• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا امام بخاری علیہ الرحمہ بدعتی تھے

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
جناب ! عرض یہ ہے کہ ایسا کرنا کون سی حدیث سے ثابت ہےکہ حدیث لکھنے سے پہلے ایسا کیا کرو ؟
ایسا کوئی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاکتب حدیث میں ہے تو یہاں لکھنے میں کیا حرج ہے؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جناب ! عرض یہ ہے کہ ایسا کرنا کون سی حدیث سے ثابت ہےکہ حدیث لکھنے سے پہلے ایسا کیا کرو ؟
ایسا کوئی فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کاکتب حدیث میں ہے تو یہاں لکھنے میں کیا حرج ہے؟
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
آج عید میلاد کو جیسے آپ حضرات دیگر شرعی و ثابت شدہ عیدوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے زیادہ بڑا اسلامی تہوار سمجھتے ہیں۔ عید میلاد جیسی بدعت سے بچنے والوں پر فتوے لگائے جاتے ہیں، اس جیسی بدعات کے ثبوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں، قرآن و حدیث میں لغوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ عمل کسی مباح کام کو بھی ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے ۔
 

عبداللہ کشمیری

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 08، 2012
پیغامات
576
ری ایکشن اسکور
1,657
پوائنٹ
186
حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
آج عید میلاد کو جیسے آپ حضرات دیگر شرعی و ثابت شدہ عیدوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے زیادہ بڑا اسلامی تہوار سمجھتے ہیں۔ عید میلاد جیسی بدعت سے بچنے والوں پر فتوے لگائے جاتے ہیں، اس جیسی بدعات کے ثبوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں، قرآن و حدیث میں لغوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ عمل کسی مباح کام کو بھی ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے ۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بہترین جواب،
رب تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے.
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
خلیل رانا صاحب اگر زرا سا بھی دماغ لگاتے تو ایسے الفاظ نقل نہ کرتے

اللہ انھیں ہدایت دے آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069

امام بخاری کے شاگرد امام مسلم رحمہ اللہ نے آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا:

"لا یبغضك إلا حاسد و أشھد أن لیس فی الدنیا مثلک"

آپ سے صرف حسد کرنے والا شخص ہی بغض رکھتا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ دنیا میں آپ جیسا کوئی نہیں ہے۔
(الارشاد للخلیلی: 961/3 و سندہ صحیح)



امام الائمہ شیخ الاسلام محمد بن اسحاق بن خزیمہ النیسابوری رحمہ اللہ (متوفی 311ھ) نے فرمایا:

"ما رأیت تحت أدیم السماء أعلم بالحدیث من محمد بن إسماعیل البخاري"

میں نے آسمان کے نیچے محمد بن اسماعیل البخاری (رحمہ اللہ) سے بڑا حدیث کا عالم کوئی نہیں دیکھا۔

(معرفۃ علوم الحدیث للحاکم: ص 74 ح 155 و سندہ صحیح)
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں ، ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ، اس کی کوئی دلیل صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت نہیں کرتا ، معاذاللہ میں مخالفت نہیں کررہا میں نے تو یہ پوچھا ہے :
کہ آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں ، ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ، اس کی کوئی دلیل صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں ، ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ، اس کی کوئی دلیل صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

بھائی جان شاکر بھائی کی یہ تحریر دیکھیں

حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔

اب یہ کھلی چھوٹ ہے اور آپ کا تقویٰ ہے کہ آپ کتنے کاموں سے پہلے استخارہ کر سکتے ہیں۔ امام بخاری کے نزدیک ہر حدیث کی صحت و ضعف کا حکم لگانا ایک اہم معاملہ تھا۔ اس لئے انہوں نے اللہ سے مدد مانگی اور ہر حدیث سے پہلے استخارہ کیا تو اس حدیث کی روشنی میں بالکل جائز ہے۔ ہاں یہ جائز عمل بھی تب ناجائز ہو جاتا، جب امام بخاری اس پر اصرار کرتے کہ جو شخص بھی جب بھی حدیث لکھے وہ استخارہ کیا کرے، ورنہ اس کا عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوگا، یا اپنے اس عمل کو جائز سے واجب کا درجہ دیتے ، جو حدیث لکھنے سے قبل استخارہ نہ کرتا اس پر فتویٰ وغیرہ لگا دیتے۔ جیسا کہ مبتدعین اپنی ایجاد کردہ بدعات کے ساتھ رویہ اپناتے ہیں۔
آج عید میلاد کو جیسے آپ حضرات دیگر شرعی و ثابت شدہ عیدوں سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اسے زیادہ بڑا اسلامی تہوار سمجھتے ہیں۔ عید میلاد جیسی بدعت سے بچنے والوں پر فتوے لگائے جاتے ہیں، اس جیسی بدعات کے ثبوت کے لئے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہیں، قرآن و حدیث میں لغوی تحریف سے بھی باز نہیں آتے۔ یہ عمل کسی مباح کام کو بھی ناجائز قرار دینے کے لئے کافی ہے ۔
 

khalil rana

رکن
شمولیت
دسمبر 05، 2015
پیغامات
218
ری ایکشن اسکور
33
پوائنٹ
52
جناب والا ! آپ میرے سوال کی طرف توجہ کیوں نہیں دیتے میں نے یہ پوچھا ہے !
کہ آپ لوگ ہمارے معمولات پر دلیل خاص مانگتےہیں ، ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ، اس کی کوئی دلیل صحابہ کرام کے عمل سے پیش کریں ۔
 

HUMAIR YOUSUF

رکن
شمولیت
مارچ 22، 2014
پیغامات
191
ری ایکشن اسکور
56
پوائنٹ
57
ہم بھی آپ سے یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ صحابہ نے بھی حدیث لکھی، کسی نے ایسے عمل کیا ؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ہر حدیث لکھنے پر یہ عمل کیا ،
خلیل صاحب آپکے اس اقتباس میں ہی جواب موجود ہے، آپ لکھنے سے پہلے کچھ اپنے لکھے ہوئے پر ہی غور کرلیتے تو شائد اسطرح کی ہلکی بات نہیں کرتے۔ صحابہ کرام جو حدیث لکھتے، انکو اس بات کا کامل یقین ہوتا کہ جو وہ لکھ رہے ہیں، وہ یقینا آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، کیونکہ انکا زمانہ بالکل حضور اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک سے متصل تھا۔ لہذہ انکو یہ یقین کرلینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ یہ حدیث، حضور اکرم ﷺ کی حدیث ہے بھی یا نہیں، بہت ہوا تو وہ آپس میں ہی تصدیق کرکے احادیث کو درج کرلیا کرتے تھے۔ دوسری طرف امام بخاری علیہ الرحمہ کو دیکھتے ہیں۔ انکا زمانہ، آنحضرت ﷺ کے وصال سے تقریبا 250 ، 300 سال بعد کا ہے، جب انہوں نے اپنی کتاب مرتب کرنا شروع کی، تو تمام کے تمام صحابہ کرام وفات پاچکے تھے، تو وہ اپنی قلبی تصدیق کسطرح کرتے؟ اور آپکو یہ بھی پتہ ہے کہ انکے سامنے بھی جھوٹی حدیثوں کے انبار موجود موجود تھے، جن میں سے انکو اپنے معیار سے صحیح احادیث منتخب کرنا تھیں۔ اسی لئے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی سعی کی، اور دو رکعت نماز استخارہ پڑھ کر، جو وہ اپنی دانست میں آنحضرت ﷺ سے منسوب صحیح بات ہے، صرف اسی کو درج کرنے کا التزام کیا۔
اب آپ بھی اپنی ضد چھوڑوں اور میری ان باتوں کو زرا ٹھنڈے دل سے سوچوں، ہر معاملے میں ضد اچھی نہیں ہوتی۔
 
Top