lovelyalltime
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 28، 2012
- پیغامات
- 3,735
- ری ایکشن اسکور
- 2,899
- پوائنٹ
- 436
کیا بیعت پیری مریدی والی بیعت ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آجکل جہاں اور بہت سے اسلامی مسائل میں ایک عام آدمی صحیح فیصلہ نہیں کر پارہا ان میں ایک اہم مسئلہ بیعت کا بھی ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر بیعت کر کے جاہلیت کی موت سے بچ سکے کیونکہ اس پر احادیث موجود ہیں کہ جس نے بیعت نہ کی اور مرگیا تو اس کا مرنا جاہلیت کا سا مرنا ہے، اور یہ معاملہ ہے بھی بہت تشویش والا اس میں ہم سب کو پریشانی ہونی چاہیے کہ کہیں وہ جاہلیت کی موت نہ مارا جائے۔ تو بعض لوگوں نے اس کا غلط مطلب لے کر یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اب بیعت ہے ہی نہیں ہےبیعت تو اسلام کی ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ کون سی بیعت ہوتی ہے، تو اس طرح انہوں نے بیعت کا ہی انکار کر دیا ہےجو کہ اچھی بات نہیں ہے۔ اور بعض لوگوں نے اس بیعت کو ہرکسی کے لیے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آدمی کو جو کوئی بھی اچھالگے تو اس کی بیعت کر لینی چاہیے وہ جائز ہے، اور اب چاہے ایک ہی علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ہوں کہ جن کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہوئی ہو، تو یہ دونوں طریقے قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں، اب یہ عرض بھی کرتا چلوں کہ اب کوئی یہ نہ کہے کہ فلاں مولوی صاحب نے اس پیری مریدی کو جائز کہا ہے فلاں نے اس کو جائز کہا ہے بلکہ خود بیعت لیتے ہیں تو محترم بہن بھائیو ہم نے جس عظیم ہستی کی رسالت کا اقرار کلمے میں کیا ہے ہم کو چاہیے کہ اپنے عمل سے بھی اس کو ثابت کریں اور جو حقِ پیروی ان صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ کسی کو بھی نہ دیں، کیونکہ دین اسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مکمل ہو گیا تھا اگر تو کوئی قرآن و صحیح حدیث سے موجودہ پیری مریدی کو ثابت کردے تو صحیح ورنہ کسی کی بات کو جواز بنا کر ہم دین میں کوئی اضافہ کرنے کی جسارت نہ کریں تو یہ ہمارے حق میں اچھا رہے گا۔
ان شاءاللہ تعالی۔
اب آتے ہیں اس بات کی طرف کہ قرآن و صحیح حدیث میں جو بیعت کا ذکر ہے وہ بیعت کس کی ہے اور اس کا مقصد کیا ہے، اللہ سے دُعا ہے کہ وہ حق بات کرنے، حق بات کو قبول کرنے اور حق بات پر عمل کرنے کی ہم سب کو توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین۔
ابوالنعمان، ابوعوانہ، حضرت زیاد بن علاقہ کہتے ہیں کہ جس دن مغیرہ بن شعبہ کا انتقال ہوا، اس دن میں نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا (پہلے) وہ کھڑے ہو گئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی، پھر (لوگوں سے مخاطب ہو کر) کہا، کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں آپ سے اسلام پربیعت کرتا ہوں، تو آپ نے مجھ سے مسلمان رہنے اور ہر مسلمان سے خیر خواہی کرنے کی شرط پربیعت لی، پس میں نے اسی پر آپ سے بیعت کی، قسم ہے اس مسجد کے پروردگار کی، بے شک میں تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں اس کے بعد انہوں نے استغفار کیا اور (منبر سے) اتر آئے۔
صحیح بخاری:جلد اول:کتاب : ایمان کا بیان
اس حدیث سے ثابت ہو کہ اسلام کی بیعت بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیا کرتے تھے اور ساتھ ہر مسلم کی خیر خواہی چاہنے کی بھی، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مختلف باتوں پر بھی بیعت لی تھی مثلا شرک نہ کرنے،زنا نہ کرنے، چوری نہ کرنے، کسی پر بہتان نہ باندھنے، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہ کرنے، جہاد سے نہ باگنے وغیرہ پر بھی بیعت لی گئی ہے دوسری سب بیعتیں اسلام کی بیعت کے بعدلی جاتی تھیں۔
حضرت نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ واقعہ حرہ کے وقت جو یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں ہوا عبد اللہ بن مطیع کے پاس آئے تو ابن مطیع نے کہا ابوعبدالرحمن کے لئے غالیچہ بچھاؤ تو ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں آپ کے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تو آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کو ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکال لیا تو وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اسکے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو اس حال میں مرا کہ اسکی گردن میں بیعت کا قلادہ نہ ہو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
اب بات آتی ہے کہ نبی علیہ السلام کے بعد بیعت کس کی کرنے کا حکم ہے کہ جس کو نہ کرنے سے مسلمان کی موت جاہلیت کی موت بن جاتی ہے، اور ہاں یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض لوگ جاہلیت کی موت کو کفر کی موت قرار دیتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے اس بیعت کے معاملے میں جتنی بھی احادیث ملتی ہیں سبھی میں جاہلیت کی موت ہی کہا گیا ہے نہ کہ کفر کی موت، اگر یہ کفر کی موت مراد لی جائے تو اس وقت کوئی بھی مسلمان نہیں رہے گا:::کیونکہ اس وقت خلیفہ کا وجود بظاہر کہیں نظر نہیں آ رہا کہ جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے::: بلکہ اس بات کو اتنا ہی لینا ہے جتنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سے تجاوز کرنا بھی جاہلیت ہے تو کیا اس کو کوئی کفر کہے گا؟؟؟ اس حدیث میں جو فرمایا گیا ہے کہ جس نے اطاعت امیر سے ہاتھ نکالا، کا مطلب ہے کہ جس نے خلیفہ کی بیعت کو توڑا قیامت کے دن اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوگی عذاب سے بچنے کے لیے،
اصل میں معاملہ ہمیشہ تبھی خراب ہوتا ہے جب انسان اپنی ناقص عقل کو یا کسی اور کے فہم اور سوچ کو دین کے یا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مقابلے پر استعمال کرتا ہے، اگر ہم بات کو اتنا ہی لیں جتنا کہ ہم کو بتائی گئی ہے تو ممکن نہیں کہ کوئی مسئلہ بنے۔
آگے چلتے ہیں۔۔۔۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوسرا خطبہ سنا جب کہ وہ منبر پر بیٹھے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا دوسرا دن تھا، انہوں نے خطبہ پڑھا اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ خاموش بیٹھے ہوئے تھے، کچھ نہیں بول رہے تھے، انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ رہیں گے، یہاں تک کہ ہمارے بعد انتقال فرمائیں گے، پھر اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتقال فرما گئے تو اللہ نے تمہارے سامنے نور پیدا کر دیا ہے کہ جس کے ذریعے تم ہدایت پاتے ہو، جس سے اللہ تعالی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کی بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو غار میں دوسرے ساتھی تھے مسلمانوں میں سے تمہارے امور کے مالک ہونے کے زیادہ مستحق ہیں، اس لئے اٹھو اور ان کی بیعت کرو، ان میں سے ایک جماعت اس سے پہلے سقیفہ بنی ساعدہ ہی میں بیعت کر چکی تھی، اور عام بیعت منبر پر ہوئی، زہری نے حضرت انس بن مالک، کا قول نقل کیا ہے، کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس دن سنا کہ حضرت ابوبکر سے کہتے ہوئے کہ منبر پر چڑھیے اور برابر کہتے رہے، یہاں تک کہ وہ منبر پر چڑھے اور لوگوں نے عام بیعت کی۔
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب: احکام کے بیان
عبد اللہ بن محمد بن اسماء، جویریہ، مالک، زہری، حمید بن عبدالرحمن، مسور بن مخرمہ سے روایت کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا) میں اللہ اور اس کے رسول علیہ السلام اور آپ دونوں خلیفہ کی سنت پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔
صحیح بخاری:جلد سوم: کتاب: احکام کے بیان
ان واقعات سے ثابت ہو رہا ہے کہ نبی علیہ السلام کے بعد بیعت خلیفہ کا حق ہے نہ کہ کسی اور کا اور اس پر بےشمار احادیث مبارکہ موجود ہیں کہ بیعت خلیفہ، امام، امیرالمومین کے ہاتھ پر ہوتی ہے اس کی دلیل میں اور حدیث دیتا ہوں۔ نبی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ فُرَاتٍ الْقَزَّازِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ قَالَ قَاعَدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ خَمْسَ سِنِينَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمْ الْأَنْبِيَائُ کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَتَکُونُ خُلَفَائُ تَکْثُرُ قَالُوا فَمَا تَأْمُرُنَا قَالَ فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِوَأَعْطُوهُمْ حَقَّهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ سَائِلُهُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاهُمْ
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
حضرت ابوحازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہا تو میں نے ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث روایت کرتے ہوئے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وفاداری کرو پہلی بیعت ( کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ، اور احکام کا حق انکو ادا کرو بے شک اللہ ان سے انکی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم: امارت اورخلافت کا بیان
یعنی کہ بنی اسرائیل میں ایک نبی کی وفات کے بعد دوسرا نبی ہی آتا تھا جو ان کی سیاست و امارت کرتا تھا، ہمارے نبی علیہ السلام کے بعد کیونکہ کوئی نبی نہیں آنا تھا اس لیے فرمایا کہ میرے بعد خلفاء ہوں گے:::یہ بھی ممکن ہے اس سے مراد ایک کے بعد ایک خلیفہ مراد ہو::: تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ ایک وقت میں اگر زیادہ خلفاء ہوں تو پھر کیا حکم ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ:::فُوا بِبَيْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ::: تم وفاداری کرو پہلی بیعت ( کے حامل) کے ساتھ اور پھر پہلی بیعت کے ساتھ، یعنی کہ اگر ایسا ہو تو جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت ہوئی ہوگی اس خلیفہ کی اطاعت کی جائے گی اس سے یہ چیز بھی ملتی ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک وقت میں دنیا میں دو، تین یاچار خلیفہ اس وجہ سے ہوں کہ ایک دوسرے کے علم میں نہ ہو کہ کوئی اور بھی خلیفہ ہے تو پھر کسی طرح ان کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے پھر دونوں یہ بات دیکھیں گے کہ پہلے کس کے ہاتھ پر بیعت ہوئی ہے تو جو پہلا خلیفہ ہو گا اس کی خلافت قائم رہے گی دوسری کی ختم ہوجائے گی اور دوسرا خلیفہ خود اور اپنے مامورین کے ساتھ پہلی بیعت کے حامل خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرئے گا کیونکہ اب شرعی خلیفہ پہلا ہے نہ کہ بعد والا یہی طریقہ آخر کار تمام خلفاء اور مسلمانوں کو مجتمع کردے گا ایک امام کے ہاتھ پر، ان شاءاللہ
اسلام میں ایک وقت میں صرف ایک خلیفہ ، امام ، امیرالمومین ہوتا ہے اگر کوئی دوسرا پہلے کے ہوتے بیعت لے تو اس کو قتل کرنے کا حکم نبی علیہ السلام نے دیا ہے، اسلام امت میں وحدت و اتحاد کا داعی ہے نہ کہ افتراق و انتشار کا، اسی لیے آپ علیہ السلام نے اتنا سخت حکم فرمایا ہے کہ دوسرے کو قتل کردیا جائے چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےارشاد ات مبارکہ ہیں کہ
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو ان دونوں میں سے دوسرے کو قتل کردو۔