سير أعلام النبلاء للإمام الذهبي: وأصل " المدونة " أسئلة . سألها أسد بن الفرات لابن القاسم . فلما ارتحل سحنون بها عرضها على ابن القاسم ، فأصلح فيها كثيرا ، وأسقط ، ثم رتبها سحنون ، وبوبها . واحتج لكثير من مسائلها بالآثار من مروياته ، مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
مجھے پتہ نہیں آپ نے اس عبارت کو کس طرح سمجھاہے ،اس کے باوجود سمجھانے کی کوشش کرتاہوں، امید ہے کہ سمجھ جائیں گے ،اگرنہ سمجھے تو پھرآپ سے خداسمجھے(ابتسامہ)
مدونہ نامی کتاب جس کے مرتب سحنون ہیں، اس کی اصل اسدیہ ہے ،اسد بن فرات نے امام مالک سے بھی تحصیل علم کیاتھااورامام ابوحنیفہ کے شاگرد محمد بن الحسن سے، امام محمد کی کتابیں لےکر وہ وہ پہلے ابن وہب کے پاس آئے اورکہاکہ اس کتاب کے مسائل کا جواب وہ امام مالک کے جواب کی روشنی میں دیں ،ابن وہب نے ازراہ تقویٰ واحتیاط جواب دینے سے منع کردیا،اسد بن فرات پھر ابن قاسم کے پاس آئے، انہوں نے اسد بن فرات کی بات قبول کرلی اور اسد بن فرات کے جوابات کا امام مالک کے جواب کی روشنی میں جواب دیا،اس مجموعہ مسائل کو اسدیہ کہاجانے لگا، اس کو لے کر وہ قیروان گئے، قیروان کے علماء نے اسد کی علمی عظمت کو تسلیم کیا اوران سے فقہ حاصل کی،سحنون نے بھی اسد بن فرات سے علم حاصل کیا،اسد بن فرات سے علم حاصل کرنے کے بعد وہ اسدیہ کا ایک نسخہ لے کرمصر آئے اور ابن قاسم سے ان مسائل پر ازسرنو تبادلہ خیال کیا، ظاہر سی بات ہے کہ عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ انسان کے خیالات تبدیل ہوتے رہتے ہیں، امام شافعی کے دواقوال قدیم اورجدید مشہور ہیں، عراق میں جب تک رہے تو ان کا خیال کچھ اورتھا، مصر گئے تورائے بدل گئی اورنئی رائے سامنے آئی،یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ، جب اپنے جوابات پر ابن قاسم نے دوبارہ غورکیاتوبعض مسائل کے تعلق سے ان کی رائے بدل گئی اورانہوں نے اس میں کچھ حذف واضافہ بھی کیااوراسد بن فرات کو بھی تاکید کی کہ وہ سحنون کے نسخہ کی روشنی میں اپنے نسخہ کی اصلاح کریں۔
بعض کی رائے یہ ہے کہ اسد بن فرات کو بعض علماء نے ورغلایاکہ آپ اسدیہ سے دستبردار نہ ہوں اور اس پرقائم رہیں ،کیونکہ اگرآپ نے سحنون کے نسخہ کوقبول کرلیاتواس کا مطلب یہ ہوگاکہ آپ نے ان سے یہ نسخہ حاصل کیاہے، دوسرے الفاظ میں آپ اس کے شاگرد ہوجائیں گے، اسد نے اس رائے کو قبول کیا اور اپنے مجموعہ مسائل اسدیہ میں تغیروتبدیل سے انکا رکردیا، اس انکار کی خبر جب ابن قاسم کو ملی توانہوں نے اسد بن فرات کے مجموعہ مسائل اسدیہ کے خلاف بددعا کی اور ان کی بدعا کا اثر کہئے یاسحنون کی مقبولیت کا اثر کہ رفتہ رفتہ مدونہ جو سحنون کی مرتب کردہ ہے وہی فقہ مالکی کی بنیاد ٹھہری۔
بعض کی یہ رائے ہے کہ اسد کا اپنے نسخہ میں تغیروتبدل نہ کرنا درست تھاکیونکہ انہوں نے جن مسائل کو ابن قاسم سے سن کر لکھاتھاان کو محض کسی واسطے کے ذریعہ سے سن کر یاکسی خط کی عبارت دیکھ کر تبدیل نہیں کرسکتے تھے ،اس لئے انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، بہرحال جوبھی ہو،اسدیہ رفتہ رفتہ متروک ہوگئی اورمدونہ فقہ مالکی میں رائج ہوگئی۔
یہ تورہی اسدیہ اورمدونہ کی تاریخ
اس کو سمجھ چکے توآگے بڑھئے کہ ان مسائل کے امام مالک کی جانب منسوب ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اسد بن فرات معتبر ہیں، سحنون معتبر ہیں، ابن قاسم معتبر ہیں، امام مالک معتبر ہیں۔
اب جہاں تک اس عبارت کی بات ہے تواس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ،خداکرے سمجھ مین آجائے۔
مع أن فيها أشياء لا ينهض دليلها ، بل رأي محض . وحكوا أن سحنونا في أواخر الأمر علم عليها ، وهم بإسقاطها وتهذيب " المدونة " ، فأدركته المنية رحمه الله . فكبراء المالكية ، يعرفون تلك المسائل ، ويقڑون منها ما قدروا عليه ، ويوهنون ما ضعف دليله
مدونہ (سحنون کی مرتب کردہ)میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جو بے دلیل ہیں، بلکہ محض رائے ہیں،اور لوگوں نے نقل کیاہے کہ عمرکے آخری حصے میں سحنون کو بھی اس کا احساس ہوگیاتھا اورانہوں نے ایسی باتوں کو مدونہ سے نکال دینے کا اورمدونہ کی ازسرنو تہذیب وترتیب کا من بنایاتھا،لیکن موت نے اس کی فرصت نہ دی ،بڑے مالکی فقہاء ایسے بے دلیل مسائل کو جانتے ہیں اورجس مسئلہ کی دلیل ضعیف ہوتی ہے ان مسائل کو ضعیف قراردیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس پورے اقتباس میں حافظ ذہبی کا کوئی اشارہ تک ہے کہ مدونہ غیرمعتبر ہے، کیاکسی کتاب میں کچھ مسائل کا بے دلیل پایاجانااس کے غیرمعتبر ہونے کی دلیل ہے،اس طرح تو دنیا کی تمام فقہی کتابیں غیرمعتبر ہوجائیں گی، اورصرف فقہی،حدیث ورجال کی کتابیں بھی غیرمعتبر ہوجائیں گی، کیونکہ کون سی وہ جرح وتعدیل کی کتاب ہے یاکون سا وہ جرح وتعدیل کاامام ہے جس کا تمام حکم درست اور صواب ہے۔
امام شافعی جب تک عراق میں رہے بعض مسائل کے بارے میں ان کا اندازفکر کچھ اورتھا،مصر گئے تو کچھ اورہوگیااوریہ دونوں اب قول قدیم اورقول جدید کے نام سے مشہور ہیں، توکیا اس کو غیرمعتبر ہونے کی علامت قراردیاجائے گا۔ یاللعجب