مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
حرم شریف کی امامت اور جنرل ضیاء الحق آپ کو ان دونوں میں کوئی مماثلث نظر آتی ہے ؟
مقبول بھائی اآپ صاحب علم ہیں اآپ بھی جانتے ہیں کہ یہ کوئی قرینہ نہیں کہ وہ اس قال نہیں تاریخ میں کتنے لوگ کسی منصب کے قابل نہیں تھے اس کے باوجود وہ اس منصب پر فائز ہوئے اور اس کی بہت سی مثالیں اآپ کے علم سے پوشیدہ نہیں ہوں گی لہذا اس واقعہ کو اس بنیاد پر نہ جھٹلائیں کہ وہ اس قابل نہیں تھے یہ بات کریں کہ کیا یہ واقعہ ہوا تھا نہیں ؟اس کی سب سے بڑی وجہ وہ اس قابل نہیں ۔
میں ضیا الحق جیسے بہت سے نام تاریخ سے پیش کر دیتا ہوں جو قطعا اس کے قابل نہیں تھے لیکن انہوں نے حج کی امارت کے ساتھ امامت بھی کروائیحرم شریف کی امامت اور جنرل ضیاء الحق آپ کو ان دونوں میں کوئی مماثلث نظر آتی ہے ؟
@یوسف ثانیاور صلاح الدین صاحب ایک ایمان دار صحافی تھے جیسا کسی مسلمان یا مثالی صحافی کو ہونا چاہیے . یوسف ثانی بھائی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کیسے تھے انہوں نے سچ کو بیان کرنے کے لیے اپنی جان دی تھی لیکن جھوٹ سے مفاہمت نہیں کی
اور دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے
نماز کے پابند , حلال و حرام کے بہت سختی کے ساتھ پابند, اخلاقیات کے حامل , صلہ رحمی پر عامل
جزاکم اللہ خیراجی صحیح کہا آپ نے، یہ بھی ایک سچائی ہے کہ تاریخ میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو جس منصب کے لائق نہیں تھے مگراس پہ بٹھا دئے گئے ۔ ٹھیک ہے اس واقعہ کو اثبات و نفی تک محدود رکھا جائے ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ@یوسف ثانی
صلاح الدین صاحب کا تعارف آپ کی معلومات کے مطابق درکار ہے
مجھے پاکستان میں دو ہی صحافی پسند ہیں اور دونوں اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے ہیں صلاح الدین، اور مجید نظامیالسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
فیض بھائی آپ نے تو پہلے ہی کوزے میں دریا بند کرتے ہوئے صلاح الدین صاحب کی شخصیت کا تعارف کروادیا ہے۔ میری بھی ان کے بارے میں مختصر ترین رائے یہی ہے کہ پاکستان کی صحافتی تاریخ میں ان سے زیادہ ”دیندار“ صحافی کوئی اور نہیں گذرا۔ گو وہ برسوں جماعت اسلامی کے سرکاری ترجمان روزنامہ جسارت کے مدیر اعلیٰ رہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے جسارت کی ملازمت کے دوران بھی جماعت اسلامی کی ”ترجمانی“ کرنے سے ”انکار“ کیا اور بہت سے اہم مواقع پر جسارت کے صفحات پر ہی جماعت اسلامی کی متعدد ”سرکاری پالیسی“ پر کھلم کھلا تنقید کی۔ وہ جس بات کو ”حق“ سمجھتے تھے، اس پر ڈٹ جایا کرتے تھے۔ انہوں نے بھٹو کے دور حکومت میں بھٹو کے ظالمانہ طرز حکومت کی بھرپور مخالفت کی اور اس کی ”سزا“ بھی بھگتی۔ جب ضیاء الحق شہید نے بھٹو کا تختہ الٹا تو ”اسلام پسند اور دائیں بازو“ کے صحافیوں نے ضیاء الحق کی بھرپور حمایت کی۔ ضیا کی حمایت کرنے والوں میں صلاح الدین شہید بھی شامل تھے۔ لیکن اس ”حمایت“ میں بھی صلاح الدین مرحوم نے ”عدل“ کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ ضیاء نے ایم کیو ایم بنائی، جی ایم سید کو پھولوں کا گلدستہ بھیجا تو صلاح الدین نے کھل کر ضیاء الحق کی مخالفت کی۔ ضیا ء الحق کی ”لابی“ کے صحافیوں میں محمد صلاح الدین وہ واحد صحافی نظر آتے ہیں، جنہوں نے ضیاء الحق کی بہت سی پالیسیوں کی مخالفت بھی کی اور ان سے کسی قسم کا کوئی ”فائدہ“ بھی حاصل نہیں کیا۔ واضح رہے کہ ضیاء الحق دور کے بیرونی سرکاری دوروں میں جانے والے صحافیوں کی فہرست میں شامل ہونا، صلاح الدین صاحب کا استحقاق تھا، اسے ”فائدہ“ حاصل کرنا نہیں کہا جاسکتا۔ ضیاء الحق کی قائم کردہ ایم کیو ایم کے خلاف پاکستان بھر میں محمد صلاح الدین وہ واحد صحافی ہیں، جنہوں نے کبھی بھی ایم کیو ایم کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھا۔ اس وقت بھی نہیں جب آئی جی سندھ الطاف حسین کے طلب کرنے پر نائن زیرو میں گھنٹوں ”شرف ملاقات“ کے انتظار میں کھڑے رہتے تھے۔ اور اس وقت بھی نہیں جب کراچی کے قومی پریس کے تمام مدیران الطاف حسین کی ”دعوت“ پر نائن زیرو پہنچے۔ یہ واحد جوں مرد تھا جو احتجاجاً نہیں پہنچا۔ محمد صلاح الدین نے اپنی ادارتی پالیسی میں اس وقت بھی کوئی ”لچک“ نہیں دکھلائی جب سندھ میں ہارون فیملی کے گورنر کے ہوتے ہوئے ایم کیو ایم کے مسلح ”کارکنان“ نے ہارون فیملی کے اخبار انگریزی ڈان کے مرکزی دفاتر “ہارون ہاؤس“ کا دس بارہ روز تک محاصرہ کئے رکھا اور اس دوران کوئی شمارہ چھپ کر ہارون ہاؤس سے باہر نہیں آیا۔ واضح رہے کہ ڈیلی ڈان کراچی سے نکلنے والا وہ ”آخری اخبار“ جس نے نائن زیرو کے آگے گھٹنے ٹیکے۔ صلاح الدین کے ذاتی رسالہ ہفت روزہ تکبیر کو جب ایم کیو ایم والوں نے نذر آتش کیا تو اس وقت ضیاء الحق کے ”جانشین“ نواز شریف بر سر اقتدار تھے۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے جلے ہوئے دفتر کی بحالی کے لئے ایک چیک بھیجا جو ایک ”جائز حکومتی امداد“ تھی۔ مگر صلاح الدین نے یہ چیک بھی واپس کردیا۔
ان سب باتوں کے باوجود وہ ایک عام انسان اور ایک صحافی تھے، تھے، کوئی عالم دین نہیں کہ ان کی تمام تحریریں ”اسلامی معیار“ پر صد فیصد پورا اتریں۔ ان کی بعض تحریروں اور پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی صحافتی دیانت داری، ذاتی حیثیت میں ایک متقی مسلمان ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ میری ان سے متعدد ملاقاتیں بھی رہیں ہیں اور ہم ایک ساتھ علمی و ادبی اداروں کے ”رکن“ بھی رہے ہیں۔ 1994 میں جب ان کی ”شہادت“ ہوئی، تب میں روزنامہ جنگ کے لندن ڈیسک پر اپنے صحافتی فرائض انجام دے رہا تھا۔ اسی شب ہم دونوں نے ایک ”اجلاس“ میں شرکت کرنا تھی۔ میں تو اجلاس میں پہنچ گیا، لیکن وہ اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ صحافتی میدان میں مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کا کوئی موقع نہیں ملا۔ تاہم میں نے ان کی تحریروں اور ادارتی پالیسی سے بہت کچھ سیکھا۔ تکبیر میں صلاح الدین صاحب نے معروف ادیب، شاعر اور محقق مشفق خواجہ سے سیاسی و ادبی شخصیات پر معرکہ الآراء ادبی خاکے ”لکھوائے“، جو انہوں نے ”خامہ بگوش“ کے قلمی نام سے لکھے۔ یہ ادبی کالم دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو لکھی پڑھی جاتی ہے، ”ری۔پرنٹ“ ہوتی رہی۔ ایسے بعض خاکوں پر اعتراضات بھی ہوئے۔ میں نے انہی ادبی خاکوں کی ”نقالی“ میں خود صلاح الدین صاحب پر ایک خاکہ لکھا، جو شہر کی ایک ایسی ادبی مجلس میں پیش کیا گیا، جہاں صلاح الدین صاحب کے مداح بھی موجود تھے۔ اس کاکہ کی بازگشت یقیناً صلاحالدین صاحب تک بھی پہنچی ہوگی کہ اس نشست کی روداد قومی پریس میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی اور اس احقر نے یہ خاکہ تکبیر میں بھی بھجوایا تھا، جو شائع نہیں ہوا۔