ماہنامہ اشاعۃ الحدیث شمارہ 28 ،ستمبر 2006
نیز "فتاوی علمیہ " جلد اول ص171
قبر میں نماز اور ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ
سوال : ایک روایت میں آیا ہے کہ ثابت البنانی رحمہ اللہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے ۔ اسی روایت کی حقیقت کیا ہے؟ (ماسٹر انورسلفی ، حاصل پور ضلع بہاولپور)
ـــــــــــــــ
الجواب : حمادؒ بن سلمہ سے روایت ہے کہ ثابت (بن أسلم البنانی رحمه الله ) نے کہ: "
أخبرنا عفان بن مسلم قال: حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت قال: «إن كنت أعطيت أحدا الصلاة في قبره فأعطني الصلاة في قبري»
اے میرے اللہ !اگر تو نے اپنی مخلوق میں سےکسی کو اس کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے بھی میری قبر میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ (طبقات ابنِ سعد وسندہ صحیح)
عبد الله ان شوذب سے روایت ہے : میں نے ثابت البنائی کو کہتے سنا:
" حدثنا سعيد بن أسد حدثنا ضمرة عن ابن شوذب قال: سمعت ثابتا البناني يقول: اللهم إن كنت أعطيت أحدا من خلقك يصلي لك في قبره فأعطنيه )
اے میرے اللہ: اگر تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے بھی اجازت دینا۔
(المعرفة و التاریخ يعقوب بن سفيان الفارسي الفسوي، (المتوفى: 277 ھ) ۹۶٫۲ و سندہ حسن، حلیة الاولیا 2/319)
یہ ایک دعا ہے جو ثابت البنانی رحمہ اللہ نے مانگی ہے۔
اوریوسف بن عطیہ (متروک ) نے کہا: "
فأذن لثابت أن يصلي في قبره " پس ثا بت کو ان کی قبر میں نماز پڑ ھنے کی اجازت مل گئی ۔(حلیۃ الاولیا ء 2/319)
((مکمل روایت یہ ہے ((
حدثنا أبو حامد بن جبلة قال: ثنا محمد بن إسحاق السراج، قال: ثنا عمر بن شبة، قال: ثنا يوسف بن عطية، قال: سمعت ثابتا، يقول لحميد الطويل: «هل بلغك يا أبا عبيد أن أحدا يصلي في قبره إلا الأنبياء؟» قال: لا، قال ثابت: «اللهم إن أذنت لأحد أن يصلي في قبره فأذن لثابت أن يصلي في قبره»
یعنی تابعی ثابت البنانیؒ نے سیدنا حمیدؒ الطویل سے پوچھا کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ کسی کا قبر میں نماز پڑھنا ثابت ہے ،تو جناب حمید الطویل نے فرمایا نہیں ، تو جناب ثابت البنانیؒ نے دعاء کی کہ اے اللہ ! اگر تو نے اپنی مخلوق میں سےکسی کو اس کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو اپنے بندے ثابت کو بھی اپنی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت و توفیق دینا "
یہ روایت یوسف بن عطیہ کی وجہ سے موضوع ہے۔ یوسف بن عطیہ کے بارے میں امام بخاری نے کہا: "منكر الحديث " (کتاب الضعفاء بتحقیقی:424)امام نسائی نے کہا: "متروک الحديث‘‘ (کتاب الضعفاء 617)
جسر (بن فرقد) سے روایت ہے کہ اس نے ثابت البنانی کوقبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔(حلیۃ الاولیا ۳۱۹٫۴) اس کی سند درج ذیل ہے
حدثنا عثمان بن محمد العثماني، قال: ثنا إسماعيل بن علي الكرابيسي، قال: حدثني محمد بن سنان القزاز، قال: ثنا شيبان بن جسر، عن أبيه، قال: " أنا والله الذي لا إله إلا هو أدخلت ثابتا البناني لحده ومعي حميد الطويل أو رجل غيره شك محمد قال: فلما سوينا عليه اللبن سقطت لبنة فإذا أنا به يصلي في قبره فقلت للذي معه: ألا ترى؟ قال: اسكت فلما سوينا عليه وفرغنا أتينا ابنته فقلنا لها: ما كان عمل أبيك ثابت؟ فقالت: وما رأيتم؟ فأخبرناها فقالت: كان يقوم الليل خمسين سنة فإذا كان السحر قال في دعائه: اللهم إن كنت أعطيت أحدا من خلقك الصلاة في قبره فأعطنيها "، فما كان الله ليرد ذلك الدعاء
(حلیة الاولیاء 2/319)
یہ سند موضوع ہے۔ جسر کے بارے میں امام دارقطنیؒ نے کہا: "متروک‘ (سوالات البرقانیؒ 70 ) و ہ ضعیف متروک ہے۔ (تحفۃ الاقویاءء فی تحقیق كتاب الضعفاء:۵۴)
جسر بن فرقد کا شاگردشیبان نا معلوم ہے۔ شیبان کا شاگر د محمد بن سنان (بن یزید ) ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب:۵۹۳۲)
محمد بن سنان کا شاگرد اسماعیل بن الکرابیسی بھی مجہول الحال ہے۔ اس کے شاگر وابوعمر وعثمان بن محمد بن عثمان کی توثیق نا معلوم ہے ،یعنی یہ سند ظلمات ہے۔
تنبیہ: ان مردود روایت کو مولوی عبدالحئی لکھنوی صاحب نے بحوالہ حلیۃ الاولیاء ( حدثنا عثمان بن محمد العثماني : حدثنا إسماعيل بن علي الكرابيسي : حدثني محمد بن سنان : حدثنا سنان عن أبيه‘‘ کی سند سے نقل کیا ہے۔ (دیکھے " اقامۃ الحجۃ على ان الاكثار في التعبد لیس ببدعۃ ۲۴ مجموعه رسائل لکھنوی ج ۲ ص 174) لکھنوی صاحب سے اسے زکریا دیوبندی صاحب نے اپنی کتاب " فضائل نماز“ ( تیسرا باب خشوع و خضوع سے بیان میں ) میں نقل کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کر دیا ہے۔( نیز دیکھئے فضائل اعمال صفحہ361)| زکریا صاحب سے اسے کسی نور محمد قادری ( دیو بندی ) نامی شخص نے بطور استدال و حجت نقل کر کے "قبر میں نماز " اور "عقیدہ حیات قبر " کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے دیوبندیوں کا ماہنامه الخیر ملتان (جلد ۲۴ ثا رہ:۵، جون ۲۰۰۹ و ۲۴۹٫۲۵)
عرض ہے که " محمد بن سنان القزاز " کے شدید ضعف اور الکرابیسی والعثمانی کی جہالت کے ساتھ ساتھ سنان اور اس سے باپ ( ابوسنان ) کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں ہے۔
عین ممکن ہے کہ مولوی عبدالحئی لکھنوی والے نسخے میں"شيبان بن جسر عن أبيه )کو (سنان عن أبيه ‘‘ لکھ دیا گیا ہو۔
اس مردود روایت کو مولوی عبدالحئی لکھنوی صاحب کا بغیرتحقیق و جرح سے نقل کرنا اور پھر ان کی کور انہ تقلید میں زکریا صاحب ،نورمحمدقادری دیوبندی اور مسئولین ماہنامہ الخیر ملتان کا عام لوگوں کے سامنے بطور حجت و استدلال پیش کرنا غلط حرکت ہے۔
علماء کو چاہئے کہ عوام کے سامنے صرف وہی روایات پیش کریں جو کہ صحیح و ثابت ہوں ۔ اس سلسلے میں علماء کو چاہئے کہ پوری تحقیق کر یں ورنہ پھر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ (
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَمَتَ نَجَا») جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔
(کتاب الزھدلابن المبارک ۳۸۵ وسندہ حسن ،سنن التر مذی: 2501)
خلاصة التحقيق
یہ بات تو ثابت ہے کہ مشہورتا بعی جناب ثابت بن اسلم البنانی رحمہ الله قبر میں نماز پڑھنے کی دعاء کرتے تھے مگر یہ بات ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے قبر میں نماز پڑھی ہے ۔
ضعیف و متروک راویوں کی روایات کی بنیاد پر اس قسم کے دعوے کرنا کہ ثابت رحمہ اللہ قبر میں نماز پڑھتے تھے، غلط اور مردود ہے۔
(۵ جمادی الاولی 1427ھ)