جہاں تک بات ہے اہل الرائے کی تو درحقیقت یہ الگ بحث ہے ،اور یہی وہ نکتہ ہے کہ جس کی وجہ سے امام صاحب کے مذہب کو قبول عام حاصل ہوا،
ایک ہوتا ہے درپیش مسئلے کا حل قرآن و حدیث سے پیش کرنا،
اور ایک ہے کہ مذہب کو باقاعدہ ایک قابل عمل روزمرہ کے عوامی و ملکی مسائل کے حل کے لیے مدون کرنا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممکنہ پیش آئندہ مسائل کا حل قرآن و حدیث سے پیش کیا جائے۔
اور یہی کام کیا فقہ حنفی والوں نے، جبکہ دوسرے محدثین سے جب کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو وہ پہلے پوچھتے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا ، یا فرضی ہے اور فرضی واقع پر فتویٰ دینے سے گریز کرتے۔
جبکہ فقہ حنفی نے مسائل کو فرض کیا اور پھر اس کا حل پیش کیا اور پھر اس کو مدون کیا۔
جس سے یہ ہوا کہ خلفاء و سلاطین اسلام نے اسے نافذ کرنے میں آسانی وکشادگی سمجھی۔
اس سے یہ ہوا کہ تمام خلافت میں ایک جیسا اور یکساں قانون نافذ ہوا ، یہ نہیں کہ مسئلہ پیش آیا تو اب قاضی اور محدثین حضرات جھگڑنا شروع ہو گئے کہ اس کا حل یہ ہے ، یا یہ ہے۔
تو جناب یہ جرم تھا امام صاحب و ان کے صاحبین کا کہ جس کی وجہ سے وہ اہل الرائے کہلائے۔
اولاً: گویا آپ کو تسلیم ہے کہ امام صاحب اور صاحبین نے
پہلے مسائل کو فرض کیا اور پھر ان کا حل پیش کیا اور پھر ان کو مدوّن کیا، اسی ’جرم کی بناء‘ پر انہیں
اہل الرائے کہا گیا۔ معلوم ہوا کہ آپ کے نزدیک اہل الرائے کا ایک بنیادی اُصول
فرضی مسائل گھڑنا اور ان کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور یہ آپ کے نزدیک
بہت قابل تحسین امر ہے۔
ثانیا: ہمیں قرآن وسنت میں یہی سکھایا گیا ہے کہ جب مسئلہ درپیش ہو تو مجتہد تو کتاب وسنت کی صریح نصوص میں اس کا حل تلاش کرے اگر نہیں ملتا تو (نصوص کتاب وسنت میں) اجتہاد کرے اور عامی شخص علماء سے سوال کرے۔ گویا ہمیں کثرتِ سوال خصوصاً فرضی مسائل گھڑ کر ان کے متعلق سوال کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، فرمانِ باری ہے:
﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْـَٔلُوْا عَنْ اَشْيَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ ﴾ ...
سورة المائدة کہ ’’ اے ایمان والو! ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں۔‘‘ فرمانِ نبویﷺ ہے:
« دعوني ما تركتكم، إنما أهلك من كان قبلكم سؤالهم واختلافهم على أنبيائهم، فإذا نهيتكم عن شيء فاجتنبوه، وإذا أمرتكم بأمر فأتوا منه ما استطعتم » ... صحيح بخاری: 7288 کہ ’’جو میں نے تمہیں بیان نہیں کیا اس کے متعلّق مجھے چھوڑ دو (یعنی سوال نہ کرو) سوائے اس کے کہ نہیں تم سے پہلے قوموں کو بھی ان کے سوالوں اور انبیائے کرام پر اختلاف کی بناء پر ہلاک کیا گیا، تو جب میں تمہیں کسی شے سے روکوں تو تم اس سے مکمل اجتناب کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو حتی المقدور اسے سر انجام دو۔‘‘ سیدنا معاویہ سے مروی ہے:
« إن النبي ﷺ نهى عن الغلوطات » ... سنن ابی داؤد: 3656۔ بعض روایات میں ’اغلوطات‘ کے الفاظ بھی ہیں، اور محدثین کرام نے ان سے مراد فریقِ مخالف کو مشکل میں ڈالنے اور عاجز کیلئے سوال اور فرضی مسائل وغیرہ مراد لیے ہیں۔ مراسيل ابی داؤد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
« لا تعجلوا بالبلية قبل نزولها ، فإنكم إن لم تفعلوا لم ينفك المسلمون منهم من إذا قال سدد أو وفق ، وإنكم إن عجلتم تشتتت بكم السبل هاهنا وهاهنا » کہ ’’کسی آزمائش کے بارے میں اس کے واقع ہونے سے پہلے جلدی نہ کرو، کیونکہ جب تک تم ایسا نہیں کرو گے تب تک مسلمانوں میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو اللہ کی توفیق سے صحیح بات کریں گے، اور اگر تم نے ان کے بارے میں جلدی کی تو تم ادھر ادھر بھٹک جاؤ گے۔‘‘
انہی دلائل کی بناء پر صحابہ کرام اور سلف صالحین فرضی (خاص طور پر مستحیل) سوالوں کو نا پسند کرتے اور ان کا جواب نہیں دیتے تھے۔ ویسے بھی وہ اس قسم کے سوالات کو تکلّف پر مبنی سمجھتے تھے، اور کتاب وسنت میں جا بجا تکلف سے منع کیا گیا ہے:
﴿ قُلْ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِيْنَ ﴾ ...
سورة ص کہ ’’کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پر کوئی بدلہ طلب نہیں کرتا اور نہ میں تکلّف کرنے والوں میں سے ہوں۔‘‘
سيدنا عمر بن الخطاب سے مروی ہے کہ انہوں نے منبر پر فرمایا:
(أحرج بالله على كل امرئ سأل عن شيء لم يكن، فإن الله قد بين ما هو كائن) کہ ’’
سیدنا عمر بن الخطاب فرمایا کرتے تھے:
(إياكم وهذه العضل، فإنها إذا نزلت بعث الله إليها من يقيمها ويفسرها) کہ ’’ان مشکل (فرضی) سوالات سے پرہیز کرو، جب یہ واقع ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ بھی بھیج دیں گے جو ان کا حل اور تفسیر کر دیں گے۔‘‘
سیدنا ابن عمر سے مروی ہے:
(لا تسألوا عما لم يكن ، فإنى سمعت عمر يلعن من سأل عما لم يكن) کہ ’’جو واقع نہ ہوا ہو اس کے متعلق سوال نہ کیا کرو، میں نے سیدنا عمر کو سنا وہ ایسے شخص پر لعنت کرتے تھے جو فرضی سوال کیا کرتا تھا۔‘‘
سیدنا ابن مسعود فرمایا کرتے تھے:
(إياكم وأرأيت ، أرأيت ، فإنما هلك من كان قبلكم بأرأيت ، أرأيت ...) کہ ’’ارایت، ارایت (یعنی فرضی مسائل) سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) کو ارایت ارایت نے ہلاک کر دیا۔‘‘
سیدنا مسروق سے مروی ہے کہ میں نے سيدنا ابی بن کعب سے سوال کیا تو انہوں نے پوچھا:
(أكانت هذه بعد ؟ قلت : لا . قال : " فأَجِمَّنى حتى تكون) کہ ’’کیا یہ واقع ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں، تو فرمایا: جب واقع ہوجائے تو پھر پوچھ لینا۔‘‘
سیدنا زید بن ثابت کے بارے میں مروی ہے کہ
(أنه كان إذا سئل عن الشيء يقول: هل كان هذا؟ فإن قيل: لا قال: دعوه حتى يكون) کہ ’’اگر ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ پوچھتے کہ کیا یہ ہوگیا ہے؟ اگر کہا جاتا کہ نہیں تو کہتے کہ اسے چھوڑ دو حتیٰ کہ یہ واقع ہو جائے۔‘‘
ابو وائل سے مروی ہے:
(لا تقاعد أصحاب أرأيت) کہ ’’اصحاب ارایت (یعنی فرضی سوال کرنے والوں) کے ساتھ مت بیٹھو۔‘‘
امام شعبی فرمایا کرتے تھے:
(ما كلمة أبغض إلىَّ من أرأيت) کہ ’’مجھے ارایت (یعنی اگر ایسا ہو تو یعنی فرضی سوال) سے زیادہ کوئی کلمہ برا نہیں لگتا۔‘‘
امام شعبی فرمایا کرتے:
(إذا سئلت عن مسألة فأجبت فيها ، فلا تتبع مسألتك أرأيت ، فإن الله تعالى قال فى كتابه: ﴿ اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ ﴾ کہ ’’جب تم سے کوئی سوال کیا جائے تو فرضی سوالوں کا جواب نہ دیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ ’’کیا تم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جو اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیتا ہے۔‘‘
خلیفہ عبد الملك بن مروان نے امام زہری سے کوئی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
(أكان هذا يا أمير المؤمنين ؟ قال : لا . قال : فدعه ، فإنه إذا كان أتى الله بفرج) کہ ’’اے امیر المؤمنین! کیا یہ واقع ہوا ہے، کہا کہ نہیں، تو فرمایا: پھر اسے رہنے دیں، جب یہ واقع ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کا کوئی حل بھی نکال دیں گے۔‘‘
ثالثا: یہ آپ نے فرضی مسائل نہ گھڑنے کا نقصان یہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورت میں قاضی اور محدثین جھگڑنا شروع کر دیں گے کہ اس کا حل یہ ہے یا یہ ہے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں فرضی مسائل نہیں گھڑے جاتے تھے، کیا انہیں بھی اس نقصان کا سامنا کرنا پڑا کہ جب کوئی نیا مسئلہ آتا تو قاضی اور علماء لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے تھے۔ اگر کرنا پڑا تو اس کا ثبوت دیں۔
اور یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ ایک مسئلہ فرض کر کے اگر اس کا حل تلاش کیا جائے تو اس میں لڑائی جھگڑا کیوں نہیں پڑتا اور اگر اس کے واقع ہونے پر اسے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو جھگڑا کیوں پڑتا ہے؟
اور آپ سے الزامی سوال یہ ہے کہ اگر آج کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہو جس کے بارے میں پہلے سے کوئی فرضی سوال اور حل نہ تراشا گیا ہو تو اس کے حل میں کیا کرنا چاہئے، کیا اس میں قاضی اور علماء آپس میں لڑیں جھگڑیں گے نہیں؟؟!! اگر ایسا مسئلہ بغیر لڑے جھگڑے کتاب وسنت کی روشنی میں حل ہو سکتا ہے تو دیگر مسئلے کیوں حل نہیں ہو سکتے؟
رابعا: درج بالا اقتباس سے مترشح ہوتا ہے کہ احناف کے ہاں اہل الرّائے کا لفظ پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ دوسروں نے ان پر کچھ وجوہات کی بناء پر اس کا اطلاق کیا ہے۔ تو کیا اس کا آسان ترین حل یہ نہیں ہے کہ آپ لوگ اپنے اہل الرّائے ہونے سے انکار کر دیں۔
جس تناظر میں آپ لوگ اہل الرائے کہتے ہیں میرے حساب میں تو جو شخص قرآن یا حدیث کے مقابلے پر اپنی رائے پیش کرتا ہے وہ جلیل القدر امام و فقیہ تو کیا مسلمان بھی کہلانے کا حق دار نہیں۔
اور اگر آپ لوگ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو پھر آپ گناہ گار ہیں کہ ایک ایسے شخص یا اشخاص کو فقیہہ اور عالم سمجھتے ہیں کہ جو حدیث رسول کے مقابلے میں اپنی رائے پیش کرتا ہے اور حدیث کو دیوار پر دے مارتا ہے۔
ہمارے نزدیک اہل الرائے سے مراد ایسے لوگ نہیں ہیں، ایسا شخص تو - آپ نے صحیح کہا - مسلمان کہلانے کے بھی قائل نہیں جبکہ ہم تو اہل الرّائے کو اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل سمجھتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!