اہل حدیث یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھنے والوں سے متعلق ایک حدیث آپ سے شیئر کرتا ہوں قبول فرمائیں شکریہ
اولاً: اس حدیثِ مبارکہ میں
اہل الحدیث اور
حدیث پڑھنے کا ذکر کہاں ہے؟؟؟ اگر یہ آپ کا
ذاتی خیال ہے کہ اس سے مراد اہل الحدیث ہیں تو دین اسلام میں اس طرح کے
ظنّ وتخمین کی کوئی حیثیت نہیں، فرمانِ باری ہے:
وما يتبع أكثرهم إلا ظنا إن الظن لا يغني من الحق شيئا إن الله عليم بما يفعلون
صحابہ کرام اور تمام سلف صالحین نے تو اس حدیث مبارکہ سے
خوارج مراد لیے ہیں۔ اسی لئے امام بخاری نے اس حدیث مبارکہ کو
باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة
کے تحت ذکر فرمایا ہے۔
اور خوارج کے عقائد معروف ہیں (مثلاُ مرتکب الکبیرۃ کو کافر اور خالد مخلد فی النار سمجھنا اور اس بناء پر بہت سے صحابہ کرام بشمول سیدنا علی، طلحہ وزبیر کی تکفیر وغیرہ وغیرہ) اور اہل الحدیث ان سے کوسوں دور ہیں، وللہ الحمد والمنہ
ثانیا: اس حدیث کے راوی سیدنا علی بن ابی طالب ہیں، آپ کے خیال میں کیا وہ اور دیگر صحابہ کرام حدیث نہیں پڑھتے تھے؟؟؟ اگر پڑھتے تھے تو آپ کا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟؟؟
ثالثا: پہلے آپ حضرات عام لوگوں کو اس حیلے سے قرآن پڑھنے سے روکتے تھے کہ قرآن کو پڑھنے کیلئے اتنے اور اتنے علوم کی ضرورت ہے۔ اب اس ڈھگوسلے سے لوگوں کو حدیث سے متنفر کرنے کی سعی نا مسعود کی جارہی ہے، تاکہ عوام کہیں قرآن وحدیث خود پڑھ کر شرکیہ اور بدعی باتوں کی حقیقت نہ جان لیں اور کہیں ان درباری اور قبرپرست حضرات کی لگی بندھی روزی ہی ختم نہ ہو جائے۔
حدیث نمبر: 6930
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا خيثمة، حدثنا سويد بن غفلة، قال علي ـ رضى الله عنه ـ إذا حدثتكم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا فوالله، لأن أخر من السماء أحب إلى من أن أكذب عليه، وإذا حدثتكم فيما بيني وبينكم فإن الحرب خدعة، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " سيخرج قوم في آخر الزمان، حداث الأسنان، سفهاء الأحلام، يقولون من خير قول البرية، لا يجاوز إيمانهم حناجرهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية، فأينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن في قتلهم أجرا لمن قتلهم يوم القيامة ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم ہمارے سے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا ہم سے خیثمہ بن عبدالرحمٰن نے، کہا ہم سے سوید بن غفلہ نے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا جب میں تم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کروں تو قسم خدا کی اگر میں آسمان سے نیچے گرپڑوں یہ مجھ کو اس سے اچھا لگتا ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں ہاں جب مجھ میں تم میں آپس میں گفتگو ہو تو اس میں بنا کر بات کہنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے) لڑائی تدبیر اور مکر کا نام ہے۔ دیکھو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے اخیر زمانہ قریب ہے جب ایسے لوگ مسلمانوں میں نکلیں گے جو نوعمر بیوقوف ہوں گے (ان کی عقل میں فتور ہو گا) ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف اوراہلحدیث کہلائیں گے) وہ پڑھیں گے مگر درحقیقت ایمان کا نور ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے پار نکل جاتا ہے۔ (اس میں کچھ لگا نہیں رہتا) تم ان لوگوں کو جہاں پانا بے تامل قتل کرنا، ان کو جہاں پاؤ قتل کرنے میں قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
حدیث مبارکہ کے الفاظ
يقولون من خير قول البريةکے ترجمے میں آپ نے بریکٹ میں جو اضافہ کیا ہے
ظاہر میں تو ساری خلق کے کلاموں میں جو بہتر ہے (یعنی حدیث شریف اور اہلحدیث کہلائیں گے) وہ پڑھیں گے
وہ سراسر نبی کریمﷺ پر افتراء ہے اور نبی کریمﷺ پر افتراء کی سزا جہنم ہے،
« من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار »
ویسے بھی نبی کریمﷺ کے اس فرمان سے مراد حدیث ہے ہی نہیں،
قرآن کریم مراد ہے، جیسے صحيح بخاری کی ہی انہی خوارج کے متعلق دیگر بہت سی روایات میں صراحت ہے:
يقرءون القرآن اس لئے تمام محدثین نے اس سے مراد قرآن یا
لا حكم إلا لله جیسے قرآنی جملے مراد لیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہماری اصلاح فرمائیں! اور ہمیں ایسے اندھے تعصّب سے بچائیں جو ہمیں قرآن وحدیث کی تحریف پر مجبور کر دے۔