے اور نہ مجھے آپکے طرز تکلم کا افسوس ہے
ابھی تو میں صرف ایک میدان بنا رہاتھا اصل بات کی طرف نہیں آیا تھا لیکن اتنا میں کہہ چکا ہوں کہ ’’اب رہی یہ بات اللہ تعالیٰ کی ذات یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ آسمان میں ہے اور عرش پر لیکن اس کو وہیں تک مقید نہیں کرتے وہ سلطان عظیم ہے وہ ہر جگہ ہوسکتا ہے اور یہی اس کے زبر دست ہونے کی علامت ہے ‘‘
اور رہی یہ بات کہ میں شیطان سے تقابل کررہاہوں (نعوذ باللہ من ذالک)۔یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور ظاہر ہے یہ تکلم دنیا میں ہی ہوا
آپ نے اس کا جواب دیا نہیں اور بات کو گھما دیا
جتنی احادیث شریفہ یا آیات قرآنیہ آپ باربار دہرا رہے ہیں یہ سب مجھے معلوم ہیں اور میرا ان پر ایمان ہے
لیکن آپ کا اللہ تعالیٰ کو صرف آسمان میں(یا عرش تک) مقید کرنا میں صرف اس کی وضاحت کررہاہوں ۔ جو سوال میں نے کیا ہے وہ اور ایک سوال اور کررہاہوں
مسلمان جب نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور یہ کھلی بات ہے کہ سجدہ اللہ تعالیٰ کو کرتے ہیں اور بقول آپ کے اللہ تعالیٰ کی ذات زمین پر موجود نہیں ہوتی تو یہ سجدہ کس کو کرتے ہیں کیا درو دیوار کو کرتے ہیں( اس پر بھی کفر کا فتویٰ صادر فرمادیں)
بس اس کےگے اگر مہذب انداز میں بات کریں گے تو بات جاری رکھوں گا ۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں میری باتوں کا جواب کاپی پیسٹ سے نہیں ملے گا کچھ عقل دوڑانی پڑے گی اور اسی لیے میں بات کو دوسرے انداز میں کہہ رہا تھا تاکہ آنجناب کو کچھ محنت کرنی پڑے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابھی تو میں کچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ موضوع دوسری طرف چلا جائےگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون کافر ہے اور نہ مجھے آپکے طرز تکلم کا افسوس ہے
ابھی تو میں صرف ایک میدان بنا رہاتھا اصل بات کی طرف نہیں آیا تھا لیکن اتنا میں کہہ چکا ہوں کہ ’’اب رہی یہ بات اللہ تعالیٰ کی ذات یہ ہم بھی مانتے ہیں کہ آسمان میں ہے اور عرش پر لیکن اس کو وہیں تک مقید نہیں کرتے وہ سلطان عظیم ہے وہ ہر جگہ ہوسکتا ہے اور یہی اس کے زبر دست ہونے کی علامت ہے ‘‘
اور رہی یہ بات کہ میں شیطان سے تقابل کررہاہوں (نعوذ باللہ من ذالک)۔یہ اشارہ ہے اس طرف کہ اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور ظاہر ہے یہ تکلم دنیا میں ہی ہوا
آپ نے اس کا جواب دیا نہیں اور بات کو گھما دیا
جتنی احادیث شریفہ یا آیات قرآنیہ آپ باربار دہرا رہے ہیں یہ سب مجھے معلوم ہیں اور میرا ان پر ایمان ہے
لیکن آپ کا اللہ تعالیٰ کو صرف آسمان میں(یا عرش تک) مقید کرنا میں صرف اس کی وضاحت کررہاہوں ۔ جو سوال میں نے کیا ہے وہ اور ایک سوال اور کررہاہوں
مسلمان جب نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں اور یہ کھلی بات ہے کہ سجدہ اللہ تعالیٰ کو کرتے ہیں اور بقول آپ کے اللہ تعالیٰ کی ذات زمین پر موجود نہیں ہوتی تو یہ سجدہ کس کو کرتے ہیں کیا درو دیوار کو کرتے ہیں( اس پر بھی کفر کا فتویٰ صادر فرمادیں)
بس اس کےگے اگر مہذب انداز میں بات کریں گے تو بات جاری رکھوں گا ۔ یہ اس لیے کہہ رہا ہوں میری باتوں کا جواب کاپی پیسٹ سے نہیں ملے گا کچھ عقل دوڑانی پڑے گی اور اسی لیے میں بات کو دوسرے انداز میں کہہ رہا تھا تاکہ آنجناب کو کچھ محنت کرنی پڑے
میرے بھائی آپ کیوں ناراض ہوتے ہیں

اگر آپ احادیث کو مانتے ہیں تو میری پیش کردہ احادیث کا جواب نہیں دیتے




صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2271

احمد، محمد بن ابی بکر مقدمی، حماد بن زید، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ زید بن حارثہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرتے ہوئے آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے کہ اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس رہنے دے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن میں کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپا تے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام بیویوں پر فخر کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ تمہارا نکاح تمہارے گھر والوں نے کیا اور میرا نکاح اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر کیا اور ثابت سے منقول ہے

کہ آیت

وَتُخْــفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللّٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَ
33 الاحزاب:37
اور تم اپنے دل میں چھپاتے تھے جس کہ اللہ تعالی ظاہر کرنے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے حضرت زینب اور زید بن حاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2272

خلاد بن یحیی، عیسیٰ بن طہمان، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک فرماتے ہیں کہ حجاب کی آیت زینب بنت جحش کے متعلق نازل ہوئی اور اس دن آپ نے روٹی اور گوشت ان کے ولیمہ میں کھلایا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام بیویوں پر وہ فخر کیا کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالی نے میرا نکاح آسمان پر ہی کر دیا ہے۔
صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2274

ابراہیم بن منذر، محمد فلیح، فلیح، ہلال، عطاء بن یسار، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا اور نماز پڑھی اور روزہ رکھا تو اللہ پر حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کر دے، اس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کی ہو یا جس زمین میں پیدا ہوا وہیں رہ جائے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم لوگوں کو اس بات کی خبر نہ دیں، آپ نے فرمایا جنت میں سو درجے ہیں جو اللہ تعالی نے اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کے لئے تیار کر رکھے ہیں ہر درجے کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ آسمان اور زمین کے درمیان ہے پس جب تم اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو کہ جنت کا درمیانی درجہ ہے اور بلند ترین درجہ ہے اور اس کے اوپر عرش خداوندی ہے اور اس سے جنت کی نہریں پھوٹ کر نکلتی ہیں۔




کیا خیال ہے آپ کا کیا یہ احادیث صحیح ہیں
یا ان پر کوئی جرح ہے
اگر ہے تو بتا دیں
اگر نہیں تو پھر مان لینے میں کیا حرج ہے
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
آپ نے مجھے کافر اور ظالم کہہ دیا وہ بھی غیر مہذب طریقہ سے اور پھربھی کہہ رہے ہیں ناراض کیوں ہوتے ہیں تو بھائی اگر ناراض نہ ہوں تو خوش ہوں
اب رہی آپ کی بات تو میں نے کب کہا کہ میں احادیث کو نہیں مانتا ہاں جو تشریحاست آپ فرمارہے ہیں یا نقل کر رہے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ میں ان سے متفق ہوں
میں نے جتنی بات کہی قرآن و حدیث کو سامنے رکھ کر ہی کہی اگر میری بات غلط ہے تو اس کی تردید میں آپ قرآن و حدیث کا پیش فرمائیں پھر دوبارہ عرض کرتا ہوں
(۱) اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور یہ بھی فرمایا میں اللہ ہوں (آیت پیش کی جا چکی ہے)
اس کلام کی تفصیل اور تشریح فرمادیں کیوں کہ میں نے صرف ترجمہ بیان کیا ہے اس سے آگے پیچھے کچھ بھی نہیں کہا
وضاحت یہ مطلوب ہے اللہ تعالیٰ نے عرش پر رہتے ہوئے کلام کیا یا زمین پر سے خطاب کیا اس بارے میں بیان فرمادیں
(۲) نمازی سجدہ اللہ تعالیٰ کو کرتا ہے اس وقت اللہ کہاں ہوتا ہے
(۱) نمازی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور نمازی یہ خیال کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوں
تو کیا یہ باتیں قرآن وحدیث سے ہٹ کر ہیں اور کیا یہ میرا کفریہ عقیدہ ہے آپ میرے ان تینوں سوالوں کا جوب دیں باقی تمام ارکین سے مودبانہ گزارش ہے کہ درمیان میں مخل نہ ہوں
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
اب رہی آپ کی بات تو میں نے کب کہا کہ میں احادیث کو نہیں مانتا ہاں جو تشریحاست آپ فرمارہے ہیں یا نقل کر رہے ہیں کوئی ضروری نہیں کہ میں ان سے متفق ہوں
عابد بھائی کیسے ہیں؟؟؟۔۔۔
ان شاء اللہ خیریت سے ہونگے۔۔۔
میں بس یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کے جو بات آپ پیش کررہے ہیں۔۔۔
ہوسکتا ہے آپ کے بات کو رد کرنے کے لئے فریق بھی یہ حربہ استعمال کرے۔۔۔
اس بارے میں آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے؟؟؟َ۔۔۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
بھائی خیریت سے نہیں ہوں لوگوں نے مجھے ظالم اور کافر ٹھیرا دیا مجھے انتہائی تکلیف ہے!
ہوسکتا ہے آپ کے بات کو رد کرنے کے لئے فریق بھی یہ حربہ استعمال کرے
میری بات کو ہزار بار رد کریں کریں تو سہی بات ادھر ادھر کی تو نہ ہو معلوم ہے مجھے ایک بات کو کہنے کے لیے کتنا سوچنا پڑتا ہے کاپی پیسٹ سے کام نہیں چلاتا ہاں کتابوں وغیرہ سے مدد ضرور لیتا ہوں
میں نے ایک بات رکھی ضروری نہیں کہ آپ میری بات کو تسلیم کریں لیکن کچھ نہ کچھ تو جواب دینا ہی ہوگا ہوسکتا ہے کوئی دوسرا بندہ بات کو سمجھ جائے
اس بارے میں آپ کیا کہنا پسند فرمائیں گے
مجھے ظالم اور کافر کہا اس بارے میں کیا کہنا پسند فرمائیں گے
امید ہے کہ مزاج عالی بخیرہوں گے
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ ایسے ممبران سے تبادلہ خیال کرنے سے پرہیز فرمائیں جو جلدبازی سے سامنے والے کو کافر کہے۔

والسلام
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
السلام علیکم
بھائی خیریت سے نہیں ہوں لوگوں نے مجھے ظالم اور کافر ٹھیرا دیا مجھے انتہائی تکلیف ہے!
نہیں اگر واقعی نیت وہی ہے جو آپ نے لکھی تو یقینا انتہائی تکلیف کی بات ہے۔۔۔
 

شادان

رکن
شمولیت
دسمبر 01، 2012
پیغامات
118
ری ایکشن اسکور
131
پوائنٹ
56
jab hum ye keh rahe k Allah ko koi cheez(makhlook) contain nahi kr skte fir ye sabit hi nahi hota k Allah na to har jagah majood hai aur na hi asrh pe.fir ye sawal paida hota hai Allah hai kaha...??
 
Top