شاکر بھائی
یوسف ثانی صاحب اور
حافظ نوید صاحب بتائیں۔
جنت اور جہنم کے لیے خالدین اور ابدا کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی 0.00000001 % ہوگی یہ کس دلیل کے بنیاد پر کہا گیا ہے ؟
جنت اور جہنم کا ایک End ہےاس کی کیا دلیل ہے ؟
سرفراز بھائی جان،
میں نے تو فقط ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا ترجمہ کیا تھا۔ میری دلچسپی اس موضوع میں اتنی ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا جواب غلط ہے تو پھر درست جواب کیا ہے۔
اگر آپ درست جواب کی وضاحت کر دیں تو شاید ہمارے لئے سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب نے اصل غلطی کیا کی ہے اور کہاں کی ہے۔
سوال یہ تھا:
اگر انسان بھی ہمیشہ جنت یا جہنم میں رہیں گے تو کیا یہ اللہ کی صفت الآخر کی ہمسری نہیں ہو جائے گی؟
ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا:
ہمیشگی کا تعلق پس منظر سے ہوتا ہے۔ جیسے قرآن نے کہا تم ہمیشہ غریب رہو گے۔ تو اس کا مطلب ہوگا اس دنیا میں ہمیشہ غریب رہو گے۔ اسی طرح جنت میں ہمیشہ رہو گے، سے مراد یہ ہے کہ وہاں کے عالم کے حساب سے ہمیشگی ہوگی ، یہ ہمیشگی کتنی ہوگی، واللہ اعلم۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ رہنے سے جنت یا جہنم میں انسانوں کے ہمیشہ رہنے کی کوئی نسبت نہیں۔
اس سے مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ ہمیشگی ایک اضافتی صفت ہے۔ جو کہ مختلف بیک گراؤنڈ میں مختلف معانی دیتی ہے۔ اللہ کے لئے الآخر کا بیک گراؤنڈ مختلف ہے، لہٰذا وہاں جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہمیشہ رہے گا، تو اس کا معنی مختلف ہوگا، وہ معنی کیا ہوگا، اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے، واللہ اعلم۔
الآخر کے بارے میں ایک وضاحت انہوں نے یہ کی کہ No End. اس کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔ لیکن کہیں بھی وضاحت سے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اخروی زندگی ختم ہو جائے گی۔
جنت یا جہنم میں بھی ہمیشگی ہے۔ لیکن وہاں کی ہمیشگی کتنی ہوگی، اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے ہر جگہ یہی کہا، واللہ اعلم۔ ہاں دنیا کی زندگی سے تقابل کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کی زندگی وہاں کے مقابلے میں 0.00000001٪ ہوگی یا وہاں بلین بلین سال رہنا ہوگا۔ لیکن کتنے سال؟ واللہ اعلم۔ گویا یہاں بھی انہوں نے دنیا کی نسبت سے اخروی زندگی کی اضافت بیان کرنے کے لئے مثالیں دی ہیں، نا کہ کوئی متعین عدد بیان کیا ہے۔ ناہی آخرت کی زندگی کی حد بیان کی ہے۔ بلکہ ہر ایسی مثال کے بعد واللہ اعلم کہا ہے۔
ہمیشگی ہمیشگی ہوگی ۔ ’’ہمیشگی کتنی ہوگی ‘‘لغو جملہ ہے۔
جی یہ سوال بھی مختلف جہانوں کے تناظر میں ہے۔ جیسے کہ انہوں نے قرآن سے مثال بھی دی کہ تم ہمیشہ غریب رہو گے، سے مراد فقط اِس جہان کی ہمیشگی ہے۔ اور جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہو گے سے مراد اُس جہان کی ہمیشگی ہے۔اِس جہان کی ہمیشگی ہمیں معلوم ہے کہ جب تک زندہ رہیں گے، تب تک غریب رہیں گے۔ اُس جہان کی ہمیشگی ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کب تک ہوگی۔ واللہ اعلم۔!