کفایت اللہ صاحب کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کااثبات کرتے ہیں کہ ثقہ اورتوثیق کا لفظ کبھی دینداری اورفضائل کے معنی میں بھی مستنبط ہوتاہے اوراس کواپنی پسندیدہ جگہوں پر چسپاں کرنے لگتے ہیں۔
مثلا یہ وہ اسی طرح کے کچھ نقول لے کر اس کے اثبات میں لگ جاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جہاں جہاں ثقہ کا لفظ آیاہے اس سے سچائی دینداری اورفضائل مراد ہیں اوراس کی دلیل ان کے پاس کیاہوتی ہے صرف یہ کہ بعض مواقع پر محدثین نے ایسااستعمال کیاہے۔
یہ بالکل وہی طرز ہے کہ ہم کسی کتاب کی دوچارغلطیاں نکال دیں اورہرموقع پر اس کتاب کو بے قیمت ثابت کردیں کیونکہ اس میں کچھ مواقع پر غلطیاں نکلی ہیں۔
صحیح طرز استدلال یہ ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ امام ابوحنیفہ سے ابن معین کی جوتوثیق ثابت ہے (اس پر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ والے تھریڈ میں کلام کریں گے)اس سے سچائی دینداری مراد لینے کا کیاقرینہ ہے۔ اگران کے پاس محض اتناہی قرینہ ہے کہ اس سلسلے میں ابن معین کے اقوال مختلف ہیں۔ تواس میں امام ابوحنیفہ کی تخصیص کیا۔ بلامبالغہ سینکڑوں روات ہیں جن کے سلسلے میں ابن معین اورابن معین ہی کیا دیگر نقاد ادن حدیث اورائمہ جرح وتعدیل کے الفاظ مختلف ہیں توکیاجہاں جہاں ائمہ جرح وتعدیل میں سے کسی ایک کی کسی راوی کے بارے میں رائے مختلف ہوگی تواس کو سچائی اوردینداری کے معنی میں استعمال کیاجائے گا۔ اگریہی ان کی دلیل ہے توبہت بودی اور کمزور دلیل ہے۔
بات ابن عبدالبر کی
ابن عبدالبر کا حدیث وفقہ میں جو مقام ہے وہ محتاج تعارف نہیں ہے۔حافظ ذہبی کے بقول وہ اجتہاد کے درجہ کو پہنچ چکے تھے۔ ان کو حافظ المغرب کے لقب سے پکاراجاتاہے اوربعضوں نے تومبالغہ کرتے ہوئے ان کو بخاری المغرب کے لقب سے یاد کیاہے۔ (یہ سب اقوال جامع بیان العلم وفضلہ کے مقدمہ میں محقق نے لکھے ہیں وہاں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔)
امام ابوحنیفہ رضی اللہ کے بارے میں ان کی رائے کیاہے اس کو ذرا تفصیل سے جانتے ہیں ایسانہیں کہ میٹھامیٹھاہپ ہپ اورکڑواکڑواتھوتھو کے طورپر کسی کے بارے میں ہم کسی کی رائے جانیں۔
ہرانسان علم کے اعتبار سے ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ اس کے علم میں اضافہ ہوتارہتاہے۔ اورعلم واستدلال کی روشنی میں پہلی کہی اورلکھی باتوں سے رجوع کرتارہتاہے۔ یہ ایک معلوم چیز ہے اس پر دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ۔
کسی بھی شخص نے کسی قول سے رجوع کرلیاہے اس کو جاننے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ صراحتاکہہ دے کہ میں نے سابقہ قول سے رجوع کرلیاہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے بعد کے اقوال یاتحریر پہلی کہی بات کے مخالف ہواس کوبھی رجوع کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ امام شافعی جب بغداد میں تھے تو فقہی آراء ان کی کچھ اورتھی اورجب مصر گئے توان کی آراء بدل گئیں۔بہت کم مقامات ایسے ہیں جہاں امام شافعی صراحتاکہتے ہوں کہ میں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیاہے ۔ لیکن جب سب کومعلوم ہے کہ آخری قول ان کاوہ ہے جو مصر کاہے تولوگ اسی کو ان کی حتمی رائے قراردیتے ہیں۔
یہ صرف امام شافعی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف اورامام محمد بن الحسن کے ساتھ بھی ہے انہوں نے بعض اقوال پہلے کہے تھے پھرجب مدینہ گئے امام مالک سے ملاقات اورگفتگو ہوئی تواپنی رائے بدل دی۔ اس میں بھی شاید ہی کہیں ان سے منقول صراحتاقول ملے کہ میں اپنے فلاں قول سے رجوع کرتاہوں لیکن جب انہوں نے کسی مسئلہ میں اپنی رائے بدل دی توان کو رجوع سمجھاگیا۔
ایک صاحب ہیں۔ انہوں نے کتاب لکھی ہے۔
تراجعات الحافظ ابن حجر فی فتح الباری
اس کے مصنف ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان ہے۔ فتح الباری میں جہاں کہیں انہوں نے پایاکہ حافظ ذہبی نے صراحتارجوع کیاہو یاسابقہ مسئلہ کے برعکس دوسرے مسئلہ کو ترجیح دی ہو اس کو انہوں نے رجوع کے طورپر لیاہے۔
ایک اوربھی کتاب اسی کے ہم معنی ہیں۔
تراجعات العلامۃ الالبانی فیمانص علیہ تصحیحاوتضعیفاً
اس کے مولف سلفی عالم ابوالحسن محمد حسن الشیخ ہے۔
اس کتاب کو پڑھ جائیے تو کہیں توالالبانی صاحب کا قول موجود ہے میں نے فلاں راوی کے بارے میں فلاں بات کہی تھی اب میں اس سے رجوع کرتاہوں۔ کہیں بس صرف یہ دیکھ کر کہ کسی راوی پر حکم یاکسی حدیث پر حکم پچھلی کتاب میں لگائے گئے حکم سے الگ ہے اسے رجوع سے تعبیر کیاہے۔ میراخیال ہے کہ یہ اتنی مشہور اورمعروف بات ہے کہ اس پر زیادہ دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اگراس کو رجوع نہ قراردیں توپھراس کو تناقض کہناہوگا جو شاید البانی صاحب کے محبین پسند نہ کریں۔
ابن عبدالبر کی کتابوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ کون پہلے ہے اورکون بعد میں ہے۔
کفایت اللہ صاحب نے حوالہ دیاہے ۔التمھید کا۔
التمہید کی تصنیف پہلے ہوئی ہے۔ اس کے بعد جامع بیان العلم وفضلہ کی تصنیف ہوئی ہے اوراس کے بعد الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ کی تصنیف ہوئی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ جامع بیان العلم وفضلہ میں کئی مرتبہ وہ التمہید کا حوالہ دیتے ہیں۔اورکہتے ہیں کہ میں نے وہاں تفصیلی کلام کیاہے۔ دیکھئے۔
جامع بیان العلم وفضلہ میں قیاس کی بحث میں وہ حدیث رباالبربالبر والشعیر بالشعیر کولاتے ہیں اوراس کی علت کے سلسلہ میں فقہاء کے اقوال ذکر کرتے ہیں اورپھر لکھتے ہیں۔
ومااعلم احدا سبقہ الی ھذاالقول الاطائفۃ من اھل البصرۃ (مبتدعۃ ابن سیار النظام ومن سلک سبیلہ)وامافقھاء الامصار فکل واحد منہم سلف من الصحابۃ والتابعین (رضی اللہ عنہم)،وقدذکر (حجۃ) کل واحد منہم ومااعتدل بہ من جھۃ النظر والاثر فی کتاب "التمہید "فاغنی ذکرہ ھٰھنا۔(جامع بیان العلم وفضلہ ،نفی الالتباس فی الفرق بین الدلیل والقیاس)
ایک مثال اورلیجئے ۔ حافظ ابن عبدالبر انہاکم عن قیل وقال وکثرۃ السوال کی حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
وقد ذکرنا (ماللعلماء من)القول فی قیل وقال واضاعۃ المال وکثرۃ السوال مبسوطا فی کتاب التمھید والحمدللہ
(جامع بیان العلم وفضلہ باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ)
میراخیال یہ ہے کہ یہ دوحوالے آنجناب کو یہ سمجھانے کیلئے کافی ہوں گے کہ التمھید جامع بیان العلم سے پہلے کی تصنیف ہے۔ لہذا التمھید میں انہوں نے جوکچھ کہاہے اگریہاں اس کے برعکس اورمنافی ہے توپھر یہ پہلے قول سے رجوع اورنسخ کے ہم معنی ہوگا۔
الانتقاء جامع بیان العلم وفضلہ کے بھی بعد کی تصنیف ہے ۔اس کی دلیل بھی ہمیں اسی کتاب سے مل جاتی ہے۔
اسی کتاب میں حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔
ونقمواایضا علی ابی حنیفۃ الارجاء،ومن اھل العلم من ینسب الی الارجاء کثیر،لم یعن احد بنقل قبیح ماقیل فیہ کماعنوابذلک فی ابی حنیفۃ لامامتہ ،وکان ایضا مع ھذا یحسد وینست الیہ مالیس فیہ،ویختلق علیہ مالایلیق (بہ)وقد اثنی علیہ جماعۃ من العلماء وفضلوہ ولعلنا ان وجدنا نشطۃ نجمع من فضائلہ وفضائل مالک والشافعی والثوری والازواعی رحمھم اللہ کتابااملنا جمعہ قدیما فی اخبار ائمۃ الامصار انشاء اللہ ۔(جامع بیان العلم وفضلہ )
پھراسی کتاب میں دیکھئے وہ ابن معین اورعلی بن مدینی سے توثیق کے الفاظ نقل کررہے ہیں ۔ ابن معین کے الفاظ توثیق کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ علی بن مدینی سے نقل کیاہے۔
ابوحنیفۃ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید وہشیم ووکیع بن الجراح وعبادبن العوام وجعفر بن عون، وھوثقۃ لاباس بہ ،
اوراس کے بعد کہتے ہیں ۔
الذین رووا عن ابی حنیفۃ ووثقوہ واثنوعلیہ اکثر من الذین تکلموافیہ ۔
کیااس کے بعد بھی کوئی یہی کہے گا کہ اس توثیق سے سچائی دینداری اورفضائل مراد ہیں؟
ہم زیادہ کیاعرض کریں۔ کفایت اللہ صاحب کو ان کے دستخط کے شعر یاددلادیتے ہیں۔
وعين الرضا عن کل عيب کليلةٌ ...................... کما أن عين السخط تبدي المساويا
والسلام
تنبیہہ: کچھ نامناسب الفاظ میں ترمیم کی گئی ہے۔ انتظامیہ