• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
محترم بھائی
میں آپ کی باتوں کا تفصیلی جواب لکھوں گا لیکن اس سے پہلے آپ یہ واضح کردیں کہ کیا آپ چہل رکنی مجلس تدوین فقہ حنفی والی کہانی کو ایک جعلی اور مکذوبہ افسانہ تسلیم کرتے ہیں؟
آپ جمع خاطر رکھیں کہ آپ کی تحریر کردہ باتون کا مکمل جواب دیا جائے گا لیکن پہلے ایک بات واضح اور طے ہونے کے بعد، تاکہ ہماری محنت نتیجہ خیز ثابت ہو۔ آخر میں مکرر عرض ہے کہ اس نقطہ کہ علاوہ کسی اور موضوع کو نہ چھیڑئیے گا ، دیگر موضوعات کو دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ امید ہے آپ اپنی توجھ پہلے مجلس تدوین نقطہ پر مرکوز رکھیں گے۔
یاددہانی!!!!
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
جامع بیان العلم وفضلہ کے آخرکے ابواب میں سے ایک باب ہے۔

اس باب میں دیکھ لیں ۔


اسی طرح اس کتاب کا یہ باب بھی پڑھ لیں

باب حکم قول العلماء بعضھم فی بعض
بھائی جان میں نے یہ عبارت آپ کے بتائے ہوئے ابواب میں تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن نہیں ڈھونڈ سکا، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آپ نے غلط حوالہ دیا ہے، یہ شاید میری نظر کا قصور ہے کہ میں نہیں دیکھ سکا، مہربانی فرما کر اگر آپ نیچے دی ہوئی کتاب میں یہ حوالہ ڈھونڈ کر مجھے صفحہ نمبر، اور اس صفحے میں لائن نمبر بھی تلاش کر کے دے دیں تو بڑی نوازش ہو گی۔ تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہوں، لیکن یہ بھی بہت ضروری ہے۔
یہ رہی کتاب "جامع بیان العلم"
http://www.docstoc.com/docs/65063540/جامع-بيان-العلم-وفضل
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مجھے اتنی فرصت تونہیں ہے کہ اپ کے حوالہ پرجاکر دیکھ سکوں۔
میں نے جس کتاب سے نقل کیاہے وہ مطبع دارابن الجوزی کاشائع کردہ ہے۔
اس کی تحقیق ابوالاشبال الزہیری نے کی ہے۔
یہ کتاب دوحصوں میں ہے۔ ایک مقدمہ ہے محقق کا
دوسرے حصہ میں پوری کتاب ہے
مقدمہ ٥٤صفحات پر مشتمل ہے جس میں میں محقق نے ابن عبدالبر،کتاب ،اوراسکے نسخوں کا تعارف کرایاہے اورسابقہ نسخوں کی غلطیاں واضح کی ہیں۔
نفس کتاب ١٤٩٤صفحات پر مشتمل ہے۔ محقق نے ہرحدیث اورہرروایت کی سند پر کلام کیاہے اورنسخوں میں جہاں جہاں اختلاف ہے۔ اس کو رمز کے ساتھ واضح کیاہے۔
یہ کتاب بلامبالغہ اب تک کی جامع بیان العلم وفضلہ کی سب سے بہترین تحقیق ہے
یہ افسوس ہمیں بھی ہے کہ جامع بیان العلم کا ایک الیکٹرونک نسخہ ایک سلفی سائٹ موقع ام الکتاب سے ڈائون لوڈ کیاتواس میں یہ لفظ واقعتاموجود نہیں ہے۔
زیادہ کیاعرض کروں باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ والسلام
 

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
یہ افسوس ہمیں بھی ہے کہ جامع بیان العلم کا ایک الیکٹرونک نسخہ ایک سلفی سائٹ موقع ام الکتاب سے ڈائون لوڈ کیاتواس میں یہ لفظ واقعتاموجود نہیں ہے۔
زیادہ کیاعرض کروں باقی آپ خود سمجھ دار ہیں۔ والسلام
اس کتاب کی تحقیق کرنے والے شیخ زہیری بھی تو سلفی ہیں !!! پھر سلفیوں کے متعلق یھ تعریضات کیوں؟؟
الیکٹرونک نسخہ جات میں تغیر وتبدل عام بات ہے جس کی بنا پر کسی کے متعلق بدگمانی بھر حال مذموم امر ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
ویسے ہمیں بھی اجمالی طورپر اتناہی کہناہے جوحافظ مغرب حافظ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بطور فیصلہ کہہ دیاہے۔
الذین رووا عن ابی حنیفہ ووثقوہ واثنواعلیہ اکثر من الذین تکلموا فیہ

جامع بیان فضل العلم (١٠٨٤)
جن لوگوں نے امام ابوحیفہ سے کی تعریف اورتوثیق کی ہے وہ ان سے زیادہ ہیں جنہوں نے ان پر کلام کیاہے۔

جمشید بھائی، بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ یہ بتا دیں کہ یہ عبارت اس کتاب کے کس باب میں موجود ہے۔ باب کا نام بتا دیں۔ جزاک اللہ خیراً

رضا بھائی مذکورہ عبارت یقینا اس کتاب میں موجود ہے لیکن اس کامطلب سمجھنا بہت ضروری ہے، سب سے پہلے اصل عبارت ملاحظہ ہو:
قَالَ أَبُو عُمَرَ رَحِمَهُ اللَّهُ: " الَّذِينَ رَوَوْا عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَوَثَّقُوهُ وَأَثْنَوْا عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِنَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيهِ، وَالَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيهِ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ، أَكْثَرُ مَا عَابُوا عَلَيْهِ الْإِغْرَاقَ فِي الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ وَالْإِرْجَاءَ [جامع بيان العلم وفضله 2/ 1084]۔


اس عبارت میں ’’وثقوہ ‘‘ اور’’واثنوا علیہ‘‘ یہ دونوں صیغے بطورمترادف استعمال ہوئے ہیں ، یعنی ان دونوں کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی مدح اورتعریف کی ہے، ان کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جنہوں نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ پرطعن کیاہے، اس عبارت میں حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اصطلاحی توثیق کے بارے میں بات نہیں کررہے ہیں بلکہ ان کی دیانت اورسچائی اورفضائل کی بات کررہے ہیں ۔
اورمحدثین کبھی کبھی ایسی باتوں کو بیان کرتے ہوئے بھی توثیق کا لفظ استعمال کرتے تھے ، اورتوثیق کواصطلاحی معنی میں نہیں لیتے تھے ، اس کی قدرے تفصیل میرے درج ذیل مقالہ میں دیکھ سکتے ہیں ۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کی نظرمیں۔

اب رہی یہ بات کہ ہم ابن عبدالبرکی عبارت میں توثیق کا یہ معنی کیوں لے رہے ہیں تو اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
اولا:
دوسرے مقام پرخود ابن عبدالبررحمہ اللہ نے یہ کھل کر اعلان کردیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ حفظ حدیث کے لحاظ سے ضعیف تھے ، ملاحظہ ہو:
حافظ ابن عبدالبرفرماتے ہیں:
وقد روى هذا الحديث أبو حنيفة عن موسى بن أبي عائشة عن عبدالله بن شداد ابن الهادي عن جابر بن عبدالله عن النبي عليه السلام ولم يسنده غير أبي حنيفة وهو سيء الحفظ عند أهل الحديث وقد خالفه الحفاظ فيه سفيان الثوري وشعبة وابن عيينة وجرير [التمهيد 11/ 48]۔

اس عبارت میں حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے کمال انصاف سے کام لیتے ہوئے کھل کراعلان کردیا کہ ابوحنیفہ سیئ الحفظ ہیں(برے حافظہ والے ) ہیں ، اوریہ جرح مفسرہے، اسی جرح کو بنیاد بناتے ہوئے حافظ ابن عبدالبرنے ابوحنفیہ رحمہ اللہ کی روایت کو رد کردیاہے، اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ کی نظرمیں امام ابوحنیفہ سیء الحفظ ہیں لہٰذا ان کی مذکورہ بالا عبارت میں توثیق کا مفہوم اصطلاحی ہرگز نہیں ہوسکتا۔

ثانیا:
یہ ایک مسلمہ اوراٹل حقیقت ہے کہ حفظ کےلحاظ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پرجرح کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، دریں صورت اگرحافظ ابن عبدالبرکی توثیق والی عبارت میں اصطلاحی معنی مراد لیں تو یہ عبارت صریح جھوٹ قرارپائے گی، کیونکہ دنیا کا کوئی بھی شخص جمہورسے ابوحنیفہ کی اصطلاحی توثیق ہرگزثابت نہیں کرسکتا۔

ثالثا:
حافظ ابن عبدالبرنے مذکورہ بالا عبارت میں مجملا جوبات کہی ہے کہ اکثرلوگوں نے ابوحنیفہ کی مدح کی ہے تو حافظ ابن عبدالبرنے اپنے اس اجمال کی تفصیل خود اپنی کتاب ’’ الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء‘‘ میں بیان کردی ہے، اوراس پوری کتاب میں سوائے ابن معین کے کسی بھی امام سے ابوحنیفہ کی مدح میں توثیق کے الفاظ نقل نہیں کئے ہیں ، اورابن معین کی توثیق اولا تو ثابت ہی نہیں ثانیا بجائے خود غیراصطلاحی معنی میں ہے تفصیل کے لئے دیکھیں۔
اس سے بخوبی سمجھا جاسکتاہے کہ ابن عبدالبرکی مذکورہ بالاعبارت میں توثیق سے کیا مراد ہے ، اگرتوثیق اصطلاحی مراد ہوتی ان اکثرلوگوں میں سے کم از کم درجنوں لوگوں کی توثیق تو لازمی طورپر ابن عبدالبر رحمہ اللہ اپنی اس کتاب میں ذکرکرتے مگراس کتاب میں ابوحنیفہ پرلکھا گیا پوراحصہ پڑھ جائیں ، سوائے ابن معین کے کسی سے بھی توثیق کے الفاظ منقول نہیں۔
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ابن عبدالبرکے سامنے اصطلاحی توثیق سے ہٹ کرمدح ابی حنیفہ سے متعلق جو باتیں منقول تھی اسی کو انہوں نے توثیق سے تعبیرکیا۔


اس وضاحت کے بعد یہ بھی ذہن میں رہے کہ ابن عبدالبر کا صرف یہ کہہ دینا کہ اکثرلوگوں نے ابوحنیفہ کی توثیق کی ہے ، بالکل بے سود ہے جب تک کہ اکثرلوگوں سے یہ بات بسندصحیح ثابت نہ ہوجائے، اورتوثیق اصطلاحی کا ثابت ہونا تو دور کی بات ہے ابن عبدالبر کی کتاب ’’ الانتقاء في فضائل الثلاثة الأئمة الفقهاء‘‘ میں امام صاحب کی مدح میں جوباتین منقول ہیں ان کا اکثر حصہ مخدوش و نامستندہے۔

الغرض یہ کہ ابوحنیفہ کے عام فضائل سے متعلق بے شک کئی اہل علم کے اقوال ملتے ہیں مگر ان کی توثیق سے متعلق کسی ایک بھی امام ناقد سے بسندصحیح کوئی بات نہیں ملتی ، احناف سے گذارش ہے اکثرکی توثیق کا دعوی بعدمیں کریں ، سب سے پہلے کم از کم از کسی ایک بھی ناقد محدث سے بسندصحیح کوئی ایسا جملہ نقل کردیں جس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی صریح توثیق کی گئی ہو۔
واضح رہے کہ ابن معین سے ابوحنیفہ کی توثیق منقول ہے لیکن قطع نظر اس کے کہ وہ کس مفہوم میں ہے ، بہرصورت وہ صحیح سند سے ثابت ہی نہیں ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
جزاک اللہ خیراً، بہت شکریہ، آج تک میں نے کبھی اس سوال کا جواب نہیں پایا تھا، لیکن آج آپ کی بدولت مل گیا، الحمدللہ۔ اللہ آپ کے علم و عمل میں ترقی دے۔ آمین
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
کفایت اللہ بھائی، لگے ہاتھوں ایک اور مسئلہ حل کر دیں۔
بعض لوگ مثلاً کوثری وغیرہ: کہتے ہیں کہ "کتاب السنۃ لعبدللہ بن احمد بن حنبل" ایک غیر ثابت کتاب ہے، اس کی سند میں مجہول و غیر موثق راوی ہیں۔
اس قول میں کہاں تک سچائی ہے، اور کہاں تک ابطال، ذرا تفصیلاً وضاحت کر دیں۔
جزاک اللہ خیراً
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کفایت اللہ بھائی، لگے ہاتھوں ایک اور مسئلہ حل کر دیں۔
بعض لوگ مثلاً کوثری وغیرہ: کہتے ہیں کہ "کتاب السنۃ لعبدللہ بن احمد بن حنبل" ایک غیر ثابت کتاب ہے، اس کی سند میں مجہول و غیر موثق راوی ہیں۔
اس قول میں کہاں تک سچائی ہے، اور کہاں تک ابطال، ذرا تفصیلاً وضاحت کر دیں۔
جزاک اللہ خیراً
اس کے لئے آپ میرے ایک مفصل مضمون کا انتظار کریں ، یہ مضمون جہاں بھی شیئر کروں گا آپ کو لنک ارسال کردوں گا ، فی الحال آپ درج ذیل لنک دیکھ لیں اورمزید گوگل پرسرچ کرلیں ۔
كتاب السنة لعبد الله بن أحمد، هل تصح نسبته إليه؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب کے ساتھ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک چیز کااثبات کرتے ہیں کہ ثقہ اورتوثیق کا لفظ کبھی دینداری اورفضائل کے معنی میں بھی مستنبط ہوتاہے اوراس کواپنی پسندیدہ جگہوں پر چسپاں کرنے لگتے ہیں۔
مثلا یہ وہ اسی طرح کے کچھ نقول لے کر اس کے اثبات میں لگ جاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جہاں جہاں ثقہ کا لفظ آیاہے اس سے سچائی دینداری اورفضائل مراد ہیں اوراس کی دلیل ان کے پاس کیاہوتی ہے صرف یہ کہ بعض مواقع پر محدثین نے ایسااستعمال کیاہے۔

یہ بالکل وہی طرز ہے کہ ہم کسی کتاب کی دوچارغلطیاں نکال دیں اورہرموقع پر اس کتاب کو بے قیمت ثابت کردیں کیونکہ اس میں کچھ مواقع پر غلطیاں نکلی ہیں۔
صحیح طرز استدلال یہ ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ امام ابوحنیفہ سے ابن معین کی جوتوثیق ثابت ہے (اس پر امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ والے تھریڈ میں کلام کریں گے)اس سے سچائی دینداری مراد لینے کا کیاقرینہ ہے۔ اگران کے پاس محض اتناہی قرینہ ہے کہ اس سلسلے میں ابن معین کے اقوال مختلف ہیں۔ تواس میں امام ابوحنیفہ کی تخصیص کیا۔ بلامبالغہ سینکڑوں روات ہیں جن کے سلسلے میں ابن معین اورابن معین ہی کیا دیگر نقاد ادن حدیث اورائمہ جرح وتعدیل کے الفاظ مختلف ہیں توکیاجہاں جہاں ائمہ جرح وتعدیل میں سے کسی ایک کی کسی راوی کے بارے میں رائے مختلف ہوگی تواس کو سچائی اوردینداری کے معنی میں استعمال کیاجائے گا۔ اگریہی ان کی دلیل ہے توبہت بودی اور کمزور دلیل ہے۔

بات ابن عبدالبر کی
ابن عبدالبر کا حدیث وفقہ میں جو مقام ہے وہ محتاج تعارف نہیں ہے۔حافظ ذہبی کے بقول وہ اجتہاد کے درجہ کو پہنچ چکے تھے۔ ان کو حافظ المغرب کے لقب سے پکاراجاتاہے اوربعضوں نے تومبالغہ کرتے ہوئے ان کو بخاری المغرب کے لقب سے یاد کیاہے۔ (یہ سب اقوال جامع بیان العلم وفضلہ کے مقدمہ میں محقق نے لکھے ہیں وہاں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔)

امام ابوحنیفہ رضی اللہ کے بارے میں ان کی رائے کیاہے اس کو ذرا تفصیل سے جانتے ہیں ایسانہیں کہ میٹھامیٹھاہپ ہپ اورکڑواکڑواتھوتھو کے طورپر کسی کے بارے میں ہم کسی کی رائے جانیں۔

ہرانسان علم کے اعتبار سے ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ اس کے علم میں اضافہ ہوتارہتاہے۔ اورعلم واستدلال کی روشنی میں پہلی کہی اورلکھی باتوں سے رجوع کرتارہتاہے۔ یہ ایک معلوم چیز ہے اس پر دلائل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ۔

کسی بھی شخص نے کسی قول سے رجوع کرلیاہے اس کو جاننے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ صراحتاکہہ دے کہ میں نے سابقہ قول سے رجوع کرلیاہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے بعد کے اقوال یاتحریر پہلی کہی بات کے مخالف ہواس کوبھی رجوع کے معنی میں استعمال کیاجاتاہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ امام شافعی جب بغداد میں تھے تو فقہی آراء ان کی کچھ اورتھی اورجب مصر گئے توان کی آراء بدل گئیں۔بہت کم مقامات ایسے ہیں جہاں امام شافعی صراحتاکہتے ہوں کہ میں نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیاہے ۔ لیکن جب سب کومعلوم ہے کہ آخری قول ان کاوہ ہے جو مصر کاہے تولوگ اسی کو ان کی حتمی رائے قراردیتے ہیں۔
یہ صرف امام شافعی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف اورامام محمد بن الحسن کے ساتھ بھی ہے انہوں نے بعض اقوال پہلے کہے تھے پھرجب مدینہ گئے امام مالک سے ملاقات اورگفتگو ہوئی تواپنی رائے بدل دی۔ اس میں بھی شاید ہی کہیں ان سے منقول صراحتاقول ملے کہ میں اپنے فلاں قول سے رجوع کرتاہوں لیکن جب انہوں نے کسی مسئلہ میں اپنی رائے بدل دی توان کو رجوع سمجھاگیا۔
ایک صاحب ہیں۔ انہوں نے کتاب لکھی ہے۔

تراجعات الحافظ ابن حجر فی فتح الباری

اس کے مصنف ابوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان ہے۔ فتح الباری میں جہاں کہیں انہوں نے پایاکہ حافظ ذہبی نے صراحتارجوع کیاہو یاسابقہ مسئلہ کے برعکس دوسرے مسئلہ کو ترجیح دی ہو اس کو انہوں نے رجوع کے طورپر لیاہے۔

ایک اوربھی کتاب اسی کے ہم معنی ہیں۔

تراجعات العلامۃ الالبانی فیمانص علیہ تصحیحاوتضعیفاً

اس کے مولف سلفی عالم ابوالحسن محمد حسن الشیخ ہے۔

اس کتاب کو پڑھ جائیے تو کہیں توالالبانی صاحب کا قول موجود ہے میں نے فلاں راوی کے بارے میں فلاں بات کہی تھی اب میں اس سے رجوع کرتاہوں۔ کہیں بس صرف یہ دیکھ کر کہ کسی راوی پر حکم یاکسی حدیث پر حکم پچھلی کتاب میں لگائے گئے حکم سے الگ ہے اسے رجوع سے تعبیر کیاہے۔ میراخیال ہے کہ یہ اتنی مشہور اورمعروف بات ہے کہ اس پر زیادہ دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اگراس کو رجوع نہ قراردیں توپھراس کو تناقض کہناہوگا جو شاید البانی صاحب کے محبین پسند نہ کریں۔

ابن عبدالبر کی کتابوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ کون پہلے ہے اورکون بعد میں ہے۔

کفایت اللہ صاحب نے حوالہ دیاہے ۔التمھید کا۔

التمہید کی تصنیف پہلے ہوئی ہے۔ اس کے بعد جامع بیان العلم وفضلہ کی تصنیف ہوئی ہے اوراس کے بعد الانتقاء فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ کی تصنیف ہوئی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ جامع بیان العلم وفضلہ میں کئی مرتبہ وہ التمہید کا حوالہ دیتے ہیں۔اورکہتے ہیں کہ میں نے وہاں تفصیلی کلام کیاہے۔ دیکھئے۔
جامع بیان العلم وفضلہ میں قیاس کی بحث میں وہ حدیث رباالبربالبر والشعیر بالشعیر کولاتے ہیں اوراس کی علت کے سلسلہ میں فقہاء کے اقوال ذکر کرتے ہیں اورپھر لکھتے ہیں۔

ومااعلم احدا سبقہ الی ھذاالقول الاطائفۃ من اھل البصرۃ (مبتدعۃ ابن سیار النظام ومن سلک سبیلہ)وامافقھاء الامصار فکل واحد منہم سلف من الصحابۃ والتابعین (رضی اللہ عنہم)،وقدذکر (حجۃ) کل واحد منہم ومااعتدل بہ من جھۃ النظر والاثر فی کتاب "التمہید "فاغنی ذکرہ ھٰھنا۔(جامع بیان العلم وفضلہ ،نفی الالتباس فی الفرق بین الدلیل والقیاس)
ایک مثال اورلیجئے ۔ حافظ ابن عبدالبر انہاکم عن قیل وقال وکثرۃ السوال کی حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

وقد ذکرنا (ماللعلماء من)القول فی قیل وقال واضاعۃ المال وکثرۃ السوال مبسوطا فی کتاب التمھید والحمدللہ
(جامع بیان العلم وفضلہ باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ)
میراخیال یہ ہے کہ یہ دوحوالے آنجناب کو یہ سمجھانے کیلئے کافی ہوں گے کہ التمھید جامع بیان العلم سے پہلے کی تصنیف ہے۔ لہذا التمھید میں انہوں نے جوکچھ کہاہے اگریہاں اس کے برعکس اورمنافی ہے توپھر یہ پہلے قول سے رجوع اورنسخ کے ہم معنی ہوگا۔

الانتقاء جامع بیان العلم وفضلہ کے بھی بعد کی تصنیف ہے ۔اس کی دلیل بھی ہمیں اسی کتاب سے مل جاتی ہے۔
اسی کتاب میں حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں۔

ونقمواایضا علی ابی حنیفۃ الارجاء،ومن اھل العلم من ینسب الی الارجاء کثیر،لم یعن احد بنقل قبیح ماقیل فیہ کماعنوابذلک فی ابی حنیفۃ لامامتہ ،وکان ایضا مع ھذا یحسد وینست الیہ مالیس فیہ،ویختلق علیہ مالایلیق (بہ)وقد اثنی علیہ جماعۃ من العلماء وفضلوہ ولعلنا ان وجدنا نشطۃ نجمع من فضائلہ وفضائل مالک والشافعی والثوری والازواعی رحمھم اللہ کتابااملنا جمعہ قدیما فی اخبار ائمۃ الامصار انشاء اللہ ۔(جامع بیان العلم وفضلہ )
پھراسی کتاب میں دیکھئے وہ ابن معین اورعلی بن مدینی سے توثیق کے الفاظ نقل کررہے ہیں ۔ ابن معین کے الفاظ توثیق کے سلسلے میں مشہور ہیں۔ علی بن مدینی سے نقل کیاہے۔
ابوحنیفۃ روی عنہ الثوری وابن المبارک وحماد بن زید وہشیم ووکیع بن الجراح وعبادبن العوام وجعفر بن عون، وھوثقۃ لاباس بہ ،
اوراس کے بعد کہتے ہیں ۔

الذین رووا عن ابی حنیفۃ ووثقوہ واثنوعلیہ اکثر من الذین تکلموافیہ ۔
کیااس کے بعد بھی کوئی یہی کہے گا کہ اس توثیق سے سچائی دینداری اورفضائل مراد ہیں؟
ہم زیادہ کیاعرض کریں۔ کفایت اللہ صاحب کو ان کے دستخط کے شعر یاددلادیتے ہیں۔

وعين الرضا عن کل عيب کليلةٌ ...................... کما أن عين السخط تبدي المساويا

والسلام
تنبیہہ: کچھ نامناسب الفاظ میں ترمیم کی گئی ہے۔ انتظامیہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
کیا ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی جرح منسوخ ہے؟

ہم نے حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جو جرح مفسرنقل کیا تھا اس کا جمشیدصاحب سے کوئی جواب نہ بن پڑا اس لئے موصوف نے اسے منسوخ ثابت کرنے کی بے فائدہ کوشش کی ہے ، اور اس کی جودلیل دی ہے اس کی حقیقت ہم بیان کررہے ہیں قارئین پڑھیں اورفیصلہ کریں:

کیا جامع بیان العلم ’’تمہید‘‘ کے بعدلکھی گئی ہے؟؟؟


جمشیدصاحب نے دعوی کیا ہے کہ جامع بیان العلم ’’تمہید‘‘ کے بعد لکھی گئی ہے اوردلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اس کی دلیل یہ ہے کہ جامع بیان العلم وفضلہ میں کئی مرتبہ وہ التمہید کا حوالہ دیتے ہیں۔اورکہتے ہیں کہ میں نے وہاں تفصیلی کلام کیاہے۔ دیکھئے۔
موصوف نے اس سلسلے میں صرف دو حوالے دئے ، اورکہاہے :
میراخیال یہ ہے کہ یہ دوحوالے آنجناب کو یہ سمجھانے کیلئے کافی ہوں گے کہ التمھید جامع بیان العلم سے پہلے کی تصنیف ہے۔
قارئین اگریہ دو حوالے اس بات کی دلیل ہیں کے جامع بیان العلم بعد کی تصنیف ہے تو آئیے ہم اسی نوعیت کے حوالوں کی قطار لگادیتے ہیں، جن کی بنیاد پرجمشید صاحب کے اصول ہی کے مطابق تمہید بعد کی تصنیف قرار پاتی ہے، ملاحظہ ہو:

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ ’’التمہید‘‘ میں فرماتے ہیں:
  • ١ وأما قوله وأن نقوم أو نقول بالحق فالشك من المحدث إما يحيى بن سعيد وإما مالك فإنه لم يختلف عن مالك في ذلك وفي ذلك دليل على الإتيان بالألفاظ ومراعاتها وقد بينا هذا المعنى في كتاب العلم [التمهيد 23/ 281]
  • ٢وكتاب عبد الله بن عمرو عن جده عن النبي صلى الله عليه و سلم أشهر عند أهل العلم وأعرف من أن يحتاج إلى أن يذكر ههنا ويوصف وقد ذكرناه من طريق في كتاب العلم والحمد لله [التمهيد 24/ 384]
  • ٣ويحمل على الشك في مثل هذه الألفاظ التحري في الإتيان بلفظ الحديث دون معناه وهذا شيء قد اختلف فيه السلف وقد ذكرنا ما جاء عنهم في ذلك في كتاب العلم والحمد لله [التمهيد 21/ 261]
  • ٤وفيه الإباحة في الحديث عن التوراة لأهل العلم بها وسماع ذلك مباح ممن لا يتهم بالكذب إلا أن الحكم في الحديث عن أهل الكتاب ما قد ذكرناه في آخر كتاب العلم[التمهيد 23/ 40]
  • ٥وقد أوضحنا هذا المعنى في باب افردناه له في كتاب جامع العلم وفضله وما ينبغي في روايته وحمله وسيأتي من هذا الباب ذكر في مواضع من هذا الكتاب إن شاء الله[التمهيد 1/ 234]
  • ٦وقد ذكرت ذلك وأشباهه في كتابي كتاب جامع بيان أخذ العلم وفضله وما ينبغي في روايته وحمله في باب قول العلماء بعضهم في بعض فأغنى ذلك عن اعادته ها هنا[التمهيد 2/ 28]
  • ٧وفي مثل هذا خاصة نهي السلف عن الجدال وتناظروا في الفقه وتقايسوا فيه وقد أوضحنا هذا المعنى في كتاب بيان العلم فمن أراده تأمله هناك وبالله التوفيق[التمهيد 19/ 232]
  • ٨وقد تكلمنا على ما يجب من الفروض على الكفاية في صدر كتابنا كتاب جامع بيان العلم وفضله وما ينبغي في روايته وحمله فأغنى ذلك على إعادته هاهنا[التمهيد 17/ 336]
  • ٩مراجعته لأبي موسى في حديث الاستئذان لم يكن إلا للاستظهار أو لغير ذلك من الوجوه التي قد بيناها في كتاب العلم فأغنى ذلك عن ذكرها ههنا[التمهيد 12/ 122]
  • ١٠قد أفردنا له أبوابا في كتاب العلم والحمد لله وقد ذكرنا في كتاب العلم أيضا أن فرض الجهاد على الكفاية كطلب العلم على حسبما قد أوضحناه هنالك[التمهيد 18/ 303]
  • ١١ ومن سأل معنتا غير متفقه ولا متعلم فهذا لا يحل قليل سؤاله ولا كثيرة وقد أوضحنا هذه المعاني كلها في كتاب العلم بما لا سبيل إلى ذكره ههنا[التمهيد 21/ 292]
  • ١٢وقد ذكرنا هذا الخبر من وجوه في كتاب العلم وفيه مع خبر هذا الباب أوضح حجة في تحريم العداوة وفضل المؤاخاة وسلامة الصدر من الغل [التمهيد 23/ 146]
  • ١٣وقد أفردنا لهذا المعنى بابا في كراهية مطالعة كتب أهل الكتاب ( ذكرناه في آخر ) ( أ ) كتاب العلم يشفي الناظر فيه إن شاء الله[التمهيد 14/ 387]
  • ١٤جمعنا والحمد لله من فضائل العلم وأهله في صدر كتاب جامع بيان العلم وفضله وما ينبغي في روايته وحمله ما فيه شفاء واستغناء[التمهيد 24/ 329]
  • ١٥وقد أفردنا لهذا المعنى بابا كاملا أوضحناه فيه بالححج والبرهان والبسط والبيان في كتابنا كتاب العلم فأغنى ذلك عن إعادته ههنا[التمهيد 18/ 14]
  • ١٦وقد ذكرنا هذا المعنى وكثيرا مما قيل فيه من النظم والنثر في كتاب العلم وتقصيته في كتاب بهجة المجلاس والحمد لله[التمهيد 21/ 36]
  • ١٧وقد ذكرنا بيان ذلك في باب قول العلماء بعضهم في بعض من كتابنا كتاب العلم فأغنى ذلك عن اعادته ها هنا[التمهيد 2/ 34]
  • ١٨وقد أتينا من القول في أدب العالم والمتعلم بما فيه كفاية وشفاء في كتابنا كتاب بيان العلم[التمهيد 1/ 316]
  • ١٩وقد ذكرنا هذا الخبر ومثله في موضعه من كتابنا كتاب العلم بإسناده فأغنى عن إعادته هاهنا[التمهيد 7/ 222]
  • ٢٠وقد أوضحنا هذا الباب وبسطناه وأشبعنا القول فيه من جهة الأثر في كتاب العلم [التمهيد 21/ 289]
  • ٢١ولكن للعلماء في القياس كلام قد ذكرت منه ما يكفي في كتاب العلم [التمهيد 11/ 97]
  • ٢٢فعوتب في ذلك فذكر ما ذكرناه ( عنه ) في كتاب ( بيان ) العلم [التمهيد 8/ 8]
  • ٢٣حديث أبي هريرة وقد ذكرناه في كتاب بيان العلم [التمهيد 1/ 213]
  • ٢٤في أبيات قد ذكرتها في كتاب العلم في بابها [التمهيد 5/ 66]
  • ٢٥وقد ذكرنا طرقه في كتاب العلم [التمهيد 21/ 275]

قارئین یہ کل پچیس حوالہ جات ہیں اب آپ جمشیدصاحب ہی کے اصول کی روشنی میں فیصلہ کریں کہ کون سی کتاب بعد کی ہے اور کون ساقول منسوخ ہے؟؟؟

یاد رہے کہ جس قول کو جمشید صاحب ناسخ بتلارہے ہیں وہ ابن عبدالبرکا اپنا قول ہے ہی نہیں وضاحت اگلے مراسلہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top