کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,805
- پوائنٹ
- 773
یہاں پھر آپ نے وہی بات دہرا دی جس کی وضاحت پہلے کی جاچکی ہے:اوراس کی شہادت میں میں نے حافظ ابن حجر کا کلام پیش کیا۔ حافظ ابن حجر کی جس بات سے مجھے اصل استدلال مطلوب تھا وہ یہ کہ انہوں نے واہی تباہی احادیث کے ساتھ ساتھ جیاد احادیث کوبھی رد کردیاہے۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
اولا:
ان کا قول صرف حافظ ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک خاص کتاب سے متعلق ہے جس میں انہوں نے رافضیوں کی تردید کی ہے، اورآپ علی الاطلاق مذکورہ بات کہہ رہے ہیں۔
ثانیا:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام کے مذکورہ طرزعمل کا عذر بھی پیش کردیا ہے اور وہ یقینا تشدد نہیں ہے جس کا ورد آپ کررہے ہیں آپ ہی کے نقل کردہ اقتباس میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے یہ الفاظ صاف طورپر موجود ہیں:
لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،
اب آپ بتائیں کہ کیا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ شدت کو سبب قرار دے رہے ہیں یا عدم استحضار اور نسیان کو؟؟؟
ثالثا:
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے تو عدم استحضار کے سبب بعض روایا ت کو رد کردیا لیکن آپ کے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو محض اپنی رائے اور قیاس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن واحادیث کو رد کردیا:
حماد بن سلمہ فرماتے ہیں:
إِن أَبَا حنيفَة اسْتقْبل الْآثَار وَالسّنَن يردهَا بِرَأْيهِ [العلل ومعرفة الرجال : 2/ 545 وسندہ صحیح ، وانظر:الكامل في الضعفاء 7/ 8،تاريخ بغداد 13/ 408 ]
جی ہاں انہیں علامہ البانی رحمہ اللہ نے آپ کے امام صاحب کےصنیع کی شکایت یا حکایت کی بھی کی ہے ملاحظہ ہو:حضرت ابن تیمیہ کے اس صنیع کی شکایت یاحکایت شیخ البانی نے بھی کی ہے چنانچہ وہ مشہور حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ کی تحقیق کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
فقد كان الدافع لتحرير الكلام على الحديث و بيان صحته أنني رأيت شيخ الإسلام بن تيمية , قد ضعف الشطر الأول من الحديث , و أما الشطر الآخر , فزعم أنه كذب <1> ! و هذا من مبالغته الناتجة في تقديري من تسرعه في تضعيف الأحاديث قبل أن يجمع طرقها و يدقق النظر فيها . و الله المستعان . (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم 1750)اس حدیث کلام کرنے اوراس کی صحت کو واضح کرنے کا باعث یہ ہواہے کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحریر میں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کے پہلے حصہ کو ضعیف کہاہے اوردوسرے حصہ کو موضوع قراردیاہے۔اورمیرے خیال میں یہ مبالغہ ہے اوراس کاباعث یہ ہواہے کہا نہوں نے احادیث کے طرق کو جمع کرکے اس میں غوروفکر کرنے سے قبل اس پرجلدبازی سے کلام کیاہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فإن قلتم بشرعيته خالفتم سنة نبيكم وضللتم وهذا مما لا نرجوه لكم وإن قلتم بعدمها - كما هو الظن بكم - أصبتم وبطل فلسفتكم ولزمكم الرجوع عنها والاكتفاء في ردكم علي بالأدلة الشرعية إن كانت عندكم فإنها تغنيكم عن زخرف القول وإلا حشرتم أنفسكم في (الآرائيين) كما روى أحمد في " العلل " (٢ / ٢٤٦) عن حماد بن سلمة قال: إن أبا حنيفة استقبل الآثار والسنن يردها برأيه [الرد المفحم للالبانی :ص: 13]۔
{ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (٢) كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ } [الصف: 2، 3]۔کفایت اللہ صاحب ! ایک گزارش ہے کہ الدررالکامنہ ایک مرتبہ پوری پڑھ لیں اورپھر اس کے بعد اپنے سوال وجواب سامنے رکھیں۔ جستہ جستہ پڑھنے سے ایسی ہی صورتحال پیش آیاکرتی ہے جس کاآپ کو سامناہے۔
لطیفہ:
جمشید صاحب نے اسی محدث فورم پر یہاں پر شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ کے کچھ اقتباسات پیش کئے ہیں ، عجیب بات ہے کہ ایک مقام پر انہیں شیخ الاسلام سے الفت و نرمی کی دعوت دی جاتی ہے اور دوسرے مقام پر خود انہیں کی عبارات کو پر تشدد بتلایا جاتا ہے !!
کیا جو شخصیت ’’الالفۃ بین المسلمین‘‘ جیسی کتاب لکھے اس کے اندروہ شدت ہوسکتی ہے جس کا الزام جشید صاحب لگارہے ہیں؟؟؟
اب آخر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اخلاق ، اور آپ کی صفت حلم وبرد باری سے متعلق شیخ الاسلام ہی کی ایک ہم عصر اور عظیم شخصیت کی گواہی ملاحظہ ہو:
علامہ شمس الدين محمد بن أحمد بن عبد الهادي بن يوسف الدمشقي الحنبلي (المتوفى: 744ھ) فرماتے ہیں:
فوَاللَّه ثمَّ وَالله ثمَّ وَالله لم ير أَدِيم تَحت السَّمَاء مثل شيخكم علما وَعَملا وَحَالا وخلفا واتباعا وكرما وحلما فِي حق نَفسه وقياما فِي حق الله عِنْد انتهاك حرماته أصدق النَّاس عقدا وأصحهم علما وعزما وأنفذهم وَأَعْلَاهُمْ فِي انتصار الْحق وقيامه همة وأسخاهم كفا وأكملهم اتبَاعا لنَبيه مُحَمَّد صلى الله عَلَيْهِ وَسلم [العقود الدرية من مناقب شيخ الإسلام أحمد بن تيمية ص: 327]