محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
الحمد للہ :اہل باطل کی تقلید میں عامر یونس کا اس دھاگہ کے اصل موضوع سے فرار!
اس دھاگہ کا موضوع ہے کہ (کیا امام بخاری کا عقیدہ تھا کہ میت چار پائی پر بولتی ہے؟؟؟)
اس کے جواب میں عامر یونس نے لکھا تھاکہ
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن أبيه، أنه سمع أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا وضعت الجنازة فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت قدموني قدموني. وإن كانت غير صالحة قالت يا ويلها أين يذهبون بها. يسمع صوتها كل شىء إلا الإنسان، ولو سمعها الإنسان لصعق".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔
بندہ نے اس پر پوچھا تھاکہ
خطِ کشید الفاظ مد نظر رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ انہی الفاظ کی بِنا پر امام بخاری نے یہ باب باندھا ہےکہ "میت کا چار پائی پر کلام کرنا" پھر یہ حدیث مبارکہ انہوں نے اپنے باب پر پیش فرمائی،اور جناب امام بخاری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ لکھ رہے ہیں کہ"جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے" یہ بات کس نے فرمائی ہے رسول اللہ نے یا کسی اُمتی نے ؟ اگر کسی اُمتی کی ہے تو اس حدیث کےواضع الفاظ کے جناب منکر ہو رہے ہیں ؟ بخای پر اعتماد خود نہیں کر رہے ؟حدیث میں تاویل کر رہے ہیں کیوں؟ یہ حق جناب کو کس نے دیا؟
سورہ نمل کی آیت 80 لکھ کر جناب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امام بخاری نے یہ حدیث قرآن کے خلاف نقل کی ہے؟کیا امام بخاری قرآن کے خلاف احادیث لکھتے رہے؟
اسکا جواب ابھی تک نہیں آیا اور ان شاء اللہ نہ آئے گا؟
اب عامر یونس نے اہل باطل کی تقلید میں موضوع سے فرار ہوتے ہوئے نئی نئی امیج لگانا شروع کی ہیں ،جن کا جواب بندہ کے ذمہ نہیں ہے۔انتظامیہ یہ غیر متعلقہ امیج ڈلیٹ کرے اور عامر یونس کو سمجھائے کہ موضوع کے مطابق گفتگو کریں ۔ میری طرف سے اگر جوابی کاروائی ہوئی تو مجھے موردِ الزام نہ ٹھرایا جائے
برزخ سے مراد وہ ہے کہ انسان کے مرنے سے لے کر قیامت کے دن اس کے اٹھنے تک کو برزخ کہا جاتا ہے تو جو شخص اسلام پر مرتا ہے اسے نعمتوں سے نوازا جاتا اور جو کفر اور معصیت پر مرتا ہے اسے عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے :
< آگ کے سامنے یہ ہر صبح اور شام لاۓ جاتے ہیں اور جس دن قیامت قائم ہو گی (فرمان ہو گا ) فرعونیوں کو سخت ترین عذاب میں ڈالو >
اور گناہوں کے اعتبار سے سزائیں بھی مختلف ہیں، صحیح بخاری کی حدیث میں بعض مرتکبین کبیرہ کو عالم برزخ میں جو عذاب ہوتا ہے اس کا بیان ہے ۔
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ کیا کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے تو راوی کہتے ہیں کہ جسے اللہ تعالی نے چاہا اس نے وہ خواب بیان کر دیا اور ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میرے پاس رات دو آنے والے آۓ اور وہ دونوں مجھے لینے آۓ تھے انہوں نے مجھے کہا کہ چلو تو میں ان کے ساتھ چل پڑا تو ہم ایک شخص کے پاس پہنچے جو کہ لیٹا ہوا تھا اور دوسرا اس کے پاس ایک بڑا پتھر لۓ کھڑا تھا تو اس نے اچانک وہ پتھر اس کے سر پر دے مارا تو اس کا سر چپک گیا اور پتھر دوسری طرف لڑھک گیا تو وہ پتھر کو اٹھا لایا تو اس کا سر دوبارہ اصلی حالت میں آچکا تھا تو اس نے اس کے ساتھ پھر پہلے جیسا سلوک کیا تو میں نے ان دونوں کو کہا سبحان اللہ ان کا کیا معاملہ ہے تو وہ کہنے لگے آگے چلو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آگے گۓ تو ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو کہ گدی کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا ایک لوہے کا کنڈا لۓ کھڑا تھا جس سے وہ اس کے رخسار اور ناک اور آنکھ کو گدی تک کاٹ دیتا تو راوی کہتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ابو رجاء نے یہ کہا ہو کہ پہاڑ دیتا تھا تو پھر دوسری جانب چلا جاتا اور اسی طرح کرتا جس طرح کہ اس نے پہلی جانب کیا تھا تو جب ایک جانب سے فارغ ہوتا تو دوسری جانب صحیح ہو چکی ہوتی تو دوبارہ وہی کام کرتا جو اس نے پہلی مرتبہ کیا تھا تو میں نے کہا سبحان اللہ ان کا کیا معاملہ ہے تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک تندور کی طرح کی چیز کے پاس آۓ ۔
راوی کہتا ہے میرا خیال ہے کہ وہ کہتے تھے اس میں آوازیں اور شور تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے اس میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں ان کے نیچے سے آگ کے شعلے آتے تو جب وہ شعلے آتے تو شور مچاتے تو میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک نہر پر آۓ راوی کہتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ خون کی طرح سرخ تھی تو اس نہر میں ایک آدمی تیر رہا تھا اور نہر کے کنارے ایک آدمی نے اپنے پاس بہت سے پتھر جمع کر رکھے تھے وہ تیرتا ہوا جب اس کے پاس واپس آتا تو اپنا منہ کھولتا تو وہ اس کے منہ میں ایک پتھر دے دیتا اور وہ پھر تیرنا شروع کر دیتا اور پھر اس کے پاس واپس آتا تو جب بھی آتا منہ کھولتا اور وہ اس کے منہ میں ایک پتھر دے دیتا میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ دونوں کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک ایسے آدمی کے پاس آۓ جس کا منظر بہت ہی برا تھا اس کے پاس آگ تھی جسے وہ بھڑکا رہا اور اس کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ کیا ہے تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک ایسے باغ کے پاس آۓ سر سبز وشاداب تھا اس میں موسم بہار کے ہر رنگ تھے اور باغ کے درمیان میں بہت لمبا شخص تھا جس کا سر دکھائی نہیں دے رہا تھا اور اس کے ارد گرد ایسے بچے تھے جو میں نے کبھی نہیں دیکھے میں نے ان دونوں کو کہا کہ یہ دونوں کون ہیں تو وہ دونوں کہنے لگے چلو چلو تو ہم چل پڑے حتی کہ ہم ایک بہت بڑے باغ کے پاس آۓ جس سے بڑا اور نہ اس سے خوبصورت باغ میں نے کبھی دیکھا ان دونوں نے کہا کہ اس میں چڑھ جاؤ تو ہم اس میں چڑھ گۓ تو ہم ایک شہر تک آ گۓ جو کہ ایک سونے اور ایک چاندی کا اینٹ کا بنا ہوا تھا جب ہم شہر کے دروازے پر آۓ تو ہم نے اسے کھلوایا تو وہ ہمارے لۓ کھول دیا گیا اور ہم اس میں داخل ہو گۓ تو ہم نے اس میں بہت سے مرد پائے جن میں آدھے تو بہت ہی زیادہ خوبصورت اور آدھے بہت ہی بد صورت تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے انہیں کہا کہ جاؤ اور اس نہر میں جا کر غوطہ لگاؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ نہر چوڑائی میں چل رہی تھی گویا کہ اس کا پانی دودھ ہے تو وہ گۓ اور اس میں غوطہ لگا کر ہمارے پاس واپس آۓ تو ان سے وہ بد صورتی ختم ہو چکی تھی اور وہ بھی خوبصورت ہو چکے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دونوں مجھے کہنے لگے یہ جنت عدن ہے اور وہ آپ کا گھر ہے تو میں نے اوپر نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک محل جو کہ سفید بادل کی طرح تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کہنے لگے وہ آپ کا گھر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ اللہ آپ دونوں کو برکت سے نوازے ذرا مجھے اس میں داخل تو ہونے دو تو وہ کہنے لگے کہ اب تو نہیں لیکن آپ اس میں ضرور داخل ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے کہا آج رات میں نے عجیب وغریب چیزیں دیکھیں تو مجھے یہ بتائیں کہ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ کیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وہ کہنے لگے کہ ہم آپ کو اس کے متعلق بتائیں گے وہ سب سے پہلا شخص جس کے پاس آپ آۓ تھے جس کے سر کو پتھر سے کچلا جا رہا تھا یہ وہ شخص ہے جو کہ قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور فرضی نمازوں سے سویا رہتا تھا اور وہ آدمی جس کے پاس آۓ تو اس کا رخسار ناک اور آنکھ کو گدی تک کاٹا جارہا تھا یہ وہ شخص تھا جو صبح صبح اپنے گھر سے نکل کر ایک ایسا جھوٹ بولتا جو یہ دنیا کے دوسرے کونے تک جا پہنچتا تھا اور وہ عورتیں اور مرد جو کہ تندور جیسی عمارت میں تھے وہ زانی مرد وعورتیں تھے اور وہ شخص جس کے پاس آپ آۓ اور وہ نہر میں تیر رہا تھا اور اس کے منہ میں پتھر ڈالا جا رہا تھا وہ سود خور تھا اور بد صورت شخص جو آگ بھڑکا رہا تھا اور اس کے ارد گرد چکر لگا رہا تھا وہ جہنم کا داروغہ مالک تھا اور وہ لمبا شخص جو کہ باغ میں تھا وہ ابراہیم (علیہ السلام ) تھے اور جو بچے ان کے ارد گرد تھے یہ وہ بچے ہیں جو سب فطرت پر فوت ہوئے تھے۔
راوی بیان کرتے ہیں بعض مسلمانوں نے کہا کہ اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو مشرکوں کی اولاد ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور مشرکوں کی اولاد بھی اور وہ لوگ جو کہ آدھے خوبصورت اور آدھے بد صورت تھے تو یہ لوگ ہیں جن کے برے اعمال بھی تھے اور اچھے بھی انہیں اللہ تعالی نے معاف کر دیا ۔
صحیح بخاری حدیث نمبر (6525) .
الشیخ ولید الفریان