اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
سوال :کیا اپنے آپ کو سگ مدینہ یعنی ''مدینے کا کتا''کہنا یا لکھنا جائز ہے؟ قرآن و سنت کی رو سے وضاحت فرمائیں؟
جواب:
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق بڑے بہترین انداز میں فرمائی اور اس کو اپنی مخلوقات پر شرف و بزرگی عطا کی۔ عقل و شعور کے ذریعے جانوروں سے ممتاز کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''یقینا ہم نے بنی آدم کو عزت عطا اور خشکی اور تری میں ان کو سواری دی اور ہم نے ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا۔ اور انہیں بہت سی مخلوقات پر فضیلت و برتری عنایت کی۔''(اسراء : ۷۰)
جس خالق نے انسان کو احسن تقویم میں تخلیق کیا اور اسے اپنی دیگر مخلوقات پر برتری و منزلت اور اعلیٰ مقام عطا کیا، اگر انسان اس کا صحیح شکر گزار بند ہ بن کر رہتا ہے تو وہ کبھی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس انسان کی مثال کتے سے دی جائے کیونکہ کتا نجس و پلید ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتے کی مثال مکذوبین کی پیش کی ہے یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثال کتے سے دی ہے اور اسے بری مثال کہا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
''(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر اس آدمی کا قصہ تلاوت کیجئے جس کو ہم نے اپنی آیات دیں ۔ وہ ان میں سے نکل گیا (کافر ہو گیا، اللہ سے پھر گیا ) سو شیطان اس کے پیچھے لگا۔ وہ گمراہوں سے ہو گیا اور اگر ہم چاہتے تو ان آیتوں کی وجہ سے اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے زمین پر گرنا چاہا اور اپنی خواہش پر چلا تو اس کی مثال کتے کی طرح ہے۔ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی زبان لٹکائے یا اگر (اپنے حال پر اس کو چھوڑ دے ) تب بھی زبان لٹکائے۔ یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا۔ پس آپ ان پر یہ قصے بیان کر دیں تا کہ وہ غور و فکر کریں جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ، ان کی مثلا بری ہے۔''(اعراف : ۱۷۵ تا ۱۷۷)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ کتے کی مثال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے مکذبین ہیں۔ اس کی آیات کی تصدیق کرنے والے صحیح مسلمانوں کی یہ مثال نہیں ہو سکتی۔ دوسری بات یہ عیاں ہوئی کہ کتے کی مثال بہت بری ہے۔ اس لئے کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے آپ کو کتا یا کتے کی مثل قرار دیتے ہوئے سگ مدینہ کہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
''ہمارے لئے بری مثال نہیں ہے وہ آدمی جو اپنے ہبہ میں رجوع کرا ہے (یعنی کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دے دیتا ہے پھر اس سے واپس لے لیتا ہے) اس کتے کی مثال ہے جو اپنی قے کی طرف رجوع کرتا ہے (یعنی قے کرنے کے بعد اس کو چاٹتا اور کھاتا ہے)۔''(بخاری۱۴۴/۳(۲۶۶۳)، احمد۲۱۷/۱، ترمذی۵۹۶/۳، نسائی مع حاشیہ سندھی ۱۱۷/۲)
حدیثِ مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ کتے کی مثال بہت بری مثال ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ کسی مسلمان کی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ''سگ'' یعنی کتا کہے کینوکہ کتا اتنا نجس و پلید ہے کہ جس برتن میں منہ ڈال دے، اسے شریعت مطہرہ کی رو سے سات مرتبہ دھونا پڑتا ہے کیونکہ ختم الرسل سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
''جب کتا برتن میں منہ ڈال دے تو اسے سات مرتبہ دھونا چاہیے۔'' (بخاری مع فتح الباری۱۴۹/۱۔۲۴۰، مسلم مع نووی۳/۱۸۲، مسند ابی عوانہ۲۰۷/۱، نسائی۵۲/۱۔۵۳، ابنِ ماجہ۱۴۹/۱، حمیدی۴۲۸/۲، ابنِ خزیمہ۵۱/۱، احمد۲۴۵/۲، شرح السنہ۷۳/۲، دار قطنی۱/۶۳۔۶۴)
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے:
''ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ جبرئیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا وعدہ کیا لیکن جبرئیل علیہ السلام نہ آئے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا نہ اس کے قاصد وعدہ خلافی کرتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک پلا یعنی کتے کا بچہ چارپائی کے نیچے دکھائی دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اے عائشہ یہ پلا اس جگہ کب آیا؟ انہوں نے کہا اللہ کی قسم مجھے علم نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا۔ اس وقت جبرئیل علیہ السلام آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میں تمہارے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن تم نہیں آئے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا:
''یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا، اس نے مجھے روک رکھا تھا جس گھر میں کتا اور تصویر ہو ، ہم وہاں داخل نہیں ہوتے۔''(مسلم۱۹۹/۲، ترمذی، ابو دائود۷۴/۴، مسند احمد ۸۰/۱،۸۳/۳)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ کتا اتنا پلید و نجس جانور ہے جہاں یہ ہو وہاں رحمت کے فرشتے داخل نہیں ہوتے اور جس برتن میں کتا منہ ڈال دے وہ برتن ساتھ مرتبہ دھونا پڑتا ہے۔ لہٰذا انسان کو اتنے نجس و پلید جانور کے مثال نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہنا چاہئے۔ یہ احکامات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ سمیت ہر جگہ کے کگوں سے متعلق ہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ نسبت انتہائی تذلل و عاجزی پر مبنی ہے حالانکہ یہ شیطانی فریب اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر یہ نسبت تذلل و عجز و انکساری والی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم اس سے محروم نہ ہوتے۔ خیر القرون کے لوگوں میں اس طرح کی نسبت کا اشارہ تک نہیں ملتا کہ کسی نے اپنے آپ کو مدینے کا کتا کہا ہو۔ یہ نسبت موجودہ دور کے متصوفین اور قبوری لوگوں میں ہی پائی جاتی ہے اور جو اپنے آپ کو سگ مدینہ کہتے ہیں ، ان کا دماغ اس قدر مفلوج و مائوف ہو چکا ہے کہ وہ کتوں کو بھی ولی اور صاحب کرامت بزرگ سمجھنے لگ گئے ہیں ۔ جیسا کہ مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب امامد المشتاق ص۱۵۸ میں اور حاجی امداد اللہ اپنی کتاب شمائم امدادیہ ص۷۶حصہ دوئم پر لکھتے ہیں:
''جنید بغدادی بیٹھے تھے ایک کتاسامنے سے گزرا ، آپ کی نگاہ اس پر پڑ گئی، اس قدر صاحب کما ہو گیا کہ شہر کے کتے اس کے پیچھے دوڑے ۔ وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ سب کتوں نے اس کے گرد بیٹھ کر مراقبہ کیا۔''
اسی طرح مولوی منظور احمد شاہ اپنی کتاب مدینة الرسول ص۴۰۸ پر ''مدینہ الرسول کے سگانِ محترم اور چند یادیں''کے عنوان کے تحت جماعت علی شاہ کا واقعہ لکھتا ہے کہ:
''آپ اپنے احباب میں مدینۃ الرسول کی کسی گلی میں کھڑے تھے کہ سامنے سے ایک زخمی کتا چیختا ہوا گزرا۔ اس کتے کو کسی نے پتھر مارا تھا۔ سید صاحب اس منظر کو دیکھ کر بے خود ہو گئے۔ اس بے خودی میں سگ طیبہ کو کلاوے میں لے لیا۔ اپنی دستار سے اس کا خون صاف کیا، پھر ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے کہا، اے سگ طیبہ ، خدارا بارگاہ رسالت میں میری شکایت نہ کر دینا پھر دیر تک سگ طیبہ کو کلاوے میں لے کر روتے رہے۔''
اسی طرح صفحہ۴۰۹ پر لکھتا ہے:
''۱۹۶۸ء کی بات ہے ۔ پیر سید حیدر علی شاہ نے مجھے مدینة الرسول میں یہ واقعہ سنایا۔ ایک حاضری پر سید نا نے فرمایا، آج مدینة الرسول کے درویشوں کی دعوت ہے، دیگیں پکوا دی گئیں ، بازار سے نئے برتن منگوا لئے گئے۔ عرض کی گئی حضور درویشوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہو گا؟ فرمایا یہ درویش آئیں گے نہیں تمہیں ان کے حضور جا کر نذرانہ خود پیش کرنا ہو گا۔ فرمایا، یہ روٹیاں ، یہ گوشت مدینہ منورہ کے سگانِ محترم کو پیش کیا جائے۔ چنانچہ تلاش کر کے حکم کی تعمیل کی گئی۔''
اسی طرح ص۴۰۹،۴۱۰ پر ''سگ طیبہ کی نوازش'' کے عنوان کے تحت رقمطراز ہے۔
''ایک حاضری میں مدینہ منورہ سے واپسی کی سار رات سگانِ مدینہ کی زیارت میں صرف کر دی۔ شوق کا یہ عالم تھا کہ ان کی قدم بوسی کر کے مدینہ سے رخصت ہوں۔ یہ بھی شوق تھا کہ سگ طیبہ کی آواز بھی ریکارڈ کر لوں۔ ٹیپ لے کر گھومتا رہا، کسی سگ نے مجھے اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔ جوں ہی کسی سگ طیبہ کے قریب گیا اُس نے مجھ سے نفرت کی اور دور چلا گیا۔ سحری کے قریب ایک سگ طیبہ کو سویا ہوا پیا دور بیٹھ گیا کہ اس کی بیداری پر سلام عرض کروں گا۔ ایک کار کی آواز سے وہ بیدار ہو گیا۔ میں نے قریب جانے کی کوشش کی تو وہ نفرت سے بھاگ گیا۔ میں نے وہیں کھڑے منت و سماجت کی اور خدا کے لئے قدم بوسی کا موقع دے دو۔ صبح
مدینہ چھوٹ رہا پھر قسمت کی بات ہے
بات بنتی ہے میری ، تیرا بگڑتا ہے کیا
مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میری اس عاجزانہ درخواست پر وہ رک گیا۔ میں قریب ہوا تو ، قدم بوسی کی، اس کی آواز ٹیپ کی اور صبح کی اذان ہوتے ہی میں وہاں سے چلا تو کم وب بیش ٥٠ قدم سگ طیبہ میرے ساتھ آیا، سگ طیبہ کی اس نوازش کو کبھی بھی نہیں بھول سکتا کہ مجھے قریب جانے کا موقع دیا اور ٥٠ قدم میرے ساتھ چل کر مجھے شرف بخشا۔''
قارئین کرام !مذکورہ بالا واقعات با حوالہ آپ کے سامنے ذکر کئے ہیں۔ ان سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جو انسان اللہ تعالیٰ کی توحید چھوڑ کر شرک کے دامن میں پناہ لے لیتا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح منہج کو ترک کر کے بدعات اور رسوم ورواج سے اپنے آپ کو وابستہ کر لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس سے اپنی رحمت اُٹھا لیتا ہے، پھر وہ در در کی ٹھوکریں کھاتا ہے حتیٰ کہ کتوں کو کلاوے میں لے کر روتا پھرتا ہے ، کبھی وہ کتوں کو بوسہ دیتا ہے اور کبھی گلیوں میں کتوں کی محبت سے گھومتا ہو راتیں گزارتا ہے اور کتے کی قدم بوسی اور آواز ریکارڈ کرنے کے لئے مارا مارا پھرتا ہے۔ کبھی کتوں سے عشق سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درویش بنا دیتا ہے اور کتوں کے دربار پر نذرانہ لے کر پیش ہوتا ہے۔ یہ گندے کام اپنے آپ کو انسانیت سے خارج کر کے کتاکہنے لگتا ہے۔ کتا خواہ بریلی شریف کا ہو یا دیوبند کا مدینے کا ہو یا مکے کا غرض کسی جگہ کا بھی کیوں نہ ہو۔ اس کے متعلق شریعت مطہرہ کا یہی حکم ہے کہ وہ جس برتن میں منہ ڈال دے ، وہ برتن پلید ہو جاتا ہے۔ جہاں موجود ہو، وہاں رحمت کا فرشتہ داخل نہیں ہوتا۔ وہ کتے مدینے منورہ کے ہی تھے جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ احکامات ارشاد فرمائے بلکہ بعض سگ مدینہ کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شیطان کہا جیسا کہ صحیح مسلم ، ابو دائود، ترمذی، نسائی، ابنِ ماجہ اور مسند احمد وغیرہ میں حدیث ہے کہ:
''سیاہ کتا شیطان ہے۔''
بعض سگ مدینہ وہ ہیں جن کے قتل کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا فرمایا:
''وہ کالا کتا جس کی آنکھوں پر دو نقطے ہوں ، اسے قتل کر دو اس لئے کہ وہ شیطان ہے۔'' (مسلم ، کتاب البیوع)
اسی طرح سگ مکہ معظمہ کو بھی حالت ِ احرام میں قتل کرنا جائز ہے۔ (متفق علیہ )
اسی طرح ایک مقام پر فرمایا:
''جب تم رات کو کتے کی آواز سنو تو اعوذ باللہ پڑھو۔''(ابو دائود، احمد ، حاکم ، بلوغ الامانی۴۶۰/۱۴)
ان تمام مفاسد کی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی مثال کو برا قرار دیاہے ، اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے لہٰذا جس کی مثال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے برا قرار دیا ہو تو کسی انسان کو لائق نہیں کہ وہ ان احکامات کو جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو کتا کہے۔ اپنے آپ کو کتا کہنا عقل و نقل کے بھی خلاف اور ناجائز و غیر مشروع ہے۔