• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,000
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
773
اوراس کی شہادت میں میں نے حافظ ابن حجر کا کلام پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کی جس بات سے مجھے اصل استدلال مطلوب تھا وہ یہ کہ انہوں نے واہی تباہی احادیث کے ساتھ ساتھ جیاد احادیث کوبھی رد کردیاہے۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
یہاں پھر آپ نے وہی بات دہرا دی جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے:
اولا:
ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورآپ علی الاطلاق مذکورہ بات کہہ رہے ہیں۔
ثانیا:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کے مذکورہ طرزعمل کا عذر بھی پیش کردیا ہے اور وہ یقینا تشدد نہیں ہے جس کا ورد آپ کررہے ہیں آپ ہی کے نقل کردہ اقتباس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے یہ الفاظ صاف طورپر موجود ہیں:
لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
اب آپ بتائیں کہ کیا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شدت کو سبب قرار دے رہے ہیں یا عدم استحضار اور نسیان کو؟؟؟
ثالثا:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے تو عدم استحضار کے سبب بعض روایا ت کو رد کردیا لیکن آپ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو محض اپنی رائے اور قیاس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحادیث کو رد کردیا:
حماد بن سلمہ فرماتے ہیں:
إِن أَبَا حنيفَة اسْتقْبل الْآثَار وَالسّنَن يردهَا بِرَأْيهِ [العلل ومعرفة الرجال : 2/ 545 وسندہ صحیح ، وانظر:الكامل في الضعفاء 7/ 8،تاريخ بغداد 13/ 408 ]


حضرت ابن تیمیہ کے اس صنیع کی شکایت یاحکایت شیخ البانی نے بھی کی ہے چنانچہ وہ مشہور حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی تحقیق کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فقد كان الدافع لتحرير الكلام على الحديث و بيان صحته أنني رأيت شيخ الإسلام بن تيمية , قد ضعف الشطر الأول من الحديث , و أما الشطر الآخر , فزعم أنه كذب <1> ! و هذا من مبالغته الناتجة في تقديري من تسرعه في تضعيف الأحاديث قبل أن يجمع طرقها و يدقق النظر فيها . و الله المستعان . (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم 1750)اس حدیث کلام کرنے اوراس کی صحت کو واضح کرنے کا باعث یہ ہواہے کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحریر میں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کے پہلے حصہ کو ضعیف کہاہے اوردوسرے حصہ کو موضوع قراردیاہے۔اورمیرے خیال میں یہ مبالغہ ہے اوراس کاباعث یہ ہواہے کہا نہوں نے احادیث کے طرق کو جمع کرکے اس میں غوروفکر کرنے سے قبل اس پرجلدبازی سے کلام کیاہے۔
جی ہاں انہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے آپ کے امام صاحب کےصنیع کی شکایت یا حکایت کی بھی کی ہے ملاحظہ ہو:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن قلتم بشرعيته خالفتم سنة نبيكم وضللتم وهذا مما لا نرجوه لكم وإن قلتم بعدمها - كما هو الظن بكم - أصبتم وبطل فلسفتكم ولزمكم الرجوع عنها والاكتفاء في ردكم علي بالأدلة الشرعية إن كانت عندكم فإنها تغنيكم عن زخرف القول وإلا حشرتم أنفسكم في (الآرائيين) كما روى أحمد في " العلل " (٢ / ٢٤٦) عن حماد بن سلمة قال: إن أبا حنيفة استقبل الآثار والسنن يردها برأيه [الرد المفحم للالبانی :ص: 13]۔
۔کفایت اللہ صاحب ! ایک گزارش ہے کہ الدررالکامنہ ایک مرتبہ پوری پڑھ لیں اورپھر اس کے بعد اپنے سوال وجواب سامنے رکھیں۔ جستہ جستہ پڑھنے سے ایسی ہی صورتحال پیش آیاکرتی ہے جس کاآپ کو سامناہے۔
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (٢) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ } [الصف: 2، 3]


لطیفہ:
جمشید صاحب نے اسی محدث فورم پر یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کئے ہیں ، عجیب بات ہے کہ ایک مقام پر انہیں شیخ الاسلام سے الفت و نرمی کی دعوت دی جاتی ہے اور دوسرے مقام پر خود انہیں کی عبارات کو پر تشدد بتلایا جاتا ہے !!
کیا جو شخصیت ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ جیسی کتاب لکھے اس کے اندروہ شدت ہوسکتی ہے جس کا الزام جشید صاحب لگارہے ہیں؟؟؟

اب آخر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اخلاق ، اور آپ کی صفت حلم وبرد باری سے متعلق شیخ الاسلام ہی کی ایک ہم عصر اور عظیم شخصیت کی گواہی ملاحظہ ہو:
علامہ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي بن يوسف الدمشقي الحنبلي (المتوفى: 744ھ) فرماتے ہیں:
فوَاللَّه ثمَّ وَالله ثمَّ وَالله لم ير أَدِيم تَحت السَّمَاء مثل شيخكم علما وَعَملا وَحَالا وخلفا واتباعا وكرما وحلما فِي حق نَفسه وقياما فِي حق الله عِنْد انتهاك حرماته أصدق النَّاس عقدا وأصحهم علما وعزما وأنفذهم وَأَعْلَاهُمْ فِي انتصار الْحق وقيامه همة وأسخاهم كفا وأكملهم اتبَاعا لنَبيه مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم [العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ص: 327]
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کبھی تو جہالت پر ماتم کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم جاہل ہیں لہٰذا تقلید کے بغیر چارہ کار نہیں اور کبھی تو اتنے بڑے مجتہد کہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت سے متعلق ایک منفی رائے قائم کرنے پر بھی قدرت ہے۔اہل تقلید جب دلائل پر بحث کرتے ہیں اور اس پر ان سے سوال ہوتا ہے کہ آپ تو مقلد ہیں ، دلائل پر بحث کرنا مقلد کا کام نہیں تو ان کا مضحکہ خیز جواب سامنے آتا ہے کہ ہم امام اعظم کے بالمقابل جاہل ہیں اور آپ کے بالمقابل عالم ہیں، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ اہل تقلید شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بالمقابل بھی عالم ہیں ۔
اسی جہالت کا توروناہے کہ اب اجتہاد اوراستنباط کوڑی کے مول ہوگئے ہین اورگلی کے نکڑ پر بیٹھ کر پرچون کی دوکان چلانے والابھی اجتہاد کا دعویدار اورائمہ مجتہدین کے مقابل آنے کا منہ رکھتاہے اس جہالت پر ماتم ہی کیاجاسکتاہے شادیانے اورشہنائیاں نہیں تونہیں بجائی جاسکتیں۔غالب کے مطابق
ہربوالہوس نے عشق پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
اب اگرمجتہد کا مطلب شاہدنذیر ،کفایت اللہ اوراسی طرح کے لوگ ہیں توپھرایسے مجتہدین سے توہم بھلے ہیں۔ اورجس نے بھی یہ جواب دیاہے کہ ہم امام اعظم کے مقابل مقلد اورآپ جیسوں کے مقابل عالم بلکہ مجتہد ہیں بالکل صحیح جواب دیا مجھے تواس میں کوئی مضحکہ خیزی نظرنہیں آتی۔ مضحکہ خیزی تویہ ہے کہ چوں چوں کے مربہ قسم کے لوگ اجتہاد کا دعویٰ کریں۔

دراصل شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر شدت کا بہتان جمشید صاحب کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے حکیم الامت کی نبض شناسی کا کمال ہے !
میں پوچھ سکتاہوں کہ یہ کشف آنجناب کو کدھر سے ہواہے اوراس کی "سند صحیح"کیاہے۔

حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
’’ابن تیمہ بزرگ ہیں ، عالم ہیں ، متقی ہیں اللہ ورسول پر فدا ہیں، دین پر جاننثار ہیں ، دین کی بڑی خدمت کی ہے مگر ان میں بوجہ فطرۃ تیز مزاج کے تشدد ہوگی ‘‘ (ملفوظات حکیم الامت :ج١٠ص ٤٩)
دراصل حکیم الامت صاحب کی یہ پڑیا ہے ان تمام لوگوں کے لئے جو مقلدین کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا کوئی قول پیش کریں ، اور جمشید صاحب نے اس پڑیا کا برمحل استعمال کیا ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے جوکچھ فرمایاہے اس سے قبل ازیں تومیں لاعلم تھا اب تومجھے اپنی رائے پراوربھی زیادہ اعتماد ہوگیاہے۔ حوالہ دینے کا شکریہ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی رائے بالکل صحیح ہے اوریہ ان کے انصاف کی بات ہے کہ انہوں نے ابن تیمہ رحمتہ اللہ علیہ کے واقعی اوصاف کابھی ذکر کیا اور اورجوایک عیب یاکمزوری تھی اس کوبھی بیان کیا۔ انہوں نے دورحاضر کے اہل حدیث حضرات کی طرح یہ ظلم بالکل نہیں کیاکہ امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوکچھ واردہے اس کو تونقل کریں اورجوفضائل میں مذکور ہے اس سے صرف نظرکرلیں۔


و
رنہ محدث فورم پرہی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کا ایک اور اقبتاس بنام ’’بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی‘‘ موجود ہے اور یہاں جمشید صاحب کی اجتہادی کرم فرمائیاں کچھ اور ہی ہیں ۔
اس متضاد رویے سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ حکیم الامت نے یہ پڑیا اسی لئے تیا ر کی ہے تاکہ ان کے خلاف شیخ الاسلام ابن تیمہ کے کسی قول میں کوئی تاثیر باقی نہ رہے، اورجمشید صاحب نے یہاں اسی پڑیے کا استعمال کیاہے۔
میں نے صرف ایک جملہ کہاہے اوراس کا اثبات ونفی کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورویسے بھی کیاشیخ الاسلام کے بارے میں کوئی بات کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہربات سے انکار کردیاجائے۔اورکیاکسی کی ایک جگہ بات تسلیم کرنے اوردوسری جگہ پر انکار کرنے دورخاپن لازم آتاہے توکیاخیال ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابیں تواس طرز سے بھری پڑی ہیں۔ وہ کہیں امام ابوالحسن اشعری پر تنقید کرتے ہیں اورپھر دوسرے موقع پر اسی ابوالحسن اشعری کے کلام سے استشہاد کرتے ہیں۔ اس بارے میں آنجناب کیاکہناچاہیں گے جوبھی کہناچاہیں سوچ کرکہیں۔کہیں الٹی مصیبت گلے نہ پڑجائے اورپھرجواب بنائے نہ بنے۔
جیسے ہمارے ایک بزرگ ’’مجتہد‘‘ نے علامہ عثمانی کے خلاف اندھی تقلید کی پھبتی کسی اورجب وہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام سے دکھادی گئی تواب حیران ہیں کہ کہیں توکیاکہیں۔
فائدۃ :محدث کبیر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ شیخ الاسلام پر حکیم الامت کی طرف سے لگائے گئے بہتان کی تردیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تشدد والی بات تو مردود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ (علمی مقالات ج2ص:305)
تشدد نہ ہونے والی بات تومردود ہے میرے لحاظ سے!(ابتسامہ)محدث کبیرحافظ زبیر علی زئی کی تقلید آپ کو مبارک ہو۔لیکن ہمیں اس سے کیا۔ وہ محدث کبیر ہوں آپ کے مجتہد ہوں امام اعظم ہوں کچھ بھی ہوں ہمیں کیاواسطہ۔ان کی اس بات سے ثابت کیاہوا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
تلاش کرنے پر مجھے یہ عبارت امام ذہبی کی طرف منسوب ضمیمہ ’’ذیل تاریخ الاسلام ‘‘ میں ملی، اس ذمیمہ کا دوسرا نام ’’ذيل سير النبلاء‘‘ بھی بتلایا گیا ہے ، الفاظ ملاحظہ ہوں:

وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه.[ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

اس کتاب کے ناسخ عبد القادر بن عبد الوهاب بن عبد المؤمن القرشي ہیں،ان کی پیدائش ٨٣٧ھ ہے اورامام ذہبی رحمہ اللہ کی وفات ٧٤٨ھ میں ہوئی ہے، لہذا ظاہر ہے کہ ناسخ کو سند پیش کرنی ہوگی ، اورناسخ نے اپنی سند بیان کرتے ہوئے کہا ہے :
بسم الله الرحمن الرحيم، اللهم صل على أشرف خلقك سيدنا محمد وآله وسلم، أخبرني غير واحد مشافهة وكتابة، عن الإمام الحافظ الكبير شمس الدين أبي عبد الله محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز رحمة الله تعالى عليه؛ قال: هذا مجلد ملحق " تاريخ الإسلام " شبه الذيل عليه۔

یہ سند کئی لحاظ سے محل نظر ہے :
اولا:
یہ غیر واحد کون ہیں ان کا کوئی تذکرہ نہیں ہے، لہذا اس ضمیمہ کی نسبت امام ذہبی رحمہ اللہ کی طرف محل نظر ہے۔
ثانیا:
٢: ناسخ کے مجہول شیوخ اسے امام ذہبی سے نقل کرتے ہیں اور ناسخ کے شیوخ کو امام ذہبی کی معاصرت حاصل نہیں ہے لہذا ناسخ کے شیوخ اور امام ذہبی کے مابین انقطاع ہے اور اس بات کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ ناسخ کے شیوخ نے وجادۃ روایت کیا ہے۔
ثانیا:
اس کتاب میں ہے :
ابن السباك عالم بغداد، الإمام تاج الدين علي بن سنجر بن السبالك..... توفي رحمه الله تعالى في سنة خمسين وسبعمائة ببغداد، رحمه الله تعالى وإيانا (ذيل تاريخ الإسلام:ص:494-495)
غورکرنے کی بات ہے کہ امام ذہبی خود ٧٤٨ھ میں اس دنیا سے چلے گئے اور اس کتاب میں لکھ رہے ہیں کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ھ میں ہوئی !!!
واضح رہے کہ یہ حقیقت ہے کہ ابن السماک کی وفات ٧٥٠ ہجری میں ہوئی ہے ، چنانچہ امام تقی الدین الفاسی فرماتے ہیں:
علي بن سنجر بن السباك البغدادي تاج الدين عالم بغداد الحنفي، وسمع من الرشيد بن ابي القاسم من "صحيح البخاري"۔۔۔۔۔توفي سنة خمسين وسبعمائة
[ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد 2/ 193]

سوال یہ ہے کہ جب ابن السماک کی وفات سے دو سال قبل خود امام ذھبی اس دنیا سے چلے گئے تو پھر انہوں نے اپنی موت کے بعد مرنے والے کی تاریخ وفات کیسے لکھ دی؟؟؟؟
حیرت ہے کہ کتاب کے محقق نے بھی اس بارے میں کوئی حاشیہ آرائی نہیں کی ہے واضح رہے کہ اصل مخطوطہ میں بھی یہی عبارت موجود ہے
معلوم ہوا کہ یہ کتاب امام ذہبی کی ہے ہی نہیں ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ذہبی سے مذکورہ قول نقل کرنے میں اسی کتاب کو ماخذ بنا یا ہے جیسا کہ وہ کتاب کے شروع میں ماخذ کی فہرست دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
وتاريخ مصر لشيخ شيوخنا الحافظ قطب الدين الحلبي وذيل سير النبلاء للحافظ شمس الدين الذهبي [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 3]
ماشاء اللہ کیازوراستدلال ہے!اللہ کرے ذراکم ہو۔جہاں سے آپ نے یہ سب میرے خیال کے مطابق اخذ کیاہے ۔ ترجمة مقحمة في كتاب: (( ذيل تاريخ الإسلام )) للإمام الذهبي. - ملتقى أهل الحديث
ایک حصہ کا کلام نقل کرلیااوردوسراحصہ جواس سے زیادہ وقیع اورقابل قدر تھا۔اس کو سرے سے نظرانداز کردیا۔
جوعربی جانتے ہیں وہ عبدالرحمن الفقیہ کی اس تحریر کو غورسے پڑھیں اوربطورخاص کفایت اللہ صاحب اگرانہوں نے جلد بازی میں صرف اپنے مفید مطلب عبارت اخذ کرنے کی روش کی طرح صرف پہلامراسلہ پڑھاہو اوردوسرامراسلہ پڑھنے سے رہ گیاہو توپھر دوبارہ غورکرین اورپڑھ لیں۔
ابن السباک کے تذکرہ کو ذیل تاریخ الاسلام کومشتبہ بنانے کیلئے بطور دلیل کافی نہیں ہے۔ حافظ ذہبی نے ابن کثیر،ابن قیم ،اوراپنے کئی دیگر معاصرین کا ذکر کیاہے۔ اس میں توکوئی شک نہیں ہے ابن السباک حافظ ذہبی کے معاصر تھے۔ معاصر کے طورپر انہوں نے ابن السماک کا تذکرہ کیاہو ،بعد میں کسی نے حاشیہ پر ابن السماک کی وفات کی تاریخ بھی لکھ دی ہو اورکتابت کے وقت یاابھی طباعت کے وقت غلطی سے وہ مضمون میں شامل ہوگیاہو۔ایسی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔اس کی سب سے واضح مثال یہ ہے کہ جب میزان الاعتدال حیدرآباد دکن سے چھپی تھی تواس وقت کتاب کے محقق نے یہ صراحت کی تھی کہ مجھے میزان الاعتدال کے نسخوں میں امام ابوحنیفہ کاذکر نہیں ملا ایک نسخہ میں اصل کتاب سے باہر حاشیہ میں لکھاہے چنانچہ حیدرآباد دکن سے شائع ہونے والے میزان الاعتدال میں حاشیہ پر ہی امام ابوحنیفہ کاتذکرہ لکھاگیا۔جب یہی کتاب کاپی کرکے مصر سے شائع ہوئی تواس کے محققین نے بغیرکسی وضاحت کے امام ابوحنیفہ کے تذکرہ کو نفس کتاب میں شامل کردیا۔
میزان الاعتدال کے تعلق سے مزید معلومات کیلئے اسے پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذ کرہ - URDU MAJLIS FORUM
یاپھر یہ پڑھئے۔
میزان الاعتدال میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ
جاری ہے
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جب اختصار کے ساتھ کسی کا کلام نقل کیا جائے تو کبھی کبھی بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں بھی ناقل کی طرف سے تصرف ہوجاتا ہے جس کی متعدد مثالیں ، تہذیب میں دیکھیں جاسکی ہیں ، جس میں بطور مقولہ ناقدین کے اقوال نقل کئے گئے ہیں مگر اصل مرجع کی طرف لوٹنے سے ہمیں وہاں کچھ اور ہی ملتاہے ، گرچہ بطور مقولہ نقل کی گئی بات میں ایسا کم ہوتا ہے لیکن امکان بہرحال ضرور ہے۔
کبھی کبھی کی بات کا اعتبار نہیں کیاجاتا اس کیلئے ثبوت پیش کرنا پڑتاہے کہ ایساہواہے ۔صرف امکانیات کے دائرہ میں گردش کرتے ہوئے ہرچیز کو امکان کے خراد پر چڑھادینے سے مسئلہ بہت سنگین ہوسکتاہے ۔کبھی بھی توکتب جرح وتعدیل میں ایسابھی ہواہے کہ کسی امام نے کچھ بات کہی اوروہ نقل ہوتے ہوتے کچھ سے کچھ بن گئی توکیااس بناء پر پورے کتب جرح وتعدیل کے دفتر کو ہی ہم امکانیات کے خراد مشین پر چڑھادیں۔
بطور مثال ایک نمونہ لیں۔ معمر بن راشد نے اسماعیل بن شروس الصنعانی کے بارے میں کہا کان یثبج الحدیث یعنی وہ حدیث کوٹھیک طورسے ادانہیں کرتاتھا۔ ابن عدی کے یہاں وہ تحریف ہوکر بن گیاکان یضع الحدیث،اس کو حافظ ذہبی نے میزان میں اسی طورپر نقل کیاکان یضع الحدیث پھر اس کو مغنی اوردیوان الضعفاء میں لکھا کذاب،اوربعد والوں نے اسی کواختیار کیا۔
کیایہ مثال ہمارے لئے نمونہ بنتی ہے کہ ہم پورے طورپر میزان الاعتدال پر ہی اعتبار کرناچھوڑدیں۔ صاحبان عقل کاوطیرہ یہ ہوتاہے کہ وہ ہرچیز کے بارے میں معتدل رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ابن السباک کے تنہامثال کو ذیل تاریخ الاسلام کو مشبہ بنانے کیلئے بہت بھونڈی کوشش اورتحقیق سے لاعلمی کاثبوت ہے۔

مثلا تھوڑا بہت فرق تو زیربحث عبارت میں بھی ہے:
سب سے پہلے اصل عبارت ملاحظہ ہو:
وكان قوَّالاً بالحق، نهاءً عن المنكر، لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. ومن خالطه وعرفه؛ قد ينسبني إلى التقصير في وصفه، ومن نابذه وخالفه؛ ينسبني إلى التعالي فيه، وليس الأمر كذلك. مع أنني لا أعتقد فيه العصمة، كلا! فإنه مع سعة علمه، وفرط شجاعته، وسيلان ذهنه، وتعظيمه لحرمات الدين، بشرٌ من البشر، تعتريه حدة في البحث، وغضب وشظف للخصم؛ يزرع له عداوة في النفوس، ونفوراً عنه. وإلا؛ فلو لاطف الخصوم، ورفق بهم، ولزم المجاملة وحسن المكالمة؛ لكان كلمه إجماعاً؛ فإن كبارهم وأئمتهم خاضعون لعلومه وفقهه، معترفون بشفوفه وذكائه، مقرون بندور أخطائه. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]

اب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی منقولہ عبارت ملاحظہ ہو:
قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك [الدرر الكامنة في أعيان المائة الثامنة 1/ 176]
یہ بھی آنجناب نے مزید ثبوت دیئے ہیں اپنی علمی اورتحقیقی کاموں سے لاعلمی کی۔ کسی عبارت کو ثابت کرنے کا یہ طریقہ کار نہیں ہوتا جوآنجناب نے اختیار کیاہے۔
حافظ ابن حجر کا زمانہ حافظ ذہبی سے بہت قریب ہے اوریہ بھی معلوم بات ہے کہ وہ بہت اورمتقین حافظ ہیں۔ ذیل تاریخ الاسلام کی عبارت سے حافظ ابن حجر کی عبارت صحیح کرنے کے بجائے حافظ ابن حجر کی عبارت سے ذیل تاریخ الاسلام کی عبارت درست کرنی چاہئے۔

اوپر امام ذہبی کی طرف منسوب کتاب سے جو اصل عبارت نقل کی گئی ہے اس میں یہ صراحت ہے:
لا تأخذه في الله لومة لائم، ذا سطوة وإقدام، وعدم مداراة الأغيار. [ذیل تاریخ الاسلام ص: ٣٢٦]اس صراحت کے باوجود بھی آپ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے ہرکلام میں شدت کی بو سونگھیں گے۔
ماشاء اللہ کہاں تو ذیل تاریخ الاسلام حافظ ذہبی کی کتاب ہی نہیں ہے اوران کی جانب نسبت صحیح نہیں ہے اورکہاں ایک حرف اپنے مطلب کا ملا تواسے وحی کی طرح پیش کرنا شروع کردیا۔ علمی مسائل میں موضوعیت یعنی غیرجانبداری بہت ضروری ہے اور "ہم طرفدار ہیں غالب کے ،سخن فہم نہیں"جیسی باتیں آدمی کی ثقاہت کے ساتھ اس کے وقار کو بھی مجروح کرتی ہیں۔
ذیل تاریخ الاسلام ہی میںجب صاف صاف یہ لکھاہواہے کہ دوران بحث ان کی سخت کلامی اورگرم مزاجی کی وجہ سے علماء ان پر نکتہ چینی کرتے تھے پھر اس کو مداراۃ الاغیار سے کیاتعلق باقی رہ گیاہے۔ ٹھیک ہے وہ اغیار کے ساتھ مدارات نہ کرتے ہو لیکن اب ہمعصر علماء کے ساتھ دوران بحث مدارات میں کیاچیز مانع تھی کیاان کا تعلق اغیار سے تھا؟ ذیل تاریخ الاسلام میں دونوں باتیں لکھی ہیں کہ وہ غصے پر قابوپالیتے تھے اوردوسری جگہ کہ ان کو اثنائے بحث حدت اورتیزمزاجی کاعارضہ تھا۔
میرے خیال میں دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ جب انسان عام لوگوں سے بحث کرتاہے تو وہ اپنے غصے پر کافی قابورکھنے کی کوشش کرتاہے لیکن جب اپنے جیسے لوگوں سے کلام کی نوبت آتی ہے توایک دومرتبہ کی بحث کے بعد عمومااپناکنٹرول کھودیتاہے الاماشاء اللہ۔
اس کی ایک تازہ مثال توخود آنجناب ہیں کہ میرے جملے شیخ الاسلام کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے اس پر اتنے برہم ہوئے اورآپاکھویا کہ سیدھے حضرت امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ خیر حضرت امام آپ کے کسی کام توآئے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
اولا:
ہم نے ’’تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم ‘‘ کے الفاظ کا حوالہ دیا تھا ، اوربعض ناقلین اسی کلام کو مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے ، مثلا:
تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [الوافي بالوفيات 7/ 12]۔
تعتريه حدة، ثم يقهرها بحلم وصفح [فضل أبي بكر الصديق رضي الله عنه 13/ 1224(مقدمہ)]۔
تعتريه حِدة ثمَّ يقهرها بحلم وصفح [ثلاث تراجم نفيسة للأئمة الأعلام ص: 27]۔
تعتريه حدة ثم يقهرها بحلم وصفح [معجم أصحاب شيخ الإسلام ابن تيمية ص: 130، بترقيم الشاملة آليا]۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ اپنی شدت پر پر حلم و بردباری اور صفح و درگذر سے قابو پالیتے تھے تو پھر اس کے برے نتائج بیان کرنا اس بیان کے سراسر خلاف ہے، لہٰذا دونوں عبارتوں میں تضاد ہے، ہم نے اسی طرف اشارہ کیا تھا جمشید صاحت نے دونوں عبارتیں تو نقل کردیں لیکن اس تضاد پر کوئی خامہ فرسائی نہیں کی، نیز یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ کسی کے بارے میں یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ وہ اپنی شدت پر حلم وصفح سے قابو بھی پالیتا ہے ، اوردوسری طرف اس کے ہرکلام میں اس کے برے نتائج بھی محسوس کریں؟؟؟
اس کی وضاحت میں ماقبل میں کرچکاہوں کہ نفسیاتی اعتبار سے انسان اپنے سے کمتر یاعوام کے سامنے اپنے غصے پرکنٹرول رکھتاہے لیکن معاصرین کے مقابلے میں یہ برداشت بہت شاذونادر کسی کونصیب ہوتی ہے۔اسی کا نمونہ ہم کتب جرح وتعدیل میں دیکھتے ہیں کہ معاصرمحدثین نے ایک دوسرے پرکس طرح چوٹیں کی ہیں۔ ابن مندہ اورابونعیم اصبہانی کی مثال ہو،احمد بن صالح المصری ااورامام نسائی کی مثال اوراس کے علاوہ دسیوں مثال کتب تاریخ میں موجود ہے۔
پھر اگربعد کے تذکرہ نگاروں نے حافظ ذہبی کے ایک کتاب کے جملے نقل کئے اوردوسرے کتاب سے نقل نہیں کیاتواس سے یہ کہاں لازم آیاہے کہ وہ غلط ہے۔غلطی توجب ثابت ہوتی جب کہ بعد کے تذکرہ نگار صراحتاانکار کرتے لیکن کسی بھی تذکرہ نگار سے اس کاانکارثابت نہیں
آپ نے پہلا حوالہ حافظ الوافی بالوفیات کادیاہے دیکھتے ہیں اس میں ہمیں ابن تیمیہ کے حوالہ سے کیاملتاہے۔وہ حضرت ابن تیمیہ کے حافظہ کی تعریف میں اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوافی بالوفیات 7/12)
میرے خیال سے الوافی بالوفیات کی ورق گردانی کرتے وقت اس عبارت سے آنجناب کو ذہول ہوگیاہو خیر کتاب وسنت جیسے بڑے فورم پر اس جیسی چھوٹی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں ۔گزارش ہے کہ آئندہ مالہ وماعلیہ دونوں کا دھیان رکھئے گا۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ثانیا:
پیش کردہ اقتباس کے ملون سطور پر دھیان دیں جا بجا علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ آپ حق بات کہنے میں کسی طرح کی مداہنت کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے اوربادشاہوں کے سامنے بھی بے خوف حق کا اعلان کرتے تھے ، یہی وہ خوبی ہے جسے امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی اصل تحریر میں حدت سے تعبیر کیا ہے جیسا کہ آگے وضاحت آرہی، اور یہ کوئی بری چیز نہیں بلکہ محمود شے ہے۔ملتقی اہل الحدیث کے ایک رکن ایک شخصیت کے اندرموجود وصف حدت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فلقد رأيته سهل الخلق لين الكنف تعتريه حدة هي من حسن خلقه لا سوئها، وهذا لا يفقهه إلا من أمعن النظر في تراجم السلف فسيعلم أن من مظاهر حسن خلق أبي بكر رضي الله عنه غضبه يوم الردة على عمر رضي الله عنه، وشدة عمر في الحق أيضًا من جميل أخلاقه وكذا سائر الصحابة والسلف، وهذا ابن تيمية رحمه الله تعالى كانت تعتريه حدة أهلك الله بها المبتدعة وجلى على يديه السنة، وكذا الإمام النووي رحمه الله حفظ الله به أموال الناس لفرط هذه الحدة في الله تعالى وهذا ضد لا يظهر حسنه إلا بضده إذا جمع معه كما قال القائل:
ضدان لما استجمعا حسنا والضد يظهر حسنه بالضد
ربط

ہم کہتے ہیں یہی مفہوم امام ذہبی کے اس کلام کا بھی ہے جس میں وہ شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے موصوف کرتے ہیں۔
اب ملتقی اہل الحدیث کے ایک رکن درجہ استہشہاد پر فائز ہوگئے تو ہم کیاعرض کرسکتے ہیں ۔گزارش ہے کہ سنجیدہ مباحث میں مضحکہ خیزی نہ کریں اوراس طرح کے اوٹ پٹانگ مثالیں نہ دیاکریں ۔علامہ شبلی نعمانی کی مثال دینے پر توآنجناب برہم ہوگئے اورعلمی معیار کے گراوٹ کا شکوہ لبوں تک آگیا اب یہ بے نام ونشان ملتقی کے رکن کا بصد افتخار حوالہ دے کر غربت علم کابھی شکوہ کرلیتے توبہترتھا۔ آپ کے ملتقی والے صاحب رات دن فرمائیں ۔ہماری بحث پر اس کاکیااثر پڑتاہے۔
اوریہ جو بات آنجناب فرمارہے کہ ہم کہتے ہیں اسی کہنے کاتوثبوت درکار ہے۔ پھرآپ نے جوایک فلسفہ چھانٹ رکھاہے کہ کسی بات کا کسی تک سماع ثابت ہوناالگ ہے اوراس بات کا فی نفسہ صحیح ثابت ہوناالگ ہے۔
آپ کے اسی فلسفہ یاقاعدہ پر ہم بھی ایک قاعدہ وضع کرتے ہیں کہ حضرت ابن تیمیہ کے مزاج میں شدت وحدت تھی اوراسی وجہ سے ان کی تحریروں میں توازن اوراعتدال کی کمی جھلکتی ہے اب اس شدت وحدت کا مقصد کیاتھاوہ توہمارابھی حسن ظن ہے کہ للہ فی اللہ ہوگا ہم نے بھی توکہیں نہیں کہاہے کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کیلئے ایساکرتے تھے۔ ہاں اتنی بات ہم ضرور کہتے ہیں کہ ان کے مزاج میں شدت وحدت تھی اوراس کی وجہ سے تحریروں میں نبستا اعتدال وتوازن کی کمی جھلکتی ہے۔
انسان کو اگراپنے مطلب کی بات اخذ کرنی ہو تو وہ ایسی ہی کوشش کیاکرتاہے جیسی آپ کررہے ہیں۔ جب یہ صاف صاف لکھاتھاکہ دوران بحث وہ طیش میں آجاتے تھے اوراسی کی وجہ سے بسااوقات ان کی زبان سے ایسے الفاظ نکل جاتے تھے جس کی وجہ سے علماء ان سے ناراض رہاکرتے تھے اگر یہ چیزیعنی حدت اورشدت ان کے اندر نہ ہوتی توان کی ذات پر علماء کا اجماع ہوتا۔ تو اس کو تاویلات کے پردے میں کیوں لپٹیا جارہاہے۔ امام ابوحنیفہ کے تعلق سے کوئی بات ہو ایمان بالغیب کا مظاہرہ ہوگا اوراب بات چوں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تعلق سے ہے تورب ارنی کی صدائے مکرر لگ رہی ہے۔


ثالثا:
مذکورہ اقتاس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صاف لکھتے ہیں:
لا يؤتى من سوء فهم فإن له الذكاء المفرط ولا من قلة علم فإنه بحر زخار ولا كان متلاعبا بالدين ولا ينفرد بمسائله بالتشهي ولا يطلق لسانه بما اتفق بل يحتج بالقرآن والحديث والقياس ويبرهن ويناظر أسوة من تقدمه من الأئمة فله أجر على خطائه وأجران على إصابته
یعنی ابن تیمہ رحمہ اللہ کی کوئی بات سوء فہم یا کم علمی یا دین سے کھلواڑ کرنے یا من مانی یا زبان درازی کی نتیجہ میں نہیں ہوتی تھی بلکہ دلائل کے ساتھ ہوتی تھی اس لئے اگر ان سے کوئی ٍغلط بات بھی ہوگئی ہے تو اس پر بھی انہیں ایک اجر ملے گا ، اورصحیح باتوں پر دو اجر ملے گا۔
ماشاء اللہ دیکھاحافظ ابن حجر کی کتاب میں ایک بات مفید مطلب ملی تواسے اس طرح اخذ کرلیااورجودوسری بات ہے اسے کون نقل کرے گا۔لیجئے آپ کی خاطر اقدس کی خاطر ہم ہی نقل کردیتے ہیں تاکہ عزت مآب کو زیادہ زحمت نہ کرنی پڑے۔
ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوايقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔(1/179)
اورپھر ان کے ساتھیوں نے ان کی ذات مین غلو کیا جس کی وجہ سے ان کے اندر عجب (خود پسندی) پیداہوگئی۔یہاں تک کہ انہوں نے خود کوبھی مجتہد شمار کرناشروع کردیااوراس کی وجہ سے چھوٹے بڑے تمام علماء پر رد کرنے لگے معاملہ یہاں تک پہنچاکہ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ کوکسی چیز کے سلسلے میں خطاکار بتایا۔اس کی خبر جب شیخ ابراہیم رقی تک پہنچی توانہوں نے اس پر انکار کیاجس کے بعد حضرت ابن تیمیہ خود ان سے ملے اورمعذرت پیش کی اورانہوں نے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ کے حق میں کہاہے کہ انہوں نے سترہ مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔اورایک مسئلہ میں توکتاب اللہ کے نص کی مخالفت کی ہے۔اورحنابلہ کے ساتھ تعصب کی وجہ سے وہ اشاعرہ کی مخالفت کرتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے ایک موقع پر امام غزالی کو برابھلاکہاجس پر لوگ ان کی طرف ایساجھپٹے گویاان کو قتل کردیں گے۔
حافظ ابن حجر کیاکہہ رہے ہیں غورکیاکفایت اللہ صاحب۔اوریہ صرف حافظ ابن حجر ہی کاکہنانہیں ہے بلکہ دیگر افراد نے بھی کہاہے ۔یہ اوربات ہے جوش عقیدت میں یہ تحریریں نظرنہ آتی ہوں۔ذرا زغل العلم کابھی مطالعہ کرلیجئے گا۔اس میں حافظ ذہبی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کو کیاکچھ کہاہے وہیں مذکور ہے۔اگرآنجناب کااصرار ہواتواس عبارت کو ہم نقل کردیں گے۔
مگر جمشید صاحب یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ تشدد کی بناپر غلط باتیں کہہ دیا کرتے تھے، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے غطی پر ایک اجر کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
پھر آپ نے غلط لائن پکڑی ہے۔میرا کہناہے کہ نسبتا اعتدال وتوازن کی کمی تھی اورآپ اس کو کہہ رہے ہیں کہ غلط باتیں کہہ دیاکرتے تھے۔کیادونوں جملے ایک ہیں۔ براہ کرم اگر دوباتوں کے درمیان فرق وامتیاز نہیں کرسکتے میری باتیں کوٹ کرکے بیان کریں۔ آپ نے جوطریقہ کار اختیار کیاہے وہ رائی کوپہاڑ بنانے کی مثال ہے۔ میں نے کہاکہ ان کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے اورآنجناب نے اس کو بنادیا
علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ تشدد کی بناپر غلط باتیں کہہ دیا کرتے تھے
اورپھر اس پر نتیجہ بھی نکال لیا کہ اجر کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
میراتوکہناصرف ازیں قدر ہے کہ ان کے مزاج میں تھوڑی حدت وشدت تھی اوران کی تحریروں میں نسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے۔جہاں تک حدت وشدت کی بات ہے خواہ وہ ان کی تحریروں میں ہویاان کے مزاج میں دونوں صورتوں میں ان کا مقصد انشاء اللہ نیک ہے۔ ہم کسی کی نیک پر سوال نہیں اٹھاتے بلکہ ہم سبھی کے ساتھ الاماشاء اللہ کچھ کوچھوڑکر (جیسے مقبل الوادعی)حسن ظن رکھتے ہیں۔ حضرت ابن تیمیہ کا توبرامقام ہے وہ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد ہیں ان کی نیت بالکل بخیر تھی لیکن کمزوری سے کون خالی رہاہے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ الگ الگ مقامات کی عبارتیں ہیں ان کو پورے سیاق کے ساتھ پڑھا جائے تو بات بالکل صاف ہوجاتی ہیں کہ ان الفاظ کے ذریعہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی شجاعت کو بیان کیا ہے کہ وہ کسی کے سامنے نہیں دبتے تھے اور اعلان حق میں سخت اور مثل شیر کے تھے ، بالخصوص درج ذیل الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، وهو أكبر من أن ينبه مثلي على نعوته، فلو طفت بين الركن والمقام لحلفت أني ما رأيت بعيني مثله، ولا والله ما رأى هو مثل نفسه في العلم . وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له. وهو فقيرٌ لا مال له، وملبوسه كأحد الفقهاء: فرجية، ودلق، وعمامة تكون قيمةَ ثلاثين درهما، ومداس ضعيف الثمن.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
اس عبارت میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کو حدت سے متصف کرنے ساتھ آپ کی تشبیہ میدان جنگ کے شیر سے دی ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امام ذہبی رحمہ اللہ شیخ الاسلام کی بہادری بیان کررہے ہیں نہ کہ ان کی بے جا سختی ورنہ ان کی اس سختی کو میدان جنگ کے شیر سے تشبیہ ہرگز نہ دیتے،

اس کے بعدآگے قلت مداراۃ اورعدم تودت کی بات کہی ہے گویا کہ اعلان حق میں آپ مداراۃ اور تودت کا مظاہہرہ نہیں کیا کرتے تھے جیسا کہ دیگرحفاظ ایسا کربیٹھتے تھے مثلا خود امام ذھبی فرماتے ہیں:
ویسے الدرۃ الیتیمۃ کے محقق نے صحیح طورپر اس جملے کو الگ پیراگراف میں نقل کیاآپ کی طرح سبھی کو ایک ساتھ نقل نہیں کردیاہے کہ گیہوں بھس سب مل کر ایک ہوجائیں۔
عبد الصمد بن علي بن عبدالله بن العباس الهاشمي الامير. عن أبيه بحديث: أكرموا الشهود. وهذا منكر، وما عبد الصمد بحجة. ولعل الحفاظ إنما سكتوا عنه مداراة للدولة [ميزان الاعتدال موافق رقم 2/ 620]
میزان الاعتدال میں امام ذہبی کی اس عبارت سے صاف واضح ہوگیا کہ یہاں امام ذہبی جو شیخ الاسلام سے مداراۃ اور تودۃ کی نفی کررہے ہیں اس سے کیا مرادہے۔
تاویل ہوتوکفایت اللہ بھائی جیسی۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ بحث ومباحثہ کے دوران وہ اتنے طیش میں آجاتے تھے گویاکہ میدان جنگ میں کوئی شیر دہاڑ رہاہے۔اس کو کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں اعلان حق میں سخت ۔کیا بات ہے !یہی بات حافظ ذہبی کو کہنے میں کیامانع تھاکہ وہ اعلان حق میں شیر کی طرح سخت تھے میرے خیال سے اتنی عربی تووہ جانتے ہی تھے اوراس کو عربی میں بیان کرسکتے تھے۔
وہ تو صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ بحث ومباحثہ کے دوران حدت وشدت کے بناء پر ایسے ہوجاتے تھے گویامیدان جنگ میں کوئی شیر دہاڑرہاہے۔لیکن ہمارے کفایت اللہ صاحب کی تاویل کچھ اور ہے ۔سچ ہے کفایت اللہ صاحب نے اپنے دستخط میں جوایک شعر لگایاہے
وعين الرضا عن کل عيب کليلةٌ ...................... کما أن عين السخط تبدي المساويا​
اس کامصداق اس سے بڑھ کر کیاہوسکتاہے کہ امام ابوحنیفہ کے بارے میں جس نے جوکچھ کہہ دیاہے وہ سب بغیر کسی غوروفکر کے قبول ہے لیکن قبول نہیں ہے توحافظ ذہبی کی بات اوراس کوتاویل کے خراد مشین پر چڑھاکرکچھ اوربنادیناچاہتے ہیں۔

حافظ ذہبی کہتے ہیں
وفیہ قلۃ مداراۃ وعدم تودۃ غالبا واللہ یغفر لہ
یہاں بھی ماشاء اللہ آپ کا "تحقیقی ذوق"آشکاراہورہاہے۔ جناب نے کہیں سے مداراۃ الدولۃ کا لفظ پالیاہے اوراس کو بغیر غوروفکر کئے یہاں فٹ کرناچاہتے ہیں۔ ایک سوال توپوچھ ہی سکتاہوں کہ حافظ ذہبی کو کیاچیز مانع تھی کہ جیسے وہاں تصریح کی ہے ۔یہاں بھی تصریح کردیتے ۔کہ یہ مدارات کس کے ساتھ تھی اورکس کے ساتھ نہیں تھی۔
ہے ۔یہ جملہ ایک مستقل جملہ ہے اس کا آگے پیچھے سے کوئی تعلق نہیں ہے جیساکہ خود نفس کتاب میں اس کو الگ پیراگراف میں بیان کیاگیاہے۔
دوسری بات جناب کو شاید عربی کا کچھ ذوق ووق نہیں۔ اگریہ جملے تعریف کے ہیں جیساکہ کفایت اللہ صاحب ہمیں باور کراناچاہتے ہیں توپھر واللہ یغفر لہ کا کیاموقع بنتاہے۔
یہ تو اردو جاننے والابھی جانتاہے کہ تعریف کے کلمات کے بعد اس طرح کی باتیں نہیں کی کہی جاتیں کہ اللہ ان سے درگزرکرے ان کی مغفرت کرے ۔ یہ باتیں وہیں کہی جاتیں ہیں جہاں کسی شخصیت کے کچھ ایسے امور کا تذکرہ کیاجاتاہے جونامناسب ہوں ۔ایک مثال ذکر کروں ۔
اگرمیں کہوں کہ کفایت اللہ صاحب حق بات میں کسی سے دبتے نہیں ہیں ۔ اعلان حق کے سامنے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔حتی کہ امام ابوحنیفہ کے مثالب تک نقل کردیتے ہیں
پھراس کے بعد کہوں کہ اللہ ان کی مغفرت کرے ان سے درگزرکرے توشاید آنجناب کوبھی یہ جملہ بہت بے موقع لگے گا۔
اس کی جگہ اگرمیں یہ کہوں کہ
کفایت اللہ صاحب بحث میں اصول کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ موضوع سے اترجاتے ہیں اورکسی کی بات کو بڑھاچڑھاکر پیش کرتے ہیں اورخواہ مخواہ کی تاویل سے کام لیتے ہیں ۔
پھرکہوں کہ اللہ ان سے درگزرکرے تویہ واقعتاصحیح جملہ ہوگا۔ مجھے امید ہے کہ آنجناب بھی اس سے اتفاق کریں گے۔
پھراسی السیرۃ الیتیمۃ میں جوکچھ ہے وہ آپ نے نقل نہیں کیابلکہ یہاں وہاں کی باتیں نقل کردیں ہیں۔
میں نقل کردیتاہوں۔
وھذالذی ذکرتہ من سیرتہ فعلی الاقتصاد،والافحولہ اناس من الفضلاء یعتقدون فیہ وفی علمہ وزھدہ ودینہ وقیامہ فی نصرالاسلام بکل طریق اضعاف ماسقت،وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ وثم اناس –قد علم الناس قلۃ خیرھم وکثرۃ ھواھم-ینالون منہ سباوکفراوھم امامتکلمون او من صوفیۃ الاتحادیۃ اومن شیوخ الزرکرۃ ،اوممن قد تکلم ھو فیھم فاقذع وبالغ ،فاللہ یکفیہ شرنفسہ وغالب حطہ علی الفضلاء اوالمتزہدۃ فبحق وفی بعضہ ھو مجتہد۔۔(۔السیرۃ الیتیمہ ص18)
یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔
دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔
ویسے ایک کام کی بات بتادوں کہ حافظ ذہبی چوں کہ بذات خود حضرت ابن تیمیہ کے بڑے مداح ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اشارہ سے کام چلاتے ہیں کبھی بھی تصریحا کچھ نہیں کہتے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
ان وضاحتو ں کے بعد اب بھی اگر کوئی امام ذہبی کے کلام سے حدت وغیرہ کا خود ساختہ مفہوم نکالے توسوائے اس کے اور کیا کہا جائے کہ وہ الٹی فہم اور اورٹیڑھی عقل کا مالک ہے ، جیسا کہ ایک عربی بحث نگار نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
وكانت له عبارات قد يفهم منها أصحاب الفهم المقلوب والعقل المنكوس! أنّها طعنُ وغمزٌ في شيخه شيخ الإسلام. مثل قوله..:"وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له!"
یعنی امام ذہبی کی کچھ عبارتیں ایسی ہیں جن سے الٹی فہم اور ٹیڑھی عقل والے یہ سمجھتے ہیں کہ امام ذہبی نے اپنے شیخ ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر طعن وتشنیع کی ہے جیسا کہ امام ذہبی کی یہ عبارت ہے ’’وفيه قلة مداراة وعدم تؤدة غالباً، والله يغفر له‘‘ ہے
ملاحظہ فرمائیں یہ لنک۔
ویسے ایک سلفی عالم نبیل العوضی نے اپنے مضمون کلمۃ صراحۃ میں کہاہے کہ آج کل کے سلفی فقہاء کے مقلدین سے بھی زیادہ متعصب ہوتے ہیں آپ کی باتیں پڑھ پڑھ کر اس کی صداقت کا اندازہ ہورہاہے۔
وباسم (السلفية) المظلومة يدعون الناس الى التعصب والتقليد!! والسلفية، انما جاءت لتحرر الناس من هذا الامر وترشدهم الى اتباع كتاب الله وسنة رسوله، اما ادعياء السلفية اليوم فهم ابعد الناس عن السلفية، واشد تعصبا ممن تعصب للفقهاء السابقين، فالسلفية عند البعض اليوم مسائل معدودة محصورة وعلى فهم علماء لا يتجاوزون اصابع اليد الواحدة، من وافقهم في هذه المسائل فهو الناجي من الضلال والبدع ومن خالفهم في واحدة فقد ضل وهلك وابتدع، اما سائر مسائل الدين الاخرى فلا وزن لها، وباقي علماء الامة في الأمصار فلا عبرة بهم، وباسم (السلفية) ألزموا الناس التعصب والتقليد، فاما ان تكون على رأيهم في كل شيء واما ان تكون من الفرق الضالة الهالكة!!
مفقود یا مخطوط کی بات دور کی ہے اگر کسی موجود اور مطبوع کتاب سے بھی حافظ ابن حجررحمہ اللہ نقل کریں تب بھی وہ بات تب تک مستند نہیں ہوسکتی جب تک کہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ اس کتاب کی نسبت مؤلف کی طرف درست ہے، خود امام ذہبی کی مثال لیں ان کی طرف بھی من گھڑت کتب منسوب ہیں مثلا النصیحہ وغیرہ ، اسی طرح ظالموں نے امام ذہبی کی طرف ایک خط بھی منسوب کیا ہے جس میں امام ذہبی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو سمجھاتے ہیں اور ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ایسی صورت میں یہ جاننا ضروری ہے کہ کس کتاب سے کیا نقل کیا جارہا ہے اور س کتاب کی پوزیش کیاہے۔
آپ ذرااپنی ایک غلطی درست کرلیں عموماجوش بحث میں ایسی غلطیاں ہوجاتی ہیں خط کا نام ہی النصیحۃ ہے خط اورالنصیحۃ کوئی الگ الگ چیز نہیں ہے ویسے اس کی جانب سب سے پہلے حافظ سخاوی نے اشارہ کیاہے اورپھر حافظ کی کتابوں کے سب سے بڑے محقق اورماہر بشارعواد معروف نے بھی اس خط کو حافظ ذہبی کاہی ماناہے ۔ خواہ وہ ان کی ہو یانہ ہو ہمارے سامنے یہ چیز موضوع بحث نہیں ہے۔

خود زیربحث حوالہ ہی کو دیکھ لیں یہ ایسی کتاب سے منقول ہے جس کی نسبت امام ذہبی کی طرف ثابت ہی نہیں۔
زیر بحث کتاب توحافظ ذہبی کی طرف بالکلیہ ثابت ہے لیکن مسئلہ انجناب کے ساتھ یہ ہے کہ اپ صرف اپنے حق مین بیان کی گئی چیزوں کواخذ کرلیتے ہیں اوردوسرے دلائل سے صرف نظرکرلیتے ہیں اورپھر بھاری بھرکم الفاظ میں نتائج بیان کرتے ہیں۔
ثالثا:تھوڑی سی حدت وشدت وہ بھی کبھی کبھار اس سے بہت کم لوگ بچ پاتے ہیں، لیکن ہر کلام میں اس کی جھلک دیکھنا یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
ہرکلام میں جھلک کس نے دیکھاہے ۔ حافظ ابن تیمیہ کی ایک بات ائی اس پر بات کہی گئی ۔ ہرکلام نہ اپ نے نقل کیااورنہ ہی ہرکلام پر تبصرہ ہواہے۔
اب تھوڑی سی حدت اورشدت کو ہر عبارت میں باور کرانا یہ آپ ہی کے نزدیک قابل فہم ہوسکتاہے۔
خیرسلفیوں کے ساتھ عمومابحث میں ایسے ہی نتائج کاسامناکرپڑتاہے میری عبارت دیکھیں اورپھر اپنااظہارخیال دیکھیں۔ نیند پوری نہ ہوایک مرتبہ براہ کرم نیندپوری کرلیں اورپھر جولکھیں پورے ہوش وحواس مین لکھیں۔
یہ میں نے کہاں کہا کہ ہرعبارت میں حدت اورشدت ہے۔ فیاللعجب
مذکورہ جملے میں شدت کو ایک معیوب چیز مان کر جواب دیا گیا تھا لہٰذا یہاں یہ حدیث پیش کرنے کا کوئی محل ہی نہیں ہے یہ حدیث آپ تب پیش کرتے جب ہم نے یہ کہا ہوتا کہ اسلوب میں شدت کے باوجود اسلوب پسندیدہ ہوتا ہے لیکن ہم نے سخت اسلوب میں پیش کے گئے حق پر بات کیا تھا یعنی حق اگر معیوب طریقہ سے پیش کیا جائے تو اس کی وجہ سے حق کو ٹھکرانے کا جواز نہیں ملتا ہے، اگر اس سے آپ کو اتفاق نہیں تو اسی حدیث کی روشنی میں بتلائے کہ اگر کوئی باطل کو نرمی کے ساتھ پیش کرے توکیا اسے قبول کرلیا جائے گا؟؟؟
نفس شدت کس طرح ایک معیوب چیز ہے وہ توآنجناب نے واضح نہیں کیا۔پھرنرمی لطافت کی حدیث کس طرح پیش کرنامناسب اورموقع ومحل کے مطابق نہیں ہے۔اس کی بھی وضاحت لگے ہاتھوں کردیتے۔
سخت اسلوب شریعت میں کس قدر پسندیدہ ہے۔اگلے مراسلات مین واضح کردیجئے گا اوریہ بھی کہ کہاسخت اسلوب کونرمی اسلوب پر ہرحال میں فوقیت حاصل ہے۔
حدیث کے الفاظ بھی عام ہیں،قران نے جدال احسن کاحکم دیاہے جدال مطلق کاحکم نہیں دیا ہے۔ نرمی جتنااثرکرتی ہے سختی اتنااثرنہیں کرتی ۔حافظ ابن تیمیہ کی سخت کلامی سے ہی توعلماء متنفر تھے ورنہ ان کی ذات پرعلماء کا اجماع ہوتا۔ ابن حزم کے ساتھ کیاچیز پیش آئی ۔ سیر اعلام النبلاء اوردوسری کتابیں پڑھ کر خود معلوم کرلیں۔ خود قران میں موجود ہے کہ اللہ نے جب حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیاتوقول لین کاحکم دیا ۔
اب دوسرا کوئی نہ توحضرت موسی سے افضل ہے اورنہ اس کا مخاطب فرعون سے زیادہ بدتر ہوسکتاہے حضرت موسی کو فرعون کے ساتھ ایمان کی دعوت دینے کیلئے بھیجاگیاتھایعنی اصولی مسئلہ تھا،فروعی نہیں جب وہاں پر قول لین کا حکم ہے توفروعات میں توبدرجہ اولی قول لین اختیار کرناچاہئے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ ایک سازش ہے کہ شیخ الاسلام نے بعض مسائل میں شدت سے کام لیا تھا اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے یعنی شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ نے حنفیت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس کی تردید آسان ہو ، ورنہ انہیں شیخ الاسلام نے حنبلیت ، شافعیت اور مالکیت کے خلاف بھی مسائل بیان کئے ہیں لیکن ان میں مسائل میں آپ کو شدت کا نام ونشان بھی نظر نہ آئے گا۔
لگتاہے کہ آنجناب نے سازش کا پوراسبق پڑھ رکھاہے ایک ہمارے اسرار عالم صاحب تھے جنہوں نے یہودیوں پر کئی کتابیں لکھیں اورایسالگتاتھاکہ اگران کے باورچی خانے میں گلاس بھی ٹوٹے تواس میں یہودیوں کا ہاتھ ہوگا اورایک آنجناب ہیں کہ حنفیہ کی سازش کو سونگھنے میں لگے ہیں۔ قوت شامہ اگربہت اچھی ہے توآپ بہت کام کے آدمی ہیں۔
یہ بتاناپسند کریں گے کس نے یہ سازش کی۔ اس سازش کاانکشاف کسی نےآپ کے پاس جاکر کیایہ اس کے حق مین تاریخی دستاویزات اورثبوت موجود ہیں اوریہ سازش کب سے شروع ہوئی اوریہ صرف سازش ہے یاعلمی وفکری اختلاف ہے؟
جی ہاں پوری طرح اس لئے منقح نہیں ہے کیونکہ آپ کے خلاف پیش کیا گیا ہے اگر آپ کے موافق پیش کیاجائے تو آپ ہی اسے منقح ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے جیسا کہ اس ٹھریڈ (بدعتیوں کی ایک نشانی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی زبانی) میں آپ نے کیا ہے۔
بدگمانی کا مرض بہت براہواکرتاہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ایسامرض ہے جوکسی کولاحق ہوجائے تواس کی پوری زندگی تباہ کردیتاہے۔ برائے خدا اس مہلک مرض سے نجات حاصل کریں ! ویسے آپ کی جسارت کی داد دینی پڑتی ہے کہ نیت تک پر حکم لگارہے ہیں۔ شاید اس کے بارے مین بھی کوئی صریحاحدیث وارد ہوئی ہو۔
کوئی بھی صاحب اس تھریڈ میں جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ میں نے ایڑی چوٹی کا کون سے زورلگایاہے اورپھر ہوسکے توکفایت اللہ صاحب کوان کی غلط بیانی پر متنبہ کریں۔

ہم اب بھی آپ سے یہی کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام کسی بات سے آپ کو اختلاف ہو تو شوق سے اختلاف کریں لیکن خواہ مخواہ انہیں معیوب اوصاف سے متصف نہ کریں ،
میں نے انہیں کن معیوب اوصاف سے متصف کیاہے ذرا مثالوں سے واضح کریں۔ طبعیت مین حدت وشدت معیوب بات ہے؟ تحریرمیں اگرنسبتااعتدال وتوازن کی کمی ہے تویہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی زیادہ ترتحریرین مناظرہ کے طورپر لکھی گئی اورکسی کے رد میں لکھی گئیں ایسی تحریروں میں اعتدال وتوازن عموماکم ہوتاہی ہے۔ یہ بھی شیخ الاسلام کاکمال ہے کہ ان کی تحریریں نسبتا اعتدال سے خالی ہیں۔ ورنہ دیگر مناظرین کے حالات دیکھئے۔ رائی کو پہاڑ بنادیتے ہیں۔ ؟
یہ بات توشیخ الاسلام کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والاہرفرد بذات خود ہی جان لے گا بشرطیکہ سلفیوں کی طرح شیخ الاسلام کے حق میں متعصب نہ ہو۔
نقد رجال میں تشدد اور شرعی مسائل کے بیان میں تشدد دونوں الگ الگ چیز ہے ، خلط ملط نہ کریں۔
کیانکتہ بیان کیاہے آنجناب نے! شرعی مسائل کے اصول مین حدیث شامل ہے اورحدیث کے اثبات ونفی کا دارومدار نقد رجال پرہے اورآنجناب فرمارہے ہیں دونوں الگ چیز ہے۔ ویسے آنجناب میرے لفظ تشدد کو ایک موقع پر غلط باتیں بیان کرنے سے تعبیر کیاہے تواسی تعبیر کے مطابق پوچھ رہاہوں کہ کیانقد رجال میں غلط باتیں بیان کرنے کی اجازت ہے۔
۔اس کا مفہوم مخالف یہ نکالاکہ حدیث میں آنجناب کے بقول تشدد جائز ہے شرعی مسائل میں جائزنہیں۔ یہ انوکھاقاعدہ علم جرح وتعدل کی کس کتاب سے اخذ کیاہے ہمیں بھی بتایئے۔
الزاما کوئی بات پیش کرنا طعن وتشنیع نہیں ہوتا ، پہلے ہی اس کی وضاحت کی جاچکی ہے کہ اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے اس سے علی رضی اللہ عنہ کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی ہے۔
کسی بات کو محض الزاما پیش کرنااکابرامت کے تعلق سے میرے نزدیک سخت قابل اعتراض بات ہے۔ کوئی تحقیقی بات ہوتوضرور کریں۔ لیکن الزاما کوئی بات پیش نہ کرسکیں۔ مثلاشیعہ حضرات حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے تعلق سے بے ہودہ باتیں کرتے ہیں توکیاالزاماہم اہل بیت کے تعلق سے ویسی ہی بیہودہ باتیں کہیں گے نعوذباللہ من سوء الفہم،یہ خیال بھی میرے نزدیک بے غیرتی کی نشانی ہے۔
اس کی ایک معمولی مثال لیں۔ رشتہ داروں میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ ایک جانب کے لوگ کم عقل ہیں اورجھگڑے کے مارے عقل سے مائوف ہوکر اپنے ہی بزرگ رشتہ داروں پر جوبطورفریق ہیں گالیاں دینے لگتاہے برابھلاکہتاہے توکون شریف آدمی اس کے جواب میں اپنے دوسرے بزرگوں کو گالیاں دے گا۔ یاتووہ خاموش کرائے گا۔یااپنی برات بیان کرے گا۔یااس کے مقابلہ میں لاحول پڑھے گا۔ جو شق الزاماوالی آپ نے بیان کی ہے وہ آپ کاہی جگر اورحصہ ہے۔
ویسے تحریر کا یہ ٹکرالاجواب ہے۔
اہل تشیع کو جواب دینے کے لئے کبھی کبھار علی رضی اللہ عنہ کے بعض خوبیوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے
میرے خیال سے خوبیوں کے بجائے آنجناب خامیوں لکھناچاہ رہے ہوں گے لیکن ہمت نہیں پڑی ہوگی اس لئے اس کوخوبیوں سے بدل دیا۔ویسے یہ ٹائپنگ کی بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ اگرٹائپنگ کی غلطی نہیں ہے توہمیں دس بارہ خامیاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بتایئے تاکہ ہمارے علم میں اضافہ ہو۔
ویسے بقول ابن حجر حضرت ابن تیمیہ نے 17مسائل بتائے ہیں اورایک موقع پر کہاکہ حضرت علی نے کتاب اللہ کی مخالفت کی ۔ یہ ان کاہی جگر تھا۔ جیساکہ الدرالکامنہ میں موجود ہے۔ اورایک موقع پر تو حضرت عمرکی غلطی بھی بیان کی تھی۔
حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوا يقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (1/179)
میرے خیال میں تویہ سب ان کی حدت مزاجی کاہی کرشمہ تھا۔ورنہ ایسانہیں کہ ان سے علم وفن مین ان سے بڑے عالم نہیں گزرے۔حافظ ابن عبدالبر امام طحاوی وغیرہ کامقام ان سے بلند وبالاہے لیکن اس طرح کے الفاظ کسی نے بھی نہیں کہے۔
بہرحال جب بحث ابن تیمیہ کی حدت مزاجی پر چل پڑی ہے تواس کو پورے طورپر مدلل کریں گے اورصرف خارجی قرائن ہی نہیں بلکہ داخلی قرائن سے بھی اس کے ثبوت پیش کریں گےاگروقت فرصت اورموقعہ نصیب رہا۔
الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے !دوسری بحث خود آپ نے شروع کی ہے موضوع تھا تقلید ، اس پر بات کرنے کے بجائے آپ شیخ الاسلام کی تحریر وں میں شدت دکھانے پر اتر آئے ، قصور آپ کا نہیں قصور آپ کے حکیم الامت کا ہے جنہوں نے ایسے مواقع کے لئے آپ کو یہ پڑیا عنایت کی ہے۔
میرایہ شک گہراہوتاجارہاہے کہ آج کل آنجناب کم سورہے ہیں اس لئے بیداری میں بھی پوری طرح بیدار نہیں رہتے بلکہ جوچاہتے ہیں لکھ دیتے ہیں بغیر غوروفکر کئے ہوئے۔
آپ نے ابن تیمیہ کاآدھاادھوراکلام نقل کیا۔ اس پر میں نے ایک مراسلہ لکھا۔ اس کے بعد آنجناب نے برادرم عبداللہ حیدر کے توجہ دلانے پر پوراکلام لکھا۔ غلطی کس کی ہے اس کو ہم نظرانداز کرتے ہیں۔
بات یہاں ختم ہوجاتی ۔آپ نے پھر سے مراسلہ بازی شروع کردی ۔ اورحضرت ابن تیمیہ کی شدت پسندی جوثبات شدہ حقیقت ہے اس پر بحث شروع کردی جس پر یہ بات آگے بڑھ رہی ہے اگر غوروفکر سے کام لیں گے توآنجناب پرپوری طرح واضح ہوجائے کہ آنجناب ہی البادی ہیں لہذا اظلم کے مصداق بھی ہیں۔والسلام
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جی ہاں انہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے آپ کے امام صاحب کےصنیع کی شکایت یا حکایت کی بھی کی ہے ملاحظہ ہو:
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن قلتم بشرعيته خالفتم سنة نبيكم وضللتم وهذا مما لا نرجوه لكم وإن قلتم بعدمها - كما هو الظن بكم - أصبتم وبطل فلسفتكم ولزمكم الرجوع عنها والاكتفاء في ردكم علي بالأدلة الشرعية إن كانت عندكم فإنها تغنيكم عن زخرف القول وإلا حشرتم أنفسكم في (الآرائيين) كما روى أحمد في " العلل " (٢ / ٢٤٦) عن حماد بن سلمة قال: إن أبا حنيفة استقبل الآثار والسنن يردها برأيه [الرد المفحم للالبانی :ص: 13]۔
ویسے شیخ البانی سے عقیدت بھی آنجناب کی کمال کی ہے۔ شیخ البانی نے ابن تیمیہ علیہ الرحمہ کو احادیث پر جلدبازی میں کلام کرنے کا قصورواربتایااورآپ بحث میں گھسیٹ رہے ہیں امام ابوحنیفہ کو ۔
اب پھر میرے بات یاد کرلیجئے کہ امام ابوحنیفہ کے دامن میں پناہ لینے کے سواکوئی چارہ کارنہیں مل جب زیر بحث موضوع پر کہنے کیلئے کچھ نہیں بچتاہے توپھرالٹے سیدھے مناقشات شروع کردیتے ہیں۔مجھے امید تھی کہ آنجناب موضوع پر رہتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی حدت وشدت کے موضوع تک محدود رہیں گے ورنہ اسی طرح بھٹکتے اورامام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف تک پہنچتے رہے تویقین مانئے یہ تھریڈ کسی منطقی کیاغیرمنطقی نتیجہ تک بھی نہیں پہنچ سکے گا۔


لطیفہ:
جمشید صاحب نے اسی محدث فورم پر یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کئے ہیں ، عجیب بات ہے کہ ایک مقام پر انہیں شیخ الاسلام سے الفت و نرمی کی دعوت دی جاتی ہے اور دوسرے مقام پر خود انہیں کی عبارات کو پر تشدد بتلایا جاتا ہے !!
کیا جو شخصیت ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ جیسی کتاب لکھے اس کے اندروہ شدت ہوسکتی ہے جس کا الزام جشید صاحب لگارہے ہیں؟؟؟
میں نے شروع میں ہی اس کی وضاحت کردی تھی یہ اوربات ہے کہ ہمارے ایک محترم کو اس پراعتراض تھامیں نے وہ الفاظ حذف کردیئے ۔ویسے یہ تومزید قابل قدر بات ہونی چاہئے جب ابن تیمیہ جیسے حضرت اس موضوع پر لکھ رہے ہیں تو وہ زیادہ قابل قدر ہونی چاہئے جیسے متشدد ناقد رجال اگرکسی حدیث کی توثیق کرے تو وہ زیادہ قابل اخذ ہوتی ہے۔
اب آخر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اخلاق ، اور آپ کی صفت حلم وبرد باری سے متعلق شیخ الاسلام ہی کی
ایک ہم عصر اور عظیم شخصیت کی گواہی ملاحظہ ہو:
علامہ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي بن يوسف الدمشقي الحنبلي (المتوفى: 744ھ) فرماتے ہیں:
فوَاللَّه ثمَّ وَالله ثمَّ وَالله لم ير أَدِيم تَحت السَّمَاء مثل شيخكم علما وَعَملا وَحَالا وخلفا واتباعا وكرما وحلما فِي حق نَفسه وقياما فِي حق الله عِنْد انتهاك حرماته أصدق النَّاس عقدا وأصحهم علما وعزما وأنفذهم وَأَعْلَاهُمْ فِي انتصار الْحق وقيامه همة وأسخاهم كفا وأكملهم اتبَاعا لنَبيه مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم [العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ص: 327]
کیاخوبصورت طریقہ کار ہے میٹھامیٹھاہپ ہپ کڑواکڑواتھوتھو۔ ان کے معاصرین میں ایک علامہ سبکی کابھی نام ہے وہ بھی بڑے عالم بلکہ درجہ اجتہاد پرفائز تھے ان کا کلام کیوں نہیں نقل کیاحضرت! یاآپ نے صرف امام ابوحنیفہ کے بارے میں ہی سیکھاہے کہ کتب جرح وتعدیل میں جوازقبیل جرح منقول ہو وہ نقل کردو اورجوازقبیل جرح نہ ہواس سے خاموشی اختیار کرلو۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top