میزان الاعتدال کےمقدمہ میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔ کہ اِس کتاب میں اُن بڑے بڑے ائمہ کا تذکرہ نہیں کروں گا ،جن کی جلالتِ قدر حدّتواتر کو پہنچی ہوئی ہے، اور ان ائمہ کے ناموں کے ذکر میں امام ابو حنفیہ کا ذکر خیر بھی کیا ہے۔ ۔
محترم بھائی نے یہ بات میزان الاعتدال کے حوالے سے نقل کی ہے ۔ حقیقت حال کی وضاحت سے پہلے مناسب محسوس ہوتا ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے اصل الفاظ پر نظر ڈال لی جائے تاکہ ہمیں مذکورہ بات کے سمجھنے میں آسانی ہو۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكذا لا أذكر في كتابي من الائمة المتبوعين في الفروع أحدا لجلالتهم في الاسلام وعظمتهم في النفوس، مثل أبى حنيفة، والشافعي، والبخاري، فإن ذكرت أحدا منهم أذكره على الانصاف۔ (میزان الاعتدال :ج ١ ص٢)
یعنی میں ائمہ متبوعین کو اپنی کتاب میں ذکر نہیں کروں گا ۔ لیکن اگر ان میں سے کسی کا تذکرہ کروں گا تو انصاف سے کروں گا۔
اب حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب میں امام ابو حنیفہ کا تذکرہ کیا ہے اور انصاف سے کیا ہے تو آیئے ان کی مبنی بر انصاف عبارت ملاحظہ فرمائیں:
النعمان بن ثابت [ ت، س ] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفى.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدى، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه۔
اب انصاف شرط ہے کہ کیا آپ امام ذہبی کی اس عبارت کی تائید وتصویب کریں گے؟
اس عبارت کو ملاحظہ کرنے کے بعد اس پروپیگنڈے کی حقیقت بھی طشت ازبام ہو جاتی ہے کہ میزان میں امام موصوف کا ترجمہ تحریف والحاق کا نتیجہ ہے کیونکہ حافظ ذہبی نے جہاں پر ائمہ متبوعین کے عدم ذکر والی بات کی ہے اس کے بعد وضاحت کی ہے کہ؍؍
فإن ذكرت أحدا منهم أذكره على الانصاف۔ یعنی اگر کسی متبوع امام کا ذکر کروں گا تو انصاف سے کروں گا۔ یہ نہیں کہ ان تذکرہ کسی صورت میں نہیں کروں گا۔ امید ہے اس ؍؍ ذکر خیر؍؍ کے بعد آپ میزان کے حوالے کو دوبارہ پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے۔
محترم بھائی کی تحریر میں اور بھی چند قابل نقد چیزیں موجود ہیں جن پر کسی دوسری فرصت میں معروضات پیش کی جائیں گی ۔ ان شاء اللہ
امید ہے محترم بھائی توجہ سے اس قول کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں گے اور ہماری کسی غلطی پر تنبیہ فرما کر ہمیں شکریہ کا موقع فراہم کریں گے ۔
فائدہ: قال عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ: الرجوع الی الحق خیر من التمادی فی الباطل۔