کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,000
- ری ایکشن اسکور
- 9,801
- پوائنٹ
- 773
یہ بحث درج ذیل دھاگہ سے الگ کی گئی ہے (انتظامیہ )
اولا:حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزاج میں تھوڑی حدت اورشدت تھی جس کی تصریح حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔فانہ کان مع سع علمہ وفرط شجاعتہ وسیلان ذہنہ ،وتعظیمہ لحرمات الدین بشرامن البشر،تعتریہ حد ۃ فی البحث وغضب وشطط للخصم،تزرع لہ عداو فی النفوس،(الدررالکامنہ لحافظ ابن حجر1/176)
اب اگر ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جمہور محدثین کے اقوال نقل کرنے لگ جائیں تو بات بہت مہنگی پڑ جائے گی اس لئے مشورہ یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں شاذ اقوال پیش کرکے ان کی تنقیص کرنے سے پرہیز کریں۔حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی کارناموں سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتا اعتدال اورتوازن کی کمی نظرآتی ہے
محترم جمشید بھائی اقتباس کا اخری حصہ بھی عبداللہ حیدر بھائی کے کہنے پر نقل کیا جاچکا ہے پہلی پوسٹ دوبارہ دیکھ لیں۔محترم کفایت اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ کا ایک اقتباس نقل کیا۔اوراس میں آخری حصہ شاید سہوانقل ہونے سے رہ گیا۔ جس کی جانب محترم عبداللہ حیدر صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے۔ اس آخری جملے کے نقل نہ ہونے سے مضمون میں کافی گڑبڑی ہوئی ۔
جناب آپ سے زیادہ عدیم الفرصت تومیں ہوں اورآپ کی طرح دینی خدمات اوردینی اداروں سے وابستگی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے مراجع کا حصول میرے لئے زیادہ مشکل ہے۔میرااخبار سے تعلق ہے اوراسی میں صبح وشام بسرہوتے ہیں۔ اس سے کچھ وقت ملتاہے تواس جانب بھی کچھ توجہ کرتاہوں ۔آپ ہی اس کی جانب توجہ کریں۔اولا:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
اگرآپ اسی کلام کو غوروفکر سے پڑھتے تویہ اشکال پیش نہ آتا۔میں پوری عبارت آئندہ نقل کروں گا۔ اس میں غوروفکر کرلیجئے گا۔ ویسے عموماذہین وفطین لوگوں کے ساتھ ایسامعاملہ پیش آیاہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے سیرت مولانا محمد علی مونگیری زیرمطالعہ تھی۔ اس میں علامہ شبلی نعمانی کے بارے میں ہے کہ وہ دوسروں سے نہایت درشتگی سے کلام کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثرندوہ کے ارکان ان سے ازردہ خاطر رہتے تھے اوربالآخر ان ہی کی وجہ سے مولانا محمد علی مونگیری کو ندوہ کی نظامت سے استعفی دیناپڑا۔ثانیا:یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
ان میں مدارات اورخاطرداری کی کمی تھی اورانہوں نے خود اپنے دشمنوں کو اپنے اوپر مدددی،اورایسے مسائل میں دخل دیا جواس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پڑے تھا۔اپنے ساتھ انہوں نے عجیب سیاست کا معاملہ روارکھا۔وہ کئی مرتبہ قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے کبھی ان کامرتبہ بلند ہوا کبھی گھٹ کیا لیکن وہ اپنی رائے پر جمے رہے۔شاید یہ ان کے لئے کفارہ ہوجائے۔کتنی مرتبہ ایساہواکہ انہوں نے خود کو مشکلات میں ڈال دیا لیکن اللہ نے ان کو نجات دیا۔وکان فیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالباً،ولم یکن من رجال الدول،ولایسلک معھم تلک النوامیس واعان اعداءہ علی نفسہ بدخولہ فی مسائل کبار!لایحتملھا عقول ابناء زماننا ولاعلومھم،کمسالۃ التکفیر فی الحلف بالطلاق،ومسالۃ ان الطلاق بالثلاث لایقع الاواحدۃ وان الطلاق فی الحیض لایقع ،وساس نفسہ سیاسۃ عجیبۃ ،فحبس مرات بمصر ودمشق والاسکندریہ ،وارتفع،وانخفض،واستبدبرایہ،وعیسی ان یکون ذلک کفارۃ لہ،وکم وقع فی صعب بقوۃ نفسہ وخلصہ اللہ ۔(تتمۃ المختصر من اخبارالبشر 2/406-412،بحوالہ الدرۃ الیتیمۃ فی سیرۃ التیمیہ)
تاویل کا الزام توویسے ہمیں دیاجاتاہے لیکن خود تاویل آپ نے کی ہے اس سے تاویل کے نئے دریچے بلکہ دروازے واہورہے ہیں۔ کسی شخص کے بارے میں اگریہ کہاجائے کہ اس کے مزاج میں تیزی اورحدت ہے تواس کا کیامطلب ہوتاہے ؟کہ اس نے زندگی میں ایک دومرتبہ تیز کلامی کی ہوگی یاحدت وشدت سے کام لیاہوگا۔ یاللعجبثالثا:تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ کی حدیث یاد کیجئے کہ اللہ نرم خوئی کوپسند کرتاہے۔اوردوسری حدیث کہ نرمی جس چیز سے جڑتی ہے اس مین زینت پیداکردیتی ہے اوردرشتی وخشونت جس چیز سے جڑتی ہے اس کو عیب داربنادیتی ہے۔حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جن مسائل میں اورجن حضرات کے خلاف حدت وشدت سے کام لیاوہ غیرمسلم نہیں مسلم تھے۔ مسئلہ قطعی نہیں تھا بلکہ مجتہدانہ تھا۔پھر خود نفس مسئلہ (جسے آپ نے نقل کیاہے)پوری طرح منقح نہیں ہےبلکہ اس میں ابہام واجمال دونوں ہی موجود ہیں۔رابعا:اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
میرے خیال سے مناسب ہے کہ پوری عبادت نقل کردی جائے تاکہ کفایت اللہ صاحب اوراس موضوع کے دیگر قارئین بھی جان لیں گے کہ یقھرھابالحلم اورمیری پیش کردہ عبارت میں کوئی ممثالت نہیں ہے یہ دیکھئے۔خامسا:جہاں سے یہ نقل کیا جارہا ہے کہ شیخ الاسلام کے کلام میں شدت وحدت تھی وہیں پر ذرا پہلے یہ بھی لکھا ہوا ہے :
تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]
اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی پوری تحریر کو پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ انہوں نے حافظ ذہبی کے کلام کااختصار ضرور کیاہے لیکن وہ اختصار حافظ ذہبی کے کلام ہی سے کیاہے اس میں اپنی بات شامل نہیں کی ہے۔ جس طرح آج بھی کسی کتاب کو مختصر کرنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ ہم اپنے الفاظ میں کتاب کا خلاصہ بیان کردیں دوسرے یہ کہ مصنف کی تحریر سے ہی جستہ جستہ اقتباسات لے کر کتاب کا خلاصہ لکھیں۔ حافظ ابن حجر نے دوسراطریقہ اپنایاہے۔چنانچہ وہ ہرجگہ قال قال لکھتے جاتے ہیں جس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ حافظ ذہبی نے یہ کہاہے ہے۔ اس لئے یہ پیش کردہ اقتباس حافظ ذہبی کا مقولہ ہے نہ کہ حافظ ابن حجر کا خلاصہ۔
آپ کے اس تہدید نما نصیحت یانصیحت نما تہدید سے ہمیں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ توانسانی فطرت ہے کوئی نرم مزاج ہوتاہے کوئی سخت مزاج ہوتاہے ۔کسی کی مزاج میں لطافت اورنرمی ہوتی ہے اورکسی کے مزاج میں خشونت ۔جمشید صاحب نے شاذ اقوال کو لے کر نہ صرف یہ کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں تھوڑی سی شدت و حدت کا حوالہ دے کراسے ہرجگہ فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ علی الاطلاق یہاں تک کہا ہے:
حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی کارناموں سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتا اعتدال اورتوازن کی کمی نظرآتی ہے
اب اگر ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جمہور محدثین کے اقوال نقل کرنے لگ جائیں تو بات بہت مہنگی پڑ جائے گی اس لئے مشورہ یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں شاذ اقوال پیش کرکے ان کی تنقیص کرنے سے پرہیز کریں۔
کسی بھی بحث کودرست سمت میں جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق موضوع پر ثابت قدم رہیں۔ موضوع یہاں حضرت ابن تیمیہ کی ذات یاتنقیص علی کرم اللہ وجہہ کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتااعتدال کی کمی ہے اوراس کی شہادت میں میں نے حافظ ابن حجر کا کلام پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کی جس بات سے مجھے اصل استدلال مطلوب تھا وہ یہ کہ انہوں نے واہی تباہی احادیث کے ساتھ ساتھ جیاد احادیث کوبھی رد کردیاہے۔رہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول تو:
اولا:ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورجمشید صاحب نے علی الاطلاق یہ بات کہہ ڈالی جو بڑی زیادتی ہے۔
ثانیا:حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تنقیص علی کی کوئی مثال نہیں پیش کی ہے کہ دعوی اوردلیل میں غورکیا جائے، نیز بسااوقات روافض کی تردید کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں الزاما پیش کی جاتی ہیں جن سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
عام رواۃ سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بہت سارے فیصلے دلائل سے خالی ہونے کے سبب ہر طبقہ کی طرف سے رد کردئے جاتے ہیں تو ایک عظیم شخصیت کی بابت تنقیص علی جیسے خطرناک الزام کو بغیر دلیل کے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
وضح رہے کہ صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ انہیں حافظ ابن حجرکے بقول بعض لوگوں نے تو ان پر ابوبکرصدیق اورعثمان غنی رضی اللہ عنہما کی تنقیص کابھی الزام لگایاہے، بلکہ انہیں حافظ ابن حجررحمہ کے بقول بعض لوگوں نے توان پر تنقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کا بھی الزام لگایا دیا ہے، کیا یہ بات بھی مان لی جائے؟ حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأطلق ابن تيمية إلى الشام وافترق الناس فيه شيعا فمنهم من نسبه إلى التجسيم لما ذكر في العقيدة الحموية والواسطية وغيرهما من ذلك كقوله إن اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقية لله وأنه مستو على العرش بذاته فقيل له يلزم من ذلك التحيز والانقسام فقال أنا لا أسلم أن التحيز والانقسام من خواص الأجسام فألزم بأنه يقول بتحيز في ذات الله ومنهم من ينسبه إلى الزندقة لقوله إن النبي صلى الله عليه وسلم لا يستغاث به وأن في ذلك تنقيصا ومنعا من تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 181]
اب ذرا دیکھیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب نہیں کی جاسکتی بس اتنی سی بات پر نتقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگ گیا ، اسی طرح ابن تیمہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ سے متعلق مبالغہ آمیز تصورات کی نفی کریں تو کیا یہ تنقیص علی ہے؟؟؟
بہرحال اس دعوی کی دلیل چاہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔
یہ وہی ابن تیمہ رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ نامی کتاب لکھ کر ائمہ کرام کا دفاع کیا ہے ، آخر جو شخصیت ائمہ کرام تک کی تنقیص گورا نہ کرے اور ان کے دفاع میں مستقل کتاب لکھے ، ایسی شخصیت کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہم کیسے مان لیں کی انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی نتقیص کی ہے؟؟؟؟؟
کبھی تو جہالت پر ماتم کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم جاہل ہیں لہٰذا تقلید کے بغیر چارہ کار نہیں اور کبھی تو اتنے بڑے مجتہد کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت سے متعلق ایک منفی رائے قائم کرنے پر بھی قدرت ہے۔حافظ ابن عبدالبر،امام نووی ،کی تحریرمیں جواعتدال وتوازن ہے وہ حضرت علامہ کی تحریر میں نہیں پایاجاتاہے۔یہ میری رائے ہے اوریہ میں نے اپنے مطالعہ کی بناء پر قائم کی ہے۔ آپ چاہیں تواس سے بصدشوق اختلاف کیجئے۔
تلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:جناب آپ سے زیادہ عدیم الفرصت تومیں ہوں اورآپ کی طرح دینی خدمات اوردینی اداروں سے وابستگی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے مراجع کا حصول میرے لئے زیادہ مشکل ہے۔میرااخبار سے تعلق ہے اوراسی میں صبح وشام بسرہوتے ہیں۔ اس سے کچھ وقت ملتاہے تواس جانب بھی کچھ توجہ کرتاہوں ۔آپ ہی اس کی جانب توجہ کریں۔اولا:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
حافظ ابن حجر نے خلاصہ ضرور پیش کیاہے لیکن جوبات نقل کی گئی ہے وہ مقولہ کے طورپر نقل کیاہے خلاصہ کے طورپر نہیں ۔اس کی صراحت آگے بیان ہورہی ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی پوری تحریر کو پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ انہوں نے حافظ ذہبی کے کلام کااختصار ضرور کیاہے لیکن وہ اختصار حافظ ذہبی کے کلام ہی سے کیاہے اس میں اپنی بات شامل نہیں کی ہے۔ جس طرح آج بھی کسی کتاب کو مختصر کرنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ ہم اپنے الفاظ میں کتاب کا خلاصہ بیان کردیں دوسرے یہ کہ مصنف کی تحریر سے ہی جستہ جستہ اقتباسات لے کر کتاب کا خلاصہ لکھیں۔ حافظ ابن حجر نے دوسراطریقہ اپنایاہے۔چنانچہ وہ ہرجگہ قال قال لکھتے جاتے ہیں جس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ حافظ ذہبی نے یہ کہاہے ہے۔ اس لئے یہ پیش کردہ اقتباس حافظ ذہبی کا مقولہ ہے نہ کہ حافظ ابن حجر کا خلاصہ۔
اوپر امام ذہبی کی طرف منسوب کتاب سے جو اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس میں یہ صراحت ہے:اگرآپ اسی کلام کو غوروفکر سے پڑھتے تویہ اشکال پیش نہ آتا۔میں پوری عبارت آئندہ نقل کروں گا۔ اس میں غوروفکر کرلیجئے گا۔ثانیا:یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
یا للعجب !ویسے عموماذہین وفطین لوگوں کے ساتھ ایسامعاملہ پیش آیاہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے سیرت مولانا محمد علی مونگیری زیرمطالعہ تھی۔ اس میں علامہ شبلی نعمانی کے بارے میں ہے کہ وہ دوسروں سے نہایت درشتگی سے کلام کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثرندوہ کے ارکان ان سے ازردہ خاطر رہتے تھے اوربالآخر ان ہی کی وجہ سے مولانا محمد علی مونگیری کو ندوہ کی نظامت سے استعفی دیناپڑا۔
یہ لیں میں مزید آگے پیچھے کے کچھ اور الفاظ نقل کردیتا ہوں :میرے خیال سے مناسب ہے کہ پوری عبادت نقل کردی جائے تاکہ کفایت اللہ صاحب اوراس موضوع کے دیگر قارئین بھی جان لیں گے کہ یقھرھابالحلم اورمیری پیش کردہ عبارت میں کوئی ممثالت نہیں ہے یہ دیکھئے۔
اولا:حافظ ذہبی نے حدت وشدت کی جانب دوسرے پیرائے میں ایک اورمقام پر اظہار خیال کیاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وکان فیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالباً،ولم یکن من رجال الدول،ولایسلک معھم تلک النوامیس واعان اعداءہ علی نفسہ بدخولہ فی مسائل کبار!لایحتملھا عقول ابناء زماننا ولاعلومھم،کمسالۃ التکفیر فی الحلف بالطلاق،ومسالۃ ان الطلاق بالثلاث لایقع الاواحدۃ وان الطلاق فی الحیض لایقع ،وساس نفسہ سیاسۃ عجیبۃ ،فحبس مرات بمصر ودمشق والاسکندریہ ،وارتفع،وانخفض،واستبدبرای ہ،وعیسی ان یکون ذلک کفارۃ لہ،وکم وقع فی صعب بقوۃ نفسہ وخلصہ اللہ ۔(تتمۃ المختصر من اخبارالبشر 2/406-412،بحوالہ الدرۃ الیتیمۃ فی سیرۃ التیمیہ)
مفقود یا مخطوط کی بات دور کی ہے اگر کسی موجود اور مطبوع کتاب سے بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نقل کریں تب بھی وہ بات تب تک مستند نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف درست ہے، خود امام ذہبی کی مثال لیں ان کی طرف بھی من گھڑت کتب منسوب ہیں مثلا النصیحہ وغیرہ ، اسی طرح ظالموں نے امام ذہبی کی طرف ایک خط بھی منسوب کیا ہے جس میں امام ذہبی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو سمجھاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس کتاب سے کیا نقل کیا جارہا ہے اور س کتاب کی پوزیش کیاہے۔دوسرے اگر کوئی بات حافظ ابن حجر حافظ ذہبی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں توکیاصرف اس بناء پر ہمارے لئے انکار رواہوجائے گاکہ ہمیں ان کی کتابوں میں نہیں ملا۔ ابھی خود حافظ ذہبی کی بہت سی تصنفیات مفقود یامخطوطہ کی شکل میں ہیں۔ لہذا یہ اشکال یاشک کوئی وزن نہیں رکھتا۔
یہ بات خود آپ نے کہی تھی کہ:تاویل کا الزام توویسے ہمیں دیاجاتاہے لیکن خود تاویل آپ نے کی ہے اس سے تاویل کے نئے دریچے بلکہ دروازے واہورہے ہیں۔ کسی شخص کے بارے میں اگریہ کہاجائے کہ اس کے مزاج میں تیزی اورحدت ہے تواس کا کیامطلب ہوتاہے ؟کہ اس نے زندگی میں ایک دومرتبہ تیز کلامی کی ہوگی یاحدت وشدت سے کام لیاہوگا۔ یاللعجبثالثا:تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
کسی کو تیزمزاج کہاہی اس وقت جاتاہے جب کہ وہ اس کا مزاج اورطبعیت بن چکاہو۔ اوراس سے کرات ومرات اس کا صدور ہواہو ۔ورنہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغ والے شخص کوبھی اپنی زندگی میں کئی مرتبہ حدت شدت سخت کلامی تلخ کلامی کی نوبت آجاتی ہے۔
مذکورہ جملے میں شدت کو ایک معیوب چیز مان کر جواب دیا گیا تھا لہٰذا یہاں یہ حدیث پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے یہ حدیث آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ اسلوب میں شدت کے باوجود اسلوب پسندیدہ ہوتا ہے لیکن ہم نے سخت اسلوب میں پیش کے گئے حق پر بات کیا تھا یعنی حق اگر معیوب طریقہ سے پیش کیا جائے تو اس کی وجہ سے حق کو ٹھکرانے کا جواز نہیں ملتا ہے، اگر اس سے آپ کو اتفاق نہیں تو اسی حدیث کی روشنی میں بتلائے کہ اگر کوئی باطل کو نرمی کے ساتھ پیش کرے توکیا اسے قبول کرلیا جائے گا؟؟؟حضرت عائشہ رضی اللہ کی حدیث یاد کیجئے کہ اللہ نرم خوئی کوپسند کرتاہے۔اوردوسری حدیث کہ نرمی جس چیز سے جڑتی ہے اس مین زینت پیداکردیتی ہے اوردرشتی وخشونت جس چیز سے جڑتی ہے اس کو عیب داربنادیتی ہے۔رابعا:اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
یہ ایک سازش ہے کہ شیخ الاسلام نے بعض مسائل میں شدت سے کام لیا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ نے حنفیت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کی تردید آسان ہو ، ورنہ انہیں شیخ الاسلام نے حنبلیت ، شافعیت اور مالکیت کے خلاف بھی مسائل بیان کئے ہیں لیکن ان میں مسائل میں آپ کو شدت کا نام ونشان بھی نظر نہ آئے گا۔حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جن مسائل میں اورجن حضرات کے خلاف حدت وشدت سے کام لیاوہ غیرمسلم نہیں مسلم تھے۔ مسئلہ قطعی نہیں تھا بلکہ مجتہدانہ تھا۔
جی ہاں پوری طرح اس لئے منقح نہیں ہے کیونکہ آپ کے خلاف پیش کیا گیا ہے اگر آپ کے موافق پیش کیاجائے تو آپ ہی اسے منقح ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے جیسا کہ اس ٹھریڈ (بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی) میں آپ نے کیا ہے۔پھر خود نفس مسئلہ (جسے آپ نے نقل کیاہے)پوری طرح منقح نہیں ہےبلکہ اس میں ابہام واجمال دونوں ہی موجود ہیں۔
ہم اب بھی آپ سے یہی کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام کسی بات سے آپ کو اختلاف ہو تو شوق سے اختلاف کریں لیکن خواہ مخواہ انہیں معیوب اوصاف سے متصف نہ کریں ، ورنہ کیا خیال جب بھی امام ابوحنیفہ کا کوئی قول سامنے آئے تو اس کی تردید سے پہلے امام صاحب پر کی گئی جروح کا تذکرہ شروع کردیا جائے۔آپ کے اس تہدید نما نصیحت یانصیحت نما تہدید سے ہمیں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ توانسانی فطرت ہے کوئی نرم مزاج ہوتاہے کوئی سخت مزاج ہوتاہے ۔کسی کی مزاج میں لطافت اورنرمی ہوتی ہے اورکسی کے مزاج میں خشونت ۔
ویسے مجھے لگتاہے کہ آپ نے نسبتاپر کماحقہ غورنہیں کیاہے۔
نقد رجال میں تشدد اور شرعی مسائل کے بیان میں تشدد دونوں الگ الگ چیز ہے ، خلط ملط نہ کریں۔علم جرح وتعدیل میں بھی محدثین کے تین گروپ رہے ہیں۔ متشدد،معتدل اورمتساہل اس کی تصریح حافظ ذہبی اورحافظ سخاوی اوردیگر اجلہ علماء نے کی ہے۔اب ہم پوچھناچاہتے ہیں کہ کیاان حضرات نے کچھ محدثین کو متشدد کے زمرہ میں رکھ کر کوئی براکام کیا۔
الزاما کوئی بات پیش کرنا طعن وتشنیع نہیں ہوتا ، پہلے ہی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔ویسے جہاں تک امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر کلام کی بات ہے ہمیں یقین تھاکہ پرنالہ یہیں گرے گا۔فورمز پر کئی سال ہوگئے آج تک کبھی اس میں تخلف نہیں ہوا کہ لوگ جب زیر بحث موضوع سے فرار اختیار کرتے ہیں توسیدھے حضرت امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ایک بات اوربھی عرض کردوں۔ آپ نے ایک فورم پر ماشاء اللہ مقبل الوادعی کی کتاب نشرالصحیفہ کا حوالہ دیاہواہے۔گویااس کتاب اوراس کے مندرجات سے آنجناب کو اتفاق ہے اوریہاں پر ایساتاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویاآپ بھی امام صاحب کے عقیدت کیشوں میں ہیں اور وفاداری بشرط استواری اگرحضرت ابن تیمیہ کو کچھ کہاگیاتواس کا انتقام امام ابوحنیفہ سے لیاجائے گا۔
الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے !کسی بھی بحث کودرست سمت میں جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق موضوع پر ثابت قدم رہیں۔ موضوع یہاں حضرت ابن تیمیہ کی ذات یاتنقیص علی کرم اللہ وجہہ کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتااعتدال کی کمی ہے