• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
النعمان بن ثابت [ ت، س ] بن زوطى، أبو حنيفة الكوفى.إمام أهل الرأى.ضعفه النسائي من جهة حفظه، وابن عدى، وآخرون.وترجم له الخطيب في فصلين من تاريخه، واستوفى كلام الفريقين معدليه ومضعفيه
اگر میزان کی اوپر والی اضافہ شدہ لائن صحیح ہے تو تذکرہ میں یہ کیا ہے ؟؟؟
وکان امام ورعا ، عالما عاملا ، متعبدا، کبیر الشان لا یقبل جوائز السلطان بل یتجرد وینکسب
آپ ایک پرہیزگار ، باعمل عالم ، عبادت گزار اور بڑے عظیم شان والے امام ہیں ، بادشاہوں کے انعامات قبول نہ کرتے بلکہ خود تجارت اور اپنی روزی کما تے تھے۔ تذکرۃ الحفاظ از حافظ ذہبی
دونوں عبارتیں باہم متضاد نہیں۔ دونوں میں ابو حنیفہ﷫ کو ’امام‘ کہا گیا ہے، دوسری عبارت میں ان اوصاف حمیدہ (ورع، عالم، عامل، متعبد، کبیر الشان، لا یقبل جوائز السلطان) کا مزید تذکرہ موجود ہے جن سے امام صاحب﷫ متصف تھے۔ البتہ پہلی عبارت میں امام نسائی وابن عدی وغیرہ﷭ کے حوالے سے ان کے حافظے کی کمزوری بیان کی گئی ہے اور حافظ المشرق خطیب بغدادی﷫ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے امام صاحب﷫ کے بارے میں دونوں فریقین (معدلین اور مضعّفین) کے کلام کو تفصیلاً بیان کیا ہے، جبکہ دوسری عبارت میں امام صاحب﷫ کے حافظے پر بات نہیں کی گئی۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

پہلی عبارت نفرت و عداوت سے بھری ہوئی ہے،

دوسری عبارت ایک ایسے امام کے شایان شان ہے کہ جس کے مذہب کو بقول علامہ ابن خلدون دوام اور قبول عام حاصل ہے اور مشرق و مغرب میں ان گنت اماموں و علما کی تائید حاصل ہوتی رہی ہے۔

دوسرا اس بات کا جواب تو دیا ہی نہیں گیا کہ جس کا سارے فسانے میں ذکر ہے کہ:

ایک محدث کی لکھی ہوئی تذکرۃ الحفاظ میں ایک غیر ثقہ ، اہل الرائے کے نام کے شامل ہونے کا کیا مطلب، اور محدثین کی اصطلاح میں حافظ کیا کیا مطلب ہوتا ہے ؟

اور پھر المعین فی طبقات المحدثین میں میں امام صاحب کے تذکرے کا کیا مطلب ؟

سخت حیرت ہے کہ اس پر فتن دور کا ایک شخص اٹھتا ہے اور ایک ایسے امام کی غیبت کرتا ہے اور بہتان باندھتا ہے کہ جس کے مذہب کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے قبول عام بخشا ہوا ہے، مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں سے حنفیوں کا نکال دیں پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اور جب اس کی غیبت کا جواب مدلل طریقے سے دیا جائے تو پھر دلائل کا جواب ہی نہیں دیا جاتا۔

تذکرۃ الحفاظ کتاب کیا ہے ؟؟؟

اس میں کن لوگوں کو تذکرہ ہے ؟؟؟

المعین فی طبقات المحدثین کیا ہے ؟؟؟

اس میں کن لوگوں کا تذکرہ ہے ؟؟؟

مناقب ابی حنفیہ از ذہبی کیا ہے اور اس میں کن لوگوں کو تذکرہ ہے اور آخر کیا بات تھی کہ ذہبی جیسے بلندہ پایہ محدث کو یہ کہنا پڑا کہ اس امام کے مناقب اتنے زیادہ ہیں کہ اس کے لیے میں نے الگ سےکتاب لکھی ؟؟؟

یہ سب جواب تشنہ ہیں ؟؟؟؟
تنبیہہ: نامناسب الفاظ و عبارات حذف۔ انتظامیہ
 

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
اگر میزان کی اوپر والی اضافہ شدہ لائن صحیح ہے تو تذکرہ میں یہ کیا ہے ؟؟؟

وکان امام ورعا ، عالما عاملا ، متعبدا، کبیر الشان لا یقبل جوائز السلطان بل یتجرد وینکسب۔
آپ ایک پرہیزگار ، باعمل عالم ، عبادت گزار اور بڑے عظیم شان والے امام ہیں ، بادشاہوں کے انعامات قبول نہ کرتے بلکہ خود تجارت اور اپنی روزی کما تے تھے۔ تذکرۃ الحفاظ از حافظ ذہبی

محترم بھائی جو بات میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں وہ سمجھئے، کیا آپ حافظ ذہبی کو فاتر العقل یا دیوانہ سمجھتے ہیں، کہ ایک طرف تو وہ میزان الاعتدال میں ایک لائن لکھیں اور امام کی ثقاہت کو مجروح کریں اور دوسری طرف وہ تذکرۃ الحفاظ لکھیں اور اس میں صفحات کے صفحات اسی امام کی شان میں لکھیں، پھر یہ بھی کہیں کہ اس امام کی شان اتنی زیادہ ہے کہ میں نے اس پر مستقل طور پر علیحدہ سے ایک کتاب لکھی ہے مناقب ابی حنیفہ، کیا غیر ثقہ و حدیث سے بے بہرہ شخص کے مناقب حافظ ذہبی جیسا بلند پایہ کا محدث و امام جرح و تعدیل لکھے گا ؟ اور پھر المعین فی طبقات المحدثین میں بھی ان کا ذکر کرے گا اور ذکر خیر کرے گا؟

سوچنے کی بات یہ سب کچھ ایک بلند پایہ محدث و امام جرح و تعدیل لکھ رہا ہے ؟ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اگر ہم میزان کی ایک اضافہ شدہ لائن کو لے کر بیٹھ جائیں تو اس سے امام صاحب کی حیثیت تو کیا متاثر ہو گی، الٹا حافظ ذہبی کی شخصیت متاثر ہوتی ہے کہ ایک طرف تو مجروح کرتے ہیں اور دوسری طرف صفحات کے صفحات اور الگ سے ایک مستقل کتاب بھی اسی امام کی شان میں لکھتے ہیں، اور جو الفاظ ان کی شان میں استعمال کرتے ہیں وہ اوپر لکھے ہوے ہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نظر نظر کی بات ہے، آپ کو اسی حافظ کی کتاب میں سے اضافہ شدہ ایک لائن تو نظر آ گئی مگر دوسری طرف اسی حافظ کی کتابوں میں لکھے گئے صفحات کے صفحات اور مناقب نظر نہیں آتے۔
سب سے پہلے حافظ ذھبی رحمہ اللہ کے نزدیک امام صاحب کا مقام بحیثیت راوی حدیث جاننے کے لیے مندرجہ ذیل سطور کا تحمل سے مطالعہ فرمائیں:
١۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
النعمان الامام رحمہ اللہ۔ قال ابن عدی : عامۃ ما یرویہ غلط وتصحیف وزیادات ولہ احادیث صالحۃ وقال النسائی : لیس بالقوی فی الحدیث کثیر الغلط علی قلۃ روایتہ وقال ابن معین: لا یکتب حدیثہ۔ (دیوان الضعفاء والمتروکین ، ص: ٣١٨)
اس عبارت کو غور سے ملاحظہ فرمائیں گے تو آپ کو اس میں اور میزان والی عبارت میں واضح تشابہ محسوس ھوگا۔ نیز اس عبارت کے الحاقی ہونے کا تا حال کوئی فتوی جاری نہیں ہوا۔

٢۔ نیز حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إسماعيل بن حماد بن النعمان بن ثابت الكوفى عن أبيه عن جده۔ قال ابن عدى: ثلاثتهم ضعفاء.(میزان الاعتدال ج ١ص٢٢٦ )
یعنی ابن عدی کہتے ہیں کہ اسماعیل ،حماد اور امام ابو حنیفہ تینوں ضعیف ہیں۔

ان دونوں حوالہ جات سے امام ذہبی رحمہ اللہ کے نزدیک امام صاحب کا مقام بحیثیت راوی حدیث بخوبی معلوم ہو جاتا ہے۔ ثانی الذکر عبارت پرتا حال کسی نے بھی الحاقی اور اضافہ شدہ ہونے کا حکم نہیں لگایا۔ آئندہ کا حال اللہ رب العالمین ہی بہتر جانتا ہے۔وللہ فی خلقہ شؤون!!

ان دونوں حوالہ جات کے بعد ضرورت تو نہیں رہتی کے میزان میں ترجمہ امام صاحب کے الحاق وعدم الحاق کی بابت لکھا جائے کیونکہ مقصود صرف حافظ ذھبی کے نزدیک روایت حدیث میں امام صاحب کا مقام ومرتبہ معلوم کرنا ہے اور وہ مذکورہ بالا عبارات سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے لیکن چند باتیں اس سلسلے میں بھی خالی از فائدہ نہیں۔

١۔ امام ابن الوزیر الیمانی( المتوفی ٨٤٠) نے میزان میں امام صاحب کے ترجمہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دیکھیں: الروض الباسم (ج٢ ص ٣٢٥)
٢۔ برصغیر میں سب سے پہلے میزان الاعتدال کو ایک حنفی عالم مولوی خادم حسین (تلمیذ مولانا عبد الحی لکھنوی) نے مطبع انوار محمدی لکھنو سے ١٣٠١ھ میں شائع کیا تھا جس میں امام صاحب کا ترجمہ موجود ہے۔اب بصورت اضافہ اس کی ذمہ داری صرف ایک حنفی عالم پر عائد ہوتی ہے اور اس میں یہ اعتراف بھی موجود ہے کہ یہ ترجمہ ایک مخطوطہ میں موجود ہے اور ایک میں نہیں۔
٣۔ مولانا عبد الحی لکھنوی نے بھی اس ترجمہ کی بابت الحاقی ہونے کا دعوی کبا تھا جس پر مولانا عبد الرحمن مبارکپوری نے تفصیلی نقد کیا ہے ۔ دیکھیں: تحقیق الکلام (ج٢ص١٤٨)

اس کے علاوہ آپ نے جو مختلف عبارات امام صاحب کی جلالت اور عظمت کے متعلق نقل کی ہیں ان سے صرف یہ معلوم ہوتا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک ان کی جلا لت شان مسلمہ ہے ۔ ان عبارات کا روایت حدیث میں امام صاحب کے مقام و مربتہ سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا ان عبارات سے حافظ ذہبی رحمہ اللہ پر کوئی زد نہیں پڑتی کیونکہ دونوں عبارات میں کوئی تضاد اور منافاۃ نہیں۔ امید ہے ٹھنڈے دماغ سے اس پر غوروفکر کی زحمت کریں گے۔اس کے علاوہ آپ کی بقیہ باتوں کا موضوع زیر بحث سے کوئی تعلق نہیں اس لیے سردست ان کے جواب کی ضرورت نہیں۔

آخر میں محترم بھائی سے گزارش ہے کہ یہ ایک علمی بحث ہے یہاں جذبات کو دخل نہ دیں کیونکہ دھونس دھاندلی سے آپ کسی کے افکارونظریات میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتے ۔ ہاں علمی انداز سے لکھا کریں شاید کسی کو اپنی غلطی درست کرنے کا موقع ملے جو اس دنیا میں یقینا سعادت کی بات ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کو پہچاننے کے بعد ان سے تائب ہوکر رب ذوالجلال کی بارگاہ جاضر ہو۔ جعلنا اللہ منہم
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
پہلی عبارت نفرت و عداوت سے بھری ہوئی ہے۔
سخت حیرت ہے کہ اس پُر فتن دور کا ایک شخص اٹھتا ہے اور ایک ایسے امام کی غیبت کرتا ہے اور بہتان باندھتا ہے کہ جس کے مذہب کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے قبول عام بخشا ہوا ہے، مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں سے حنفیوں کا نکال دیں پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
گویا امام ذہبی﷫ ودیگر جن جن محدثین بشمول ائمہ ابن معین، بخاری، مسلم، نسائی، اور ابن عدی وغیرہم﷭ نے امام صاحب﷫ کے حافظے اور روایتِ حدیث پر تنقید کی ہے آپ کے نزدیک وہ امام صاحب کے دشمن اور ان سے نفرت کرنے والے تھے اور انہوں نے امام صاحب کی غیبت کی اور ان پر بہتان باندھا ہے؟؟!! (ایک طرف امام ذہبی﷫ کو بلند پایہ محدث کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف ان پر بہتان لگایا جا رہا ہے۔) کیا جرح غیبت و بہتان اور کسی عداوت ونفرت کی غماز ہوا کرتی ہے؟!! گویا آپ کے نزدیک جرح وتعدیل کی تمام کتب انہی ’کبیرہ گناہوں‘ سے بھری پڑی ہیں يا شائد صرف امام صاحب﷫ پر جرح غیبت وبہتان اور عداوت ونفرت ہے؟!! یا للعجب! ما لكم كيف تحكمون

دوسری عبارت ایک ایسے امام کے شایان شان ہے کہ جس کے مذہب کو بقول علامہ ابن خلدون دوام اور قبول عام حاصل ہے اور مشرق و مغرب میں ان گنت اماموں و علما کی تائید حاصل ہوتی رہی ہے۔
سخت حیرت ہے کہ اس پر فتن دور کا ایک شخص اٹھتا ہے اور ایک ایسے امام کی غیبت کرتا ہے اور بہتان باندھتا ہے کہ جس کے مذہب کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے قبول عام بخشا ہوا ہے، مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں سے حنفیوں کا نکال دیں پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
پیچھے کیا بچتا ہے؟!! نبی کریمﷺ، صحابہ کرام﷢، تابعین عظام﷭، سلف صالحین میں سے بہت بڑے بڑے ائمہ کرام﷭ اور دیگر مسلمان بچتے ہیں!
ویسے بھی کیا اکثریت حق کی دلیل ہوتی ہے؟!!
تو پھر آج دُنیا میں عیسائیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، پاکستانی مسلمانوں میں ہی بریلوی، دیوبندیوں سے زیادہ ہیں۔ بے دین دینداروں سے زیادہ ہیں۔ ایران میں شیعہ زیادہ ہیں۔
اگر اکثریت ہی حقانیت کی دلیل ہے، تو پھر درج بالا آیات کریمہ اکثر لوگوں کی مذمت کیوں کی گئی ہے؟

  • أَوَكُلَّمَا عَاهَدُوا عَهْدًا نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿البقرة: ١٠٠﴾
    [*] أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللَّـهُ مُوتُوا ثُمَّ أَحْيَاهُمْ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿البقرة: ٢٤٣﴾
    [*] كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿آل عمران: ١١٠﴾
    [*] قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ ﴿المائدة: ٥٩﴾
    [*] قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ فَاتَّقُوا اللَّـهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿المائدة: ١٠٠﴾
    [*] مَا جَعَلَ اللَّـهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ وَلَـٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿المائدة: ١٠٣﴾
    [*] وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّ اللَّـهَ قَادِرٌ عَلَىٰ أَن يُنَزِّلَ آيَةً وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الأنعام: ٣٧﴾
    [*] وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَىٰ وَحَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّـهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُونَ ﴿الأنعام: ١١١﴾
    [*] وَإِن تُطِعْ أَكْثَرَ مَن فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ﴿الأنعام: ١١٦﴾
    [*] ثُمَّ لَآتِيَنَّهُم مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَن شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ ﴿الأعراف: ١٧﴾
    [*] تِلْكَ الْقُرَىٰ نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنبَائِهَا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ ۚ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ ﴿١٠١﴾ وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍ وَإِن وَجَدْنَا أَكْثَرَهُمْ لَفَاسِقِينَ ﴿الأعراف: ١٠٢﴾
    [*] فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَـٰذِهِ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الأعراف: ١٣١﴾
    [*] يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّـهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الأعراف: ١٨٧﴾
    [*] وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّـهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الأنفال: ٣٤﴾
    [*] كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ ﴿التوبة: ٨﴾
    [*] أَلَا إِنَّ لِلَّـهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَلَا إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿يونس: ٥٥﴾
    [*] وَمَا ظَنُّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّـهِ الْكَذِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿يونس: ٦٠﴾
    [*] أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿هود: ١٧﴾
    [*] وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ وَاللَّـهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿يوسف: ٢١﴾
    [*] وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّـهِ مِن شَيْءٍ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّـهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿يوسف: ٣٨﴾
    [*] مَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّـهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿يوسف: ٤٠﴾
    [*] وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّـهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿يوسف: ٦٨﴾
    [*] وَمَا أَكْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِينَ ﴿يوسف: ١٠٣﴾
    [*] وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ ﴿يوسف: ١٠٦﴾
    [*] المر تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿الرعد: ١﴾
    [*] وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَا يَبْعَثُ اللَّـهُ مَن يَمُوتُ بَلَىٰ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿النحل: ٣٨﴾
    [*] ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوكًا لَّا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَمَن رَّزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّـهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿النحل: ٧٥﴾
    [*] يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّـهِ ثُمَّ يُنكِرُونَهَا وَأَكْثَرُهُمُ الْكَافِرُونَ ﴿النحل: ٨٣﴾
    [*] وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَّكَانَ آيَةٍ وَاللَّـهُ أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنتَ مُفْتَرٍ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿النحل: ١٠١﴾
    [*] وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَـٰذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿الإسراء: ٨٩﴾
    [*] أَمِ اتَّخَذُوا مِن دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ هَـٰذَا ذِكْرُ مَن مَّعِيَ وَذِكْرُ مَن قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ الْحَقَّ فَهُم مُّعْرِضُونَ ﴿الأنبياء: ٢٤﴾
    [*] أَمْ يَقُولُونَ بِهِ جِنَّةٌ بَلْ جَاءَهُم بِالْحَقِّ وَأَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ﴿المؤمنون: ٧٠﴾
    [*] أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا ﴿الفرقان: ٤٤﴾
    [*] وَلَقَدْ صَرَّفْنَاهُ بَيْنَهُمْ لِيَذَّكَّرُوا فَأَبَىٰ أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورً‌ا ﴿الفرقان: ٥٠﴾
    [*] إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً وَمَا كَانَ أَكْثَرُهُم مُّؤْمِنِينَ ﴿الشعراء: ٨﴾
    یہ آیت کریمہ سورۃ الشعراء میں آٹھ مرتبہ آئی ہے۔
  • يُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَكْثَرُهُمْ كَاذِبُونَ ﴿الشعراء: ٢٢٣﴾
    [*] أَمَّن جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَـٰهٌ مَّعَ اللَّـهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿النمل: ٦١﴾
    [*] وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ ﴿النمل: ٧٣﴾
    [*] فَرَدَدْنَاهُ إِلَىٰ أُمِّهِ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَلِتَعْلَمَ أَنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿القصص: ١٣﴾
    [*] وَقَالُوا إِن نَّتَّبِعِ الْهُدَىٰ مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ أَرْضِنَا أَوَلَمْ نُمَكِّن لَّهُمْ حَرَمًا آمِنًا يُجْبَىٰ إِلَيْهِ ثَمَرَاتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّن لَّدُنَّا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿القصص: ٥٧﴾
    [*] وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿العنكبوت: ٦٣﴾
    [*] وَعْدَ اللَّـهِ لَا يُخْلِفُ اللَّـهُ وَعْدَهُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الروم: ٦﴾
    [*] فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الروم: ٣٠﴾
    [*] قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلُ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ ﴿الروم: ٤٢﴾
    [*] وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿لقمان: ٢٥﴾
    [*] وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿سبإ: ٢٨﴾
    [*] قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿سبإ: ٣٦﴾
    [*] قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ﴿سبإ: ٤١﴾
    [*] لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿يس: ٧﴾
    [*] وَلَقَدْ ضَلَّ قَبْلَهُمْ أَكْثَرُ الْأَوَّلِينَ ﴿الصافات: ٧١﴾
    [*] ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا رَّجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشَاكِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّـهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الزمر: ٢٩﴾
    [*] فَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ ضُرٌّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلْنَاهُ نِعْمَةً مِّنَّا قَالَ إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَىٰ عِلْمٍ بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الزمر: ٤٩﴾
    [*] لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿غافر: ٥٧﴾
    [*] إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيهَا وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿غافر: ٥٩﴾
    [*] اللَّـهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ اللَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارَ مُبْصِرًا إِنَّ اللَّـهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ﴿غافر: ٦١﴾
    [*] بَشِيرًا وَنَذِيرًا فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿فصلت: ٤﴾
    [*] لَقَدْ جِئْنَاكُم بِالْحَقِّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَكُمْ لِلْحَقِّ كَارِهُونَ ﴿الزخرف: ٧٨﴾
    [*] مَا خَلَقْنَاهُمَا إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الدخان: ٣٩﴾
    [*] قُلِ اللَّـهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيْبَ فِيهِ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الجاثية: ٢٦﴾
    [*] إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ﴿الحجرات: ٤﴾
    [*] وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَٰلِكَ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿الطور: ٤٧﴾

اور درج ذیل آیات کریمہ میں قلیل لوگوں کی تحسین کیوں کی گئی ہے؟!!

  • وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّـهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ ﴿البقرة: ٨٣﴾
    [*] وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَّا يُؤْمِنُونَ ﴿البقرة: ٨٨﴾
    [*] فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمِينَ ﴿البقرة: ٢٤٦﴾
    [*] فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللَّـهَ مُبْتَلِيكُم بِنَهَرٍ فَمَن شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَن لَّمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِبُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِّنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّـهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّـهِ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿البقرة: ٢٤٩﴾
    [*] مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَـٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّـهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿النساء: ٤٦﴾
    [*] وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا ﴿النساء: ٦٦﴾
    [*] وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّـهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿النساء: ٨٣﴾
    [*] فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّـهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّـهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿النساء: ١٥٥﴾
    [*] حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ‌ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ ﴿هود: ٤٠﴾
    [*] فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿هود: ١١٦﴾
    [*] سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا ﴿الكهف: ٢٢﴾
    [*] إِنَّ هَـٰؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ ﴿الشعراء: ٥٤﴾
    [*] يَعْمَلُونَ لَهُ مَا يَشَاءُ مِن مَّحَارِيبَ وَتَمَاثِيلَ وَجِفَانٍ كَالْجَوَابِ وَقُدُورٍ‌ رَّاسِيَاتٍ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ‌ ﴿سبإ: ١٣﴾
    [*] قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ﴿ص: ٢٤﴾
    [*] وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ ﴿الواقعة: ١٤﴾

ان تمام آیات کریمہ میں اکثر لوگوں کی مذمّت اور تھوڑے لوگوں کی تحسین بیان کی گئی ہے، اس کے باوجود کیا آپ یہ کہنے کی جرات کریں گے کہ
سخت حیرت ہے کہ اس پر فتن دور کا ایک شخص اٹھتا ہے اور ایک ایسے امام کی غیبت کرتا ہے اور بہتان باندھتا ہے کہ جس کے مذہب کو اللہ سبحان و تعالیٰ نے قبول عام بخشا ہوا ہے، مسلمانوں کی مجموعی تعداد میں سے حنفیوں کا نکال دیں پھر پیچھے کیا بچتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
واضح رہے کہ میرا یہ موقف ہرگز نہیں کہ تھوڑے لوگ ہی ہمیشہ حق پر ہوتے ہیں بالکل اسی طرح میرا موقف آپ کی طرح یہ بھی نہیں کہ زیادہ لوگ حق پر ہوتے ہیں۔ بلکہ حق پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو حق (کتاب وسنت) پر عمل کرتے ہیں، خواہ وہ تھوڑے ہوں یا زیادہ۔ فرمانِ نبویﷺ ہے: « كل أمتي يدخلون الجنة إلا من أبى . قالوا : يا رسول الله ، ومن يأبى ؟ قال : من أطاعني دخل الجنة ، ومن عصاني فقد أبى » ... صحيح البخاری

ایک محدث کی لکھی ہوئی تذکرۃ الحفاظ میں ایک غیر ثقہ ، اہل الرائے کے نام کے شامل ہونے کا کیا مطلب، اور محدثین کی اصطلاح میں حافظ کیا کیا مطلب ہوتا ہے ؟
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ﷫ ’اہل الرّائے‘ کے امام نہیں؟!!
تو پھر کیا وہ ’اہل الحدیث‘ میں سے تھے؟؟!!
والله تعالیٰ اعلم!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ? ’اہل الرّائے‘ کے امام نہیں؟!!
تو پھر کیا وہ ’اہل الحدیث‘ میں سے تھے؟؟!!
والله تعالیٰ اعلم!
ہمیں توابھی تک انتظار ہی ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب اہل الرائے پر اپناموقف پیش کریں،مہینہ ختم ہوگیاہے لیکن ابھی تک ہماراانتظار بدستور جاری ہے۔ لہذا پہلے ابوالحسن علوی صاحب کواپناموقف ثابت کرنے دیں پھر انشاء اللہ ہم بتادیں گے کہ اہل الرائے کسے کہتے ہیں اوراہل الحدیث کسے کہتے ہیں۔
ویسے آپ چاہیں توخود ہی بتادیں کہ اہل الرائے کسے کہتے ہیں اوراہل الحدیث کسے کہتے ہیں اوران دونوں کے درمیان مابہ الامتیاز کیاہے اورکسی کو کب اہل حدیث کہیں گے اورکب اہل الرائے کہیں گے۔والسلام
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
مندرجہ ذیل اقوال کی بھی وضاحت فر ما دیں
[۴] حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی امام ابو حنیفہ کو اپنی کتاب طبقات الحفاظ سے پانچویں طبقہ میں رکھا ہے اور ان کے ذم میں ایک لفظ بھی نقل نہیں کیا ہے،{ طبقات الحفاظ :80-81 } ۔

[۵] بلکہ حسن اتفاق یہ دیکھئے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ایک مختصر سی کتاب طبقات المحدثین میں لکھی ہے جس میں بڑے بڑے محدثین اور حفاظ حدیث کے نام کی فہرست رکھی ہے ، لکھتے ہیں : " فھذہ مقدمۃ فی ذکر اسماء اعلام حملۃ الآثار النبویہ "{ المعین طبقات المحدثین ،ص:17 }

اس کتاب میں محدثین کے کل ستائیس طبقات ہیں جن میں چوتھے طبقے کا عنوان ہے ، طبقۃ الاعمش و ابی حنیفہ ، پھر اس طبقہ کے محدثین عظام میں امام ابو حنیفہ کا بھی نام درج ہے ۔ {ص:51-57 } ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
رضابھائی درج ذیل مضمون کا مطالعہ کریں ان شاء اللہ حقائق سامنے آئیں گے۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام ذہبی رحمہ اللہ کی نظرمیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ? ’اہل الرّائے‘ کے امام نہیں؟!!
تو پھر کیا وہ ’اہل الحدیث‘ میں سے تھے؟؟!!
ہمیں توابھی تک انتظار ہی ہے کہ ابوالحسن علوی صاحب اہل الرائے پر اپناموقف پیش کریں،مہینہ ختم ہوگیاہے لیکن ابھی تک ہماراانتظار بدستور جاری ہے۔ لہذا پہلے ابوالحسن علوی صاحب کواپناموقف ثابت کرنے دیں پھر انشاء اللہ ہم بتادیں گے کہ اہل الرائے کسے کہتے ہیں اوراہل الحدیث کسے کہتے ہیں۔
ویسے آپ چاہیں توخود ہی بتادیں کہ اہل الرائے کسے کہتے ہیں اوراہل الحدیث کسے کہتے ہیں اوران دونوں کے درمیان مابہ الامتیاز کیاہے اورکسی کو کب اہل حدیث کہیں گے اورکب اہل الرائے کہیں گے۔ والسلام
عمر معاویہ بھائی کو اعتراض ہے کہ اگر امام ابو حنیفہ﷫ اہل الرّائے میں سے تھے امام ذہبی﷫ نے تذکر الحفاظ میں ان کا تذکرہ کیوں کیا ہے؟!! جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر معاویہ بھائی کو امام صاحب﷫ کو اہل الرّائے میں شمار کرنے پر اعتراض ہے، جس پر میرا ان سے یہ سوال تھا کہ اگر امام صاحب﷫ اہل الرائے کے امام نہیں تو پھر کیا عمر معاویہ بھائی کے ہاں وہ اہل الحدیث میں سے تھے؟!! جس کا مجھے یقین ہے کہ وہ یا دیگر صاحبان ہرگز جواب نہیں دیں گے۔
عمر معاویہ اور جمشید بھائیوں سے یہ بھی گزارش ہے کہ یہ بھی بتائیں کہ کیا جرح کرنا غیبت، بہتان اور کسی کی عداوت ونفرت کی بناء پر ہوتی ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا ابھی تک ان کے نزدیک اکثریت بذات خود حقانیت کی دلیل ہے؟!! اور ابھی ان سوالات کے جوابات بھی تشنہ ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
میراخیال ہے کہ کفایت اللہ صاحب کے رد میں جومیرامضمون ہے اس کو دیگر احباب پڑھ لیں انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/%D9%81%D9%82%DB%81%D8%A7%D8%A1-126/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81-%D8%B1%D8%B6%DB%8C-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%D8%B9%D9%86%DB%81-%DA%A9%D8%A7-%D9%85%D9%82%D8%A7%D9%85-%D9%88%D9%85%D8%B1%D8%AA%D8%A8%DB%81-%D8%AD%D8%A7%D9%81%D8%B8-%D8%B0%DB%81%D8%A8%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%DA%AF%D8%A7%DB%81-1508/
انس نظربھائی آپ سوال کا جواب دینے کے بجائے کچھ مزید سوالات ہمارے ذمہ ڈال دیتے ہیں۔ یہ طریقہ بحث کیلئے مفید ہوسکتاہے لیکن افہام وتفہیم کے نکتہ نظر سے انتہائی غلط ہے۔
اہل ا لرائے اوراہل الحدیث (محدثین)میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ایک شخص اہل الرائے بھی ہوسکتاہے اوراہل الحدیث بمعنی محدثین بھی ہوسکتاہے۔
ابن قتیبہ نے المعارف میں امام شافعی امام مالک اورسفیان ثوری کا ذکر اہل الرائے میں کیاہے کیایہ حضرات اہل الحدیث نہیں تھے؟
خود حافظ ذہبی کوہی دیکھ لیں امام ابوحنیفہ کواہل الرائے بھی کہتے ہیں اورمحدثین حافظ حدیث اورجہابذہ محدثین کی صف میں شامل بھی مانتے ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
میراخیال ہے کہ کفایت اللہ صاحب کے رد میں جومیرامضمون ہے اس کو دیگر احباب پڑھ لیں انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔
کافی طنزیہ جملہ ہے۔

محترم اور عزیز جمشید بھائی!
محدثین اور اہل الحدیث میں فرق ہے، جس طرح فقہاء اور اہل الرّائے میں فرق ہے۔ اہل الحدیث اور اہل الرائے مناہجِ فکر ہیں۔ ضروری نہیں کہ ہر اہل الحدیث محدّث بھی ہو، مثلاً اہل الحدیث عوام محدّثین نہیں ہیں۔ بہت سے فقہائے کرام اہل الحدیث منہج فکر پر ہیں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ کوئی محدّث بھی فقہی طور پر اہل الرّائے منہج فکر پر ہو۔ جہاں تک آپ کا امام صاحب ﷫ کو محدّث کہنے کا معاملہ ہے، مجھے اس سلسلے میں آپ سے اتفاق نہیں۔
کیا اب آپ بتائیں گے کہ اگر امام صاحب اہل الرّائے میں سے نہیں تو کیا اہل الحدیث منہج فکر پر ہیں؟!!
نیز یہ بھی بتائیں کہ کیا جرح کرنا غیبت، بہتان اور کسی کی عداوت ونفرت کی بناء پر ہوتی ہے؟
اور یہ بھی کہ کیا آپ کے نزدیک اکثریت بذاتِ خود حقانیت کی دلیل ہے؟!!
اور یہ بھی کہ حق یعنی کتاب وسنت کے صریح دلائل کے سامنے ظن (مثلاً امام صاحب﷫ کے پاس اڑھائی سالہ مدت رضاعت کی کوئی نہ کوئی دلیل ہوگی) کی کیا حیثیت ہے؟؟
اور یہ بھی کہ کیا آپ کو یہ بات تسلیم ہے کہ اہل الرّائے کے نزدیک قاضی کا فیصلہ ظاہری وباطنی طور پر لاگو ہوتا ہے جبکہ اہل الحدیث کے نزدیک صرف ظاہری طور پر لاگو ہوتا ہے؟!! اور کیا آپ کا بھی یہی مسلک ہے؟!!
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top