• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اہل علم کے شذوذات کا ایک انسائیکلو پیڈیا تیار کیا جا سکتا ہے لیکن ان سے صرف نظر اسی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ ان میں خیر کا پہلو غالب ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ہر شخص میں خیر اور شر دونوں پہلو موجود ہوتے ہیں۔ میں اگر گناہ کرتا ہوں تو یہ میرے اندر شر کا پہلو ہے جو ظاہر ہوتا ہے۔ میں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شذوذات تو امام ابن حزم یا علامہ البانی رحمہما اللہ وغیرہ کے بھی ہیں لیکن اہل علم ان پر نقد کرتے ہوئے ان کی شخصیت کو مسخ نہیں ہونے دیتے ہیں کیونکہ ان میں خیر کا پہلو بہت غالب ہے۔ پس ذاکر نائیک صاحب کے بارے راقم کا موقف یہ ہے کہ ان سے اختلاف ہونا چاہیے، ان پر نقد بھی ہو لیکن چونکہ ان کا خیر کا پہلو بہت غالب ہے لہذا یہ نقد اس اسلوب میں ہو کہ ان کی شخصیت مسخ نہ ہونے پائے اور ہماری نقد ان کی ذات سے پھیلنے والی خیر میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ جزاکم اللہ خیرا
لیکن ہم تو اجتہاد میں غلطی کرنے کا حق بھی انہیں لوگوں دیتے ہیں جو اجتہاد کرنے کے مستحق ہیں ۔
کیا ڈاکٹر صاحب کو ان علمی میدانوں سے دور ہی نہیں رہنا چاہیے جو ان کی علمی دسترس سے باہر کے ہیں ؟
کسی کی دعوتی خدمات بہت زیادہ ہیں اس کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے کہ اس کو دین میں من مانی تبدیلی کا اختیار دے دیا جاے ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا سرفراز بھائی،
ڈاکٹر ذاکر نائک کے جواب پر تنقید سے قبل ، ازراہ کرم اس سوال کا درست جواب کیا ہونا چاہئے، وہ بتا دیجئے۔ مجھے ذاتی طور پر شدت سے اصل جواب جاننے کی جستجو ہے۔ باقی ہمیں ڈاکٹر صاحب کی کوئی غلطی، اگر وہ واقعتاً موجود ہے، مان لینے میں کوئی تعصب نہیں۔ لیکن پہلے درست عقیدہ کی وضاحت کتاب و سنت سے ، سلف صالحین سے کی جانی چاہئے۔ سوال کے اپنے اندر ایسی الجھن موجود ہے کہ اس کا عام فہم جواب جس انداز سے بھی دینے کی کوشش کی جائے، ایسا لگتا ہے کہ یا تو کہیں نا کہیں جھول رہ جائے گا اور یا پھر مخلوق کی خالق سے صفت میں برابری لازم آتی محسوس ہوگی۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا سرفراز فیضی بھائی
جزاک اللہ خیرا ابوالحسن علوی بھائی

شاکر بھائی نے صحیح کہا ہے،اس اہم موضوع پر قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح موقف واضح کریں۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
آخر مسئلہ ہے کیا ؟
قرآن وسنت میں اہل جنت اور اہل جنہم کی صفت خالدین بتائی گئی ہے جبکہ خلد نہ اللہ کی صفت ہے اور نہ خالد اللہ کا نام ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
آخر مسئلہ ہے کیا ؟
قرآن وسنت میں اہل جنت اور اہل جنہم کی صفت خالدین بتائی گئی ہے جبکہ خلد نہ اللہ کی صفت ہے اور نہ خالد اللہ کا نام ۔
سرفراز بھائی، مسئلہ مجھ جیسے عام آدمی کے لئے ہے کہ اللہ کی صفت الآخر (جس کا اردو میں میرے لئے معنیٰ یہ ہے کہ اللہ ہمیشہ رہے گا)، اور مخلوق کی صفت خالد( کہ وہ جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہیں گے) میں الفاظ سے قطع نظر، مفہوم کے اعتبار سے فرق کیا ہے؟
میں اللہ کے بارے ہمیشگی، اور مخلوق کے بارے ہمیشگی کے عقیدہ میں تفریق کیسے کروں؟ یا اگر ایسی تفریق ثابت نہیں ہے ، تو مفہوم کے اعتبار سے مخلوق کو خالق کا ہم سر مان لوں؟
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
سرفراز بھائی، مسئلہ مجھ جیسے عام آدمی کے لئے ہے کہ اللہ کی صفت الآخر (جس کا اردو میں میرے لئے معنیٰ یہ ہے کہ اللہ ہمیشہ رہے گا)، اور مخلوق کی صفت خالد( کہ وہ جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہیں گے) میں الفاظ سے قطع نظر، مفہوم کے اعتبار سے فرق کیا ہے؟
میں اللہ کے بارے ہمیشگی، اور مخلوق کے بارے ہمیشگی کے عقیدہ میں تفریق کیسے کروں؟ یا اگر ایسی تفریق ثابت نہیں ہے ، تو مفہوم کے اعتبار سے مخلوق کو خالق کا ہم سر مان لوں؟
پہلی بات ۔اللہ کے نام الآخر کا مطلب ہے کہ اللہ کے بعد کوئی نہیں ، یعنی جب ساری کائنات فنا ہوجائے کی اللہ کی ذات باقی رہے گی۔
حدیث میں اللہ کی صفت آخریت کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے :
وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَيْسَ بَعْدَكَ شَيْءٌ
صحيح مسلم (4/ 2084)

مخلوق آخر نہیں۔ اس کو ابدیت بھی بہر حال فنا کے بعد ہی حاصل ہونی ہے ۔ لہذا اللہ کی صفت آخریت اور مخلوق کی ابدیت میں کوئی تعارض نہیں ۔
ددسری بات۔ مخلوق کی ابدیت اللہ کی عطاء اور اس کی رحمت کی وجہ سے ہوگی جبکہ اللہ غنی اور اس آخریت اور بقاء اس کی صفات ذاتی ہے ۔ لہذا اللہ اور بندے کی ابدیت میں واضح فرق ہے ۔
تیسری بات ۔ محض اسماء و صفات کے اشتراک سے ہمسری اور تماثل لازم نہیں آتا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اصل میں یہ اصول جس کی بنا پر ڈاکٹر ذاکر نائک شبہہ میں پڑ گئے کہ ابدیت صرف اللہ ہی کے لیے ہے خود ہی بے اصل ہے ۔
اور امت کے اجماع کے خلاف ہے۔ قرآن وسنت سے اس کی کوئی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وَاتفقَ سلف الْأمة وأئمتها على أَن من الْمَخْلُوقَات مَالا يعْدم وَهُوَ الْجنَّة وَالنَّار وَالْعرش وَغير ذَلِك
وَلم يقل بِفنَاء جَمِيع الْمَخْلُوقَات إِلَّا طَائِفَة من أهل الْكتاب المبتدعين وَهُوَ قَول بَاطِل
مختصر الفتاوى المصرية (ص: 177)

جنت ، جہنم ، عرش وغیرہ مخلوقات کی ابدیت پر امت کے اسلاف اور ائمہ کا ہمیشہ سے اتفاق رہا ہے اور سارے مخلوقات کے فنا ہوجانے کا عقیدہ سوائے اہل کتاب کے مبتدعین کے اور کسی نے نہیں اختیار کیا ۔ اور ان کا یہ عقیدہ باطل ہے ۔
 

Rashid Yaqoob Salafi

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 12، 2011
پیغامات
140
ری ایکشن اسکور
509
پوائنٹ
114
ویسے اس طرح کے ایک قول کی نسبت امام ابن تیمیہ﷫ کی طرف بھی کی جاتی ہے، نہ جانے یہ کس حد تک صحیح ہے؟
میں نے بھی کسی جگہ یہ پڑھا تھا لیکن وہ صرف "جہنم" کی نسبت سے کہا کیا تھا کیونکہ اگر اللہ کی رحمت کو دیکھا جائے تو ایسا ہونا بعید نہیں. باقی اللہ ہی حقیقت سے آگاہ ہیں. ہمیں اس کا صحیح علم نہیں.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
میں اور میرے ساتھ اہل علم کا ایک بڑا گروہ اس بات کو بہت سختی کے ساتھ محسوس کررہا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے تئیں لوگوں کی دیوانگی آہستہ آہستہ شخصیت پرستی کے ایک بہت بڑے فتنہ کی شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے ۔ حالت یہاں تک پہچ چکی ہے کہ ان کے مداح ان کی بڑی سے بڑی غلطی کو غلطی تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ۔
جزاکم اللہ خیرا۔ اگر مقصود صرف اتنا ہو تو یہ مثبت سوچ ہے لیکن اس مقصود کے تحت نقد میں بھی جس قدر ہو سکے ہمیں اس قسم کے داعیین دین پر نقد کرتے ہوئے ان کی خوبیوں کا بھی کچھ تذکرہ کر دینا چاہیے تا کہ ان کے محبین کے لیے اس نقد کو قبول کرنے میں آسانی اور سہولت رہے۔
 

ابو فرقان

مبتدی
شمولیت
نومبر 11، 2012
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
0
السلام علیکم:

محترم بھائیو:
ہم جیسے کم فہم دین دار لوگوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ ہم پہلے ایک موقف اختیار کر لیتے ہیں پھر اس کے بارے دلائل اکٹھے کرتے ہیں حو کہ اکثر گمراہی کا سبب بنتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک سے اللہ بہت سارا دین کا کام لے رہا ہے اور اس کی شخصیت کفار کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے ہی مسلمانوں کو اس پر سب سے زیادہ بے بنیاد اعتراض ہیں۔
کبھی اس کی زبان لڑکھڑانے پر اعتراض،
کبھی اسکا لفظ ہندو کی وضاحت کرنے پر اعتراض،
کبھی یزید کو رضی اللہ عنہ کہنے ہر اعتراض،
کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوچنے اس انکار کرنے پر اعتراض،
کبھی اس کے لباس پر اعتراض،
لیکن کبھی کسی نے اسکے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں رد نہیں کیا بلکہ اسی وجہ سے اختلاف شروع کر دیا کہ یہ چیز میں نے تو پہلے کبھی نہیں سنی،یا میری سمجھ میں تو نہیں آ رہی،وغیرہ وغیرہ،
وہ ایک علمی شخصیت ہیں اللہ سے اسکے بارے مزید دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ اسے سے دین ک زیادہ سے زیادہ کام لے،اور اسکی غلطیوں کو معاف فرمائے،
اور ہمِں اللہ کے شعار کی قدر کرنی چاہیے،اور جان لینا چاہیے کہ اہل علم بھی اللہ کے شعار میں سے ہیں،
 
Top