محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
کیا بیوی اپنے خاوند کو کہہ سکتی ہے کہ"تم میری روح ہو، میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی"
سوال:
کیا مجھے اپنے خاوند کو "میری روح" کہہ کر پکارنے کی اجازت ہے؟ یا میں اسے یہ کہہ سکتی ہوں کہ: "میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی"؟ یاد رہے کہ میں یہ جملہ صرف اور صرف اظہار محبت کرتے ہوئے کہتی ہوں۔
الحمد للہ:
بیوی اپنے خاوند کو "میری روح"، یا "میری جان" کہے یا " میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی" کہے، تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ میاں بیوی کے درمیان حسنِ معاشرت کا حصہ ہے۔
جب کوئی خاتون اپنے خاوند سے یہ بات کہتی ہے تو اسکا مقصد اس جملے کا حقیقی معنی نہیں ہوتا، بلکہ اسکا مقصد یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ اسکے دل میں اپنے خاوند کیلئے کتنا بڑا مقام ہے، جس طرح بدن کیلئے روح ضروری ہے، اسی طرح اسکے لئے خاوند ضروری ہے۔
اسی طرح " میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی "کا حال ہے، کہ یہاں مقصود یہ ہے کہ تمہارے بنا زندگی اجیرن ہے۔
چنانچہ یہ الفاظ ظاہری معنی و مفہوم کو دیکھے بغیر ہی کہے جاتے ہیں اور یہ اسلوبِ کلام معروف ہے، جیسے کہ کہتے ہیں:"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں" اسی طرح "تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں" وغیرہ
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ (تیر اندازی کرو! میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں) اس میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ والدین کو بھی فدا کیا جاسکتا ہے، جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں، جبکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ نے اسے مکروہ سمجھا ہے، جبکہ بعض علمائے کرام نے اپنے مسلمان والدین کو فدا کرنا مکروہ سمجھا ہے۔
جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ مطلق طور پر جائز ہے، کیونکہ یہاں پر حقیقی معنوں میں فدا کرنا مقصود ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو کہاوت ، خوش کلامی، اور مخاطب سے اظہار محبت و وقار ہے" انتہی
ماخوذ از: " شرح مسلم" از نووی
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
http://islamqa.info/ur/204211
سوال:
کیا مجھے اپنے خاوند کو "میری روح" کہہ کر پکارنے کی اجازت ہے؟ یا میں اسے یہ کہہ سکتی ہوں کہ: "میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی"؟ یاد رہے کہ میں یہ جملہ صرف اور صرف اظہار محبت کرتے ہوئے کہتی ہوں۔
الحمد للہ:
بیوی اپنے خاوند کو "میری روح"، یا "میری جان" کہے یا " میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی" کہے، تو ان شاء اللہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ میاں بیوی کے درمیان حسنِ معاشرت کا حصہ ہے۔
جب کوئی خاتون اپنے خاوند سے یہ بات کہتی ہے تو اسکا مقصد اس جملے کا حقیقی معنی نہیں ہوتا، بلکہ اسکا مقصد یہ باور کروانا ہوتا ہے کہ اسکے دل میں اپنے خاوند کیلئے کتنا بڑا مقام ہے، جس طرح بدن کیلئے روح ضروری ہے، اسی طرح اسکے لئے خاوند ضروری ہے۔
اسی طرح " میں تمہارے بن نہیں رہ سکتی "کا حال ہے، کہ یہاں مقصود یہ ہے کہ تمہارے بنا زندگی اجیرن ہے۔
چنانچہ یہ الفاظ ظاہری معنی و مفہوم کو دیکھے بغیر ہی کہے جاتے ہیں اور یہ اسلوبِ کلام معروف ہے، جیسے کہ کہتے ہیں:"آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں" اسی طرح "تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں" وغیرہ
نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ (تیر اندازی کرو! میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں) اس میں اس بات کا جواز موجود ہے کہ والدین کو بھی فدا کیا جاسکتا ہے، جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں، جبکہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ نے اسے مکروہ سمجھا ہے، جبکہ بعض علمائے کرام نے اپنے مسلمان والدین کو فدا کرنا مکروہ سمجھا ہے۔
جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ مطلق طور پر جائز ہے، کیونکہ یہاں پر حقیقی معنوں میں فدا کرنا مقصود ہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو کہاوت ، خوش کلامی، اور مخاطب سے اظہار محبت و وقار ہے" انتہی
ماخوذ از: " شرح مسلم" از نووی
واللہ اعلم .
اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
http://islamqa.info/ur/204211