اردو زبان و ادب میں لفظ میاں کے معنی اور اس کا استعمال
میاں {مِیاں} (سنسکرت)
سنسکرت زبان سے ماخوذ کلمہ ہے جو اردو میں اپنے اصل معنی اور متداول ساخت کے ساتھ عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے تحریراً سب سے پہلے 1649ء کو "خاور نامہ" میں مستعمل ملتا ہے۔
اسم نکرہ (مذکر - واحد)
معانی
1. آقا، مالک، حاکم، سردار، بزرگ، والی وارث۔
"آقا کے لفظ کی بجائے میاں کے لفظ کا استعمال اسی رجحان کی مثال ہے" [1]
2. شوہر، خاوند، خصم۔
"تمہارے میاں کا سنگھار پٹار ختم نہیں ہوا"، [2]
3. کلمۂ محبت و شفقت برائے اطفال، صاحبزادے، ننھے، مُنا، پیارے، بیٹا، جانی؛ جیسے میاں آوے دوروں سے گھوڑے باندھ کھجوروں سے۔
"میاں حلوہ لایا ہوں آپ کی بھابھی نے بنایا ہے" وہ بولے"، [3]
4. صاحب، جناب کی جگہ؛ ایک کلمہ ہے جس سے برابر والوں یا اپنے سے کم مرتبہ شخص کو خطاب کرتے ہیں۔
"ایک طرف ہو جاؤ میاں، ادھر عورتیں آ رہی ہیں"، [4]
5. شاعروں کے تخلص تعظیم کے لیے بڑھاتے ہیں؛ جیسے: میاں ناسخ، میاں مصحفی، میاں جرات، میاں عشق۔
؎ مجھے شمع کہتی ہے محفل میں اوس کی
میاں بحر آنسو بہانے سے حاصل، [5]
6. پیارے، محبوب، دلبر، دلربا، جاناں (عموماً قدیم شعرا معشوق کے لیے استعمال کرتے تھے)۔
؎ فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے، [6]
؎ دہن میں آپ کے البتہ ہم کو حجت ہے
کمر کا بھید جو پوچھوں میاں نہیں معلوم، [7]
7. استاد، معلم، مدرِس، پڑھانے والا، ملا۔
"ادھر انہوں نے کوئی غلط لفظ پڑھا میاں نے ٹوکا"، [8]
8. آقا زادہ، مخدوم زادہ، امیرزادہ، شہزادہ، صاحب عالم، کنور۔
"چوڑی دار باجامہ میں ملبوس وکی میاں شاداں و فرحاں برآمدے میں آئے"، [9]
9. پہاڑی راجپوت، راجاؤں کے خاندانی لوگ، ٹھاکر، شہزادے، شاہی خاندان کے لوگ۔
(فرہنگ آصفیہ)
10. { ہندو } بیوقوف مسلمان، مورکھ، دیوانہ، باؤلا (طنزاً) جیسے: ایک تو میاں ہی تھے دوحے کھاٹی بھنگ۔
(فرہنگ آصفیہ)
11. { بقال } عام مسلمان،ترک، ملا (جو سادات اور پیران طریقت میں سے نہیں لیکن معزز لقب سمجھ کر اختیار کرتے تھے، جیسے: میاں چراغ محمدصاحب وغیرہ)
"لفظ میاں مسلمانوں کے نام کے ساتھ بھی ایک اعزازی لقب کے مستعمل ہوتا ہے"، [10]
12. { لکھنؤ } ماہرفن موسیقی، پکا گویّا، کلانوت، مراثی، ڈوم۔
(فرہنگ آصفیہ؛ جامع اللغات)
13. بعض علاقوں میں بچے باپ کو بھی کہتے ہیں۔
"میاں جان کے پرانے دوست، میاں جان مرحوم ان کے لیے مقدمے لڑا کرتے تھے"، [11]
14. { طنزا } صاحب، جناب (خطاب کا کلمہ)
"تو میاں پرکاش" اب تم بھی کاٹھ کے اُلو بنائے جاؤ گے بس چپ چاپ بیٹھے رہنا کسی طاق میں"، [12]
15. { تعیظما } بزرگ ہستی؛ پیرانِ طریقت اور پیرزادوں کے نام سے پہلے۔
"صوبہ جات متحدہ میں، حضرت اچھے میاں صاحب مارہرہ شریف، حضرت میاں شاہ فضل غوث صاحب بریلی، حضرت مذاق میاں صاحب، حضرت مولای محمد دلدار علی صاحب قبلہ بدایوں"، [13]
16. { مجازا } مرشد، پیر۔
"کسی نے میرا نام مجذوب رکھا ہے، قربان اگر میاں اپنے اندر مجھے جذب کر لیں"، [14]
17. { غیرمسلم } (عموماً امرا) اپنے نام سے پہلے معزز گرداننے کے لیے لکھتے تھے۔
"میاں گودروسن سنگھ و میاں پرومن سنگھ روسائے انبالہ"، [15]
18. مراد: اللہ تعالٰی
"جلال ایسا کہ عام انسان تو کجا خود میاں کے اپنے چہیتے قدم رکھتے ہی مارے خوف کے رو دیا کرتے"، [16]
19. عام درویشوں فقیروں کے لیے مستعمل۔
"سلطان جی صاحب میں ایک نئے میاں صاحب ٹھہرے ہوئے ہیں"، [17]
20. معمولی گداگروں کے لیے مستعمل۔
"میاں صاحب اس وقت برکت ہے"، [18]
21. { تعظیما } سادات کے نام کے بعد۔
"سادات کے لیے.... مثلاً سید گلاب میاں انیس و مصاحب خاص حضور والئ ریاست پالن پور"، [19]
مترادفات
بالَم، شَوہَر، مَرْد،
مرکبات
مِیاں آدْمی، مِیاں بھائی، مِیاں پَن، مِیاں جی، مِیاں جی گَری، مِیاں صاحِب، مِیاں کا سا رَنْگ، مِیاں کی ٹوڈی، مِیاں گِیری، مِیاں مار، مِیاں مارْتے خان، مِیاں مِٹھُّو، مِیاں مودھُو، مِیاں نجّار، مِیاں والی
حوالہ جات
1۔ ( 1986ء، فورٹ ولیم کالج، تحریک اور تاریخ، 180۔ )
2۔ ( 1990ء، چاندنی بیگم، 403۔ )
3۔ ( 1989ء، دلی دور ہے۔ 276۔ )
4۔ ( 1987ء، روز کا قصہ، 220۔ )
5۔ ( 1836ء، ریاض البحر، 120۔ )
6۔ ( 1810ء، کلیات میر، 344۔ )
7۔ ( 1846ء، کلیات آتش، 97۔ )
8۔ ( 1987ء، گردشِ رنگ چمن، 542۔ )
9۔ ( 1990ء، چاندنی بیگم، 404۔ )
10۔ ( 1910ء، طنزیات و مقالات، 393۔ )
11۔ ( 1990ء، چاندنی بیگم، 62۔ )
12۔ ( 1987ء، روز کا قصہ، 220۔ )
13۔ ( 1910ء، طنزیات و مقالات، 397۔ )
14۔ ( 1970ء، غارِ کارواں،141۔ )
15۔ ( 1910ء، طنزیات مقالات۔ )
16۔ ( 1971ء، میاں کی اٹریا تلے، 17۔ )
17۔ ( 1910ء، طنزیات و مقالات، 397۔ )
18۔ ( 1910ء، طنزیات و مقالات، 398۔ )
19۔ ( 1910ء، طنزیات و مقالات، 397۔ )
لنک
اب جبکہ یہ ثابت ہوگیا کہ لفظ میاں متعدد معنٰی میں استعمال ہوتا ہے اور ان میں سے اکثر معنٰی اس لائق نہیں کہ ان سے ذات باری تعالٰی کا قصد کیا جائے یعنی اللہ کو اس سے پکارا جائے تو لہذا اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اللہ پاک اس قسم کی صفات سے ہرگز پاک اور منزہ ارفٰی و اعلٰی ہے کہ جو لفظ میاں میں پائی جاتی ہیں اور جو یہ جواز کا فتویٰ دیا گیا ہے یہ اس لئے ہے کہ ان کے بڑے بڑے مولوی اپنی کتابوں میں اور ترجمہ قرآن میں اللہ کواس قسم کی صفت سے پکار چکے ہیں اس لئے یہ لوگ اپنے مولویوں کی عزت بچانے کے لئے اس میاں کی صفت کو اللہ تعالٰی کےلئے جائز بتاتے ہیں ویسے تو ہر بات میں کہتے ہیں کہ صرف قرآن اور حدیث سے جو چیز ثابت ہو وہ ہی جائز ہے لیکن اللہ تبارک تعالٰی کی ارفٰی و اعلٰی ذات کے لئے لفظ میاں کا استعمال کرتے ہیں جو قرآن حدیث سے ثابت نہیں اور اس کے پیچھے ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ ہمارے مولوی کی عزت پر آنچ نہ آئے
انا للہ وانا الیہ راجعون