AAIslami
رکن
- شمولیت
- اپریل 21، 2012
- پیغامات
- 14
- ری ایکشن اسکور
- 48
- پوائنٹ
- 55
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ذیل میں قرآنِ کریم سے ایک آیت اور تفسیر ابنِ کثیر سے اس آیت کے حوالے سے ایک عبارت نقل کی گئی ہے۔
میرا سوال اہلِ علم حضرات سے یہ ہے خصوصاً اہلِ حدیث بھائیوں سے، کہ آیا اس دلیل سے وسیلہ کی شرعی حیثیت صحیح ہے یا غلط؟
سورۃ النساء، آیت نمبر ۶۴
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہےکہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کربیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے ۔ (ف۲) (64)
تفسیر ابنِ کثیر:
جاری۔۔۔۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ۔۔۔۔۔۔الخ
جواب کا انتظار رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً
ذیل میں قرآنِ کریم سے ایک آیت اور تفسیر ابنِ کثیر سے اس آیت کے حوالے سے ایک عبارت نقل کی گئی ہے۔
میرا سوال اہلِ علم حضرات سے یہ ہے خصوصاً اہلِ حدیث بھائیوں سے، کہ آیا اس دلیل سے وسیلہ کی شرعی حیثیت صحیح ہے یا غلط؟
سورۃ النساء، آیت نمبر ۶۴
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاۗءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیمًا
اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے معبوث فرمایا ہےکہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کیجاوے اور اگر جس وقت اپنانقصان کربیٹھتے تھے اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے پھر الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے الله تعالیٰ سے معافی چاہتے اور ضرور الله تعالیٰ کو تو بہ قبول کرنے والا اور رحمت کرنے والا پاتے ۔ (ف۲) (64)
تفسیر ابنِ کثیر:
جاری۔۔۔۔۔۔پھر اللہ تعالیٰ عاصی اور خطاکاروں کو ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے اور خود رسول سے بھی عرض کرنا چاہیے کہ آپ ہمارے لئے دعائیں کیجئے جب وہ ایسا کریں گے تو یقینا اللہ ان کی طرف رجوع کرے گا انہیں بخش دے گا اور ۔۔۔۔۔۔الخ
جواب کا انتظار رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
جزاک اللہ خیراً