بھائی صحیح سامنے آنے کے بعد اسے قبول نہ کرنا یہ اہل حق کا شیوہ نہیں - اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی -
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم!
اللہ تبارک و تعالیٰ نے کہا؛
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآَنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (سورۃ الاعراف آیت 204)
جب (امام نماز میں)قرآن پڑھے تو (اے مقتدی حضرات تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں کہ) اس کو توجہ سے سنو (اور اس توجہ کو تلاوتِ قرآن کی طرف کامل رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ حکم فرماتے ہیں کہ) خاموش رہو (ایسا نہ ہو کہ اس سے توجہ ہٹا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور رحمت الٰہی سے محروم ہو جاؤ بلکہ خاموش ہو کر سنو) تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اس کی تائید میں فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛
سنن النسائي:كِتَاب الِافْتِتَاحِ: تَأْوِيلُ قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ { وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا (حدیث مرفوع)
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب وہ پڑھے تو خاموش رہو اور جب کہے " سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ " تو کہو " اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ "
نوٹ: اس حدیث میں امام کی قراءت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے کا واضح حکم ہے۔ (اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور یہ حدیث مرفوع ہے)۔ یاد رہے کہ سورہ فاتحہ بھی قراءت ہے بلکہ قرآنِ پاک کی آیت (وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ) کا صحیح معنیٰ میں یہی مصداق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی کو ’’قرآن العظیم‘‘ کہا ہے۔
اسی بات کی تائید صحابہ کرام بھی کرتے ہیں؛
صحيح مسلم: كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاةِ: بَاب سُجُودِ التِّلَاوَةِ:
سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَ الإِمَامِ فَقَالَ لا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِي شَيْءٍ وَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى فَلَمْ يَسْجُدْ
زید بن ثابت(رضی اللہ عنہ) سے امام کے ساتھ مقتدی کے قراءت کرنے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ امام کے ساتھ قراءت میں سے کچھ بھی جائز نہیں۔
سنن الترمذی: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَا جَاءَ فِي تَرْكِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ إِذَا جَهَرَ الْإِمَامُ بِالْقِرَاءَةِ:
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا مَعْنٌ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ
مَنْ صَلَّى رَكْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا أَنْ يَكُونَ وَرَاءَ الْإِمَامِ
قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں جس نے نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر یہ کہ وہ امام کی اقتداء میں ہو ـ
ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تفسیر ابن کثیر سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ قراءت جائز نہیں؛
(مفہوم صرف خط کشیدہ حصوں کا ہے)
لما ذكر تعالى أن القرآن بصائر للناس وهدى ورحمة
أمر تعالى بالإنصات عند تلاوته إعظاما له واحتراما لا كما كان يتعمده كفار قريش المشركون في قولهم "لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه"( اللہ تعالی نے تلاوت قرآن کے وقت خاموش رہنے کا حکم فرمایا اس کی عظمت اور احترام کے لئے نہ کہ کفار قریش اور مشرکین کی طرح کہ وہ قرآن کو نہیں سنتے تھے بلکہ شور مچاتے تھے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے"لا تسمعوا لهذا القرآن والغوا فيه")
ولكن يتأكد ذلك في الصلاة المكتوبة إذا جهر الإمام بالقراءة كما رواه مسلم في صحيحه من حديث أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم "إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا وإذا قرأ فأنصتوا" (بلكہ يہ تاكيد فرض نماز کے لئے ہے جب امام جہری قراءت کرے جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ابو موسیٰ اشعری سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک امام اس لئے ہے کہ تم اس کی پیروی کرو پس جب وہ تکبیر کہے تکبیر کہو اور جب پڑھے خاموش رہو)
وكذا رواه أهل السنن من حديث أبي هريرة أيضا وصححه مسلم بن الحجاج أيضا ولم يخرجه في كتابه وقال إبراهيم بن مسلم الهجري عن أبي عياض عن أبي هريرة قال:
كانوا يتكلمون في الصلاة فلما نزلت هذه الآية "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له" والآية الأخرى أمروا بالإنصات(ہم نماز میں بات چیت کر لیتے تھے جب یہ آیت "فإذا قرئ القرآن فاستمعوا له"اور اسکے بعد والی آیت نازل ہوئی تو خاموش رہنے کا حکم ہؤا)۔ قال ابن جرير: حدثنا أبو كريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن المسيب بن رافع قال ابن مسعود:
كنا يسلم بعضنا على بعض في الصلاة فجاء القرآن "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" (ہم نماز میں ایک دوسرے کو سلام کیاکرتے تھے کہ قرآن نازل ہؤا کہ "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون" وقال أيضا حدثنا أبو كريب حدثنا المحاربي عن داود بن أبي هند عن بشير بن جابر قال:
صلى ابن مسعود فسمع ناسا يقرؤن مع الإمام فلما أنصرف قال: أما آن لكم أن تفهموا أما آن لكم أن تعقلوا " وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا " كما أمركم الله (ابن مسعود رضی اللہ تعالی نے نماز پڑھی پس سنا کہ لوگ امام کے ہمراہ قراءت کر رہے ہیں جب نماز سے پھرے تو فرمایا: کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ سمجھو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ عقل سے کام لو! جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو)۔قال وحدثني أبو السائب حدثنا حفص عن أشعث عن الزهري قال:
نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه فنزلت "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" (یہ آیت انصار کے ایک شخص کے بارے میں اتری ہےـ رسول الله صلى الله عليہ وسلم جب بھی (نماز میں) قراءت کرتے وہ ساتھ ساتھ پڑھتا تھا تو یہ مذکورہ آیت نازل ہوئی)۔وقد روى الإمام أحمد وأهل السنن من حديث الزهري عن أبي أكتمة الليثي عن أبي هريرة
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال "أهل قرأ أحد منكم معي آنفا؟" قال رجل نعم يا رسول الله قال "إني أقول ما لي أنازع القرآن" قال فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه بالقراءة من الصلاة حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے اور پوچھا کہ کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قراءت کی ہے؟ ایک شخص نے کہا کہ يا رسول الله ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں بھی کہوں کہ قرآن مجھ سے کیوں منازعت کر رہا ہے۔ راوی نے فرمایا کہ اس کے بعد لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قراءت کرنے سے رک گئے ان نمازوں میں جن میں بلند آواز سے قراءت کی جاتی ہے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا)۔ وقال الترمذي هذا حديث حسن وصححه أبو حاتم الرازي وقال عبدالله بن المبارك عن يونس عن الزهري قال:
لا يقرأ من وراء الإمام فيما يجهر به الإمام تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يسمعهم صوته(امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت مت کرو اگرچہ آپ کو قراءت سنائی نہ دے)
ولكنهم يقرؤن فيما لا يجهر به سرا في أنفسهم(ہاں البتہ جن نمازوں میں جہری قراءت نہیں کی جاتی ان میں دل ہی دل میں پڑھ لے)
ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ معه فيما يجهر به سرا ولا علانية فإن الله تعالى قال "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون"(کسی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ امام کی اقتدا میں جہری نمازوں میں قراءت کرے نہ آہستہ اور نہ ہی بلند آواز سے جیسا کہ حکم باری تعالیٰ ہے "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون")
قلت: هذا مذهب طائفة من العلماء أن المأموم لا يجب عليه في الصلاة الجهرية قراءة فيما جهر فيه الإمام لا الفاتحة ولا غيرها(ابن کثیر کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ یہ جمہور علماء کا مذہب ہے کہ مقتدی پر ان نمازوں میں جن میں امام جہری قراءت کیا کرتا ہے کچھ بھی لازم نہیں نہ سورۃ فاتحہ اور نہ ہی کوئی دوسری سورۃ) وهو أحد قولي الشافعية وهو القديم كمذهب مالك ورواية عن أحمد بن حنبل لما ذكرناه من الأدلة المتقدمة
وقال في الجديد يقرأ الفاتحة فقط في سكتات الإمام(امام شافعی کا جدید قول ہے کہ صرف امام کے سکتوں میں قراءت کرے) وهو قول طائفة من الصحابة والتابعين فمن بعدهم وقال
أبو حنيفة وأحمدبن حنبل: لا يجب على المأموم قراءة أصلا في السرية ولا الجهرية بما ورد في الحديث "من كان له إمام فقراءته قراءة له"(ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مقتدی پر قراءت واجب ہی نہیں نہ سری نماز میں نہ جہری نماز میں بوجہ اس کے کہ حدیث میں آچکا ہے کہ"جس کا امام ہو تو امام کی قراءت اس کے لئے کافی ہے'')
وهذا الحديث رواه الإمام أحمد في مسنده عن جابر مرفوعا وهو في موطأ مالك عن وهب بن كيسان عن جابر موقوفا (اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے اور موطأ مالك میں وہب بن کیسان نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوفا روایت کی ہے) وهذا أصح وهذه المسألة مبسوطة في غير هذا الموضع
وقد أفرد لها الإمام أبو عبدالله البخاري مصنفا على حدة واختار وجوب القراءة خلف الإمام في السرية والجهرية أيضا والله أعلم (البتہ صرف امام بخاری امام کی اقتدا میں سری اور جہری دونوں نمازوں میں مقتدی کی قراءت کے قائل ہیں) وقال علي بن أبي طلحة
عن ابن عباس في الآية قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" يعني في الصلاة المفروضة(ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا حکم فرض نماز کے لئے ہے) وكذا روي عن عبدالله بن المغفل. وقال ابن جرير: حدثنا حميد بن مسعدة حدثنا بشر بن المفضل حدثنا الجراري عن طلحة بن عبيد الله بن كريز قال: رأيت عبيد بن عمير وعطاء بن أبي رباح يتحدثان والقاص يقص فقلت ألا تستمعان إلى الذكر وتستوجبان الموعود؟ قال فنظرا إلي ثم أقبلا على حديثهما قال فأعدت فنظرا إلي وأقبلا على حديثهما قال فأعدت الثالثة قال فنظرا إلي فقالا: إنما ذلك في الصلاة "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" وكذا
قال سفيان الثوري عن أبي هاشم إسماعيل بن كثير عن مجاهد في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة.(مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز کے لئے ہے) وكذا رواه غير واحد عن مجاهد وقال عبدالرزاق عن الثوري عن ليث عن مجاهد قال: لا بأس إذا قرأ الرجل في غير الصلاة أن يتكلم وكذا قال سعيد بن جبير والضحاك وإبراهيم النخعي وقتادة والشعبي والسدي وعبدالرحمن بن زيد بن أسلم أن المراد بذلك في الصلاة وقال شعبة عن منصور سمعت إبراهيم بن أبي حمزة يحدث أنه سمع
مجاهدا يقول في هذه الآية "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال في الصلاة والخطبة يوم الجمعة.( مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز خطبہ جمعہ کے بارے میں ہے) وكذا روى ابن جريج عن عطاء مثله وقال هشيم عن الربيع بن صبيح
عن الحسن قال في الصلاة وعند الذكر.(حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم نماز اوز ذکر کے بارے میں ہے) وقال ابن المبارك عن بقية سمعت ثابت بنعجلان يقول: سمعت
سعيد بن جبير يقول في قوله "وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا" قال الإنصات يوم ألأضحى ويوم الفطر ويوم الجمعة وفيما يجهر به الإمام من الصلاة (سعید بن جبیر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم عید الاضحی، عید الفطر ، جمعہ (کے خطبہ) اور جن نمازوں میں امام جہری قراءت کرے کے بارے میں ہے)۔
رکوع میں ملنے سے رکعت کا مل جانا بھی اسی بات کی دلیل ہے؛
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ(سنن أبي داود کتاب الصلاۃ باب فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ)
رسول الله صلى الله عليہ وسلم نے فرمايا کہ جب تم نماز کے لئے آؤ اور ہم سجده میں ہوں تو سجده كرو اور اس كو كسى شمار میں نہ ركهو اور جس نے (امام کے ساتھ) ركوع پاليا اس نے نماز (كى ركعت) پالى ۔
والسلام