تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام الحرمین امام جوینی، امام غزالی اور ابن خلکان نے نحوی غلطی کو قلت عربیہ کا نام دیا ہے۔ اب میرے خیال میں ان جلیل القدر ائمہ کی عربی کسی عجمی سے تو بہتر سے ہو گی۔
جوینی کی کتابوں کی کسی نے بلحاظ عربیت تعریف نہیں کی ہے اورنہ ہی اس کی کتابوں کو کتب ادب میں شمار کیاگیاہے۔ اب جہاں تک یہ بات رہ گئی کہ امام غزالی توجیساکہ سابق میں تفصیل سے ذکر کیاجاچکاہے کہ یہ امام غزالی کے عہدشباب کا کلام ہے ۔ اگرکسی کو تفصیل دیکھنی ہو تودیکھ سکتاہے کہ امام غزالی نے احیاء علوم الدین میں امام ابوحنیفہ کے بارے میں کیالکھاہے۔
اس کے علاوہ دیگر شافعی علماء نے اس کلام کے مدخول اورملحقہ ہونے کی بھی بات کہی ہے۔ اس سب کے باوجود اگرکوئی امام غزالی کی اسی بات کو لے کر لکیر کا فقیر بنارہتاہے اوراسی لکیر کو پیٹتارہتاہے توسوائے اس کی عقل پر ماتم کرنے کے اورکچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔
پھرخود امام غزالی کی کتابوں میں صرف ونحو کی کمزوری اوراغلاط کی نشاندہی کی گئی ہے جیساکہ ماقبل کے روابط میں موجود ہے۔ لیکن ان سب پر غورنہ کرتے ہوئے بھی اگرکوئی قلت عربیت کا ڈھنڈورا پیٹناچاہتاہے تواسے کون روک سکتاہے اللہ یہ کہ خداہی اسے توفیق دے۔
ابن خلکان کی عبارت میں غیرمقلدین حضرات کو صرف یہی کلام دیکھائی دیتاہے ۔ اس سے پہلے انہوں نے اسی پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اسے سرے سے نظرانداز کردیتے ہیں ۔ اگرکوئی دوسراحضرت ابن تیمیہ کے ساتھ ویساہی کرے کہ ایک جملہ نقل کرے اوردوسرا حذف کرے توشاید ان کے متعقدین ومقلدین آسمان سرپر اٹھالیں گے ۔ اورایک بحث میں تواٹھایاہی ہواہے۔
ویسے میں نے جوبات کہی تھی کہ قلب عربیت کاالزام لگانے والے جاہل ہیں کچھ اسی قسم کی بات ابن وزیر یمانی نے کہی ہے۔
وأمّا ما قدح به على الإمام أبي حنيفة من عدم العلم باللّغة العربيّة فلا شكّ أنّ هذا كلام متحامل, متنكّب عن سبيل المحامل, فقد كان الإمام أبو حنيفة من أهل اللّسان القويمة، واللّغة الفصيحة.
اگرکبھی توفیق ہو تو اقبال کلام مصنفہ مولانا عبدالسلام ندوی مطالعہ کرنے کی زحمت گواراکیجئے گااس میں مذکور ہے کہ کسی شخص نے ان پر اعتراض کیاکہ آپ کے کلام میں فنی کمیاں ہیں توانہوں نے یہی جواب دیاکہ میں مقصد پر نگاہ رکھتاہوں اور فنی خامیوں کونظرانداز کردیتاہوں۔ پھراسی کتاب میں مولانا نے ایک باب باندھا ہے جس میں کلام اقبال کے ان اشعار کی نشاندہی کی گئی ہے جوخلاف محاورہ ہیں یااس میں کوئی دوسری غلطی ہے۔
اس میں وہ مشہور شعربھی شامل ہے ۔
نشہ پلاکے گراناتوسب کو آتاہے
مزہ توجب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
اب اگران مثالوں کی بنیاد پر کوئی اقبال کے بارے میں کہے اردو سے ان کی واقفیت کم تھی یااسی قسم کی کوئی بات تواس کو جاہل قراردینے میں آنجناب بھی پیچھے نہیں رہیں گے لہذا ہمیں بھی اجازت دیجئے کہ ایک مرتبہ اوران کولوگوں کو جاہل کہہ لیں جو لحن اورقلت عربیت میں فرق محسوس نہیں کرتے ۔
ویسے آنجناب سے گزارش ہے کہ اگراس موضوع پر بحث کا شوق ہی ہے توپہلے یہ طئے کرلیں کہ قلت عربیت کہتے کس کو ہیں اور کتنی اورکیسی غلطیوں پرکسی کے بارے میں کہاجائے گاکہ وہ عربی زبان سے کمتر واقفیت رکھتاہے یاقلیل العربیۃ کا خطاب دینااس کو صحیح ہوگا؟ پہلے اس خلیج کو پرکرلیں پھرآگے قدم بڑھائیں۔