داخلی شہادتیں اورابوحیان
سیبویہ عربی زبان وادب کا بہت بڑانام ہے۔کوشش کریں کہ تراجم ورجال میں اس کے تعلق سے کچھ معلومات حاصل کرلیں۔کیا یہ سب داخلی شہادتیں ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ داخلی شہادتوں سے آپ کی کیا مراد ہے ؟؟؟؟؟
مذکورہ باتوں کا جواب دیا جاچکاہے ، البتہ ابوحیان کا لطیفہ نیا ہے اس کے بارےمیں عرض ہے کہ:
ابوحیان والے لطیفہ سے تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی منقبت معلوم ہوتی کیونکہ اس نے شیخ الاسلام کی شان میں قصیدہ کہا اس کے باوجود بھی جب اس نے غلطی کی تو شیخ الاسلام نے اس پر ٹوک دیا یہ حق بیانی کی عظیم مثال ہے کہ اپنے مادحین کی غلطی بھی بیان کردی جائے۔
یہ نہیں کہ اپناکوئی مرید یہ کہتے ہوئے آئے کہ میں نے خواب دیکھا اور میں میری زبان سے اشرف علی رسول اللہ نکل رہا ہے تو چونکہ وہ اپنا مرید ہے اس لئے اسے تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی واہ واہی کی جائے۔۔۔۔۔
شیخ الاسلام نے یہ کہنے کے لئے کہ سیبویہ بھی معصوم نہیں ہے ایک اسلوب اختیار کیا ہے اس میں شدت کی کیا بات ، بالخصوص جب کی ابوحیان ان کے مقام و مرتبہ کے تسلیم کرچکے تھے تو بھلا ابوحیان کے ساتھ شیخ الاسلام شدت کیونکر اپناتے !!
یہ کہہ دینابہت آسان ہے کہ فلاں نے80 مقام پر غلطی کی ہے لیکن یہ ثابت کرنااتناہی مشکل ہے۔ یہ بات کوئی طالب علم نہیں بلکہ طویلب العلم بھی کہہ سکتاہے کہ ابن تیمیہ نے 180مقام پر غلطی کی ہے لیکن مسئلہ اس کے اثبات کاہے۔اس میں شک نہیں کہ ابن تیمیہ کو دیگر علوم کے ساتھ نحووصرف اورلغت عربی میں بھی درک حاصل تھا مگر سیبویہ جتنانہیں۔سیبویہ کی الکتاب کا کماحقہ سمجھ لیناہی بعد والوں کیلئے بہت بڑامقام ہے چہ جائیکہ سیبویہ کے مقام کاادعاکیاجائے اورسبیویہ کی کتاب میں80غلطیاں نکالی جائیں۔صفدی نے جب ابن تیمیہ سے نحو کے تعلق سے دوسوال کئے توابن تیمیہ اس کاجواب نہیں دے سکے تھے۔
داخلی شہادتوں سے مراد ایسے واقعات ہیں جن سے یہ بین السطور میں ابن تیمیہ کی حدت وشدت ثابت ہوتی ہے اوراسی سلسلہ میں ابن تیمیہ کا یہ واقعہ بھی پیش کیاگیاتھا۔اگرابن تیمیہ کو مذکورہ مثال پراعتراض تھاتواس کیلئے دوسرااسلوب اپنایاجاسکتاتھالیکن انہوں نے مذکورہ اسلوب نہیں اپنایا۔آپ سوال کرتے ہیں کہ داخلی شہادتوں سے کیامراد ہے
اگرآج کسی غیرمقلد سے ہماری گفتگو ہو اوروہ نفس استدلال میں ابن تیمیہ کاقول پیش کرے اورمیں کہہ دوں کہ ابن تیمیہ نے80مقام پر غلطی کی ہے توایمان اورانصاف سے بتائے کہ کیایہ بات اسے بری لگے گی یانہیں لگے گی؟اوروہ میری گرمی گفتار کی شکایت کرے گایانہیں جیساکہ محترم شاکر صاحب عموما کرتے رہتے ہیں۔اس واقعہ کوذکر کرنے کا مقصد بھی فقط اسی گرمی گفتارکی طرف اشارہ ہے۔اگرعاقلی یک اشارہ بسست۔اوراسی گرمی گفتار کی طرف حافظ ذہبی نے بھی اشارہ کیاہے کہ ان کی گرمی گفتار کی وجہ سے ان کے ہم عصرعلماء ان سے متنفر ہوگئے۔اگران کے اقوال وتحریرات مین گرمی گفتار کی صفت نہ ہوتی تو ان کی ذات پر علماء کااجماع ہوتالیکن گرمی گفتار کی وجہ سے ہی ایسانہ ہوسکا۔
گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرورکی
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرورکی
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابوحیان کی یہ بات کتنی صحیح اورغلط ہے؟لیکن دھڑلے سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے من سے ایک بات گڑھ کر ان کی جانب منسوب کردی ہے۔یہ ابھی تک نہیں کہاجاسکتاکہ ابن تیمیہ کی تمام کتابیں طبع ہوچکی ہیں۔کتنی ہی کتابیں اورکتنے ہی نقول ایسے ہیں جس کو ہم ماضی کے علماء کے حوالہ سے پڑھتے ہیں لیکن ان کتابوں کے طبع ہونے کے باوجود وہ بات اس میں نہیں ملتی۔یہ الگ بات ہے کہ ابوحیان اس بات پر خفاہوگئے کہ میری غلطی کیوں پکڑی گئی ، اور پھر موصوف نے شیخ الاسلام کے خلاف بکواس کرنا شروع کردیا ، حتی کہ جھوٹی باتیں بھی ان کو طرف منسوب کردیں ، مثلا موصوف نے کہا:
وقرأت في كتاب لاحمد بن تيمية هذا الذي عاصرنا، وهو بخطه سماه كتاب العرش: إن الله يجلس على الكرسي وقد أخلى منه مكانا يقعد معه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، تحيل عليه التاج محمد بن علي بن عبد الحق البارنباري، وكان أظهر أنه داعية له حتى أخذه منه وقرأنا ذلك فيه [الرسائلہ السبکیۃ:ص ٢٩]
حالانکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بیشتر کتابیں اس طرح کے عقائد پر ردود سے بھر ی پڑی ہیں۔
مختصرحوالہ دے دوں کہ ابن سعد کے حوالہ سے حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے انس بن مالک کو دیکھالیکن طبقات ابن سعد میں یہ بات موجود نہیں ہے لیکن کیااس کی وجہ سے کسی کیلئے مناسب ہوگاکہ وہ حافظ ذہبی پر اتہام تراشی کرے۔بس ویسے ہی ابوحیان پر ہی اتہام تراشی کرنامناسب نہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ ان کے سامنے جوکتاب اورجوحوالہ موجود ہو وہ ہمارے پاس نہ ہو۔
ویسے یہ مذکورہ بات ابن قیم نے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں لکھی ہے
ابن قیم لکھتے ہیں۔
فائدة:
قال القاضي: "صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش" قال القاضي: "وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي". انتهى.
قلت: وهو قول ابن جرير الطبري وإمام هؤلاء كلهم مجاهد إمام التفسير وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه
حديث الشفاعة عن أحمد ... إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده ... على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه ... ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده ... ولا تنكروا أنه يقعده
(بدائع الفوائد4/40)
اس پرالبانی نے نقد بھی کیاہے ۔چنانچہ وہ مختصرالعلو میں لکھتے ہیں۔
ومن العجيب حقا أن يعتمد هذا الأثر الإمام ابن القيم رحمه الله تعالى فإنه نقل كلام القاضي أبي يعلى فيه وبعض أسماء القائلين به, ثم قال ابن القيم رحمه الله:
قلت: وهو قول ابن جرير الطبري وإمام هؤلاء كلهم مجاهد إمام التفسير وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه".
ثم ذكره مثلما ذكره المصنف فيما يأتي في ترجمة "134 - الدراقطني" وزاد بيتا رابعا لعل المصنف تعمد حذفه:
"ولا تنكروا أنه قاعد ... ولا تنكروا أنه يقعده"!
قلت: وقد عرفت أن ذلك لم يثبت عن مجاهد, بل صح عنه ما يخالفه كما تقدم. وما عزاه للدارقطني لا يصح إسناده كما بيناه في "الأحاديث الضعيفة" "870" وأشرت إلى ذلك تحت ترجمة الدارقطني الآتية. وجعل ذلك قولا لابن جرير فيه نظر, لأن كلامه في "التفسير" يدور على إمكان وقوع ذلك كما سبق لا أنه وقع وتحقق, ولذلك قال الإمام القرطبي في "تفسيره" "10/ 311":
"وعضد الطبري جواز ذلك بشطط من القول, وهو لا يخرج إلا على تلطف في المعنى وفيه بعد, ولا ينكر مع ذلك أن يروى, والعلم يتأوله "
ثم بين وجه تأويله, بما لا حاجة بنا إلى ذكره والنظر فيه, ما دام أنه أثر غير مرفوع, ولو افترض أنه في حكم المرفوع, فهو في حكم المرسل الذي لا يحتج به في الفروع فضلا عن الأصول, كما ذكرت ذلك أو نحوه فيما يأتي من التعليق على قولة بعضهم: "ولا نتكلم في حديث فيه فضيلة للنبي صلى الله عليه وسلم بشيء"! التعليق "265".
ولعل المصنف رحمه الله تعالى يشير إلى ذلك بقوله في ترجمة "165 - القاضي العلامة أبو بكر بن العربي" وقد نقل عنه القول بهذا القعود معه على العرش: قال:
"وما علمت للقاضي مستندا في قوله هذا سوى قول مجاهد".
وخلاصة القول: إن قول مجاهد هذا -وإن صح عنه- لا يجوز أن يتخذ
ينا وعقيدة, ما دام أنه ليس له شاهد من الكتاب والسنة, فيا ليت المصنف إذ ذكره عنده جزم برده وعدم صلاحيته للاحتجاج به, ولم يتردد فيه, فإنه هو اللائق به, وبتورعه من إثبات كلمة "بذاته" والله المستعان.
چونکہ اس تعلق سے ایک اثربھی مجاہد رضی اللہ عنہ کے واسطے سے وارد ہے اس لئے یہ بات امکان کے دائرہ میں رہتی ہے کہ شاید ابن تیمیہ نے بھی اس تعلق سے کچھ کہاہو۔