• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام ابوحنیفہ ثقہ ہیں؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
سادہ سی بات ہے کہ ایک ڈاکٹر اگر انجینئر نہ ہو تو یہ کوئی اس کا عیب نہیں ہے کیونکہ یہ اس کا میدان اور فن نہیں ہے لہذا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقیہ ہیں اور ان کی فقاہت مسلم ہے لہذا ان کا محدث نہ ہونا یا حدیث میں ضعیف یا قلیل ہونا کوئی طعن نہیں ہے۔ انہوں نے اس میدان میں اپنی زندگی ہی نہیں کھپائی تو طعن کس چیز کا ؟؟؟
پس محدثین کا امام صاحب رحمہ اللہ پر جو اتفاقی نقد ہے وہ اسی اعتبار سے ہے کہ وہ حدیث میں کمزور ہیں، قلیل الروایۃ ہیں وغیرہ ذلک۔ باقی ان کی فقاہت یا صاحب رائے یا عدالت پر طعن نہیں ہونا چاہیے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ جس ذات سے جذباتی عقیدت ہوتی ہے، دنیا کی ہر صفت اس میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کومعصوم نہ مانتے ہوئے بھی اس کی ہر علمی خطا یا بشری کمزوری کی تاویل میں بہترین صلاحیتیں کھپاتے نظر ہوتے ہیں۔مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ آخر زندگی میں ایک دفعہ مولانا نے حسرت آمیز لہجے میں کہا کہ زندگی ضائع کردی ہے تو مفتی صاحب نے سوال کیا کہ حضرت آپ نے بھی ضائع کر دی تو کس کی ضائع نہیں ہوئی؟
اس پر مولانا نے جواب دیا کہ ساری زندگی اسی میں کھپا دی کہ حنفیت کا پلڑا کسی طرح اونچا ہو جائے، اور اس کا حشر ونشر میں کوئی سوال نہ ہو گا وغیرہ ذلک۔ مکمل واقعہ کے لیے مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کی کتاب وحدت امت کا مطالعہ کریں جو یہاں دستیاب ہے۔
بات اتنی سادہ سی نہیں ہے جتنی سادہ بیان کررہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے امام ابوحنیفہ کی ذات پر طعن وتعریض کو اپنامشغلہ ہی بنالیاہے۔ اس کی پہلی مثال توتب ملتی ہے کہ ہندوپاک کی تقسیم سے قبل متحدہ ہندوستان میں خاص طورپر تاریخ بغداد کا وہ جزئ چھاپاگیاتھاجس میں امام ابوحنیفہ کے مثالب مذکور ہیں۔
ابھی حال میں مقبل الوادعی نے اپناکارنامہ نشرالصحیفہ کی صورت میں انجام دیاہے۔ اورہر بیان کے آگے سندہ صحیح وحسن لکھ کر اس کی حیثیت بھی واضح کی ہے۔آپ سے امید ہے کہ آپ اس پر اپناموقف واضح کریں۔نشرالصحیفہ کے تعلق سے آنجناب کاکیاموقف ہے۔
ویسے ہمیں بھی اجمالی طورپر اتناہی کہناہے جوحافظ مغرب حافظ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں بطور فیصلہ کہہ دیاہے۔
الذین رووا عن ابی حنیفہ ووثقوہ واثنواعلیہ اکثر من الذین تکلموا فیہ

جامع بیان فضل العلم (١٠٨٤)
جن لوگوں نے امام ابوحیفہ سے کی تعریف اورتوثیق کی ہے وہ ان سے زیادہ ہیں جنہوں نے ان پر کلام کیاہے۔

ویسے کہیں آپ قلیل الحدیث سے یوسف جے پوری کی طرح ١٧حدیثیں مراد تونہیں لے رہے ہیں جوانہوں نے غلط طورپر ابن خلدون کی جانب منسوب کرکے کہیں ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
پیارے بھائی! پہلے بھی وضاحت کی تھی کہ میری اس سلسلے میں کسی قسم کی نئی رائے نہیں ہے۔ سلف صالحین سے اہل الحدیث اور اہل الرّائے کا جو مفہوم آپ سمجھتے ہیں میں بھی ان شاء اللہ وہی سمجھتا ہوں ...
جومفہوم میں سمجھتاہوں وہ میرے بتائے بغیر آنجناب کو کسطرح معلوم ہوگیا۔کشف یاکوئی دوسری بات ہے(ابتسامہ)
بحث کو بڑھانےسے زیادہ کوئی فائدہ نہیں ہے بس اتنافائدہ سلف صالحین سے اہل الرائے کا مفہوم آپ نے کیاسمجھاہے۔
اب براہ کرم اس میں کوئی ایچ پیچ نہ لگائیں۔ بلکہ جوکچھ آپ نے سمجھاہے ۔عرض کردیں۔ والسلام
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جہاں تک بات ہے اہل الرائے کی تو درحقیقت یہ الگ بحث ہے ،اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جس کی وجہ سے امام صاحب کے مذہب کو قبول عام حاصل ہوا،
ایک ہوتا ہے درپیش مسئلے کا حل قرآن و حدیث سے پیش کرنا،
اور ایک ہے کہ مذہب کو باقاعدہ ایک قابل عمل روزمرہ کے عوامی و ملکی مسائل کے حل کے لیے مدون کرنا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممکنہ پیش آئندہ مسائل کا حل قرآن و حدیث سے پیش کیا جائے۔
اور یہی کام کیا فقہ حنفی والوں نے، جبکہ دوسرے محدثین سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ پہلے پوچھتے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا ، یا فرضی ہے اور فرضی واقع پر فتویٰ دینے سے گریز کرتے۔
جبکہ فقہ حنفی نے مسائل کو فرض کیا اور پھر اس کا حل پیش کیا اور پھر اس کو مدون کیا۔
جس سے یہ ہوا کہ خلفاء و سلاطین اسلام نے اسے نافذ کرنے میں آسانی وکشادگی سمجھی۔
اس سے یہ ہوا کہ تمام خلافت میں ایک جیسا اور یکساں قانون نافذ ہوا ، یہ نہیں کہ مسئلہ پیش آیا تو اب قاضی اور محدثین حضرات جھگڑنا شروع ہو گئے کہ اس کا حل یہ ہے ، یا یہ ہے۔
تو جناب یہ جرم تھا امام صاحب و ان کے صاحبین کا کہ جس کی وجہ سے وہ اہل الرائے کہلائے۔
اولاً: گویا آپ کو تسلیم ہے کہ امام صاحب اور صاحبین﷭ نے پہلے مسائل کو فرض کیا اور پھر ان کا حل پیش کیا اور پھر ان کو مدوّن کیا، اسی ’جرم کی بناء‘ پر انہیں اہل الرائے کہا گیا۔ معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک اہل الرائے کا ایک بنیادی اُصول فرضی مسائل گھڑنا اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور یہ آپ کے نزدیک بہت قابل تحسین امر ہے۔

ثانیا:
ہمیں قرآن وسنت میں یہی سکھایا گیا ہے کہ جب مسئلہ درپیش ہو تو مجتہد تو کتاب وسنت کی صریح نصوص میں اس کا حل تلاش کرے اگر نہیں ملتا تو (نصوص کتاب وسنت میں) اجتہاد کرے اور عامی شخص علماء سے سوال کرے۔ گویا ہمیں کثرتِ سوال خصوصاً فرضی مسائل گھڑ کر ان کے متعلق سوال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، فرمانِ باری ہے: ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ﴾ ... سورة المائدة کہ ’’ اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں۔‘‘ فرمانِ نبویﷺ ہے: « دعوني ما تركتكم، إنما أهلك من كان قبلكم سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم، فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، وإذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم » ... صحيح بخاری: 7288 کہ ’’جو میں نے تمہیں بیان نہیں کیا اس کے متعلّق مجھے چھوڑ دو (یعنی سوال نہ کرو) سوائے اس کے کہ نہیں تم سے پہلے قوموں کو بھی ان کے سوالوں اور انبیائے کرام﷩ پر اختلاف کی بناء پر ہلاک کیا گیا، تو جب میں تمہیں کسی شے سے روکوں تو تم اس سے مکمل اجتناب کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حتی المقدور اسے سر انجام دو۔‘‘ سیدنا معاویہ﷜ سے مروی ہے: « إن النبي ﷺ نهى عن الغلوطات » ... سنن ابی داؤد: 3656۔ بعض روایات میں ’اغلوطات‘ کے الفاظ بھی ہیں، اور محدثین کرام﷭ نے ان سے مراد فریقِ مخالف کو مشکل میں ڈالنے اور عاجز کیلئے سوال اور فرضی مسائل وغیرہ مراد لیے ہیں۔ مراسيل ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: « لا تعجلوا بالبلية قبل نزولها ، فإنكم إن لم تفعلوا لم ينفك المسلمون منهم من إذا قال سدد أو وفق ، وإنكم إن عجلتم تشتتت بكم السبل هاهنا وهاهنا » کہ ’’کسی آزمائش کے بارے میں اس کے واقع ہونے سے پہلے جلدی نہ کرو، کیونکہ جب تک تم ایسا نہیں کرو گے تب تک مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو اللہ کی توفیق سے صحیح بات کریں گے، اور اگر تم نے ان کے بارے میں جلدی کی تو تم ادھر ادھر بھٹک جاؤ گے۔‘‘
انہی دلائل کی بناء پر صحابہ کرام﷢ اور سلف صالحین﷭ فرضی (خاص طور پر مستحیل) سوالوں کو نا پسند کرتے اور ان کا جواب نہیں دیتے تھے۔ ویسے بھی وہ اس قسم کے سوالات کو تکلّف پر مبنی سمجھتے تھے، اور کتاب وسنت میں جا بجا تکلف سے منع کیا گیا ہے: ﴿ قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ﴾ ... سورة ص کہ ’’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلّف کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘
سيدنا عمر بن الخطاب﷜ سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر فرمایا: (أحرج بالله على كل امرئ سأل عن شيء لم يكن، فإن الله قد بين ما هو كائن) کہ ’’
سیدنا عمر بن الخطاب﷜ فرمایا کرتے تھے: (إياكم وهذه العضل، فإنها إذا نزلت بعث الله إليها من يقيمها ويفسرها) کہ ’’ان مشکل (فرضی) سوالات سے پرہیز کرو، جب یہ واقع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ بھی بھیج دیں گے جو ان کا حل اور تفسیر کر دیں گے۔‘‘
سیدنا ابن عمر﷜ سے مروی ہے: (لا تسألوا عما لم يكن ، فإنى سمعت عمر يلعن من سأل عما لم يكن) کہ ’’جو واقع نہ ہوا ہو اس کے متعلق سوال نہ کیا کرو، میں نے سیدنا عمر﷜ کو سنا وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو فرضی سوال کیا کرتا تھا۔‘‘
سیدنا ابن مسعود﷜ فرمایا کرتے تھے: (إياكم وأرأيت ، أرأيت ، فإنما هلك من كان قبلكم بأرأيت ، أرأيت ...) کہ ’’ارایت، ارایت (یعنی فرضی مسائل) سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ارایت ارایت نے ہلاک کر دیا۔‘‘
سیدنا مسروق﷫ سے مروی ہے کہ میں نے سيدنا ابی بن کعب﷜ سے سوال کیا تو انہوں نے پوچھا: (أكانت هذه بعد ؟ قلت : لا . قال : " فأَجِمَّنى حتى تكون) کہ ’’کیا یہ واقع ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: جب واقع ہوجائے تو پھر پوچھ لینا۔‘‘
سیدنا زید بن ثابت﷜ کے بارے میں مروی ہے کہ (أنه كان إذا سئل عن الشيء يقول: هل كان هذا؟ فإن قيل: لا قال: دعوه حتى يكون) کہ ’’اگر ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ پوچھتے کہ کیا یہ ہوگیا ہے؟ اگر کہا جاتا کہ نہیں تو کہتے کہ اسے چھوڑ دو حتیٰ کہ یہ واقع ہو جائے۔‘‘
ابو وائل﷫ سے مروی ہے: (لا تقاعد أصحاب أرأيت) کہ ’’اصحاب ارایت (یعنی فرضی سوال کرنے والوں) کے ساتھ مت بیٹھو۔‘‘
امام شعبی﷫ فرمایا کرتے تھے: (ما كلمة أبغض إلىَّ من أرأيت) کہ ’’مجھے ارایت (یعنی اگر ایسا ہو تو یعنی فرضی سوال) سے زیادہ کوئی کلمہ برا نہیں لگتا۔‘‘
امام شعبی﷫ فرمایا کرتے: (إذا سئلت عن مسألة فأجبت فيها ، فلا تتبع مسألتك أرأيت ، فإن الله تعالى قال فى كتابه: ﴿ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ﴾ کہ ’’جب تم سے کوئی سوال کیا جائے تو فرضی سوالوں کا جواب نہ دیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ ’’کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیتا ہے۔‘‘
خلیفہ عبد الملك بن مروان نے امام زہری﷫ سے کوئی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: (أكان هذا يا أمير المؤمنين ؟ قال : لا . قال : فدعه ، فإنه إذا كان أتى الله بفرج) کہ ’’اے امیر المؤمنین! کیا یہ واقع ہوا ہے، کہا کہ نہیں، تو فرمایا: پھر اسے رہنے دیں، جب یہ واقع ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی حل بھی نکال دیں گے۔‘‘

ثالثا: یہ آپ نے فرضی مسائل نہ گھڑنے کا نقصان یہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورت میں قاضی اور محدثین جھگڑنا شروع کر دیں گے کہ اس کا حل یہ ہے یا یہ ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ خلفائے راشدین﷢ کے دور میں فرضی مسائل نہیں گھڑے جاتے تھے، کیا انہیں بھی اس نقصان کا سامنا کرنا پڑا کہ جب کوئی نیا مسئلہ آتا تو قاضی اور علماء لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے تھے۔ اگر کرنا پڑا تو اس کا ثبوت دیں۔
اور یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک مسئلہ فرض کر کے اگر اس کا حل تلاش کیا جائے تو اس میں لڑائی جھگڑا کیوں نہیں پڑتا اور اگر اس کے واقع ہونے پر اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو جھگڑا کیوں پڑتا ہے؟
اور آپ سے الزامی سوال یہ ہے کہ اگر آج کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہو جس کے بارے میں پہلے سے کوئی فرضی سوال اور حل نہ تراشا گیا ہو تو اس کے حل میں کیا کرنا چاہئے، کیا اس میں قاضی اور علماء آپس میں لڑیں جھگڑیں گے نہیں؟؟!! اگر ایسا مسئلہ بغیر لڑے جھگڑے کتاب وسنت کی روشنی میں حل ہو سکتا ہے تو دیگر مسئلے کیوں حل نہیں ہو سکتے؟

رابعا: درج بالا اقتباس سے مترشح ہوتا ہے کہ احناف کے ہاں اہل الرّائے کا لفظ پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ دوسروں نے ان پر کچھ وجوہات کی بناء پر اس کا اطلاق کیا ہے۔ تو کیا اس کا آسان ترین حل یہ نہیں ہے کہ آپ لوگ اپنے اہل الرّائے ہونے سے انکار کر دیں۔

جس تناظر میں آپ لوگ اہل الرائے کہتے ہیں میرے حساب میں تو جو شخص قرآن یا حدیث کے مقابلے پر اپنی رائے پیش کرتا ہے وہ جلیل القدر امام و فقیہ تو کیا مسلمان بھی کہلانے کا حق دار نہیں۔
اور اگر آپ لوگ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ گناہ گار ہیں کہ ایک ایسے شخص یا اشخاص کو فقیہہ اور عالم سمجھتے ہیں کہ جو حدیث رسول کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے اور حدیث کو دیوار پر دے مارتا ہے۔
ہمارے نزدیک اہل الرائے سے مراد ایسے لوگ نہیں ہیں، ایسا شخص تو - آپ نے صحیح کہا - مسلمان کہلانے کے بھی قائل نہیں جبکہ ہم تو اہل الرّائے کو اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل سمجھتے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
ایک ہوتا ہے درپیش مسئلے کا حل قرآن و حدیث سے پیش کرنا،اور ایک ہے کہ مذہب کو باقاعدہ ایک قابل عمل روزمرہ کے عوامی و ملکی مسائل کے حل کے لیے مدون کرنا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممکنہ پیش آئندہ مسائل کا حل قرآن و حدیث سے پیش کیا جائے۔اور یہی کام کیا فقہ حنفی والوں نے،
محترم بھائی کے الفاظ ؍؍عوامی و ملکی مسائل کے حل کے لیے مدون کرنا،، سے شاید چہل رکنی مجلیس تدوین فقہ حنفی کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو تعجب ہے کہ علمائے اہلحدیث کی طرف سے اس مجلس تدوین کی حقیقت بارہا واضح کرنے کے باوجود بھی آپ لوگ ابھی تک اس بے سروپا حقیقت کو بیان کرتے رہتے ہیں!!
اگر ان الفاظ سے یہ بات مقصود نہیں تو ذرا وضاحت کیجیے کہ مشار الیہ الفاظ سے کیا مراد ہے اور کب کس نے یہ فرضی مسائل مدون کیے تھے؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
محترم بھائی کے الفاظ ؍؍عوامی و ملکی مسائل کے حل کے لیے مدون کرنا،، سے شاید چہل رکنی مجلیس تدوین فقہ حنفی کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اگر یہ بات درست ہے تو تعجب ہے کہ علمائے اہلحدیث کی طرف سے اس مجلس تدوین کی حقیقت بارہا واضح کرنے کے باوجود بھی آپ لوگ ابھی تک اس بے سروپا حقیقت کو بیان کرتے رہتے ہیں!!
اگر ان الفاظ سے یہ بات مقصود نہیں تو ذرا وضاحت کیجیے کہ مشار الیہ الفاظ سے کیا مراد ہے اور کب کس نے یہ فرضی مسائل مدون کیے تھے؟
سبحان اللہ بھائی جناب ایک طرف تو آپ آج بھی مجتہد مطلق کے حق میں ہیں اور دوسری طرف آئندہ درپیش مسائل کی سوچ بچار کر کے اور ان کو مدون کرنے کے بھی خلاف ہیں۔

جناب ایک دور ہوتا تھا کہ بادشاہ وقت سے ہر شخص ہر وقت مل سکتا تھا، پھر دوریاں کچھ بڑھیں اور اب تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جناب کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایک مریض آپریش ٹیبل پر پڑا ہو اور آپ فقہاء کی مجلس بٹھا دیں کہ اس کے سینے میں بندر کا دل لگایا جا سکتا ہے کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جناب تحقیق اور غور و فکر کرنے کی دعوت قرآن پاک دیتا ہے، آپ خدارا قرآن و حدیث کو اپنی ہی عینک سے نہ دیکھا کریں کبھی کبھی دوسروں کی عینک بھی لے لیا کریں؟

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ داود ظاہری کا مذہب کہاں گیا اور کیوں گیا؟؟؟؟

مالکی و شافعی و حنبلی فقہ کی نسبت حنفی فقہ کو کیوں قبول عام حاصل ہوا، کہ یہ ایک زندہ فقہ ہے کہ جس میں ایک اسلامی معاشرے کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لییے ممکن قانون سازی کی گئی اور اس کو مدون کیا گیا؟

اور جہاں تک چہل رکنی کمیٹی کی بات ہے، کمیٹی چاہے چہل رکنی تھی یا نہیں مگر یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ سب سے پہلی اور مکمل تدوین شدہ فقہ حنفی ہی ہے، اور جو کئی سو سالوں سے امت کے طبقہ کثیر میں نافذ شدہ ہے۔

اگر سورج کی طرف دیکھنے سے کسی کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سورج کا کیا قصور ؟
 

عمرمعاویہ

مبتدی
شمولیت
جون 03، 2011
پیغامات
50
ری ایکشن اسکور
206
پوائنٹ
0
حافظ ذہبی سیرالاعلام النباء میں ذکر ابو حنیفہ میں شعر لکھتے ہیں کہۛاور امام ابو حنیفہ کی وکالت میں دلیل قطعی دے دیتے ہیں۔

اگر دن کا وجود بھی دلیل کا محتاج ہو تو ایسے ذہن رکھنے والوں کے نزدیک کوئی چیز صحیح نہیں ہو سکتی۔​

اور کہتے ہیں کہ امام کی سیرت ایسی ہے کہ اسے دو جلدوں میں مرتب کیا جائے ، 150 ہجری میں انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا۔

علامہ ابن خلدون مقدمہ فصل 9 میں لکھتے ہیں امام شافعی اور امام حنبل کے شاگردوں نے امام صاحب کے شاگردوں کی شاگردی کی؟

امام صاحب کے بارے میں ابن خلدون لکھتے ہیں آپ فقہ میں انتہائی بلند پایہ تھے اور آپ کا مقام کوئی نہ پا سکا خصوصاً امام مالک اور امام شافعی نے آپ کے بلند مرتبہ کا اعتراف کیاہے، اور آپ کے فقہ کے لیے یہی دلیل کافی ہے اسے قبول عام حاصل ہوا اور لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔

جامع ترمذی میں امام ترمذی لکھتے ہیں فقہاء کرام نے یہی فرمایا ہے اور وہ حدیث کے معانی کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں، اور یہاں ہمارے محترم بھائی ایک بے مثال فقیہ کو علم حدیث میں بے مایہ و ضعیف ثابت کرتے ہیں۔

ابن حجر مکی الخیرات والاحسان صفحہ 60 پر لکھتے ہیں کہ ذہبی نے ابو حنیفہ کو حفاظ حدیث کے طبقے میں لکھا ہے اور جس نے ان کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ حدیث میں کم شان رکھتے تھے تو اس کا خیال حسد و جہل پر مبنی ہے۔

اسی کتاب کے صفحہ 69 پر ابن حجر کہتے ہیں خطیب نے ابو حنیفہ کی قدح میں جو سندیں پیش کی ہیں وہ زیادہ تر مجہول راویوں سے منقول ہیں اور ان سے کسی مسلمان کی ہتک نہیں کی جا سکتی تو یہ تو ابو حنیفہ مسلمانوں کے امام ہیں۔

اور جہاں تک یہ بات ہے کہ امام صاحب پر جرح کی گئی تو دیکھیے اس میدان میں کوئی بھی جرح سے محفوظ نہیں، اگر امام بخاری پر جرح کی گئی اور امام زہری پر بھی تو پھر اور کون رہ سکتا ہے؟

علامہ عبدالبر جامع بیان العم جلد دوم صفحہ 1082 میں لکھتے ہیں یحییٰ بن معین سے ابو حنیفہ کے بارے میں پوچھا گیا ، کیا وہ حدیث میں صدوق ہیں ؟ جواب دیا ہاں۔اور امام شافعی کے بارے میں پوچھا گیا تو کہا میں شافعی کی حدیث اور اس کا ذکر پسند نہیں کرتا۔

اسی کتاب کے اسی صفحے پر علامہ لکھتے ہیں کہ علی بن المدینی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ ثقہ ہے۔

اسی کتاب کے اسی صفحے پر علامہ لکھتے ہیں جن لوگوں نے ابی حنیفہ سے روایت کی اور ان کی توثیق و تعریف کی وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جنہوں نے کلام کیا۔

اسی کتاب کے صفحہ 1113 پر علامہ عبدالبر ائمہ کے فضائل بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں امام ثوری نے فرمایا نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت نازل ہوتی ہے اور جس شخص نے ان خبروں مین سے صرف وہی خبریں یاد کر کے جو بعض سے ان کے بارے میں حسد، بے ہودگی ، غصہ اور نفس پرستی کے طور پر صادر ہوئی ہیں بغیر اس کے کہ ان کے فضائل بھی یاد رکھے تو وہ شخص نصیب جلا ہے اور وہ غیبت میں داخل ہو گیا اور راہ راست سے دورہو گیا۔

حافظ ذہبی الروایت الثقات میں لکھتے ہیں خطیب اور ابو نعیم اور بہت سے علمائے متاخرین کا گناہ ہے کہ وہ اپنی کتابوں میں بے شمار جعلی روایات نقل کرتے ہیں اور یہ گناہ ہے اور سنت و حدیث پر ایک جنابت ہے۔

خطیب کے راوی نعیم بن حماد بن معاویہ کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 462 پر دیکھیے لکھا ہے کہ وہ جعلی حدیثیں بنایا کرتا تھا اور ابو حنیفہ کی توہین میں جھوٹی حکایات بنایا کرتا تھا۔

اسی کتاب کے میں لکھتے ہیں امام ابو حنیفہ کے مناقب بہت زیادہ ہیں اللہ آپ سے راضی ہو اور جنت میں جگہ دے۔

تہذیب التہذیب جلد 11 صفحہ 127 دیکھیے کہ وکیع بن جراح ابو حنیفہ کے قول پر فتویٰ دیتے تھے۔

اسی کتاب میں دیکھیے محمد بن سعد کہتے ہیں کہ ابن معین نے کہا کہ ابو حنیفہ ثقہ تھے اور کوئی حدیث بیان نہیں کرتے تھے جب تک وہ حفظ نہ ہو اور نہ لیتے تھے۔

اسی کتاب میں صالح بن محمد الاسدی کہتے ہیں کہ ابن معین نے کہا کہ ابوحنیفہ حدیث میں ثقہ ہے۔

اسی کتاب میں امام جرح و تعدیل ابن سعد القطان کہتے ہیں کہ میں ان ﴿ابو حنیفہ﴾ کے اکثر اقوال لیتا ہوں۔

آپ امام ابو حنیفہ پر قلت روایت کا الزام لگاتے ہیں ، آپ مجھے بخاری و مسلم سے امام شافعی کی کتنی حدیثیں دکھا سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
الذین رووا عن ابی حنیفہ ووثقوہ واثنواعلیہ اکثر من الذین تکلموا فیہ

جامع بیان فضل العلم (١٠٨٤)
جن لوگوں نے امام ابوحیفہ سے کی تعریف اورتوثیق کی ہے وہ ان سے زیادہ ہیں جنہوں نے ان پر کلام کیاہے۔
جمشید بھائی، بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ یہ بتا دیں کہ یہ عبارت اس کتاب کے کس باب میں موجود ہے۔ باب کا نام بتا دیں۔ جزاک اللہ خیراً
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جومفہوم میں سمجھتاہوں وہ میرے بتائے بغیر آنجناب کو کسطرح معلوم ہوگیا۔کشف یاکوئی دوسری بات ہے(ابتسامہ)
بحث کو بڑھانےسے زیادہ کوئی فائدہ نہیں ہے بس اتنافائدہ سلف صالحین سے اہل الرائے کا مفہوم آپ نے کیاسمجھاہے۔
اب براہ کرم اس میں کوئی ایچ پیچ نہ لگائیں۔ بلکہ جوکچھ آپ نے سمجھاہے ۔عرض کردیں۔ والسلام
عزیز بھائی! آپ نے یہ بتانا ہے کہ امام صاحب اہل الرّائے میں سے تھے یا اہل الحدیث میں سے؟ تو اس میں میرے نزدیک اہل الرّائے سے کیا مراد ہے؟ کی کیا حیثیت ہے؟! باقی اگر آپ بتانا ہی نہ چاہیں تو اور بات ہے؟
 

ابو مریم

مبتدی
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 22، 2011
پیغامات
74
ری ایکشن اسکور
495
پوائنٹ
22
سبحان اللہ بھائی جناب ایک طرف تو آپ آج بھی مجتہد مطلق کے حق میں ہیں اور دوسری طرف آئندہ درپیش مسائل کی سوچ بچار کر کے اور ان کو مدون کرنے کے بھی خلاف ہیں۔

جناب ایک دور ہوتا تھا کہ بادشاہ وقت سے ہر شخص ہر وقت مل سکتا تھا، پھر دوریاں کچھ بڑھیں اور اب تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جناب کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایک مریض آپریش ٹیبل پر پڑا ہو اور آپ فقہاء کی مجلس بٹھا دیں کہ اس کے سینے میں بندر کا دل لگایا جا سکتا ہے کہ نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟

جناب تحقیق اور غور و فکر کرنے کی دعوت قرآن پاک دیتا ہے، آپ خدارا قرآن و حدیث کو اپنی ہی عینک سے نہ دیکھا کریں کبھی کبھی دوسروں کی عینک بھی لے لیا کریں؟

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ داود ظاہری کا مذہب کہاں گیا اور کیوں گیا؟؟؟؟

مالکی و شافعی و حنبلی فقہ کی نسبت حنفی فقہ کو کیوں قبول عام حاصل ہوا، کہ یہ ایک زندہ فقہ ہے کہ جس میں ایک اسلامی معاشرے کو اسلامی خطوط پر چلانے کے لییے ممکن قانون سازی کی گئی اور اس کو مدون کیا گیا؟

اور جہاں تک چہل رکنی کمیٹی کی بات ہے، کمیٹی چاہے چہل رکنی تھی یا نہیں مگر یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ سب سے پہلی اور مکمل تدوین شدہ فقہ حنفی ہی ہے، اور جو کئی سو سالوں سے امت کے طبقہ کثیر میں نافذ شدہ ہے۔

اگر سورج کی طرف دیکھنے سے کسی کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں تو سورج کا کیا قصور ؟
محترم بھائی
میں آپ کی باتوں کا تفصیلی جواب لکھوں گا لیکن اس سے پہلے آپ یہ واضح کردیں کہ کیا آپ چہل رکنی مجلس تدوین فقہ حنفی والی کہانی کو ایک جعلی اور مکذوبہ افسانہ تسلیم کرتے ہیں؟
آپ جمع خاطر رکھیں کہ آپ کی تحریر کردہ باتون کا مکمل جواب دیا جائے گا لیکن پہلے ایک بات واضح اور طے ہونے کے بعد، تاکہ ہماری محنت نتیجہ خیز ثابت ہو۔ آخر میں مکرر عرض ہے کہ اس نقطہ کہ علاوہ کسی اور موضوع کو نہ چھیڑئیے گا ، دیگر موضوعات کو دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔ امید ہے آپ اپنی توجھ پہلے مجلس تدوین نقطہ پر مرکوز رکھیں گے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جمشید بھائی، بڑی مہربانی ہو گی اگر آپ یہ بتا دیں کہ یہ عبارت اس کتاب کے کس باب میں موجود ہے۔ باب کا نام بتا دیں۔ جزاک اللہ خیراً
جامع بیان العلم وفضلہ کے آخرکے ابواب میں سے ایک باب ہے۔

باب ماجاء فی ذم القول فی دین اللہ تعالیٰ بالرای والظن والقیاس علی غیراصل وعیب الاکثارمن المسائل دون اعتبار
اس باب میں دیکھ لیں ۔


اسی طرح اس کتاب کا یہ باب بھی پڑھ لیں

باب حکم قول العلماء بعضھم فی بعض
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top