• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جزء رفع الیدین اور جزء القراءة امام بخاری رح کی کتاب نہیں ہے؟ ایک اعتراض اور اس کا جائزہ

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
سير أعلام النبلاء للإمام الذهبي: وأصل " المدونة " أسئلة . سألها أسد بن الفرات لابن القاسم . فلما ارتحل سحنون بها عرضها على ابن القاسم ، فأصلح فيها كثيرا ، وأسقط ، ثم رتبها سحنون ، وبوبها . واحتج لكثير من مسائلها بالآثار من مروياته ، مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
فقیر الی اللہ صاحب!
ایک چیز ہوتی ہے مولف کی جانب کتاب کی نسبت کی توثیق میں شک
اورایک دوسری شے ہوتی ہے کتاب کے مندرجات اورمضامین پر تنقید اورکلام

دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے،جزء رفع الیدین امام بخاری کی کتاب ہے یانہیں ہے اس پر بحث کا تعلق پہلے امر سے ہے اور اس کتاب میں امام بخاری نے جن دلائل پر اپنے موقف کی بنیادرکھی ہے اس پر کلام کا تعلق دوسرے امر سے ہے،آپ کی دونوں مثالوں کا تعلق مدونہ کے مندرجات ومشمولات پر کلام سے ہے نہ مدونہ کی توثیق میں شک وشبہ سے، کوئی ایسا قول پیش کریں جس سے پتہ چلے کہ مدونہ کی نسبت میں ماضی کے بھی کسی معتبر عالم نے شک وشبہ کااظہار کیاہے،ورنہ مندرجات پر کلام تو کتب حدیث تک پر کیاگیاہے اوردنیا کی وہ کون سی کتاب ہے جس کے مندرجات پرکلام نہیں کیاگیاہے،براہ کرم ایک کو دوسرے سے نہ ملائیں۔
مجھے معلوم ہے کہ زبیر علی زئی کو اس طرح کی خودساختہ شرطوں کی ضرورت کیوں پڑی تھی اوراس قبیل کے لوگوں کوسب سے آسان یہ بات لگتی ہے کہ اگرکسی کتاب مین کوئی بات ایسی ہے جس کا جواب نہیں ہورہاہے تواس کتاب سے ہی انکار کردو،نہ رہے بانس نہ بجے بانسری،لیکن ظاہر سی بات ہے کہ علم وتحقیق کی دنیا میں علم وتحقیق کے اصول مقرر اورمدون ہوچکے ہیں، زبیر علی زئی کا شیعوں کے عقیدہ کی طرح امام غائب کا انتظار نہیں تھاکہ وہ آکر اصول تحقیق میں کسی چیز کا اضافہ کریں گے ،اس کے بعد علم وتحقیق کا قافلہ آگے بڑھے گا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
البرذعي في "سؤالاته" (۲|۵۳۳): وذكرت لأبي زرعة (الرازي) مسائل عبد الرحمن بن القاسم عن مالك، فقال: «عنده ثلاثمئة جلدة أو نحوه عن مالك مسائل أسدية». قلت: «وما الأسدية»؟ فقال: «كان رجل من أهل المغرب يقال له أسد، رحل إلى محمد بن الحسن (صاحب أبي حنيفة) فسأله عن هذه المسائل. ثم قدم مصر، فأتى عبد الله بن وهب فسأله أن يسأله عن تلك المسائل: مما كان عنده فيها عن مالك أجابه، وما لم يكن عنده عن مالك قاس على قول مالك. فأتى عبد الرحمن بن القاسم، فتوسع له، فأجابه على هذا. فالناس يتكلمون في هذه المسائل»
مجھے حیرت ہے کہ اس اقتباس اورجملہ سے آپ نے مدونہ کے غیرمستند ہونے پر کیسے استدلال کرلیاہے،رازی خود تفسیر کے ساتھ کہتے ہیں کہ کیسے کیسے یہ کتاب وجود میں آئی ،رازی کاایک حرف بھی یہ نہیں بتاتاہے کہ مدونہ کے معتبر ہونے میں اسے کوئی شک ہے۔
پھر شاید آپ نے غورنہیں کیایاغورکرنے کی جلد بازی میں فرصت نہیں ملی کہ سوال ہورہاہے مدونہ کے بارے میں جس موجودہ مدونہ کے مرتب سحنون ہیں اور جواب میں اسد بن فرات کا ذکر ہورہاہے جب کہ اسد بن فرات کے ترتیب دیئے مجموعہ کا نام اسدیہ ہے نہ کہ مدونہ ۔
یہ بات ضرور ہے کہ مدونہ کی ترتیب اسدیہ کے طرز پر ہے لیکن اس سے نہ کوئی کتاب معتبر ہوتی ہے اورنہ غیرمعتبر
یہ بھی واضح رہے کہ کسی کتاب کے مسائل پر لوگوں کے چناں چنیں اورکلام وسوال سے کوئی کتاب غیرمعتبر نہیں ہوتی ہے
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
سير أعلام النبلاء للإمام الذهبي: وأصل " المدونة " أسئلة . سألها أسد بن الفرات لابن القاسم . فلما ارتحل سحنون بها عرضها على ابن القاسم ، فأصلح فيها كثيرا ، وأسقط ، ثم رتبها سحنون ، وبوبها . واحتج لكثير من مسائلها بالآثار من مروياته ، مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
مجھے پتہ نہیں آپ نے اس عبارت کو کس طرح سمجھاہے ،اس کے باوجود سمجھانے کی کوشش کرتاہوں، امید ہے کہ سمجھ جائیں گے ،اگرنہ سمجھے تو پھرآپ سے خداسمجھے(ابتسامہ)
مدونہ نامی کتاب جس کے مرتب سحنون ہیں، اس کی اصل اسدیہ ہے ،اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااورامام ابوحنیفہ کے شاگرد محمد بن الحسن سے، امام محمد کی کتابیں لےکر وہ وہ پہلے ابن وہب کے پاس آئے اورکہاکہ اس کتاب کے مسائل کا جواب وہ امام مالک کے جواب کی روشنی میں دیں ،ابن وہب نے ازراہ تقویٰ واحتیاط جواب دینے سے منع کردیا،اسد بن فرات پھر ابن قاسم کے پاس آئے، انہوں نے اسد بن فرات کی بات قبول کرلی اور اسد بن فرات کے جوابات کا امام مالک کے جواب کی روشنی میں جواب دیا،اس مجموعہ مسائل کو اسدیہ کہاجانے لگا، اس کو لے کر وہ قیروان گئے، قیروان کے علماء نے اسد کی علمی عظمت کو تسلیم کیا اوران سے فقہ حاصل کی،سحنون نے بھی اسد بن فرات سے علم حاصل کیا،اسد بن فرات سے علم حاصل کرنے کے بعد وہ اسدیہ کا ایک نسخہ لے کرمصر آئے اور ابن قاسم سے ان مسائل پر ازسرنو تبادلہ خیال کیا، ظاہر سی بات ہے کہ عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ انسان کے خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، امام شافعی کے دواقوال قدیم اورجدید مشہور ہیں، عراق میں جب تک رہے تو ان کا خیال کچھ اورتھا، مصر گئے تورائے بدل گئی اورنئی رائے سامنے آئی،یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، جب اپنے جوابات پر ابن قاسم نے دوبارہ غورکیاتوبعض مسائل کے تعلق سے ان کی رائے بدل گئی اورانہوں نے اس میں کچھ حذف واضافہ بھی کیااوراسد بن فرات کو بھی تاکید کی کہ وہ سحنون کے نسخہ کی روشنی میں اپنے نسخہ کی اصلاح کریں۔
بعض کی رائے یہ ہے کہ اسد بن فرات کو بعض علماء نے ورغلایاکہ آپ اسدیہ سے دستبردار نہ ہوں اور اس پرقائم رہیں ،کیونکہ اگرآپ نے سحنون کے نسخہ کوقبول کرلیاتواس کا مطلب یہ ہوگاکہ آپ نے ان سے یہ نسخہ حاصل کیاہے، دوسرے الفاظ میں آپ اس کے شاگرد ہوجائیں گے، اسد نے اس رائے کو قبول کیا اور اپنے مجموعہ مسائل اسدیہ میں تغیروتبدیل سے انکا رکردیا، اس انکار کی خبر جب ابن قاسم کو ملی توانہوں نے اسد بن فرات کے مجموعہ مسائل اسدیہ کے خلاف بددعا کی اور ان کی بدعا کا اثر کہئے یاسحنون کی مقبولیت کا اثر کہ رفتہ رفتہ مدونہ جو سحنون کی مرتب کردہ ہے وہی فقہ مالکی کی بنیاد ٹھہری۔
بعض کی یہ رائے ہے کہ اسد کا اپنے نسخہ میں تغیروتبدل نہ کرنا درست تھاکیونکہ انہوں نے جن مسائل کو ابن قاسم سے سن کر لکھاتھاان کو محض کسی واسطے کے ذریعہ سے سن کر یاکسی خط کی عبارت دیکھ کر تبدیل نہیں کرسکتے تھے ،اس لئے انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، بہرحال جوبھی ہو،اسدیہ رفتہ رفتہ متروک ہوگئی اورمدونہ فقہ مالکی میں رائج ہوگئی۔
یہ تورہی اسدیہ اورمدونہ کی تاریخ
اس کو سمجھ چکے توآگے بڑھئے کہ ان مسائل کے امام مالک کی جانب منسوب ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اسد بن فرات معتبر ہیں، سحنون معتبر ہیں، ابن قاسم معتبر ہیں، امام مالک معتبر ہیں۔
اب جہاں تک اس عبارت کی بات ہے تواس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ،خداکرے سمجھ مین آجائے۔
مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
مدونہ (سحنون کی مرتب کردہ)میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بے دلیل ہیں، بلکہ محض رائے ہیں،اور لوگوں نے نقل کیاہے کہ عمرکے آخری حصے میں سحنون کو بھی اس کا احساس ہوگیاتھا اورانہوں نے ایسی باتوں کو مدونہ سے نکال دینے کا اورمدونہ کی ازسرنو تہذیب وترتیب کا من بنایاتھا،لیکن موت نے اس کی فرصت نہ دی ،بڑے مالکی فقہاء ایسے بے دلیل مسائل کو جانتے ہیں اورجس مسئلہ کی دلیل ضعیف ہوتی ہے ان مسائل کو ضعیف قراردیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے اقتباس میں حافظ ذہبی کا کوئی اشارہ تک ہے کہ مدونہ غیرمعتبر ہے، کیاکسی کتاب میں کچھ مسائل کا بے دلیل پایاجانااس کے غیرمعتبر ہونے کی دلیل ہے،اس طرح تو دنیا کی تمام فقہی کتابیں غیرمعتبر ہوجائیں گی، اورصرف فقہی،حدیث ورجال کی کتابیں بھی غیرمعتبر ہوجائیں گی، کیونکہ کون سی وہ جرح وتعدیل کی کتاب ہے یاکون سا وہ جرح وتعدیل کاامام ہے جس کا تمام حکم درست اور صواب ہے۔
امام شافعی جب تک عراق میں رہے بعض مسائل کے بارے میں ان کا اندازفکر کچھ اورتھا،مصر گئے تو کچھ اورہوگیااوریہ دونوں اب قول قدیم اورقول جدید کے نام سے مشہور ہیں، توکیا اس کو غیرمعتبر ہونے کی علامت قراردیاجائے گا۔ یاللعجب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
مجھے پتہ نہیں آپ نے اس عبارت کو کس طرح سمجھاہے ،اس کے باوجود سمجھانے کی کوشش کرتاہوں، امید ہے کہ سمجھ جائیں گے ،اگرنہ سمجھے تو پھرآپ سے خداسمجھے(ابتسامہ)
مدونہ نامی کتاب جس کے مرتب سحنون ہیں، اس کی اصل اسدیہ ہے ،اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااورامام ابوحنیفہ کے شاگرد محمد بن الحسن سے، امام محمد کی کتابیں لےکر وہ وہ پہلے ابن وہب کے پاس آئے اورکہاکہ اس کتاب کے مسائل کا جواب وہ امام مالک کے جواب کی روشنی میں دیں ،ابن وہب نے ازراہ تقویٰ واحتیاط جواب دینے سے منع کردیا،اسد بن فرات پھر ابن قاسم کے پاس آئے، انہوں نے اسد بن فرات کی بات قبول کرلی اور اسد بن فرات کے جوابات کا امام مالک کے جواب کی روشنی میں جواب دیا،اس مجموعہ مسائل کو اسدیہ کہاجانے لگا، اس کو لے کر وہ قیروان گئے، قیروان کے علماء نے اسد کی علمی عظمت کو تسلیم کیا اوران سے فقہ حاصل کی،سحنون نے بھی اسد بن فرات سے علم حاصل کیا،اسد بن فرات سے علم حاصل کرنے کے بعد وہ اسدیہ کا ایک نسخہ لے کرمصر آئے اور ابن قاسم سے ان مسائل پر ازسرنو تبادلہ خیال کیا، ظاہر سی بات ہے کہ عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ انسان کے خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، امام شافعی کے دواقوال قدیم اورجدید مشہور ہیں، عراق میں جب تک رہے تو ان کا خیال کچھ اورتھا، مصر گئے تورائے بدل گئی اورنئی رائے سامنے آئی،یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، جب اپنے جوابات پر ابن قاسم نے دوبارہ غورکیاتوبعض مسائل کے تعلق سے ان کی رائے بدل گئی اورانہوں نے اس میں کچھ حذف واضافہ بھی کیااوراسد بن فرات کو بھی تاکید کی کہ وہ سحنون کے نسخہ کی روشنی میں اپنے نسخہ کی اصلاح کریں۔
بعض کی رائے یہ ہے کہ اسد بن فرات کو بعض علماء نے ورغلایاکہ آپ اسدیہ سے دستبردار نہ ہوں اور اس پرقائم رہیں ،کیونکہ اگرآپ نے سحنون کے نسخہ کوقبول کرلیاتواس کا مطلب یہ ہوگاکہ آپ نے ان سے یہ نسخہ حاصل کیاہے، دوسرے الفاظ میں آپ اس کے شاگرد ہوجائیں گے، اسد نے اس رائے کو قبول کیا اور اپنے مجموعہ مسائل اسدیہ میں تغیروتبدیل سے انکا رکردیا، اس انکار کی خبر جب ابن قاسم کو ملی توانہوں نے اسد بن فرات کے مجموعہ مسائل اسدیہ کے خلاف بددعا کی اور ان کی بدعا کا اثر کہئے یاسحنون کی مقبولیت کا اثر کہ رفتہ رفتہ مدونہ جو سحنون کی مرتب کردہ ہے وہی فقہ مالکی کی بنیاد ٹھہری۔
بعض کی یہ رائے ہے کہ اسد کا اپنے نسخہ میں تغیروتبدل نہ کرنا درست تھاکیونکہ انہوں نے جن مسائل کو ابن قاسم سے سن کر لکھاتھاان کو محض کسی واسطے کے ذریعہ سے سن کر یاکسی خط کی عبارت دیکھ کر تبدیل نہیں کرسکتے تھے ،اس لئے انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، بہرحال جوبھی ہو،اسدیہ رفتہ رفتہ متروک ہوگئی اورمدونہ فقہ مالکی میں رائج ہوگئی۔
یہ تورہی اسدیہ اورمدونہ کی تاریخ
اس کو سمجھ چکے توآگے بڑھئے کہ ان مسائل کے امام مالک کی جانب منسوب ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اسد بن فرات معتبر ہیں، سحنون معتبر ہیں، ابن قاسم معتبر ہیں، امام مالک معتبر ہیں۔
اب جہاں تک اس عبارت کی بات ہے تواس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ،خداکرے سمجھ مین آجائے۔
مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
مدونہ (سحنون کی مرتب کردہ)میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بے دلیل ہیں، بلکہ محض رائے ہیں،اور لوگوں نے نقل کیاہے کہ عمرکے آخری حصے میں سحنون کو بھی اس کا احساس ہوگیاتھا اورانہوں نے ایسی باتوں کو مدونہ سے نکال دینے کا اورمدونہ کی ازسرنو تہذیب وترتیب کا من بنایاتھا،لیکن موت نے اس کی فرصت نہ دی ،بڑے مالکی فقہاء ایسے بے دلیل مسائل کو جانتے ہیں اورجس مسئلہ کی دلیل ضعیف ہوتی ہے ان مسائل کو ضعیف قراردیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے اقتباس میں حافظ ذہبی کا کوئی اشارہ تک ہے کہ مدونہ غیرمعتبر ہے، کیاکسی کتاب میں کچھ مسائل کا بے دلیل پایاجانااس کے غیرمعتبر ہونے کی دلیل ہے،اس طرح تو دنیا کی تمام فقہی کتابیں غیرمعتبر ہوجائیں گی، اورصرف فقہی،حدیث ورجال کی کتابیں بھی غیرمعتبر ہوجائیں گی، کیونکہ کون سی وہ جرح وتعدیل کی کتاب ہے یاکون سا وہ جرح وتعدیل کاامام ہے جس کا تمام حکم درست اور صواب ہے۔
امام شافعی جب تک عراق میں رہے بعض مسائل کے بارے میں ان کا اندازفکر کچھ اورتھا،مصر گئے تو کچھ اورہوگیااوریہ دونوں اب قول قدیم اورقول جدید کے نام سے مشہور ہیں، توکیا اس کو غیرمعتبر ہونے کی علامت قراردیاجائے گا۔ یاللعجب
مدونہ کے حوالے سے یہ قصہ مشہور ہے. لیکن اگر اس کا حوالہ بھی مل جائے تو بہت اچھا ہوگا.
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
کون ساقصہ،ابن قاسم کی بددعا کا؟
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
وكان أول من شرع في تصنيف " المدونة " أسد بن الفرات الفقيه المالكي بعد رجوعه من العراق وأصلها أسئلة سأل عنها ابن القاسم فأجابه عنها، وجاء بها أسد إلى القيروان وكتبها عنه سحنون، وكانت تسمى " الأسدية " ثم رحل بها سحنون إلى ابن القاسم في سنة ثمان وثمانين ومائة فعرضها عليه وأصلح فيها مسائل ورجع بها إلى القيروان في سنة إحدى وتسعين ومائة، وهي في التأليف على ما جمعه أسد ابن الفرات أولاً غير مرتبة المسائل ولا مرسمة التراجم، فرتب سحنون أكثرها وبوبه على ترتيب التصانيف واحتج لبعض مسائلها بالآثار من روايته من موطإ ابن وهب وغيره،
وفیات الاعیان جلد3صفحہ181ل
اس کے علاوہ سحنون کے حالات زندگی میں بیشتر مورخین وترجمہ نگاروں نے اس کو ذکر کیاہے۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
امام بیہقی ؒ المتوفی (٤٥٨ھ) لکھتے ہیں:
وقرأت في كتاب القراءة خلف الامام تصنيف البخاري
(كتاب القراءة:ص٦٩)

"کہ میں نے کتاب القراءت خلف الامام جو امام بخاری ؒ کی تصنیف ہے میں پڑھا ہے"
ایک جگہ لکھتے ہیں:
وقال البخاري فی کتاب القراءة خلف الامام
(كتاب القراءة:ص١١)
کہ امام بخاری ؒ نے کتاب القراءت خلف الامام میں فرمایا ہے اور یہی بات انھوں نے بتکرار کہی ہے ملاحظہ ہو (ص٣٧۔٤٤۔٤٩۔٥٤۔٦٢) وغیرہ

امام بیہقی سے پہلے محمود بن اسحاق سے یہ کتاب روایت کرنے والے امام محمد بن احمد بن محمد الملاحمی (متوفی ٣٩٥ھ) کے بارے میں حافظ ذہبی ؒ نے لکھا ہے:
حدث نیساپور و بغداد بکتاب رفع الیدین و القراءة خلف الامام عن محمود بن اسحاق
(السیر ج ١٧ ص ٨٦۔٨٧)
کہ امام محدث الملاحمی نے نیساپور اور بغداد میں محمود بن اسحاق سے کتاب القراءت اور کتاب رفع الیدین کا درس دیا۔ یہی کچھ انھوں نے تاریخ اسلام میں ٣٩٥ھ کے ایام میں ص ٣١٩ میں ذکر کیا ہے بلکہ ان سے قبل خطیب ؒ نے یہی کچھ تاریخ بغداد (ج ١ص٣٥٠) میں علامہ السمعانی ؒ نے الانساب (ج ٥ ص٤٣٢) میں نقل کی ہے غور فرمائیے امام ملاحمی ؒ ان دونوں کا درس بغداد اور نیساپور میں دیتے تھے۔ کوئی نہیں کہتا کہ یہ تو ان کی کتابیں ہی نہیں۔

امام ملاحمی ؒ سے اس کتاب کا سماع اور روایت کرنے والوں میں عبدالکریم بن علی ابوتمام الہاشمی ہیں جو خطیب بغداد کے استاد ہیں خطیب فرماتے:
سمعنا منه كتاب القراءة خلف الامام تصنيف البخاري
(تاريخ بغداد ج ١١ ص ٨٠)

کہ ہم نے ان عبدالکریم ابوتمام سے امام بخاری ؒ کی تصنیف کتاب القراءت خلف الامام کا سماع کیا ہے۔ عبدالکریم کے بھائی کا نام عبدالصمد بن علی اور کنیت ابوالغنائم ہے۔ وہ بھی امام الملاحمی ؒ سے اس کتاب کے راوی ہیں اور انہی کے واسطے سے اس کتاب کی سند حافظ ابن حجر ؒ تک پہنچی اور انھوں نے اس کی روایات ذکر کی ہیں ملاحظہ ہو (نتائج الافکار ج ٢ ص ١٨) اور (فتح الباری ٢ ص ١١٩۔٢٢٧۔٢٢٨۔٢٢٩۔٢٤٢۔٢٦٩) اسی طرح موافقہ الخبر (ج ١ ص ٤١٧۔٤٢١) علامہ ابن جوزی ؒ نے بھی اسی عبدالصمد ابو الغنائم کے واسطہ سے جزء القراءة سے روایت لی ہے ملاحظہ ہو التحقیق (ج ١ ص ٣٦٧) نیز اس کے ساتھ تنقیح احادیث التعلیق لا بن عبد الہادی ؒ (ج ١ ص ٣٧٨) و تنقیح التحقیق للذہبی ؒ (ج ١ ص ١٥٥) بھی ملاحظہ فرمالیں۔

علامہ زیلعی ؒ نے تو اسی جزء القراءة کی اہمیت کی بنا پر نصب الرایہ (ج ٢ ص ١٩۔٢٠۔٢١) میں اسکی تلخیص پیش کردی مگر پندرہویں صدی کے لوگ اسے امام بخاری ؒ کا رسالہ تسلیم کرنے میں ہی مترد ہیں۔ علامہ عینی ؒ بھی اسے امام بخاری ؒ کی کتاب قرار دیتے ہیں عمدہ القاری (ج ٦ ص ١٤) علامہ المزی ؒ نے تہذیب الکمال کے مقدمہ (ج ١ ص ٦٢) میں اسے امام بخاری ؒ کی کتاب قرار دیا اور جابجا اس کی روایات کو بھی ذکر کیا۔ امام ابن عدی ؒ (المتوفی ٣٦٥) نے الکامل (ج ٤ ص ١٤٣٧) میں امام بخاری ؒ کی سند سے حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنعہ کا اثر نقل کیا ہے کہ ان سے قراءت خلف الامام کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: ہاں سورہ فاتحہ پڑھی جائے۔ جسے جزء القراءة (ص٨) میں دیکھا جاسکتا ہے۔ محمود بن اسحاق ٣٣٢ھ میں فوت ہوئے جبکہ امام ابن عدی ؒ ٢٧٧ھ میں پیدا ہوئے جس سے بظاہر یہی ثابت ہوتا ہے کہ امام ابن عدی ؒ نے بخاری کے جزء القراءة کا سماع بواسطہ محمود بن اسحاق ہی کیا ہے۔ امام ابن عدی ؒ اور الملاحمی کے علاوہ حافظ ابو العباس احمد بن محمد بن الحسین بھی محمود کے شاگرد رشید ہیں جیسا کہ التذکرہ (ج ٣ ص ١٠٧٩) اور الارشاد الخلیلی (ج ٣ ص ٩٧٤) میں مذکور ہے۔ اس لئے محمود بن اسحاق کو مجہول کہنا بہر نوع غلط ہے۔ امام ابن عدی ؒ امام بیہقی ؒ اور دیگر تمام متاخرین کا جزء القراءة کی روایات پر اعتماد اس بات کا ثبوت ہے کہ محمود بن اسحاق ناقابل اعتماد نہیں۔ علامہ ذہبی ؒ نے تاریخ الاسلام (ص ٨٣) میں ٣٣٢ھ کے احوال میں محمود کا تذکرہ کیا ہے اور فرمایا ہے:

سمع محمد بن اسماعیل البخاري و محمد بن الحسن بن جعفر صاحب یزید بن ھارون و حدث و عمر دھرا الخ۔
کہ اس نے امام بخاری ؒ اور امام یزید بن ہارون کے شاگرد محمد بن الحسن بن جعفر سے سماع کیا ہے احادیث بیان کی ہیں اور لمبی عمر پائی ہے۔ حافظ الخلیلی ؒ نے اسی محمد بن الحسن کے ترجمہ میں لکھا :

آخر من روي عنه محمود بن اسحاق القواس البخاري و محمود ه‍ذا آخر من روي عن محمد بن اسماعيل أجزاء بخاري الخ
(الارشاد ج ٣ ص ٩٦٨)

ان سب سے آخر میں محمود بن اسحاق القواس بخاری روایت کرتے ہیں اور یہی محمود ہے جس نے بخاری میں سب سے آخر میں امام بخاری ؒ سے اجزاء جزء رفع الیدین جزء القراءة کی روایت کی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ خلیلی امام محمد بن احمد الملاحمی کے شاگرد ہیں اور انہی کے واسطہ محمود بن اسحاق سے امام صالح زرہ کی منقبت میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں (الارشاد ج ٣ ص ٩٦٧) ظاہر ہے کہ امام الملاحمی سے انھوں نے جزء القراءة کا بھی سماع کیا ہوگا جیسا محمود بن اسحاق کے بارے میں انھوں نے جزء القراءة کا راوی ہونا ذکر کیا ہے۔

اب انصاف شرط ہے کہ امام ابن عدی ؒ امام بیہقی ؒ خطیب بغدادی ؒ حافظ خلیلی ؒ علامہ ابن جوزی ؒ علامہ ابن عبدالہادی ؒ علامہ سمعانی ؒ علامہ المزی ؒ حافظ ذہبی ؒ علامہ زیلعی ؒ علامہ عینی ؒ علامہ ابن قیم ؒ علامہ ابن الملقن ؒ علامہ ابن رجب ؒ (شرح علل للترمذی ج ٢ ص ٨٧٩) حافظ ابن حجر ؒ اور دیگر متاخرین کتاب القراءة پر اعتماد کریں اس سے روایات اور اقوال نقل کریں بلکہ حافظ ابن حجر ؒ محمود بن اسحاق کے واسطہ سے روایات ذکر کر کے اسے حسن قرار دیں مگر اس کے باوجود کتاب القراءة امام بخاری ؒ کی کتاب قرار نہ پائے تو ایسی جسارت کو ہم کیا نام دیں؟
 
Last edited:

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
اگریہ زبیرعلی زئی کی تحریر ہے تو اب وہ مرحوم ہوچکے،اس لئے ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہل علم کے درمیان معتبر کتابوں کومشکوک قراردینے کا چلن ان ہی نے شروع کیا، اورظاہر سی بات ہے کہ جب آپ محض صحیح سند کی بنیاد پر ہی کتابوں کومعتبر مانیں گے تو پھر بقیہ تمام کتابیں اس زد میں آئیں گی۔
زبیر علی زئی نے محمود کی توثیق کیلئے اصول حدیث کا یہ اصول نکالاہے کہ جس سند کو علماء صحیح قراردیں توضمنی طورپر اس سند کے راویوں کی توثیق ہوتی ہے،اورپھر محمود والی سند کی تحسین زیلعی اورحافظ ابن حجر سے کی ہے،سوال یہ ہے کہ حافظ ابن حجر اورزیلعی نے کہیں بھی صراحت نہیں کی ہے کہ وہ اس سند کو حسن لذاتہ قراردے رہے ہیں توپھر جب کہ محمود کی بالصراحت کہیں سے توثیق کے کسی بھی درجہ کے الفاظ کسی ناقد رجال سے منقول نہیں ہیں تو پھر زیادہ امکان اسی کا ہے کہ انہوں نے اس سند کو حسن لغیرہ قراردیاہے ،حسن لغیرہ والی حدیث کے راوی اگرضعیف بھی ہوں تومتعدد طرق کی بناء پر وہ حدیث قابل احتجاج سمجھی جاتی ہے ،جب ایسی صورت حال ہے توآخر زبیر علی زئی کے پاس وہ کون سی دلیل تھی جس کی بنیاد پر انہوں نے محمود کوضعیف سے ہٹ کر ثقہ سمجھ لیا۔
مابعد کے علماء کی تصدیقات کہ انہوں نے اس کتاب کو بخاری کی کتاب سمجھاہے،اس سے زیادہ تصدیقات ان کتابوں کے سلسلے میں نقل کی جاسکتی ہیں جن کو زبیر علی زئی نے غیرمعتبر سمجھاہے لیکن یہ انصاف کا دوہراپیمانہ ہے اگراپنی کتابوں کی بات ہو تو مابعد کے علماء کی تصدیقات چاہئے اور دوسروں کی بات تو صحت سند کا واویلا مچایاجائے۔
انصاف کی سب سے زیادہ ضرورت خود زبیر علی زئی کو تھی لیکن وہ زندگی بھر دوسروں کو ہی انصاف کی تلقین کرتے رہے اوراپنے گریبان میں جھانکنے سے بچتے رہے،اب کم ازکم ان کے متبعین اورپیروکاروں کو چاہئے کہ وہ انصاف کی نظر سے زبیر علی زئی کی تحریرات کا جائزہ لیں اور ان کی غلطیوں سے دستبردار ہوجائیں،جس میں سب سے پہلا کام ان کا مختلف معتبر کتابوں کے سلسلے میں شکوک وشبہات پھیلانا اور اہل علم کے درمیان معتبر کتابوں کو خود ساختہ طورپر غیرمعتبر قراردیناہے۔
 
Top