• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
داخلی شہادتیں اورابوحیان

کیا یہ سب داخلی شہادتیں ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ داخلی شہادتوں سے آپ کی کیا مراد ہے ؟؟؟؟؟
مذکورہ باتوں کا جواب دیا جاچکاہے ، البتہ ابوحیان کا لطیفہ نیا ہے اس کے بارےمیں عرض ہے کہ:
ابوحیان والے لطیفہ سے تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی منقبت معلوم ہوتی کیونکہ اس نے شیخ الاسلام کی شان میں قصیدہ کہا اس کے باوجود بھی جب اس نے غلطی کی تو شیخ الاسلام نے اس پر ٹوک دیا یہ حق بیانی کی عظیم مثال ہے کہ اپنے مادحین کی غلطی بھی بیان کردی جائے۔
یہ نہیں کہ اپناکوئی مرید یہ کہتے ہوئے آئے کہ میں نے خواب دیکھا اور میں میری زبان سے اشرف علی رسول اللہ نکل رہا ہے تو چونکہ وہ اپنا مرید ہے اس لئے اسے تنبیہ کرنے کے بجائے اس کی واہ واہی کی جائے۔۔۔۔۔
شیخ الاسلام نے یہ کہنے کے لئے کہ سیبویہ بھی معصوم نہیں ہے ایک اسلوب اختیار کیا ہے اس میں شدت کی کیا بات ، بالخصوص جب کی ابوحیان ان کے مقام و مرتبہ کے تسلیم کرچکے تھے تو بھلا ابوحیان کے ساتھ شیخ الاسلام شدت کیونکر اپناتے !!
سیبویہ عربی زبان وادب کا بہت بڑانام ہے۔کوشش کریں کہ تراجم ورجال میں اس کے تعلق سے کچھ معلومات حاصل کرلیں۔
یہ کہہ دینابہت آسان ہے کہ فلاں نے80 مقام پر غلطی کی ہے لیکن یہ ثابت کرنااتناہی مشکل ہے۔ یہ بات کوئی طالب علم نہیں بلکہ طویلب العلم بھی کہہ سکتاہے کہ ابن تیمیہ نے 180مقام پر غلطی کی ہے لیکن مسئلہ اس کے اثبات کاہے۔اس میں شک نہیں کہ ابن تیمیہ کو دیگر علوم کے ساتھ نحووصرف اورلغت عربی میں بھی درک حاصل تھا مگر سیبویہ جتنانہیں۔سیبویہ کی الکتاب کا کماحقہ سمجھ لیناہی بعد والوں کیلئے بہت بڑامقام ہے چہ جائیکہ سیبویہ کے مقام کاادعاکیاجائے اورسبیویہ کی کتاب میں80غلطیاں نکالی جائیں۔صفدی نے جب ابن تیمیہ سے نحو کے تعلق سے دوسوال کئے توابن تیمیہ اس کاجواب نہیں دے سکے تھے۔
آپ سوال کرتے ہیں کہ داخلی شہادتوں سے کیامراد ہے
داخلی شہادتوں سے مراد ایسے واقعات ہیں جن سے یہ بین السطور میں ابن تیمیہ کی حدت وشدت ثابت ہوتی ہے اوراسی سلسلہ میں ابن تیمیہ کا یہ واقعہ بھی پیش کیاگیاتھا۔اگرابن تیمیہ کو مذکورہ مثال پراعتراض تھاتواس کیلئے دوسرااسلوب اپنایاجاسکتاتھالیکن انہوں نے مذکورہ اسلوب نہیں اپنایا۔
اگرآج کسی غیرمقلد سے ہماری گفتگو ہو اوروہ نفس استدلال میں ابن تیمیہ کاقول پیش کرے اورمیں کہہ دوں کہ ابن تیمیہ نے80مقام پر غلطی کی ہے توایمان اورانصاف سے بتائے کہ کیایہ بات اسے بری لگے گی یانہیں لگے گی؟اوروہ میری گرمی گفتار کی شکایت کرے گایانہیں جیساکہ محترم شاکر صاحب عموما کرتے رہتے ہیں۔اس واقعہ کوذکر کرنے کا مقصد بھی فقط اسی گرمی گفتارکی طرف اشارہ ہے۔اگرعاقلی یک اشارہ بسست۔اوراسی گرمی گفتار کی طرف حافظ ذہبی نے بھی اشارہ کیاہے کہ ان کی گرمی گفتار کی وجہ سے ان کے ہم عصرعلماء ان سے متنفر ہوگئے۔اگران کے اقوال وتحریرات مین گرمی گفتار کی صفت نہ ہوتی تو ان کی ذات پر علماء کااجماع ہوتالیکن گرمی گفتار کی وجہ سے ہی ایسانہ ہوسکا۔

گرمی سہی کلام میں لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرورکی​

یہ الگ بات ہے کہ ابوحیان اس بات پر خفاہوگئے کہ میری غلطی کیوں پکڑی گئی ، اور پھر موصوف نے شیخ الاسلام کے خلاف بکواس کرنا شروع کردیا ، حتی کہ جھوٹی باتیں بھی ان کو طرف منسوب کردیں ، مثلا موصوف نے کہا:
وقرأت في كتاب لاحمد بن تيمية هذا الذي عاصرنا، وهو بخطه سماه كتاب العرش: إن الله يجلس على الكرسي وقد أخلى منه مكانا يقعد معه فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، تحيل عليه التاج محمد بن علي بن عبد الحق البارنباري، وكان أظهر أنه داعية له حتى أخذه منه وقرأنا ذلك فيه [الرسائلہ السبکیۃ:ص ٢٩]
حالانکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بیشتر کتابیں اس طرح کے عقائد پر ردود سے بھر ی پڑی ہیں۔
ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابوحیان کی یہ بات کتنی صحیح اورغلط ہے؟لیکن دھڑلے سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے من سے ایک بات گڑھ کر ان کی جانب منسوب کردی ہے۔یہ ابھی تک نہیں کہاجاسکتاکہ ابن تیمیہ کی تمام کتابیں طبع ہوچکی ہیں۔کتنی ہی کتابیں اورکتنے ہی نقول ایسے ہیں جس کو ہم ماضی کے علماء کے حوالہ سے پڑھتے ہیں لیکن ان کتابوں کے طبع ہونے کے باوجود وہ بات اس میں نہیں ملتی۔
مختصرحوالہ دے دوں کہ ابن سعد کے حوالہ سے حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے انس بن مالک کو دیکھالیکن طبقات ابن سعد میں یہ بات موجود نہیں ہے لیکن کیااس کی وجہ سے کسی کیلئے مناسب ہوگاکہ وہ حافظ ذہبی پر اتہام تراشی کرے۔بس ویسے ہی ابوحیان پر ہی اتہام تراشی کرنامناسب نہیں ہے۔ہوسکتاہے کہ ان کے سامنے جوکتاب اورجوحوالہ موجود ہو وہ ہمارے پاس نہ ہو۔

ویسے یہ مذکورہ بات ابن قیم نے اپنی کتاب بدائع الفوائد میں لکھی ہے
ابن قیم لکھتے ہیں۔
فائدة:
قال القاضي: "صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش" قال القاضي: "وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي". انتهى.
قلت: وهو قول ابن جرير الطبري وإمام هؤلاء كلهم مجاهد إمام التفسير وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه
حديث الشفاعة عن أحمد ... إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده ... على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه ... ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده ... ولا تنكروا أنه يقعده
(بدائع الفوائد4/40)


اس پرالبانی نے نقد بھی کیاہے ۔چنانچہ وہ مختصرالعلو میں لکھتے ہیں۔

ومن العجيب حقا أن يعتمد هذا الأثر الإمام ابن القيم رحمه الله تعالى فإنه نقل كلام القاضي أبي يعلى فيه وبعض أسماء القائلين به, ثم قال ابن القيم رحمه الله:
قلت: وهو قول ابن جرير الطبري وإمام هؤلاء كلهم مجاهد إمام التفسير وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه".
ثم ذكره مثلما ذكره المصنف فيما يأتي في ترجمة "134 - الدراقطني" وزاد بيتا رابعا لعل المصنف تعمد حذفه:
"ولا تنكروا أنه قاعد ... ولا تنكروا أنه يقعده"!
قلت: وقد عرفت أن ذلك لم يثبت عن مجاهد, بل صح عنه ما يخالفه كما تقدم. وما عزاه للدارقطني لا يصح إسناده كما بيناه في "الأحاديث الضعيفة" "870" وأشرت إلى ذلك تحت ترجمة الدارقطني الآتية. وجعل ذلك قولا لابن جرير فيه نظر, لأن كلامه في "التفسير" يدور على إمكان وقوع ذلك كما سبق لا أنه وقع وتحقق, ولذلك قال الإمام القرطبي في "تفسيره" "10/ 311":
"وعضد الطبري جواز ذلك بشطط من القول, وهو لا يخرج إلا على تلطف في المعنى وفيه بعد, ولا ينكر مع ذلك أن يروى, والعلم يتأوله "
ثم بين وجه تأويله, بما لا حاجة بنا إلى ذكره والنظر فيه, ما دام أنه أثر غير مرفوع, ولو افترض أنه في حكم المرفوع, فهو في حكم المرسل الذي لا يحتج به في الفروع فضلا عن الأصول, كما ذكرت ذلك أو نحوه فيما يأتي من التعليق على قولة بعضهم: "ولا نتكلم في حديث فيه فضيلة للنبي صلى الله عليه وسلم بشيء"! التعليق "265".
ولعل المصنف رحمه الله تعالى يشير إلى ذلك بقوله في ترجمة "165 - القاضي العلامة أبو بكر بن العربي" وقد نقل عنه القول بهذا القعود معه على العرش: قال:
"وما علمت للقاضي مستندا في قوله هذا سوى قول مجاهد".
وخلاصة القول: إن قول مجاهد هذا -وإن صح عنه- لا يجوز أن يتخذ
ينا وعقيدة, ما دام أنه ليس له شاهد من الكتاب والسنة, فيا ليت المصنف إذ ذكره عنده جزم برده وعدم صلاحيته للاحتجاج به, ولم يتردد فيه, فإنه هو اللائق به, وبتورعه من إثبات كلمة "بذاته" والله المستعان.

چونکہ اس تعلق سے ایک اثربھی مجاہد رضی اللہ عنہ کے واسطے سے وارد ہے اس لئے یہ بات امکان کے دائرہ میں رہتی ہے کہ شاید ابن تیمیہ نے بھی اس تعلق سے کچھ کہاہو۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
حدیث رد شمش

حدیث ردشمس کے تعلق سے ہم ذرا بن تیمیہ کے موضوعات کا جائزہ لیتے چلیں۔جس پر کفایت اللہ صاحب نے اپنے استدلال کامحل تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے۔ واضح رہے کہ ہم پہلے ہی یہ بات کہہ چکے ہیں کہ اس حدیث کی فنی حثیت کیاہے وہ صحیح ہے جیساکہ امام طحاوی کا کہناہے، حسن ہے جیساکہ کچھ دیگر محدثین کاکہناہے یاپھرضعیف اورموضوع ہے اس سے کوئی مطلب نہیں۔ ہمارامقصود صرف اس قدر ہے کہ ایک حدیث کی آڑ لے کر امام طحاوی کو ناقد اورمحدث ہونے کی فہرست سے باہر نہیں کیاجاسکتا۔اوراگرمحض ایسی ہی بات ہے توپھرابن تیمیہ امام طحاوی سے بدرجہازیادہ اخراج کے مستحق ہوں گے۔
اب ذراابن تیمیہ کے کچھ مزعومات پر بھی بات ہوجائے۔

کفایت اللہ صاحب ابن تیمیہ علیہ الرحمہ سے بھی دوہاتھ آگے نکل کر فرماتے ہیں
اس حدیث کا موضوع ومن گھڑت ہونا اس کے الفاظ ہی سے ظاہر ہے، پھر بھی طحاوی صاحب نے اس کی تحسین کردی
ویسے ان کو اوران کے قبیلہ کے تمام علماء کو دعوت عام اورصلائے تام ہے کہ وہ اس حدیث کا اس کے الفاظ سے موضوع اورمن گھڑت ہوناثابت کریں؟

ابن تیمیہ کے حوالہ سے کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
ی
اد رہے کہ اجلہ محدثین نے اس روایت کو صحیح کہنا تو درکنا اس کا اپنی کتاب مین تذکرہ تک نہیں کیا ہے ، شیخ الاسلام کہتے ہیں:
وقد صنف جماعة من علماء الحديث في فضائل علي كما صنف الإمام أحمد فضائله وصنف أبو نعيم في فضائله وذكر فيها أحاديث كثيرة ضعيفة ولم يذكر هذا لأن الكذب ظاهر عليه بخلاف غيره وكذلك لم يذكره الترمذي مع أنه جمع في فضائل علي أحاديث كثير منها ضعيف وكذلك النسائي وأبو عمر بن عبدالبر وجمع النسائي مصنفا في خصائص علي [منهاج السنة النبوية 8/ 195]۔

شیخ الاسلام مزید کہتے ہیں:
وهذا الحديث ليس في شيء من كتب الحديث المعتمدة لا رواه أهل الصحيح ولا أهل السنن ولا المساند أصلا بل اتفقوا على تركه والإعراض عنه فكيف يكون مثل هذه الواقعة العظيمة التي هي لو كانت حقا من أعظم المعجزات المشهورة الظاهرة ولم يروها أهل الصحاح والمساند ولا نقلها أحد من علماء المسلمين وحفاظ الحديث ولا يعرف في شيء من كتب الحديث المعتمدة [منهاج السنة النبوية 8/ 177]۔
یہ بات ماقبل میں ذکر کی جاچکی ہے کہ ابن تیمیہ جس پہلو کو اختیار کرتے ہیں مکمل طورپر اس کے اثبات کے درپے ہوتے ہیں اورفریق مخالف کے ساتھ بسااوقات انصاف نہیں کرپاتے۔اب زیر بحث موضوع کو ہی دیکھ لیں ۔انہوں نے یہ نام توگنادیاکہ فلاں فلاں نے اپنی کتابوں میں ذکر نہیں کیا لیکن ان کے علاوہ جن دیگرمصنفین اورمحدثین نے اپنی کتابوں میں ذکرکیاسرے سے انہوں نے اس کا کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا۔ ذرادیکھتے چلیں کہ کن لوگوں نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کا ذکرکیاہے۔

ابو بكر الوراق , له كتاب ((من روى رد الشمس )
2 ـ ابو الحسن شاذان الفضلي , له رسالة في طرق الحديث , ذكر شطرا منها الحافظ السيوطي في ((اللئالئ المصنوعة )) ج2 : ص 175 وفي ط : ج 1 ص 336.
وقـال : اورد طـرقـه باسانيد كثيرة وصححه بما لا مزيدعليه , ونازع ابن الجوزي في بعض من طعن فيه من رجاله .
3 ـ الـحـافـظ ابو الفتح محمد بن الحسين الازدي الموصلي , له كتاب مفرد فيه , ذكره له الحافظ الكنجي [في الفصل الثاني بعد الباب المائة ] من ((الكفاية )) [ص 239 ].
4 ـ ابـو القاسم الحاكم ابن الحذا الحسكاني النيسابوري الحنفي له رسالة في الحديث اسماها ـ مسالة في تصحيح ردالشمس وترغيم النواصب الشمس ـ , ذكر شـطـرا مـنـهـا ابن كثير في البداية والنهاية ج 6 ص 80 [وابن تيمى ة في منهاجه ج 4 ص 194] وذكره له الذهبي في تذكرته : ج3 ص 368 [وفي ط : ج 4 ص 39 وفي ط ص 1200).
5 ـ ابو عبداللّه الجعل الحسين بن علي البصري ثم البغدادي المتوفى عام 399 , ذلك الفقيه المتكلم , له كتاب ((جواز رد الشمس ))
6 ـ اخـطـب خـوارزم ابو المؤيد موفق بن احمدالمتوفى سنة 568 له كتاب ((رد الشمس لامير المؤمنين )
7 ـ ابو علي الشريف محمد بن اسعد بن علي بن المعمر الحسني النقيب النسابة المتوفى سنة 588 , لـه جـزفي جمع طرق حديث رد الشمس لعلي , اورد فيه احاديث مستغربة ((لسان الميزان ج 5 : ص 76)


یہ تمام افراد وہ ہیں جوکہ ابن تیمیہ سے پہلے گزرچکے ہیں اورابن تیمیہ جیسے وسیع النظرعالم سے یہ بات بعید ہے کہ ان کوان میں سے کسی کی کتاب کا پتہ نہیں چل سکاہو۔
اس کے علاوہ کچھ مزیدمحدثین کے اسماء گرامی کو دیکھتے چلیں۔

1

  • [*] ـ الـحافط ابو الحسن عثمان بن ابي شيبة العبسي الكوفي المتوفى 239 , رواه في سننه [ورواه ايـضا ابو بكرابن ابي شيبة كما رواه بسنده عنه الطبراني في الكبير ,والسيوطي في آخر رسالة رد الشمس ].
    [*]2 ـ الـحـافـظ ابـو جـعـفـر احـمـد بن صالح المصري المتوف ى سنة 248 , شيخ البخاري في صـحيحه ونظراه المجمع على ثقته , رواه بطريقين صحيحين عن اسما بنت عميس وقال : لا ينبغي لـمـن كان سبيله العلم التخلف عن حفظ حديث اسما الذي روي لنا عنه صلى اللّه عليه وسلم لانه من اجل علامات النبوة .
    [*]3 ـ محمد بن الحسين الازدي المتوفى [سنة ] 277 ,ذكره في كتابه في مناقب علي رضي اللّه عنه وصححه كماذكره ابن النديم و [ابراهيم بن حسن ] الكوراني وغيرهماراجع لسان الميزان : ج 5 ص 140.
    [*]4 ـ الـحـافـظ ابـو بشر محمد بن احمد الدولابي المتوفى سنة 310 , اخرجه في كتابه (الذرية الطاهرة ) ص 129 وسياتي لفظه واسناده .
    [*]5 ـ الحافظ ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوي المتوفى عام 321 , في ((مشكل الاثار)) : [ج ] 2 ص 11 ,اخـرجـه بـلفظين وقال : هذان الحديثان ثابتان ورواتهما ثقات
    [*]6 ـ الحافط ابو جعفر محمد بن عمرو العقيلي المتوفى سنة 322 والمترجم [في ج ] 1 ص 161.
    [*]7 ـ الـحـافـظ ابـو الـقاسم الطبراني المتوفى عام 360والمترجم [في ج ] 1 ص 105 , رواه في معجمه الكبير وقال :انه حسن .
    [*]8 ـ الـحـاكـم ابو حفص عمر بن احمد الشهير بابن شاهين المتوفى سنة 385 , ذكره في مسنده الكبير.
    [*]9 ـ الـحـاكم ابو عبداللّه النيسابوري المتوفى عام 405والمترجم [في الغدير : ج ] 1 ص 107 , ورواه [ايضا الحاكم ]في تاريخ نيسابور في ترجمة عبداللّه بن حامد الفقيه الواعظ10 ـ الحافظ ابن مـردويـه الاصـبـهـانـي الـمـتـوفـى سـنـة416 والـمترجم [في ج ] 1 ص 108 , اخرجه في ((المناقب ))باسناده عن ابي هريرة .
    [*]11 ـ ابـو اسـحاق الثعلبي المتوفى عام (427 او 437) رواه في تفسيره ,وفي قصص الانبيا الموسوم ب ((العرائس )) ص 139.
    [*]12 ـ الـفـقيه ابو الحسن علي بن حبيب البصري البغدادي الشافعي الشهير بالمارودي المتوفى عام 450 ,عده من اعلام النبوة في كتابه ((اعلام النبوة )) ص 79 , ورواه من طريق اسما.
    [*]13 ـ الحافظ ابو بكر البيهقي المتوفى سنة في ((الـدلائل ))كـمـا فـي ((فيض القدير)) للمناوي : ج 5 ص 440 [والباب (8)من كتاب فرض الـخـمـس مـن فـتـح الـبـاري : ج 6 ص 221]
    [*]14 ـ الـحـافـظ الـخطيب البغدادي المتوفى عام 463 ذكره في ((تلخيص المتشابه )) و ((الاربعين )).
    [*]15 ـ الحافظ ابو زكريا الاصبهاني الشهير بابن مندة المتوفى سنة 512 اخرجه في كتابه ((المعرفة )).
    [*]16 ـ الـحـافـظ الـقاضي عياض ابو الفضل المالكي الاندلسي امام وقته المتوف ى عام 544 , رواه في كتابه ((الشفا)) وصححه .
    [*]17 ـ اخـطـب الـخطبا الخوارزمي ـ المتوفى سنة568رواه في [الحديث 23 وتاليه من الفصل (19) من كتاب ]((المناقب )).
    [*]18 ـ الـحـافـظ ابو الفتح النطنزي رواه في ((الخصائص العلوية )).
    [*]19 ـ ابـو المظفر يوسف قزاوغلي الحنفي المتوفى عام 654 , رواه في ((التذكرة )) ص 30

یہ تمام محدثین وہ ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں مذکورہ حدیث کا ذکر کیاہے اوراس پر کلام کیاہے۔یہ مان لینابہت مشکل ہے کہ ابن تیمیہ کو ان میں سے کسی کی تصنیف کا پتہ نہیں چل سکااوروہ لاعلم رہے کہ مذکورہ محدثین نے اپنی کتابوں میں اس کا ذکر کیاہے ۔کیایہ سارے محدثین جن کے نام ذکر کئے گئے بالکل بے حیثیت ہیں اوران کا کوئی اعتبار نہیں۔اوروہ لاشے محض ہیں۔

ان میں سے بعض محدثین نے کھل کر اورواضح طورپر اس کا اعتراف کیاہے کہ مذکورہ حدیث حسن ہے اوربعض نے صحیح کہاہے اوربعض حضرات نے تواس حدیث کو علامات نبوت میں شمار کیاہے۔
کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں

یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ طحاوی صاحب کی یہ تصحیح ان کے تساہل کا نتیجہ ہے جیساکہ امام ترمذی و امام حاکم رحمہما اللہ سے تساہل کے سبب حکم حدیث میں چوک ہوئی ہے اس لئے کہ امام ترمذی اور اورامام حاکم کی فنی مہارت ناقابل انکار دلائل سے ثابت ہے اس لئے اہل علم نے انہیں صرف متساہل کہا ہے نہ کے علم رجال سے ناواقف، لیکن طحاوی صاحب کے بارے میں ان کی توثیق کے علاوہ ایسی کوئ بات نہیں ملتی جس سے علم اسناد میں بھی موصوف کی مہارت کا پتہ چلے، لہذا مذکورہ موضوع حدیث کی تحسین طحاوی صاحب کی اس فن میں عدم مہارت ہی کا نتیجہ ہے۔
کفایت اللہ صاحب اصول بحث سے لاعلمی کا شاندار نمونہ پیش کررہے ہیں یعنی جس امر پر بحث ہورہی ہے اس کو لیل بنارہے ہیں۔منطق کی اصطلاح میں اس کودوران دور کہاجاتاہے۔
کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ وہ امام طحاوی کی علم حدیث میں عدم مہارت کے دوسرے دلائل تلاش کریں کیونکہ اب تک انہوں نے جوکچھ پیش کیاہے وہ صرف چند اقوال ہیں جن کی دلائل کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں۔اوراس کو بخوبی ماقبل مین ثابت کیاجاچکاہے۔
لیکن طحاوی صاحب کے بارے میں ان کی توثیق کے علاوہ ایسی کوئ بات نہیں ملتی جس سے علم اسناد میں بھی موصوف کی مہارت کا پتہ چلے، لہذا مذکورہ موضوع حدیث کی تحسین طحاوی صاحب کی اس فن میں عدم مہارت ہی کا نتیجہ ہے۔
یہ جملہ حقیقت میں صرف ادعا سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ماقبل میں ہم نے امام طحاوی کے علو شان کے باب میں جواقوال پیش کئے ہیں وہ یہ بتانے کیلئے کافی ہیں اگرکفایت اللہ صاحب جیسے ہزاروں افراد مل کربھی اسی بات کو دوہرائیں توکوئی اثرپڑنے والانہیں ہے۔کیونکہ دن دوپہر میں اس کی ضرورت نہیں پڑتی کہ آفتاب کے عدم وجود پر اگردوسوافراد گواہی دے دیں توان کی گواہی مان لی جائے۔ آفتاب کا وجود بذات خود ان دوسواہوں کے جھوٹے ہونے پر شاہدعدل ہوگا۔ مختصراحافظ کی ہی گواہی دیکھ لیں۔
حافظ ابن حجر ابن رافع کے ترجمہ میں انباء الغمر میں لکھتے ہیں۔

والانصاف ان ابن رافع اقرب الی وصف الحفظ علی طریقۃ اہل الحدیث من ابن کثیر لعنایتہ بالعوالی والاجزاء والوفیات والمسموعات دون ابن کثیر ،وابن اکثر اقرب الی الوصف بالحفظ علی طریقۃ الفقہاء لمعرفتہ بالمتون الفقھیۃ والتفسیریۃ دون ابن رافع،فیجمع منھما حافظ کامل،وقل من جمعھما بعداھل العصرالاول،کابن خزیمۃ والطحاوی وابن حبان والبیہقی۔1/62

یہ واضح رہے کہ حافظ شافعی المسلک ہیں اوران کو احناف سے ایک گونہ تعصب بھی ہے جس کی صراحت خود ان کے عزیز شاگرد حافظ سخاوی نے الدررالکامنہ کے مخطوطہ کے حواشی پر کیاہے۔

امام طحاوی کی تصانیف آفتاب نیمروز کی طرح یہ بتانے کیلئے کافی ہیں کہ ان کوعلم حدیث میں کس درجہ مہارت اوراستناد حاصل تھا۔
ذرا ان اجلہ علماء کے نام مع حوالہ پیش کریں تاکہ ہمیں بھی تو معلوم ہو کس کس نے مذکورہ موضوع من گھڑت حدیث کو صحیح کہا ہے، ہمیں معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے اس حدیث کو صحیح سمجھا ہے لیکن یہ لوگ ناقدین محدثین کی فہرست میں نہیں آتے ، آپ ذرا حوالہ دیں تو بات بنے ۔
آپ کی یہ خواہش بھی ہم پوری کردیتے ہیں ۔
الـحـافـظ ابـو جـعـفـر احـمـد بن صالح المصري المتوف ى سنة 248 , شيخ البخاري في صـحيحه ونظراه المجمع على ثقته , رواه بطريقين صحيحين عن اسما بنت عميس وقال : لا ينبغي لـمـن كان سبيله العلم التخلف عن حفظ حديث اسما الذي روي لنا عنه صلى اللّه عليه وسلم لانه من اجل علامات النبوة .

7 ـ الـحـافـظ ابـو الـقاسم الطبراني المتوفى عام 360والمترجم [في ج ] 1 ص 105 , رواه في معجمه الكبير وقال :انه حسن .
16 ـ الـحـافـظ الـقاضي عياض ابو الفضل المالكي الاندلسي امام وقته المتوف ى عام 544 , رواه في كتابه ((الشفا)) وصححه
اورلیجئے حافظ ابن حجر عسقلانی کی بھی بات دیکھ لیجئے۔ان کی بات اس لئے بھی قابل قدر ہیں کہ انہوں نے واضح طورپر ابن جوزی اورابن تیمیہ پر اس حدیث کو موضوع قراردینے کے سلسلے میں تنقید کی ہے۔
وَرَوَى الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لَمَّا نَامَ عَلَى رُكْبَةِ عَلِيٍّ فَفَاتَتْهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَرُدَّتِ الشَّمْسُ حَتَّى صَلَّى عَلِيٌّ ثُمَّ غَرَبَتْ وَهَذَا أَبْلَغُ فِي المعجزة وَقد أَخطَأ بن الْجَوْزِيّ بإيراده لَهُ فِي الموضوعات وَكَذَا بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ فِي زَعْمِ وَضْعِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ
(فتح الباری ص6/221)
حافظ ولی الدین ابوزرعہ الدمشقی طرح التثریب میں لکھتے ہیں۔
رَوَى الطَّبَرَانِيُّ فِي مُعْجَمِهِ الْكَبِيرِ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ أَيْضًا عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّى الظُّهْرَ بِالصَّهْبَاءِ ثُمَّ أَرْسَلَ عَلِيًّا فِي حَاجَةٍ فَرَجَعَ، وَقَدْ صَلَّى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - الْعَصْرَ فَوَضَعَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - رَأْسَهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَنَامَ فَلَمْ يُحَرِّكْهُ حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - اللَّهُمَّ إنَّ عَبْدَك عَلِيًّا احْتَبَسَ بِنَفْسِهِ عَلَى نَبِيِّهِ فَرُدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَطَلَعَتْ عَلَيْهِ الشَّمْسُ حَتَّى وَقَفَتْ عَلَى الْجِبَالِ وَعَلَى الْأَرْضِ، وَقَامَ عَلِيٌّ فَتَوَضَّأَ، وَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ غَابَتْ، وَذَلِكَ بِالصَّهْبَاءِ» ، وَفِي لَفْظٍ آخَرَ «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ يَكَادُ يُغْشَى عَلَيْهِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَوْمًا، وَهُوَ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّيْت الْعَصْرَ؟ فَقَالَ لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَدَعَا اللَّهَ فَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّمْسَ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ قَالَتْ فَرَأَيْت الشَّمْسَ طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَابَتْ حِينَ رَدَّتْ حَتَّى صَلَّى الْعَصْرَ»
(طرح التثریب 7/247)
حافظ سخاوی
وہ مذکورہ حدیث میں لکھتے ہیں۔
حَدِيث: رَدُّ الشَّمْسِ عَلَى عليٍّ، قال أحمد: لا أصل له، وتبعه ابن الجوزي، فأورده في الموضوعات، ولكن قد صححه الطحاوي، وصاحب الشفاء، وأخرجه ابن منده، وابن شاهين ن حديث أسماء ابنة عميس، وابن مردويه من حديث أبي هريرة،
(المقاصدالحسنہ1/366)
حیرت کی بات یہ ہے کہ الدررالسنیہ میں اگراس حدیث کو تلاش کیاجائے تونتیجہ کچھ اس طرح نکلتاہے۔
رد الشمس على علي
الراوي: أبو هريرة و أسماء بنت عميس المحدث: الإمام أحمد - المصدر: المقاصد الحسنة - الصفحة أو الرقم: 270
خلاصة حكم المحدث: لا أصل له


جب کہ آپ نے ماقبل میں ان کی پوری عبارت دیکھ لی کہ ان کا رجحان اس حدیث کے موضوع ہونے کی جانب نہیں بلکہ اس کے اثبات کی جانب ہے۔یہی وجہ ہے کہ اولاامام احمد اورابن جوزی کی ذکر کرکے بعد ازاں تصحیح کنندگان کی بات پیش کی ہے۔

کچھ مزید اسماء اس حدیث کی تقویت وتحسین کنندگان کے ذکر کئے جاسکتے ہیں لیکن اختصار کی غرض سے اتنے پرہی ہم بس کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ابن تیمیہ علیہ الرحمہ نے جن بنیادوں پر اپنے استدلال کامحل تعمیر کیاہے بطورخاص عقلی بنیادیں ۔وہ سب کی سب قابل انتقاد ہیں۔اوران سب کا جواب حافظ ابن حجر ہیتمی نے اپنی کتاب میں دے دیاہے۔ اس کے علاوہ حافظ صالحی نے بھی اس حدیث پر کلام کیاہے۔

ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں اورایک پھر عرض کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ احادیث کی تصحیح وتضعیف ایک اجتہادی امر ہے۔اس میں نقطہ نگاہ کا مختلف ہوناکوئی بعید نہیں ہے۔اس کو کسی کے قلت علم کی دلیل بناناجہالت کی بین دلیل ہے۔اوراگریہی معیارٹھہرے توپھربشمول ابن تیمیہ بہت سارے دیگر محدثین اسی صف میں کھڑے نظرآئیں گے جہاں کفایت اللہ صاحب امام طحاوی کو رکھناچاہ رہے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
اس کا جواب بھی اوپر ہوچکا ہے نیز یہ داخلی شہادت ہرگز نہیں ہے ۔(بسلسلہ امام غزالی)
اس جواب کو قارئین خود ملاحظہ کرلیں کہ صفدی جوان کے معاصر ہیں وہ کیاکہہ رہے ہیں اور ہمارے کفایت اللہ صاحب کیاکہہ رہے ہیں۔
داخلی شہادت مین اس کو اس لئے ذکر کیاگیاتھاکہ یہ ان کےد وران کلام درشت کلامی کی ایک مثال تھی ۔اوربس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

محترم خاندانی اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ لازم ملزوم نہیں ہے اس لئے شیخ الاسلام سے متعلق اس طرح کی باتوں کے لئے ثبوت چاہئے جسے آپ نے اب تک پیش نہیں کیا ۔
آپ نے اگرتمام دلیلوں کیلئے بس یہی نسخہ کیمیااپنارکھاہے کہ فلاں نے اگریہ بات لکھی ہے تواس کی کتاب میں فلاں بات صحیح نہیں لہذا اس کی یہ بات بھی صحیح نہیں اورفلاں بعد والے نے یہ لکھاہے تو اس نے بس اسی کی بات دوہرادی ہے۔ فلانے نے یہ بات لکھی ہے تو وہ کتاب صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔(اگرچہ ثابت ہو)فلاں سلفیوں سے خار رکھتاہے اس لئے جوچاہاسولکھ دیا۔
اس طرح کی تنقیدپرتودنیا بھر کی دلیلیں رد کردی جاسکتی ہیں کیونکہ جوکچھ آپ کے مزاج شریف کے مطابق ہوگاوہ عین واقعہ اورصواب ودرست اورجوخیال مبارک سے ہم آہنگ نہ ہوا تو وہ ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کے لائق ۔


نیز آپ کی منقولہ عبارت میں صرف ’’حدت ‘‘ کی بات ہے اورآپ کے حکیم الامت اس حدت کو شدت کے معنی میں لیتے ہی نہیں چنانچہ:
حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’’میں نے قصائنی کا دددھ پیا ہے اس لئے بھی میرے مزاج میں ’’حدت ‘‘ ہے مگر الحمدللہ ’’شدت‘‘ نہیں ۔(اشرف السوانح :ج ١ص١٨)
مزید وضاحت کی جاچکی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ عربی اوراردو میں بہت سارے لفظ یکساں بولے جاتے ہیں لیکن معنی اورمطلب میں زمین وآسمان کا فرق ہوتاہے۔ لفظ کی یکسانیت سے معنی کوبھی یکساں سمجھنے عجیب وغریب فہم کی دلیل ہے۔مثلااردو میں ایک لفظ غلیظ استعمال ہوتاہے۔ کیااردو میں یہ جس معنی میں استعمال ہوتاہے عربی میں بھی اسی معنی میں استعمال ہوتاہے؟اردو میں غلیظ کا معنی گندہ اورعربی مین سخت کے آتے ہیں۔
اس طرح کی مثالیں کم نہیں ہیں بلکہ تھوڑے سے غوروفکر سے آپ کے سامنے ایسے الفاظ کے ڈھیر لگ جائیں گے جودوزبانوں میں یکساں ہیں لیکن معنی کے لحاظ سے بہت فرق ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ ہرزبان کا اپنااثر اوردخل ہوتاہے اوروہ الفاظ کے مفہوم میں برابرقطع برید کرتارہتاہے لہذا یہ عین ممکن ہے کہ ایک لفظ کا ایک معنی جو سوسال پہلے تھا وہ سوسال بعد دوسرے معنی مین بدل جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ اردو میں حدت ہم جس معنی میں استعمال کرتے ہیں بعینہ وہی معنی عربی میں بھی مستعمل ہو یہ ضروری نہیں ہے۔اردو میں حدت کے معنی تیزی کے ہیں۔یعنی مخاطب کوایسالگے کہ فلاں صاحب تیز لہجے میں بات کررہے ہیں۔تھوڑے غصے میں ہیں جب کہ یہ ان کی فطرت اوران کا لہجہ ہوتا ہے۔
شدت کا معنی اردو میں کسی کے مزاج میں اس معنی میں استعمال کیاجاتاہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کی سنتے ہی نہیں اوراپنی جورائے ہوتی ہے اسی پر جمے رہتے ہیں۔مخاطب کا کماحقہ ادب واحترام نہیں کرتے وغیرذلک ۔
میراخیال یہ ہے کہ اس کے ذریعہ حدت وشدت کا مسئلہ حل ہوگیاہوگااورآپ کو حدت وشدت مین فرق سمجھ میں آنے کے بعد مولانااشرف علی تھانوی کا کلام قابل اعتراض نہیں لگے گا۔
ہم نے ابن تیمیہ کے تعلق سے عرض کیاتھا
مناظرے اورردود:مناظرے اورردوتردید کا ایک خاصہ یہ ہے کہ بات پہلے سنجیدہ اندازمیں شروع ہوتی ہے پھر دھیرے دھیرے گرمی آتی ہے اورفریقین ایک دوسرے پر طنز وتعریض شروع کرتے ہیں اورآخر میں بات ایک دوسرے کوبرابھلاکہنے اور تنابزباالالقاب تک پہنچ جاتی ہے۔ حضرت ابن تیمیہ بھی معصوم نہ تھے بشرتھے۔مزاج میں حدت وشدت پہلے سے تھی۔ اس پر سے ان کی بیشتر زندگی اپنے حریفوں اورفریقوں سے مناظرہ اورمباحثہ میں گزرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
اس پر کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں۔
اول تو یہ ساری باتیں بے دلیل ہیں ۔
دوم اگر ان کی شدت کا ظہور مناظرے کے وقت ہوتا تھا ، تو ان کے ایک سنجیدہ فتوی پر آپ نے ان کی شدت کا حوالہ کیوں دیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
مجھے یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ ان کو کس قسم کے دلیل کی ضرورت ہے۔کیاابن تیمیہ کی زندگی کا بیشتر حصہ ردود اورمناظرات مین نہیں گزرا۔کیاان کی بیشتر تالیفات وتصنیفات ردوکد پر نہیں ہیں۔اگروہ اس کاانکار کرتے ہیں تو واضح کریں انشاء اللہ دلیل کے ساتھ بات کہہ دی جائے گی۔
یہی بات ابن تیمیہ کے سوانح نگار شیخ ابوزہرہ نے کہی ہے۔توکفایت اللہ صاحب کافرمان ذیشان یہ ہے کہ وہ ابن تیمیہ کے مخالفین میں سے ہیں۔ پتہ نہیں انہوں نے کہاں یہ پڑھ لیاہے کہ وہ ابن تیمیہ کے مخالفین میں سے ہیں۔ اگرخداکبھی توفیق دے تو ملتقی اہل الحدیث کے مراسلہ نگاروں کی تقلید سے باہر نکل کرابوزہرہ کی تالیف کا خود کھلی آنکھوں اورکھلے دماغ سے مطالعہ کریں انشاء اللہ افاقہ اورتیربہدف فائدہ ہوگا۔نہیں تومیرے مراسلہ کا یہ پیراگراف واپس(ابتسامہ)
حقیقت یہ ہے آپ نے فتویٰ ادھورانقل کیاجس سے مطلب میں خلل پیداہورہاتھا۔اسی کے طورپر میں نے پوسٹ لکھاجس سے صرف یہ واضح کرنامقصود تھاکہ حضرت ابن تیمیہ کے فتاوی تثبت اورتامل کے بعد قبول کئے جائیں کیونکہ ان کے مزاج میں شدت ہے۔جس پر آپ نے بات بڑھانی شروع کردی اوراگرنفس ابن تیمیہ کی شدت پر ہی قائم رہتے توبھی موضوع سے انصاف ہوتالیکن ایران وتوران کے ساتھ کہاں کہاں کی سیر کرڈالی۔

حافظ ذہبی کی ایک مزید گواہی

وكان قد لحقهم حسد للشيخ وتألموا منه بسبب ما هو المعهود من تغليظه وفظاظته وفجاجة عبارته، وتوبيخه الأليم المبكي المنكي المثير
النفوس
، ولو سلم من ذلك لكان أنفع للمخالفين، لا سيما عبارته في هذه الفتيا الحموية. وكان غضبه فيها لله ولرسوله باجتهاده. فانتفع بها أناس وانفصم بها آخرون ولم يحملوها۔
تاريخ الإسلام للذهبي الجزء الثاني والخمسون الصفحة 317


اوران کو شیخ (ابن تیمیہ )سے حسدہوا اوروہ لوگ(ابن تیمیہ کے مخالفین)ان سے نالاں ہوئے اس کی وجہ ابن تیمیہ کی سخت اوردرشت کلامی اورمخاطب کے ساتھ بات میں جھڑکناوغیرہ تھاجودلوں میں کدورت پیداکرنے کاسبب بنی تھی اوراگرابن تیمیہ اپنی سخت ودرشت کلامی سے محفوظ رہتے تویہ مخالفین کے حق زیادہ نفع مند ہوتا۔خاص طورپر ان کاانداز تحریر جو فتوی حمویہ میں ہے۔اس میں ان کا غصہ اللہ اوراس کے رسول کیلئے تھاجوانہوں نے اپنے اجتہاد سے اختیار کیا۔تواس سے ایک گروہ کو فائدہ پہنچا اوردوسرے برگشتہ ہوگئے اورانہوں نے ان کی درشت کلامی کاتحمل نہیں کیا۔

ذہبی کی یہ عبارت بھی بڑی واضح ہے۔لیکن کیاپتہ کفایت اللہ صاحب اس کوبھی تاویل کی خرادمشین پر چڑھادیں۔



جمشید صاحب نے ایک دوسرے تھریڈ میں کہا تھا:
اصل پیغام ارسال کردہ از: جمشید
اب کفایت اللہ صاحب جوجواب دیناچاہیں شوق سے دیں۔
ویسے ہم ایک دوسرتے تھریڈ میں جوابن تیمیہ کے تعلق سے جواب کے منتظر ہیں۔ والسلام
عرض ہے ہمارے پاس فرصت کے لمحات انتہائی محدود ہیں اس لئے بیک وقت ہرجگہ جواب نہیں دیا جاسکتا بہرحال فرصت نکال کر ہم نے جوابات دے دئے ہیں اب ہمیں بھی جمشید صاحب کے جواب کا انتظارہے۔۔۔۔والسلام
اعتذارنامہ
اس بحث کامکمل جواب دینے میں بہت دن لگے۔لیکن یہ تاخیر جوئی ہوتواس کے اپنے کچھ اسباب اورمحرکات تھے جس کی تفصیل میں جانا اپنااورقارئین کا قیمتی وقت ضائع کرناہے۔

ہوئی تاخیر توکچھ باعث تاخیر بھی تھا​

مولانا ابوالکلام آزاد ترجمان القرآن کی کاپیاں ضبط کئے جانے اورپھر لکھنے میں دشواری کے تعلق سے لکھتے ہیں (مفہوم یہ ہے)سیاست اورتصنیف وتالیف کامیدان پنبہ (روئی)وآتش کو بہم کرناہے ۔اگراس حدتک نہیں توکسی حد تک یہ بات ضرورکہی جاسکتی ہے کہ صحافت اوردینی مباحث دوالگ الگ سمت رکھتے ہیں۔ آپ دن بھر قتل وغارت گری اور سیاست دانوں کے بیانات میں سرکھپائیں اورشام کو سوچیں کہ کچھ دینی اورعلمی مباحث پرکچھ لکھ دیں ۔یہ کام بڑامشکل ہوتاہے۔ ذہن یکسوئی چاہتاہے اللہ نے کسی شخص کے دودل نہیں بنائے اسی طرح دماغ میں دوطرفہ میدان میں کام نہیں کرسکتا۔

پرانااورقدیم محاورہ ہے "دیرآیددرست آید"شاید اس دیر آنے میں بھی کچھ درستگی ہو عسی ان تکرھواشیئاوھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کا فیصلہ قارئین کو خود کرناچاہئے۔

ایک ضروری بات کی طرف اشارہ کرنابھی ضروری ہے کہ کچھ مقامات پر عرض ومعروض میں کچھ زیادہ ہی تلخی اورتندی ہے لیکن وہ محض اس مقام کا تقاضاتھایاپھراس وقت کے جذبات کانتیجہ۔یعنی ایک وقتی بات ۔جسے مداومت اورہمیشگی ہے وہ یہ ہے کہ ربنالاتجعل فی قلوبناغلاللذین آمنوالخ اوریہ کہ خدااسے خوش رکھے جوہماری غلطیوں کو ہمارے سامنے لاتاہے؟

یہ ضروری تھاکہ اصل بات جس سے یہ ساری باتیں نکلی ہیں اس کا صحیح اوردرست مفہوم بیان کردیاجاتااورتقلید کی ابن تیمیہ کے نزدیک کیاحیثیت ہے اس کو بھی واضح کردیاجاتالیکن اس کیلئے نئے تھریڈ کی ضرورت ہے۔ اگرخدانے چاہاتو وہ بھی ہوگا۔
تمت
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تمہید




میں نے امام ابوحنیفہ کا تذکرہ کیوں کیا؟؟؟؟؟


قارئیں میں بہت ہی اہم بات کہنے جارہا ہوں پوری توجہ دیں ، جمشیدصاحب کو ابن تیمہ رحمہ اللہ کے حالات میں صرف یہ ملاکہ دوران بحث ان کے مزاج میں حدت آجاتی تھی ۔

قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔

جمشیدصاحب کو صرف اتنی سی بات ملی اوراس کا حوالہ کہاں دے رہے ہیں؟؟؟؟؟؟؟ شیخ الاسلام کے ایک سنجیدہ فتوی پیش کئے جانےپر جس کا صدور کسی بھی بحث کے دوران قطعا نہیں ہوا۔

جمشیدصاحب کے اس حوالہ کا مقصود بالکل واضح ہے کہ وہ یہ حوالہ دے کرشیخ الاسلام کے فتوی کو بے وقت ثابت کرناچاہتے ہیں۔

اب قارئین انصاف کریں !!!!!
کہ ابن تیمہ کے حالات میں صرف ایک بات اوروہ بھی بہت ہی محدود ملی ، اس کے باوجود بھی جمشید صاحب ابن تیمہ کا فتوی سامنے آنے پر اس کاحوالہ دینا ضروی سمجھتے ہیں ۔

توبتلائیے کہ ابوحنیفہ کے حالات میں ابوحنیفہ سے متعلق تو اس سے کئی گنا بڑی بات اوروہ بھی سیکڑوں اوراس سے بھی زائدحوالوں کے ساتھ ملتی ہیں تو ابوحنیفہ کا کوئی فتوی آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

کیا ہمیں ابوحنیفہ پر کی گئی جروح کا حوالہ نہیں دیناچاہے؟

نیزغورکریں کہ جب جمشید صاحب جیسے لوگ ابن تیمیہ کے خلاف ایک معمولی بات پاگئے اوراسی کو لیکراتنا ہنگامہ کررہے ہیں ، دریں صورت اگر ان کے پاس ابن تیمہ کے خلاف اس طرح کے حوالہ جات ہوتے جو ابوحنیفہ کے خلاف ہمارے پاس ہیں تو یہ کیا کرتے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

میں نے اس بات کو اپنے جواب میں بہت آگے پیش کیا تھا لیکن جمشید صاحب نے حالیہ جواب کے پہلے ہی مراسلے میں میری یہ تحریر کوٹ کردی اوراس کاجواب بھی دینے کی ناکام کوشش کی چنانچہ موصوف نے میری مقتبس تحریر کے بعد لکھا:
اس دعوی پارسائی کی وہ غالب کے اس اعتذار سے زیادہ نہیں ہے جو اس نے سہرہ لکھتے وقت استادہ شاہ ذوق پر طنز کیاکہ
دیکھئے اس سہرے سے بڑھ کر کوئی کہہ دے سہرا
اورجب استاد ذوق نے واقعتاغالب سے بہتر سہرہ لکھ کر پیش کردیاتو ناچار غالب کو بھی معذرت لکھنی پڑی اوراس میں بھی ڈھٹائی کا یہ عالم تھاکہ
روئے سخن کسی کی طرف ہوتوروسیاہ
اوریہ کہ
مقطع میں آگئی ہے سخن گسترانہ بات
منظور اس سے قطع محبت نہیں مجھے
اوریہ کہ
استاد شہہ سے ہو مجھے پرخاش کاخیال
یہ بات یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
کچھ غالب کے ہی اعتذار کی کیفیت اس اقتباس میں موجود ہے۔
اس تھریڈ کی یہ بات قابل غور ہے
قارئین غورکریں کہ محض حدت کی بات ہے اوروہ بھی بہت ہی محدود یعنی ’’دوران بحث‘‘ مطلب عام حالات میں نہیں۔
ایک اورتھریڈ میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں۔
اگرہم کفایت اللہ صاحب کی طرح کچاپکا ہضم کرنے کے عادی ہوتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئیں انصاف کریں کہ کیا یہ سطور میری مقتبس تحریرکاجواب ہیں ۔
ہمارا کہنا ہے کہ جمشید صاحب کو ابن تیمیہ سے متعلق صرف محدود حدت کی بات ملی وہ بھی غیر ثابت شدہ ، اب اتنی سی بات وہ ابن تیمیہ سے متعلق نظر انداز نہیں کرسکتے تو کیا ابوحنیفہ سے متعلق اس سے سیکڑوں گنا زائد باتوں سے آنکھیں بند کرلینا انصاف کی بات ہے؟؟؟؟؟


ہماری اس بات کو قارئین پیش نظر رکھیں اب آگے ہم جمشید صاحب کے جوابات کا جائزہ لیتے ہیں:


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے دفاع میں ابوحنیفہ کا ذکر
اور
ابوحنیفہ کے دفاع میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کاذکر



میں نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کادفاع کرتے ہوئے ابوحنیفہ کی شخصیت کو بطور مثال پیش کیا اس پر جمشید صاحب کو دکھ ہوا کہ ابن تیمیہ پر بات کرتے ہوئے بیچ میں ابوحنیفہ کے تذکرہ کی کیا ضرورت تھی ، لیکن خود جمشید صاحب بھی یہی طرز عمل مجھ سے کئی سال قبل اختیار کرچکے ہیں یعنی ابوحنیفہ کے دفاع میں دیگرشخصیات کوبطور مثال پیش کیا ہے بلکہ لطف تو یہ ہے کہ آں محترم نے ابوحنیفہ کے دفاع میں ابن تیمیہ کو بھی بطور مثال پیش کیا ہے ملاحظہ ہو اردو مجلس پر موجود جمشید (الطحاوی) صاحب کے الفاظ:

جمشید (الطحاوی) صاحب لکھتے ہیں:
محدثین امام ابوحنیفہ سے بدظن ہوئے اوراسی وجہ سے بیشتران پر جرح کی گئ۔ اس جرح کا منشاء اکثر لاعلمی اورامام ابوحنیفہ کی شخصیت کے گرد اس دور میں پھیلاہوئی غلط سلط باتیں تھیں۔اس سے انکار نہیں کہ کچھ لوگوں نے امام ابوحنیفہ پر حسد کی وجہ سے بھی کلام کیاہے اوراس سلسلے میں حد سے تجاوز کیاہے (اس کے دلائل آگے ذکر ہوں گے) یہ کوئی اتنی زیادہ عجیب بات بھی نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ ایک دو رمیں امام ابن تیمیہ کوبعض غلط فہمیوں کے سبب کیاسمجھ لیاگیاتھا اوران کو کیاکیانہ کہاگیاتھا۔[بحوالہ اردومجلس]۔
عرض ہے کہ اگر ابو حنیفہ کا دفاع کرتے ہوئے ابن تیمیہ سے متعلق بے بنیاد باتوں کاحوالہ دیا جاسکتا ہے تو پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دفاع کرتے ہوئے ابوحنیفہ سے متعلق مضبوط بنیادوں پرقائم جروح اورروز روشن کی طرح واضح حقائق کو پیش کرنا کیونکر درست نہیں ؟؟؟

رہی یہ بات کہ ابوحنیفہ پر محدثین کی جرح کا منشاء کیا ہے تو اس کی حقیقت جمشید صاحب ہی کے شروع کردہ ایک دوسرے تھریڈ میں بیان کردی جائے گی ۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی تنقیص


میں نے لکھا تھا:
آپ جیسے لوگوں (جوڈنکے کی چوٹ پراپنی جہالت کا اقرار کرتے ہیں اوراسے تقلیدکاسبب قراردیتے ہیں ان) میں یہ شعور کہاں سے آگیا کہ وہ امام مالک ، امام شافعی ، امام احمدبن حنبل ، شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہم اللہ اوردیگر اہل حدیث ائمہ مجتہدین کے خلاف عقل و شعور کا دعوی کرتے پھرے۔
اس پرجمشیدصاحب فرماتے ہیں:
میری پوری تحریر سامنے ہے دکھایاجائے کہ ناچیز نے کہاں ائمہ ثلاثہ امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل پر نقد کیاہے یاکوئی ایسی بات جو ان کی شان کے خلاف ہو ۔
عرض ہے کہ ائمہ ثلاثہ کے خلاف آپ نے جس عقل وشعور کا دعوی کیا ہے اس کی وضاحت تو ہم آگے کریں گے سردست امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے خلاف آپ جو بغض پالے ہوئے ہیں اسے سامنے رکھ دیں:

جمشید (الطحاوی) صاحب ایک مقام پرلکھتے ہیں:
مسئلہ یہ ہے کہ علم اورواقفیت کچھ ہے نہیں ان کے اندر ورنہ تمام ائمہ اربعہ میں سے سب سے زیادہ ایک ہی مسئلہ میں مختلف اقوال امام احمد بن حنبل کے ہوتے ہیں۔مزید تحقیق چاہئے تواس سلسلے میں شیخ ابوزہرہ کی کتاب احمد بن حنبل عصرہ وآراؤہ الفقھیہ کا مطالعہ کیجئے۔ یہ کتاب اردومیں بھی شائع ہوچکی ہے۔ [بحوالہ اردو مجلس]۔
ابوزہرہ کا چہرہ تو میں اسی تھریڈ بہت پہلے پیش کرچکا ہوں ملاحظہ ہو مراسلہ نمبر64۔
محولہ سطور میں جمشید صاحب کی جانب سے امام احمدرحمہ اللہ کی اس تنقیص پر جب بعض احباب نے ان کا نوٹس لیا تو آں جناب نے جھٹ سے کہہ دیا کہ ایسا کہنا امام احمد رحمہ اللہ کی تنقیص نہیں ، لیکن ہم ایک دوسرے مقام سے جمشیدصاحب ہی کے الفاظ سے واضح کرتے ہیں کہ یہ تنقیص ہے کہ نہیں ۔


جمشید (الطحاوی) صاحب علامہ البانی رحمہ اللہ کے خلاف زہرافشانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اللہ توجانتاہی ہے تھوڑا بہت شیخ البانی کو ہم بھی جانتے ہیں ابھی حال میں ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا تراجعات الالبانی جوانہی کےعقیدت مند ابوالحسن محمد حسن الشیخ نے لکھی ہے۔ تقریباچھ سوحدیثیں ایسی ذکر کی ہیں جن پر البانی نے حدیثوں پرلگائے گئے حکم سے رجوع کیاہے ۔پتہ نہیں کس عالم میں احادیث پر حکم لگایاکرتے تھے۔علمی غلطیوں سے رجوع کرنا بہت اچھی اورقابل تعریف صفت ہے لیکن جب علمی غلطیاں چھ سو کے قریب ہوں توپھر یہ مدح کے بجائے ذم کے خانے میں آجاتاہے۔ [بحوالہ اردو مجلس]۔
جمشیدصاحب کے ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ موصوف کی نظر میں اگر کوئی کسی مسئلہ میں اپنے سابق موقف کے خلاف دوسرا موقف اپنا لے اورایسا بکثرت ہو تو جمشید صاحب کی نظر میں ایسے صاحب علم کا مقام کیا طے ہوگا ، اسی تناظر میں جمشیدصاحب نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کو بھی مطعون کیا لیکن مسئلہ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا تھا اس لئے تاویل پیش کی کہ یہ تنقیص نہیں ہے مگر علامہ البانی رحمہ اللہ سے متعلق عین یہی معاملہ جمشید صاحب کی نظر میں مدح کے بجائے ذم کے خانے میں آتاہے۔


بے چارے ابوحنیفہ


جمشیدصاحب نے امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کے خلاف بہتان بازی کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ ابوحنیفہ کا مقام امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ سے بڑھ کر ہے بالفاظ دیگرجمشیدصاحب کی نظر میں امام ابوحنیفہ کے یہاح ایک ہی مسئلہ میں مختلف اقوال نہیں ہوتے ۔
لیکن بدقسمتی سے جمشید صاحب اس بات سے لاعلم ہیں کہ یہ بدنصیبی بھی ابوحنیفہ ہی کے حصہ میں آئی ہے اور ذم کا یہ تمغہ ائمہ اربعہ میں سے سب سے زیادہ ابوحنیفہ ہی کو ملا ہے ثبوت ملاحظہ ہو:


امام عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى:290)نے کہا:
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمٌ، سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كُنْتُ أَجْلِسُ إِلَى أَبِي حَنِيفَةَ فَأَسْمَعُهُ يُفْتِي فِي الْمَسْأَلَةِ الْوَاحِدَةِ بِخَمْسَةِ أَقَاوِيلَ فِي الْيَوْمِ الْوَاحِدِ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَرَكْتُهُ وَأَقْبَلْتُ عَلَى الْحَدِيثِ»[السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 205 رقم 316 ،قال المحقق القحطاني: اسنادہ صحیح وھو کذالک]۔
امام اور فقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کی مجلس میں جایا کرتا تھا تو میں نے انہیں سنا وہ ایک ہی دن میں ایک ہی مسئلہ میں پانچ اقوال پر فتوی دیتے تھے لہٰذا جب میں نے یہ چیز دیکھی تو اسے چھوڑ دیا اوراورحدیث کی طرف متوجہ ہوگیا۔
یادرہے کہ امام وفقیہ حفص بن غیاث رحمہ اللہ کو مقلدین چہل رکنی مجلس تدوین کا رکن بھی بتلاتے ہیں۔

غور کیا جائے کہ امام وفقیہ حفص بن غياث رحمہ اللہ نے نہ صرف یہ کہ ابوحنیفہ کو ایک مسئلہ میں مختلف فتاوی دینے والا بتلایا بلکہ ابوحنیفہ کی اسی مصیبت کے باعث ان سے علیحدگی بھی اختیار کرلی جزاہ اللہ خیرا۔

ابوحنیفہ کی اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صرف ایک ہی امام نے ابوحنیفہ کو نہیں ٹھکرایا بلکہ ایک اورامام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری واسطی نے بھی ابوحنیفہ کو الوداع کہہ دیا:

خطيب بغدادي رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
أنبأنا القاضي أبو بكر احمد بن الحسن الحرشي أخبرنا أبو محمد حاجب بن احمد الطوسي حدثنا عبد الرحيم بن منيب قال قال عفان سمعت أبا عوانة قال اختلفت إلى أبي حنيفة حتى مهرت في كلامه ثم خرجت حاجا فلما قدمت أتيت مجلسه فجعل أصحابه يسألوني عن مسائل وكنت عرفتها وخالفوني فيها فقلت سمعت من أبي حنيفة على ما قلت فلما خرج سألته عنها فإذا هو قد رجع عنها فقال رأيت هذا أحسن منه قلت كل دين يتحول عنه فلا حاجة لي فيه فنفضت ثيابي ثم لم أعد إليه[تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 13/ 401 واسنادہ حسن]۔
امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں ابوحنیفہ کے پاس آتا جاتا تھا حتی کہ ان کی باتوں کا ماہر ہوگیا پھر جب میں حج کرنے گیا توان کی مجلس میں حاضرہوا ، پھر ان کے اصحاب مجھ سے ان مسائل کے بارے میں پوچھنے لگے جن کو میں نے ابوحنیفہ سے سیکھاتھا ، پھر ان لوگوں نے اس سے مختلف باتیں بتلائیں ، میں نے کہا: میں نے تو ابوحنیفہ سے ایسے ہی سنا ہے جیسے بتلایا ، پھر جب ابوحنیفہ آئے تو میں نے ان سے پوچھا تو وہ ان سے رجوع کرچکے تھے اورفرمانے لگے : ان نئے مسائل کو میں نے پرانے مسائل سے بہتر پایا ۔ امام ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ یشکری فرماتے ہیں کہ میں نے کہا: جس مذہب میں اس طرح تبدیلی ہوتی رہتی ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ، پھر میں نے بوریا بستر باندھا اور دوبارہ کبھی پلٹ کر ابوحنیفہ کی طرف نہیں آیا۔

اورلطف تو یہ ہے کہ خود ابوحنیفہ نے بھی اس بات کا اقرار کیا ہے چنانچہ:
عباس دوری رحمہ اللہ نے کہا
قال أبو نعيم وسمعت زفر يقول كنا نختلف إلى أبي حنيفة ومعنا أبو يوسف ومحمد بن الحسن فكنا نكتب عنه قال زفر فقال يوما أبو حنيفة لأبي يوسف ويحك يا يعقوب لا تكتب كل ما تسمع مني فإني قد أرى الرأي اليوم وأتركه غدا وأرى الرأي غدا وأتركه بعد غد [تاريخ ابن معين - رواية الدوري: 3/ 504 واسنادہ صحیح]۔
امام زفر کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ نے ایک دن ابویوسف سے کہا: اے یعقوب تیرا ستیاناس ہو تو جو کچھ مجھ سے سنتاہے وہ سب مت لکھا کر کیونکہ آج میں کوئی رائے قائم کرتاہوں اور کل اسے ترک کردیتاہوں اور کل کوئی رائے قائم کرتاہوں اورپرسوں اسے ترک کردیتاہوں۔
ان کے علاوہ اوربھی متعدد روایات اس ضمن میں ملتی ہیں مگر ان کی اسناد محل نظر ہے۔

میرے خیال سے اب اندازہ ہوجانا چاہئے کہ ایک ہی مسئلہ میں سب سے زیادہ مختلف اقوال کس کے یہاں ہیں اور مدح کے بجائے ذم کس کا مقدرہے !!!


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top