• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جرح و تعدیل کا قول نقل کرنا تقلید ہے؟

شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا محدثین کی راویوں پر تحقیق کے بعد ان کا اجتہاد ہوتا ہے جس سے بعض دیگر محدثین کا اختلاف بھی ہوتا ہے لیکن سب ان کے اہل حق میں سے ہونے کے حسن ظن پر انُ کی تحقیق کی بلا دلیل پیروی کرتے ہیں ان سے اس گحقیق کی دلیل نہیں مانگتے۔ اسے اصطلاح میں تقلید بالروایہ کہا جاتا ہے۔

حدیثون میں ابہام و تعارض کی صورت میں استنباط و استخراج، ترجیح و تطبیق کی تحقیق اہل فقہ کا کام ہے۔ جو علم حدیث کا دوسرا پہلو ہے۔ اس میں بھی آئمہ فقہ اجتہاد کرتے ہیں جس سے بعض لوگوں کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ اسے تقلید بالدرایہ کہتے ہیں۔

آئمہ فقہ حدیث تابعی اور تبع تابعی ہونے کی بنا پر آئمہ محدثین کے اساتذہ اور متقدمیں میں سے ہیں۔ اور ان پر تفوق رلھتے ہیں کہ وہ خیر القرون سے ہیں تدوین فقہ کا آغاز امام ابو حنیفہ رھ سے شروع ہوا جو ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور تدون حدیث کا آغاز امام بخاری رھ سے شروع ہوا جو ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔

“اگر تقلید بالدرایہ ناجائز ہے تو تقلید بالروایہ کیسے جائز ہو گئی؟، روائت حدیث میں محدثین کو ماننا جائز ہے تو درائت حدیث میں ان سے متقدم فقھا کو ماننا کیسے ناجائز ہو گیا؟ جن کے سامنے احادیث کے ساتھ ساتھ خیرالقرون کا عملی تواتر اور تعامل امت بھی تھا”
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
ہسنا یا رونا آپ کی باتوں پر؟؟
تدوین حدیث پر بہت ساری کتابیں ہیں پہلے ان کا مطالعہ کریں پھر ان شاءاللہ بات کریں گے۔
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
ہسنا یا رونا آپ کی باتوں پر؟؟
تدوین حدیث پر بہت ساری کتابیں ہیں پہلے ان کا مطالعہ کریں پھر ان شاءاللہ بات کریں گے۔
Bhai mene behas ki irade se post nhi ki mujhe in bato ka jawab chahiye ... koi shaqs jarah wa tadeel me taqleed sabit karne par tulle to kiya jawab dena chahiye... ?

Sent from my SM-A910F using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا محدثین کی راویوں پر تحقیق کے بعد ان کا اجتہاد ہوتا ہے جس سے بعض دیگر محدثین کا اختلاف بھی ہوتا ہے لیکن سب ان کے اہل حق میں سے ہونے کے حسن ظن پر انُ کی تحقیق کی بلا دلیل پیروی کرتے ہیں ان سے اس گحقیق کی دلیل نہیں مانگتے۔ اسے اصطلاح میں تقلید بالروایہ کہا جاتا ہے۔
یہ اصطلاح کب ایجادہوئی ہے؟
اسی پر آگے تقلید کی عمارت کھڑی کی گئی ہے جب کہ بنیاد کہی غلط ہے!
حدیثون میں ابہام و تعارض کی صورت میں استنباط و استخراج، ترجیح و تطبیق کی تحقیق اہل فقہ کا کام ہے۔ جو علم حدیث کا دوسرا پہلو ہے۔ اس میں بھی آئمہ فقہ اجتہاد کرتے ہیں جس سے بعض لوگوں کا اختلاف بھی ہو سکتا ہے۔ اسے تقلید بالدرایہ کہتے ہیں۔
فقہی و اصطلاحی تقلید کی یہ تعریف، دیوبندی دار العلوم دیوبند کی بناء اور بریلوی احمد رضاخان بریلوی کی پیدائیش سے پہلے کی کسی کتاب سے دکھلا دیں!
فقہی اصطلاحی تقلید کی یہ تعریف نہیں!
آئمہ فقہ حدیث تابعی اور تبع تابعی ہونے کی بنا پر آئمہ محدثین کے اساتذہ اور متقدمیں میں سے ہیں۔ اور ان پر تفوق رلھتے ہیں کہ وہ خیر القرون سے ہیں تدوین فقہ کا آغاز امام ابو حنیفہ رھ سے شروع ہوا جو ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے اور تدون حدیث کا آغاز امام بخاری رھ سے شروع ہوا جو ۱۹۴ ہجری میں پیدا ہوئے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب پرانی تاریخ بھی تاریخ بھی نئی رقم کر رہے ہیں! یہ بات بھی تاریخی اعتبار سے غلط ہے !
اور یہ تو منکرین حدیث کی جہالت ہے! کہ تدوین حدیث کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کرتے ہیں!
“اگر تقلید بالدرایہ ناجائز ہے تو تقلید بالروایہ کیسے جائز ہو گئی؟، روائت حدیث میں محدثین کو ماننا جائز ہے تو درائت حدیث میں ان سے متقدم فقھا کو ماننا کیسے ناجائز ہو گیا؟ جن کے سامنے احادیث کے ساتھ ساتھ خیرالقرون کا عملی تواتر اور تعامل امت بھی تھا”
تقلید کی یہ تعریف پہلے دیوبندی دار العلوم دیوبند کی بناء سے پہلے ، اور بریلوی احمد رضا خان بریلوی کی پیدائش سے پہلے کی کتاب سے پیش کریں!
اور اگر نہیں کر سکتے، اور یقیناً نہیں کر سکتے، تو معلوم ہو جانا چاہیئے کہ یہ باتیں اہل تقلید کا دھوکہ، فریب ، مکاری و دجل ہے!
نشیلی شراب پر روح افزا کا اسٹیکر لگا کر بیچنے کی کوشش!
 
Last edited:
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ اصطلاح کب ایجادہوئی ہے؟
اسی پر آگے تقلید کی عمارت کھڑی کی گئی ہے جب کہ بنیاد کہی غلط ہے!

فقہی و اصطلاحی تقلید کی یہ تعریف، دیوبندی دار العلوم دیوبند کی بناء اور بریلوی احمد رضاخان بریلوی کی پیدائیش سے پہلے کی کسی کتاب سے دکھلا دیں!
فقہی اصطلاحی تقلید کی یہ تعریف نہیں!

معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب پرانی تاریخ بھی تاریخ بھی نئی رقم کر رہے ہیں! یہ بات بھی تاریخی اعتبار سے غلط ہے !
اور یہ تو منکرین حدیث کی جہالت ہے! کہ تدوین حدیث کا آغاز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کرتے ہیں!

یہ تقلید کی تعیرف پہلے دیوبندی دار العلوم دیوبند کی بنا سے پہلے ، اور بریلوی احمد رضا خان بریلوی کی پیدائش سے پہلے کی کتاب سے پیش کریں!
اور اگر نہیں کر سکتے، اور یقیناً نہیں کر سکتے، تو معلوم ہو جانا چاہیئے کہ یہ باتیں اہل تقلید کا دھوکہ، فریب ، مکاری و دجل ہے!
نشیلی شراب پر روح افزا کا اسٹیکر لگا کر بیچنے کی کوشش!
تقلید کی تعریف یہ ہے کہ آنکھ بند کرکے بغیر دلیل کسی غیر نبی کی بات کو سچ تسلیم کرنا

اب آپ مجھے بتائیں گی کہ جرح وتعدیل میں اس بات پر عمل ہوتا ہے یا نہیں ؟

مجھے بھی اپنا مذہبی بھائی سمجھیں میں بس ان کے اعتراض یہاں نقل کر رہا ہوں ۔

Sent from my SM-A910F using Tapatalk
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جرح و تعدیل میں آنکھ بند کر کے عمل ہوتا، تو جرح وتعدیل کے مقبول ومردود ہونے کے قواعد و ضوابط نہ ہوتے!
جرح و تعدیل کا تعلق احوال رجال سے ہے؛ اور اس میں رجال کے اقوال سے ہی کسی کے احوال کا تعین کیا جائے گا!
یہاں کسی شرعی حکم کا اثبات نہیں، بلکہ کسی شخص کے احوال کے بارے میں جاننا ہے، اور قرآن وحدیث میں تمام تمام واقعات اور انسانوں کے احوال کا بیان نہیں، واقعات اور انسانوں کے احوال انسانوں کے واسطے ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان واقعات اور احوال کی بناء پر قرآن وحدیث کی دلیل سے حکم صادر کیا جاتا ہے۔
اس کی دلیل دیکھیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ فَأَقْضِيَ لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ فَلْيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ( فریقین میں سے ) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو ( اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ (بَابُ إِثْمِ مَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ، وَهُوَ يَعْلَمُهُ)
صحیح بخاری: کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں (باب : اس شخص کا گناہ، جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے ، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیان یہ بڑھ کر رکھتا ہے ) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق ( غلطی سے ) دلادوں ، تو وہ حلال ( نہ سمجھے ) اس کو نہ لے ، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ مَنْ أَقَامَ البَيِّنَةَ بَعْدَ اليَمِينِ)

صحیح بخاری: کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان (باب : جس مدعی نے ( مدعیٰ علیہ کی ) قسم کھالینے کے بعد گواہ پیش کیے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارا ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کردوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیوں کہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحِيَلِ (بَابُ)
صحیح بخاری: کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں (باب)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِي عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی( فریق مخالف) کا کوئی حق دلادوں۔ چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیوں کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : فریقین کو امام کا نصیحت کرنا)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبردی، انہیں زیب بنت ابی سلمہ نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبردی۔ آپ نے اپنے حجرہ کے دورازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر ان کی طرف نکلے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ مقدمے لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں زیادہ عمدہ ہو اور میں یقین کرلوں کی وہی سچا ہے اور اس طرح اس کے موافق فیصلہ کردوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کا حق دلادوں تو وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے وہ چاہے اسے لے یا چھوڑ دے، میں اس کو در حقیقت دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ قُضِيَ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ يُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ يُحَرِّمُ حَلاَلًا)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَبَةَ خِصَامٍ عِنْدَ بَابِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضًا أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ أَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ وَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَدَعْهَا
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، ان سے ان کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی اور ان کی طرف نکلے۔ پھر ان سے فرمایا‘میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، میرے پاس لوگ مقدمہ لے کر آتے ہیں، ممکن ہے ایک فریق دوسے سے زیادہ عمدہ بولنے والا ہو اور میں اس کے لیے اس حق کا فیصلہ کردوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح نہ ہو) تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلا شبہ یہ فیصلہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے ۔

صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابٌ القَضَاءُ فِي قَلِيلِ المَالِ وَكَثِيرِهِ سَوَاءٌ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : ناحق مال اڑانے میں جو وعید ہے وہ تھوڑے اور بہت دونوں مالوں کو شامل ہے)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

دیکھیں؛ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واقعہ اور احوال رجال، رجال سے ہی معلوم کرتے ہیں، اور اس واقعہ اور احوال رجال پر حکم وحی کا صادر فرماتے ہیں!
 
شمولیت
اگست 27، 2013
پیغامات
81
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جرح و تعدیل میں آنکھ بند کر کے عمل ہوتا، تو جرح وتعدیل کے مقبول ومردود ہونے کے قواعد و ضوابط نہ ہوتے!
جرح و تعدیل کا تعلق احوال رجال سے ہے؛ اور اس میں رجال کے اقوال سے ہی کسی کے احوال کا تعین کیا جائے گا!
یہاں کسی شرعی حکم کا اثبات نہیں، بلکہ کسی شخص کے احوال کے بارے میں جاننا ہے، اور قرآن وحدیث میں تمام تمام واقعات اور انسانوں کے احوال کا بیان نہیں، واقعات اور انسانوں کے احوال انسانوں کے واسطے ہی معلوم ہوتے ہیں، اور ان واقعات اور احوال کی بناء پر قرآن وحدیث کی دلیل سے حکم صادر کیا جاتا ہے۔
اس کی دلیل دیکھیں:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّهَا أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَدَقَ فَأَقْضِيَ لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ فَلْيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے اور ان سے ابن شہاب نے کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے کے سامنے جھگڑے کی آواز سنی اور جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لائے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں۔ اس لیے جب میرے یہاں کوئی جھگڑا لے کر آتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ ( فریقین میں سے ) ایک فریق کی بحث دوسرے فریق سے عمدہ ہو، میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اور اس طرح میں اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہوں، لیکن اگر میں اس کو ( اس کے ظاہری بیان پر بھروسہ کرکے) کسی مسلمان کا حق دلا دوں تو دوزخ کا ایک ٹکڑا اس کو دلا رہا ہوں، وہ لے لے یا چھوڑ دے۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ المَظَالِمِ وَالغَصْبِ (بَابُ إِثْمِ مَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ، وَهُوَ يَعْلَمُهُ)
صحیح بخاری: کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں (باب : اس شخص کا گناہ، جو جان بوجھ کر جھوٹ کے لیے جھگڑا کرے)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا امام مالک سے ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے باپ نے ، ان سے زینب نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، تم لوگ میرے یہاں اپنے مقدمات لاتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تم میں دوسرے سے دلیل بیان کرنے میں بڑھ کر ہوتا ہے (قوت بیان یہ بڑھ کر رکھتا ہے ) پھر میں اس کو اگر اس کے بھائی کا حق ( غلطی سے ) دلادوں ، تو وہ حلال ( نہ سمجھے ) اس کو نہ لے ، میں اس کو دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں ۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الشَّهَادَاتِ (بَابُ مَنْ أَقَامَ البَيِّنَةَ بَعْدَ اليَمِينِ)

صحیح بخاری: کتاب: گواہوں کے متعلق مسائل کا بیان (باب : جس مدعی نے ( مدعیٰ علیہ کی ) قسم کھالینے کے بعد گواہ پیش کیے)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ وَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ہشام نے، ان سے عروہ نے، ان سے زینت بنت ام سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہارا ہی جیسا انسان ہوں اور بعض اوقات جب تم باہمی جھگڑا لاتے ہو تو ممکن ہے کہ تم میں سے بعض اپنے فریق مخالف کے مقابلہ میں اپنا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ چالاکی سے بولنے والا ہو اور اس طرح میں اس کے مطابق فیصلہ کردوں جو میں تم سے سنتا ہوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی اس کے بھائی کے حق میں سے کسی چیز کا فیصلہ کردوں تو وہ اسے نہ لے۔ کیوں کہ اس طرح میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا دیتا ہوں۔
‌صحيح البخاري: كِتَابُ الحِيَلِ (بَابُ)
صحیح بخاری: کتاب: شرعی حیلوں کے بیان میں (باب)

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِي عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے، ان سے زینب بنت ابی سلمہ نے اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، بلاشبہ میں ایک انسان ہوں، تم میرے پاس اپنے جھگڑے لاتے ہو۔ ممکن ہے تم میں سے بعض اپنے مقدمہ کو پیش کرنے میں فریق ثانی کے مقابلہ میں زیادہ چرب زبان ہو اور میں تمہاری بات سن کر فیصلہ کردوں تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی( فریق مخالف) کا کوئی حق دلادوں۔ چاہئے کہ وہ اسے نہ لے کیوں کہ یہ آگ کا ایک ٹکڑا ہے جو میں اسے دیتا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ لِلْخُصُومِ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : فریقین کو امام کا نصیحت کرنا)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَمِعَ خُصُومَةً بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَتْرُكْهَا
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبردی، انہیں زیب بنت ابی سلمہ نے خبردی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبردی۔ آپ نے اپنے حجرہ کے دورازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو باہر ان کی طرف نکلے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہوں اور میرے پاس لوگ مقدمے لے کر آتے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے ایک فریق دوسرے فریق سے بولنے میں زیادہ عمدہ ہو اور میں یقین کرلوں کی وہی سچا ہے اور اس طرح اس کے موافق فیصلہ کردوں۔ پس جس شخص کے لیے بھی میں کسی مسلمان کا حق دلادوں تو وہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے وہ چاہے اسے لے یا چھوڑ دے، میں اس کو در حقیقت دوزخ کا ایک ٹکڑا دلارہا ہوں۔
صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابُ مَنْ قُضِيَ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ فَلاَ يَأْخُذْهُ، فَإِنَّ قَضَاءَ الحَاكِمِ لاَ يُحِلُّ حَرَامًا وَلاَ يُحَرِّمُ حَلاَلًا)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : اگر کسی شخص کو حاکم دوسرے مسلمان بھائی کا مال ناحق دلادے تو اس کو نہ لے کیوں کہ حاکم کے فیصلہ سے نہ حرام حلال ہوسکتا ہے نہ حلال حرام ہوسکتا ہے)

حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ عَنْ أُمِّهَا أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَبَةَ خِصَامٍ عِنْدَ بَابِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ فَلَعَلَّ بَعْضًا أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ أَقْضِي لَهُ بِذَلِكَ وَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنْ النَّارِ فَلْيَأْخُذْهَا أَوْ لِيَدَعْهَا
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، ان سے ان کی والدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دروازے پر جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی اور ان کی طرف نکلے۔ پھر ان سے فرمایا‘میں تمہارے ہی جیسا انسان ہوں، میرے پاس لوگ مقدمہ لے کر آتے ہیں، ممکن ہے ایک فریق دوسے سے زیادہ عمدہ بولنے والا ہو اور میں اس کے لیے اس حق کا فیصلہ کردوں اور یہ سمجھوں کہ میں نے فیصلہ صحیح کیا ہے (حالانکہ وہ صحیح نہ ہو) تو جس کے لیے میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کردوں تو بلا شبہ یہ فیصلہ جہنم کا ایک ٹکڑا ہے ۔

صحيح البخاري: كِتَابُ الأَحْكَامِ (بَابٌ القَضَاءُ فِي قَلِيلِ المَالِ وَكَثِيرِهِ سَوَاءٌ)
صحیح بخاری: کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں (باب : ناحق مال اڑانے میں جو وعید ہے وہ تھوڑے اور بہت دونوں مالوں کو شامل ہے)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنْ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔"
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا
صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ (بَابُ بَيَانُ اَنَّ حُكمَ الحَاكِمِ لَا يُغَيَّرُ البَاطِنَ)
صحیح مسلم: کتاب: جھگڑو ں میں فیصلے کرنے کے طریقے اور آداب (باب: حاکم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کرتا)

دیکھیں؛ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واقعہ اور احوال رجال، رجال سے ہی معلوم کرتے ہیں، اور اس واقعہ اور احوال رجال پر حکم وحی کا صادر فرماتے ہیں!
جزاک اللہ خیرا شیخ
اللہ آپ کے علم اور عمل میں برکت عطا فرمائے
اور آپ کے چہرے کو ہمیشہ نور سے بھر دے
آمین ۔

Sent from my SM-A910F using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف کہنا محدثین کی راویوں پر تحقیق کے بعد ان کا اجتہاد ہوتا ہے
ہسنا یا رونا آپ کی باتوں پر؟؟
تدوین حدیث پر بہت ساری کتابیں ہیں پہلے ان کا مطالعہ کریں پھر ان شاءاللہ بات کریں گے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
سلتان صاحب (انڈیا ) سے ہمارے بھائی ہیں ، یعنی مہمان ہیں ، اور ہمارے لئے بہت محترم ہیں ۔
بارک اللہ لکم
 
Top