• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا بینک میں نوکری کرنا صحیح ہے ؟؟؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال جاننا اور اُن کو حلال قرار دینا نہ صرف یہ کہ اللہ کے غضب کو دعوت دینے والی بات ہے بلکہ اپنے ایمان کو بھی خطرے میں ڈالنے والی بات ہے، کچھ بعید نہیں کہ انسان اس عمل کی وجہ سے دائرہ اسلام سے بھی خارج ہو جائے۔ اللہ سے ہدایت کا سوال ہے۔
محترم بھائی آپکی اس بات پر میرے خیال میں تمام علماء کا سو فیصد اتفاق ہے اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے امین
عام لوگوں کے لئے تھوڑی سی اور وضاحت کر دوں تو بے جا نہ ہو گا کہ سود جیسے گناہ کبیرہ کے تناظر میں علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ یہ حکم تب نہیں ہو گا جب کوئی گناہ سمجھتے ہوئے کرے- جزاک اللہ
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
محترم بھائی آپکی اس بات پر میرے خیال میں تمام علماء کا سو فیصد اتفاق ہے اللہ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے امین
عام لوگوں کے لئے تھوڑی سی اور وضاحت کر دوں تو بے جا نہ ہو گا کہ سود جیسے گناہ کبیرہ کے تناظر میں علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ یہ حکم تب نہیں ہو گا جب کوئی گناہ سمجھتے ہوئے کرے- جزاک اللہ
ایک ہوتا ہے گناہ کو گناہ سمجھنا اور اس پر نادم ہونا، اور ایک ہوتا ہے گناہ پر دلیر ہو جانا اور اس کو حلال سمجھنا، آخر الذکر کفر ہے۔
 
شمولیت
اگست 10، 2013
پیغامات
365
ری ایکشن اسکور
316
پوائنٹ
90
یہی تو بات ہے ساری ارسلان بھائی کہ ہم لوگ رہ تو اسلام ملک میں ہیں کچھ بھی تو ایسا نہیں جو شریعت کے حساب سے ہو۔۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔۔ آمین یا رب العالمین ۔۔
 
شمولیت
اگست 10، 2013
پیغامات
365
ری ایکشن اسکور
316
پوائنٹ
90
عبدہ بھائی
البتہ اگر آپکی خواہش ہے بینک والے باقی کاموں کے لئے کوئی متبادل نظام دیا جائے تو اس پر ابھی مصروفیت کی وجہ سے کچھ نہیں لکھ سکتا بعد میں ان شاء اللہ کافی تفصیل سے بشرط فرصت تھریڈ شروع کروں گا جزا کِ اللہ
اس تھریڈ کا انتظار رہے گا ۔۔ جزاک اللہ ۔۔
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
میرا ایک سوال ہے
کیا بینک میں نوکری کرنے والے شخص کے گھر سے کھانا حرام ہو گا یا نہیں ..……؟؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی سود سے توبہ کر چکا ہوں لیکن اس کے پاس سودی رقم موجود ہو یا اس نے سودی پیسوں سے جو زمین خریدی ہے، یا جائیداد بنائی ہے یا جس گھر میں رہتا ہے وہ سب سودی رقم سے خریدا گیا ہے؟ کیا وہ سب حرام ہو گا اس پر، اس رقم کا، اس جائیداد کا وہ کیا کرے…؟؟ اس کے گھر میں جو بھی کھانا استعمال ہو رہا ہے کیا وہ سبھی باہر پھینک دے…؟؟ کیا کرے اس کا
یا اگر اس کے پاس سودی رقم ہے تو کیا اس رقم سے کسی شخص کی ضرورت پوری کر سکتا ہے کہ نہیں؟؟
کوئی بھائی مکمل اس کی وضاحت کر دے
@انس @ابوالحسن علوی @کفایت اللہ @اسحاق سلفی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
محترم بھائی ::
آپ کا سوال بہت اہم ہے ۔اس لئے اس کا اصل جواب تو مذکور اہل علم ہی دیں گے ۔
البتہ فی الحال بندہ درج ذیل فتوی پیش کئے دیتا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بینک ملازم کے گھر کھانا کھانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرا سوال یہ ہے کہ ایک بندہ جو بینک میں ملازم ہے اور اس کا گھر بینک کی تنخواہ سے چلتا ہے اس کے گھر جانا کیسا ہے ؟ نیز اگر قریبی رشتہ داری ہو اور وہ اپنے گھر میں بلا رہے ہوں لیکن کھانے کی ضیافت وہ اپنے بیٹے کی حلال کمائی سے کرنا چاہیں تو ان کی دعوت قبول کی جا سکتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بینک ملازمین کی آمدن حرام ہے، اس لیے بینک ملازم کے ہاں نہ تو کھاپی سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی گاڑی یا کوئی بھی وہ چیز جو اس حرام آمدن سے خریدی گئی ہو استعمال کرسکتے ہیں ۔اگر آپ کے محتاط رویہ سے وہ ناراض ہوں اور قطع تعلق کریں تو پھر وہی گناہ گار ہوں گے۔ ان کے ساتھ صرف دعاء و سلام رکھیں تو یہ قطع تعلقی کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ البتہ اگر آمدن کا کوئی حلال ذریعہ بھی ہو جس کی مقدار بینک کی آمدن سے زیادہ ہو تو پھر کھانا کھانے کی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ آپ کو یقین ہو کہ یہ دعوت مال حلال سے تیار کی گئی ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
محدث فتوی

فتوی کمیٹی
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/7122/0/
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور یہ حدیث بھی پیش نظر رکھیں
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيها الناس، إن الله طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين، فقال: {يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا، إني بما تعملون عليم} [المؤمنون: 51] وقال: {يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم} [البقرة: 172]
ثم ذكر الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء، يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، ومشربه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك؟ "

(صحیح مسلم ۔الزکاۃ )
حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگوں اللہ پاک ہے اور پاک ہی کو قبول کرتا ہے اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو اس نے رسولوں کو دیا اللہ نے فرمایا اے رسولو! تم پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو میں تمہارے عملوں کو جاننے والا ہوں اور فرمایا اے ایمان والو ہم نے جو تم کو پاکیزہ رزق دیا اس میں سے کھاؤ پھر ایسے آدمی کا ذکر فرمایا جو لمبے لمبے سفر کرتا ہے پریشان بال جسم گرد آلود اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف دراز کر کے کہتا ہے اے رب اے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام اور اس کا پہننا حرام اور اس کا لباس حرام اور اس کی غذا حرام تو اس کی دعا کیسے قبول ہو۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
علامہ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا یہ فتوی بھی ملاحظہ فرمائیں :
[ السؤال: ] فضيلة الشيخ! رجل يعمل في بنك يتعامل بالربا، فزار قرابة له وجاء معه بهدايا من طعام وملابس لأولئك القرابة، فما حكم استعمال أولئك القرابة لهذه الملابس وأكلهم لهذا الطعام هل يحل لهم أم يحرم عليهم؟

الجواب: يحل لهم أن يأكلوا؛ لأن من كسب مالاً على وجه محرم وليس المال محرماً لعينه فإنه يجوز لمن أخذه منه بطريق شرعي أن يأكل منه، وهؤلاء أخذوها بطريق شرعي وهو الهدية، لكن إذا كانوا امتنعوا من قبول هديته صار سبباً لبعده عن الربا فإنه في هذه الحالة يجب عليهم أن يردوا الهدية، وأن يبينوا له أنهم إنما ردوا الهدية لكونه يتعامل بالربا حتى يتوب، أما إذا كان لن يقلع عما هو عليه فلا حرج عليهم في قبول هديته، ونحن نعلم أن الرسول صلى الله عليه وسلم قبل هدية اليهود، ففي خيبر قبل هدية المرأة التي أهدت له الشاة، وفي المدينة دعاه غلام يهودي إلى خبز شعير وإهالة سنخة فأجاب عليه الصلاة والسلام، وكذلك عامل رجلاً يهودياً اشترى طعاماً لأهله، ورهنه النبي صلى الله عليه وسلم درعه، ومات النبي صلى الله عليه وسلم ودرعه مرهونة عند هذا اليهودي. فعلى هذا نقول لهؤلاء الجماعة: إذا كان ردكم لهديته يفضي إلى تركه التعامل بالربا فردوها، وإذا كان لا يفضي إلى ذلك، وأن الرجل لن يهتم بردكم أو قبولكم فلا بأس بقبول هذه الهدية.
[اللقاء الشهري لابن عثيمين - منقول عن الشاملة]
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
اسحاق سلفی بھائی یہ بات تو مجھے معلوم ہے کہ سودی کاروبار یا بینک ملازمین کے گھر سے کھانا کھانے کو علماء منع کرتے ہیں لیکن ایک بندہ ان کے گھر سے کھانا کھاتا ہے تو کیا وہ حرام شمار ہو گا کہ نہیں؟ کیونکہ حرام تو اس پر ہے جس نے حرام کمایا ہے دوسرے بندے پر حرام تو نہیں ہو گیا نا ..…
ہاں سودی کاروبار کرنے والے اپنے عزیز یا دوست کو ترغیب دلانے کیلئے یا اس سے(اس فعل کی وجہ سے) اظہار برأت کرتا ہے تو یہ مستحسن عمل ہے لیکن یہ اس پر حرام نہیں جس طرح ختم، قرآن خوانی وغیرہ کا کھانا ہوتا ہے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اسحاق سلفی بھائی یہ بات تو مجھے معلوم ہے کہ سودی کاروبار یا بینک ملازمین کے گھر سے کھانا کھانے کو علماء منع کرتے ہیں لیکن ایک بندہ ان کے گھر سے کھانا کھاتا ہے تو کیا وہ حرام شمار ہو گا کہ نہیں؟ کیونکہ حرام تو اس پر ہے جس نے حرام کمایا ہے دوسرے بندے پر حرام تو نہیں ہو گیا نا ..…
آپ کے اس سوال کا جواب اوپر علامہ ابن عثیمین ؒ کے عربی فتوے میں موجود ہے ،
ایک مزید فتوی اس پر ملاحظہ فرمائیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقد قرر أهل العلم أن من كان له مال مختلط من الحلال والحرام ، فإنه يجوز الأكل من ماله ، وتجوز سائر وجوه معاملته ، إلا أن التورع عن ذلك أولى .
أما احتجاج والدك بأن ذلك ضرورة ، فهو غير صحيح ، لأن أبواب الحلال كثيرة جدا ، وقد قال تعالى : ( ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب ) ، ولو فتح الإنسان على نفسه هذا الباب ، لولج كل أبواب الحرام بحجة الضرورة .

واعلم أن أكل الحرام له عواقب وخيمة ، لو لم يكن منها إلا الحرمان من إجابة الدعاء ، كما جاء في صحيح مسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال : " إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لا يَقْبَلُ إِلا طَيِّبًا ... ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ يَا رَبِّ يَا رَبِّ وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ فَأَنَّى يُسْتَجَابُ له " رواه مسلم برقم 1015

ومال أبيك الذي اكتسبه عن طريق هذا العمل المحرّم يسمّيه العلماء مالاً محرّماً لكسبه ، أي أنه اكتسبه بطريق محرّم ، وقد ذهب بعض العلماء إلى أن هذا المال يكون حراماً على مكتسبه فقط ، وأما من أخذه منه بطريق مباح فلا يحرم عليه كما لو أعطاك والدك هدية أو نفقة وما أشبه ذلك .

قال الشيخ ابن عثيمين :

" قال بعض العلماء : ما كان محرما لكسبه ، فإنما إثمه على الكاسب لا على من أخذه بطريق مباح من الكاسب ، بخلاف ما كان محرما لعينه ، كالخمر والمغصوب ونحوهما ، وهذا القول وجيه قوي ، بدليل أن الرسول صلى الله عليه وسلم اشتري من يهودي طعاما لأهله ، وأكل من الشاة التي أهدتها له اليهودية بخيبر ، وأجاب دعوة اليهودي ، ومن المعلوم أن اليهود معظمهم يأخذون الربا ويأكلون السحت ، وربما يقوي هذا القول قوله صلى الله عليه وسلم في اللحم الذي تصدق به على بريرة : ( هو لها صدقة ولنا منها هدية ) " القول المفيد على كتاب التوحيد 3 / 112

وقال الشيخ ابن عثيمين :

" وأما الخبيث لكسبه فمثل المأخوذ عن طريق الغش ، أو عن طريق الربا ، أو عن طريق الكذب ، وما أشبه ذلك ؛ وهذا محرم على مكتسبه ، وليس محرما على غيره إذا اكتسبه منه بطريق مباح ؛ ويدل لذلك أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعامل اليهود مع أنهم كانوا يأكلون السحت ، ويأخذون الربا ، فدل ذلك على أنه لا يحرم على غير الكاسب " تفسير سورة البقرة 1/198

وعليه ، فلك أن ترث والدك ، وليس عليك أن تحسب ما أدخله عليك ، أو أن ترد ما أدخله عليك ، إلا أن التورع عن الأكل من ماله إن استطعت أولى .

والله أعلم .

للمزيد انظر ( أحكام القرآن لابن العربي 1 / 324 ، المجموع 9 / 430 ، الفتاوى الفقهية الكبرى للهيتمي 2 / 233 ، كشاف القناع 3 / 496 ، سؤال رقم 21701 ) .

الإسلام سؤال وجواب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :

علماء كرام كا فيصلہ ہے كہ جس كے مال ميں حلال وحرام ملا جلا ہو اس كے مال سے كھانا جائز ہے اور ہرطرح كےمعاملات كرنےجائز ہيں ، لكين اس سے بچنا اولي اورافضل ہے .

{اور جوكوئي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرے اللہ تعالي اس كےليے نكلنے كا راستہ بنا ديتا ہے اور اسے روزي وہاں سے عطا كرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھي نہيں ہوتا}
اور اگرانسان اپنے ليے يہ دروازہ كھول لے توضرورت كودليل بنا كر حرام كے ہردروازے ميں داخل ہوجائے گا .
جوشخص يہ مال كسي مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرے اس پر حرام نہيں مثلا اگر آپ كے والدآپ كو ہديہ ديں يا پھر خرچہ وغيرہ ديں تو آپ كےليے يہ حرام نہيں .

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتے ہيں :

بعض علمائے كرام كا كہنا ہے كہ: حرام كمائي كا گناہ صرف كمائي كرنے والے پرہے نہ كہ كمائي كرنےوالے شخص سے حاصل كرنےوالے پرجس نے مباح اور جائزطريقہ سے حرام كمائي والے شخص سے حاصل كيا، بخلاف اس چيزكے جوبعينہ حرام ہو مثلا شراب اور غصب كردہ چيز وغيرہ .

يہ قول قوي اور وجيہ ہے اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے گھر والوں كےليے ايك يہودي سے غلہ خريدا تھا ، اور خيبرميں ايك يہودي عورت كي جانب سے ہديہ كردہ بكري كا گوشت كھايا ، اور يہودي كي دعوت قبول كي .

يہ معلوم ہونا چاہيے كي اكثر يہودي سود ليتے اورحرام خور ہيں ، اور اس قول كي تقويت رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كے مندرجہ ذيل قول سے بھي ہوتي ہے :
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے بريرہ رضي اللہ تعالي عنہا پر صدقہ كيےگئےگوشت كےبارہ ميں فرمايا : ( وہ اس كےليےتوصدقہ اوراس كي جانب سے ہمارے ليے ہديہ ہے ) ديكھيں القول المفيد علي كتاب التوحيد ( 3 / 112 )

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھي كہنا ہے :
جوخبيث اور حرام طريقہ سے كمايا گيا ہو مثلا دھوكہ اور فراڈ سے حاصل كردہ ، يا پھر سود كے ذريعہ يا جھوٹ وغيرہ كے ذريعہ حاصل كردہ مال يہ كمانے والے پر حرام ہے اس كے علاوہ كسي اور پر حرام نہيں اگراس نے مباح اور جائز طريقہ كےساتھ حرام كمائي والے سے حاصل كيا ہو . اس كي دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم يہوديوں سے لين دين كرتے تھے حالانكہ وہ حرام خور اور سود ليتے ہيں ، تويہ اس بات كي دليل ہے كہ كمائي كرنے والے كےعلاوہ كسي اورپر يہ حرام نہيں . تفسير سورۃ البقرۃ ( 1 / 198 )
تواس بنا پر آپ اپنے والد كي وارثت حاصل كرسكتے ہيں ، اور يہ آپ كے ذمہ نہيں كہ انہوں نے جوكچھ ديا ہے اس كا حساب وكتاب كرتے پھريں يا پھر جوديا ہے وہ واپس كريں ، ليكن اگر آپ اس كے مال سے نہ كھانے كي استطاعت ركھتے ہيں تويہ اولي اور بہتر اور اسي ميں ورع وتقوي ہے .

واللہ تعالي اعلم , مزيد تفصيل كے ليے آپ مندرجہ ذيل كتب ديكھيں احكام القرآن لابن العربي ( 1 / 324 ) المجموع ( 9 / 430 ) الفتاوي الفقھيۃ الكبري للھيتمي ( 2 / 233 ) كشاف القناع ( 3 / 496 ) سوال نمبر (21701)

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
محترم شیخ!
ایک سوال کی اور وضاحت فرما دیں کہ کیا بینک می اکاؤنٹ کھولنا صحیح ہے؟؟؟
میں نے یہ فتوی اور یہ فتوی دیکھا. لیکن تشفی نہیں ہوئی. کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اکاؤنٹ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا. اب ہر انسان کیش ہاتھ میں یا گھر میں رکھ کر تو نہیں چل سکتا نا؟؟
براہ کرم جواب عنایت فرمائیں. جزاکم اللہ خیرا
 
Top