• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
خلاصہ بحث​


حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم دین تھے۔ وہ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔انہوں نے فرق باطلہ اوربطورخاص شیعہ حضرات کی تردید کی اوران کے تمام استدلالات کو تارعنکبوت ثابت کردیا لیکن اسی کے ساتھ ان میں کچھ فطری کمزوریاں تھیں ۔مثلا حدت وتیز مزاجی، بحث ومباحثہ کے وقت درشت کلامی ۔مخالف علماء سے سخت اسلوب میں بات کرنا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں وہ اعتدال وتوازن نظرنہیں آتاجوکہ حافظ المغرب ابن عبدالبر اورامام نووی کے یہاں نظرآتاہے ۔


حیرت کی بات یہ ہے کہ جولوگ ہمیں رات دن یہ سمجھاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف وکمزورہونا،قلیل الروایۃ بلکہ ان کی تعبیر کے مطابق قلیل الحدیث ہوناکوئی عیب کی بات نہیں ہے وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں محض اتناکہہ دینے سے یک گونہ مشتعل ہوجاتے ہیں کہ حضرت کے اندر تیزمزاجی تھی بلکہ معاملہ یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ وہ ایسی کتابوں کے ہی منکر ہوجاتے ہیں جس میں ان امور کا ذکر ہوتاہے ۔معاملہ صرف اردو فورمز کانہیں بلکہ عربی کے بڑے بڑے بھاری بھرکم فورمز ملتقی اہل الحدیث اورمجلس العلمی پربھی یہی حال ہے۔


حافظ ابن تیمیہ کے ہمعصروں میں حافظ ذہبی کانام نمایاں ہے۔ اس امتیاز کی ایک وجہ اوربھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اگرچہ حضرت ابن تیمیہ کے بہت بڑے مرتبہ شناس ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی رائے رکھتے ہیں ۔وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں کہتے ہیں ۔

قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك۔(الدررالکامنہ 1/176)
اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔ اس کے بعد حافظ ذہبی ہی کہتے ہیں۔ میں ان کی عصمت کا قائل نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوسکے بلکہ میں اعتقادی اورفروعی دونوں امورمیں ان سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتاہوں۔ اس کے بعد پھروہی بات ہے جومیں نے ماقبل میں ترجمہ کیاہے۔ بعد ازاں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے حریف سے نرمی سے پیش آتے توان کی ذات پر سبھوں کا اتفاق ہوتا ۔کبار علماء ان کے علم وفضل کے معترف تھے اوریہ بھی معلوم تھاکہ بہت کم مسائل میں سے ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے اورہرایک کے قول کو چھوڑاجاسکتاہے اورقبول کیاجاسکتاہے۔
ایک دوسرے مقام پر حافظ ذہبی کہتے ہیں ۔

وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له.(الدرۃ الیتیمۃ فی السیرۃ التیمیۃ)

اوران کوبحث ومباحثہ کے دوران سخت تیزمزاجی سے سابقہ پڑتاتھاایسامعلوم ہوتاتھاگویاکوئی شیر میدان جنگ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اکثروبیشتر مدارات کی کمی تھی اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
حافظ ذہبی نے اسی کے ساتھ ان پر اس بات کی بھی نکتہ چینی کی ہے کہ انہوں نے ایسے مسائل مین دخل دیاجو اس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پرے تھا۔اورجس کی وجہ سے وہ خود بھی قید وبند کی صعوبتوں سے دوچارہوئے ۔چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔


ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]

بات صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اس کے علاوہ بھی حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ پرنکتہ چینی کی ہے۔

وھذالذی ذکرتہ من سیرتہ فعلی الاقتصاد،والافحولہ اناس من الفضلاء یعتقدون فیہ وفی علمہ وزھدہ ودینہ وقیامہ فی نصرالاسلام بکل طریق اضعاف ماسقت،وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ وثم اناس –قد علم الناس قلۃ خیرھم وکثرۃ ھواھم-ینالون منہ سباوکفراوھم امامتکلمون او من صوفیۃ الاتحادیۃ اومن شیوخ الزرکرۃ ،اوممن قد تکلم ھو فیھم فاقذع وبالغ ،فاللہ یکفیہ شرنفسہ وغالب حطہ علی الفضلاء اوالمتزہدۃ فبحق وفی بعضہ ھو مجتہد۔۔(۔السیرۃ الیتیمہ ص18)
یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔

ویسے ایک کام کی بات بتادوں کہ حافظ ذہبی چوں کہ بذات خود حضرت ابن تیمیہ کے بڑے مداح ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اشارہ سے کام چلاتے ہیں کبھی بھی تصریحا کچھ نہیں کہتے۔
حافظ ذہبی زغل العلم میں حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے کہتے ہیں۔

فواللہ مارمقت عینی اوسع علما ولااقوی ذکاء من رجل یقال لہ :ابن تیمیہ مع الزہد فی الماکل والملبس والنساء ،ومع القیام فی الحق والجھاد بکل ممکن، قد تعبت فی وزنہ وفتشہ حتی مللت فی سنین متطاولۃ فماوجدت قد آخرہ بین اھل مصروالشام ومقتتہ نفوسھم وازدروابہ وکذبوہ وکفروہ الاالکبر والعجب،وفرط الغرام فی ریاستۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار،(زغل العلم 38)

ابن تیمیہ کے ایک دوسرے معاصر ہیں مشہور مورخ اورادیب علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی ہیں۔ ان کی کتاب الوافی بالوفیات بہت مشہور ہے۔اس میں انہوں نے حضور کے دور سے لے کر اپنے زمانہ تک کے مشاہیر کا ذکر کیاہے۔ حضرت ابن تیمیہ کا بھی ذکر ہے اورغیرجانبدارانہ طورپر ذکر کیاہے۔
علامہ صفدی حضرت امام کے تعلق سے ان کے زبردست حافظہ کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔

قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوافی بالوفیات 7/12)
میں (صفدی)کہتاہوں کہ اللہ ان تمام پر رحم کرے ان کو اب عین القین حاصل ہوگیاہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے (حفاظ متقدمین کے حافظہ کے بارے میں)اورمیراگمان ہے کہ انہوں نے(ابن تیمیہ نے خود اپنے جیساحافظہ والانہیں دیکھا)اورمیں سمجھتاہوں کہ ان کے اوصاف کسی حد تک ابن حزم سے ملتے تھے جس میں مخالفین پر تشنیع بھی شامل ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حافظ ابن حجر بہت متقین حافظ ہیں اور حافظ ذہبی اوران کی کتابوں کے ساتھ ان کوخاص شغف ہے۔لہذا انہوں نے حافظ ذہبی اورصفدی اوردیگر حضرت ابن تیمیہ کے معاصرین سے حضرت ابن تیمیہ کے حالات نقل کئے ہیں۔ جہاں حضرت ابن تیمیہ کی تعریف نقل کی ہے وہ ان کی حدت اورتیزمزاجی کابھی ذکر ہے۔ چنانچہ وہ انہوں نے حافظ ذہبی سے ان کی سخت اورتیزاجی کا قول نقل کیاہے جواوپر گذرچکا۔یہاں دہراناتحصیل حاصل ہوگا۔ اسی کے ساتھ وہ یہ بھی نقل کرتے ہیں۔


ومن ثم نسب أصحابه إلى الغلو فيه واقتضى له ذلك العجب بنفسه حتى زها على أبناء جنسه واستشعر أنه مجتهد فصار يرد على صغير العلماء وكبيرهم قويهم وحديثهم حتى انتهى إلى عمر فخطأه في شيء فبلغ الشيخ إبراهيم الرقي فأنكر عليه فذهب إليه واعتذر واستغفر وقال في حق علي أخطأ في سبعة عشر شيئا ثم خالف فيها نص الكتاب منها اعتداد المتوفى عنها زوجها أطول الأجلين وكان لتعصبه لمذهب الحنابلة يقع في الأشاعرة حتى أنه سب الغزالي فقام عليه قوم كادوايقتلونه۔۔۔۔۔۔۔۔(1/179)

اورپھر ان کے ساتھیوں نے ان کی ذات مین غلو کیا جس کی وجہ سے ان کے اندر عجب (خود پسندی) پیداہوگئی۔یہاں تک کہ انہوں نے خود کوبھی مجتہد شمار کرناشروع کردیااوراس کی وجہ سے چھوٹے بڑے تمام علماء پر رد کرنے لگے معاملہ یہاں تک پہنچاکہ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ کوکسی چیز کے سلسلے میں خطاکار بتایا۔اس کی خبر جب شیخ ابراہیم رقی تک پہنچی توانہوں نے اس پر انکار کیاجس کے بعد حضرت ابن تیمیہ خود ان سے ملے اورمعذرت پیش کی اورانہوں نے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ کے حق میں کہاہے کہ انہوں نے سترہ مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔اورایک مسئلہ میں توکتاب اللہ کے نص کی مخالفت کی ہے۔اورحنابلہ کے ساتھ تعصب کی وجہ سے وہ اشاعرہ کی مخالفت کرتے تھے۔یہاں تک کہ انہوں نے ایک موقع پر امام غزالی کو برابھلاکہاجس پر لوگ ان کی طرف ایساجھپٹے گویاان کو قتل کردیں گے۔

حافظ ابن حجر ایک دوسرے موقع سے حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے لکھتے ہیں۔
وجدتہ (این تیمیہ )کثیرا التحامل فی ردالاحادیث التی یوردھاابن المطہر ا کان معظم ذلک الموضوعات والواہیات لکنہ رد فی ردہ کثیرامن الاحادیث الجیادالتی لم یستحضرحالۃ التصنیف مظانھا ،لانہ کان لاتساعہ فی الحفظ یتکل علی مافی صدرہ،والانسان عامد للنسیان،وکم من مبالغۃ لتوھین کلام الرافضی ادتہ احیانا الی تنقیص علی(لسان المیزان316/6)
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ ابن تیمیہٌ نے ابن مطہر شیعی کے رد میں ایک کتاب لکھی منہاج السنۃ اس میں جہاں ابن مطہرکے پیش کردہ موضوع اورواہی حدیثوں کارد کیاوہیں اس میں بہت ساری اچھی حدیثیں بھی رد کردیں اوراس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے حافظہ پر بھروسہ کیا (اورکتابوں کی جانب رجوع نہیں کیا)اورانسان کو بھول چوک سے سابقہ پڑتاہی ہے اوراسی طرح اس رافضی کی تردید میں وہ کہیں کہیں حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی کے مشہور شاگرد بلکہ جانشین حافظ سخاوی ہیں ۔ان کی کتاب الاعلان بالتوبیخ لمن ذم التاریخ ہے۔ یہ کتاب ایک مستشرق فرانزروزنثال کی تحقیق سے شائع ہوئی ہے۔ اس کاعربی میں ترجمہ الدکتور صالح احمد العلی نے کیاہے۔ اورکوشش کی ہے کہ اصل عربی مخطوطہ سے اس کو ملایاجائے۔
حافظ سخاوی ابن تیمیہ کے تعلق سے اس کتاب میں لکھتے ہیں۔


وکذلک ممن حصل من بعض الناس منھم نفرۃ وتحامی عن الانتفاع بعلمھم من جلالتھم علماوورعا وزہدا،لاطلاق لسانھم وعدم مداراتھم ،بحیث یتکلمون ویجرحون بمافیہ مبالغۃ کابن حزم وابن تیمیہ،وھماممن امتحن واوذی وکل اھد من الامۃ یوخذ من قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الاعلان بالتاریخ لمن ذم التاریخ۔119)

اسی طرح ایسے علماء جو علم ،ورع اورزہد میں بڑے مقام کے حامل تھے۔ اس کے باوجود لوگوں نے ان سے نفرت کی اوران سے استفادہ کرنے سے بازرہے ۔ایساان کے قول میں احتیاط نہ کرنے اورعدم مدارات کے سبب ہوا اس طورپر کہ وہ کلام اورجرح مبالغہ کے ساتھ کرتے تھے۔ جیسے کہ ابن حزم اورابن تیمیہ اوریہ دونوں ان علماء میں سے ہیں جوکئی مرتبہ ازمائشوں سے گزرے اورہرایک امتی کے قول کو لیاجاسکتاہے اورترک کیاجاسکتاہے سوائے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے۔


میرانہیں خیال ہے کہ اس عبارت پر کسی حاشیہ آرائی کی ضرورت ہے۔


ماضی قریب کے مشہورمورخ ،فقیہہ اورادیب شیخ ابوزہرہ نے حضرت ابن تیمیہ کی سوانح اورعلمی خدمات پر ایک کتاب لکھی جس کانام ہےالامام ابن تیمیہ ۔اس کتاب کی ہرچہار جانب سے تعریف ہوئی ہے۔ کیونکہ اس میں انہوں نے موضوعیت اورغیرجانبداری کا خیال رکھاہے۔ نہ وہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعصبین کی طرح ان کے ہرقول کومقدس سمجھتے ہیں اورنہ ان کی ذات اورعلم کوسرے سے کسی قابل نہیں سمجھنے والے فریق میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی حضرت ابن تیمیہ کی بہت زیادہ تعریف کرنے کے باوجود ان کی حدت اورتیزمزاجی کا ذکر کیاہے۔چنانچہ لکھتے ہیں ۔


لم یبرز لنا من بین سجایاہ شی الاصفۃ واحدۃ وھی الحدۃ فی القول،والشدۃ فیہ،حتی ان لیوجع احیانا فیکرہ الناس الشفاء لالم الدواء،بل ان تلک الحدۃ کانت تخرج بہ من نطاق الحجۃ القویۃ والنقد اللاذع الی الطعن احیانا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(الامام ابن تیمیہ لابی زہرہ92)

میراخیال ہے کہ یہ عبارت بھی صاف اورواضح ہے۔ ان کی یہ تیز مزاجی کبھی کبھی حجت قویہ سے نکل کرطعن وتشنیع کی حد میں داخل ہوجاتی تھی۔
اسی میں وہ حضرت ابن تیمیہ کی حدت وشدت پر علماء کا اجماع نقل کرتے ہیں اورلکھتے ہیں۔

ولقد اجمع الذین عاصر واابن تیمیہ علی انہ حاد فی قولہ وقد نقلنا من قبل قول الذہبی فیہ (المصدرالسابق)
اورجولوگ حضرت ابن تیمیہ کے ہم عصر تھے ان کا اتفاق ہے کہ ان کے قول میں حدت تھی اوریہ بات قبل ازیں ہم حافظ ذہبی سے نقل کرچکےہیں۔
دورحاضر کے سلفی محدث ناصرالدین البانی نے بھی من کنت مولاہ فعلی مولاہ پر کلام کرتے ہوئے نقد حدیث میں حضرت ابن تیمیہ کی جلدبازی کا شکوہ کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
فقد كان الدافع لتحرير الكلام على الحديث و بيان صحته أنني رأيت شيخ الإسلام بن تيمية , قد ضعف الشطر الأول من الحديث , و أما الشطر الآخر , فزعم أنه كذب <1> ! و هذا من مبالغته الناتجة في تقديري من تسرعه في تضعيف الأحاديث قبل أن يجمع طرقها و يدقق النظر فيها . و الله المستعان . (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم 1750)

اس حدیث کلام کرنے اوراس کی صحت کو واضح کرنے کا باعث یہ ہواہے کہ میں نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی تحریر میں دیکھاکہ انہوں نے اس حدیث کے پہلے حصہ کو ضعیف کہاہے اوردوسرے حصہ کو موضوع قراردیاہے۔اورمیرے خیال میں یہ مبالغہ ہے اوراس کاباعث یہ ہواہے کہا نہوں نے احادیث کے طرق کو جمع کرکے اس میں غوروفکر کرنے سے قبل اس پرجلدبازی سے کلام کیاہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
داخلی شہادتیں:
حافظ ذہبی کی بات یاد کرلیجئے ۔

وأطلق عبارات أحجم عنها غيره(الدررالکامنہ۔1/185)

زغل العلم میں حافظ ذہبی کی وہ بات بھی شامل کرلیجئے کہ الازراء بالکبار ،اجلہ علماء کی تنقیص کرنا۔


اسی طرح حافظ ابن حجر کی وہ بات بھی یاد کرلیجئے کہ رافضی کی تردید مین وہ حضرت علی کی تنقیص تک جاپہنچے۔
شیخ ابوحیان مشہور نحوی اور مفسر ہیں۔ان کی تفسیر البحر المحیط بہت مشہور ہے۔ حضرت ابن تیمیہ سے ملے ان کے علم وفضل سے بہت متاثر ہوئے۔ اوران کی شان میں ایک قصیدہ کہا ۔اثنائے گفتگو کوئی نحوی مسئلہ آگیا۔ابن حیان نے سیبویہ کاحوالہ دیا ۔ یہ بات حافظ ابن حجر نے محب الدین ابن شحنہ کے حوالہ سے کہی ہے جنہوں نے یہ بات ابوحیان سے خود سنی ہے حضرت ابن تیمیہ نے حوالہ کاجواب حوالہ سے دینے کے بجائے فرمایا۔ یفشرسیبویہ ۔یاایک دوسراقول جوحافظ ابن حجر نے یقال سے ذکر کیاہےاس کے مطابق ابن تیمیہ نے کہاکہ سیبویہ نحو کا نبی نہیں تھااس نے الکتاب میں 80مواقع پر غلطیاں کی ہیں۔
یہ ان کی حدت اورتیزمزاجی کی ایک مثال ہے۔

دوسری مثال

کسی حدیث پر صحت وضعف کا حکم لگانااجتہادی امر ہے اس میں محدثین اورعلماء کے مختلف نقطہ نظر ہوتے رہتے ہیں اوراس کی وجہ سے کسی کے علمی مقام ومرتبہ پر فرق نہیں پڑتا۔ منہاج السنٰہ نامی کتاب جوایک رافضی کی تردید میں لکھی گئی ہے اس میں حدیث ردالشمس کی بات آگئی۔ امام طحاوی نے اس حدیث کوصحیح کہاہے۔ اس پر حضرت ابن تیمیہ اتنے طیش میں آئے کہ انہوں نے حکم صادر کردیا
''لیست عادتہ نقد الحدیث کنقد اہل العلم ،ولہذا روی فی شرح معانی الآثار الاحادیث المختلفہ،وانما رجح مایرجحہ منہا فی الغالب من جہۃ القیاس الذی رآہ حجۃ ویکون اکثر ہ مجروحا من جہۃ الاسناد ولایثبت فا نہ لم یکن لہ معرفۃبالاسناد کمعرفۃ اہل العلم بہ وان کان کثیرالحد یث فقہیاعالما''
کمال تویہ ہے کہ اپنے اس الزام کے ثبوت میں انہوں نے کوئی باضابطہ حوالہ نہیں دیا۔ پھریہ حدیث ایسی بھی نہیں ہے جس کی تصحیح وتحسین میں وہ منفرد ہوں بلکہ دیگر اجلہ علماء ان کے ساتھ ہیں۔ پھراگریہ مان لیاجائے کہ امام طحاوی سے اس حدیث کی تحسین یاتصحیح میں بین غلطی واقع ہوئی ہے توپھر اس سے کیابات ثابت ہوتی ہے۔ کتنی اجلہ محدثین ایسے ہیں جن سے حدیث مین غلطی واقع ہوئی ہے۔ امام بخاری کی علم رجال کی غلطیوں پر ابن ابی حاتم نے باقاعدہ کتاب لکھی ہے۔

پھراگرمعیار یہی ہو کہ کسی کے علم وفضل کو کچھ غلطیوں کی قربان گاہ پر چڑھادیاجائے توان الفاظ کے سب سے زیادہ مستحق حضرت ابن تیمیہ ہی ہوں گے۔ اسی کتاب میں بقول حافظ ابن حجر انہوں نے جید احادیث کو موضوع اورضعیف قراردے دیا اوربقول البانی ایک ثابت شدہ حدیث کو موضوع قراردے دیا۔ اس کے علاوہ صلوٰۃ التسبیح کی حدیث کو ابن تیمیہ موضوع کہتے ہیں اورالبانی اسے حدیث حسن قراردیتے ہیں۔

تیسری مثال: امام غزالی کو برابھلاکہنے کی بات اوپرگذرچکی ہےاس کے علاوہ اوربھی بہت ساری مثالیں ہیں لیکن میں تطویل کے خوف سے نظرانداز کرتاہوں۔

وجوہات:


اس حدت اورتیزاجی کے اسباب کیاتھے اوروہ کون سی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے ان کی تقریروں اورتحریروں مین یہ اثرات نمایاں ہوئے۔ اس کی وجوہات کاجائزہ لینابھی ضروری ہے۔
ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو حضرت امام ابوحنیفہ کے بارے میں ہربرے قول کے سلسلے میں بڑی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن جب اپنے ممدوح کی بات آئے توذہنی افق سکڑ کر تنگ ہوجاتاہے۔اوربےجاتاویلات کا دروازہ کھولناشروع کردیاجاتاہے ۔حضرت ابن تیمیہ اپنے دور کے جلیل القدر عالم تھے ان کی دینی خدمات مسلم ہیں۔ یہ اعتراف بھی ضروری ہے بعض مسائل میں انہوں نے غلطیاں کی ہیں۔ اوریہی غلطی ان کے متبعین آج تک دوہراتے آرہے ہیں۔ بہرحال اس سلسلے میں ان سے حسن ظن رکھناضروری ہے۔

خاندانی اثر:

مزاج میں حدت وشدت،نرمی ولطافت ،خشکی،زندہ دلی بسااوقات اباعن جد منتقل ہوتے ہیں۔ والد اورداداد اگرخوش مزاج ہیں توپوتابھی خوش مزاج ہوتاہے ۔والد اوردادااگرطبعیت کے اعتبار سے سخت ہیں توبیٹااورپوتامیں بھی اس کاظہور ہوتاہے۔ اس کا مشاہدہ ہرایک کو ہوسکتاہے اورشاید ہرایک نے کیابھی ہے اوراپنے خاندان والوں سے ایسی باتیں بھی سنی ہوں کہ بچے کی حرکت دیکھ کر بڑی بوڑھیاں کہتی ہیں یہ توبالکل فلاں پر گیاہے۔یہ توبالکل داداپر گیاہے۔

اس کی واضح مثال وہ ہے کہ حضرت سعید بن المسیب کے داداکانام حزن تھا فتح مکہ کے موقع پرانہوں نے اسلام قبول کیااورحضورپاک نے اپنی عادت شریفہ کے بموجب جب ان کا نام بدل کرسہل رکھناچاہاتوانہوں نے انکار کردیااوریہ عذرپیش کیاکہ میں اسی نام سے لوگوں میں متعارف ہوں۔ حضرت سعید بن المسیب کہتے ہیں کہ مزاج کی یہ سختی اورتنگی ہمارے خاندان میں ابھی تک چلی آرہی ہے۔
عبْدُ العَزِيْزِ بنُ المُخْتَارِ: عَنْ عَلِيِّ بنِ زَيْدٍ، حَدَّثَنِي سَعِيْدُ بنُ المُسَيِّبِ بنِ حَزْنٍ:
أَنَّ جَدَّهُ حَزْناً أَتَى النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَقَالَ: (مَا اسْمُكَ؟).قَالَ: حَزْنٌ.قَالَ: (بَلْ أَنْتَ سَهْلٌ).قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! اسْمٌ سَمَّانِي بِهِ أَبَوَايَ، وَعُرِفْتُ بِهِ فِي النَّاسِ.فَسَكَتَ عَنْهُ النَّبِيُّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.قَالَ سَعِيْدٌ: فَمَا زِلْنَا تُعْرَفُ الحُزُوْنَةُ فِيْنَا أَهْلَ البَيْتِ.هَذَا حَدِيْثٌ مُرْسَلٌ، وَمَرَاسِيْلُ سَعِيْدٍ مُحْتَجٌّ بِهَا.لَكِنَّ عَلِيَّ بنَ زَيْدٍ: لَيْسَ بِالحُجَّةِ.
وَأَمَّا الحَدِيْثُ فَمَرْوِيٌّ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ مُتَّصِلٍ، وَلَفْظُهُ:أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ لَهُ: (مَا اسْمُكَ؟).قَالَ: حَزْنٌ.قَالَ: (أَنْتَ سَهْلٌ).فَقَالَ: لاَ أُغَيِّرُ اسْماً سَمَّانِيْهِ أَبِي.قَالَ سَعِيْدٌ: فَمَا زَالَتْ تِلْكَ الحُزُوْنَةُ فِيْنَا بَعْدُ. (4/221)

حضرت ابن تیمیہ اپنے دادا مجدالدین ابوالبرکات کے بارے میں کہتے ہیں۔

وکانت فی جدناحدۃ(سیراعلام النبلاء 23/292)

ہمارے اندر کے اندر تیز مزاجی تھی ۔اس پر سیر اعلام النبلاء کے محقق حاشیہ میں لکھتے ہیں۔

قلت وفی امام الائمۃ ابی العباس حدۃ ایضا وماوراء ذلک الاالدفاع عن بیضۃ الاسلام (حوالہ سابقہ)
میں کہتاہوں کہ ابن تیمیہ کے اندربھی تیزمزاجی تھی لیکن اس کا مقصد حرم اسلام کی پاسبانی تھی۔(یہ ہم بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابن تیمیہ اپنے اعمال اقوال میں انشاء اللہ مخلص تھے اوراس اخلاص کا ان کو ضرور اجرملے گا۔ہمیں توحیرت ہے کہ جوچیز حضرت اپنے تیمیہ اپنے دادا کیلئے معیوب نہیں مان رہے ہیں وہ آج ان کے متعصبین ان کے لئے معیوب مان رہے ہیں۔
مناظرے اورردود:مناظرے اورردوتردید کا ایک خاصہ یہ ہے کہ بات پہلے سنجیدہ اندازمیں شروع ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے گرمی آتی ہے اورفریقین ایک دوسرے پر طنز وتعریض شروع کرتے ہیں اورآخر میں بات ایک دوسرے کوبرابھلاکہنے اور تنابزباالالقاب تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت ابن تیمیہ بھی معصوم نہ تھے بشرتھے۔مزاج میں حدت وشدت پہلے سے تھی۔ اس پر سے ان کی بیشتر زندگی اپنے حریفوں اورفریقوں سے مناظرہ اورمباحثہ میں گزرا۔ ان کی تحریروں میں سے بھی بیشتر کا تعلق ردود اورمخالفین کے جواب سے ہے۔ اس میں شدت ،مبالغہ اورتیزی اورحد اعتدال سے بات بڑھ ہی جاتی ہے۔ شیخ ابوزہرہ اس تعلق سے لکھتے ہیں۔

وقد یکون الجدل ھوالذی یودی الی ھذہ الحدۃ فان کل مجادلۃ منازلۃ وفی النزال یحتدم القول،فتکون الحدۃ فی التعبیر،وقد یغض ذلک من قیمۃ الحق فی ذاتہ (الامام ابن تیمیہ لابی زہرہ ص92)
اس کے علاوہ شیخ ابوزہرہ اسی کے تعلق سے لکھتے ہیں۔

لکن الحدۃ فی اقول تزید الخلاف آراء وتسھل الرمی بالکفر والفسوق والعصیان والتنابز بالالقاب وذلک ماادت الیہ الحدۃ من الفریقین(المصدرالسابق ص93)
خود حضرت ابن تیمیہ ان لوگوں میں سے تھے جو اختلافی مسائل میں کلام اوربات کرناپسند کرتے تھے اوراختلافی مسائل کی خاصیت یہ ہے کہ اس مین فریقین جادہ اعتدال پر بہت کم قائم رہتے ہیں۔اس کی شہادت ہمیں ابن دقیق العید سے بھی ملتی ہے ۔ان سے جب ابن تیمیہ کی ملاقات کے بعد پوچھاگیاکہ آپ نے ابن تیمیہ کوکیساپایاتوانہوں نے کہاکہ میں نے ایساپایاکہ تمام علوم اس کی آنکھوں کے سامنے ہے جس کو چاہے لے لیتاہے اورجسے چاہے چھوردیتاہے ۔پوچھاگیاکہ پھرآپ نے ان سے کسی علمی مسئلہ پر بحث کیوں نہیں کی۔ ان کا جواب تھا کہ وہ کلام کرنا پسند کرتے ہیں اورمجھے سکوت وخاموشی پسند ہے۔

یہ چند سطریں شاید حق کو واضح کرنے میں مدد گار ثابت ہوں۔والسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حیرت کی بات یہ ہے کہ جولوگ ہمیں رات دن یہ سمجھاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف وکمزورہونا،قلیل الروایۃ بلکہ ان کی تعبیر کے مطابق قلیل الحدیث ہوناکوئی عیب کی بات نہیں ہے وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں محض اتناکہہ دینے سے یک گونہ مشتعل ہوجاتے ہیں
میرے خیال میں صرف اس بیان سے کوئی بھی مشتعل نہیں ہوتا کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مزاج میں تیزی یا حدت تھی لیکن جب فریق مخالف ان کے مزاج کی اس خامی کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ مزاج کی اس حدت کی بنیاد پر اپنی علمی آراء میں متوازن نہیں تھے تو یہ صریح زیادتی ہے کیونکہ مزاج کی نرمی یا گرمی کا تعلق فتاوی سے کسی صورت نہیں بنتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج میں اس قدر نرمی تھی کہ اللہ تعالی کو حکم دینا پڑا سختی کریں۔
{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ }التوبة73
حضرت موسی علیہ السلام کے مزاج میں غصہ تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مزاج نرم تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مزاج میں حیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مزاج میں جرات وشجاعت تھی۔ ہر انسان اس دنیا میں ایک مزاج لے کر ہی آتا ہے اور وہ مزاج اس کی ذات کا حصہ ہوتا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مزاج میں جرات تھی جبکہ امام مالک رحمہ اللہ کے مزاج میں احتیاط تھی یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ جن مسائل میں فتوی دیتے تھے، ان میں امام مالک رحمہ اللہ فتوی دینے سے انکار کر دیتے تھے۔ اہل علم اور باشعور اصحاب علم وفضل میں مزاجوں کا تعلق منہاج یا آسان الفاظ میں ان کے عمل پر اثر تو ہوتا ہے لیکن وہ اپنی فکر اور عقیدہ اور دینی رائے کی بناوٹ میں اپنے مزاج کو رکاوٹ نہیں بننے دیتے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مزاج میں سختی تھی تو کیا اس سے ان کے اجتہادات کا عدم متوازن ہونا ثابت ہوتا ہے؟؟؟
معاملہ صرف اردو فورمز کانہیں بلکہ عربی کے بڑے بڑے بھاری بھرکم فورمز ملتقی اہل الحدیث اورمجلس العلمی پربھی یہی حال ہے۔
سلفی اہل علم،حنابلہ اور اہل الحدیث اصحاب علم وفضل کی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے شدید محبت کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ ان کا ممکن دفاع کرتے ہیں جیسا کہ حنفی حضرات امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ممکن دفاع کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام سے محبت کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ کبار سلفی اہل علم کے نزدیک صحابہ وتابعین کے بعد شیخ الاسلام جیسا علم وفضل کسی کو نہیں ملا لہذا وہ ان کے مرتبہ علمی کی وجہ سے ان سے محبت رکھتے ہیں۔
شیخ بن باز رحمہ اللہ کے سیکرٹری ڈاکٹر لقمان سلفی صاحب، انڈیا والے، ایک دفعہ ادارہ محدث لاہور میں تشریف لائے تو میں بھی ان کے ساتھ ایک نجی محفل میں تھا تو ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے کہ ایک دفعہ شیخ بن باز رحمہ اللہ کے پاس کے دکاترہ اور شیوخ کی مجلس لگی تھی تو کسی نے سوال کیا کہ حضرت بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ شیخ الاسلام کا علم ائمہ اربعہ کے علم سے بھی بڑھ کر تھا تو شیخ بن باز رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہاں اگر ان کی فقاہت میں کوئی شخص ان کے قریب پہنچتا ہے تو وہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب شیخ الاسلام پر مزاج کے عدم توازن کا بہانہ استعمال کرتے ہوئے ان کے اجتہادات اور فکر کو غیر معتدل قرار دیا جاتا ہے تو اس پر سلفی حضرات ان کا دفاع کرتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
آپ نے بھی کمال کردیا۔حضرت ابن تیمیہ کی بات کو حضرت موسی اورحضرت عمرفاروق سے ملادیا۔حضرت موسی علیہ السلام تونبی تھے ۔شرعی احکام میں غلطیوں سے معصوم تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حق میں آنحضرت کی بشارتیں ہیں کہ وہ محدث ہیں یعنی فرشتہ ان کی زبان سے بولاکرتاہے۔ کئی مرتبہ ان کی جورائے بنی اسی کے مطابق وحی آئی۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد رسول ہے کہ وہ جس گلی سے گزرتے ہیں شیطان اس گلی سے نہیں گزرتا۔
میراخیال ہے اورشاید آپ کا بھی خیال ہو کہ یہ ساری بشارتیں ان کے حق میں معدوم ہیں۔
لہذا ان سے ممثاثلت قیاس مع الفارق ہے۔ فقہ کی کتابوں میں قیاس مع الفارق کی مثالیں موجود ہیں۔
پھرآپ کایہ بیان تو واللہ غضب کرگیاساقی!


کبار سلفی اہل علم کے نزدیک صحابہ وتابعین کے بعد شیخ الاسلام جیسا علم وفضل کسی کو نہیں ملا لہذا وہ ان کے مرتبہ علمی کی وجہ سے ان سے محبت رکھتے ہیں۔
میں نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی سوانح اورسیرت پر کچھ کتابیں پڑھیں ہیں۔ لیکن یہ بیان کسی کتاب میں نظرنہیں آیا۔ دورجدید کے ’’سلفی‘‘حضرات ایساسمجھتے ہوں تو خیر!
ورنہ کسی ابن تیمیہ کے ہم عصر اوربعد کے علماء مین سے صرف ایک صاحب کا بیان ذہن میں ہے کہ اگرحضور کے بعد کوئی نبی ہوتا تووہ ابن تیمیہ ہوتے۔یااسی قسم کاکچھ مفہوم تھا۔ لیکن یہ بھی بے جامبالغہ ہے اورجوآپ نے فرمایاہے وہ بھی بے جامدح سرائی ہے۔ والسلام
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
لیکن یہ بھی بے جامبالغہ ہے اورجوآپ نے فرمایاہے وہ بھی بے جامدح سرائی ہے۔
یہ میرا بیان نہیں ہے اور اس کی سند بیان کرنے کے بعد بھی اسے میرا بیان قرار دینا آپ کے مکالمہ کے منہج و طرز گفتگو پر خوب روشنی ڈال رہا ہے۔ یہ شیخ بن باز رحمہ اللہ کا بیان ہے جو علمی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہے بلکہ آج کی علمی دنیا کا ایک بہت بڑا نام ہے۔
جہاں تک بے جا مدح سرائی کا معاملہ ہے تو شوافع یہی بات احناف کے بارے کہتے ہیں کہ وہ امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کی بے جا مدح سرائی کرتے ہیں اور حنفیہ شوافع کے بارے یہ بات کہتے ہیں کہ وہ امام شافعی کی تعریف میں مبالغہ کرتے ہیں اور مالکیہ ان دونوں کے بارے کہتے ہیں کہ یہ دونوں اپنے اماموں کی تعریف میں مبالغہ کرتے ہیں وعلی ہذا القیاس۔
آپ جسے مبالغہ قرار دیتے ہیں ہمارے نزدیک وہ اعتدال ہوتا ہے اور جسے ہم مبالغہ کہتے ہیں وہ آپ کے نزدیک اعتدال ہوتا ہے۔ بہر حال سلفی حضرات شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو امام ابو حنیفہ اور دیگر ائمہ ثلاثہ سے علم وفضل میں افضل سمجھتے ہیں جیسا کہ حنفیہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ سے افضل قرار دیتے ہیں۔ یہ اپنا اپنا معیار یا ذوق کہہ لیں۔ آپ کو اپنا معیار بنانے کا حق ہے اور اسی طرح دوسروں کو بھی ہے۔ جب آپ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو دیگر آئمہ سے افضل سمجھتے ہیں تو دیگر بھی اگر کچھ ائمہ کو واقعتا ان سے افضل سمجھتے ہوں تو یہ ان کا علمی حق ہے۔ نزاع اور اختلاف تب پیدا ہوتا ہے جب اس پر جھگڑا کیا جائے کہ جس کو ہم افضل سمجھتے ہیں تم اور سب اسی کو افضل سمجھو یعنی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو۔
میرے خیال میں ایسا علمی جبر جائز نہیں ہے۔ باقی آپ سو دفعہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی افضلیت کے قائل ہوں ہمیں کوئی بے چینی یا اضطراب نہیں ہے لیکن ہم یا سلفی اہل علم اس کے قائل نہیں ہیں لہذا آپ بھی ان کے موقف کے لیے برداشت پیدا کریں۔ اصل مسئلہ برداشت کا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے لیے برداشت پیدا کریں جبکہ ہم یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنا موقف دوسرے پر مسلط کریں۔ آپ اپنا موقف بیان کریں ہم اپنا بیان کریں۔ تو یہ تبادلہ خیال ہے، اس سے توازن پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ کا انداز گفتگو تبادلہ خیال کی بجائے منوانے کا ہو تو اسے مناظرہ کہتے ہیں اور میں تو کم از کم اس کا قائل نہیں ہوں۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے حق میں آنحضرت کی بشارتیں ہیں کہ وہ محدث ہیں یعنی فرشتہ ان کی زبان سے بولاکرتاہے۔ کئی مرتبہ ان کی جورائے بنی اسی کے مطابق وحی آئی۔
آپ نے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عملا معصوم ہی بنا دیا ہے۔ خیر یہ معاملہ تو ہمارے ہاں اکثر ہوتا ہے کہ ہم کسی کی عصمت کے زبانی قائل نہیں ہوتے ہیں لیکن عملا اسے معصوم ہی سمجھتے ہیں۔ اگر آپ واقعتا ہہی سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کوئی اجتہادی خطا نہیں ہوئی ہے اور ان کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ فرشتے کا ہے تو فقہ عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے ایک انسائیکلو پیڈیا مدون ہو چکا ہے اور اس کا فقہ حنفی کی کتب اصول سے موازنہ کریں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سینکڑوں اجتہادات کو امام ابو حنیفہ اور صاحبین رحمہم اللہ نے قبول نہیں فرمایا ہے۔ ذرا اپنی اصول کی کتب کی فقہ عمر رضی اللہ عنہ کے مطابق تصحیح فرما لیں۔ یہ انسائیکلو پیڈیا یہاں موجود ہے:
یہ عربی میں ہے جبکہ جماعت اسلامی کے ایک ادارہ نے اس کا اردو ترجمہ بھی کروا دیا ہے۔ قلعہ رواس جی اس کے مولف ہیں انہوں نے خلفائے راشدین اور کبار تابعین کی فقہ کے بھی انسائیکلو پیڈیاز تیار کیے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ تقلید اگر کرنی ہی ہے تو خلفائے راشدین ائمہ اربعہ سے زیادہ بہتر ہیں لہذا ان کی تقلید کر لی جائے۔ اس جذبے کے تحت انہوں نے معاصرتحقیقی معیار کے مطابق یہ انسائیکلو پیڈیاز تیار کیے ہیں۔
اس پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ اہل تشیع کے ہاں صرف بارہ معصوم ہیں اور یہاں صحابہ، تابعین، ائمہ، مرشدین کی ایک لمبی قطار ہے اور جسے چاہیں، جس وقت چاہیں، معصوم بنا لیں اور ہمیشہ اپنا عقیدہ یہی بیان کریں کہ ہم انبیاء کے علاوہ کسی کی عصمت کے قائل نہیں ہیں۔ یا تو اہل تشیع کی طرح زبان سے بھی یہی بیان کریں کہ ہم انبیاء کے علاوہ فلاں فلاں کے بارے بھی فلاں فلاں نصوص کی بنیاد پر یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے اجتہادی خطا نہیں ہوتی ہے۔
اور ذرا ہمیں عصمت کا معنی ومفہوم بھی حنفیہ کے ہاں پڑھ لینا چاہیے۔ حنفیہ کے نزدیک عصمت انبیاء کا معنی یہ نہیں ہے کہ انبیاء سے کوئی اجتہادی خطا ہی نہیں ہوتی ہے چہ جائیکہ آپ غیر انبیاء سے اجتہادی خطا کی نفی کرتے پھریں۔ درج ذیل حوالہ جات پر غور کریں۔

فقہائے احناف کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی ایک قسم وہ ہے جو کہ 'غیر ارادی افعال' پر مشتمل ہے ۔غیر ارادی افعال کئی قسم کے ہوتے ہیں جن میں ایک کو فقہائے احناف نے 'زلة' یعنی بھول چوک کانام دیا ہے۔'زلة'کے علاوہ غیر ارادی افعال کی ایک دوسری قسم کے طور پر فقہائے احناف نے آپ کے ان افعال کو بھی بیان کیا ہے جو آپ سے نیند یا بے ہوشی کی حالت میں سرزد ہوئے ہوں۔فقہائے احناف کے نزدیک اس قسم کے افعال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کسی بھی امتی کے لیے جائز نہیں ہے۔ فخر الاسلام امام بزدوی (متوفی ٤٨٣ھ) لکھتے ہیں:
وهي أربعة أقسام: مباح, ومستحب, وواجب, وفرض, وفيها قسم آخر وهو الزلة لكن ليس من هذا الباب في شيء; لأنه لا يصلح للاقتداء ولا يخلو عن بيان مقرون به من جهة الفاعل أو من الله تبارك وتعالى كما قال جل وعز {وَعَصَى آدَمُ} وقال جل وعز حكاية عن موسى من قتل القبطي {قَالَ هَذَا من عمل الشيطانإِنَّهُ} [القصص: 15] والزلة اسم لفعل غير مقصود في عينه لكنه اتصل الفاعل به عن فعل مباح قصده فزل بشغله عنه إلى ما هو حرام ولم يقصده أصلا۔( اصول بزدوی، باب افعال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)
''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کی اقسام میں مباح' مستحب' واجب اور فرض شامل ہیں۔ آپۖ کے افعال کی ایک اور قسم'زلة' بھی ہے۔ 'زلة' کا تعلق اس باب(یعنی اتباع ) سے نہیں ہے' کیونکہ 'زلة' میں کسی بھی نبی و رسول کی اقتداء و پیروی درست نہیں ہے۔ (قرآن و سُنّت میں)اس قسم کے افعال کے تذکرہ کے ساتھ ہی خود فاعل یا اللہ کی طرف سے ایک بیان متصل بعدہوتا ہے (جو کہ اس کے قابل اقتداء نہ ہونے کی طرف اشارہ کر رہاہوتا ہے)۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اور حضرت آدم نے نافرمانی کی''۔ایک اور جگہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک قبطی کے قتل ہونے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' حضرت موسٰی نے کہا یہ تو شیطان کاکام ہے''۔ 'زلة' سے مراد وہ فعل ہے جس کے کرنے کا فاعل نے ارادہ نہ کیا ہو لیکن فاعل نے ایک دوسرے مباح فعل کا قصد کیا ہو اور اس مباح فعل کے ارتکاب نے فاعل کو 'زلة' تک پہنچا دیا ہو''۔ پس وہ شخص ایک مقصود بعینہ حرام فعل(یعنی ایسا حرام فعل کہ اس کے ارتکاب کا قصد کیا گیا ہو) میں مشغول ہونے کی وجہ سے پھسل گیا''۔
شمس الائمہ امام سرخسی(متوفی ٤٨٣ھ) فرماتے ہیں:
''جان لو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ افعال جو کہ قصد و ارادے سے ہوں' ان کی چار اقسام ہیں: مباح' مستحب' واجب اور فرض۔ ایک پانچویں قسم 'زلة' کی بھی ہے لیکن وہ اس باب(یعنی اتباع کے باب) میں داخل نہیں ہے' کیونکہ 'زلة' میں آپ کی اقتداء جائز نہیں ہے۔ اس باب میں ان افعال کے حکم کو بیان کیا جائے گا جن میں آپ کی اقتداء ہو گی۔ اسی لیے نیند یا بے ہوشی کے عالم میں آپ سے صادر ہونے والے افعال کا تذکرہ اس جگہ نہیں ہو گا' کیونکہ ان حالتوں میں آپ سے صادر ہونے والے افعال میں آپ کا قصد وا رادہ شامل نہیں ہوتا ہے'لہٰذا ان حالتوں میں آپ سے صادر ہونے والے افعال حکم شرعی میں داخل نہ ہوں گے۔جہاں تک 'زلة' کا معاملہ ہے تو اس میں عین فعل کا قصد نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کی طرف قصد موجود ہوتا ہے''۔
علامہ علاؤ الدین بخاری (متوفی ٧٣٠ھ) لکھتے ہیں:
والأفعال على ضربين ما ليس له صفة زائدة على وجوده كبعض أفعال النائم والساهي, فإنه لا يوصف بحسن ولا قبح, وماله صفة زائدة على وجوده كسائر أفعال المكلفين وإنها تنقسم إلى حسن وقبيح والحسن منها ينقسم إلى واجب ومندوب ومباح والقبيح منها ينقسم إلى محظور ومكروه وهذه الأقسام سوى القسم الأخير يصح وقوعها عن جميع المكلفين من الأنبياء وغيرهم فأما القسم الأخير فيصح وقوعه عن غير الأنبياء من بني آدم ولكن لا يصح وقوع ما هو معصية منه عن الأنبياء عليهم السلام, فإنهم عصموا عن الكبائر عند عامة المسلمين وعن الصغائر عند أصحابنا خلافا لبعض الأشعرية وإن لم يعصموا عن الزلات فتبين بهذا أن المراد من الأفعال في هذا الباب الأفعال التي تقع عن قصد ولم تكن من قبيل الزلة; لأن الباب لبيان الاقتداء وما وقع بطريق الزلة أو وقع لا عن قصد مثل ما يحصل في حالة النوم والإغماء لا يصلح للاقتداء. وقد يقترن البيان بالزلة لا محالة إما من جهة الفاعل كقوله تعالى إخبارا عن موسى عليه السلام حين قتل القبطي {قَالَ هَذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ} [القصص: 15] أي هيج غضبي حتى ضربته فوقع قتلا فأضافه إليه تسببا وإنما جعل قتل الكافر من عمل الشيطان; لأن قتله كان قبل الإذن في القتل وقيل; لأنه كان مستأمنا فيهم وليس للمستأمن قتل الكافر الحربي وهو لم يقصد قتله فكان زلة أو من الله تعالى كما قال: {وَعَصَى آدَمُ رَبَّهُ} أي بأكل الشجرة التي نهي عنها والعصيان ترك الأمر أو ارتكاب المنهي عنه إلا أنه إن كان عمدا كان ذنبا وإن كان خطأ كان زلة {فَغَوَى} [طه: 121] أي فعل ما لم يكن فعله وقيل أخطأ حيث طلب الملك والخلد بأكل ما نهي عنه, وإذا كان البيان مقترنا به لا محالة علم أنه غير صالح للاقتداء به ثم الشيخ وشمس الأئمة رحمهما الله قسما أفعاله عليه السلام سوى الزلة وما ليس عن قصد على أربعة أقسام فرض وواجب ومستحب ومباح والقاضي الإمام وسائر الأصوليين قسموها على ثلاثة أقسام واجب مستحب ومباح وأرادوا بالواجب الفرض وهذا أقرب إلى الصواب; لأن الواجب الاصطلاحي ما ثبت بدليل فيه اضطراب ولا يتصور ذلك في حقه عليه السلام; لأن الدلائل الموجبة كلها في حقه قطعية ويمكن أن يحمل على أن المراد تقسيم أفعاله بالنسبة إلينا كما أشير إليه في آخر الباب وحينئذ يتحقق فيها الواجب الاصطلاحي لتصور ثبوت وجوب بعض أفعاله في حقنا بدليل مضطرب
قوله "والزلة اسم" لكذا قال شمس الأئمة رحمه الله أما الزلة, فإنه لا يوجد فيها القصد إلى عينها ولكن يوجد القصد إلى أصل الفعل. قال وبيان هذا أن الزلة أخذت من قول القائل زل الرجل في الطين إذا لم يوجد القصد إلى الوقوع ولا إلى الثبات بعد الوقوع ولكن وجد القصد إلى المشي في الطريق فعرفنا بهذا أن الزلة ما يتصل بالفاعل عند فعله ما لم يكن قصده بعينه ولكنه زل فاشتغل به عما قصده بعينه والمعصية عند الإطلاق إنما يتناول ما يقصده المباشر بعينه وإن كان قد أطلق الشرع ذلك على الزلة مجازا.
فإن قيل لما لم يكن الفعل الحرام مقصودا في الزلة ففيم العتاب قلنا: إن الزلة لا تخلو عن نوع تقصير يمكن للمكلف الاحتراز عنه عند التثبت فاستحقاق العتاب بناء عليه كمن زل في الطريق يستحق اللوم لترك التثبت والتقصير قال الشيخ أبو الحسن الأشعري رحمه الله في عصمة الأنبياء وليس معنى الزلة أنهم زلوا عن الحق إلى الباطل وعن الطاعة إلى المعصية ولكن معناها الزلل عن الأفضل إلى الفاضل والأصوب إلى الصواب وكانوا يعاقبون لجلال قدرهم ومنزلتهم ومكانتهم من الله تعالى.(کشف الاسرار، باب افعال النبی صلی اللہ علیہ وسلم)


''بنیادی طور پرافعال کی دو ہی قسمیں ہیں۔ ایک قسم تو ان افعال کی ہے جن کا صرف وجود ہواور کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ) ان کے ساتھ متصل نہ ہو۔ جیساکہ کسی سوتے ہوئے یا بھولے ہوئے آدمی کا فعل ہے۔ یہ افعال نہ تو حسن ہوں گے اورنہ ہی قبیح ہوسکتے ہیں ۔ دوسری قسم میں وہ افعال شامل ہیں جن کے وجود کے ساتھ کوئی زائد صفت(مثلاً ارادہ وغیرہ) بھی شامل ہو' جیسا کہ مکلفین کے افعال ہیں۔ ان افعال کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قسم 'حسن' کہلاتی ہے اور دوسری 'قبیح' ۔ 'حسن' کی آگے مزید تین قسمیں ہیں' یعنی واجب' مندوب اور مباح۔ اور 'قبیح' کی دوقسمیں ہیں' یعنی حرام و مکروہ۔ اور ان تمام افعال کا صدور سوائے آخری قسم(یعنی قبیح) کے تمام مکلفین سے ممکن ہے' چاہے وہ انبیاء ہوں یا عام انسان ۔جہاں تک آخری قسم(یعنی قبیح) کا تعلق ہے تو انبیاء کے سوا تمام لوگوں سے اس کا وقوع ممکن ہے جبکہ انبیاء سے ان افعال کا صدور ممکن نہیں ہے جو کہ معصیت ہوں' کیونکہ عام مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ انبیاء کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے معصوم ہوتے ہیں۔ ہمارے اصحاب (یعنی حنفیہ) کا عقیدہ یہ ہے کہ انبیاء صغائر سے بھی پاک ہوتے ہیں اگرچہ وہ 'زلة‘ کا ارتکاب کر سکتے ہیں' جبکہ بعض اشعریہ کا عقیدہ اس کے برعکس ہے(یعنی ان کے نزدیک انبیاء 'زلة' کے علاوہ صغائر کے بھی مرتکب ہو سکتے ہیں)۔ پس یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اس باب میں افعال سے مرادآپ کے وہ افعال ہیں جو قصد وارادے سے واقع ہوں اور 'زلة' کی قبیل سے نہ ہوں' کیونکہ اس باب میں آپ کی اتباع کا مسئلہ زیر بحث ہے اور آپ کے جو افعال بھول چوک میں سے ہوں یابے ہوشی و نیند کی حالت میں آپ سے صادر ہو ئے ہوں تو ان میں آپ کی اقتداء درست نہیں ہے۔ 'زلة' میں عین فعل کا ارادہ نہیں ہوتا لیکن اصل فعل کا قصد ضرور ہوتا ہے … ابوالحسن الاشعری رحمہ اللہ نے عصمت انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاہے کہ 'زلة' کا معنی یہ نہیں ہے کہ وہ حق سے باطل اور اطاعت سے معصیت کی طرف پھسل گئے' بلکہ اس کا اصل معنی یہ ہے کہ وہ افضل سے مفضول اور زیادہ صحیح سے صحیح کی طرف مائل ہو گئے''۔ (١١)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
۔

اولاتو میں اپنی کتابت کی غلطی کو درست کرلیتاہوں کہ میرے کہنے کا مقصد یہ ارادہ یہ تھا کہ جو مبالغہ آپ نے ابن باز سے نقل کیاہے وہ بھی بے جامدح سرائی کی ہے۔ یہ بات نہ ذہبی نے کہی ہے اورنہ ان کے قریبی دوسرے جاننے والوں نے۔ خود حضرت ابن تیمیہ خود کو امام احمد بن حنبل سے زیادہ اعلم وافقہ قراردیاجاناشاید پسند نہ کرتے ۔
اس کے بعد آپ نے جوتقریر کی ہے وہ ساری کی ساری کچھ بنیادی غلط فہمی اورمیرے الفاظ کو صحیح طورپر نہ سمجھنے سے ہوئی ہے۔
اولا میری بات یاد کریں میں نے کہاکہ حضرت ابن تیمیہ کی تحریروں میں نسبتا اعتدال کی کمی ہے اورآپ نے اس کو بنادیاہے کہ ان کی تحریریں غیرمتوازن ہے۔ یہ دوسرے شخص کے قول کو اپنی جگہ سے ہٹانے کے ہم معنی ہے۔

آپ کی دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ میں نے صاف صاف یہ لکھاہے۔


۔حضرت موسی علیہ السلام تونبی تھے ۔شرعی احکام میں غلطیوں سے معصوم تھے۔
اس پر آپ نے لمبی چوری نقول نقل کردیں ۔میرے الفاظ یاد رکھیں ۔شرعی احکام مین غلطی ۔میراخیال ہے کہ اس کو یاد رکھتے تو اتنی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔

حضرت عمر رضی اللہ کے بارے میں حدیث آئی ہے کہ اشدھم فی امر اللہ عمر اوراس کے علاوہ ڈھیر ساری بشارتیں ہیں۔

علماءے جرح وتعدیل نے ذاتی ونفسانی خواہشات کی بناء پر ایک دوسرے پر جوچوٹیں کی ہیں وہ ہرایک جانتاہے لیکن تعجب نہیں یہی بات آپ امام ابن تیمیہ کے حق میں قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
اس وقت آفس میں ہوں۔تفصیلی گفتگو بعد میں
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اسی جہالت کا توروناہے کہ اب اجتہاد اوراستنباط کوڑی کے مول ہوگئے ہین اورگلی کے نکڑ پر بیٹھ کر پرچون کی دوکان چلانے والابھی اجتہاد کا دعویدار اورائمہ مجتہدین کے مقابل آنے کا منہ رکھتاہے اس جہالت پر ماتم ہی کیاجاسکتاہے شادیانے اورشہنائیاں نہیں تونہیں بجائی جاسکتیں۔غالب کے مطابق
ہربوالہوس نے عشق پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
اب اگرمجتہد کا مطلب شاہدنذیر ،کفایت اللہ اوراسی طرح کے لوگ ہیں توپھرایسے مجتہدین سے توہم بھلے ہیں۔
گلی کے نکڑپر بیٹھ کرپرچون کی دوکان چلانے والا بھی اجتہاد کا دعویدار اگر واقعی اہل حدیث ائمہ مجتہدین (امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ)کے مقابل آنے کا منہ رکھتاہے، تو یقینا اس پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے لیکن ایسا کوئی نہیں کرتا بلکہ اس کے برعکس اجتہاد تودر کنار بزبان خود جہالت اور تقلید کے دعویدار ائمہ مجتہدین (امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل اورشیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے بالقابل آنے کا منہ رکھتے ہیں ۔
بے چارے ایک طرف باعتراف خود جاہل اور نرے مقلد اور دوسری طرف اہل حدیث ائمہ اور مجتہدین پر نکتہ چینی ، اس سے بھی زیادہ عجیب کوئی چیز ہوسکتی ہے، اگر ہم جیسے غریب آپ کی نظر میں کسی لائق نہیں تو کوئی بات نہیں لیکن آپ جیسے لوگوں (جوڈنکے کی چوٹ پراپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں اوراسے تقلیدکاسبب قراردیتے ہیں ان) میں یہ شعور کہاں سے آگیا کہ وہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل ، شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہم اللہ اوردیگر اہل حدیث ائمہ مجتہدین کے خلاف عقل و شعور کا دعوی کرتے پھرے۔
ایسے لوگوں کو امام غزالی رحمہ اللہ کی اس نصیحت پر عمل کرنا چاہئے:
وشرط المقلد أن يَسكُت[فيصل التفرقة بين الإسلام والزندقة (ص: 4)]۔
مقلد کے لئے لازم ہے کہ وہ چپ رہے۔
رہی بات اہل الرائے کے امام اعظم اور ان کے مقلدین پر رد کی تو اس کے لئے نہ تو دعوائے اجتہاد کی ضرورت ہے اور نہ ہی بہت زیادہ علم وہنر درکار ہے کیونکہ ’’رائے‘‘ کی اپنی جگہ پر کوئی حیثیت ہی نہیں ہے بلکہ رائے کی ضرورت ہی اس شخص کو ہوتی ہے جو علوم دین سے نابلد ہو۔
اورجہاں تک قیاس صحیح کی بات ہے تو قیاس صحیح کے لئے بھی اصل مرجع کتاب وسنت کا علم ہونا ضروری ہے اور اہل الرائے کے امام اعظم اس سلسلے میں بھی مظلوم تھے ، لہٰذا اس کابھی امکان نہیں ہے کہ ان کے پاس قیاس صحیح قابل قدر مقدار میں ہو، جیساکہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کمال انصاف سے کام لیتے ہوئے اورلفظ ’’انصاف‘‘ کا استعمال کرکے انصاف کی صراحت کرتے ہوئے بڑے ہی احسن انداز میں اس کی وضاحت کردی ہے ۔
چنانچہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا محمد بن عبد الله بن عبد الحكم قال سمعت الشافعي قال لي محمد بن الحسن: أيهما أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ يعني أبا حنيفة ومالك بن أنس، قلت: على الإنصاف؟ قال: نعم، قلت: فأنشدك الله من أعلم بالقرآن صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم يعني مالكاً، قلت: فمن أعلم بالسنة؟ صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: اللهم صاحبكم. قلت : فأنشدك بالله من أعلم بأقاويل أصحاب محمد صلى الله عليه وعلى آله وسلم صاحبنا أو صاحبكم؟ قال: صاحبكم، قلت: فلم يبق إلا القياس والقياس لا يكون إلا على هذه الأشياء فمن لم يعرف الأصول فعلى أي شيء يقيس؟!!!! [الجرح والتعديل موافق 1/ 12 واسنادہ صحیح
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن الحسن نے کہا: کہ امام مالک اورامام ابوحنیفہ رحمہما اللہ میں سے زیادہ جانکار کون ہیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا انصاف کے ساتھ بتلادوں؟
محد بن حسن نے کہا: جی ہاں۔
امام شافعی کہتے ہیں پھر میں نے کہا اللہ کے واسطے بتاؤ قران کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ قران کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے پوچھا : اچھا یہ بتاؤ حدیث کے زیادہ جانکار کون تھے ، ہمارے امام مالک یا تمہارے امام ابوحنیفہ؟؟
محمدبن حسن نے کہا: بے شک تمارے امام مالک رحمہ اللہ حدیث کے زیادہ جانکار تھے۔
اس کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ اب باقی بچا قیاس تو قیاس انہیں قران وحدیث ہی پر ہوتا ہے پس جو شخص (ابوحنیفہ) اصول یعنی قران و حدیث سے ناواقف ہو وہ قیاس کس پر کرے گا؟؟؟

لہٰذا ایسے لوگوں پر تو گلی محلہ کے بچے بھی بآسانی رد کرسکتے ہیں جیسا کہ امام صاحب کے شاگر محمد بن الحسن کے بارے میں آتا ہے ۔
امام فسوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سمعت نعيم بن حماد يقول : قال غلام بالمدينة لمحمد بن الحسن : ما تقول في تمرة برطبتين ؟ قَال : لا بأس به. قَال : يا عم تجهل السنن ونتكلم في المعضلات. [المعرفة والتاريخ موافق 2/ 791 واسنادہ حسن]۔
مدینہ کے ایک (چھوٹے) لڑکے نے محمدبن الحسن سے کہا کہ : دوکھجوروں کے بدلے میں ایک کھجور کی بیع وشرع کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ محمدبن الحسن نے کہا ہے : اس میں کوئی حرج نہیں ! اس لڑکے نے کہا: اے انکل ! آپ سنتوں سے جاہل ہیں اورمشکل مسائل میں بھی بات کرنے لگتے ہیں۔



اورجس نے بھی یہ جواب دیاہے کہ ہم امام اعظم کے مقابل مقلد اورآپ جیسوں کے مقابل عالم بلکہ مجتہد ہیں بالکل صحیح جواب دیا مجھے تواس میں کوئی مضحکہ خیزی نظرنہیں آتی۔
مضحکہ خیزی کیوں نہیں نظرآتی اس کا جواب تو میری طرف سے آپ نے آگے خود ہی میری دستخط سے ایک شعرنقل کرکے دے دیا ہے لیکن موقع و محل کے انتخاب میں ٹھوکر کھاگئے۔

اب اس معصوم اعتراف پر غورکرتے ہیں کہ ہم امام اعظم کے مقابل مقلد اور جاہل ہیں اورآپ کے مقابل عالم ہیں۔
عرض ہے کہ جو شخص امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقابل جاہل ہو اس کے جہل مرکب کا اندازہ کرنے کے لئے سب سے پہلے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علم کا حدود اربعہ دیکھنا چاہے ، پھر امام صاحب کا جو بھی علمی مقام سامنے آئے اس سے بدرجہا کم تران کا علم ہونا چاہے کیونکہ انہیں اعتراف ہے کہ ہم امام صاحب کے مقابل جاہل ہیں۔
تو آئے دیکھتے ہیں کہ اہل الرائے کے امام اعظم کے علم کا حدود اربعہ کیا ہے ، لیکن یا درہے ہم صرف نقل کرنے والے ہیں اور ان کے علم کا حدود اربعہ ناپنے والے تو چوٹی کے محدثین ہیں جن کے بالمقابل مقلدین کیا خود امام صاحب کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ہم یہاں صرف ائمہ ثلاثہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ ہی کے اقوال پیش کرنے پراکتفاکرتے ہیں، اب دیکھنا کہ ان چوٹی کے ائمہ اور مجتہدین کے اقوال پر نکتہ چینی کرنے کے لئے کس پرچون کی دوکان سے کوئی تشریف لاتا ہے
تو ملاحظہ فرمائیں اہل الرائے کے علم کا حدود اربعہ :

امام مالک رحمہ اللہ کی گواہی

امام ابونعیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا سليمان بن أحمد، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني منصور بن أبي مزاحم، قال: سمعت مالك بن أنس، - وذكر أبو حنيفة فقال: كاد الدين ومن كاد الدين فليس من أهله [حلية الأولياء وطبقات الأصفياء 6/ 325، واسنادہ صحیح]
یعنی امام مالک رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ کا ذکر کیا اورفرمایا کہ یہ شخص دین کے ساتھ دھوکہ کرتا تھا اور جودین کے ساتھ دھوکہ کرے وہ دیندار کبھی نہیں ہوسکتا۔
حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ، وَوَهْبُ بْنُ مَسَرَّةَ قَالَا: نا ابْنُ وَضَّاحٍ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ هَارُونُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْهَيْثَمِ الْأَيْلِيُّ قَالَ: أنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقُرَشِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: «مَا زَالَ هَذَا الْأَمْرُ مُعْتَدِلًا حَتَّى نَشَأَ أَبُو حَنِيفَةَ فَأَخَذَ فِيهِمْ بِالْقِيَاسِ فَمَا أَفْلَحَ وَلَا أَنْجَحَ»[جامع بيان العلم وفضله 2/ 1078 قال محقق الکتاب أبوالأشبال الزهيری:اسنادہ صحیح ورجالہ ثقات]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : یہ معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن جب ابوحنیفہ آئے تو انہوں نے قیاس آرائی شروع کردی اور خائب وخاسر ہوئے ۔
حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سُفْيَانَ، ثنا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ، وَوَهْبُ بْنُ مَسَرَّةَ قَالَا: ) قَالَ نا ابْنُ وَضَّاحٍ، وَسَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ الْأَيْلِيَّ يَقُولُ: سَمِعْتُ خَالِدَ بْنَ نِزَارٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ: «لَوْ خَرَجَ أَبُو حَنِيفَةَ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ بِالسَّيْفِ كَانَ أَيْسَرَ عَلَيْهِمْ مِمَّا أَظْهَرَ فِيهِمْ مِنَ الْقِيَاسِ وَالرَّأْيِ»[جامع بيان العلم وفضله 2/ 1079قال محقق الکتاب أبوالأشبال الزهيری:اسنادہ حسن]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : اگرابوحنیفہ اس امت کے خلاف تلوار لے کر نکل جاتے تو اس سے مسلمانوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچتا جتنا ان کے قیاس و رائے سے پہنچاہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا بن أبى داود ثنا الربيع بن سليمان الجيزي عن الحارث بن مسكين عن بن القاسم قال قال مالك الداء العضال الهلاك في الدين وابو حنيفة من الداء العضال [الكامل في الضعفاء 7/ 6 واسنادہ صحیح]
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا : دین میں ہلاکت بہت بڑی بیماری ہے اور ابوحنیفہ اسی بیماری کا نام ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ کی گواہی

امام شافعی کا قول اوپر گذرچکاہے ان کے مزید اقوال ملاحظہ ہوں:
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيَّ، يَقُولُ: «مَا أُشَبِّهُ رَأْيَ أَبِي حَنِيفَةَ إِلا بِخَيْطِ سَحَّارَةٍ، تَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَصْفَرَ، وَتَمُدُّهُ هَكَذَا فَيَجِيءُ أَخْضَرَ» [آداب الشافعي ومناقبه ص: 130واسنادہ صحیح
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کو جادو گر کے دھاگے کی طرح سمجھتاہوں کہ جسے آپ ایک طرف کھینچیں تو پیلا ہوجائے اوردوسری طرف کھینچیں تو ہرا ہوجائے۔
امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ: «أَبُو حَنِيفَةَ يَضَعُ أَوَّلَ الْمَسْأَلَةِ خَطَأً، ثُمَّ يَقِيسُ الْكِتَابَ كُلَّهُ عَلَيْهَا» [آداب الشافعي ومناقبه ص: 129واسنادہ صحیح
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ابوحنیفہ پہلے ایک غلط مسئلہ بناتے تھے پھر پوری کتاب کو اسی پر قیاس کرتے تھے۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کی گواہی

امام عبداللہ بن احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سَأَلت ابي عَن الرجل يُرِيد ان يسْأَل عَن الشَّيْء من امْر دينه مِمَّا يبتلى بِهِ من الايمان فِي الطَّلَاق وَغَيره وَفِي مصر من اصحاب الرَّأْي وَمن اصحاب الحَدِيث لَا يحفظون وَلَا يعْرفُونَ الحَدِيث الضَّعِيف وَلَا الاسناد الْقوي فَلِمَنْ يسْأَل لاصحاب الرَّأْي اَوْ لهَؤُلَاء اعني اصحاب الحَدِيث على مَا قد كَانَ من قلَّة معرفتهم قَالَ يسْأَل اصحاب الحَدِيث لَا يسْأَل اصحاب الرَّأْي ضَعِيف الحَدِيث خير من رَأْي ابي حنيفَة [مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ص: 438 وسندہ صحیح عبداللہ ، ابن الامام احمد رحمہ اللہ یروی عن ابیہ]
امام احمد کے بیٹے عبداللہ بن احمد کہتے ہیں‌ میں نے والد محترم امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھاکہ کہ ایک آدمی دین کے سلسلے میں درپیش مسائل پوچھنا چاہتا ہے مثلا طلاق کی قسم وغیرہ کا مسئلہ اور شہرمیں اہل الرائے بھی ہیں اورایسے اہل الحدیث بھی ہیں جنہیں احادیث‌ صحیح‌ سے یاد نہیں‌ ہے انہیں ضعیف حدیث کا بھی علم نہیں ہے اورنہ ہی صحیح سند کا ۔
دریں صورت سائل کس سے سوال کرے اہل الرائے سے؟ یا کم علم اہل حدیث سے ؟
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: ایسی صورت میں سائل اہل حدیث ہی سے مسئلہ پوچھے اہل الرائے سے ہرگز نہ پوچھے، کیونکہ ضعیف حدیث‌ ابوحنیفہ کی رائے سے تو بہتر ہی ہے۔

امام خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أَخْبَرَنِي ابن رزق، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَد بن سلمان الفقيه المعروف بالنجاد، قَالَ: حَدَّثَنَا عبد الله بن أَحْمَد بن حنبل، قَال: حَدَّثَنَا مهنى بن يحيى، قال: سمعت أَحْمَد بن حنبل، يقول: ما قول أبي حنيفة والبعر عندي إلا سواء[تاريخ بغداد ت بشار 15/ 569 واسنادہ حسن ]۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا : میرے نزدیک جانوروں‌ کی گندگی اورابوحنیفہ کا قول یکساں ہے۔



اب انصاف پسندحضرات خود اندازہ فرمائیں کہ جب امام اعظم جن کے مقابل میں یہ حضرات باعتراف خودجاہل ہیں ان کا بشہادت ائمہ ثلاثہ یہ حال ہے تو پھر ان کی اپنی تسلیم کردہ جہالت کا کیا عالم ہونا چاہے ۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ : تمام قارئین سے گذارش ہے کہ میرا جواب مکمل ہونے سےقبل اس دھاگہ میں پوسٹ نہ کریں تاکہ تسلسل باقی رہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
دراصل شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ پر شدت کا بہتان جمشید صاحب کے مطالعہ کا نتیجہ نہیں بلکہ ان کے حکیم الامت کی نبض شناسی کا کمال ہے !
میں پوچھ سکتاہوں کہ یہ کشف آنجناب کو کدھر سے ہواہے اوراس کی "سند صحیح"کیاہے۔
۔

جناب آپ حضرات تقلید کے دعویدارہیں اورعصرحاٍضر کے بعض لوگ تقلید کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ تقلید میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے اقوال نہیں بلکہ کبھی کبھی دیگر اقوال پر بھی فتوی دیا جاتاہے، اب ظاہر ہے کہ کسی کا بھی قول مفتی بہ ہو، ان پر سب احناف کا اتفاق ہوتا ہے، بہرحال احناف یہ باور کراتے ہیں کہ ہمارے یہاں آپس میں اختلاف نہیں ہے کیونکہ ہم مقلد ہیں ، ایسی صورت میں جب کسی مستند حنفی کی طرف سے کوئی بات پیش کی جائے تو ظاہر ہے کہ اس پر سب کا اتفاق ہی ہوگا۔
حکیم الامت کے اقوال تو اس قدر اہم ہیں کہ صرف ان کی تحریریں ہی نہیں بلکہ شرم وحیا سے عاری ان کے ملفوظات بھی محفوظ بھی یاد رکھنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں، ایسے میں تو یہی کہا جائے گا ، کہ حکیم الامت کی یہ پڑیا حنفی امت کو قبول ہے ۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے جوکچھ فرمایاہے اس سے قبل ازیں تومیں لاعلم تھا اب تومجھے اپنی رائے پراوربھی زیادہ اعتماد ہوگیاہے۔ حوالہ دینے کا شکریہ۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی رائے بالکل صحیح ہے
۔

مشہور معروف کذاب اور اہل بدعت کے امام زاہد کوثری نے شیخ الاسلام کے حق میں جوکچھ کہا ہے شاید آن جناب اس سے بھی لاعلم ہوں ، اس طرح ایک اورتھانوی نے شیخ الاسلام کی شان میں ایسی گستاخی کی کہ اس پر زاہد کوثری کا شاگرد خاص اورمقلد ابوزاہد کوثری (ابوٍغدہ) بھی تڑپ اٹھا ، شاید ان چیزوں سے بھی آپ ناوقف ہوں۔
لیکن میرے خیال سے ایسانہیں ہے بلکہ درحقیقت تھانوی اور کوثری گروپ ہی کی کرم فرمائیاں ہیں جن پر جمشید صاحب پھولے نہیں سمارہے ہیں۔

اوریہ ان کے انصاف کی بات ہے کہ انہوں نے ابن تیمہ رحمتہ اللہ علیہ کے واقعی اوصاف کابھی ذکر کیا اور اورجوایک عیب یاکمزوری تھی اس کوبھی بیان کیا۔ انہوں نے دورحاضر کے اہل حدیث حضرات کی طرح یہ ظلم بالکل نہیں کیاکہ امام ابوحنیفہ کے مثالب میں جوکچھ واردہے اس کو تونقل کریں اورجوفضائل میں مذکور ہے اس سے صرف نظرکرلیں۔
۔
ایسا بالکل نہیں ہے اہل حدیث حضرات امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی گمراہیاں واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جو خوبیاں ہیں اسے بھی بیان کرتے ہیں البتہ حنفی حضرات ضرور امام ابوحنفہ رحمہ اللہ کے جنون میں انہیں معصوم عن الخطا مانتے ہیں ۔ ورنہ آپ احناف کے چند ایسے اقوال پیش کریں جن میں انہوں نے امام صاحب کی غلطی کو تسلیم کیا ہے۔


میں نے صرف ایک جملہ کہاہے اوراس کا اثبات ونفی کسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اورویسے بھی کیاشیخ الاسلام کے بارے میں کوئی بات کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ان کی ہربات سے انکار کردیاجائے۔اورکیاکسی کی ایک جگہ بات تسلیم کرنے اوردوسری جگہ پر انکار کرنے دورخاپن لازم آتاہے توکیاخیال ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتابیں تواس طرز سے بھری پڑی ہیں۔ وہ کہیں امام ابوالحسن اشعری پر تنقید کرتے ہیں اورپھر دوسرے موقع پر اسی ابوالحسن اشعری کے کلام سے استشہاد کرتے ہیں۔ اس بارے میں آنجناب کیاکہناچاہیں گے جوبھی کہناچاہیں سوچ کرکہیں۔کہیں الٹی مصیبت گلے نہ پڑجائے اورپھرجواب بنائے نہ بنے۔
۔
شیخ الاسلام کی بات کے انکار یا تسلیم کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ بات ان کے اسلوب کی ہے اگر شیخ الاسلام تقلید کے خلاف بات کریں تو آپ کو ان کے اسلوب میں شدت نظر آئے ، اور اگر آپ کے من پسند کی بات کریں تو وہاں شدت نظر نہ آئے ، اسی دوغلی نظر پر حیرت ہے۔

جیسے ہمارے ایک بزرگ ’’مجتہد‘‘ نے علامہ عثمانی کے خلاف اندھی تقلید کی پھبتی کسی اورجب وہی بات شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کلام سے دکھادی گئی تواب حیران ہیں کہ کہیں توکیاکہیں۔
اس کا جواب تو آپ کووہیں پر دیا جاچکاہے۔

تشدد نہ ہونے والی بات تومردود ہے میرے لحاظ سے!(ابتسامہ) حافظ زبیر علی زئی کی تقلید آپ کو مبارک ہو۔لیکن ہمیں اس سے کیا۔ وہ آپ کے مجتہد ہوں امام اعظم ہوں کچھ بھی ہوں ہمیں کیاواسطہ۔ان کی اس بات سے ثابت کیاہوا۔
یہ بات بطورہ فائدہ کہی گئی تھی روئے سخن آپ کی طرف بالکل نہ تھا ، اس مضمون کو اورلوگ بھی پڑھ رہے ہیں ، ان کے فائدہ کے لئے یہ بات پیش کی گئی تھی ، آپ زیادہ خوش فہمی میں مبتلاء نہ ہوں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top