آپ کے دیے گے لنک میں دو اعترضات ہیں
ایک مولوی محمود حسن صاحب کا قول
دوسرا آپ نے ایک حدیث پیش کی اور احناف پر اس حدیث کی مخالفت کا الزام لگایا
پہلا اعتراض
اگر کسی مسلک کے عالم کا قول آپ پورے مسلک پر لگائے ہیں تو ایک اشرف علی تھانوی کا قول میں بھی پیش کرتا ہوں
اگر کسی اور جزئی میں بھی ہم کو معلوم ہوجائے کہ حدیث صریح منصوص کے خلاف ہے تو اس کو بھی چھوڑ دیں گے اور تقلید کے خلاف نہیں آخر بعض مواقع میں امام صاحب کے اقوال کو بھی چھوڑا گیا ھے
آگے چل کر مزید کہتے ہیں
اور خود امام صاحب ہوتے اور اس وقت اس سے دریافت کیا جاتا تو وہ بھی یہی فرماتے تو گویا اس چھوڑنے میں بھی امام صاحب کی اطاعت ہے
فقہ حنفی کے اصول و ضوابط صفحہ 32
چوں کہ آپ نے مولوی محمود حسن صاحب کے قول کو پورے احناف پر فٹ کیا ہے تو اب آپ نے بتانا ھے کہ آخر کیوں اشرف علی تھانوی کے قول کو کیوں حنفی موقف قرار نہیں دیا جاسکتا اور مولوی محمود حسن صاحب کے قول کو حنفی مسلک کیوں قرار دیا گیا ہے۔
دوسرا اعتراض
دوسرے اعتراض میں آپ نے ایک حدیث پیش کی ھے
میں بھی کچھ احادیث پیش کرتا ہوں
في صحيح مسلم عن عبد الله بن شقيق قال: خطبنا ابن عباس يوماً بعد العصر حتى غربت الشمس وبدت النجوم، وجعل الناس يقولون الصلاة الصلاة. قال: فجاءه رجل من بني تميم لا يفتر ولا ينثني الصلاة الصلاة، فقال ابن عباس: أتعلمني بالسنة لا أم لك؟ ثم قال: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء. قال عبد الله بن شقيق فحاك في صدري من ذلك شيء، فأتيت أبا هريرة فسألته، فصدق مقالته.
وروى مسلم أيضاً عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر والمغرب والعشاء بالمدينة في غير خوف ولا مطر في حديث وكيع. قال: قلت لابن عباس: لم فعل ذلك؟ قال: كي لا يحرج أمته، وفي حديث أبي معاوية قيل لابن عباس: ما أراد إلى ذلك؟ قال: أراد أن لا يحرج أمته.
مفھوم کچھ اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء کو اکھٹے ادا کی
تو کیا آپ جمع بین الصلاتین کے جواز کا فتوی دیتے ہیں ، اگر نہیں تو آپ کے اصول کے مطابق کتاب و سنت کے مخالف کہلائیں گے