بسم اللہ الرحمن الرحیم
محمدیوسف صاحب کی دی گئی دلیل سے روشن دان والے واقعات جیسے تمام واقعات کی تردید ہوجاتی ہے
الحمدللہ
اللہ رب العرش العظیم آپ کے علم میں اضافہ فرمائے۔ آمین
ایک گزارش تھی کہ آپ ان روایات کا ترجمہ بھی لکھ دیتے تو کیا ہی اعلی بات ہوتی ۔
عابد الرحمن صاحب نے لکھا:
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (قحط و ہلاکت کے سال) میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنہما کو وسیلہ بنایا اور اﷲ تعالیٰ سے بارش کی دعا مانگی اور عرض کیا : اے اﷲ! یہ تیرے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا حضرت عباس ہیں ہم ان کے وسیلہ سے تیری نظر کرم کے طلبگار ہیں ہمیں پانی سے سیراب کر دے وہ دعا کر ہی رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پانی سے سیراب کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا : اے لوگو! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسا ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بمنزل والد سمجھتے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کی قسموں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتداء کرو اور انہیں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔
تو محترم قارئین و علماء عظام ان تمام واقعات اور ان کے علاوہ اور بہت سے واقعات ہیں ان کی تردید کی جائے اور کیسے تاویل کی جائے ۔ یہاں تنا عرض کردوں مروجہ ایصال ثواب کا میں بھی قائل نہیں ہوں برائے مہربانی وسعت قلبی کے ساتھ اپنی آراء اور دلائل سے نوازیں ۔فقط والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میرے علم کے مطابق یہ حدیث بالکل ٹھیک ہےلیکن اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو وسیلہ بنایا اور ان سے دعا کروائی ۔
یہ بہترین جواب ہے ان تاویلوں کا جو کہ قبور پہ حاجت روائی کے لئے یا برکات کے حصول کی لئے پیش کی جاتی ہیں۔
اگر قبور پہ جاکے قبر والے سے مانگنے یا اس کی برکت سے دعا قبول ہونا کہیں سے ثابت ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ دعا کے لئے سیدھا نبی کریم ﷺ کی قبر پر جاتے ۔ان کے چچا کو وسیلہ کی درخواست نہیں کرتے۔
کیونکہ بے شک نبی اکرم ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بہت احترام کرتے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہرکیف نبی ﷺ کا درجہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہیں بڑھ کے ہے ۔اور سفارش ہمیشہ کسی اعلی کی ہی ڈالی جاتی ہے ۔ تو گویا اس سے یہ بات ظاہر ہوتی کہ فوت شدہ شخص ایمان میں چاہے کتنے ہی اعلی درجہ پر ہے اس نیت سے کہ اس کی برکت سے یا اس کے مزار کی برکت سے دعا کی قبولیت ہوجاتی ہے یا قبول ہونے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں تو یہ ہرگز ثابت نہیں۔
ثابت ہے تو قبر پر جانا مزار پر نہیں ۔
ثابت ہے تو قبر والے کے لئے دعا کرنا ۔
یہاں ایک اور وضاحت (اپنے علم کے مطابق)
سنت اور آج کی نیکی
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا ۔تو سن لو۔اب تم اس کی زیارت کیا کرو ،کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں ۔(ترمذی)
گویا" قبر" کی زیارت جائز ہے ۔(مزار کی نہیں)
اللہ تعالی قبر کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت کرتا ہے (ترمذی،ابن ماجہ ،مسند احمد)
اور آج کل باقاعدہ عورتیں قبروں، بلکہ مزاروں پر دھمال ڈالتی ہیں ۔
قبر پر جائیں تو یہ دعا پڑھیں
تم پر سلامتی ہو اے اس گھر والو مومنو اور مسلمانو اللہ تعالی ان پر رحم کرے جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے اور بے شک ہم اگر اللہ نے چاہا تم سے ملنے والے ہیں (مسلم ، مسند احمد )
آج کا مسلم قبر ،بلکہ مزار پر جاتا ہے تو وہاں اہل قبر کی بجائے اپنی حاجات روائی کے لئے ان کو وسیلہ بناتا ہے۔
یہود ونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے انبیاء ؑ کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا۔(بخاری)
سن لو ۔تم سے پہلے والے لوگوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ (مساجد)بنالیا،خبردار تم قبروں کو سجدہ گاہیں نہ بنالینا بالیقین میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں (مسلم)
علامہ ابن قیّمؒ فرماتے ہیں کہ جو آدمی قبروں کے متعلق نبی کریم ﷺ کی سنت اور لوگوں کی اکثریت کے عمل کے متعلق غور کرے گا تو دونوں کو مخالف اور جدا پائے گا،
اور ایسا ہی ہے ۔
"میں نے نبی کریم ﷺ سے قبر کو زمین کے برابر کرنے کا حکم سنا"۔(مسلم عن ثمامہ بن شفعیؒ)
لیکن آج خوب اونچی قبر بنائی جاتی ہے بلکہ مزار
"نبی کریم ﷺ نے قبر پر چونا لگانے اور اس پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا اور اس پر کتبے لکھ کر لگانے سے بھی منع کیا "(مسلم عن حضرت جابر ؓ)
یہ لوگ قبروں پر کتبے لگاتے ہیں اور ان پر قرآن کی آیات و غیرھا لکھتے ہیں
"رسول اللہ ﷺ نے قبر پر چونا لگانے ، اس پر کتبے لکھ کر لگانے اور اس پر (ماسوائے مٹی کے) اور کسی قسم کی زیادتی سے منع کیا"۔(ابوداؤد عن حضرت جابر ؓ )
یہ لوگ خوب زیادتی کرتے ہیں ،اینٹیں ، چونا ،پتھر لگاتے ہیں اصحابی اسے مکروہ(تحریمی) قرار دیتے ۔
باقاعدہ قبروں پر جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں چادریں چڑھائی جاتی ہیں قوالیاں گائی جاتی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے سے منع فرمایا
اور یہ لوگ قبروں کے پاس ان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں
محمد ﷺ نے قبروں کو مسجدیں بنانے سے منع کیا
اور یہ لوگ قبروں پر مسجدیں بناتے ہیں وہاں میلے لگاتے ہیں قبروں کا طواف کرتے ہیں بیت اللہ کی مشابہت اختیار کرتے ہیں وہاں دعا واستغاثہ کرتے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے قبروں پر چراغ جلانے سے منع کیا
اور آپ دیکھتے ہیں کہ کتنے لوگ اتوار یا جمعرات کو قبروں پر چراغاں کرتے ہیں
نبی اکرم ﷺ نے قبر پر میلہ لگانے سے منع کردیا
یہ بڑھ چڑھ کر میلے لگاتے ہیں وہاں اس طرح جمع ہوتے ہیں جس طرح مسلمان عیدین پر عید گاہ جائے ۔
موجودہ زمانے کے قبر پرست ناجانے کیوں ان صحیح احادیث کو جانتے بوجھتے جھٹلاتے ہیں ؟ اور ان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں ۔
قبر کو قبر رہنے ہی نہیں دیا مزار بنا دیا جس کا دین اسلام میں کوئی تصور ہی نہیں ۔
اور دلیل دیتے ہیں محمد ﷺ بھی قبر پر جاتے تھے ۔
کیا قبر پر جاتے یا مزار پر ؟
کیا ایسی قبر پر جاتے ؟
کیا اس طرح جاتے ؟
کیا قبر والے سے مانگتے ؟
کیا قبر والے کو وسیلہ بناتے ؟
یا وسیلہ بنانے کا حکم دیتے ؟
"اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ،یہ شراب اور جوا اور یہ "آستانے اور پانسے"، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیز کرو ، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی"(المائدہ ۔۹۰)
واللہ ولی التوفیق