• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزاج میں تھوڑی حدت اورشدت تھی جس کی تصریح حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔فانہ کان مع سع علمہ وفرط شجاعتہ وسیلان ذہنہ ،وتعظیمہ لحرمات الدین بشرامن البشر،تعتریہ حد ۃ فی البحث وغضب وشطط للخصم،تزرع لہ عداو فی النفوس،(الدررالکامنہ لحافظ ابن حجر1/176)
خلاصہ یہ کہ حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے باوجود وسعت علم ،فرط شجاعت ،سرعت ذہن اورحرمات دین کی تعظیم وتکریم جیسے اوصاف سے متصف ہونے کے باوجود ایک انسان تھے ۔ اوربحث کے دوران اایسارویہ ہوتاتھاکہ جس کی وجہ سے دلوں میں نفرت پیداہوجاتی تھی۔
حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی کارناموں سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتا اعتدال اورتوازن کی کمی نظرآتی ہے جس کی وجہ سے ان کے ابحاث یک طرفہ ہوجاتے ہیں۔ اسی کی جانب اشارہ کیاہے حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ نے
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ابن تیمیہٌ نے ابن مطہر شیعی کے رد میں ایک کتاب لکھی منہاج السنۃ اس میں جہاں ابن مطہرکے پیش کردہ موضوع اورواہی حدیثوں کارد کیاوہیں اس میں بہت ساری اچھی حدیثیں بھی رد کردیں اوراس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے حافظہ پر بھروسہ کیا (اورکتابوں کی جانب رجوع نہیں کیا)اورانسان کو بھول چوک سے سابقہ پڑتاہی ہے اوراسی طرح اس رافضی کی تردید میں وہ کہیں کہیں حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
یہاں تک بات حضرت ابن تیمیہ رحمتہ اللہ کی ذات سے متعلق تھی اب کچھ باتیں ان کے اس قول پر بھی ہوجائے۔ حضرت ابن تیمیہ کامقام بھی دوسرے کبار علماء کی طرح ہی ہے۔ ان سے بھی غلطیاں اورلغزشیں ہوئی ہیں اس سے بچاہواکوئی نہیں ہے۔ توپھر محض اس قول کو پیش کردینا کیامعنی رکھتاہے۔
ویسے حضرت شیخ الاسلام نے اس کی تصریح نہیں کی ہے کہ اس کا حقداراورمستحق کون ہے کہ جو اپنے امام سے بجاطورپر اختلاف کرسکے۔آیاہرشخص یاصرف وہ شخص جس نے علوم اسلامیہ میں رسوخ وکمال بہم پہنچایاہو اورپھرقرآن وحدیث کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچاہو کہ ہمارے امام کافلاں قول ضعیف ہے جب کہ دوسرے امام کا قول راجح اورقوی ہے۔
ثانی الذکر کوکسی بھی معتبر عالم نے برانہیں کہااورہردور میں علماء اس پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ اگر صرف علماء احناف کے تفردات یاوہ قول جوانہوں نے فقہ حنفی سے ہٹ کر اختیار کیاہے اس پر کو جمع کیاجائے توایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے۔
ہندوستان میں شاہ ولی اللہ نے متعدد مقامات پر امام ابوحنیفہ کے قول کے برخلاف قول اختیار کیا۔ اس پر کسی نے نکیر نہیں کیا۔ کیونکہ شاہ ولی اللہ نے اختلاف علم کے ساتھ کیاتھاجہالت کے ساتھ نہیں۔
ان کے بعد مولانا عبدالحی لکھنوی کی کتابیں پڑھئے بہت سے مقامات پر انہوں نے امام ابوحنیفہ سے اختلاف کیاہے ان کے بعد کے علماء علم اورتحقیق کی بنیاد پر اختلاف کرتے رہے ہیں اس کوکسی نے برانہیں کہا اورنہ سمجھا۔ دور حاضر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری کی جدید فقہی مسائل پڑھئے کئی مسائل ایسے ملیں گے جہاں وہ ائمہ ثلاثہ کی رائے کوترجیح دیتے ہیں ۔ان کی بھی کسی تفسیق اورتبدیع نہیں کی کیونکہ یہ علم کے ساتھ اختلاف تھا۔
ہاں دورحاضر میں جوکچھ لوگوں نے اجتہاد کو بانٹنا شروع کیاہے اورہرہماوشماکو لائق اجتہاد سمجھتے ہیں وہ صحیح طورپر ضلالت اورگمراہی کا پیش خیمہ ہے اورضلوواضلو کامصداق ہے۔
اسی کا سہارالے کر دورحاضر کے تجددپسند اجتہاد کی آڑ میں نئے گل کھلارہے ہیں اوراگرکوئی بندہ خدااس کو ٹوکے توالٹاجواب ملتاہے کہ کس نے کہاکہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیایہ ہمارااجتہاد ہے۔
بہرحال یہ بات ایسی ہے جوایک مرتبہ نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔
ہم پھر دوبارہ موضوع کی جانب آتے ہیں ۔علامہ شاطبی کہتے ہیں کہ جاہلوں کیلئے ائمہ اجتہاد کے اقوال ہی حجت ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں ۔
"فتاوي المجتهدين بالنسبة إلى العوام كالأدلة الشرعية بالنسبة إلى المجتهدين، والدليل عليه أن وجود الأدلة بالنسبة إلى المقلدين وعدمها سواء إذ كانوا لا يستفيدون منها شيئًا، فليس النظر في الأدلة والاستنباط من شأنهم ولا يجوز ذلك لهم ألبتة، وقد قال تعالى: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ}، والمقلِّد غير عالم، فلا يصح له إلا سؤال أهل الذكر، وإليهم مرجعه في أحكام الدين على الإطلاق، فَهُمْ إذًا القائمون له مقام الشارع وأقوالهم قائمة مقام الشارع" ([6])).([6]) الموافقات للشاطبي 4/292- 293.
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ مجتہدین کے فتاوی عوام کیلئے ادلہ شرعیہ کی طرح ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ آدمی جس کو قرآن وحدیث کا علم نہ ہو اس کیلئے قرآن وحدیث کی دلیل کا ہونااورنہ ہونا دونوں برابر ہے اورایسے لوگوں کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایاہے کہ وہ اہل علم سے پوچھ لیاکریں۔اورمقلد چونکہ عالم نہیں ہوتا ہے تواس کیلئے ایک ہی صورت بچتی ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اوردین کے احکام کے انہیں کی جانب مطلقا رجوع کرے۔ کیونکہ وہ ان کیلئے شارع کے قائم مقام اوران کے اقوال شارع کے اقوال کے قائم ہیں۔
اگرہرایک کو یہ اختیار دے دیاجائے کہ وہ اپنی مرضی سے جس کی چاہے تقلید کرلے کسی ایک کاپابند نہ رہے توپھر ایک طرح کی انارکی اورذہنی وفکری انتشار پھیل جائے گا اوراحکام دین مذاق بن جائیں گے جس کو جس حکم میں جہاں سہولت ملے گی اسی کواختیار کرنے کی کوشش کرے گا ویسے بھی اس دور میں جب کہ دینی وازع بہت کمزور ہوچکاہے اس کاامکان بہت زیادہ بڑھ جاتاہے اوراس کی جانب حضرت شاہ ولی اللہ نے بھی عقدالجید میں اور حافظ ابن رجب الحنبلی نے بھی الرد علی من اتبع غیرالمذاہب الاربع میں توجہ دلائی ہے دونوں رسالوں کا مطالعہ مفید رہے گا۔ والسلام
تنبیہہ: کچھ نامناسب الفاظ حذف۔ انتظامیہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزاج میں تھوڑی حدت اورشدت تھی جس کی تصریح حافظ ذہبی نے بھی کی ہے۔فانہ کان مع سع علمہ وفرط شجاعتہ وسیلان ذہنہ ،وتعظیمہ لحرمات الدین بشرامن البشر،تعتریہ حد ۃ فی البحث وغضب وشطط للخصم،تزرع لہ عداو فی النفوس،(الدررالکامنہ لحافظ ابن حجر1/176)
اولا:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
ثانیا:
یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
ثالثا:
تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
رابعا:
اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
خامسا:
جہاں سے یہ نقل کیا جارہا ہے کہ شیخ الاسلام کے کلام میں شدت وحدت تھی وہیں پر ذرا پہلے یہ بھی لکھا ہوا ہے :
تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]

جمشید صاحب نے شاذ اقوال کو لے کر نہ صرف یہ کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں تھوڑی سی شدت و حدت کا حوالہ دے کراسے ہرجگہ فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ علی الاطلاق یہاں تک کہا ہے:
حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی کارناموں سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتا اعتدال اورتوازن کی کمی نظرآتی ہے
اب اگر ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جمہور محدثین کے اقوال نقل کرنے لگ جائیں تو بات بہت مہنگی پڑ جائے گی اس لئے مشورہ یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں شاذ اقوال پیش کرکے ان کی تنقیص کرنے سے پرہیز کریں۔

رہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول تو:
اولا:
ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورجمشید صاحب نے علی الاطلاق یہ بات کہہ ڈالی جو بڑی زیادتی ہے۔
ثانیا:
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تنقیص علی کی کوئی مثال نہیں پیش کی ہے کہ دعوی اوردلیل میں غورکیا جائے، نیز بسااوقات روافض کی تردید کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں الزاما پیش کی جاتی ہیں جن سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
عام رواۃ سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بہت سارے فیصلے دلائل سے خالی ہونے کے سبب ہر طبقہ کی طرف سے رد کردئے جاتے ہیں تو ایک عظیم شخصیت کی بابت تنقیص علی جیسے خطرناک الزام کو بغیر دلیل کے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
وضح رہے کہ صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ انہیں حافظ ابن حجرکے بقول بعض لوگوں نے تو ان پر ابوبکرصدیق اورعثمان غنی رضی اللہ عنہما کی تنقیص کابھی الزام لگایاہے، بلکہ انہیں حافظ ابن حجررحمہ کے بقول بعض لوگوں نے توان پر تنقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کا بھی الزام لگایا دیا ہے، کیا یہ بات بھی مان لی جائے؟ حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأطلق ابن تيمية إلى الشام وافترق الناس فيه شيعا فمنهم من نسبه إلى التجسيم لما ذكر في العقيدة الحموية والواسطية وغيرهما من ذلك كقوله إن اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقية لله وأنه مستو على العرش بذاته فقيل له يلزم من ذلك التحيز والانقسام فقال أنا لا أسلم أن التحيز والانقسام من خواص الأجسام فألزم بأنه يقول بتحيز في ذات الله ومنهم من ينسبه إلى الزندقة لقوله إن النبي صلى الله عليه وسلم لا يستغاث به وأن في ذلك تنقيصا ومنعا من تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 181]
اب ذرا دیکھیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب نہیں کی جاسکتی بس اتنی سی بات پر نتقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگ گیا ، اسی طرح ابن تیمہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ سے متعلق مبالغہ آمیز تصورات کی نفی کریں تو کیا یہ تنقیص علی ہے؟؟؟
بہرحال اس دعوی کی دلیل چاہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔
یہ وہی ابن تیمہ رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ نامی کتاب لکھ کر ائمہ کرام کا دفاع کیا ہے ، آخر جو شخصیت ائمہ کرام تک کی تنقیص گورا نہ کرے اور ان کے دفاع میں مستقل کتاب لکھے ، ایسی شخصیت کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہم کیسے مان لیں کی انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی نتقیص کی ہے؟؟؟؟؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کلیم عاجز کا شعریاد آرہاہے
ہم نے بے فائدہ چھیڑی غم ایام کی بات
کون بیکار یہاں ہے جوسنے کام کی بات
محترم کفایت اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ کا ایک اقتباس نقل کیا۔اوراس میں آخری حصہ شاید سہوانقل ہونے سے رہ گیا۔ جس کی جانب محترم عبداللہ حیدر صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے۔ اس آخری جملے کے نقل نہ ہونے سے مضمون میں کافی گڑبڑی ہوئی ۔جہاں تک میں سمجھاہوں ۔حضرت ابن تیمیہ کے کلام کااصل منشاء یہ ہے کہ کسی فرد واحد کو اتھارٹی نہیں ہے اورنہ اس کی تقلید وپیروی ہرایک پر لازم ہے مثلااگرکوئی یہ کہتاہے کہ امام ابوحنیفہ کی ہی تقلید ہونی چاہئے یاامام شافعی کی یاامام مالک کی تونہایت غلط ہے کیونکہ کسی کے حق میں کوئی دلیل اورحجت نہیں ہے لیکن اس کے بغیر اگرکوئی شخص کسی ایک امام کی تقلید کرتاہے تویہ غلط نہیں ہے ۔
اب چونکہ بات اس سے آگے نکلے گی تو تقلید اورعدم تقلید کی بحث چھڑجائے گی،اس سے گریز کرتاہوں۔ ویسے صحیح بات کیلئے اتناکافی سمجھیں کہ علماء حق کے نزدیک تقلید کاوجوب وجوب شرعی نہیں بلکہ وجوب انتظامی ہے۔ یعنی اگرایسانہ کیاجائے توپھر افراتفری اورذہنی وفکری انتشار پھیل جانے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس کی وضاحت بہترطریقے سے حضرت شاہ ولی اللہ نے عقدالجید میں کیاہے اسی طرح حافظ ابن رجب الحنبلی نے بھی اپنے مختصر ومفید رسالہ "الرد علی من اتبع غیرالمذاہب الاربع میں فقہ واجتہاد میں ائمہ اربعہ کے درمیان ہی دائررہنے پر زور دیاہے۔
یہ حقیقت ہے کہ علماء علم کی بناء پر ائمہ مجتہدین سے اختلاف کرسکتے ہیں اورکسی قول میں کسی دوسرے مسلک کا قول اختیار کرسکتے ہیں اورایسابسااوقات کیاگیاہے۔ کبھی عوام سے کسی مشقت اورتکلیف کو دورکرنے کیلئے کسی دوسرے مسلک کا قول اختیار کیاجاتاہے لیکن اس کی اپنی شرائط ہیں جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے الٰحیلۃ الناجزۃ میں بیان کی ہیں۔
لیکن اگراس کی اجازت عوام کو ہو کہ چاروں ائمہ کے قول میں سے جس کوچاہیں اختیار کرلیں توپھر ایک توعوام علم سے عاری ہوتے ہیں۔ دوسرے ان کے اندر وہ احتیاط اورشرائط کا لحاظ نہیں ہوتاجوکہ ضروری ہیں۔ اس لئے ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی ایک ہی امام کے اقوال واجتہادات پر عمل کریں۔
اگرآپ غوروفکر سے کام لیں گے توپتہ چلے گاکہ فقہ حنفی میں ساراقول امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے اسی طرح فقہ شافعی مین ساراقول امام شافعی رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے۔ اسی طرح فقہ مالکی میں تمام اقوال امام مالکرضی اللہ عنہ کے نہیں ہے اورنہ ہی فقہ حنبلی کا دارومدار صرف امام احمد بن حنبلرضی اللہ عنہ پر ہے۔بلکہ ان ائمہ کے تلامذہ اورمنتسیبن کی بھی محنتیں اورکاوشتیں اوران کے اقوال شامل ہیں۔
فقہ حنفی میں مفتی بہ مسائل کاایک بڑا حصہ صاحبین کاہے۔ اسی طرح چودہ یااٹھارہ مسائل ایسے ہیں جن میں فتوی امام ابوحنیفہ کے قول پر نہیں بلکہ امام زفر کے قول پر ہے۔ اسی طرح کہاجاسکتاہے کہ اگرکوئی شخص فقہ حنفی پر عمل کررہاہے تو وہ تقلید شخصی نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مکتب فکر کی پیروی کرتاہے نہ کہ کسی ایک اورخاص شخص کی ۔ اس باریکی کو بہت سے لوگوں نے نظرانداز کیاہے جس کی وجہ سے ان غلطیاں اورخلط ملط واقع ہوئیں ہیں۔
ویسے ایک بات اپنی بھی عرض کردوں باوجود اوربے انتہاکوشش کے ابھی تک میں سمجھ نہیں پایاکہ ایک عامی کیلئے تقلید اوراتباع میں کیافرق ہے۔ کچھ لوگوں نے فروق بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مجھے تو وہ صرف لفظوں کے طوطامیناہی لگے۔
حافظ ابن عبدالبر نے جامع فضل العلم میں تقلید اوراتباع کے درمیان فرق بیان کیاہے اوراس کو ہمارے اہل حدیث برادران خاصے پیش کرتے ہیں لیکن ان کا بیان کردہ اتباع اہل علم کیلئے ہے عامیوں کیلئے نہیں ہے۔چنانچہ اسی بحث کے آخر میں وہ عامیوں کیلئے تقلید کا جواز آیت فاسئلواہل الذکر ان کنتم لاتعلمون سے ثابت کرتے ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
محترم کفایت اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے فتاویٰ کا ایک اقتباس نقل کیا۔اوراس میں آخری حصہ شاید سہوانقل ہونے سے رہ گیا۔ جس کی جانب محترم عبداللہ حیدر صاحب نے بھی توجہ دلائی ہے۔ اس آخری جملے کے نقل نہ ہونے سے مضمون میں کافی گڑبڑی ہوئی ۔
محترم جمشید بھائی اقتباس کا اخری حصہ بھی عبداللہ حیدر بھائی کے کہنے پر نقل کیا جاچکا ہے پہلی پوسٹ دوبارہ دیکھ لیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اولا:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
جناب آپ سے زیادہ عدیم الفرصت تومیں ہوں اورآپ کی طرح دینی خدمات اوردینی اداروں سے وابستگی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے مراجع کا حصول میرے لئے زیادہ مشکل ہے۔میرااخبار سے تعلق ہے اوراسی میں صبح وشام بسرہوتے ہیں۔ اس سے کچھ وقت ملتاہے تواس جانب بھی کچھ توجہ کرتاہوں ۔آپ ہی اس کی جانب توجہ کریں۔
حافظ ابن حجر نے خلاصہ ضرور پیش کیاہے لیکن جوبات نقل کی گئی ہے وہ مقولہ کے طورپر نقل کیاہے خلاصہ کے طورپر نہیں ۔اس کی صراحت آگے بیان ہورہی ہے۔

ثانیا:یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
اگرآپ اسی کلام کو غوروفکر سے پڑھتے تویہ اشکال پیش نہ آتا۔میں پوری عبارت آئندہ نقل کروں گا۔ اس میں غوروفکر کرلیجئے گا۔ ویسے عموماذہین وفطین لوگوں کے ساتھ ایسامعاملہ پیش آیاہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے سیرت مولانا محمد علی مونگیری زیرمطالعہ تھی۔ اس میں علامہ شبلی نعمانی کے بارے میں ہے کہ وہ دوسروں سے نہایت درشتگی سے کلام کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثرندوہ کے ارکان ان سے ازردہ خاطر رہتے تھے اوربالآخر ان ہی کی وجہ سے مولانا محمد علی مونگیری کو ندوہ کی نظامت سے استعفی دیناپڑا۔
حافظ ذہبی نے حدت وشدت کی جانب دوسرے پیرائے میں ایک اورمقام پر اظہار خیال کیاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وکان فیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالباً،ولم یکن من رجال الدول،ولایسلک معھم تلک النوامیس واعان اعداءہ علی نفسہ بدخولہ فی مسائل کبار!لایحتملھا عقول ابناء زماننا ولاعلومھم،کمسالۃ التکفیر فی الحلف بالطلاق،ومسالۃ ان الطلاق بالثلاث لایقع الاواحدۃ وان الطلاق فی الحیض لایقع ،وساس نفسہ سیاسۃ عجیبۃ ،فحبس مرات بمصر ودمشق والاسکندریہ ،وارتفع،وانخفض،واستبدبرایہ،وعیسی ان یکون ذلک کفارۃ لہ،وکم وقع فی صعب بقوۃ نفسہ وخلصہ اللہ ۔(تتمۃ المختصر من اخبارالبشر 2/406-412،بحوالہ الدرۃ الیتیمۃ فی سیرۃ التیمیہ)
ان میں مدارات اورخاطرداری کی کمی تھی اورانہوں نے خود اپنے دشمنوں کو اپنے اوپر مدددی،اورایسے مسائل میں دخل دیا جواس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پڑے تھا۔اپنے ساتھ انہوں نے عجیب سیاست کا معاملہ روارکھا۔وہ کئی مرتبہ قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار ہوئے کبھی ان کامرتبہ بلند ہوا کبھی گھٹ کیا لیکن وہ اپنی رائے پر جمے رہے۔شاید یہ ان کے لئے کفارہ ہوجائے۔کتنی مرتبہ ایساہواکہ انہوں نے خود کو مشکلات میں ڈال دیا لیکن اللہ نے ان کو نجات دیا۔
یہی باتیں جو یہاں حافظ ذہبی نے مختصراًکہی ہیں دوسرے مقامات پر تفصیل سے بیان کی ہیں۔ دوسرے اگر کوئی بات حافظ ابن حجر حافظ ذہبی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں توکیاصرف اس بناء پر ہمارے لئے انکار رواہوجائے گاکہ ہمیں ان کی کتابوں میں نہیں ملا۔ ابھی خود حافظ ذہبی کی بہت سی تصنفیات مفقود یامخطوطہ کی شکل میں ہیں۔ لہذا یہ اشکال یاشک کوئی وزن نہیں رکھتا۔

ثالثا:تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
تاویل کا الزام توویسے ہمیں دیاجاتاہے لیکن خود تاویل آپ نے کی ہے اس سے تاویل کے نئے دریچے بلکہ دروازے واہورہے ہیں۔ کسی شخص کے بارے میں اگریہ کہاجائے کہ اس کے مزاج میں تیزی اورحدت ہے تواس کا کیامطلب ہوتاہے ؟کہ اس نے زندگی میں ایک دومرتبہ تیز کلامی کی ہوگی یاحدت وشدت سے کام لیاہوگا۔ یاللعجب
کسی کو تیزمزاج کہاہی اس وقت جاتاہے جب کہ وہ اس کا مزاج اورطبعیت بن چکاہو۔ اوراس سے کرات ومرات اس کا صدور ہواہو ۔ورنہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغ والے شخص کوبھی اپنی زندگی میں کئی مرتبہ حدت شدت سخت کلامی تلخ کلامی کی نوبت آجاتی ہے۔
رابعا:اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ کی حدیث یاد کیجئے کہ اللہ نرم خوئی کوپسند کرتاہے۔اوردوسری حدیث کہ نرمی جس چیز سے جڑتی ہے اس مین زینت پیداکردیتی ہے اوردرشتی وخشونت جس چیز سے جڑتی ہے اس کو عیب داربنادیتی ہے۔حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جن مسائل میں اورجن حضرات کے خلاف حدت وشدت سے کام لیاوہ غیرمسلم نہیں مسلم تھے۔ مسئلہ قطعی نہیں تھا بلکہ مجتہدانہ تھا۔پھر خود نفس مسئلہ (جسے آپ نے نقل کیاہے)پوری طرح منقح نہیں ہےبلکہ اس میں ابہام واجمال دونوں ہی موجود ہیں۔
خامسا:جہاں سے یہ نقل کیا جارہا ہے کہ شیخ الاسلام کے کلام میں شدت وحدت تھی وہیں پر ذرا پہلے یہ بھی لکھا ہوا ہے :
تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]
میرے خیال سے مناسب ہے کہ پوری عبادت نقل کردی جائے تاکہ کفایت اللہ صاحب اوراس موضوع کے دیگر قارئین بھی جان لیں گے کہ یقھرھابالحلم اورمیری پیش کردہ عبارت میں کوئی ممثالت نہیں ہے یہ دیکھئے۔
قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك
اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔
اس کے بعد حافظ ذہبی ہی کہتے ہیں۔ میں ان کی عصمت کا قائل نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوسکے بلکہ میں اعتقادی اورفروعی دونوں امورمیں ان سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتاہوں۔ اس کے بعد پھروہی بات ہے جومیں نے ماقبل میں ترجمہ کیاہے۔ بعد ازاں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے حریف سے نرمی سے پیش آتے توان کی ذات پر سبھوں کا اتفاق ہوتا ۔کبار علماء ان کے علم وفضل کے معترف تھے اوریہ بھی معلوم تھاکہ بہت کم مسائل میں سے ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے اورہرایک کے قول کو چھوڑاجاسکتاہے اورقبول کیاجاسکتاہے ۔

حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی پوری تحریر کو پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ انہوں نے حافظ ذہبی کے کلام کااختصار ضرور کیاہے لیکن وہ اختصار حافظ ذہبی کے کلام ہی سے کیاہے اس میں اپنی بات شامل نہیں کی ہے۔ جس طرح آج بھی کسی کتاب کو مختصر کرنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ ہم اپنے الفاظ میں کتاب کا خلاصہ بیان کردیں دوسرے یہ کہ مصنف کی تحریر سے ہی جستہ جستہ اقتباسات لے کر کتاب کا خلاصہ لکھیں۔ حافظ ابن حجر نے دوسراطریقہ اپنایاہے۔چنانچہ وہ ہرجگہ قال قال لکھتے جاتے ہیں جس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ حافظ ذہبی نے یہ کہاہے ہے۔ اس لئے یہ پیش کردہ اقتباس حافظ ذہبی کا مقولہ ہے نہ کہ حافظ ابن حجر کا خلاصہ۔
جمشید صاحب نے شاذ اقوال کو لے کر نہ صرف یہ کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں تھوڑی سی شدت و حدت کا حوالہ دے کراسے ہرجگہ فٹ کرنے کی کوشش کی ہے، بلکہ علی الاطلاق یہاں تک کہا ہے:
حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی کارناموں سے انکار ممکن نہیں لیکن ان کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتا اعتدال اورتوازن کی کمی نظرآتی ہے
اب اگر ہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں جمہور محدثین کے اقوال نقل کرنے لگ جائیں تو بات بہت مہنگی پڑ جائے گی اس لئے مشورہ یہی ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں شاذ اقوال پیش کرکے ان کی تنقیص کرنے سے پرہیز کریں۔
آپ کے اس تہدید نما نصیحت یانصیحت نما تہدید سے ہمیں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ توانسانی فطرت ہے کوئی نرم مزاج ہوتاہے کوئی سخت مزاج ہوتاہے ۔کسی کی مزاج میں لطافت اورنرمی ہوتی ہے اورکسی کے مزاج میں خشونت ۔
ویسے مجھے لگتاہے کہ آپ نے نسبتاپر کماحقہ غورنہیں کیاہے۔
حافظ ابن عبدالبر،امام نووی ،کی تحریرمیں جواعتدال وتوازن ہے وہ حضرت علامہ کی تحریر میں نہیں پایاجاتاہے۔یہ میری رائے ہے اوریہ میں نے اپنے مطالعہ کی بناء پر قائم کی ہے۔ آپ چاہیں تواس سے بصدشوق اختلاف کیجئے۔
علم جرح وتعدیل میں بھی محدثین کے تین گروپ رہے ہیں۔ متشدد،معتدل اورمتساہل اس کی تصریح حافظ ذہبی اورحافظ سخاوی اوردیگر اجلہ علماء نے کی ہے۔اب ہم پوچھناچاہتے ہیں کہ کیاان حضرات نے کچھ محدثین کو متشدد کے زمرہ میں رکھ کر کوئی براکام کیا۔
ویسے جہاں تک امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر کلام کی بات ہے ہمیں یقین تھاکہ پرنالہ یہیں گرے گا۔فورمز پر کئی سال ہوگئے آج تک کبھی اس میں تخلف نہیں ہوا کہ لوگ جب زیر بحث موضوع سے فرار اختیار کرتے ہیں توسیدھے حضرت امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ایک بات اوربھی عرض کردوں۔ آپ نے ایک فورم پر ماشاء اللہ مقبل الوادعی کی کتاب نشرالصحیفہ کا حوالہ دیاہواہے۔گویااس کتاب اوراس کے مندرجات سے آنجناب کو اتفاق ہے اوریہاں پر ایساتاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویاآپ بھی امام صاحب کے عقیدت کیشوں میں ہیں اور وفاداری بشرط استواری اگرحضرت ابن تیمیہ کو کچھ کہاگیاتواس کا انتقام امام ابوحنیفہ سے لیاجائے گا۔


رہا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا قول تو:
اولا:ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورجمشید صاحب نے علی الاطلاق یہ بات کہہ ڈالی جو بڑی زیادتی ہے۔
ثانیا:حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تنقیص علی کی کوئی مثال نہیں پیش کی ہے کہ دعوی اوردلیل میں غورکیا جائے، نیز بسااوقات روافض کی تردید کرتے ہوئے علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں الزاما پیش کی جاتی ہیں جن سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
عام رواۃ سے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بہت سارے فیصلے دلائل سے خالی ہونے کے سبب ہر طبقہ کی طرف سے رد کردئے جاتے ہیں تو ایک عظیم شخصیت کی بابت تنقیص علی جیسے خطرناک الزام کو بغیر دلیل کے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
وضح رہے کہ صرف علی رضی اللہ عنہ ہی نہیں بلکہ انہیں حافظ ابن حجرکے بقول بعض لوگوں نے تو ان پر ابوبکرصدیق اورعثمان غنی رضی اللہ عنہما کی تنقیص کابھی الزام لگایاہے، بلکہ انہیں حافظ ابن حجررحمہ کے بقول بعض لوگوں نے توان پر تنقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک کا بھی الزام لگایا دیا ہے، کیا یہ بات بھی مان لی جائے؟ حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وأطلق ابن تيمية إلى الشام وافترق الناس فيه شيعا فمنهم من نسبه إلى التجسيم لما ذكر في العقيدة الحموية والواسطية وغيرهما من ذلك كقوله إن اليد والقدم والساق والوجه صفات حقيقية لله وأنه مستو على العرش بذاته فقيل له يلزم من ذلك التحيز والانقسام فقال أنا لا أسلم أن التحيز والانقسام من خواص الأجسام فألزم بأنه يقول بتحيز في ذات الله ومنهم من ينسبه إلى الزندقة لقوله إن النبي صلى الله عليه وسلم لا يستغاث به وأن في ذلك تنقيصا ومنعا من تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 181]
اب ذرا دیکھیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے یہ کہہ دیا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب نہیں کی جاسکتی بس اتنی سی بات پر نتقیص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا الزام لگ گیا ، اسی طرح ابن تیمہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ سے متعلق مبالغہ آمیز تصورات کی نفی کریں تو کیا یہ تنقیص علی ہے؟؟؟
بہرحال اس دعوی کی دلیل چاہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص کی ہے۔
یہ وہی ابن تیمہ رحمہ اللہ ہیں جنہوں نے رَفْعِ الْمَلَامِ عَنْ الْأَئِمَّةِ الْأَعْلَامِ نامی کتاب لکھ کر ائمہ کرام کا دفاع کیا ہے ، آخر جو شخصیت ائمہ کرام تک کی تنقیص گورا نہ کرے اور ان کے دفاع میں مستقل کتاب لکھے ، ایسی شخصیت کے بارے میں بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہم کیسے مان لیں کی انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی نتقیص کی ہے؟؟؟؟؟
کسی بھی بحث کودرست سمت میں جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق موضوع پر ثابت قدم رہیں۔ موضوع یہاں حضرت ابن تیمیہ کی ذات یاتنقیص علی کرم اللہ وجہہ کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتااعتدال کی کمی ہے اوراس کی شہادت میں میں نے حافظ ابن حجر کا کلام پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کی جس بات سے مجھے اصل استدلال مطلوب تھا وہ یہ کہ انہوں نے واہی تباہی احادیث کے ساتھ ساتھ جیاد احادیث کوبھی رد کردیاہے۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
آپ نےزیر بحث موضوع کے بجائے دوسری بحث شروع کردی۔ حضرت ابن تیمیہ کے اس صنیع کی شکایت یاحکایت شیخ البانی نے بھی کی ہے چنانچہ وہ مشہور حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی تحقیق کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فقد كان الدافع لتحرير الكلام على الحديث و بيان صحته أنني رأيت شيخ الإسلام بن تيمية , قد ضعف الشطر الأول من الحديث , و أما الشطر الآخر , فزعم أنه كذب <1> ! و هذا من مبالغته الناتجة في تقديري من تسرعه في تضعيف الأحاديث قبل أن يجمع طرقها و يدقق النظر فيها . و الله المستعان . (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم 1750)اس حدیث کلام کرنے اوراس کی صحت کو واضح کرنے کا باعث یہ ہواہے کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحریر میں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کے پہلے حصہ کو ضعیف کہاہے اوردوسرے حصہ کو موضوع قراردیاہے۔اورمیرے خیال میں یہ مبالغہ ہے اوراس کاباعث یہ ہواہے کہا نہوں نے احادیث کے طرق کو جمع کرکے اس میں غوروفکر کرنے سے قبل اس پرجلدبازی سے کلام کیاہے۔
۔کفایت اللہ صاحب ! ایک گزارش ہے کہ الدررالکامنہ ایک مرتبہ پوری پڑھ لیں اورپھر اس کے بعد اپنے سوال وجواب سامنے رکھیں۔ جستہ جستہ پڑھنے سے ایسی ہی صورتحال پیش آیاکرتی ہے جس کاآپ کو سامناہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
حافظ ابن عبدالبر،امام نووی ،کی تحریرمیں جواعتدال وتوازن ہے وہ حضرت علامہ کی تحریر میں نہیں پایاجاتاہے۔یہ میری رائے ہے اوریہ میں نے اپنے مطالعہ کی بناء پر قائم کی ہے۔ آپ چاہیں تواس سے بصدشوق اختلاف کیجئے۔
کبھی تو جہالت پر ماتم کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم جاہل ہیں لہٰذا تقلید کے بغیر چارہ کار نہیں اور کبھی تو اتنے بڑے مجتہد کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت سے متعلق ایک منفی رائے قائم کرنے پر بھی قدرت ہے۔
اہل تقلید جب دلائل پر بحث کرتے ہیں اور اس پر ان سے سوال ہوتا ہے کہ آپ تو مقلد ہیں ، دلائل پر بحث کرنا مقلد کا کام نہیں تو ان کا مضحکہ خیز جواب سامنے آتا ہے کہ ہم امام اعظم کے بالمقابل جاہل ہیں اور آپ کے بالمقابل عالم ہیں، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اہل تقلید شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بالمقابل بھی عالم ہیں ۔

دراصل شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر شدت کا بہتان جمشید صاحب کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے حکیم الامت کی نبض شناسی کا کمال ہے !
حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’ابن تیمہ بزرگ ہیں ، عالم ہیں ، متقی ہیں اللہ ورسول پر فدا ہیں، دین پر جاننثار ہیں ، دین کی بڑی خدمت کی ہے مگر ان میں بوجہ فطرۃ تیز مزاج کے تشدد ہوگی ‘‘ (ملفوظات حکیم الامت :ج١٠ص ٤٩)
دراصل حکیم الامت صاحب کی یہ پڑیا ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو مقلدین کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا کوئی قول پیش کریں ، اور جمشید صاحب نے اس پڑیا کا برمحل استعمال کیا ہے۔

ورنہ محدث فورم پرہی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا ایک اور اقبتاس بنام ’’بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی‘‘ موجود ہے اور یہاں جمشید صاحب کی اجتہادی کرم فرمائیاں کچھ اور ہی ہیں ۔
اس متضاد رویے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حکیم الامت نے یہ پڑیا اسی لئے تیا ر کی ہے تاکہ ان کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ کے کسی قول میں کوئی تاثیر باقی نہ رہے، اورجمشید صاحب نے یہاں اسی پڑیے کا استعمال کیاہے۔

فائدۃ :
حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ شیخ الاسلام پر حکیم الامت کی طرف سے لگائے گئے بہتان کی تردیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تشدد والی بات تو مردود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ (علمی مقالات ج2ص:305)

اولا:حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی کے کلام کا خلاصہ پیش کیا ہے اور امام ذہبی کی اصل کتابوں میں میں یہ کلام تلاش نہیں کرسکا اوراگراصل امام ذھبی کا کلام پیش کردیا جائے تو مہربانی ہوگی۔
جناب آپ سے زیادہ عدیم الفرصت تومیں ہوں اورآپ کی طرح دینی خدمات اوردینی اداروں سے وابستگی بھی نہیں ہے جس کی وجہ سے مراجع کا حصول میرے لئے زیادہ مشکل ہے۔میرااخبار سے تعلق ہے اوراسی میں صبح وشام بسرہوتے ہیں۔ اس سے کچھ وقت ملتاہے تواس جانب بھی کچھ توجہ کرتاہوں ۔آپ ہی اس کی جانب توجہ کریں۔
تلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:

وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]

سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]



معلوم ہوا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف مذکورہ ضمیمہ کی نسبت درست نہیں لہذا اس ضمیہ سے پیش کردہ عبارت سے امام ذہبی بری ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
حافظ ابن حجر نے خلاصہ ضرور پیش کیاہے لیکن جوبات نقل کی گئی ہے وہ مقولہ کے طورپر نقل کیاہے خلاصہ کے طورپر نہیں ۔اس کی صراحت آگے بیان ہورہی ہے۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی پوری تحریر کو پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ انہوں نے حافظ ذہبی کے کلام کااختصار ضرور کیاہے لیکن وہ اختصار حافظ ذہبی کے کلام ہی سے کیاہے اس میں اپنی بات شامل نہیں کی ہے۔ جس طرح آج بھی کسی کتاب کو مختصر کرنے کے دوطریقے ہیں۔ ایک تویہ کہ ہم اپنے الفاظ میں کتاب کا خلاصہ بیان کردیں دوسرے یہ کہ مصنف کی تحریر سے ہی جستہ جستہ اقتباسات لے کر کتاب کا خلاصہ لکھیں۔ حافظ ابن حجر نے دوسراطریقہ اپنایاہے۔چنانچہ وہ ہرجگہ قال قال لکھتے جاتے ہیں جس کا مطلب یہی ہوتاہے کہ حافظ ذہبی نے یہ کہاہے ہے۔ اس لئے یہ پیش کردہ اقتباس حافظ ذہبی کا مقولہ ہے نہ کہ حافظ ابن حجر کا خلاصہ۔

جب اختصار کے ساتھ کسی کا کلام نقل کیا جائے تو کبھی کبھی بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں بھی ناقل کی طرف سے تصرف ہوجاتا ہے جس کی متعدد مثالیں ، تہذیب میں دیکھیں جاسکی ہیں ، جس میں بطور مقولہ ناقدین کے اقوال نقل کئے گئے ہیں مگر اصل مرجع کی طرف لوٹنے سے ہمیں وہاں کچھ اور ہی ملتاہے ، گرچہ بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں ایسا کم ہوتا ہے لیکن امکان بہرحال ضرور ہے۔
مثلا تھوڑا بہت فرق تو زیربحث عبارت میں بھی ہے:
سب سے پہلے اصل عبارت ملاحظہ ہو:
وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

اب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی منقولہ عبارت ملاحظہ ہو:
قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]
گرچہ یہاں جو فرق ہے اس سے مفہوم نہیں بدلتا لیکن کبھی مفہوم بدل بھی سکتاہے، اس لئے اصل عبارت پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔

ثانیا:یہ حدت اور شدت کن کے خلاف تھی ، کیا اپنوں کے خلاف تھی؟ اس بات کی وضاحت تو مذکورہ سطور میں نہیں ہے اوراگر غیروں ساتھ تھی ، تو ان کی اس خوبی کا حوالہ ان کی ایسی عبارت کے ساتھ نہیں دیا جاسکتا جس میں انہوں نے اپنوں(اہل سنت) کے بارے میں بات کی ہو۔
اگرآپ اسی کلام کو غوروفکر سے پڑھتے تویہ اشکال پیش نہ آتا۔میں پوری عبارت آئندہ نقل کروں گا۔ اس میں غوروفکر کرلیجئے گا۔
اوپر امام ذہبی کی طرف منسوب کتاب سے جو اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس میں یہ صراحت ہے:
لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]
اس صراحت کے باوجود بھی آپ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے ہرکلام میں شدت کی بو سونگھیں گے۔
ویسے عموماذہین وفطین لوگوں کے ساتھ ایسامعاملہ پیش آیاہے۔ابھی تھوڑی دیر پہلے سیرت مولانا محمد علی مونگیری زیرمطالعہ تھی۔ اس میں علامہ شبلی نعمانی کے بارے میں ہے کہ وہ دوسروں سے نہایت درشتگی سے کلام کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثرندوہ کے ارکان ان سے ازردہ خاطر رہتے تھے اوربالآخر ان ہی کی وجہ سے مولانا محمد علی مونگیری کو ندوہ کی نظامت سے استعفی دیناپڑا۔
یا للعجب !
کہاں شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ اورکہاں علامہ شبلی نعمانی !
میں نہیں سمجھتا کہ یہاں شبلی نعمانی کی کہانی سنانے کا بھی کوئی محل تھا! کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا مقام اس قدر گر گیا ہے انہیں شبلی نعمانی جیسے لوگوں پر قیاس کیا جائے گا جن کے بارے میں سنا ہے کہ خود ان کے اپنوں نے بھی انہیں نہیں بخشا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
میرے خیال سے مناسب ہے کہ پوری عبادت نقل کردی جائے تاکہ کفایت اللہ صاحب اوراس موضوع کے دیگر قارئین بھی جان لیں گے کہ یقھرھابالحلم اورمیری پیش کردہ عبارت میں کوئی ممثالت نہیں ہے یہ دیکھئے۔
یہ لیں میں مزید آگے پیچھے کے کچھ اور الفاظ نقل کردیتا ہوں :
قال الذهبي ما ملخصه كان يقضي منه العجب إذا ذكر مسالة من مسائل الخلاف واستدل ورجع وكان يحق له الاجتهاد لاجتماع شروطه فيه قال وما رأيت أسرع انتزاعا للآيات الدالة على المسألة التي يوردها منه ولا أشد استحضارا للمتون وعزوها منه كأن السنة نصب عينيه وعلى طرف لسانه بعبارة رشيقة وعين مفتوحة وكان آية من آيات الله في التفسير والتوسع فيه وأما أصول الديانة ومعرفة أقوال المخالفين فكان لا يشق غباره فيه هذا مع ما كان عليه من الكرم والشجاعة والفراغ عن ملاذ النفس ولعل فتاويه في الفنون تبلغ ثلاثمائة مجلد بل أكثر وكان قوالا بالحق لا يأخذه في الله لومة لائم قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك قال وكان محافظا على الصلاة والصوم معظما للشرائع ظاهرا وباطنا لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته إلى أن قال تمرض أياما بالقلعة بمرض جد إلى أن مات ليلة الاثنين العشرين من ذي القعدة وصلى عليه بجامع دمشق وصار يضرب بكثرة من حضر جنازته المثل وأقل ما قيل في عددهم أنهم خمسون ألفا قال الشهاب ابن فضل الله لما قدم ابن تيمية على البريد إلى القاهرة في سنة سبعمائة نزل عند عمي شرف الدين وحض أهل المملكة على الجهاد فأغلظ القول للسلطان والأمراء ورتبوا له في مقر إقامته في كل يوم دينارا ومخفقة طعام فلم يقبل شيئا من ذلك وأرسل له السلطان بقجة قماش فردها قال ثم حضر عنده شيخنا أبو حيان فقال ما رأت عيناي مثل هذا الرجل
[الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 177]

اولا:
ہم نے ’’تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم ‘‘ کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا ، اوربعض ناقلین اسی کلام کو مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ، مثلا:
تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [الوافي بالوفيات 7/ 12]۔
تعتريه حدة، ثم يقهرها بحلم وصفح [فضل أبي بكر الصديق رضي الله عنه 13/ 1224(مقدمہ)]۔
تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [ثلاث تراجم نفيسة للأئمة الأعلام ص: 27]۔
تعتريه حدة ثم يقهرها بحلم وصفح [معجم أصحاب شيخ الإسلام ابن تيمية ص: 130، بترقيم الشاملة آليا]۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ اپنی شدت پر پر حلم و بردباری اور صفح و درگذر سے قابو پالیتے تھے تو پھر اس کے برے نتائج بیان کرنا اس بیان کے سراسر خلاف ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں میں تضاد ہے، ہم نے اسی طرف اشارہ کیا تھا جمشید صاحت نے دونوں عبارتیں تو نقل کردیں لیکن اس تضاد پر کوئی خامہ فرسائی نہیں کی، نیز یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ کسی کے بارے میں یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی شدت پر حلم وصفح سے قابو بھی پالیتا ہے ، اوردوسری طرف اس کے ہرکلام میں اس کے برے نتائج بھی محسوس کریں؟؟؟

ثانیا:
پیش کردہ اقتباس کے ملون سطور پر دھیان دیں جا بجا علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ آپ حق بات کہنے میں کسی طرح کی مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اوربادشاہوں کے سامنے بھی بے خوف حق کا اعلان کرتے تھے ، یہی وہ خوبی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اصل تحریر میں حدت سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ آگے وضاحت آرہی، اور یہ کوئی بری چیز نہیں بلکہ محمود شے ہے۔
ملتقی اہل الحدیث کے ایک رکن ایک شخصیت کے اندرموجود وصف حدت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فلقد رأيته سهل الخلق لين الكنف تعتريه حدة هي من حسن خلقه لا سوئها، وهذا لا يفقهه إلا من أمعن النظر في تراجم السلف فسيعلم أن من مظاهر حسن خلق أبي بكر رضي الله عنه غضبه يوم الردة على عمر رضي الله عنه، وشدة عمر في الحق أيضًا من جميل أخلاقه وكذا سائر الصحابة والسلف، وهذا ابن تيمية رحمه الله تعالى كانت تعتريه حدة أهلك الله بها المبتدعة وجلى على يديه السنة، وكذا الإمام النووي رحمه الله حفظ الله به أموال الناس لفرط هذه الحدة في الله تعالى وهذا ضد لا يظهر حسنه إلا بضده إذا جمع معه كما قال القائل:
ضدان لما استجمعا حسنا والضد يظهر حسنه بالضد

ربط

ہم کہتے ہیں یہی مفہوم امام ذہبی کے اس کلام کا بھی ہے جس میں وہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے موصوف کرتے ہیں۔

ثالثا:
مذکورہ اقتاس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صاف لکھتے ہیں:
لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته
یعنی ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی بات سوء فہم یا کم علمی یا دین سے کھلواڑ کرنے یا من مانی یا زبان درازی کی نتیجہ میں نہیں ہوتی تھی بلکہ دلائل کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے اگر ان سے کوئی ٍغلط بات بھی ہوگئی ہے تو اس پر بھی انہیں ایک اجر ملے گا ، اورصحیح باتوں پر دو اجر ملے گا۔
مگر جمشید صاحب یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ تشدد کی بناپر غلط باتیں کہہ دیا کرتے تھے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے غطی پر ایک اجر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,801
پوائنٹ
773
حافظ ذہبی نے حدت وشدت کی جانب دوسرے پیرائے میں ایک اورمقام پر اظہار خیال کیاہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
وکان فیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالباً،ولم یکن من رجال الدول،ولایسلک معھم تلک النوامیس واعان اعداءہ علی نفسہ بدخولہ فی مسائل کبار!لایحتملھا عقول ابناء زماننا ولاعلومھم،کمسالۃ التکفیر فی الحلف بالطلاق،ومسالۃ ان الطلاق بالثلاث لایقع الاواحدۃ وان الطلاق فی الحیض لایقع ،وساس نفسہ سیاسۃ عجیبۃ ،فحبس مرات بمصر ودمشق والاسکندریہ ،وارتفع،وانخفض،واستبدبرای ہ،وعیسی ان یکون ذلک کفارۃ لہ،وکم وقع فی صعب بقوۃ نفسہ وخلصہ اللہ ۔(تتمۃ المختصر من اخبارالبشر 2/406-412،بحوالہ الدرۃ الیتیمۃ فی سیرۃ التیمیہ)
اولا:
امام ذہبی کے رسالہ ’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ میں مذکوہ عبارت اسی سیاق اور ترتیب کے ساتھ قیامت کی صبح تک نہیں دکھائی جاسکتی ، ’’المختصر من اخبارالبشر المعروف بتاريخ ابن الوردي‘‘ کے مولٍف نے بھی یہ دعوی نہیں کیا ہے کہ انہوں نے یہ عبارت امام ذہبی کیا کتاب ’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ سے ہوبہو نقل کیا ہے بلکہ مؤلف کے الفاظ یہ ہیں:
وَهَذِه نبذة من تَرْجَمَة الشَّيْخ مختصرة أَكْثَرهَا من الدرة اليتيمية فِي السِّيرَة التيمية للْإِمَام الْحَافِظ شمس الدّين مُحَمَّد الذَّهَبِيّ وَالله أعلم. [تاريخ ابن الوردي 2/ 279]

ثانیا:
’’الدرة اليتيمية في السيرة التيمية‘‘ نامی رسالہ میرے پاس ورڈ فائل میں موجود ہے، اس میں مذکورہ عبارت پیش کردہ سیاق کے ساتھ ہرگز نہیں ہے ،البتہ اس کے کچھ الفاظ ہیں لیکن وہ بھی متفرق مقامات پر۔
مثلا:
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته، فلو طفت بين الركن والمقام لحلفت أني ما رأيت بعيني مثله، ولا والله ما رأى هو مثل نفسه في العلم . وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له. وهو فقيرٌ لا مال له، وملبوسه كأحد الفقهاء: فرجية، ودلق، وعمامة تكون قيمةَ ثلاثين درهما، ومداس ضعيف الثمن.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
واجتمع بعد ذلك بالسلطان. ولم يكن الشيخ من رجال الدولة، ولا يسلك معهم تلك النواميس، فلم يعد السلطان يجتمع به، فلما قدم السلطان لكشف العدو عن الرحبة جاء الشيخ إلى دمشق سنة اثنتي عشرة [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]


یہ الگ الگ مقامات کی عبارتیں ہیں ان کو پورے سیاق کے ساتھ پڑھا جائے تو بات بالکل صاف ہوجاتی ہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی شجاعت کو بیان کیا ہے کہ وہ کسی کے سامنے نہیں دبتے تھے اور اعلان حق میں سخت اور مثل شیر کے تھے ، بالخصوص درج ذیل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته، فلو طفت بين الركن والمقام لحلفت أني ما رأيت بعيني مثله، ولا والله ما رأى هو مثل نفسه في العلم . وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له. وهو فقيرٌ لا مال له، وملبوسه كأحد الفقهاء: فرجية، ودلق، وعمامة تكون قيمةَ ثلاثين درهما، ومداس ضعيف الثمن.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے متصف کرنے ساتھ آپ کی تشبیہ میدان جنگ کے شیر سے دی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام کی بہادری بیان کررہے ہیں نہ کہ ان کی بے جا سختی ورنہ ان کی اس سختی کو میدان جنگ کے شیر سے تشبیہ ہرگز نہ دیتے،
اس کے بعدآگے قلت مداراۃ اورعدم تودت کی بات کہی ہے گویا کہ اعلان حق میں آپ مداراۃ اور تودت کا مظاہہرہ نہیں کیا کرتے تھے جیسا کہ دیگرحفاظ ایسا کربیٹھتے تھے مثلا خود امام ذھبی فرماتے ہیں:
عبد الصمد بن علي بن عبدالله بن العباس الهاشمي الامير. عن أبيه بحديث: أكرموا الشهود. وهذا منكر، وما عبد الصمد بحجة. ولعل الحفاظ إنما سكتوا عنه مداراة للدولة [ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 620]
میزان الاعتدال میں امام ذہبی کی اس عبارت سے صاف واضح ہوگیا کہ یہاں امام ذہبی جو شیخ الاسلام سے مداراۃ اور تودۃ کی نفی کررہے ہیں اس سے کیا مرادہے۔

ان وضاحتو ں کے بعد اب بھی اگر کوئی امام ذہبی کے کلام سے حدت وغیرہ کا خود ساختہ مفہوم نکالے توسوائے اس کے اور کیا کہا جائے کہ وہ الٹی فہم اور اورٹیڑھی عقل کا مالک ہے ، جیسا کہ ایک عربی بحث نگار نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
وكانت له عبارات قد يفهم منها أصحاب الفهم المقلوب والعقل المنكوس! أنّها طعنُ وغمزٌ في شيخه شيخ الإسلام. مثل قوله..:"وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له!"
یعنی امام ذہبی کی کچھ عبارتیں ایسی ہیں جن سے الٹی فہم اور ٹیڑھی عقل والے یہ سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی نے اپنے شیخ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر طعن وتشنیع کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی یہ عبارت ہے ’’وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له‘‘ ہے
ملاحظہ فرمائیں یہ لنک۔

دوسرے اگر کوئی بات حافظ ابن حجر حافظ ذہبی کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں توکیاصرف اس بناء پر ہمارے لئے انکار رواہوجائے گاکہ ہمیں ان کی کتابوں میں نہیں ملا۔ ابھی خود حافظ ذہبی کی بہت سی تصنفیات مفقود یامخطوطہ کی شکل میں ہیں۔ لہذا یہ اشکال یاشک کوئی وزن نہیں رکھتا۔
مفقود یا مخطوط کی بات دور کی ہے اگر کسی موجود اور مطبوع کتاب سے بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نقل کریں تب بھی وہ بات تب تک مستند نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف درست ہے، خود امام ذہبی کی مثال لیں ان کی طرف بھی من گھڑت کتب منسوب ہیں مثلا النصیحہ وغیرہ ، اسی طرح ظالموں نے امام ذہبی کی طرف ایک خط بھی منسوب کیا ہے جس میں امام ذہبی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو سمجھاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس کتاب سے کیا نقل کیا جارہا ہے اور س کتاب کی پوزیش کیاہے۔
خود زیربحث حوالہ ہی کو دیکھ لیں یہ ایسی کتاب سے منقول ہے جس کی نسبت امام ذہبی کی طرف ثابت ہی نہیں۔

ثالثا:تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
تاویل کا الزام توویسے ہمیں دیاجاتاہے لیکن خود تاویل آپ نے کی ہے اس سے تاویل کے نئے دریچے بلکہ دروازے واہورہے ہیں۔ کسی شخص کے بارے میں اگریہ کہاجائے کہ اس کے مزاج میں تیزی اورحدت ہے تواس کا کیامطلب ہوتاہے ؟کہ اس نے زندگی میں ایک دومرتبہ تیز کلامی کی ہوگی یاحدت وشدت سے کام لیاہوگا۔ یاللعجب
کسی کو تیزمزاج کہاہی اس وقت جاتاہے جب کہ وہ اس کا مزاج اورطبعیت بن چکاہو۔ اوراس سے کرات ومرات اس کا صدور ہواہو ۔ورنہ ٹھنڈے سے ٹھنڈے دماغ والے شخص کوبھی اپنی زندگی میں کئی مرتبہ حدت شدت سخت کلامی تلخ کلامی کی نوبت آجاتی ہے۔
یہ بات خود آپ نے کہی تھی کہ:
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزاج میں تھوڑی حدت اورشدت تھی جس کی تصریح حافظ ذہبی نے بھی کی ہے
اب تھوڑی سی حدت اورشدت کو ہر عبارت میں باور کرانا یہ آپ ہی کے نزدیک قابل فہم ہوسکتاہے۔
رابعا:اگر حق اور علم کے ساتھ شدت وحدت ہو تو محض شدت وحدت سے حق بات کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ کی حدیث یاد کیجئے کہ اللہ نرم خوئی کوپسند کرتاہے۔اوردوسری حدیث کہ نرمی جس چیز سے جڑتی ہے اس مین زینت پیداکردیتی ہے اوردرشتی وخشونت جس چیز سے جڑتی ہے اس کو عیب داربنادیتی ہے۔
مذکورہ جملے میں شدت کو ایک معیوب چیز مان کر جواب دیا گیا تھا لہٰذا یہاں یہ حدیث پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے یہ حدیث آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ اسلوب میں شدت کے باوجود اسلوب پسندیدہ ہوتا ہے لیکن ہم نے سخت اسلوب میں پیش کے گئے حق پر بات کیا تھا یعنی حق اگر معیوب طریقہ سے پیش کیا جائے تو اس کی وجہ سے حق کو ٹھکرانے کا جواز نہیں ملتا ہے، اگر اس سے آپ کو اتفاق نہیں تو اسی حدیث کی روشنی میں بتلائے کہ اگر کوئی باطل کو نرمی کے ساتھ پیش کرے توکیا اسے قبول کرلیا جائے گا؟؟؟

حضرت ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے جن مسائل میں اورجن حضرات کے خلاف حدت وشدت سے کام لیاوہ غیرمسلم نہیں مسلم تھے۔ مسئلہ قطعی نہیں تھا بلکہ مجتہدانہ تھا۔
یہ ایک سازش ہے کہ شیخ الاسلام نے بعض مسائل میں شدت سے کام لیا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ نے حنفیت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کی تردید آسان ہو ، ورنہ انہیں شیخ الاسلام نے حنبلیت ، شافعیت اور مالکیت کے خلاف بھی مسائل بیان کئے ہیں لیکن ان میں مسائل میں آپ کو شدت کا نام ونشان بھی نظر نہ آئے گا۔

پھر خود نفس مسئلہ (جسے آپ نے نقل کیاہے)پوری طرح منقح نہیں ہےبلکہ اس میں ابہام واجمال دونوں ہی موجود ہیں۔
جی ہاں پوری طرح اس لئے منقح نہیں ہے کیونکہ آپ کے خلاف پیش کیا گیا ہے اگر آپ کے موافق پیش کیاجائے تو آپ ہی اسے منقح ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے جیسا کہ اس ٹھریڈ (بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی) میں آپ نے کیا ہے۔

آپ کے اس تہدید نما نصیحت یانصیحت نما تہدید سے ہمیں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ توانسانی فطرت ہے کوئی نرم مزاج ہوتاہے کوئی سخت مزاج ہوتاہے ۔کسی کی مزاج میں لطافت اورنرمی ہوتی ہے اورکسی کے مزاج میں خشونت ۔
ویسے مجھے لگتاہے کہ آپ نے نسبتاپر کماحقہ غورنہیں کیاہے۔
ہم اب بھی آپ سے یہی کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام کسی بات سے آپ کو اختلاف ہو تو شوق سے اختلاف کریں لیکن خواہ مخواہ انہیں معیوب اوصاف سے متصف نہ کریں ، ورنہ کیا خیال جب بھی امام ابوحنیفہ کا کوئی قول سامنے آئے تو اس کی تردید سے پہلے امام صاحب پر کی گئی جروح کا تذکرہ شروع کردیا جائے۔

علم جرح وتعدیل میں بھی محدثین کے تین گروپ رہے ہیں۔ متشدد،معتدل اورمتساہل اس کی تصریح حافظ ذہبی اورحافظ سخاوی اوردیگر اجلہ علماء نے کی ہے۔اب ہم پوچھناچاہتے ہیں کہ کیاان حضرات نے کچھ محدثین کو متشدد کے زمرہ میں رکھ کر کوئی براکام کیا۔
نقد رجال میں تشدد اور شرعی مسائل کے بیان میں تشدد دونوں الگ الگ چیز ہے ، خلط ملط نہ کریں۔

ویسے جہاں تک امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ پر کلام کی بات ہے ہمیں یقین تھاکہ پرنالہ یہیں گرے گا۔فورمز پر کئی سال ہوگئے آج تک کبھی اس میں تخلف نہیں ہوا کہ لوگ جب زیر بحث موضوع سے فرار اختیار کرتے ہیں توسیدھے حضرت امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔
ایک بات اوربھی عرض کردوں۔ آپ نے ایک فورم پر ماشاء اللہ مقبل الوادعی کی کتاب نشرالصحیفہ کا حوالہ دیاہواہے۔گویااس کتاب اوراس کے مندرجات سے آنجناب کو اتفاق ہے اوریہاں پر ایساتاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں گویاآپ بھی امام صاحب کے عقیدت کیشوں میں ہیں اور وفاداری بشرط استواری اگرحضرت ابن تیمیہ کو کچھ کہاگیاتواس کا انتقام امام ابوحنیفہ سے لیاجائے گا۔
الزاما کوئی بات پیش کرنا طعن وتشنیع نہیں ہوتا ، پہلے ہی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔

کسی بھی بحث کودرست سمت میں جاری رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ دونوں فریق موضوع پر ثابت قدم رہیں۔ موضوع یہاں حضرت ابن تیمیہ کی ذات یاتنقیص علی کرم اللہ وجہہ کا الزام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کی تحریر میں نسبتااعتدال کی کمی ہے
الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے !
دوسری بحث خود آپ نے شروع کی ہے موضوع تھا تقلید ، اس پر بات کرنے کے بجائے آپ شیخ الاسلام کی تحریر وں میں شدت دکھانے پر اتر آئے ، قصور آپ کا نہیں قصور آپ کے حکیم الامت کا ہے جنہوں نے ایسے مواقع کے لئے آپ کو یہ پڑیا عنایت کی ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top