• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا جنت اور جہنم بھی ایک دن فنا ہوجائیں گی..؟

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
میرا خیال ہے کہ سرفراز فیضی بھائی کو انگریزی سوال جواب کو سمجھنے میں مغالطہ ہوا ہے۔ یا انہیں کسی نے یہ کلپ اسی نوٹ کے ساتھ فراہم کی جو انہوں نے پرکھے بغیر پوسٹ کردی۔
جی نہیں میں نے یہ کلپ خود سنی ہے اور یہ الفاظ میرے اپنے ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شاکربھائی یوسف ثانی صاحب اور حافظ نوید صاحب بتائیں۔
جنت اور جہنم کے لیے خالدین اور ابدا کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی 0.00000001 % ہوگی یہ کس دلیل کے بنیاد پر کہا گیا ہے ؟
جنت اور جہنم کا ایک End ہےاس کی کیا دلیل ہے ؟
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
ویسے اس طرح کے ایک قول کی نسبت امام ابن تیمیہ﷫ کی طرف بھی کی جاتی ہے، نہ جانے یہ کس حد تک صحیح ہے؟
شیخ الاسلام کا یہ فتویٰ اس نسبت کی تردید کرتا ہے ۔
مجموع الفتاوى (18/ 307)
وَسُئِلَ:
عَنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: {سَبْعَةٌ لَا تَمُوتُ وَلَا تَفْنَى وَلَا تَذُوقُ الْفَنَاءَ: النَّارُ وَسُكَّانُهَا وَاللَّوْحُ وَالْقَلَمُ وَالْكُرْسِيُّ وَالْعَرْشُ} فَهَلْ هَذَا الْحَدِيثُ صَحِيحٌ أَمْ لَا؟ .
فَأَجَابَ: هَذَا الْخَبَرُ بِهَذَا اللَّفْظِ لَيْسَ مِنْ كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّمَا هُوَ مِنْ كَلَامِ بَعْضِ الْعُلَمَاءِ. وَقَدْ اتَّفَقَ سَلَفُ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتُهَا وَسَائِرُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ عَلَى أَنَّ مِنْ الْمَخْلُوقَاتِ مَا لَا يَعْدَمُ وَلَا يَفْنَى بِالْكُلِّيَّةِ كَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَالْعَرْشِ وَغَيْرِ ذَلِكَ. وَلَمْ يَقُلْ بِفَنَاءِ جَمِيعِ الْمَخْلُوقَاتِ إلَّا طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ الْمُبْتَدِعِينَ كَالْجَهْمِ بْنِ صَفْوَانَ وَمَنْ وَافَقَهُ مِنْ الْمُعْتَزِلَةِ وَنَحْوِهِمْ وَهَذَا قَوْلٌ بَاطِلٌ يُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ وَإِجْمَاعَ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا. كَمَا فِي ذَلِكَ مِنْ الدَّلَالَةِ عَلَى بَقَاءِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِهَا وَبَقَاءِ غَيْرِ ذَلِكَ مِمَّا لَا تَتَّسِعُ هَذِهِ الْوَرَقَةُ لِذِكْرِهِ. وَقَدْ اسْتَدَلَّ طَوَائِفُ مِنْ أَهْلِ الْكَلَامِ والمتفلسفة عَلَى امْتِنَاعِ فَنَاءِ جَمِيعِ الْمَخْلُوقَاتِ بِأَدِلَّةِ عَقْلِيَّةٍ. وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.


جہاں تک میں جانتا ہوں بعض اسلاف سے جہنم کے فناء کا قول ملتا ہے لیکن جنت اور جہنم دونوں کے فناء کا اہل سنت والجماعت سے کوئی نہیں رہا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اسی طرح جنت میں ہمیشہ رہو گے، سے مراد یہ ہے کہ وہاں کے عالم کے حساب سے ہمیشگی ہوگی ، یہ ہمیشگی کتنی ہوگی، واللہ اعلم۔۔
ہمیشگی ہمیشگی ہوگی ۔ ’’ہمیشگی کتنی ہوگی ‘‘لغو جملہ ہے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شاکربھائی یوسف ثانی صاحب اور حافظ نوید صاحب بتائیں۔
جنت اور جہنم کے لیے خالدین اور ابدا کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی 0.00000001 % ہوگی یہ کس دلیل کے بنیاد پر کہا گیا ہے ؟
جنت اور جہنم کا ایک End ہےاس کی کیا دلیل ہے ؟
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
شاکر بھائی یوسف ثانی صاحب اور حافظ نوید صاحب بتائیں۔
جنت اور جہنم کے لیے خالدین اور ابدا کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی 0.00000001 % ہوگی یہ کس دلیل کے بنیاد پر کہا گیا ہے ؟
جنت اور جہنم کا ایک End ہےاس کی کیا دلیل ہے ؟
سرفراز بھائی جان،
میں نے تو فقط ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا ترجمہ کیا تھا۔ میری دلچسپی اس موضوع میں اتنی ہے کہ اگر ڈاکٹر صاحب کا جواب غلط ہے تو پھر درست جواب کیا ہے۔
اگر آپ درست جواب کی وضاحت کر دیں تو شاید ہمارے لئے سمجھنا آسان ہو جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب نے اصل غلطی کیا کی ہے اور کہاں کی ہے۔
سوال یہ تھا:
اگر انسان بھی ہمیشہ جنت یا جہنم میں رہیں گے تو کیا یہ اللہ کی صفت الآخر کی ہمسری نہیں ہو جائے گی؟
ڈاکٹر صاحب کا جواب یہ تھا:
ہمیشگی کا تعلق پس منظر سے ہوتا ہے۔ جیسے قرآن نے کہا تم ہمیشہ غریب رہو گے۔ تو اس کا مطلب ہوگا اس دنیا میں ہمیشہ غریب رہو گے۔ اسی طرح جنت میں ہمیشہ رہو گے، سے مراد یہ ہے کہ وہاں کے عالم کے حساب سے ہمیشگی ہوگی ، یہ ہمیشگی کتنی ہوگی، واللہ اعلم۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ رہنے سے جنت یا جہنم میں انسانوں کے ہمیشہ رہنے کی کوئی نسبت نہیں۔
اس سے مجھے یہ سمجھ آیا ہے کہ ہمیشگی ایک اضافتی صفت ہے۔ جو کہ مختلف بیک گراؤنڈ میں مختلف معانی دیتی ہے۔ اللہ کے لئے الآخر کا بیک گراؤنڈ مختلف ہے، لہٰذا وہاں جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہمیشہ رہے گا، تو اس کا معنی مختلف ہوگا، وہ معنی کیا ہوگا، اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے، واللہ اعلم۔

الآخر کے بارے میں ایک وضاحت انہوں نے یہ کی کہ No End. اس کا کوئی اختتام نہیں ہوگا۔ لیکن کہیں بھی وضاحت سے انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اخروی زندگی ختم ہو جائے گی۔
جنت یا جہنم میں بھی ہمیشگی ہے۔ لیکن وہاں کی ہمیشگی کتنی ہوگی، اس بارے میں ڈاکٹر صاحب نے ہر جگہ یہی کہا، واللہ اعلم۔ ہاں دنیا کی زندگی سے تقابل کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ دنیا کی زندگی وہاں کے مقابلے میں 0.00000001٪ ہوگی یا وہاں بلین بلین سال رہنا ہوگا۔ لیکن کتنے سال؟ واللہ اعلم۔ گویا یہاں بھی انہوں نے دنیا کی نسبت سے اخروی زندگی کی اضافت بیان کرنے کے لئے مثالیں دی ہیں، نا کہ کوئی متعین عدد بیان کیا ہے۔ ناہی آخرت کی زندگی کی حد بیان کی ہے۔ بلکہ ہر ایسی مثال کے بعد واللہ اعلم کہا ہے۔


ہمیشگی ہمیشگی ہوگی ۔ ’’ہمیشگی کتنی ہوگی ‘‘لغو جملہ ہے۔
جی یہ سوال بھی مختلف جہانوں کے تناظر میں ہے۔ جیسے کہ انہوں نے قرآن سے مثال بھی دی کہ تم ہمیشہ غریب رہو گے، سے مراد فقط اِس جہان کی ہمیشگی ہے۔ اور جنت یا جہنم میں ہمیشہ رہو گے سے مراد اُس جہان کی ہمیشگی ہے۔اِس جہان کی ہمیشگی ہمیں معلوم ہے کہ جب تک زندہ رہیں گے، تب تک غریب رہیں گے۔ اُس جہان کی ہمیشگی ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کب تک ہوگی۔ واللہ اعلم۔!
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
شاکربھائی یوسف ثانی صاحب اور حافظ نوید صاحب بتائیں۔
جنت اور جہنم کے لیے خالدین اور ابدا کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اس کی بھی ایک حد ہے اس کی کیا دلیل ہے؟
دنیا کے مقابلہ میں آخرت کی زندگی 0.00000001 % ہوگی یہ کس دلیل کے بنیاد پر کہا گیا ہے ؟
جنت اور جہنم کا ایک End ہےاس کی کیا دلیل ہے ؟
میرا خیال ہے کہ اس جملے کا "غلط مفہوم" اخذ کیا گیا ہے۔ اس قسم کا جملہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے متعدد بار، مختلف مقامات پر "بطور مثال" کہا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی آخرت کی زندگی کے "End " کی بات نہیں کی ہے۔ وہ دنیا کی زندگی کی طوالت کو آخرت کی زندگی کی طوالت سے "موازنہ" (بطور مثال) کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیوی زندگی آخرت کی زندگی کا زیرو پوائنٹ زیرو زیرو زیرہ۔۔۔۔۔۔ زیرو ون پرسنٹ بھی نہیں ہے یا زیرو پوائنٹ زیرو زیرو زیرہ۔۔۔۔۔۔ زیرو ون پرسنٹ جیساہے کسی "لامحدود عدد " کو ہندسوں میں اسی طرح بیان کیا جاتا یا کیا جاسکتا ہے۔ مثال پھر مثال ہے، جو کبھی بھی "ہو بہو" نہیں ہوسکتی۔ڈاکٹر ذاکر کی ایک "خوبی" (جسے علماء "خامی" سمجھتے ہیں) یہ ہے کہ وہ "مشکل سے مشکل موضوعات" کو عام فہم "عوامی زبان میں " اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ہر ذہنی سطح کا انسان اسے بآسانی سمجھ لیتا ہے۔ جبکہ علمائے کرام کی اکثریت (الا ماشاء اللہ) "عوامی زبان" میں علمی مسائل بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ڈاکٹر صاحب کا سارا کام "تقریری" ہے، جو عوام الناس کے بڑے اجتماع میں عوامی زبان میں کیا گیا ہے، جسے ان کی ٹیم نے بعد ازاں تحریر کی شکل میں بھی پیش کرتے ہیں۔ جلسہ عام کی تقریری زبان اور علمی تحریری زبان میں فرق ہوا کرتا ہے۔ بڑے سے بڑا عالم دین اگر شعلہ بیاں مقرر بھی ہو تو اس کی تقریر اور تحریر کی زبان میں فرق صاف طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ جبکہ داکٹر صاحب تو بنیادی طور پر تحریر کے آدمی ہیں ہی نہیں۔ وہ تقریر، مناظرے، ڈیبیٹ وغیرہ کے آدمی ہیں۔ ان کے جملہ کام کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عزیز قارئین۔!​
کچھ عارضی وجوہات کی بناء پر اس تھریڈ کو عام قارئین سے مخفی کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی اب الحمد للہ دوبارہ سے اوپن کر دیا گیا ہے۔ تمام احباب سے گزارش ہے کہ کسی بھی شخصیت کےحوالے سے بات کرنے کے بجائے قرآن وحدیث کے دلائل سے اصل مسئلہ کو واضح کیا جائے جس کو عنوان کے تحت پیش کردیا گیا ہے۔جزاکم اللہ خیرا واحسن الجزاء
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم
بہت بہت شکریہ کلیم حیدر بھائی جان،آپ اس اہم موضوع کو دوبارہ منظر عام پر لائے اس سے پہلے یہ موضوع میری نظروں سے نہیں گزرا تھا،اتفاق سے اسی موضوع پر میں نے "مبشر حسین لاہوری"صاحب کی کتاب "انسان اور آخرت" کا مطالعہ کیا تو میرے سامنے پہلی بار یہ بات سامنے آئی کہ مصنف نے لکھا ہے اہل علم کے دو گروہ ہیں ایک تو وہ جو جنت اور جہنم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سمجھتے ہیں اور ایک گروہ وہ ہے جو جنت کو تو ہمیشہ کا گھر سمجھتا ہے لیکن جہنم کے فنا ہو جانے کا قائل ہے،اور پھر مصنف نے لکھا ہے کہ حافظ ابن قیم (تلمیذ ابن تیمیہ) بھی اسی موقف کے قائل ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں بھی اس موقف کا زکر کیا ہے۔
اور ان کی دلیل یہ حدیث قدسی ہے جس کا مفہوم ہے کہ اللہ کی رحمت اللہ کے غضب پر غالب ہے۔
میں یہ بات پڑھ کر حیران ہو گیا کیونکہ میں نے فرسٹ ٹائم ایسی بات پڑھی تھی پھر سوچا کہ محدث فورم پر ایک سوال اسی موضوع کے متعلق پوسٹ کروں گا جو ابھی تک لکھا ہوا ہے لیکن پوسٹ نہیں کیا ابھی تک کہ اس تھریڈ پر نظر پڑ گئی۔
سرفراز فیضی بھائی اگر برا نہ منائیں تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کو بھی ایک عالم دین ہونے کے ناطے اس اہم موضوع کی شروعات ڈاکٹر زاکر نائیک حفظہ اللہ کی شخصیت پر تنقید کرنے سے نہیں کرنی چاہیے تھی بلکہ قرآن و حدیث کے مطابق صحیح موقف جاننے کے لیے علماء سے گزارش کرنی چاہیے تھی،اسی لیے ابھی تک محض اس تھریڈ میں زاکر نائیک صاحب کی شخصیت پر تو بحث ہو رہی ہے،لیکن اہم موضوع پر کچھ روشنی نہیں ڈالی جا رہی۔میں محدث فورم پر موجود علماء سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں۔جزاکم اللہ خیرا
 
Top