خلاصہ بحث
حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ اپنے عہد کے جلیل القدر عالم دین تھے۔ وہ آٹھویں صدی ہجری کے مجدد تھے۔انہوں نے فرق باطلہ اوربطورخاص شیعہ حضرات کی تردید کی اوران کے تمام استدلالات کو تارعنکبوت ثابت کردیا لیکن اسی کے ساتھ ان میں کچھ فطری کمزوریاں تھیں ۔مثلا حدت وتیز مزاجی، بحث ومباحثہ کے وقت درشت کلامی ۔مخالف علماء سے سخت اسلوب میں بات کرنا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں وہ اعتدال وتوازن نظرنہیں آتاجوکہ حافظ المغرب ابن عبدالبر اورامام نووی کے یہاں نظرآتاہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جولوگ ہمیں رات دن یہ سمجھاتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کا حدیث میں ضعیف وکمزورہونا،قلیل الروایۃ بلکہ ان کی تعبیر کے مطابق قلیل الحدیث ہوناکوئی عیب کی بات نہیں ہے وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں محض اتناکہہ دینے سے یک گونہ مشتعل ہوجاتے ہیں کہ حضرت کے اندر تیزمزاجی تھی بلکہ معاملہ یہاں تک بڑھ جاتاہے کہ وہ ایسی کتابوں کے ہی منکر ہوجاتے ہیں جس میں ان امور کا ذکر ہوتاہے ۔معاملہ صرف اردو فورمز کانہیں بلکہ عربی کے بڑے بڑے بھاری بھرکم فورمز ملتقی اہل الحدیث اورمجلس العلمی پربھی یہی حال ہے۔
حافظ ابن تیمیہ کے ہمعصروں میں حافظ ذہبی کانام نمایاں ہے۔ اس امتیاز کی ایک وجہ اوربھی ہے اور وہ یہ کہ وہ اگرچہ حضرت ابن تیمیہ کے بہت بڑے مرتبہ شناس ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اپنی رائے رکھتے ہیں ۔وہ حضرت ابن تیمیہ کے حق میں کہتے ہیں ۔
قال ومن خالطه وعرفه فقد ينسبني إلى التقصير فيه ومن نابذه وخالفه قد ينسبني إلى التغالي فيه وقد أوذيت من الفريقين من أصحابه وأضداده وكان أبيض أسود الرأس واللحية قليل الشيب شعره إلى شحمة أذنيه وكأن عينيه لسانان ناطقان ربعة من الرجال بعيد ما بين المنكبين جهوري الصوت فصيحا سريع القراءة تعتريه حدة لكن يقهرها بالحلم قال ولم أر مثله في ابتهاله واستغاثته وكثرة توجهه وأنا لا أعتقد فيه عصمة بل أنا مخالف له في مسائل أصلية وفرعية فإنه كان مع سعة علمه وفرط شجاعته وسيلان ذهنه وتعظيمه لحرمات الدين بشرا من البشر تعتريه حدة في البحث وغضب وشظف للخصم تزرع له عداوة في النفوس وإلا لو لاطف خصومه لكان كلمة إجماع فإن كبارهم خاضعون لعلومه معترفون بشنوفه مقرون بندور خطائه وأنه بحر لا ساحل له وكنز لا نظير له ولكن ينقمون عليه أخلافا وأفعالا وكل أحد يؤخذ من قوله ويترك۔(الدررالکامنہ 1/176)
ایک دوسرے مقام پر حافظ ذہبی کہتے ہیں ۔اس تحریرکا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ ذہبی کہتے ہیں اس کے مداح توکہیں گے کہ میں نے ان کی تعریف میں تقصیر کی اوران کے ناقدین کہیں گے کہ میں نے غلو سے کام لیاہے اورمجھے دونوں جماعتوں سے ایذاپہنچی ہے۔ماقبل میں یہ بیان کرکے کہ وہ اپنی تیزمزاجی پر حلم کے ذریعہ قابوپالیتے تھے۔ اس کے بعد حافظ ذہبی ہی کہتے ہیں۔ میں ان کی عصمت کا قائل نہیں کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوسکے بلکہ میں اعتقادی اورفروعی دونوں امورمیں ان سے کچھ باتوں میں اختلاف رکھتاہوں۔ اس کے بعد پھروہی بات ہے جومیں نے ماقبل میں ترجمہ کیاہے۔ بعد ازاں حافظ ذہبی کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنے حریف سے نرمی سے پیش آتے توان کی ذات پر سبھوں کا اتفاق ہوتا ۔کبار علماء ان کے علم وفضل کے معترف تھے اوریہ بھی معلوم تھاکہ بہت کم مسائل میں سے ان سے غلطی ہوئی ہے لیکن وہ ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کیاکرتے تھے اورہرایک کے قول کو چھوڑاجاسکتاہے اورقبول کیاجاسکتاہے۔
وله حدة قوية تعتريه في البحث حتى كأنه ليث حرب، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وفيه قلة مداراة، وعدم تؤدة غالباً؛ والله يغفر له.(الدرۃ الیتیمۃ فی السیرۃ التیمیۃ)
اوران کوبحث ومباحثہ کے دوران سخت تیزمزاجی سے سابقہ پڑتاتھاایسامعلوم ہوتاتھاگویاکوئی شیر میدان جنگ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوران میں اکثروبیشتر مدارات کی کمی تھی اللہ ان کی مغفرت کرے ۔
حافظ ذہبی نے اسی کے ساتھ ان پر اس بات کی بھی نکتہ چینی کی ہے کہ انہوں نے ایسے مسائل مین دخل دیاجو اس زمانہ کے لوگوں کی عقل سے پرے تھا۔اورجس کی وجہ سے وہ خود بھی قید وبند کی صعوبتوں سے دوچارہوئے ۔چنانچہ حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
ودخل في مسائل كبار لا تحتملها عقول أبناء زمانه ولا علومهم، كمسألة التكفير في الحلف في الطلاق ، ومسألة أن الطلاق الثلاث لا يقع إلا واحدة، وأن الطلاق في الحيض لا يقع، وصنف في ذلك تواليف لعلَّ تبلغ أربعين كراسًا، فمُنع لذلك من الفتيا ، وساس نفسه سياسة عجيبة، فحبس مراتٍ بمصر ودمشق والإسكندرية، وارتفع وانخفض ، واستبد برأيه، وعسى أن يكون ذلك كفارة له، [الدرة اليتيمية في السيرة التيمية ]
بات صرف اسی حد تک محدود نہیں ہے۔بلکہ اس کے علاوہ بھی حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ پرنکتہ چینی کی ہے۔
یہ تحریر بڑے غور کی متقاضی ہے اس کو بغوروامعان پڑھئے اورسرسری مت گزرجائیے اس سے۔وھذالذی ذکرتہ من سیرتہ فعلی الاقتصاد،والافحولہ اناس من الفضلاء یعتقدون فیہ وفی علمہ وزھدہ ودینہ وقیامہ فی نصرالاسلام بکل طریق اضعاف ماسقت،وثم اناس من اضدادہ یعتقدون فیہ وفی علمہ لکن یقولون فیہ طیش وعجلۃ وحدۃ ومحبۃ للریاسۃ وثم اناس –قد علم الناس قلۃ خیرھم وکثرۃ ھواھم-ینالون منہ سباوکفراوھم امامتکلمون او من صوفیۃ الاتحادیۃ اومن شیوخ الزرکرۃ ،اوممن قد تکلم ھو فیھم فاقذع وبالغ ،فاللہ یکفیہ شرنفسہ وغالب حطہ علی الفضلاء اوالمتزہدۃ فبحق وفی بعضہ ھو مجتہد۔۔(۔السیرۃ الیتیمہ ص18)
حافظ ذہبی نے ان کے بارے میں تین قسم کے لوگ بیان کئے ہیں آخر الذکر کو انہوں نے خود قلت علم اورخواہش نفسانی کا حامل بتایاہے۔اس سے ہمیں بحث بھی نہیں ہے۔دوسری قسم ان لوگوں کی بتائی ہے جوان کے علم وفضل کے معترف ہیں لیکن ان کے اخلاق وافعال کی نکتہ چینی کی ہے ۔حافظ ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیاہے ۔
ویسے ایک کام کی بات بتادوں کہ حافظ ذہبی چوں کہ بذات خود حضرت ابن تیمیہ کے بڑے مداح ہیں اس لئے وہ ہمیشہ اشارہ سے کام چلاتے ہیں کبھی بھی تصریحا کچھ نہیں کہتے۔
حافظ ذہبی زغل العلم میں حضرت ابن تیمیہ کے تعلق سے کہتے ہیں۔
فواللہ مارمقت عینی اوسع علما ولااقوی ذکاء من رجل یقال لہ :ابن تیمیہ مع الزہد فی الماکل والملبس والنساء ،ومع القیام فی الحق والجھاد بکل ممکن، قد تعبت فی وزنہ وفتشہ حتی مللت فی سنین متطاولۃ فماوجدت قد آخرہ بین اھل مصروالشام ومقتتہ نفوسھم وازدروابہ وکذبوہ وکفروہ الاالکبر والعجب،وفرط الغرام فی ریاستۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار،(زغل العلم 38)
ابن تیمیہ کے ایک دوسرے معاصر ہیں مشہور مورخ اورادیب علامہ صلاح الدین خلیل بن ایبک الصفدی ہیں۔ ان کی کتاب الوافی بالوفیات بہت مشہور ہے۔اس میں انہوں نے حضور کے دور سے لے کر اپنے زمانہ تک کے مشاہیر کا ذکر کیاہے۔ حضرت ابن تیمیہ کا بھی ذکر ہے اورغیرجانبدارانہ طورپر ذکر کیاہے۔
علامہ صفدی حضرت امام کے تعلق سے ان کے زبردست حافظہ کی تعریف کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
میں (صفدی)کہتاہوں کہ اللہ ان تمام پر رحم کرے ان کو اب عین القین حاصل ہوگیاہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے (حفاظ متقدمین کے حافظہ کے بارے میں)اورمیراگمان ہے کہ انہوں نے(ابن تیمیہ نے خود اپنے جیساحافظہ والانہیں دیکھا)اورمیں سمجھتاہوں کہ ان کے اوصاف کسی حد تک ابن حزم سے ملتے تھے جس میں مخالفین پر تشنیع بھی شامل ہے۔قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الوافی بالوفیات 7/12)