• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ کے مزاج میں شدت تھی ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
یہاں آپ نے امام طحاوی کی شان میں بلاوجہ غلو کردیا ، اس کے بارے میں ہم کچھ عرض کریں گے۔
امام طحاوی کا بلندمقام آپ کے نظریے کے اعتبار سے دو حیثیت سے ہوسکتاہے۔
o فقہ حدیث میں بلندمقام ۔
o علم حدیث میں بلند مقام۔

جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
آپ تدوین فقہ کو فقاہت کی دلیل سمجھتے ہیں تو کیا یہ بتلانے کی کوشش کریں گے کہ فقہ طحاوی کا مجموعہ کہاں ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمیں تو ان کی فقاہت فقط ان کی چندکتابوں میں ہی نظر آتی ہے۔
اس کے برخلاف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کوئی بھی کتاب اٹھاکر دیکھ لیں فقاہت کی ایک شاہکار ہے۔
نیز صرف ان کافتاوی ہی امام طحاوی کی ساری کتابوں پر بھاری ہے۔
امام طحاوی فقہ الحدیث اورعلم حدیث دونوں میں امام ابن تیمیہ سے آگے ہیں۔اولاضرورت اس بات کی ہے کہ متقدمین اورمتاخرین کے درمیان علم وفضل میں جو فرق ہے اس کو سمجھاجائے۔بعض لوگ ذہبی وغیرہ کی ان ہی تعریفات سے سوئے فہم کا شکار ہوکر سمجھنے لگے کہ ابن تیمیہ ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ اعلم وافقہ ہیں۔
کفایت اللہ صاحب کا درون باطن یہ عقیدہ ہوتوہولیکن تاحال انہوں نے ظاہر نہیں کیاہےبلکہ ان کی بات صرف امام طحاوی کے تعلق سے ہے۔
درج ذیل بحث کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اولاکچھ مقدمات کو سمجھ لیں۔

حافظ ذہبی متقدمین اورمتاخرین کے درمیان علم وفہم میں واضح طورپر تفریق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ متاخرین متقدمین کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے۔
حافظ ذہبی مشہور محدث اسماعیلی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔
" صَنَّف ( يعني الإسماعيلي ) مسند عمر رضي الله عنه ، طالعته وعلقت منه وابتهرت بحفظ هذا الإمام ، وجزمت على أن المتأخرين على إياس من أن يلحقوا المتقدمين ۔
تذکرۃ الحفاظ849
اس میں حافظ ذہبی نے واضح طورپر کہہ دیاہے کہ مجھے یقین جازم ہوگیاکہ متاخرین متقدمین کے علم وفضل کو نہیں پہنچ سکتے۔
ایک دوسری جگہ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ محدثین ہوں یافقہاء دونوں متقدمین محدثین اورفقہاء کے مرتبہ کونہیں پہنچ سکتے۔
" يا شيخ ارفق بنفسك والزم الإنصاف ولا تنظر إلى هؤلاء الحفاظ النظر الشَّزْر ولا ترمقنهم بعين النقص ، ولا تعتقد فيهم أنهم من جنس محدثي زماننا حاشا وكلا ، وليس في كبار محدثي زماننا أحد يبلغ ربتة أولئك في المعرفة فإني أحسبك لفرط هواك تقول بلسان الحال إن أعوزك المقال : من أحمد ؟ وما ابن المديني ؟ وأي شيء أبو زرعة وأبو داود فاسكت بحلم أو انطق بعلم ، فالعلم النافع هو ما جاء عن أمثال هؤلاء ولكن نسبتك إلى أئمة الفقه كنسبة محدثي عصرنا إلى أئمة الحديث فلا نحن ولا أنت ، وإنما يعرف الفضل لأهل الفضل ذو الفضل (1).
تذكرة الحفاظ ص : 726 – 826 .
ان دونوں نصوص سے یہ واضح ہورہاہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ متقدمین محدثین یافقہاء کے مقام ومرتبہ کو بعد کے متاخرین نہیں پہنچ سکتے۔
اب صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ امام طحاوی کا شمار متاخرین میں ہے یامتقدمین میں ہے۔تواس گتھی کو بھی سلجھاتے چلیں۔
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متقدمین اورمتاخرین کے درمیان حدفاصل تیسری صدی ہجری کو ماناہے لیکن اپنے قول کے خلاف اسماعیلی جن کی وفات371میں ہوئی ہے ان کو متقدمین میں شمار کیاہے تواس لحاظ سے امام طحاوی جن کی وفات اسماعیلی سے بہت پہلے ہوئی ہے یعنی 321میں ۔ان کاشمار توبدرجہ اولیٰ متقدمین میں ہوناچاہئے۔

2:انسان جس سے ملاقات کرتاہے جس کے ساتھ طویل عرصہ رہتاہے اس کے بارے میں ظاہر ہے زیادہ جانتاہے اوراس کے متعلق زیادہ کلام کرسکتاہے اوراس کی خصوصیات وامتیازات پر اچھے طریقے سے روشنی ڈال سکتاہے لیکن وہ لوگ جن سے اس کو براہ راست ملنے جلنے اورتعلیم وتعلم کاشرف حاصل نہیں ہے اس کی بنیاد پر وہی بات لکھے گا جو کتب تاریخ میں موجود ہے اوراگروہ کتاب تذکرہ کی ہو تواس مین اختصار مطلوب ہوتاہے کیونکہ اس میں دیگر محدثین اورعیان ونادرہ روزگارافراد کابھی تذکرہ ہوتاہے۔لہذا اس میں مختصراًباتیں ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے حافظ ذہبی اورابن تیمیہ کےدیگرمعاصرین نے ان کے بارے میں جوکچھ لکھاہے اوربعد والوں نے جوکچھ لکھاہے دونوں کو دیکھ لیں۔دونوں میں واضح طورپر فرق نظرآئے گا۔ وجہ یہی ہے کہ انسان جس سے ملتاہے اختلاط رکھتاہے اس کے بارے میں اسکے تاثرات کچھ اورہوتے ہین اورجس کووہ تاریخ اورکتابوں سے جانتاہے اس کے بارے میں تاثرات کچھ اورہوتے ہیں اوریہی چیز پھر قلم اورتحریر کی صورت میں بھی نظرآتی ہے۔

3:انسان کااپناذاتی میلان اوررجحان بھی ہواکرتاہے۔خود حافظ ذہبی کو دیکھیں ۔محدثین کا تذکرہ پورے شرح وبسط کے ساتھ کیاہے اوردیگر اصناف سے تعلق رکھنے والے مثلاریاضی داں،شاعر ،اوردیگرفنون سے تعلق رکھنے والوں میں اختصاربرتاہے۔
اگران تمام امور کو نگاہ میں رکھیں اوراس کے بعد حافظ ذہبی نے امام طحاوی کے ترجمہ میں جوکچھ لکھاہے اس پر دھیان دیں تومیرے خیال سے بہت سے مزعومات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
حافظ ذہبی دوراجتہاد اوربعد کے ادوار کے تعلق سے لکھتے ہیں

فَالمُقَلَّدُوْنَ صحَابَةُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرْطِ ثُبُوْتِ الإِسْنَادِ إِلَيْهِم، ثُمَّ أَئِمَّةُ التَّابِعِيْنَ كَعَلْقَمَةَ، وَمَسْرُوْقٍ, وَعَبِيْدَةَ السَّلْمَانِيِّ, وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ, وَأَبِي الشَّعْثَاءِ, وَسَعِيْدِ بنِ جُبَيْرٍ، وَعُبَيْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ اللهِ, وَعُرْوَةَ, وَالقَاسِمِ, وَالشَّعْبِيِّ, وَالحَسَنِ، وَابْنِ سِيْرِيْنَ، وَإِبْرَاهِيْمَ النَّخَعِيِّ. ثُمَّ كَالزُّهْرِيِّ, وَأَبِي الزِّنَادِ, وَأَيُّوْبَ السِّخْتِيَانِيِّ, وَرَبِيْعَةَ, وَطَبَقَتِهِم.
ثم كأبي حنيفة ومالك والأوزارعي وَابْنِ جُرَيْجٍ وَمَعْمَرٍ وَابْنِ أَبِي عَرُوْبَةَ وَسُفْيَانَ الثوري والحمادين وشعبة والليثي وَابْنِ المَاجِشُوْنِ وَابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ثُمَّ كَابْنِ المُبَارَكِ، وَمُسْلِمٍ الزَّنْجِيِّ وَالقَاضِي أَبِي يُوْسُفَ والهِقْل بنِ زِيَادٍ وَوَكِيْعٍ وَالوَلِيْدِ بنِ مُسْلِمٍ, وَطَبَقَتِهِم.
ثُمَّ كَالشَّافِعِيِّ وَأَبِي عُبَيْدٍ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَأَبِي ثَوْرٍ وَالبُوَيْطِيِّ وَأَبِي بَكْرٍ بنِ أَبِي شَيْبَةَ ثم كالمزني وأبي بكر بن الأَثْرَمِ وَالبُخَارِيِّ وَدَاوُدَ بنِ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بنِ نَصْرٍ المَرْوَزِيِّ وَإِبْرَاهِيْمَ الحَرْبِيِّ، وَإِسْمَاعِيْلَ القَاضِي.
ثُمَّ كَمُحَمَّدِ بنِ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ خُزَيْمَةَ، وَأَبِي عَبَّاسٍ بنِ سُرَيْجٍ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ المُنْذِرِ, وَأَبِي جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ الخَلاَّلِ.
ثُمَّ مِنْ بَعْدِ هَذَا النَّمَطِ تناقص الاجتهاد، ووضعت المختصرات، وأخذ الفُقَهَاءُ إِلَى التَّقْلِيْدِ مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ فِي الأَعْلَمِ، بَلْ بِحَسبِ الاتِّفَاقِ، وَالتَّشَهِّي، وَالتَّعْظِيْمِ، وَالعَادَةِ، وَالبَلَدِ
(سیراعلام النبلاء/54)

اس اقتباس میں واضح طورپر ہے کہ اولاتوصحابہ کرام مقلدہیں یعنی جن کی تقلید کی جاتی ہے اب تقلید کو خلاف دین بتانے والے اس پرغورکرین اورکوئی شاندار ساعذرتلاش کریں
پھرانہوں نے زمانی اعتبار سے مجتہدین کرام کی تفصیلات پیش کیں۔
بالآخر ختم کیاانہوں نے محمد بن جریرالطبری،ابوبکر بن خزیمہ،ابوعباس بن سریج،ابوبکرالمنذر،ابوجعفرالطحاوی،ابوبکرالخلال پر۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ا سکے بعد اجتہاد میں واضح طورپر کمی آنی شروع ہوگئی۔گویافقہی لحاظ سے یہ متقدمین اورمتاخرین کے درمیان انہوں نے حد فاصل بیان کردیا۔اورفقہ کے بھی لحاظ سے امام طحاوی کاشمار متقدمین میں ہے نہ کہ متاخرین میں۔
جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
کفایت اللہ صاحب نے جذبہ دروں سے مجبور ہوکر یہ لفظ لکھ تودیالیکن اس کے محتویات اورمشتملات پر غوروفکر نہیں کیا۔
اولاتوفقہ پر کلام وہ شخص کررہاہے جس سے عربی عبارت کا درست ترجمہ نہیں ہوسکتا اورعربی عبارت کو سمجھنے میں بارہا وہ ٹھوکریں کھاتاہے۔اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں امام طحاوی کی کتابوں کا توذکر جانے دیں خود ابن تیمیہ کی کتابوں کاصحیح سے مطالعہ نہیں کیاہوگا۔اوریہی مشکل ہے دورحاضر کے اہل حدیث کے ساتھ کہ وہ کسی شخص کے بارے میں کچھ کلام واقوال دیکھ کر اس کی حیثیت کا تعین نہ کرتے ہیں نہ کہ براہ راست اس کی تصانیف کو دیکھیں ،غورکریں اورسمجھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
قُلْتُ: مَنْ نَظر فِي توَالِيف هَذَا الإِمَام عَلِمَ محلَّه مِنَ العِلْم، وَسعَة مَعَارِفه
سیراعلام النبلاء11/362
حافظ ذہبی نے من نظرفی توالیف الامام کی شرط لگاکر یہ واضح کردیاکہ جوامام طحاوی کی کتابوں میں بغیرغوروفکر کے کلام کرے گا وہ یوں ہی ہانکے گاجیسے کفایت اللہ صاحب ہانک رہے ہیں کہ ابن تیمیہ کاصرف فتاوی ہی ان کی تمام کتابوں پر بھاری ہے سبحان اللہ ۔
جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
یہ ماقبل سے بھی زیادہ عجیب وغریب بات ہے ۔
دارالعلوم دیوبند کے تعلق سے ایک عالم نے ایک واقعہ سنایاکہ ایک استاد نےفاتحہ خلف الامام پر ایک ہفتہ تقریر کی ۔جب کہ علامہ ابراہیم بلیاوی نے اسی موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی اوران کی یہ ایک گھنٹہ کی تقریر اس ایک ہفتہ کی تقریر پر بھاری تھی اورانہوں نے ایک ہفتہ کی تقریر میں جوکچھ فرمایاتھا اختصارکے ساتھ ان تمام مشمولات پر حاوی ہونے کے اس ایک گھنٹہ کی تقریر میں مزید کچھ نئی اورزائد باتیں تھیں۔
ابن تیمیہ کسی بھی موضوع کو پھیلاکرلکھتے ہیں اوراس میں شک نہیں کہ اس میں بہت ساری کام کی دیگر باتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں لیکن اسی کے ساتھ اس میں بھی شک نہیں کہ ان کا موضوع انجم مان پوری کے کردار کلو کی زبان میں کہیں تو ہفت قلم ہوجاتاہے۔ایک موضوع میں وہ بہت سارے موضوع چھیڑدیتے ہین جس کی وجہ سے بسااوقات موضوع سے ربط ٹوٹ جاتاہے اورقاری پریشان خیالی کا شکار ہوجاتاہے۔
یہ بات صرف راقم الحروف کی نہیں ہے۔مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی تاریخ دعوت وعزیمت میں اس کا ذکر کیاہے۔
توکسی بات کو طوالت کے ساتھ لکھنا اورکسی کااسی بات کو اختصار کے ساتھ ذکر کردینااس کو مستلزم نہیں ہے کہ طوالت کے ساتھ لکھنے والا زیادہ اعلم اورافقہ ہے۔بلکہ دیکھئے تو اختصار کواپنانے والا زیادہ اعلم اورافقہ قرارپاتاہے۔دیکھئے اسی موضوع پر حافظ ابن رجب جوحافظ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں کیاکہتے ہیں۔
وقد فتن كثير من المتأخرين بهذا فظنوا أن من كثر كلامه وجداله وخصامه في مسائل الدين فهو أعلم ممن ليس كذلك. وهذا جهل محض. وانظر إلى أكابر الصحابة وعلمائهم كأبي بكر وعمر وعلي ومعاذ وابن مسعود وزيد بن ثابت كيف كانوا. كلامهم أقل من كلام ابن عباس وهم أعلم منه وكذلك كلام التابعين أكثر من كلام الصحابة والصحابة أعلم منهم وكذلك تابعوا التابعين كلامهم أكثر من كلام التابعين والتابعون أعلم منهم. فليس العلم بكثرة الرواية ولا بكثرة المقال ولكنه نور يقذف في القلب يفهم به العبد الحق ويميز به بينه وبين الباطل ويعبر عن ذلك بعبارات وجيزة محصلة للمقاصد.
(بیان فضل علم السلف علی الخلف5)
اس کتاب سے کچھ دیگر اقتباسات دیکھتے چلئے۔
وقد ابتلينا بجهلة من الناس يعتقدون في بعض من توسع في القول من المتأخرين انه أعلم ممن تقدم. فمنهم من يظن في شخص أنه أعلم من كل من تقدم من الصحابة ومن بعدهم لكثرة بيانه ومقاله. ومنهم من يقول هو أعلم من الفقهاء المشهورين المتبوعين. وهذا يلزم منه ما قبله لأن هؤلاء الفقهاء المشهورين المتبوعين أكثر قولا ممن كان قبلهم فإذا كان من بعدهم أعلم منهم لاتساع قوله كان أعلم ممن كان أقل منهم قولا بطريق الأولى. كالثوري والأوزاعي والليث. وابن المبارك. وطبقتهم. وممن قبلهم من التابعين والصحابة أيضاً.
(المصدرالسابق)
یہ اقتباس بھی دیکھتے چلیں اوراگراس مین اپناعکس نظرآتاہو توکچھ دیر غوروفکر بھی کرلیں
وفي زماننا يتعين كتابة كلام أئمة السلف المقتدى بهم إلى زمن الشافعي وأحمد وإسحاق وأبي عبيد: وليكن الإنسان على حذر مما حدث بعدهم فإنه حدث بعدهم حوادث كثيرة وحدث من انتسب إلى متابعة السنة والحديث من الظاهرية ونحوهم وهو أشد مخالفة لها لشذوذه عن الأئمة وانفراده عنهم بفهم يفهمه أو يأخذ مالم يأخذ به الأئمة من قبله.
(المصدرالسابق6)
اس اقتباس مین اچھی طرح غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں کہاجارہاہے کہ سلف صالحین کے زمانہ کے بعد بہت سارے حوادث وقوع پذیر ہوئے اس میں سے یہ ایک حادثہ یہ بھی وقوع پذیر ہوا کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کی متابعت کاجھنڈالے کر کھڑے ہوگئے حالانکہ ان کا دعویٰ درست نہیں بلکہ نہایت غلط ہے۔کیونکہ وہ ماقبل کے ائمہ کی مخالفت کرتے ہیں اوراپنی انفرادی رائے کوقابل ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہمارے دور کابھی المیہ یہی ہے کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کا نام لے کر کھڑے ہوئے ہیں اوراپنے سواسبھی کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ عقائد اورفروعات مین بس وہی ایک درست ہیں اوربقیہ تمام کفروشرکت میں لت پت یاپھربدعت اعتقادی وعملی سے مخلوط وممزوج وملوث ہیں۔
بہرحال بات اس کی چل رہی تھی کہ امام طحاوی فقہ اورحدیث میں ابن تیمیہ سے بلند مقام کے حامل ہیں۔اوراگرابن تیمیہ کسی موضوع پر تفصیلاکلام کرتے ہیں اورامام طحاوی اس موضوع پر تفصیلاکلام نہیں کرتے تواس کو زیادہ فقہ وعلم حدیث کی بنیاد بناناقطعاغلط ہے۔
ویسے گزارش ہے کہ کفایت اللہ صاحب وہ معیار بتادیں جس کی بنیاد پر وہ ابن تیمیہ کو امام طحاوی سے زیادہ افقہ واعلم مانتے ہیں۔انہوں نے ایک مبہم بات توکہہ دی ہے لیکن اپنے استدلال کو واضح نہیں کیا۔محض یہ کہناکہ ان کی کوئی بھی کتاب اٹھالیں فقاہت کا شاہکار نظرآتی ہےسے بات نہیں بنتی ہے۔
حضرت ابن تیمیہ کی کسی بھی کتاب کو لے لیں ا س میں ایک موضوع میں کئی موضوع مخلتط اورممزوج نظرآئیں گے۔اورظاہر سی بات ہے کہ اگرکوئی کسی ایک بحث میں کئی بحث چھیڑ دے تو اس کی کتاب میں عبارات اورنقول کی بہتات ہونی لازمی ہے۔حضرت ابن تیمیہ کے طرز تصنیف کی ایک مثال مولانا مناظراحسن گیلانی کی تصانیف میں ملتی ہے کہ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اورقاری حیران رہتاہے کہ بحث کا سراکہاں سے ڈھونڈےاوراپنے مطلب کی بات کو کیسے ڈھونڈے۔
ویسے ہمیں بھی یہ بات کسی لطیفہ سے کم نہیں لگی ہے اورمیرااحساس ہے کہ لطیفیوں کے مقابلے میں اگر اول دوم نہیں توتیسرے نمبرپر یہ لطیفہ ضرور آئے گا۔
جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
قارئین اس لطیفے کو یاد رکھیں اورامام طحاوی کے تعلق سے اس لنک کا مطالعہ کریں
امام طحاوی حیات وخدمات - URDU MAJLIS FORUM

امام طحاوی کے تعلق سے کفایت اللہ صاحب نے آگے مزید وہی باتیں نقل کی ہیں جس کی اس مضمون میں ماقبل میں تردید کی جاچکی ہے اوریہ کوئی بعید بھی نہیں کہ موصوف نے اعتراضات کے یہ نقول وہیں سے لئے ہوں۔کیوں موصوف کا مانناہے کہ ایک مصنف اگرکوئی بات ماقبل میں نقل کردیتاہے توبعد والالازمی طورپر اسی سے اخذ کرتاہے یہ ممکن نہیں ہے کہ مصنف نے جہاں سے اخذ کیاہو دوسرابھی وہیں سے اخذ کرلے۔
کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق دیکھیں تویہ تمام باتیں جو اعتراضات کے طورپر وہ نقل کررہے ہیں وہ میرے اس مذکورہ مضمون میں بتمام وکمال موجود ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے وہی قابل نقد طریقہ اختیار کیاکہ جرح نقل کردی اوراس کی تردید میں جوکچھ تھااس سے سکوت اختیار کرلیا۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
کفایت اللہ
آپ نے ابن تیمیہ پررد کرتے ہوئے حافظ ابن حجر کی منقولہ بات کو خود ابن حجر کی بات کہا ہے تو آئیے ہم بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی کتاب سے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں ، آپ یہاں بھی اپنے اصول کے مطابق اسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہی کا کلام سمجھ لیں:
قارئین ماقبل میں رجوع کریں جہاں راقم الحروف نے تفصیل سے بتایاہے کہ وہ کلام حافظ ابن حجر کا اپناہی کلام ہوگا۔اوراگران کا نہیں بھی ہے تو بھی انہوں نے جن سے اخذ کیاہے ان کا نام نہیں بتایاہے۔سب سے پہلے الاقشھری کا کلام ہے۔الاقشھری کے بعد طوفی کی بات ہے جوقال الطوفی سے شروع ہوتی ہے اوریہ بات بہت دور تک چلی گئی ہے۔ راقم الحروف کاخیال ہے کہ طوفی کی بات مختصر ہے جس کی نشاندہی کردی گئی ہے ۔اوراس کے بعد والاکلام محتمل طورپر حافظ ابن حجر کا ہی کلام ہے۔اگرکسی دوسرے ذریعہ سے یہ بات مل جاتی ہے کہ طوفی کی بات رحلۃ الاقشھری میں درج ہے اوراسے نقل کرنے والے الاقشھری ہی ہیں تواسے ماننے میں راقم الحروف کوایک لمحہ کا بھی تامل نہیں ہوگالیکن شرط یہ ہے کہ دوسرے ذریعہ سے بھی یہ بات ثابت ہو۔جب تک یہ بات ثابت نہیں ہوتی اس وقت تک میرے خیال میں وہ کلام حافظ ابن حجر کاہی ہے۔
پہلی گواہی:
حافظ ابن حجر(المتوفى:852)رقم طراز ہیں:
وكان يذهب مذهب أبي حنيفة وكان شديد العصبية فيه [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 276]۔
امام طحاوی ، ابوحنیفہ کے مذہب پر کاربندتھے اور اس میں سخت متعصب تھے۔

ویسے ہم انصاف کا خون نہیں کریں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قول مَسْلَمَة بن القاسم القُرْطُبي. (المتوفى: 353)کا ہے لیکن مسلمہ بن قاسم مذکورہ بات میں منفرد نہیں بلکہ دیگرلوگوں نے بھی یہ بات کہی ہے۔
سبحان اللہ آپ کی انصاف پسندی کے قربان جائیں۔ویسے جس انصاف کا نمونہ اس زیر بحث موضوع میں پیش کیاہے وہ بذات خودایساانصاف ہے کہ جس کا انصاف کرنےکی انصاف پسندوں کو ضرورت ہے
ت
نبیہ:
امام أبو الوليد، ابن الفرضي (المتوفى: 403) نے کہا:
وسَمِعْتُ من ينسبه إلى الكذب.وسألت محمد بن أحمد بن يحيى القَاضِي عنه فقالَ لِي: لم يكن كَذّاباً[تاريخ علماء الأندلس لابن الفرضي: 2/ 130]۔

عرض ہے کہ ابن الفرضی نے کذب کا الزام لگانے والے کا نام نہیں بتلایا ہے اورنہ ہی اس قول سے موافقت ظاہر کی ہے لہذا یہ جرح مردود ہے ، مزید یہ کہ آگے ابن یحیی القاضی نے اس الزام کی تردید بھی کردی ہے۔

بعض لوگوں نے اس پر تشبیہ کا الزام بھی لگایا ہے مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی تردید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
وقيل كان من المشبهة روى عن أبي جعفر الطحاوي وأحمد بن خالد بن الحباب انتهى قلت هذا رجل كبير القدر ما نسبه إلى التشبيه إلا من عاداه[لسان الميزان لابن حجر: 6/ 35]۔
الغرض یہ کہ مسلمہ بن القاسم نیک بزرگ تھے مگر روایت میں ضعیف ہیں ، لیکن مذکورہ بات میں مسلمہ بن القاسم منفرد نہیں ہیں دیگر لوگوں نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
اگرمسلمہ بن القاسم زیادہ نیک بزرگ ہیں توان کی اس بات کو امام بخاری نے علی بن مدینی کی کتاب العلل کا سرقہ کیاتھااور اسے اپنے نام سے منسوب کرلیا مان لیجئے ۔کیونکہ یہی بزرگ یہ بھی کہہ رہے ہیں اور وہ بھی کہہ رہے ہیں۔لیکن مجھے پورایقین ہے کہ آپ فوراامام بخاری کے فضائل ومناقب بیان کرناشروع کردیں گے اوریہی اپنابھی اعتقاد ہے لیکن گزارش یہ ہے کہ جس اصول کی بنیاد پر مسلمہ بن قاسم کی امام بخاری کے تعلق سے بات ردکردی گئی ہے ۔اسی اصول کے تعلق سے مسلمہ بن القاسم کی امام طحاوی کے تعلق سے عصبیت کی بات کوبھی ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے۔
یاپھرتیسری شکل یہ ہے کہ تطفیف کا راستہ اختیار کیاجائے جس میں آپ کی مہارت مسلم ہے اورآپ کی اس مہارت کے ہم بھی معترف اورقائل بلکہ قتیل ہیں۔(ابتسامہ)

ویسے مسلمہ بن القاسم کی پوری عبارت یہ ہے
وقال مسلمة بن قاسم الأندلسي في كتاب الصلة كان ثقة جليل القدر فقيه البدن عالما باختلاف العلماء بصيرا بالتصنيف وكان يذهب مذهب أبي حنيفة وكان شديد العصبية فيه
کفایت اللہ صاحب نے مسلمہ بن القاسم کا جملہ وکان یذھب مذھب ابی حنیفۃ سے نقل کیااوراس سے ماقبل کا جملہ کان ثقۃ جلیل القدر فقیہ البدن عالماباختلاف العلماء بصیرابالتصنیف وغیرہ کو نقل کرنا بہترنہیں سمجھاکیونکہ اس سے امام طحاوی کے تعلق سے ان کے مزعومات کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی۔

لطیفہ کفایت اللہ صاحب کی طرز پر

کفایت اللہ صاحب اپنے اصول کی دھجیاں جس طرح اڑاتے ہیں وہ دیکھنے کے لائق ہے۔
قارئین کو یاد ہوگاکہ اسی بحث میں ابن بطوطہ کے ذکر میں انہوں نے ابن خلدون کا قول نقل کیاتھاکہ لوگ اس کو جھوٹاکہتے ہیں۔
نیز خود ابن بطوطہ کو بھی کذاب کہا گیا ہے ۔
علامہ ابن خلدون الإشبيلي (المتوفى: 808)نے کہا:
فتناحى النّاس بتكذيبه ولقيت أيّامئذ وزير السّلطان فارس بن وردار البعيد الصّيت ففاوضته في هذا الشّأن وأريته إنكار أخبار ذلك الرّجل لما استفاض في النّاس من تكذيبه[تاريخ ابن خلدون 1/ 228]۔
موصوف کو یہاں الناس کا مبہم اورغیرواضح ہونااورکس نے جھوٹاکہایہ سب باتیں قطعایاد نہیں آئیں ۔کیوں کر یاد آتیں کیونکہ ابن بطوطہ کو انہیں مجروح قراردیناتھاایک نظریہ تھا جو طے کرلیا۔اوراس نظریہ کی خراد پر علم وتحقیق کی ہربات کو چڑھادیاگیا۔لیکن یہیں دیکھئے مسلمہ بن القاسم کے ذکر میں ان کو یاد بھی آگیاکہ جن لوگوں نے انہیں کذاب کہاہے ان کے اسمائے گرامی توابن فرضی نے ذکر ہی نہیں کئے۔

دوسرالطیفہ

کفایت اللہ صاحب نے محمد بن احمد بن یحیی کے سے کذب کی نفی تونقل کردی کہ مسلمہ بن القاسم کذاب نہیں ہیں لیکن انہی بزرگ نے مسلمہ بن القاسم کو جوضعف عقل کا شکار قراردیاہے۔وہ بات نقل ہی نہیں کی۔یہ اہل حدیث حضرات کے علم وتحقیق کا آئینہ ہے۔ جب فضیلۃ الشیخ کا حال علم وتحقیق میں اس قدرپست ہوتوپھر قیاس کن زگلستان من بہارمرا۔
لسان المیزان سے ہی پوراجملہ محمد بن احمد بن یحیی کا نقل کرتاہوں۔
وسئل القاضي محمد بن يحيى بن مفرج عنه فقال لم يكن كذابا ولكن كان ضعيف العقل

ویسے حافظ ابن حجر نے مذکورہ بزرگ سے تشبیہ کی نفی کے طورپر جوکچھ کہاہے اس کا کوئی ثبوت بھی پیش ہی نہیں کیاہے۔ماقبل میں راقم الحروف نے جہاں مسلمہ بن القاسم کے تعلق سے نقول بیان کئے ہیں وہاں دیکھاجاسکتاہے کہ کسی نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے۔ان کو مشبہ قراردینے والے ان کے دشمن ہیں یہ بات صرف حافظ ابن حجر نے ہی نقل کی ہے۔اورکہاں سے نقل کی ہے ہمیں کچھ پتہ نہیں۔کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق یہاں بھی سند صحیح کاتقاضاضروری تھاکیونکہ حافظ ابن حجر مسلمہ بن القاسم کے ہم عصر تونہیں ہیں۔

مسلمہ بن القاسم پر کچھ نقول
مسلمہ بن قاسم کی کفایت اللہ صاحب بڑی تعریف کررہے ہیں اوردرپردہ ان کو ان بزرگ سے ہمدردی اس لئے ہے کہ انہوں نے امام طحاوی پر تعصب کی جرح کی ہے۔ ذراموصوف یعنی مسلمہ بن قاسم کے حدود اربعہ کو معلوم کرلیں تاکہ کفایت اللہ صاحب نے جوحافظ ابن حجر سے جو قول نقل کیاہے وہ پورے طورپر واضح ہوکر سامنے آسکے۔

حافظ ذہبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں
مَسْلَمَة بن القاسم بن إبراهيم [1] أبو القاسم القُرْطُبي.
سمع: محمد بن عمر بن لُبَابة، وأحمد بن خالد، وجماعة، ورحل إلى المشرق فسمع بالقيروان من أحمد بن موسى، وعبد الله بن محمد بن فُطَيْس، وبأطرابلس من صَالِحُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْعِجْلِيُّ الكوفي، وبإقريطش [2] من أحمد بن محمد بن خَلَف، وبمصر من محمد بن زيان، وأبي جعفر الطحاوي، وبمكة من الدّيْبُلي، وبواسط من علي بن عبد الله بن مبشّر، وبالبصرة من أبي رَوْق الهزّاني، وببغداد من أبي بكر بن زياد النَّيْسَابُوري، وبسيراف واليمن والشام، ورجع إلى اندلس بعلم كثير، ثم كُفَّ بَصَره، وأكثر عنه الناس.
قال ابن الفَرَضيّ: وسمعتُ من نَسَبه إلى الكذِب. وقال لي محمد بن يحى بن مفرّج: لم يكن كذَّابًا، وكان ضعيف العقل، وحُفِظ عليه كلام سوء في التشبيه.مُعَلَّى بن سعيد أبو خازم [3] التنوخي، بغدادي سكن مصر.وحدّث عن: بِشْر بن موسى، وأبي خليفة، ومحمد، بن جرير الطَّبَريّ، وجماعة.
وعنه: أبو بكر بن شاذان، وأبو القاسم بن الثّلاج، وعبد الغني بن سعيد الحافظ وقال: كتبنا عنه وما كان ممن يُفْرَح به.قلت: وهو الذي تفرّد بحكاية الهميان عن ابن جرير وفي النفس من ثُبُوتها شيء. ويُعرف بالشَّيْبي.
سیراعلام النبلاء26/83

اس میں جرح کا ثبوت واضح طورپر موجود ہے ۔

اسی طرح دیکھئے تاریخ علماء اندلس 2/128میں بھی اس پرجرح موجود ہے

قد جمع حديثاً كثيراً، وكُفّ بصره بعد قدومه من المشرق وسَمِعَ النّاس منه كثيراً، وسَمِعْتُ من ينسبه إلى الكذب.
وسألت محمد بن أحمد بن يحيى القَاضِي عنه فقالَ لِي: لم يكن كَذّاباً، ولكن كان ضعيف العقل.
وكان مسلمة صاحب رُقى، ونيرنْجات.

بالخصوص آخری جملہ توکمال ہے کہ موصوف تعویذ گنڈا وغیرہ بھی کرتے تھے ۔اب کفایت اللہ بتائیں کہ تعویذ کے تعلق سے ان کی جماعت کا جوموقف ہے اس کے لحاظ سے مسلمہ بن قاسم پر وہ کس لیول اورکتنے نمبر کی جرح کریں گے؟
6237 - مسلمة بن الْقَاسِم الْقُرْطُبِيّ فِي دولة الْمُسْتَنْصر ضَعِيف وَقيل كَانَ مشبها(المغنی فی الضعفاء2/658)
مسلمة بن القاسم القرطبي.كان في أيام المستنصر الأموي.ضعيف.وقيل: كان من المشبهة.(2 [يروي عن أبي جعفر الطحاوي، وأحمد ابن خالد بن الحباب] 2) .(میزان الاعتدال4/112)
"مسلمة" بن القاسم القرطبي كان في أيام المستنصر الأموي ضعيف وقيل كان من المشبهة روى عن أبي جعفر الطحاوي وأحمد بن خالد بن الحباب انتهى قلت هذا رجل كبير القدر ما نسبه إلى التشبيه إلا من عاداه وله تصانيف في الفن وكانت له رحلة لقي فيها الأكابر قال أبو جعفر المالقي في تاريخه فيه نظر وهو مسلمة بن قاسم بن إبراهيم بن عبد الله بن حاتم جمع تاريخا في الرجال شرط فيه أن لا يذكر إلا من أغفله البخاري في تاريخه وهو كثير الفوائد في مجلد واحد وقال أبو محمد بن حزم يكنى أبا القاسم كان أحد المكثرين من الرواية والحديث سمع الكثير بقرطبة ثم رحل إلى المشرق قبل العشرين وثلاث مائة فسمع بالقيروان وطرابلس والإسكندرية وأقريطش ومصر والقلزم وجدة ومكة واليمن والبصرة وواسط والأيلة وبغداد والمداين وبلاد الشام وجمع علما كثيرا ثم رجع إلى الأندلس فكف بصره أخبرني يحيى بن الهيثم رجل صالح لقيته بقرطبة وكان يلزم مجلس أحمد بن محمد بن الجور يحضر السماع عنده حسبة قال نام مسلمة بن قاسم ليلة في بيت المقدس وأبواب المسجد عليه مطبقة فاستيقظ في الليل فرأى مع نفسه أسدا عظيما راعه فسكن روعه وعاودته فلما أصبح سأل معبرا عنه فقال ذاك جبرائيل أما أنه سيكف بصرك فبادر غلى بلدك قال فكفت عينه الواحدة في البحر منصرفا وعمي بالأندلس وكان قوم بالأندلس يتحاملون عليه وربما كذبوه وسئل القاضي محمد بن يحيى بن مفرج عنه فقال لم يكن كذابا ولكن كان ضعيف العقل وقال عبد الله بن يوسف الأزدي يعني بن الفرضي كان مسلمة صاحب رأي وسر وكتاب وحفظ عليه كلام سوء في التشبيهات وتوفي يوم الإثنين لثمان بقين من جمادي الأولى سنة ثلاث وخمسين وهو ابن ستين سنة ومن تصانيفه التاريخ الكبير والحلية وما روى الكبار عن الصغار وكتاب في الخط في التراب ضرب من القرعة.
یہاں تک توبات کچھ کتب جرح وتعدیل کے لحاظ سے تھی۔اب ذراہم جائزہ لیتے ہیں کہ مسلمہ بن القاسم نے خودامام بخاری کے بارے میں کیافرمایاہے۔
مسلمہ بن القاسم اپنی تالیف "کتاب الصلۃ"میں لکھتے ہیں جس سے حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں نقل کیاہے۔

وقال مسلمة في الصله كان(البخاری) ثقة جليل القدر عالما بالحديث وكان يقول بخلق القرآن فأنكر ذلك عليه علماء خراسان فهرب ومات وهو مستخف قال وسمعت بعض أصحابنا يقول سمعت العقيلي لما ألف البخاري كتابه الصحيح عرضه على بن المديني ويحيى بن معين وأحمد بن حنبل وغيرهم فامتحنوه وكلهم قال كتابك صحيح الا أربعة أحاديث قال العقيلي والقول فيها قول البخاري وهي صحيحه قال مسلمة وألف علي بن المديني كتاب العلل وكان ضنينا به فغاب يوما في بعض ضياعه فجاء البخاري إلى بعض بنيه ورغبه بالمال على أن يرى الكتاب يوما واحدا فأعطاه له فدفعه إلى النساخ فكتبوه له ورده إليه فلما حضر على تكلم بشيء فأجابه البخاري بنص كلامه مرارا ففهم القضيه واغتنم لذلك فلم يزل مغموما حتى مات بعد يسير واستغني البخاري عنه بذلك الكتاب وخرج إلى خراسان ووضع كتابه الصحيح فعظم شأنه وعلا ذكره وهو أول من وضع في الإسلام كتابا صحيح فصار الناس له تبعا بعد ذلك
تھذیب التہذیب9/55
مسلمہ بن القاسم کی بات نقل کرنے کے بعد حافظ ابن حجر نے بجاطورپر اس کی تردید بھی کی ہے لیکن قارئین کرام کے سامنے پیش یہ کرناچاہتاہوں کہ
یہ مسلمہ بن قاسم ہیں جو امام بخاری پراولاخلق قرآن کاالزام عائد تے ہیں اورکہتے ہیں کہ علماء خراسان کے تردید وانکار کے بعد وہ ڈرکرکہیں روپوش ہوگئے اوراسی روپوشی میں ان کاانتقال ہوا۔
دوسری طرف وہ امام بخاری پر سرقہ کا الزام لگاتے ہیں کہ امام بخاری نے کسی طرح علی بن المدینی کے بیٹوں کورشوت دے کر ان کی کتاب العلل حاصل کرلی اوراس کی نقل کرالی اورپھراس سے اپنی صحیح بخاری تیار کرلی ۔اس سے علی ابن المدینی بہت مغموم ہوئے اوراسی غم میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اگرمسلمہ بن القاسم کی ہی بات ماننی ہے توپھریہ بات ماننے میں کیاحرج ہے اوراگرمسلمہ بن القاسم کا بیان دیگر قرائن اورشواہد کی بناء پر کذب وتہمت قرارپاتاہے توانہی قرائن اورشواہد کی بنیاد پر امام طحاوی کے حالات کے ذکر میں مسلمہ بن القاسم کا بیان ردی کی ٹوکری میں ڈالنے والاکیوں نہیں ہوگا۔
فاضل وافضل کی بحث اپنی جگہ لیکن اللہ نے کسی کے حق میں معصومیت کا اعلان نہیں کیاہے لہذا جن علمی اصولوں کی بنیاد پر امام بخاری پر مسلمہ بن القاسم کی جرح مردورقراردی جائے گی انہی اصولوں کی بناء پر امام طحاوی پر بھی مسلمہ بن القاسم کی جرح مردود قراردی جائے گی۔
 

ندوی

رکن
شمولیت
نومبر 20، 2011
پیغامات
152
ری ایکشن اسکور
328
پوائنٹ
57
از۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
دوسری گواہی:
أبو بكر محمد بن معاوية بن الأحمر القرشي رحمه الله(المتوفى: 358)نے کہا:
دخلت مصر قبل الثلاث مائة وأهل مصري يرمون الطحاوي بأمر عظيم فظيع يعني من جهة أمور القضاء أو من جهة ما قيل أنه أفتى به أبا الجيش من أمر الخصيان قال وكان يذهب مذهب أبي حنيفة لا يرى حقا في خلافه [لسان الميزان لابن حجر: 1/ 276]۔
کفایت اللہ صاحب نےد وسری گواہی امام طحاوی کے ضمن میں ابن احمر کی پیش کی ہے۔ اس پر کئی لحاظ سے اعتراض ہوسکتاہے۔

نمبر 1:ابن احمر کایہ قول نقل کرنے والے مسلمہ بن القاسم ہیں اورمسلمہ بن القاسم ضعیف العقل اورضعیف راوی اورانہوں نے ہی ابن احمر کایہ قول نقل کیاہے ۔لہذا ان کے واسطہ سے نقل کردہ کوئی بات کس طرح درست ہوسکتی ہے؟اس اشکال کا حل کفایت اللہ صاحب خود تجویز کریں۔
کیونکہ ماسبق میں انہوں نے کئی مقامات پر یہ اعتراض کردیاہے کہ فلاں کی سند ان تک ثابت نہیں ہے لہذا وہ بات اگرچہ تاریخ سے ہی متعلق ہو لیکن قابل قبول نہیں ہوگی۔اب اگر مسلمہ بن القاسم ایک ضعیف راوی ایک شخص کاقول نقل کررہے ہیں تووہ قول کس طرح مقبول اوردرست ہوسکتاہے جب تک کہ وہی قول کسی دوسرے اورصحیح ذریعہ سے ہم تک نہ پہنچے ۔امید ہے کہ کفایت اللہ صاحب اس پر سنجیدگی سے دھیان دیں گے اوراپنے موقف کے تضاد کااحساس کریں گے۔

نمبر2:ابن احمر کے اس قول کواگرمان بھی لیاجائے کہ امام طحاوی صرف امام ابوحنیفہ کے اقوال کے صواب ہونے کے قائل تھے اوران کے قول کے مخالف قول کو وہ درست نہیں سمجھتے تھےتواس ضمن میں ایک بھی ایسی مثال اگرپیش کردی جائے جہاں امام طحاوی نے امام ابوحنیفہ کے برخلاف کسی دوسرے کے قول کو ترجیح دی ہے تو ابن احمر کا کذب یانرم لفظوں میں کہیں تواس قول کاغلط اورغیردرست ہوناخودبخود ثابت ہوجائے گا۔

امام ابوحنیفہ کے اقوال اورامام طحاوی

اب ذیل میں ہم کچھ امام طحاوی کی وہ فقہی آراء پیش کرتے ہیں جہاں انہوں نے امام ابوحنیفہ سے اپنے اختلاف کااظہار کیاہے۔اس بحث کو دانستہ ہم نے طول نہیں دیا اورنہ ہی امام طحاوی کی تمام کتابوں کی جانب مراجعت کرنے کی ضرورت محسوس کی ۔کیونکہ اگرابن احمر کے قول کاغلط ثابت ہونا ایک دوقول سے ہی واضح ہورہاہے تواقوال کے ڈھیرلگانے 100-50تک نمبر پہنچانے کی ضرورت نہیں رہ جائے ۔
طوفان نوح لانےسے اے چشم فائدہ
دواشک بھی بہت ہیں اگرکچھ اثرکریں


امام طحاوی کا فقہ میں مقام ومرتبہ

امام طحاوی کا فقہ میں جومقام ومرتبہ ہے وہ ان کی تصانیف سے واقف لوگوں پر پوشیدہ نہیں ہے ہاں کچھ لوگ جن کو فقہ اورفقہ حنفی سے ضد اورنفرت نے اس مقام پر پہنچادیاہے کہ ان کیلئے کسی شخص کورد کرنے کی صرف یہی ایک وجہ کافی ہوتی ہے کہ اس کا تعلق فقہ حنفی سے ہے توایسے مریضوں کاکوئی علاج نہیں ہے سوائے توفیق الہی کے۔ورنہ وہ لوگ جومنصف مزاج اورشخصیات کے فرق مراتب میں اعتدال وتوازن کے قائل ہیں وہ کسی مصنف کی تصنیفات سے ہی اندازہ کرلیتے ہیں کہ اس کا علمی مقام ومرتبہ کیاہوگا۔

امام طحاوی اس میں کوئی شک نہیں فقہ حنفی سے انتساب رکھتے ہیں لیکن یہ بات یہاں واضح کرنی ضروری ہے کہ امام طحاوی کا فقہاء احناف میں کیامقام ومرتبہ ہے۔ فقہ حنفی میں مجتہدین کے درجات کے لحاظ سے وہ کس مقام پر فائز ہیں اوران کی جگہ کن فقہاء کی صف میں بنتی ہے۔

ابن کمال پاشاہ ایک حنفی فقیہہ گزرے ہیں۔ انہوں نے فقہاء احناف کے اجتہادی مراتب پر لکھتے ہوئے امام طحاوی کوان فقہاء کی صف میں شامل کیاہے جو کہ صرف اسی وقت اجتہاد کرتے ہیں جب کہ کسی مسئلہ میں صاحب مذہب سے کوئی رائے یانص منقول نہ ہو۔اور وہ صاحب مذہب کی اصول وفروع میں مخالفت نہیں کرتے۔

ابن کمال کی اس بات پر دیگر فقہاء احناف نے نقد کیاہےا ورفکر ونظر کی روشنی میں اسے غلط قراردیاہے۔علامہ عبدالحی لکھنوی الفوائد البھیہ میں ابن کمال باشاہ کی اس بات پر نقد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
فان لہ(الطحاوی)درجۃ عالیۃ ورتبۃ شامخۃ قد خالف بہاصاحب المذہب فی کثیر من الاصول الفروع ومن طالع شرح المعانی الآثار وغیرہ من مصنفاتہ یجدہ یختار خلاف مااختار صاحب المذہب کثیرااذاکان مایدل علیہ قویافالحق انہ من المجتہدین المنتسبین الذین ینتسبون الی امام معین من المجتہدین لکن لایقلدونہ لافی الفروع ولافی الاصول لکونہم متصفین بالاجتہاد ،وانماانتسبوا لیہ لسلوکہم طریقہ فی الاجتہاد وان انحط عن ذلک فھومن المجتہدین فی المذہب القادرین علی استخراج الاحکام من القواعد التی قررھاالامام ولاتنحط مرتبتہ عن ھذہ المرتبتۃ ابداعلی رغم انف من جعلہ منحطا ۔
(الفوائد البھیہ31)
اسی کے قریب رائے حضرت شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ نے بستان المحدثین میں ذکر کی ہے۔ ان کی رائے کونقل کرتے ہوئے اوران کی رائے کی تصویب کرتے ہوئے مولناعبدالحی لکھنوی لکھتے ہیں۔
ومااحسن کلام المولی عبدالعزیز المحدث الدہلوی فی بستان المحدثین حیث قال مامعربہ ان مختصرالطحاوی یدل علی انہ کان مجتہداولم یکن مقلداللمذہب الحنفی تقلیدامحضا،فانہ اختارفیہ اشیاء تخالف مذھب ابی حنیفۃ لمالاح لہ من الادلۃ القویۃ انتہی،وبالجملۃ فہوفی طبقۃ ابی یوسف ومحمد لاینحط عن مرتبتہماعلی القول المسدد(الفوائدالبھیۃ32)

شیخ زاہد الکوثری علیہ الرحمۃ نے بھی الحاوی فی سیرۃ الطحاوی میں اسی رائے کااظہار کیاہے کہ وہ مجتہد مطلق منتسب ہیں۔یعنی اصول وفروع میں وہ امام ابوحنیفہ کی تقلید نہیں کرتے بلکہ بسااوقات اختلاف بھی کرتے ہیں ہاں طریقہ تفکیر اوراصول استنباط میں ان سے متاثر ہیں لہذا وہ فقہ حنفی کی جانب اورامام ابوحنیفہ کی جانب منسوب ہیں۔

امام طحاوی نے خود بھی ایک موقع پر جب کہ قاضی ابوعبید سے ان کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہوا توانہوں نے اپنی رائے پیش کی ۔قاضی ابوعبید نے کہاکہ یہ توامام ابوحنیفہ کی رائے نہیں ہے اس پرامام طحاوی نے کہاکہ میں امام ابوحنیفہ کے تمام اقوال کاپابندنہیں ہوں ۔

تنبیہ بلیغ
کچھ لوگ امام طحاوی کی جانب ایک جملہ منسوب کرتے ہیں
لایقلد الاعصبی اوغبی
لیکن یہ ان کی جہالت ہے کہ وہ پورے ہی جملہ کو امام طحاوی کی جانب منسوب کردیتے ہیں۔

اصل میں امام طحاوی کا جملہ صرف یہ ہے ھل یقلد الاعصبی اوراس کے آگےاوغبی کا جملہ قاضی ابوعبید کاہے۔تصریح کیلئے دیکھئے۔
وقال الطحاوي: كَانَ أبو عبيد يذاكرني بالمسائل، فأجبته يوماً فِي مسألة، فقال لي مَا هَذَا قول أبي حنيفة. فقلت لَهُ: أَيُّها القاضي أوَ كل مَا قاله أبو حنيفة أقول بِهِ. قال: مَا ظننتك إِلاَّ مقلِّداً. فقلت لَهُ: وهل يقلد إِلاَّ عَصَبِي فقال لي أَوْ غبي. فطارت هَذِهِ الكلمة بمصر حَتَّى صارت مَثَلاَ.
(رفع الاصر عن قضاۃ مصر1/273)

اس جملہ کو سمجھے بوجھے اورہضم کئے بغیر فوراکچھ لوگ تقلید کی مذمت میں شامل کردیتے ہیں
لایقلدالاعصبی اوغبی کا پوراجملہ اگراس کے پورے معنی ومفہوم کو نگاہ میں رکھ کر پڑھاجائے توبہت مناسب محسوس ہوگا۔مولانا محمودالحسن صاحب المعروف شیخ الہند کااس تعلق سے ایک وضاحت کہیں پڑھاتھا لیکن اب سامنے نہیں ہے اس لئے جوکچھ لکھ رہاہوں وہ حافظے سے ۔
لایقلد الاعصبی کا مطلب تو واضح ہے کہ ایک شخص کے اندرآلات اجتہاد جمع ہیں۔ پھربھی کسی شخصیت سے اس کوتعصب ہے لہذا بغیردلائل پرغوروفکر کئے وہ اس کی ہربات تسلیم کرتاچلاجاتاہے تویہ ہے اس کا مصداق کہ تقلید متعصب کاکام ہے ۔یہ مطلب نہیں ہے ہے کہ جوبھی تقلید کرے وہ متعصب ہوگاکیونکہ اگریہ مطلب ہوتو پھرقاضی ابوعبید کااوغبی کہنابے معنی ہوجاتاہے۔
غبی کا معنی کند ذہن اوراس کا لازم معنی ہے جاہل۔یہ حقیقت ہے کہ جوشخص ذہن کے اعتبار سے کند ہووہ علم حاصل نہیں کرسکتااورجاہل رہ جاتاہے لہذا غبی کالازم معنی ہواجاہل۔
اب پورے جملہ کادیکھیں تو بات یہ بنتی ہے کہ تقلید وہی کرے گا جوادوات اجتہاد کے ہوتے ہوئے بھی کسی کے تعصب میں مبتلاہواوراس کے قول کی تقلید کرے یاپھر وہ شخص جودلائل شرعیہ کے استنباط اورمختلف اقوال میں تفصیلی دلائل کے محاکمہ اورنقد ونظرسے ناآشناہو،جاہل ناواقف ہو۔کچھ بھی کہہ لیں۔
اب ہم اس سلسلے میں جہاں امام طحاوی نے امام ابوحنیفہ کے قول سے اختلاف کیاہے اوردیگر فقہاء کی رائے کو ترجیح دی ہے کچھ مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ ابن حمر کی غلط بیانی ،جہالت،عدم واقفیت سامنے آجائے اوریہ واضح ہوجائے کہ یہ ایک ناواقف کااظہارخیال ہے کسی جانکار اورواقف کار کی رائے نہیں ہے۔

ایک مسئلہ یہ ہے کہ امام جب رکوع سے اٹھے توکیاصرف وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے یاپھرربناولک الحمدبھی کہے
تواس سلسلے میں وہ امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ بیان کرتے ہیں کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے جب کہ دوسری روایات وغیرہ ذکر کرنے کےبعد وہ لکھتے ہیں کہ
وَأَمَّا مِنْ طَرِيقِ النَّظَرِ , فَإِنَّهُمْ قَدْ أَجْمَعُوا فِيمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ , عَلَى أَنَّهُ يَقُولُ ذَلِكَ. فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْظُرَ فِي الْإِمَامِ هَلْ حُكْمُهُ فِي ذَلِكَ حُكْمُ مَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ أَمْ لَا؟ [ص:241] فَوَجَدْنَا الْإِمَامَ يَفْعَلُ فِي كُلِّ صَلَاتِهِ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ وَالْقِيَامِ وَالْقُعُودِ وَالتَّشَهُّدِ , مِثْلَ مَا يَفْعَلُهُ مَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ. وَوَجَدْنَا أَحْكَامَهُ فِيمَا يَطْرَأُ عَلَيْهِ فِي صَلَاتِهِ , كَأَحْكَامِ مَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ فِيمَا يَطْرَأُ عَلَيْهِ , مِنْ صَلَاتِهِ مِنَ الْأَشْيَاءِ الَّتِي تُوجِبُ فَسَادَهَا , وَمَا يُوجِبُ سُجُودَ السَّهْوِ فِيهَا , وَغَيْرَ ذَلِكَ , وَكَانَ الْإِمَامُ وَمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ فِي ذَلِكَ سَوَاءً , بِخِلَافِ الْمَأْمُومِ. فَلَمَّا ثَبَتَ بِاتِّفَاقِهِمْ أَنَّ الْمُصَلِّيَ وَحْدَهُ يَقُولُ بَعْدَ قَوْلِهِ «سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ «ثَبَتَ أَنَّ الْإِمَامَ أَيْضًا يَقُولُهَا بَعْدَ قَوْلِهِ» سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ". فَهَذَا وَجْهُ النَّظَرِ أَيْضًا فِي هَذَا الْبَابِ , فَبِهَذَا نَأْخُذُ , وَهُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ , وَمُحَمَّدٍ رَحِمَهُمَا اللهُ. وَأَمَّا أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ فَكَانَ يَذْهَبُ فِي ذَلِكَ إِلَى الْقَوْلِ الْأَوَّلِ
شرح معانی الآثار1/241

فَثَبَتَ بِالنَّظَرِ الصَّحِيحِ فِي هَذَا الْبَابِ كُلِّهِ , مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو يُوسُفَ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِ , بِالنَّظَرِ لَا بِالْأَثَرِ , وَانْتَفَى مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٌ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِمَا
شرح معانی الآثار3/219

ضب یعنی بجوکے کھانے کامسئلہ مختلف فیہ ہے کچھ لوگ جواز کے قائل ہیں کچھ لوگ حرمت کے قائل ہیں اورکچھ لوگ کراہت کے ساتھ جواز کے قائل ہیں۔ ائمہ احناف کا مسلک بقول امام طحاوی یہ ہے۔
وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ أَكْلَ الضَّبِّ , مِنْهُمْ أَبُو حَنِيفَةَ , وَأَبُو يُوسُفَ , وَمُحَمَّدٌ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ
لیکن خودامام طحاوی اس بارے میں آثارنقل کرنے کے بعد اپنی رائے یہ بیان کرتے ہیں
فَثَبَتَ بِتَصْحِيحِ هَذِهِ الْآثَارِ أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِأَكْلِ الضَّبِّ وَهُوَ الْقَوْلُ عِنْدَنَا
شرح معانی الآثار4/202

فَثَبَتَ بِذَلِكَ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ التَّوَضُّؤُ بِهِ فِي حَالٍ مِنَ الْأَحْوَالِ , وَهُوَ قَوْلُ أَبِي يُوسُفَ , وَهُوَ النَّظَرُ عِنْدَنَا , وَاللهُ أَعْلَمُ
شرح معانی الآثار1/96

وقد اختلف فی غیرموضع من ھذاالکتاب فکان ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمد بن الحسن ویوسف بن خالد وہلال بن یحیی یکتبون۔ذکر حق فلاں بن فلاں علی فلاں بن فلاں علیہ کذا کذا دینارا وکان ابوزید یکتب:لہ علیہ کذا کذا دینارا۔۔۔۔۔فکان ماکتب ابوزید فی ھذااحب الیناواوکد عندنا،لان فیماکتب من ذلک اضافۃ الدنانیرالی من ھی لہ،
وکان ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمدبن الحسن یکتبون ومن قام بھذاالذکر الحق فھوولی مافیہ،وکان یوسف بن خالد وہلال بن یحیی یکتبان مکان ذلک ومن احال فلان بن فلان علی فلان بن فلان بھذہ الدنیانیر المسماۃ فی ھذاالکتاب اوبشی منھا،اقرلہ بہ،ولم یکن ابوزید ولاسائراصحابنامن البغدادیین یکتبون من ھذاشیئاً
فاماماکان ابوحنیفہ وابویوسف ومحمد یکتبون فی ذلک –مماقدحکیناہ عنھم –فضعیف لانھم اذاجعلوا لمن قام بذلک الذکر الحق ولایۃ بمافیہ، احتمل ان یقوم بہ من لایحب لہ القیام بہ،واماماکان یوسف وہلاک یکتبان فی ذلک –مماقد حکیناہ عنھما-فھواحسن مماذکرنا ہ عن ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد،ولکن الذی کتبناہ نحن اولی عندنا مماحکیناہ عن ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد وعن یوسف وہلال
کتاب اذکارالحقوق والرہون

مزید تفصیلات کیلئے میرے مضمون امام طحاوی اورحیات وخدمات میں موجود کتاب الشروط کے دیگر صفحات کی نشاندہی کی ہے وہاں جاکر دیکھاجائے جہاں امام طحاوی نے امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیاہے۔
ان نقولات کو جوبطورنمونہ صرف چند ہم نے ذکر کئے اورکچھ ہی کتابوں سے ۔اگرمکمل نقول جمع کریں تو وہ خود ایک کتاب بن جائے گی ،کو ذہن میں رکھیں اور پھر ابن احمر کاقول دوہرائیں کہ
طحاوی امام ابوحنیفہ کے قول کے خلاف حق کے قائل نہیں تھے ۔یعنی صرف اسی رائے کو درست مانتے تھے جو امام ابوحنیفہ کی رائے ہوتی تھی۔
آپ کے نزدیک واضح ہوجائے گاکہ ابن احمر کاقول کھوٹا اورجعلی ہےاورنقد ونظر کے معیار پرساقط ہے اوراس قابل ہے کہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاجائے۔
آپ کے ازدیاد نظر کیلئے ایک جملہ امام طحاوی کی شان میں حافظ ابن حجر کی زبانی بھی نقل کردوں کہ فقہ اورحدیث میں جامع لوگ بہت کم ہوئے ہیں اورامام طحاوی ان ہی قلیل ترین لوگوں مین سے ہیں۔
اس کا اعتراف ان کے دورکے لوگوں نے بھی کیاہے اورخودامام طحاوی کوبھی اس عطیہ ربانی کا احساس تھا۔
فحدث أنه حضر رجل معتبر عند القاضي محمد بن عبدة فقال: أيش روى أبو عبيدة بن عبد الله عن أمه عن أبيه؟ فقلت: حدثنا بكار بن قتيبة نا أبو أحمد نا سفيان عن عبد الأعلى الثعلبي عن أبي عبيدة عن أمه عن أبيه, أن رسول الله -صلى الله عليه وآله وسلم- قال: "إن الله ليغار للمؤمن فليغر". وحدثنا به إبراهيم بن أبي داود نا سفيان بن وكيع عن أبيه عن سفيان موقوفًا؛ فقال لي الرجل: تدري ما تقول؟ تدري ما تتكلم به؟ قلت: ما الخبر؟ قال: رأيتك العشية مع الفقهاء في ميدانهم وأنت الآن في ميدان أهل الحديث؛ وقل من يجمع ذلك؛ فقلت: هذا من فضل الله وإنعامه.
(تذکرۃ الحفاظ3/22)
بات حافظ ابن حجر کی ہورہی ہے۔ حافظ ابن حجر ابن رافع کے ترجمہ میں انباء الغمر میں لکھتے ہیں۔
والانصاف ان ابن رافع اقرب الی وصف الحفظ علی طریقۃ اہل الحدیث من ابن کثیر لعنایتہ بالعوالی والاجزاء والوفیات والمسموعات دون ابن کثیر ،وابن اکثر اقرب الی الوصف بالحفظ علی طریقۃ الفقہاء لمعرفتہ بالمتون الفقھیۃ والتفسیریۃ دون ابن رافع،فیجمع منھما حافظ کامل،وقل من جمعھما بعداھل العصرالاول،کابن خزیمۃ والطحاوی وابن حبان والبیہقی۔1/62
یہ واضح رہے کہ حافظ شافعی المسلک ہیں اوران کو احناف سے ایک گونہ تعصب بھی ہے جس کی صراحت خود ان کے عزیز شاگرد حافظ سخاوی نے الدررالکامنہ کے مخطوطہ کے حواشی پر کیاہے۔
لہذا ان کا ابن خزیمہ بیہقی اورابن حبان کو فقہ وحدیث کا جامع قراردیناالگ شے ہے اورامام طحاوی فقہ وحدیث کا جامع قراردیناالگ شے ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بیہقی کاامام طحاوی پرالزام​
کفایت اللہ صاحب نے بیہقی کاصرف ایک کلام نقل کیاہے جب کہ ان سے دومقام پر امام طحاوی پر طعن منقول ہے۔
تیسری گواہی :
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى:458)نے کہا:
قَالَ الشَّيْخُ أَحْمَدُ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَحِينَ شَرَعْتُ فِي هَذَا الْكِتَابِ بَعَثَ إِلَيَّ بَعْضُ إِخْوَانِي مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ بِكِتَابٍ لِأَبِي جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيِّ رَحِمَنَا اللَّهُ وَإِيَّاهُ وَشَكَا فِيمَا كَتَبَ إِلَيَّ مَا رَأَى فِيهِ مِنْ تَضْعِيفِ أَخْبَارٍ صَحِيحَةٍ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ حِينَ خَالَفَهَا رَأْيُهُ , وَتَصْحِيحِ أَخْبَارٍ ضَعِيفَةٍ عِنْدَهُمْ حِينَ وَافَقَهَا رَأْيُهُ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 1/ 219]۔
لیکن افسوس کہ خود ان کی ذات والاصفات اس تنقید سے مبرانہیں ہے کہ جوحدیث ان کو اپنے مسلک کے موافق ملتی ہے اس کی تقویت کرتے ہیں اورجوفریق ثانی کی موید ہوتی ہے اس کی تضعیف کرتے ہیں۔ اگرچہ اپنے مضمون میں میں اس کوپوری طرح لکھ چکاہوں لیکن افادہ عام کی خاطر ایک بارپھر نقل کردیتاہوں۔
امام بیہقی کی اس ناروا جرح پر سب سے پہلے حافظ ترکمانی مولف الجوہرالنقی نے جرح کی اوران کی سنن کا پوراجائزہ لیااوربتایاکہ ایک ہی راوی کی کہیں پر توثیق کرتے ہیں اوراسی کی راوی کی تضعیف کرتے ہیں۔کہیں اسی راوی کی حدیث کو ضعیف قراردیتے ہیں اوردوسری جگہ اسی راوی کی روایت اگران کی اپنی مستدل ہوتواس کی تحسین وتصحیح کرتے ہیں۔
حافظ عبدالقادرالقرشی نے بھی امام طحاوی پر بیہقی کے الزام کا پرزور دفاع کیاہے چنانچہ وہ الجواہرالمضیئہ میں لکھتے ہیں۔
''خدا کی پناہ اس بات سے کہ امام طحاوی ایساکریں۔ بیہقی نے جس کتاب کی جانب اشارہ کیاہے وہ شرح معانی الآثار ہے اس کے بعد انہوں نے بیان کیاہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شیخ حافظ علاء الدین ابن الترکمانی الماردینی کے حکم پر شرح معانی لآثار کی احادیث کی تخریج کی ہے اس کے بعد کہاخدا کی قسم میں نے اس کتاب میں ایساکچھ نہیں پایا جس کا بہیقی نے ذکر کیاہے اوربیہقی کے اعتراض پر ہمارے شیخ نے توجہ کی اوربیہقی کی کتاب السنن الکبیر پر ایک عظیم کتاب لکھی اوراس میں واضح کیاکہ بیہقی نے امام طحاوی پر جواعتراض کیاہے اس کے وہ خود مرتکب ہوئے بایں طور کہ ایک حدیث ذکر کرتے ہیں جو ان کے مسلک کی مستدل ہوتی ہے اوراس کی سند میں کوئی ضعیف راوی ہوتاہے تواس کی توثیق کرتے ہیں اورایک حدیث جوہماری مسلک کی مستدل ہوتی اس میں اسی راوی جس کی وہ توثیق کرچکے ہیں اس کی تضعیف کرتے ہیں اوریہ بیشتر جگہ پر ہے اوراس عمل کے درمیان یعنی ایک ہی راوی کی توثیق اورتضعیف کے درمیان صرف دویاتین ورق کا فاصلہ ہوتاہے یہ کتاب لوگوں کے ہاتھ میں موجود ہے اگراس بارے میں کسی کو شک ہے تووہ یہ کتاب دیکھ کر اپنے شک کو دور کرسکتاہیے ہمارے شیخ کی یہ کتاب بہت عظیم ہے اگرپہلے کے حفاظ نے اسے دیکھاہوتاہے تویقیناان کی زبان چوم لیتے۔۔۔۔امام قرشی کہتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ امام شافعی کا ہرایک پر احسان ہے اوربیہقی کا امام شافعی پر احسان ہے جس شخص نے بھی یہ مقولہ کہاہے خدا کی قسم اسے امام شافعی کے علوم ان کی عظمت کا کچھ بھی پتہ نہیں۔(الجواہر المضیئہ431)
دوسری بات جوکفایت اللہ صاحب کے انصاف پسندی کامرقع ہے وہ ہم قارئیں کو دکھاناچاہیں گے کہ آپ بھی ان کی انصاف پسندی کی داد دیں کیونکہ ماسبق میں وہ ایک مرتبہ اپنی انصاف پسندی کا بہ زبان خود مجاہرہ کرچکے ہیں ۔
ویسے ہم انصاف کا خون نہیں کریں گے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قول مَسْلَمَة بن القاسم القُرْطُبي. (المتوفى: 353)کا ہے
کفایت اللہ صاحب کو یہ تویاد رہاامام طحاوی پر ابن تیمیہ نے تعصب کی جرح کی ہے۔لیکن یہ بھول گئے یاشاید تجاہل عارفانہ برت لیاکہ انہی کے ممدوح مکرم نے بیہیقی پر بھی یہی تعصب اوراپنی رائے کیلئے حدیث کو توڑنے مروڑنے کی جرح کررکھی ہے۔
وَإِنْ كَانَ البيهقي رَوَى هَذَا فَهَذَا مِمَّا أُنْكِرَ عَلَيْهِ وَرَآهُ أَهْلُ الْعِلْمِ لَا يَسْتَوْفِي الْآثَارَ الَّتِي لِمُخَالِفِيهِ كَمَا يَسْتَوْفِي الْآثَارَ الَّتِي لَهُ وَأَنَّهُ يَحْتَجُّ بِآثَارٍ لَوْ احْتَجَّ بِهَا مُخَالِفُوهُ لَأَظْهَرَ ضَعْفَهَا وَقَدَحَ فِيهَا وَإِنَّمَا أَوْقَعَهُ فِي هَذَا - مَعَ عِلْمِهِ وَدِينِهِ - مَا أَوْقَعَ أَمْثَالَهُ مِمَّنْ يُرِيدُ أَنْ يَجْعَلَ آثَارَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِقَةً لِقَوْلِ وَاحِدٍ مِنْ الْعُلَمَاءِ دُونَ آخَرَ. فَمَنْ سَلَكَ هَذِهِ السَّبِيلَ دُحِضَتْ حُجَجُهُ وَظَهَرَ عَلَيْهِ نَوْعٌ مِنْ التَّعَصُّبِ بِغَيْرِ الْحَقِّ
مجموع الفتاوی24/154
اگرچہ بیہقی نے یہ روایت کی ہے لیکن یہ ان روایتوں میں سے ہے جس کی بناء پر اہل علم نے ان پر نکیر کیاہے اوراہل علم کا ان کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے دلائل کومکمل طورپر ذکر نہیں کرتے جیساکہ وہ اپنے دلائل کوبیان کرتے ہیں اوراپنے حق مین ایسے آثار سے استدلال کرتے ہیں کہ اگران کامخالف اسی قسم کے آثار سے استدلال کرکے تووہ اس کے ضعف کو ظاہر کریں گے اوراس میں خرابی بیان کریں گے اورباوجود علم ودین کے ان کے ایساکرنے کی وجہ وہی ہے جو انہی جیسے دیگر افراد کی ہے جو رسول پاک کے آثار کے علماء میں سے کسی ایک کے قول کے موافق کرناچاہتے ہیں ۔جوشخص یہ طریقہ کار اختیار کرے گا تواس کے دلائل کمزور ہوں گے اوراس پر تعصب کا ایک قسم ظاہر ہوگا۔
کفایت اللہ صاحب کے ممدوح مکرم دوسرے مقام پر لکھتے ہیں
أَمَّا البيهقي فَكَانَ عَلَى مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ؛ مُنْتَصِرًا لَهُ فِي عَامَّةِ أَقْوَالِهِ. وَالدَّارَقُطْنِي هُوَ أَيْضًا يَمِيلُ إلَى مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَأَئِمَّةِ السَّنَدِ وَالْحَدِيثِ لَكِنْ لَيْسَ هُوَ فِي تَقْلِيدِ الشَّافِعِيِّ كالبيهقي مَعَ أَنَّ البيهقي لَهُ اجْتِهَادٌ فِي كَثِيرٍ مِنْ الْمَسَائِلِ وَاجْتِهَادُ الدارقطني أَقْوَى مِنْهُ؛ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْلَمَ وَأَفْقَهَ مِنْهُ.
مجموع الفتاوی20/41
بہرحال بیہقی تووہ امام شافعی کے مسلک پر تھے عام طورپر ان کے قول کی تائید کیاکرت تھے اوردارقطنی بھی اگرچہ امامشافعی اورائمہ حدیث کے مسلک کی جانب مائل ہیں لیکن وہ تقلید میں بیہقی کی طرح نہیں ہیں۔اوربیہقی اگرچہ بہت سارے مسائل مین اجتہاد سے کام لیتے ہیں لیکن دارقطنی کا اجتہاد ان سے بڑھ کر ہے کیونکہ وہ بیہقی سے زیادہ اعلم اورافقہ ہیں۔

اب کفایت اللہ صاحب کے ممدوح توکہتے ہیں کہ بیہقی احادیث وآثار میں تعصب برتتے ہیں اوراپنے مسلک میں ہوتی ہے توبلاردوکد قبول کرلیتے ہیں اوردوسرے مسلک کی دلیل ہوتی ہے تواس میں این وآن شروع کردیتے ہیں۔اب سوال یہ ہےکہ
1:ابن تیمیہ کی تعصب کی بات بیہقی کے بارے میں قبول ہے یانہیں۔اگرنہیں قبول ہے تو پھرامام طحاوی کے بارے میں کیوں قبول ہے؟
2:اگرابن تیمیہ کی بات بیہقی کے بارے میں قبول ہے تو پھرایک متعصب کا دوسرے کو تعصب کا الزام دیناکب قابل قبول ہوسکتاہے؟
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
چوتھی اور گھرکی گواہی​
علاوازیں ،گذشتہ مراسلات میں عبدالحیی لکھنوی کا یہ اعتراف گذر چکا ہے کہ طحاوی صاحب فقہ میں جدل و کٹ حجتی بھی کرتے تھے ،چنانچہ:

مولانا عبدالحیی لکھنوی(المتوفى:1304) امام طحاوی سے متعلق لکھتے ہیں :
قدسلک فيه مسلک الإنصاف و تجنب عن طريق الإعتساب إلافي بعض المواضع قد عزل النظر فيها عن التحقيق و سلک مسلک الجدل والخلاف الغيرالأنيق کمابسطته في تصانيفي في الفقه. [الفوائد البهية فى تراجم الحنفية لعبدالحیی اللکنوی : ص ٣٣]۔

خیرکفایت اللہ صاحب کو مولانا عبدالحی لکھنوی کی بہت جلد یاد آگئی۔ابھی کچھ صفحات پہلے وہ ان کو شیخ الاسلام کے خلاف سازش کرنے والوں میں شمار کررہے تھے۔مولانا کے کلام میں بہت ساری باتیں قابل غورہیں۔

1:انہوں نے یہ بات صرف شرح معانی الآثار کے حوالہ سے کہی ہے۔
2:امام طحاوی کی ان کے علاوہ بھی دیگر مصنفات ہیں۔ بلکہ وہ کثیرالتصانیف بزرگوں میں سے ہیں۔یہ اوربات کہ ہم تک ان کی کم کتابیں پہنچ سکیں۔ لیکن جوپہنچی ہیں۔ وہ بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔بالواسطہ طورپر مولانا کایہ بھی کہناہے کہ ان تصانیف کے مقابلے صرف اس تصنیف میں امام طحاوی پر کچھ گرفت ہوسکتی ہے۔
3:کفایت اللہ صاحب مولانا عبدالحی لکھنوی کاقول نقل کرنے کے بعد نتیجہ نکالتے ہوئے لکھتے ہیں
اب ذرا غورکریں کہ تعصب ، کٹ حجتی جیسے اوصاف کے حامل لوگ عام اہل علم کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتے ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت تو بہت دور کی بات ہے۔
جب کہ خود مولانا لکھنوی کا امام طحاوی کی اس تصنیف کے بارے میں جوخیال ہے وہ یہ ہے
قد طالعت من تصانیفہ معانی الآثار وقد یسمی بشرح معانی الآثار فوجدتہ مجمعا للفوائدالنفیسۃ والفرائدالشریفۃ ینطق بفضل مولفہ وینادی بمہارۃ مصنفہ(الفوائد البہیۃص32)
اوراس کے مصنف کے بارے میں مولانا لکھنوی کاخیال ہے
امام جلیل القدر،مشہور فی الآفاق،ذکرہ الجمیل مملوء فی بطون الاوراق(الفوائد البہیۃ ص32)
پھران کے فقہی مقام ومرتبہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔
فالحق انہ من المجتہدین المنتسبین الذین ینتسبون الی امام معین من المجتہدین لکن لایقلدونہ لافی الفروع ولافی الاصول(الفوائد البہیہ ص31)
توواضح ہے کہ نتیجہ میں کفایت اللہ صاحب اورمولانا لکھنوی میں واضح اختلاف ہے ۔اورکسی تحریر سے صحیح نتیجہ وہی اخذ ہوگاجو مصنف کی خود کی مراد ہے۔
ویسے جس طرح کا نتیجہ نکال کر کفایت اللہ صاحب نے یہ لکھاہے۔
اب ذرا غورکریں کہ تعصب ، کٹ حجتی جیسے اوصاف کے حامل لوگ عام اہل علم کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتے ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت تو بہت دور کی بات ہے۔
اس کا جواب بھی اسی ردیف اورقافیہ میں سماعت کریں۔
آپ کے محدث العصر البانی صاحب ابن تیمیہ کے متعلق لکھتے ہیں۔

فقد كان الدافع لتحرير الكلام على الحديث و بيان صحته أنني رأيت شيخ الإسلام بن تيمية , قد ضعف الشطر الأول من الحديث , و أما الشطر الآخر , فزعم أنه كذب و هذا من مبالغته الناتجة في تقديري من تسرعه في تضعيف الأحاديث قبل أن يجمع طرقها و يدقق النظر فيها . و الله المستعان . (سلسۃ الاحادیث الصحیحۃ رقم 1750)
اس حدیث پر کلام کرنے اوراس کی صحت بیان کرنے کی وجہ یہ ہوئی کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کے نصف اول کو ضعیف قراردیاہے اورنصف ثانی کو موضوع قراردیاہے۔اورمیرایہ اندازہ یہ ہے کہ ایسااس لئےہوتاہے کہ وہ مبالغہ آمیز انداز میں احادیث کی تضعیف میں جلد بازی کرتے ہیں قبل اس کے کہ احادیث کے طرق کو جمع کریں اوراس میں باریکی سے غوروفکر کریں۔

جوشخص احادیث کے طرق کو جمع کرنے اورتمام متون کاجائزہ لینے سے پہلے ہی احادیث پر ضعف اورکذب کاحکم لگانے لگے وہ بھلاخاک شیخ الاسلام ہوگاوہ توطفل الاسلام کے بھی لائق نہیں ہوگا۔
واضح رہے کہ یہ بھی آپ کے ہی گھر کی گواہی ہے!کہیں باہر سے ہم نے امپورٹ نہیں کیاہے۔
آپ کے گھر کی ایک گواہی میں تویہ بیان کیاگیاہے کہ ابن تیمیہ صحیح اورحسن حدیثوں کو جلد بازی میں ضعیف اورموضوع قراردیاکرتے تھے۔
اب دوسری گواہی بھی اپنے ہی گھر سے لیجئے۔
ابن تیمیہ کے سماع موتی کے اقوال پر مشہو غیرمقلد مصنف اورعالم عبدالرحمن گیلانی لکھتے ہیں۔
جناب محمد احسان الحق صاحب نے یہ سوال بھی(سوال نمبر8)کیاتھاکہ کتاب الروح(ابن القیم)کے متعلق آپ کاکیاخیال ہے توجواباًعرض ہے کہ امام ابن قیم اوران کے استاد جناب امام ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتی کے قائل تھے بلکہ اسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے ضعیف اورموضوع احادیث کا سہارالے کر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرناچاہاہے۔(ماہنامہ محدث صفرالمظفر1404ہجری ص95)
یہی بزرگ ماقبل کی تحریر سے متصل میں لکھتے ہیں
یہ تینوں بزرگ(ابن تیمیہ،ابن قیم،شاہ ولی اللہ )جب شرک وبدعات کی تردید پر قلم اٹھاتے ہیں توجی عش عش کراٹھتاہے اورہم دل وجان سے ان کی دینی خدمات کے معترف ہوجاتے ہیں لیکن جب یہ زیارت قبور کے آداب اورکشف کے طریق بتلاتے ہیں تونہیں سوچتے کہ آیاقبروں اومزارات کے وجود کابھی کوئی جواز ہے یانہیں یاقبروں پر اس غرض سے بیٹھناجائز بھی ہے یانہیں ۔مردوں کو سنانااوران سے سنناتودور کی باتیں۔ان سب باتوں کی کتاب وسنت نے پرزور تردید کردی ہے۔
(المصدرالسابق)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
بہرام صاحب ماضی میں کئی دفعہ تنبیہ کی جاچکی ہے کہ یہ بحث صرف ہمارے اورکفایت اللہ کے درمیان ہے۔براہ کرم کوئی تیسرے صاحب مداخلت نہ کریں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
قلت:وله خبرة تامة بالرجال وجرحهم وتعديلهم وطبقاتهم، ومعرفة بفنون الحديث، وبالعالي والنازل، والصحيح والسقيم، مع حفظه لمتونه الذي انفرد به. فلا يبلغ أحدٌ في العصر رتبته، ولا يقاربه، وهو عجب في استحضاره واستخراج الحجج منه، وإليه المنتهى في عزوه إلى الكتب الستة والمسند؛ بحيث يصدق عليه أن يقال: كل حديثٍ لا يعرفه ابن تيمية فليس بحديث.[الدرة اليتيمية في السيرة التيمية للذهبي: ص: 3]۔
یہی شیخ الاسلام ،علم حدیث میں طحاوی صاحب کی بے بضاعتی کے بارے میں کہتے ہیں:
والطحاوي ليست عادته نقد الحديث كنقد أهل العلم ولهذا روى في شرح معاني الآثار الأحاديث المختلفة وإنما يرجح ما يرجحه منها في الغالب من جهة القياس الذي رآه حجة ويكون أكثرها مجروحا من جهة الإسناد لا يثبت ولا يتعرض لذلك فإنه لم تكن معرفته بالإسناد كعرفة أهل العلم به وإن كان كثير الحديث فقيها عالما[منهاج السنة النبوية 8/ 196]۔
ہمیں شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے کمالات سے انکار نہیں ہے لیکن اس سے بھی شدید انکار اس بات پر ہے کہ ان کی ہربات وحی الہی سمجھی جائے اگرانہوں نے کسی پرتنقید کی ہے تواس کو ہم قول فیصل سمجھ لیں۔ اگربات یہی ہے توپھرحافظ الدنیا ابن حجرعسقلانی کی جرح کہ انہوں نے بہت ساری جیاد حدیثوں کو موضوع اورضعیف قراردے دیاہے ۔وہ کیوں معتبر نہیں
وجدته كثير التحامل إلى الغاية في رد الأحاديث التي يوردها ابن المطهر ‏‏(الزنديق الرافضي الشهير). وإن كان معظم ذلك من الموضوعات والواهيات، لكنه رد –في ردّه– كثيراً من الأحاديث الجياد التي لم يستحضر حالة التصنيف ‏مظانها، لأنه كان لاتساعه في الحفظ يتكل على ما في صدره. والإنسان عامد للنسيان. وكم من مبالغة لتوهين كلام الرافضي، أدّته أحياناً إلى تنقيص علي(6/319)
۔ البانی کی جرح جوگھر کی گواہی ہے وہ کیوں معتبر نہیں کہ شیخ الاسلام آحادیث کے طرق کو جمع کرکے اس پرغورکرنے سے قبل ہی جلد بازی میں حکم جاری کردیتے ہیں۔
ویسے جتنی تعریف حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ کی کی ہے ویسی ہی بلکہ کچھ اس سے بھی زیادہ تعریف اپنے استاد حافظ مزی کی کی ہے۔ یقین نہ ہوتو دیکھ لیں بلکہ خود ابن تیمیہ حدیث کے فنون کے تعلق سے بعض امور مین حافظ مزی سے پوچھاکرتے تھے۔
ویسے ثلاث تراجم نفیسۃ للائمہ الاعلام میں حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ اورحافظ مزی کا جوترجمہ لکھاہے وہ دیکھ لیں معلوم ہوجائے گاکہ ان کے نزدیک علم حدیث میں کون فائق تھا۔
اسی میں یہ بھی لکھتے ہیں۔
مَعَ أَنِّي مُخَالف لَهُ فِي مسَائِل أَصْلِيَّة وفرعية قد أبديت آنِفا أَن خطأه فِيهَا مغْفُور بل قد يثيبه الله تَعَالَى فِيهَا على حسن قَصده وبذل وَسعه وَالله الْموعد مَعَ أَنِّي قد أوذيت لكلامي فِيهِ من أَصْحَابه وأضداده فحسبي الله (المصدرالسابق1/26)
اس زمانہ میں بھی ایسے غالیوں کی کمی نہیں تھی جوحافظ ذہبی جیسے جلیل القدر امام کو محض اس لئے تکلیف دیاکرتے تھے کہ انہوں نے بعض مسائل میں ابن تیمیہ سے مخالفت کی ہے۔ احناف کو تعصب کا الزام دینے والے اس تعصب کو بھی دیکھیں اورتھوڑی دیر کیلئے اپنے تعصب پر غورکریں۔

یہ اوربات ہے کہ کچھ لوگوں نے اپنے تعصب کو کتاب وسنت کانام دے رکھاہے اوراسی خیال میں وہ مدہوش ہیں کہ ان کا ہرقول وفعل کتاب وسنت ہے اورمخالفین کتاب وسنت کے دشمن ہیں۔لیکن ظاہرہے کہ خیال سے نظام عالم تبدیل نہیں ہوتا۔

بہرحال انہی حافظ ذہبی نے حافظ مزی کی جوکچھ علم حدیث میں تعریف کی ہے اس کو ذراسامنے رکھتاہوں تاکہ پتہ چلے کہ حافظ ذہبی کا تعریف کرنے کا اندازکیاہوتاہے اوراس کو دلیل تام سمجھنا کتنی بڑی"عقل مندی" ہے۔
حافظ مزی کے بارے میں حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
هُوَ حَافظ الْعَصْر ومحدث الشَّام ومصر وحامل لِوَاء الْأَثر عالم أَنْوَاع نعوت الْخَبَر صَاحب معضلاتنا وموضح مشكلاتنا
پتہ چلاکہ حدیث کے مشکل مقامات میں حافظ ذہبی کی رہنمائی حافظ مزی نے کی ہے۔
وَأما معرفَة الرِّجَال فإليه فِيهِ الْمُنْتَهى لم أعاين مثله وَلَا هُوَ رأى فِي ذَلِك مثل نَفسه
وَلَو كَانَ لي رَأْي للزمته أَضْعَاف مَا جالسته سَمِعت بقرَاءَته شَيْئا وافرا وَأخذت عَنهُ هَذَا الشَّأْن بحسبي لَا بِحَسبِهِ وَلنْ يخلفه الزَّمَان أبدا فِي مَعْرفَته
اوریہ بھی نقل کیاہے۔
وَتقدم أَبَا الْحجَّاج الْمزي بَحر هَذَا الْعلم الزاخر الْقَائِل من رَآهُ كم ترك الأول للْآخر أحفظ النَّاس للتراجم وأعلمهم بالرواة من أعارب وأعاجم لَا يخص بمعرفته مصرا دون مصر وَلَا ينْفَرد علمه بِأَهْل عصر دون عصر
یہ صرف حافظ ذہبی کی تعریف کاایک نمونہ دیکھایاہے۔دوسرے یہ کہ پھر حافظ ذہبی تصنیفات میں حافظ ابن دقیق العید کا ترجمہ پڑھیں ۔ کتنی عقیدت اورمحبت سے ذکر کیاہے اورکتنے گراں قدرالفاظ استعمال کئے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ مان لیاکہ حافظ ذہبی کابیان ابن تیمیہ کے بارے میں جو آپ نے نقل کیاہے حرف بہ حرف صحیح ہے۔لیکن اس سے کیاثابت ہوتاہے؟کیاابن تیمیہ کی ہربات حرف آخر ہے؟۔آخر جب جرح وتعدیل میں بخاری وابن معین کی ہرجرح معتبر نہیں توپھرابن تیمیہ کافرمایاہوا"مستند "کیسے ہوجائے گا۔
حافظ ابن حجر سابق میں کہہ چکے ہیں کہ ان سے جیاد احادیثوں کوضعیف وموضوع قراردینے میں چوک اسی لئے ہوئی کہ وہ اپنے حافظہ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اورحافظہ انسان کا دغادے جاتاہے۔
اگرآپ حضرات کو یہ حق ہے کہ بعض مسائل میں ابن تیمیہ کی رائے نہ مانیں اوراس کو اٹھاکر دے پھینکیں مثلا قرات خلف الامام کا مسئلہ ہے اس بارے میں آپ حضرات ابن تیمیہ کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتے ۔توکیاضروری ہے کہ پوری دنیا امام طحاوی کے تعلق سے ابن تیمیہ کے موقف سے اتفاق رکھے۔

قرات خلف الامام والے مسئلہ میں توواقعتاابن تیمیہ کا موقف کچھ مضبوط بھی ہے لیکن امام طحاوی کے مسئلہ میں تودلیل کچھ نہیں محض جذباتی بیان بازی ہے جب کہ جس حدیث کو ابن تیمیہ نے امام طحاوی کی حط شان کی دلیل بنایاہے اس کی تصحیح وتحسین دیگر محدثین نے بھی کی ہے۔
مثلایہی ردشمس کی حدیث دیکھیں اگراس کی تصحیح کرنے پر ابن تیمیہ نے امام طحاوی پر جرح کی ہے تواس کو مکذوب قراردینے پر حافظ ابن حجر نے ابن تیمیہ کی تردید کی ہے۔

وَرَوَى الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا لَمَّا نَامَ عَلَى رُكْبَةِ عَلِيٍّ فَفَاتَتْهُ صَلَاةُ الْعَصْرِ فَرُدَّتِ الشَّمْسُ حَتَّى صَلَّى عَلِيٌّ ثُمَّ غَرَبَتْ وَهَذَا أَبْلَغُ فِي المعجزة وَقد أَخطَأ بن الْجَوْزِيّ بإيراده لَهُ فِي الموضوعات وَكَذَا بن تَيْمِيَةَ فِي كِتَابِ الرَّدِّ عَلَى الرَّوَافِضِ فِي زَعْمِ وَضْعِهِ(فیح الباری9/222
اب اگرمحض یہ ایک حدیث اس کی دلیل بنتی ہے کہ ابن تیمیہ امام طحاوی پر سخت جرح کریں اوریہ کہ ان کو کچھ نہیں آتاتو پھر حافظ ابن حجر کی ابن تیمیہ پر یہ تنقید اس کی دلیل کیوں نہیں بنے گی کہ ابن تیمیہ کو ہی کچھ نہیں آتاجاتاہے۔خواہ مخواہ محض روافض کی تردید کے جوش میں اچھی خاصی حدیثوں کو ضعیف اورموضوع قراردے دیاہے۔

پھریہ بات بھی یاد رہے کہ محض کسی کی تردید وتنقیص سے کسی کامرتبہ کم نہیں ہوتا۔ابن ابی حاتم نے امام بخاری کی "تاریخ"کی غلطیوں پر پوری کتاب لکھ دی کیااس کامطلب یہ ہوگاکہ امام بخاری کامرتبہ فن جرحوتعدیل میں کم ہوجائے گا۔ یاپھرابوزعہ اورابوحاتم نے امام بخاری کو متروک قراردیاتواس کو تسلیم کرلیاجائے گا۔اگرنہیں توپھرابن تیمیہ کی بات اس باب میں واجب التسلیم کیوں کرہوسکتی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
کفایت اللہ صاحب امام طحاوی کے علم اسناد کے تعلق سے کہتے ہیں
لیکن طحاوی صاحب کے بارے میں ان کی توثیق کے علاوہ ایسی کوئ بات نہیں ملتی جس سے علم اسناد میں بھی موصوف کی مہارت کا پتہ چلے
یوں تو وہ عدم تقلید کے مدعی ہیں لیکن اس باب میں حضرت ابن تیمیہ کی تقلید کاحق اداکردیاہے کہ ابن تیمیہ کی محض ایک تنہااورشاذ رائے کو اپنی دلیل بنالیا۔
ماقبل میں ہم علمائے کرام کے ارشادات گرامی امام طحاوی کے علومرتبت کے تعلق سے پیش کرچکے ہیں جس میں توثیق کے ساتھ فن حدیث میں ان کی گہرائی وگیرائی کابھی ذکر ہے لیکن چونکہ کچھ لوگ آنکھ رکھتے بھی اندھے ہوتے ہیں۔یاپھرکسی قسم کا تعصب ان کولاحق ہوتاہے اورپڑھی ہوئی چیزیں بھی وہ بھول جاتے ہیں۔
اب ایک شکل تویہ ہے کہ ہم دوبارہ سے وہ تمام ابحاث نقل کریں جس سے امام طحاوی کی علم حدیث میں علوشان کا پتہ چلتاہو۔اس سے تھریڈ کے تطویل کااندیشہ ہے لیکن یہ تھریڈ چونکہ پہلے ہی بہت زیادہ طویل ہوچکاہے لہذا مزید طویل ہوبھی توکیا ہے۔
URDU MAJLIS FORUM - تنہا پوسٹ دیکھیں - امام طحاوی حیات وخدمات
اولا
کسی دوسرے عالم نے بیہقی اورابن تیمیہ کی اس شاذ رائے کی کی جانب توجہ نہیں کی ہے۔ سبھی ان کے علم وفضل کے معترف ہیں۔بالخصوص حافظ ابن حجر توانکو فقہ اورحدیث کا اسی طرح جامع مانتے ہیں جیساکہ ابن خزیمہ اوربیہقی توکیاابن خزیمہ اوربیہقی بھی علم اسناد میں کورے ہیں۔
ثانیا
ثالثا
جن لوگوں نے جرح وتعدیل کے ائمہ پرکتابیں لکھی ہیں اس میں امام طحاوی کانام بھی صاف اورصریح لفظوں میں ذکر کیاہے۔
ابن تیمیہ کے برعکس ان کے شاگرد اورصاحب استقراء تام حافظ ذہبی نے جرح وتعدیل کے ائمہ پر جوکتاب لکھی ہے۔
ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل۔
ان کا ذکر جن کے قول پر جرح وتعدیل میں اعتماد کیاجاتاہے
کتاب کے نام سے ہی کتاب کا مقصد واضح ہے۔ اس میں طبقہ ثامنہ میں447نمبر میں امام طحاوی کا ذکر بایں الفاظ موجود ہے۔
وابوجعفر احمدبن محمد بن سلامہ الطحاوی محدث الحنفیۃ وعالمھم۔
اسی طرح تذکرۃ الحفاظ میں حافظ ذہبی نے امام طحاوی کا تذکرہ کیاہے اورتذکرۃ الحفاظ لکھنے کا مقصد یہ بیان کیاہے۔
ھذہ تذکرۃ باسماء معدلی حملۃ العلم النبوی ومن یرجع الی اجتہادھم فی التوثیق والتضعیف والتصحیح واالتزئیف ۔
رابعا
یہ کتاب منہاج جس میں ابن تیمیہ نے امام طحاوی پریہ جرح کی ہے اس سے حافظ ذہبی لاعلم نہیں تھے انہوں نے اس کاخلاصہ بھی لکھاہے جیساکہ کفایت اللہ صاحب اسی چیز کوایک مقام پر بطوردلیل نقل کرچکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اس باب میں ابن تیمیہ کی تنقید سے متفق نہیں ہیں۔
خامساً
حافظ ابن کثیر بھی ابن تیمی کے دست گرفتگان میں سے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے امام طحاوی کیلئے جہابذہ حفاظ کا لفظ استعمال کیاہے۔
سادسا
پھردیکھنے کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے وزارت اوقاف نے شرح عقیدۃ الطحاویہ شائع کیاہے۔ اس میں الرئاسة العامة لإدارات البحوث العلمية والإفتاء والدعوة والإرشاد کامقدمہ بھی شامل ہے۔
امام طحاوی کی شرح معانی الآثارجس کے بارے میں ابن تیمیہ کہتے ہیں
العلم ولهذا روى في شرح معاني الآثار الأحاديث المختلفة وإنما يرجح ما يرجحه منها في الغالب من جهة القياس الذي رآه حجة ويكون أكثرها مجروحا من جهة الإسناد لا يثبت
اسی شرح معانی الآثار کے بارے میں سعودی عرب سے وزارت اوقاف کے تحت شائع ہونے والی کتاب میں لکھاہے۔
ومنها كتاب"معاني الآثار"وهو كتاب يعرض فيه الأبحاث الفقهية مقرونة بدليلها، ويذكر في غضون بحثه المسائل الخلافية، ويسرد أدلتها ويناقشها، ثم يرجح ما استبان له الصواب منها، وهذا الكتاب يدرب طالب العلم على التفقه، ويطلعه على وجوه الخلاف. ويربي فيه ملكة الاستنباط، ويكون له شخصية مستقلة.
(شرح عقیدۃ الطحاویہ1/13)
کمال کی بات یہ ہے کہ یہی کتاب یعنی شرح العقیدۃ الطحاویہ البانی کی تحقیق سے بھی شائع ہوئی ہے اوراس میں بھی امام طحاوی کے ترجمہ میں یہ بات موجود ہے۔اس میں البانی صاحب نے طویل مقدمہ لکھاہے اورحسب عادت اپنے مخالفین پرجم کر گرجے اوربرسے ہیں لیکن شرح معانی الآثار اورامام ابوجعفر طحاوی کے تعلق اگران کو اتفاق نہیں تھاتوتردید میں ایک بھی لفظ نہیں لکھاہے ۔ویسے ان سے یہ بات بعید بھی نہیں ہے کہ کسی جگہ جہاں ان کا موقف امام طحاوی کے خلاف ہو امام طحاوی پر تعصب کی جرح کردی ہو۔

لطیفہ
کفایت اللہ صاحب متعدد مواقع پر لطیفہ ذکرکرچکے ہیں۔ کچھ لطیفہ ہم بھی عرض کرتے چلیں ۔البانی صاحب سلسۃ الصحیحۃ والضعیفۃ میں متعدد مقامات پر لکھتے رہے العصمۃ للہ ۔
السلسلة الصحيحة (1/179) و (1/202) و (1/298) و (1/473) و(2/367) و (3/172) و (4/313)و (4/429)
السلسلة الضعيفة (2/252) و (2/378) و (2/406) و (2/407) و (2/464).
لیکن دوسروں کو توحید کا درس دینے والے یہ نہیں سمجھ سکے کہ اس جملہ میں کیاشرک پوشیدہ ہے۔
جب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ نے گرفت کی تواس کے بعد لکھنے لگے "المعصوم من عصمه الله"
لیکن کمال ہے کہ البانی صاحب نے کہیں بھی یہ اعتراف نہیں ہےکہ ان کی غلطی پر متنبہ کرنے والے شیخ عبدالفتاح ابوغدہ تھے۔اورسلفی حضرات نے اس جملہ پر گرفت نہایت نرم لفظوں میں کی ہے اورقائل کے مراد ومنشاء کاخیال رکھاہے کیونکہ یہ بات پہلے علم میں آچکی تھی کہ یہ جملہ صادر ہواہے حضرت البانی سے۔ اگریہی جملہ کسی حنفی عالم کے قلم وزبان سے نکلاہوتاتوپھردیکھناتھاکفروشرک کے فتوی کادھمال!
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
یہ لیں کچھ عبارتیں ملاحظہ ہوں:
محمد بن حسن وادي الصيادي لکھتے ہیں:
وکذا انکرو علی الشیخ تاج الدین السبکی رموه بالكفر واستحلال شرب الخمر وغیرہما وأتوا به مغلولاً مقيداً من الشام إلى مصر ومعه خلائق يشهدون عليه [قلادة الجواهر في سيرة الرفاعي وأتباعة الأكابر ص: ٢٠٦]۔
اسی طرح شیخ تاج الدین سبکی کی بھی لوگوں نے مذمت کی ،ان پرکفر ، اور شراب کو حلال سمجھنے اور اس جیسی برائیوں کا الزام لگایا ، اور انہیں باندھ اور جکڑ کر شام سے مصر لایا گیا ، ان کے ساتھ بہت سارے لوگ ان کے خلاف گواہی دینے کے لئے بھی موجود تھے۔
ترجمہ: شیخ عبدالوہاب شعرانی نے اپنی کتاب ((الأجوبة المرضية)) میں نقل کیا کہ سبکی کے دور کے لوگوں نے اس پر کفر ، شراب نوشی کو حلال سمجھنے اور زناکاری کا الزام لگایا ہے، نیز یہ بھی کہ یہ شخص رات میں ذمیوں اور مجوسیوں کا لباس پہنتا تھا اور دن میں اتار دیتا تھا ، آخر کار لوگ اس کے خلاف جمع ہوگئے، اور اسے باندھ اورجکڑ کر شام سے مصر لے آئے ، اس کے ساتھ شام سے بہت سارے لوگ بھی اس کے خلاف گواہی دینے کے آگئے، بالاخر شیخ جمال الدین کی کرم فرمائی پر اسے عافیت ملی۔
سبکی سے متعلق مذکورہ الزامات کہاں تک صحیح ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ہم نے جمشیدصاحب کے اصول کے مطابق یہ سطور نقل کردئے ، کیونکہ وہ ابن تیمیہ کے تعلق سے جو چاہتے ہیں نقل کردیتے ہیں ۔
کفایت اللہ صاحب نے دوحوالے نقل کئے اوردونوں صوفیوں کے ہیں اورصحت سند جس کاوہ ذکر کرتے ہین کہیں کچھ پتہ نہیں۔ویسے توان کو چاہئے تھاکہ یہ بات وہ ذہبی اورابن کثیراوراس زمانہ کے دیگرمورخین کے حوالہ سے بیان کرتے لیکن افسوس کہ کفایت اللہ صاحب کو باوجود تلاش کے یہ نہیں ملا۔
قلادۃ الجواہر نامی کتاب پتہ محمد بن حسن وادی الصیادی کی ہے۔کفایت اللہ صاحب اگلے مراسلے میں بتائیں کہ وہ تاج الدین السبکی کا ہم عصر تھایانہیں اگرنہیں تھاتوبغیر"سند صحیح"اس کی بات معتبرکیوں ہورہی ہے۔کہیں ایساتونہیں کہ سند صحیح کامطالبہ صرف اورصرف ابن تیمیہ کیلئے بطورڈھال استعمال کیاجارہاہے۔

علام آلوسی صاحب روح المعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ونقل الشيخ عبد الوهاب الشعرانى في كتابه ((الأجوبة المرضية)) : أن أهل زمانه رموه بالكفر واستحلال شرب الخمر والزنا وأنه كان يلبس الغيار والزنار بالليل ويخلعهما بالنهار ، وتحزبوا عليه وأتوا به مقيداً مغلولاً من الشام إلى مصر ، وجاء معه خلائق من الشام يشهدون عليه ؛ ثم تداركه اللطف على يد الشيخ جمال الدين الإسنوى . [جلاء العينين في محاكمة الأحمدين ص: 38]۔
شیخ عبدالوہاب شعرانی نےاہل زمانہ کی بات نقل کی ہے۔
اولاتوشیخ عبدالوہاب شعرانی ہیں غیرمقلدوں کے نزدیک معتبر نہیں لیکن شاید اس باب میں معتبرہوں اگروہ ابن تیمہ کے کسی مخالف کے خلاف کچھ کہیں۔ورنہ صوفی اورمشرک میں غیرمقلدوں نے کوئی فرق چھوڑاہی نہیں ہے۔
ثانیا اگرشیخ شعرانی اپنی بات نقل کرتے ہیں توکچھ بات ہوتی انہوں نے تواہل زمانہ کی بات نقل کردی ہے۔یہ اہل زمانہ ثقہ اورصدوق راوی توہیں نا!کہیں اس میں کوئی مجہول راوی توشامل نہیں ہوگیاہے۔کفایت اللہ صاحب کاعجیب حال ہے۔کسی شخص کے تعلق سے علم وفضل کی کتنی بھی شہادت موجود ہولیکن ابن تیمیہ کے باب میں اس کی گواہی اس لئے معتبرنہیں ہوگی کہ اس کے ترجمہ میں ثقہ وصدوق لکھاہوانہیں ہے لیکن ابن تیمہ کے کسی مخالف کیلئے کوئی بات چاہے کہنے والاکانام ونشان بھی پتہ نہ ہولیکن قابل قبول ہوگا۔یعنی اہل زمانہ اگرکوئی بات کہیں گے چاہے اس اہل زمانہ کانام ونشان خرد بین سےبھی نہ دیکھااورمعلوم کیاجاسکے لیکن آمناوصدقناکی صدائے متواترومسلسل بلند ہوتی رہے گی۔
ثالثاعلامہ نعمان آلوسی نے یہ بات شعرانی کے حوالہ سے نقل کی ہے۔ علامہ آلوسی صوفیاء اورتصوف کے قائل ہیں لیکن غیرمقلدین جوصوفیاء اورتصوف کے قائل نہیں وہ اس سے کس طرح استدلال کرسکتے ہیں۔میری سمجھ سے توباہرہے۔اگریہ کہاجائے کہ الزاماجواب دیاگیاہے توالزامی جواب اس وقت قابل قبول ہوتاہے جب تحقیقی جواب دے دیاگیاہو۔اس کے بعد مزید پریشراورمدعاکے اثبات کیلئے الزامی جواب دیاجاتاہے ورنہ صرف الزامی جواب ثابت کرتاہے کہ فریق مخالف کے پاس مثبت طورپر اپنی بات اوراپنامدعاثابت کرنے کیلئے دلائل نہیں ہے۔
رابعاکفایت اللہ صاحب یوں توشعبہ حدیث کے ناظم ہیں اورہم وقتافوقتاان کی انوکھی اورالبیلی تحریروں سے گرانباری کی حد تک مستفید ہوتے رہتے ہین لیکن اسماء ورجال میں ان کی غلطیاں قابل رحم ہیں۔
جلاء العینین نامی کتاب صاحب روح المعانی کے صاحبزادے کی ہے۔لیکن وہ اس کو صاحب روح المعانی کی تصنیف بتانے پر مصر ہیں۔
علام آلوسی صاحب روح المعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
اس کتاب کے مصنف کانام
نعمان خير الدين ابن السيد محمود أفندي شهاب الدين مفتي الحنفية ببغداد،المفسر الشهير بالآلوسيہے
کفایت اللہ صاحب کو چاہئے کہ ایک مرتبہ مزید مکتبہ شاملہ میں اس کتاب کے مصنف کانام دیکھ لیں ۔

علامہ تاج الدین سبکی کوقاضی القضاہ للشافعیہ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیاگیااورپھراگرمان بھی لیں کہ وہ سب ان کے ساتھ ہواجیساکہ کچھ حوالے کفایت اللہ صاحب نے پیش کئے ہیں توپھرانہی کو دوبارہ قضاء کی ذمہ داریوں سے نوازابھی گیااورسابقہ منصب بحال کیاگیااورلوگوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی۔
اس پورے پیراگراف اورحوالہ سے تاج الدین سبکی کے علم وعمل میں کوئی نقصان توواقع نہیں ہوا۔ وْدَةُ قَاضِي الْقُضَاةِ تَاجِ الدِّينِ السُّبْكِيِّ إِلَى دمشق المحروسة
فِي يَوْمِ الْأَرْبِعَاءِ التَّاسِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ جُمَادَى الْأُولَى قَدِمَ مِنْ نَاحِيَةِ الْكُسْوَةِ وَقَدْ تَلَقَّاهُ جماعة من الأعيان إلى الصمين وَمَا فَوْقَهَا، فَلَمَّا وَصَلَ إِلَى الْكُسْوَةِ كَثُرَ النَّاسُ جَدًّا وَقَارَبَهَا قَاضِي قُضَاةِ الْحَنَفِيَّةِ الشَّيْخُ جَمَالُ الدِّينِ بْنُ السَّرَّاجِ، فَلَمَّا أَشْرَفَ مِنْ عقبة شحورا تَلَقَّاهُ خَلَائِقُ لَا يُحْصَوْنَ كَثْرَةً وَأُشْعِلَتِ الشُّمُوعُ حَتَّى مَعَ النِّسَاءِ، وَالنَّاسُ فِي سُرُورٍ عَظِيمٍ، فلما كان قريبا من الجسورة تلقته الخلائق الخليفيين مَعَ الْجَوَامِعِ وَالْمُؤَذِّنُونَ يُكَبِّرُونَ، وَالنَّاسُ فِي سُرُورٍ عظيم، وَلَمَّا قَارَبَ بَابَ النَّصْرِ وَقْعَ مَطَرٌ عَظِيمٌ وَالنَّاسُ مَعَهُ لَا تَسَعُهُمُ الطُّرُقَاتُ، يَدْعُونَ لَهُ وَيَفْرَحُونَ بِقُدُومِهِ، فَدَخَلَ دَارَ السَّعَادَةِ وَسَلَّمَ عَلَى نَائِبِ السَّلْطَنَةِ، ثُمَّ دَخَلَ الْجَامِعَ بَعْدَ الْعَصْرِ ومعه شموع كثيرة، وَالرُّؤَسَاءُ أَكْثَرُ مِنَ الْعَامَّةِ.
(تاریخ ابن کثیر14/318)
یہ دیکھئے ابن کثیرجوان کے معاصر ہیں اورابن تیمیہ کے شاگرد ہیں وہ کیاکہہ رہے ہیں انہوںنے اپنی تاریخ میں اس طرح کی کوئی بات نہیں کہی ہے۔
اوراس سے قبل وہ لکھتے ہیں
وَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ التَّاسِعَ عَشَرَ مِنَ الشَّهْرِ- أَعْنِي ربيع الْآخِرَ- طُلِبَ الْقُضَاةُ الثَّلَاثَةُ وَجَمَاعَةٌ مِنَ الْمُفْتِينَ: فَمِنْ نَاحِيَةِ الشَّافِعِيِّ نَائِبَاهُ، وَهُمَا الْقَاضِي شَمْسُ الدين الغزى والقاضي بدر الدين بن وهبة، والشيخ جمال الدين بن قَاضِي الزَّبَدَانِيِّ، وَالْمُصَنِّفُ الشَّيْخُ عِمَادُ الدِّينِ بْنُ كَثِيرٍ وَالشَّيْخُ بَدْرُ الدِّينِ حَسَنُ الزُّرَعِيُّ، وَالشَّيْخُ تَقِيُّ الدِّينِ الْفَارِقِيُّ. وَمِنَ الْجَانِبِ الْآخَرِ قَاضِيَا الْقُضَاةِ جَمَالُ الدِّينِ الْمَالِكِيُّ وَالْحَنْبَلِيُّ، وَالشَّيْخُ شَرَفُ الدين بن قاضى الجبل الحنبلي، والشيخ جمال الدين ابن الشريشنى، والشيخ عز الدين بن حمزة بن شيخ السلامية الحنبلي، وعماد الدين الحنائى، فَاجْتَمَعْتُ مَعَ نَائِبِ السَّلْطَنَةِ بِالْقَاعَةِ الَّتِي فِي صَدْرِ إِيوَانِ دَارِ السَّعَادَةِ، وَجَلَسَ نَائِبُ السَّلْطَنَةِ فِي صَدْرِ الْمَكَانِ، وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ، فَكَانَ أَوَّلَ مَا قَالَ: كُنَّا نَحْنُ التُّرْكَ وَغَيْرُنَا إِذَا اخْتَلَفْنَا وَاخْتَصَمْنَا نَجِيءُ بِالْعُلَمَاءِ فَيُصْلِحُونَ بَيْنَنَا، فَصِرْنَا نَحْنُ إِذَا اخْتَلَفَتِ الْعُلَمَاءُ وَاخْتَصَمُوا فَمَنْ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ؟
وَشَرَعَ فِي تَأْنِيبِ مَنْ شَنَّعَ عَلَى الشَّافِعِيِّ بِمَا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ مِنْ تِلْكَ الْأَقْوَالِ وَالْأَفَاعِيلِ الَّتِي كُتِبَتْ فِي تِلْكَ الْأَوْرَاقِ وَغَيْرِهَا، وَأَنَّ هَذَا يَشْفِي الْأَعْدَاءَ بِنَا، وَأَشَارَ بِالصُّلْحِ بَيْنَ الْقُضَاةِ بَعْضِهِمْ مِنْ بَعْضٍ فَصَمَّمَ بَعْضُهُمْ وامتنع، وَجَرَتْ مُنَاقَشَاتٌ مِنْ بَعْضِ الْحَاضِرِينَ فِيمَا بَيْنَهُمْ، ثُمَّ حَصَلَ بَحْثٌ فِي مَسَائِلَ ثُمَّ قَالَ نَائِبُ السَّلْطَنَةِ أَخِيرًا: أَمَا سَمِعْتُمْ قَوْلَ اللَّهِ تعالى عَفَا الله عَمَّا سَلَفَ 5: 95 فَلَانَتِ الْقُلُوبُ عِنْدَ ذَلِكَ وَأَمَرَ كَاتِبَ السِّرِّ أَنْ يَكْتُبَ مَضْمُونَ ذَلِكَ فِي مُطَالَعَةٍ إِلَى الدِّيَارِ الْمِصْرِيَّةِ، ثُمَّ خرجنا على ذلك انتهى والله أعلم

اس سے واضح ہورہاہے کہ تاج الدین سبکی کے عزل کے پس پردہ قضاۃ کی آپسی رنجشیں تھیں نہ کہ کوئی واقعی اورحقیقی بات۔
ورنہ اگراہل زمانہ کی ہی بات ماننی ہوتو اہل زمانہ نے جتنی تعداد مین اورجتنے ادوار میں تاج الدین سبکی کو کچھ کہاہے اس سے سوگنازیادہ ابن تیمیہ کے خلاف کہاہے پھراسے کیوں نہیں مانتے ۔شاید یہاں پر سندصحیح کا عذرکام کرے گا

ج
مشیدصاحب لوگوں کو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس بے ادب سبکی نے شیخ الاسلام کے تعلق سے کیا کہا ہے لیکن ہم قارئین کو یہ بھی بتائیں گے کہ اس بدزبان نے امام ذہبی سے متعلق کیا کیا زبان درازیاں کی ہیں ، ذیل میں ہم صرف اس کی ایک کتاب سے چند ایسے اقتباسات پیش کرتے ہیں جن میں اس نے امام ذہبی کی سخت توہین کی ہے ، ملاحظہ ہو:
تاج الدين السبكي (المتوفى:771) نے لکھا:
وهذا شيخنا الذهبي رحمه الله تعالى من هذا القبيل له علم وديانة وعنده على اهل السنة تحامل مفرط لا يجوز ان يعتمد عليه [قاعدة في الجرح والتعديل ص: 43]۔
ترجمہ:اورہمارے شیخ ذہبی کا بھی یہی حال ہے ان کے پاس علم ودیانت ہے اورساتھ میں اہل سنت کے ساتھ حددرجہ زیادتی بھی ، ان پر اعتماد کرنا قطعا درست نہیں۔
تاج الدين السبكي (المتوفى:771) نے مزید لکھا:
وَكَانَ شَيخنَا وَالْحق أَحَق مَا قيل والصدق أولى مَا آثره ذُو السَّبِيل شَدِيد الْميل إِلَى آراء الْحَنَابِلَة كثير الإزراء بِأَهْل السّنة[طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 9/ 103]۔
ترجمہ : اورہمارے شیخ ۔۔۔۔۔۔۔۔حق اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اسے بیان کیا جائے اورسچائی اس بات کے زیادہ قابل ہے کہ متلاشیان حق اسے فوقیت دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ذہبی) حنابلہ کی آراء کی طرف شدت سے مائل تھے ، اور اہل سنت کی بڑی توہین کرتے تھے۔
تاج الدين السبكي (المتوفى:771) نے مزید لکھا:
وَأما تَارِيخ شَيخنَا الذَّهَبِيّ غفر اللَّه لَهُ فَإِنَّهُ عَلَى حسنه وَجمعه مشحون بالتعصب المفرط لَا واخذه اللَّه فَلَقَد أَكثر الوقيعة فِي أهل الدّين أَعنِي الْفُقَرَاء الَّذين هم صفوة الْخلق واستطال بِلِسَانِهِ عَلَى كثير من أَئِمَّة الشافعيين والحنفيين وَمَال فأفرط عَلَى الأشاعرة ومدح فَزَاد فِي المجسمة هَذَا وَهُوَ الْحَافِظ المدره وَالْإِمَام المبجل فَمَا ظَنك بعوام المؤرخين [طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 22]
ترجمہ: اورجہاں تک ہمارے شیخ ذہبی کی کتاب تاریخ الاسلام کی بات ہے تو اللہ ان کی مغفرت کرے ، ان کی یہ کتاب عمدہ اورجامع ہونے کے باوجود حددرجہ تعصب سے پر ہے اللہ انہیں درگزرکرے ، یقینا اس کتاب میں ذہبی نے دیندار و پرہیز گار اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کی شان میں بڑی گستاخیاں کی ہیں ، اور شوافع و احناف کے بہت سے ائمہ کے خلاف زبان درازی کے مرتکب ہوئے ہیں ، جب برائی پر اتر آئے تو اشاعرہ کی مذمت میں حد کردی اور جب مدح سرائی پرآمادہ ہوئے تو مجسمہ کے غلو میں انتہا کردی ، یہ بہت بڑے حافظ وعلامہ اور عظیم الشان امام کاحال ہے ، پھر دیگر عام مؤرخین کا کیا حال ہوگا آپ خودسوچ لیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ قیامت میں امام ذہبی رحمہ اللہ کے ساتھ کیا ہوگا ، سبکی نے یہ پتہ نہیں کیسے معلوم کرلیا چنانچہ بڑے اعتماد سے یہ لکھتا ہے:
وَأَنا أخْشَى عَلَيْهِ يَوْم الْقِيَامَة من غَالب عُلَمَاء الْمُسلمين وأئمتهم الَّذين حملُوا لنا الشَّرِيعَة النَّبَوِيَّة فَإِن غالبهم أشاعرة وَهُوَ إِذا وَقع بأشعري لَا يبقي وَلَا يذر ،وَالَّذِي أعتقده أَنهم خصماؤه يَوْم الْقِيَامَة [طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 14]۔
ترجمہ:اورمجھے ذہبی کی بابت امت مسلمہ کے اکثر ائمہ و علماء سے متعلق ڈر ہے ، جنہوں نے شریعت محمدیہ کو ہم تک پہنچایا ہے کیونکہ ان کی اکثریت اشاعرہ ہی کی ہے ، اوریہ ذہبی جب کسی اشعری کی برائی کرتے ہیں تو کوئی کسرباقی نہیں چھوڑتے ، میرا خیال تو یہ ہے کہ یہ سب علماء و ائمہ قیامت کے روز ذہبی کے خلاف کھڑے ہوں گے،
اورحد تو یہ ہے کہ یہی سبکی امام ذہبی رحمہ اللہ پر تعصب اور بے جا اظہار غضب کا الزام لگانے کے بعد کہتاہے:
ثمَّ هُوَ مَعَ ذَلِك غير خَبِير بمدلولات الْأَلْفَاظ كَمَا يَنْبَغِي فَرُبمَا ذكر لَفْظَة من الذَّم لَو عقل مَعْنَاهَا لما نطق بهَا[طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 14]
ترجمہ: اس کے ساتھ امام ذہبی الفاظ کے صحیح معانی و مفہوم سے بھی ناواقف تھے ، چنانچہ بسا اوقات انہوں نے مذمت میں ایسالفظ استعمال کردیا ہے کہ اگر انہیں اس کا معنی پتہ ہوتا تو کبھی یہ لفظ زبان پر نہ لاتے۔
یہ اکثرحوالے اس کی صرف ایک کتاب سے ہیں اس نے اپنی دیگر کتب مثلا قاعدة في الجرح والتعديل اور معید النعم وغیرہ میں بھی اسی طرح کی بے ادبی کی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امام تاج الدین سبکی نے حافظ ذہبی کے خلاف بعض مواقع پر تند وتیز لہجہ اختیار کیاہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسی تعریف انہوں نے کی ہے شاید ہی کسی اورنے کی ہولہذایہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی کے تذکرہ میں لکھی جانے والی تمام کتابوں میں تاج الدین سبکی کے حافظ ذہبی کی شان میں کہے گئے ان مدحیہ کلمات کاذکر کیاجاتاہے۔

وقال تاج الدين السبكي: شيخنا، وأستاذنا، الإمام الحافظ، محدث العصر، واشتمل عصره على أربعة من الحفاظ، بينهم عموم وخصوص: المزي، والبرزالي، والذهبي، والشيخ الإمام الوالد، لا خامس لهؤلاء في عصرهم.وأما أستاذنا أبو عبد الله، فبصر لا نظير له، وكنز هو الملجأ إذا نزلت المعضلة، ورجل الرجال في كل سبيل، وهو الذي خرجنا في هذه الصناعة، وأدخلنا في عداد الجماعة.وسمع منه الجمع الكثير، وما زال يخدم هذا الفن إلى أن رسخت فيه قدمه، وتعب الليل والنهار، وما تعب لسانه وقلمه، وضربت باسمه الأمثال، وسار اسمه مسير لقببه الشمس إلا أنه لا يتقلص إذا نزل المطر، ولا يدبر إذا أقبلت الليالي.
(البدایہ والنہایہ)
ایک اورمقام پر حافظ تاج الدین سبکی کہتے ہیں
أستاذنا أبو عبد الله التركماني الذهبي بصر لا نظير له، وكنز هو الملجأ إذا نزلت المعضلة إمام الوجود حفظا، وذهب العصر معنى ولفظا، وشيخ الجرح والتعديل، ورجل الرجال فِي كل سَبِيل، كَأَنَّمَا جمعت الْأمة فِي صعيد واحد فنظرها ثم أخذ يخبر عنها إخبار من حضرها
(طبقات الشافعیہ1/110)
کفایت اللہ صاحب نے حسب عادت صرف ایک ہی پہلو نقل کیاتھااور دوسرے پہلو سے اغماض برتا کیونکہ اگروہ حافظ ذہبی کی شان میں کہے گئے کلمات نقل کرتے توان کو متعصب قراردینامشکل ہوجاتا۔
اب ان دونوں پہلوؤں کوسامنے رکھ دینے سےایک غیرجانبدار قاری کیلئے یہ فیصلہ کرنابہت آسان ہوگاکہ وہ تاج الدین سبکی کی اصل شخصیت کو پہچان سکے۔
حافظ ذہبی کایہ پہلو کہ وہ حنابلہ کی اورمحدثین کی تعریف میں افراط سے کام لیتے ہیں اوردیگرمسالک والوں کے ساتھ تھوڑاتفریط کرتے ہیں۔اس کو عبدالستارشیخ اوربشارعوادجیسے مورخین نے بھی تسلیم کیاہے اس کی وجہ غالبایہی ہے کہ وہ بذات خود محدث ہیں اس لئے محدثین کا تذکرہ پوری دلچسپی سے کرتے ہیں اورعقائد میں حنبلی ہیں لہذا حنابلہ کابھی تذکرہ ذوق وشوق سے کرتے ہیں۔لہذا تاج الدین سبکی نے جوکچھ کہاہے وہ سرے سے بے حقیقت نہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے بات کو بہت زیادہ بڑھاچڑھاکر پیش کیا ہے۔
ویسے ان کے والد تقی الدین سبکی بھی ابن تیمیہ کے ناقدین میں سے ہیں اورتقی الدین سبکی کی جلالت علمی کا حال یہ تھاکہ ان کے معاصرین ان کو اجتہاد مطلق کے علم کاحامل سمجھتے تھے۔اورحافظ ذہبی نے بھی ان کی بہت زیادہ تعریفیں کی ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
زغل العلم

حقیقت یہ ہے کہ کوئی کتاب جس علمی معیار پراورجن وجوہ سے ثابت ہوتی ہے اس سے یہ کتاب بجاطورپر ثابت اورمحقق ہے اورکمال یہ ہے کہ اس کتاب کے محقق خود سلفی المسلک ہیں۔شاید وہ کفایت اللہ کے لیول اوردرجہ کے سلفی نہ ہوں ان کا گریڈ کچھ نیچارہ گیاہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ جب غیرمقلدین کے ایک فورم پر کچھ صاحبا نے زغل العلم کی صحت نسبت کے بارے میں کچھ اشکالات پیش کئے توایک غیرمقلد ابوفھرسلفی نے ہی اس کاجواب دیااورسوال کرنے والے خاموش ہوگئے۔
URDU MAJLIS FORUM - تنہا پوسٹ دیکھیں - رسالہ " زغل العلم " كى جھوٹی نسبت _ بحث اور تبصرے
لیکن چونکہ غیرمقلدین کو صرف ابن تیمیہ کے باب میں کتاب کی صحت نسبت اورسند صحیح کابخارچڑھتاہے ۔ہاں امام ابوحنیفہ کے بارے میں ان غیرمقلدین کاقبلہ تبدیل ہوجاتاہے اورنقطہ نظر180گریڈ یعنی بالکل مخالف سمت میں ہوجاتاہے۔اس وقت نہ کتاب کی صحت سند کی بحث ہوتی ہے اورنہ ہی صحت نسبت کی بلکہ اگرکسی مابعد کے مصنف نے کتاب کومصنف مذکور کی جانب منسوب کیاہے تویہی بہت بڑی دلیل کتاب کے صحیح ثابت ہونے کی ٹھہرجاتی ہے جیساکہ کفایت اللہ نے دیوان الضعفاء والمتروکین کے اثبات میں عبدالرؤف المناوی کاحوالہ پیش کیاتھا۔

کفایت اللہ صاحب کی عربی دانی کا حال متعدد مقام پر آچکاہے۔اس بحث میں بھی ذراہم دیکھ لیتے ہیں کہ حافظ ذہبی عبارت کیاہے اوراسے کفایت اللہ صاحب نے کیسے سمجھاہے۔

مکتبہ شاملہ میں زغل العلم ناصرالعجمی کے نسخہ سے ماخوذ ہے۔جب کہ زغل العلم کی ایک قدیم طباعت شیخ زاہد الکوثری کی تعلیق کے ساتھ طبع ہوئی ہے۔ اس میں اورناصرالعجمی کی زغل العلم میں کچھ معمولی فروق ہیں ۔زیر بحث پیراگراف میں بھی دونوں نسخوں میں بعض معمولی فرق ہے۔اس کی نشاندہی کردیتاہے۔
ناصرالعجمی کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخہ میں ہے
قد اخرہ
جب شیخ زاہد الکوثری کی تحقیق سے شائع ہونے والے نسخہ میں ہے قداخوہ
ناصرالعجمی کے نسخہ میں ہے الاالکبروالعجب
جب شیخ زاہد الکوثری والے نسخہ میں ہے
الالکبرولعجب
اب ذراپوری عبات کا ایک تجزیہ یہ ہوجائے تاکہ پتہ چل سکے کہ ضمیرکامرجع کہاں لوٹ رہاہے اورکون سااشارہ کس کی جانب ہے۔

کفایت اللہ صاحب نے کچھ فورمز پر اس تعلق سے اپنے خیالات ظاہر کئے ہیں۔کیوں نہ ان کے دلائل کوبھی استدلال کے میزان پرتول کر دیکھ لیں کہ کچھ وزن بھی رکھتے ہیں یاصرف بقامت بہتراوربقیمت کہتر کامصداق ہیں۔
شیخ صلاح الدین کی جوعبارت انہوں نے اثبات میں پیش کی ہے۔مجھے تواس میں دلیل نام کی کوئی بھی شے نظرنہیں آتی۔
اولاوہ زیربحث عبارت پر ہی قارئین کو غورکرنے کی دعوت دیتے ہیں۔اوریہ مسئلہ حل کرنے کی زحمت نہیں کرتے کہ کبر،عجب اورازدراء بالکبار کا تعلق کس سے ہے۔

ثانیاوہ امام مالک کے بارے میں حافظ ذہبی کے ایک اقتباس سے استدلال نہیں بلکہ استمداد کررہے ہیں لیکن یہ کئی وجوہ سے محل نظر ہے۔

اولایستحقون کاتعلق ابن تیمیہ کے اتباع سے بالفاظ دیگرتیمیین سے ہے۔تنہاابن تیمیہ کی ذات نہیں ہے۔اس پر جمع کاصیغہ دلالت کررہاہے اورعبارت بھی اسکوواضح کررہی ہے۔
وما دفعه الله عنه وعن أتباعه أكثر وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون فلا تكن في ريب من ذلك
امام مالک کے بارے میں پیش کردہ اقتباس اورزیر بحث اقتباس مین زمین وآسمان کا فرق ہے۔دیکھاجائے
هذا ثمرة المحنة المحمودة، أنها ترفع العبد عند المؤمنين، وبكل حال فهي بما كسبت أيدينا، ويعفو الله عن كثير: (ومن يرد الله به خيرا، يصب منه. وقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: (كل قضاء المؤمن خير له).وقال الله -تعالى-: {ولنبلونكم حتى نعلم المجاهدين منكم والصابرين} [محمد: 31].وأنزل -تعالى- في وقعة أحد قوله: {أو لما أصابتكم مصيبة قد أصبتم مثليها، قلتم: أنى هذا؟ قل: هو من عند أنفسكم} [آل عمران: 165]. وقال: {وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير} [الشورى: 30].فالمؤمن إذا امتحن صبر واتعظ واستغفر، ولم يتشاغل بذم من انتقم منه، فالله حكم مقسط، ثم يحمد الله على سلامة دينه، ويعلم أن عقوبة الدنيا أهون وخير له. [سير أعلام النبلاء للذهبي: 8/ 81
یہ توقرآن کی بتائی گئی حقیقت ہے کہ انسان اپنے اعمال کی بدولت ہی اس کے عواقب ونتائج سے دوچارہوتاہے۔پھراس کے علاوہ قابل غوربات یہ ہے کہ اس کو پہلے واضح طورپر خود ذہبی ثمرۃ المحنۃ المحمودہ کہہ رہے ہیں اوراسکو صرف بماکسبت ایدیناسے تعبیر کررہے ہین۔ بماکسبت ایدینااورذنوب وآثام میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔قرآن نے جہاں کہیں بماکسبت کہاہے وہاں اعمال مراد لئے ہیں۔ اعمال اچھےبھی ہوسکتے ہیں اورغلط بھی۔ایک شخص حق گوئی کی سزا میں کوڑے کھاتاہے۔یہ بماکسبت ایدیناضرور ہے لیکن محمود اورکارثواب ہے اورایک شخص پر کوئی مصیبت ذنوب وآثام کی وجہ سے آتی ہے توکیادونوں ایک ہوں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ اگرکسی کو اسلوب بیان کا ذرہ برابربھی ذوق ہوگاتووہ سمجھ جائے گاکہ دونوں اقتباس میں کتنافرق اورکتنابعد ہے۔لیکن اس کے باوجود دونوں کویکساں سمجھناسخن فہمی نہیں سخن ناشناسی کی دلیل ہے۔
پھرخیال کرنے کی بات یہ ہے کہ امام مالک کے ساتھ جوکچھ بھی ہوااس میں علمی مباحث کا دخل نہیں تھا صرف سیاسی استبداد اورجوروستم تھاایک حاکم اپنے اقتدار کے دم پر ایک عالم کو اپنی حق گوئی اورجس کو وہ سمجھتاتھااس کے اظہار سے روکناچاہتاتھا۔

جب کہ ابن تیمیہ کامعاملہ علمی مسائل میں اختلاف تھااورحکام سے زیادہ علماء ان کے مخالف تھے۔ حکام کوان جھگڑوں سے کوئی مطلب نہ تھا۔

یہ کہہ دیناتوبڑاآسان ہے کہ ابن تیمیہ حق پرتھے اوران کے مخالفین سارے کے سارے ظالم جاہل،خواہش پرست اورباطل پرست تھے ایسااسی کیلئے ممکن ہے جس نے اپنے دل ودماغ میں صرف ابن تیمیہ کانام کندہ کراکر باقی کسی دوسرے کیلئے جگہ نہ چھوڑی ہولیکن جس نے ان کے مخالفین کے علمی قدوقامت کاحال ،علم وفضل کاجلال کتب تذکرہ وتاریخ میں پڑھ رکھاہے اسکیلئے ایساکہناآسان نہیں ۔صرف اس کیلئے ہی نہیں بلکہ خود حافظ ذہبی کیلئے بھی یہ کہناآسان نہیں رہا۔انہوں نے بھی کئی مقامات پر اس کی صراحت کی ہے کہ ان کے مخالفین اپنے مخالفت میں متعدد امور میں حق پرتھے۔
اسی زغل العلم ہی میں دیکھیں حافظ ذہبی ایک مقام پر کہتے ہیں
فإن برعت في الأصول وتوابعها من المنطق والحكمة و [الفلسفة] (59) ، وآراء الأوائل ومجازات العقول، واعتصمت مع ذلك بالكتاب والسنة وأصول السلف، ولفقت بين العقل والنقل، فما أظنك في ذلك تبلغ رتبة ابن تيمية ولا والله تقربها، وقد رأيت ما آل أمره إليه من الحط عليه، والهجر والتضليل والتكفير والتكذيب بحق وبباطل
(زغل العلم ص42)
اس آخری جملہ میں بحق وبباطل میں غورکرنے کی ضرورت ہے؟کہ ان کے مخالفین سرے سے غلط نہیں تھے بلکہ بعض امور میں ابن تیمیہ غلط تھے اوران کے مخالفین صحیح تھے۔ یہ بات حافظ ذہبی نے اپنی دیگر تصانیف میں بھی واضح طورپر بیان کیاہے بالخصوص یہ بات کہ وہ ابن تیمیہ سے اصولی اورفروعی دونوں قسم کے مسائل میں اختلاف رکھتے ہیں۔

کمال یہ ہے کہ موصوف حفظہ اللہ نے یہ من مانی تاویل کرکے اس پر خوش ہوکر یہ تعلیق اورتبصرہ بھی چڑھادیا

بعد توضيح الذهبي هذا لايفهم أحد من کلامه السابق وماجري عليهم إلا بعض مايستحقون مافهمه هذا الکاتب الجاهل بأسلوب العلماء في مثل هذه المناسبات التي تستوجب الصبر والشکر والإمتنان والرضا بماقدر الله تعالي
اوروہی گھساپٹااسلوب اختیار کیاکہ حافظ ذہبی کی ابن تیمیہ کی تعریف میں کہے گئے الفاظ پیش کردیئے۔ اس سے کس کو اختلاف ہے کہ حافظ ذہبی نے ابن تیمیہ کی تعریف کی ہے اورالفاظ کواسراف کی حد تک استعمال کیاہے لیکن سوال توزیر بحث عبارت پر ہے کہ اس کا وہ مطلب جوتیمیین سمجھ رہے ہیں وہ کس دلیل سے درست ہے؟اوروہی چیز عنقاہے۔
محشر مین آئے شیخ تواعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد​
جس مدعا کے اثبات پر مضمون لکھااسی پر دلیل نہیں ہے ۔

کفایت اللہ کے استدلال پر ایک نگاہ

کفایت اللہ صاحب نے بھی کچھ اپنے جوہردکھائے ہیں دیکھتے چلیں کہ ان کی بات ازقبیل دلیل ہے یافقط ابن تیمیہ کیلئے جذبات کی گرم بازاری سے کام لیاگیاہے۔
کفایت اللہ کا استدلال حافظ سخاوی کے نقل بالمعنی عبارت سے ہے۔یعنی زیربحث عبارت کو حافظ سخاوی نے تھوڑے ترمیم اورتصرف کے ساتھ نقل کیاہے اوراسی میں کفایت اللہ صاحب کو اپنے من کی مراد اورگوہرمقصود مل گیاہے۔
اصل عبارت یہ ہے
وقد تعبت في وزنه وفتشه حتى مللت في سنين متطاولة فما وجدت قد اخره بين أهل مصر والشام ومقتته نفوسهم وازدروا به وكذبوه وكفروه إلا الكبر والعجب وفرط الغرام في رياسة المشيخة والازدراء بالكبار.فانظر كيف وبال الدعاوي ومحبة الظهور نسأل الله تعالى المسامحة فقد قام عليه أناس ليسوا بأورع منه ولا أعلم منه ولا أزهد منه بل يتجاوزون عن ذنوب اصحابهم وآثام أصدقائهم وما سلطهم الله عليه بتقواهم وجلالتهم بل بذنوبه وما دفعه الله عنه وعن أتباعه أكثر وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون فلا تكن في ريب من ذلك
اورسخاوی کی عبارت یہ ہے
أنه تعب في وزنه وتفتيشه سنين متطاولة فما وجد آخره بين المصريين والشاميين ومقتته نفوسهم بسببه وازدروا به وكذبوه بل كفروه إلا الكبر والعجب والدعاوى وفرط الغرام في رياسة المشيخة والازدراء بالكبار ومحبة الظهور بحيث قام عليه ناس ليسوا بأروع منه ولا اعلم ولا ازهد بل يتجاوزون عن ذنوب أصحابهم وآثام أصدقائهم ولكن ما سلطهم الله عليه بتقواهم وجلالتهم بل بذنوبه وما دفع الله عنه وعن أتباعه أكثر وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون
اس سے کفایت اللہ صاحب کاانداز استدلال دیکھئے۔

((ومقتته نفوسهم بسببه وازدروا به وكذبوه بل كفروه إلا الكبر والعجب والدعاوى وفرط الغرام في رياسة المشيخة والازدراء بالكبار ومحبة الظهور))
ثم قوله مباشره:
((بحيث قام عليه ناس ليسوا بأروع منه ولا اعلم ولا ازهد))
يدل أنه فهم نفس المعني الذي بيناه.

ويلاحظ أيضا أن الإمام الذهبي وصف خصومه بالإزدراء أولا بقوله:
((ومقتته نفوسهم وازدروا به))
ثم ذکر نفس الوصف في العبارة التالية أيضا، بقوله:
((وفرط الغرام في رياسة المشيخة والازدراء بالكبار))
هذا أيضا يدل علي أن تلک الأوصاف موجهة إلي خصوم شيخ الاسلام ابن تيمية - رحمه الله - والله اعلم
اگرحافظ سخاوی نے درمیان کاجملہ نسال اللہ تعالیٰ المسامحۃ نکال دیاہے توجملہ میں کیاتبدیلی آگئی ویسے بھی وہ جملہ معترضہ تھاوہ رہتایانہ رہتابات برابرتھی۔بقیہ عبارت میں توکوئی جوہری فرق ہے ہی نہیں۔
آپ نے دیکھ لیاکہ یہ ان کےقصراستدلال کے ستون اورپائے تھے لیکن یہ پائے پائے چوبین سے زیادہ مضبوط نہیں
پائے چوبیں سخت بے تمککین بود​
کفایت اللہ کے طرزپر لطیفہ بیان کیاجارہاہے۔
حافظ سخاوی نے ابن تیمیہ کے بارے میں کہاکہ
وکذلک ممن حصل من بعض الناس منھم نفرۃ وتحامی عن الانتفاع بعلمھم من جلالتھم علماوورعا وزہدا،لاطلاق لسانھم وعدم مداراتھم ،بحیث یتکلمون ویجرحون بمافیہ مبالغۃ کابن حزم وابن تیمیہ،وھماممن امتحن واوذی وکل اھد من الامۃ یوخذ من قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الاعلان بالتاریخ لمن ذم التاریخ۔119)
تویہ بات محض صفدی کی نقل ہوگئی حالانکہ صفدی کے نقل کی جانب انہوں نے کوئی اشارہ بھی نہیں کیاہے بلکہ اپنی بات بناکر پیش کی ہے اس لئے یہ ان کی بات ہوئی۔
لیکن دوسرے مقام پر محض حافظ ذہبی کے کلام کو تھوڑے تصرف کے ساتھ نقل کردیناکفایت اللہ صاحب کے نزدیک حجت اوردلیل بن جایاکرتاہے۔ملاحظہ کیجئے۔
بل يظهر من کلام السخاوي أنه فهم من عبارة الذهبي کما أوضحنا، فقد نقل عبارة الذهبي بالمعني


استدلال کاایساشترغمزہ آپ نے کہیں اورنہ دیکھاہوگا۔

میرااستدلال

1:سیاق وسباق

کسی کلام کو سمجھنے کیلئے اس کا پس منظرسمجھنابہت ضروری ہوتاہے۔اس سے کلام واضح طورپر سمجھ میں آتاہے کہ اس سے مراد کیاہے۔یہی وجہ ہے کہ آیات واحادیث کے شان نزول پر علماء نے خاص توجہ دی ہے۔اب ذرازغل العلم میں ابن تیمیہ کے ذکر کا سیاق وسباق بھی دیکھ لیاجائے تاکہ بات واضح ہوکر سامنے آسکے
زغل العلم میں حافظ ذہبی نے چاروں مسالک پر کلام کیاہے اوران مسالک سے وابستگان کو نصیحت کی ہے اسی کے ساتھ دوسرے علوم وفنون پر بھی کلام کیاگیاہے۔حافظ ذہبی شافعیہ پر کلا م کرتے ہیں اوران میں درآئی خرابیوں کو بیان کرتے ہیں
وإن كانت همتك كهمة اخوانك من الفقهاء البطالين، الذين قصدهم المناصب والمدارس والدنيا والرفاهية والثياب الفاخرة،فماذا بركة العلم، ولا هذه نية خالصة، بل ذا بيع للعلم بحسن عبارة وتعجل [للأجر] (48) وتحمل للوزر وغفلة عن الله، فلو كنت ذا صنعة لكنت بخير، تأكل من كسب يمينك وعرق جبينك، وتزدري نفسك ولا تتكبر بالعلم، أو كنت ذا تجارة لكنت تشبه علماء السلف الذين ما أبصروا المدارس ولا سمعوا بالجهات، وهربوا لما للقضاء طلبوا، وتعبدوا بعلمهم وبذلوه للناس، ورضوا بثوب خام وبكسرة،
كما كان من قريب الإمام أبو إسحاق (49) صاحب (التنبيه) ، وكما كان بالأمس الشيخ محيى الدين (50) صاحب (المنهاج) .وكما ترى اليوم سيدي عبد الله بن خليل،

وعلى كل تقدير احذر المراء في البحث وإن كنت محقافي مسالة لا تعتقدها، واحذر التكبر (51) والعجب بعملك، فيا سعادتك إن نجوت منه كفافا لا عليك ولا لك
(زغل العلم ص36-38)
اس جملہ کو ہم نے تین پیراگراف میں تقسیم کیاہے۔
پہلے میں حافظ ذہبی کہہ رہے ہیں کہ اگرعلم دین سے تمہارامقصد دنیاوی مناصب حال کرناہے تویہ علم کی برکت ختم کردینے والی چیز ہے اوراس سے بہترتھاکہ کوئی صنعت وحرفت اختیارکیاجاتااورمحنت وپسینہ کی حلال روزی کماکرکھاتا۔
پھرسلف میں سے کچھ مثالیں بیان کی ہیں کہ انہوں نے باوجود علم وفضل کا پہاڑ ہونے عہدہ قضاء قبول نہیں کیاجیسے ابواسحاق الشیرازی،امام نووی،اورعبداللہ بن خلیل
پھرآخر میں نصیحت کرتے ہیں کہ آدمی کو حق پر ہونے کے باوجود بحث ومباحثہ سے پرہیز کرناچاہئے اورتکبراوراپنے علم وعمل پر گھمنڈ نہیں کرناچاہئے۔اوراس ضمن میں وہ ابن تیمیہ کی مثال پیش کررہے ہیں۔
یہ عربی کا ابتدائی قاعدہ ہرایک جانتاہے کہ مرجع ہمیشہ قریب کی جانب لوٹایاجاتاہے۔اگروہ ابن تیمیہ کی مثال ان لوگوں کے ضمن میں پیش کرتے جنہوں نے عہدہ قضاء ومنصب قبول نہیں کیاجیسے ابواسحق الشیرازی اورامام نووی وغیرہ کی مثال پیش کی تھی تویہ ابن تیمیہ کی فضیلت میں شمار کی جاتی۔
لیکن وہ فقہاء کو بحث ومباحثہ سے گریز اوراپنے علم وعمل پر گھمنڈ نہ کرنے کی نصیحت کرکے ابن تیمیہ کی مثال پیش کررہے ہیں تواس سے کیاسمجھناچاہئے۔

2:حافظ سخاوی کاسیاق

خود کفایت اللہ حافظ سخاوی کامقصد ہی نہیں سمجھ سکے کہ انہوں نے یہ نقل کیوں ذکرکیاہے ابن تیمیہ کی ثناء خوانی میں یاذہبی پر ابن تیمیہ کیلئے تعصب کے الزام کے دفاع میں؟

حافظ سخاوی سبکی اورعلائی وغیرہ کے نقول پیش کرچکے تھے کہ ذہبی حنابلہ کی حمایت میں تعصب کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اورحنابلہ میں سے ہی ابن تیمیہ بھی ہیں۔لہذاان کی حمایت میں بھی تعصب کا الزام ذہبی پر لگتارہاہے۔اسی الزام کے دفعیہ کیلئے یہ نقل پیش کی ہے کہ آپ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ حنابلہ کی حمایت میں تعصب سے کام لیتے ہیں لیکن یہ دیکھئے وہ ابن تیمیہ کے بارے میں کیاکہہ رہے ہیں۔
پوری عبارت دیکھئے حافظ سخاوی کی
وقد رایت لہ عقیدۃ مجیدۃ ورسالۃ کتبھا لابن تیمیہ،ھی لدفع نسبتہ لمزید تعصبہ مفیدۃ ،وقال مرۃ فیہ مع حلفہ بانہ مارمقت عینہ اوسع منہ علماالخ(الاعلان بالتوبیخ لم ذم التاریخ ص143)
اورمیں نے ذہبی کاایک رسالہ اورایک خط دیکھاجوانہوں نے ابن تیمیہ کو لکھاہے اوریہ ذہبی پر ابن تیمیہ کی حمایت میں تعصب کے الزام کے دفع کیلئے مفید ہے۔اس میں انہوں نے ایک مقام پر حلف کھاکر لکھاہے انہوں نے ا س سےزیادہ علم والانہیں دیکھا

اگراس زیر بحث عبارت سے مطلب یہی نکلتاہے کہ یہاں بھی ابن تیمیہ کی تعریف کی گئی ہے اورازدراء بالکبار اورعجب وکبر سب کا نشانہ مخالفین ہیں تویہ یہ عبارت ابن تیمیہ کی حمایت کاالزام جو ذہبی پر لگ رہاہے اس سے دفع کیلئے مفید کیسے ہوگا؟کبھی اس پر ہمارے عربی خوانوں نے غورکیاہے؟

حقیقت یہ ہےکہ حافظ سخاوی نے یہ عبارت ابن تیمیہ کی منقبت میں نہیں بلکہ اس کے برعکس میں پیش کیاہے اوریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ابن تیمیہ پر آپ حضرات علائی سبکی وغیرہ جو تعصب کا الزام لگارہے ہیں وہ اس عبارت کو دیکھئے کہ ابن تیمیہ جن کی مختلف کتابوں میں انہوں نے بہت زیادہ تعریف کی ہے لیکن وقت ضرورت پر ان پر تنقید بھی کیاہے۔اس عبارت کو پیش کرنے سے سخاوی کا مقصد یہی ہے نہ کہ وہ جوکفایت اللہ ہمیں حرفوں کے ہیر پھیڑ سے تاثر دیناچاہتے ہیں۔
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا​
دنیاکے کسی بھی عربی داں کے سامنے یہ عبارت لے جایئے بشرطیکہ اس نے پہلے ہی دل میں یہ اعتقاد نہ بٹھارکھاہو کہ "ہم طرفدار ہین غالب کے سخن فہم نہیں"وہ میری ہی بات کی تائید کرے گا۔

3:حافظ ذہبی پر کام کرنے والوں کی رائے

اولاشیخ عبدالستار

ان کی حافظ ذہبی پر لکھی گئی کتاب"الحافظ الذہبی مورخ الاسلام ناقد المحدثین امام المعدلین والمجرحین"مشہور کتاب ہے۔ اپنی اس کتاب مین وہ لکھتے ہیں۔

بل ان الذہبی مع حبہ الجم لرفقیہ وشیخہ ابن تیمیہ ومع احترامہ لہ،وعظیم ثنائہ علیہ فان ذلک لم یمنعہ من انتقادہ ومواخذتہ فی بعض الامور فاخذ علیہ "الکبر والعجب والدعاوی وفرط الغرام فی ریاسۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار"(ص150-151)

کفایت اللہ صاحب کچھ سمجھ میں آیاکہ کبر وعجب اوردعااورمشیخت کی طلب وغیرہ اوصاف مخالفین کے ہیں یاپھر ابن تیمیہ کے بیان کئے جارہے ہیں۔

بشارعواد معروف

حافظ ذہبی پر ہی سب سے وقیع کام کرنے والے بشارعواد معروف علمی اورتحقیقی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ان کی کتاب" الذہبی ومنہجہ فی تاریخ الاسلام"بہت مشہور ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں۔

ومع ماکان للذہبی من اعجاب بشیخہ ابن تیمیہ فانہ اخذ علیہ "تغلیظہ وفظاظتہ وفجاجٰۃ عبارتہ وتوبیخہ الالیم المبکی المنکی المثیرللنفوس"کمااخذ علیہ "الکبروالعجب وفرط الغرام فی ریاسۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار"(ص465)

یہ دونوں حضرات جنہوں نے حافظ ذہبی پر وقیع کام کیاہے وہ دونوں زیر بحث عبارت سے کیاسمجھ رہے ہین کچھ سمجھ شریف میں آیا۔

سیاق وسباق کے بعد اب ذرازیر بحث عبارت کا تجزیہ ہوجائے۔

فوالله ما رمقت عيني أوسع علما ولا أقوى ذكاء من رجل يقال له: ابن تيمية، مع الزهد في المأكل والملبس والنساء، ومع القيام في الحق والجهاد بكل ممكن، وقد تعبت في وزنه وفتشته حتى مللت في سنين متطاولة، فما وجدت قد أخره بين أهل مصر والشام
یہ پہلاپیراگراف ہے اس میں ابن تیمیہ کی مدح وثناء کی گئی ہے اورتعریف بیان کی گئی ہےکہ میں نے علم وذہانت میں ابن تیمیہ نامی شخص سے بڑھ کر کسی کونہیں دیکھااس علم وذہانت کے ساتھ وہ کھانے پینے لباس اورعورتوں کے معاملے میں زاہد تھے(واضح رہے کہ ابن تیمیہ نے شادی نہیں کی تھی)اسی کے ساتھ وہ حق اورجہاد پرممکن حد تک ثابت قدم رہتے تھے اورمیں نے برسوں اس کی شخصیت کے وزن پر میں گزاردیالیکن اہل مصروشام میں ان کے جیساعلم وذہانت والاکوئی نہیں ملا۔
یہاں تک شاید کفایت اللہ یاکسی تیمی کو کوئی اختلاف نہیں ہوگا۔آگے کی عبارت ہی پیچیدہ ہے۔اس کو بھی حل کرتے ہیں۔

ومقتته نفوسهم وازدروا به وكذبوه وكفروه إلا الكبر والعجب، وفرط الغرام في رياسة المشيخة والازدراء بالكبار
کفایت اللہ صاحب نے ہوشیاری برتتے ہوئے اس جملہ کا ترجمہ ہی نہیں کیاہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگرضمیر میں یہاں وہاں ہواتوپھر ایک مرتبہ فضیحت ہوگی۔ویسے ان کو اس کاترجمہ کرناچاہئے تھا۔اورضمیر کے مراجع طے کرناچاہئے تھا۔
مقتہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع توابن تیمیہ ہیں۔نفوسھم میں ھم کی ضمیر کا مرجع ان کے مخالفین ہیں۔ اسی طرح ازدوہ بہ میں ازدروا میں ھم کی ضمیر کامرجع مخالفین اوربہ کی ضمیر کا مرجع ابن تیمیہ ،کذبوہ مین کذبواکی ضمیر کامرجع مخالفین اورہ کی ضمیر کا مرجع ابن تیمیہ ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ الاالکبرولعجب وفرط الغرام فی ریاسۃ المشیخۃ والازدراء بالکبار
جواستثنی ہورہاہے توکن کاہورہاہے۔غیرمقلدین کاکہنایہ ہے کہ الازدراء بالکبار تک کا مرجع ان کےمخالفین ہیں۔جب کہ دیگر کا کہنایہ ہے کہ اس کا مرجع ابن تیمیہ ہیں

حقیقت یہ ہے کہ اگراس جملہ پرخالص اسلوبیاتی لحاظ سے غورکیاجائے اورابن تیمیہ کانام ہٹاکر(کیوں کہ ان کا نام سامنے آتے ہی کچھ لوگوں کے نزدیک عرابی گرامر کے قواعد بدل جاتے ہیں)کسی دوسرے کانام ڈالاجائے توپھر الازدراء بالکبار تک کا مرجع مخالفین کی جانب لوٹانے والے پر لوگ ہنسیں گے۔

ایک شخص کے علم وعمل کی اورزہد وذکاء کی تعریف ہوتی ہے کہ وہ علم وفضل میں پہاڑ ہے پھر کہاجاتاہےکہ کچھ لوگوں نے ان کی تکذیب وتکفیر کی۔ اب اس کا سبب کیاتھا۔وہ حافظ ذہبی نے بتادیاہے کہ مشیخت کی خواہش،اکابرپربٹہ لگانااورکبروعجب۔

فانظر كيف وبال الدعاوي ومحبة الظهور، نسأل الله تعالى المسامحة، فقد قام عليه أناس ليسوا بأورع منه ولا أعلم منه ولا أزهد منه، بل يتجاوزون عن ذنوب أصحابهم وآثام أصدقائهم، وما سلطهم الله عليه بتقواهم وجلالتهم بل بذنوبه، وما دفعه الله عنه وعن أتباعه أكثر، وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون، فلا تكن فى ريب من ذلك
(زغل العلم ص38)
پھراسی کی تشریح آگے چل کر حافظ ذہبی کہہ رہے ہیں۔ کہ دیکھودعاوی اورظہوروبروز کی خواہش کا انجام کیاہوتاہے۔ایک شخص جو علم وفضل کا پہاڑتھالیکن جب ان اوصاف ازدراء بالکبار،عجب وکبر سے متصف ہواتو کس طرح اس کی تکذیب اورتکفیر کی گئی ۔
حافظ ذہبی کا جملہ ہے کہ نسال اللہ المسامحہ اس میں مسامحت کس کیلئے طلب کی گئی ہے۔ ابن تیمیہ کیلئے یامخالفین کیلئے؟

واضح طورپر ابن تیمیہ کیلئے۔ کیونکہ آگے پر حافظ ذہبی کہہ رہے ہیں اورمرجع ابن تیمیہ کی جانب ہے کہ جولوگ ابن تیمیہ کی مخالفت میں کھڑے ہوئے وہ لوگ ابن تیمیہ سے اعلم، اورازہدنہیں تھے بلکہ ابن تیمیہ کی جن چیزوں پرانہوں نے گرفت کی۔ایسی ہی غلطیاں اورخطائیں اگران کے اپنے حلقہ سے وابستہ علماء سے ہوتی تواس سے درگزر کرتے کیسی غلطیوں سے درگزرکرتے اس کیلئے حافظ ذہبی نے ذنوب اورآثام کا لفظ استعمال کیاہے۔
اسی کی مزید تشریح آگے ہورہی ہے۔کہ جن لوگوں نے ابن تیمیہ کی مخالفت پر کمرباندھا ایسانہیں تھاکہ مخالفین بڑے متقی اورعلم وفضل میں نہایت اونچے درجے کے حامل تھے بلکہ اس کا سبب ابن تیمیہ کے ذنوب تھے(وہ ذنوب کیاتھے ازدراء بالکبار،مشیخت کی طلب،عجب اورکبر وغیرہ)

آگے حافظ ذہبی ایک مزید اہم بات کہہ رہے ہیں ابن تیمیہ کی جن باتوں پر گرفت ہوئی اورتکفیر وتضلیل ہوئی اس سے بہت زیادہ ایسی باتیں وہ تھیں جس پر اللہ نے پردہ ڈال دیا
ومادفعہ اللہ عنہ وعن اتباعہ اکثر

آگے حافظ ذہبی ابن تیمیہ کے اتباع یامخصوص اصطلاح میں کہیں توتیمین پر پیش آمدہ حالات کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون،

آگے چل کر حافظ ذہبی کہتے ہیں فلا تكن فى ريب من ذلك

کس چیز میں شک نہ کیاجائے ۔تواب بات پھر لوٹے گی پہلی بات کی جانب کہ اگرایک شخص علم وفضل کا پہاڑ ہے لیکن اس کے اندر اکابرپربٹہ لگانے،ریاست ومشیخت کی خواہش اوردیگر اوصاف آتے ہیں تواس کو اسی طرح کے حالات سے دوچارہوناپڑتاہے۔اس میں کسی شک کی ضرورت نہیں۔

اگراس پیراگراف کا مطلب وہی لیاجائے جو غیرمقلدین ہمیں باورکراناچاہتے ہیں تواس میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جو اس تاویل کے فاسد ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔

اولاتوسیاق ہی اس کی نفی کررہی ہے۔ اس کاسیاق یہ ہے کہ حافظ ذہبی شافعی فقہاء کونصیحت کررہے ہیں کہ بحث اورجھگڑےسے گریز کیاجائے اوراپنے علم وعمل پر عجب اورخودپسندی کا شکار نہ ہواجائے اوراسی ضمن میں وہ ابن تیمیہ کی مثال پیش کررہے ہیں۔

وعلى كل تقدير احذر المراء في البحث وإن كنت محقا، ولا تنازع في مسالة لا تعتقدها، واحذر التكبر (51) والعجب بعملك، فيا سعادتك إن نجوت منه كفافا لا عليك ولا لك
اگریہاں پر ازدراء بالکبار اوردیگر اوصاف سے متصف ابن تیمیہ کے مخالفین ہیں توحافظ ذہبی ابن تیمیہ کی مثال پیش کرکے کہناکیاچاہ رہے ہیں۔

حافظ ذہبی نے جب ایک مرتبہ یہ نصیحت کی کہ بحث ومباحثہ سے پرہیز کیاجائے اوراپنے عمل وعمل پر گھمنڈ نہ کیاجائے اورپھراس ضمن مین ابن تیمیہ کی مثال پیش کی تواس کا مطلب یہ ہے کہ ابن تیمیہ جو علم وفضل کاپہاڑ تھے لیکن جب وہ ان اوصاف (اکابرپر بٹہ گانا،مشیخت کی خواہش،عجب وکبر )کے مرتکب ہوجائے تولوگوں میں ان کی وقعت اورقدرگھٹ گئی اوران کی تکفیر وتضلیل شروع ہوگئی۔
، فانظر كيف وبال الدعاوي ومحبة الظهور

پھراس کے عین بعد والاجملہ کہ ظہور کی خواہش اوردعاوی کے وبال کا انجام کیاہواسے مخالفین کومراد لینے کی کوئی تک ہی نہیں ہے۔

پھر مزید یہ کہ وبال دعویٰ اورظہور کی خواہش کامصداق اگرمخالفین کو ماناجائے توپھراس کے بعد کے جملہ
فقد قام عليه أناس ليسوا بأورع منه ولا أعلم منه ولا أزهد منه، بل يتجاوزون عن ذنوب أصحابهم وآثام أصدقائهم، وما سلطهم الله عليه بتقواهم وجلالتهم بل بذنوبه، وما دفعه الله عنه وعن أتباعه أكثر، وما جرى عليهم إلا بعض ما يستحقون، فلا تكن فى ريب من ذلك
کاکوئی معنی اورمطلب ہی نہیں بچتاہے۔
کیونکہ جب یہ کہاگیاہے کہ دیکھو دعاوی کاوبال اورظہور کی خواہش کاانجام کیاہوتاہے پھر فوراابن تیمیہ کا ذکر کیاجاتاہے توظاہر سی بات ہے کہ مراد کون ہوسکتے ہیں لیکن افسوس کہ لوگ اتنی صاف اورصریح باتوں کوبھی سمجھنے مین ٹھوکریں کھاتے ہیں۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
صفدی اورابن تیمیہ

صلاح الدین صفدی مشہور مورخ گزرے ہیں۔ وہ مسلکاشافعی تھے ۔وہ ابن تیمیہ کے ہم عصر ہیں۔ انہوں نے ان سے استفادہ بھی کیاہے لہذا جس طرح ابن تیمیہ کے باب میں ان کے دیگر ہم عصروں کی باتیں معتبر ہیں صفدی کی بھی بات درجہ اعتبار رکھتی ہے۔ بالخصوص اس لحاظ سے کہ انہوں نے ابن تیمیہ کو دیکھااورپرکھاہے۔

سب سے پہلے کفایت اللہ نے ہی صفدی کا حوالہ پیش کیاتھالیکن آدھا ادھورا حوالہ پیش کیاتھاحافظہ کی تعریف کا ذکر توتھالیکن جس موضوع پر یہ پوراتھریڈ قائم ہے کہ کیاابن تیمیہ کے مزاج میں حد وشدت تھی۔اس کو سرے سے نظرانداز کردیا جب کہ وہ بھی وہیں موجود تھا۔

قلت رحمھم اللہ اجمعین ھم الاٰن قد راواعین الیقین ،فیماکانوفیہ یختلفون،وامااظنہ رای مثلہ فی الحافظۃ واری ان مادتہ کانت من کلام ابن حزم حتی شناعہ علی من خالفہ ،الوافی بالوفیات 7/12)
میں (صفدی)کہتاہوں کہ اللہ ان تمام پر رحم کرے ان کو اب عین القین حاصل ہوگیاہے جس میں وہ اختلاف کرتے تھے (حفاظ متقدمین کے حافظہ کے بارے میں)اورمیراگمان ہے کہ انہوں نے(ابن تیمیہ نے خود اپنے جیساحافظہ والانہیں دیکھا)اورمیں سمجھتاہوں کہ ان کے اوصاف کسی حد تک ابن حزم سے ملتے تھے جس میں مخالفین پر تشنیع بھی شامل ہے۔
اس کے بارے میں کفایت اللہ صاحب کہتے ہیں کہ جواب دیاجاچکاہے۔
آپ کی طرف سے بطور خلاصہ ذکر کردہ اس بات کا جواب بھی گذچکا ہے ۔
کیاجواب دیاگیاہے وہ ایک مرتبہ قارئین خود ملاحظہ فرمالیں۔
اس عبارت میں شیخ الاسلام کے حافظہ کی یقینا تعریف کی گئی ہے رہا ان کا ’’اری ‘‘ والاخیال تو یہ ان کا اپنا خیال ہے جو دلیل سے خالی ہے۔
یعنی جہاں صفدی نے حافظہ کی تعریف کی تو وہ معتبر اورقابل استناد لیکن جہاں شدت وحدت کابیان ہوتو وہ ان کا اپناخیال ہوگیا۔اگربات یہی ہے کہ کسی کا اپنااری یعنی خیال معتبرنہیں توپھر بشمول حافظ ذہبی جس کسی نے ابن تیمیہ کی مدح میں جوکچھ کہاہے وہ ان سب کا اپنااری اورخیال ہی ہے۔اگریہ تمام نامعتبر ہوجائیں تو ابن تیمیہ کو شیخ الاسلام ثابت کرنا تودور ایک قابل فضیلت شخص تک ثابت کرنامشکل ہوجائے گا۔کیونکہ ابن تیمیہ کی فضیلت پر جوسب سے بڑااستشہاد پیش کیاجاتاہے وہ خود الردالوافر ہے اس میں جوکچھ بھی جس نے بھی کہاہے وہ ان سب کا اپناخیال اوراریٰ ہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ بات صفدی کی دلیل سے خالی نہیں ہے۔ انہوں نے الوافی بالوفیات میں ایسے کئی واقعات پیش کئے ہیں جس سے ابن تیمیہ کی حدت مزاجی کا اندازہ ہوتاہے لیکن اگرکوئی سبھی کوتاویل کی نذرکرتاچلاجائے توپھر اس کا کوئی حل نہیں ہے۔

کفایت اللہ صاحب کو اچھی طرح اندازہ تھاکہ ان کا ماقبل کا جواب کوئی جواب نہیں صرف دفع الوقتی اورکٹ حجتی ہے۔اس لئے وہ ایک نیا پینترالے کر ا ٓئے ہیں دیکھیں یہ علمی معیار پر کہاں تک ثابت ہوتاہے۔
مزید عرض ہے کہ انہیں موصوف نے امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں کیا کہا ہے وہ بھی ملاحظہ ہو:
ونقلت من خطّ الْحَافِظ صَلَاح الدّين خَلِيل بن كيكلدى العلائي رَحمَه اللَّه مَا نَصه الشَّيْخ الْحَافِظ شمس الدّين الذَّهَبِيّ لَا أَشك فِي دينه وورعه وتحريه فِيمَا يَقُوله النَّاس وَلكنه غلب عَلَيْهِ مَذْهَب الْإِثْبَات ومنافرة التَّأْوِيل والغفلة عَن التَّنْزِيه حَتَّى أثر ذَلِك فِي طبعه انحرافا شَدِيدا عَن أهل التَّنْزِيه وميلا قَوِيا إِلَى أهل الْإِثْبَات فَإِذا ترْجم وَاحِدًا مِنْهُم يطنب فِي وَصفه بِجَمِيعِ مَا قِيلَ فِيهِ من المحاسن ويبالغ فِي وَصفه ويتغافل عَن غلطاته ويتأول لَهُ مَا أمكن وَإِذا ذكر أحدا من الطّرف الآخر كإمام الْحَرَمَيْنِ وَالْغَزالِيّ وَنَحْوهمَا لَا يُبَالغ فِي وَصفه وَيكثر من قَول من طعن فِيهِ وَيُعِيد ذَلِك ويبديه ويعتقده دينا وَهُوَ لَا يشْعر ويعرض عَن محاسنهم الطافحة فَلَا يستوعبها وَإِذا ظفر لأحد مِنْهُم بغلطة ذكرهَا وَكَذَلِكَ فعله فِي أهل عصرنا إِذا لم يقدر عَلَى أحد مِنْهُم بتصريح يَقُول فِي تَرْجَمته وَالله يصلحه وَنَحْو ذَلِك وَسَببه الْمُخَالفَة فِي العقائد انْتهى [طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 13]۔
کیا خیال ہے کیا امام ذہبی رحمہ اللہ کے بارے میں ان کا یہ تبصرہ قابل قبول ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟
اگرنہیں تو اس طرح کی بے ثبوت اورخلاف واقعہ باتیں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے حق میں بھی ناقابل التفات ہیں ۔
اس حوالہ میں کفایت اللہ صاحب نے کئی مغالطے دیئے ہیں دانستہ یانادانستہ اگرچہ ترجیح اول الذکر کوہی حاصل ہے ۔
اولا صفدی نے علائی سے یہ بات نقل کی ہے یہ ان کی اپنی رائے اوربات نہیں ہے
جب کہ ابن تیمیہ کے باب میں انہوں نے اپنی اورذاتی رائے نقل کی ہے۔ان دونوں کوایک نہیں کیاجاسکتا۔ازقبیل لطیفہ قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ کفایت اللہ صاحب ماقبل میں اس فرق پر اچھی خاصی تقریر فرماچکے ہیں۔ ان کی تقریر ایک مرتبہ پھر ملاحظہ فرمالیں اوردیکھیں کہ جوبات ابن حجر کے باب میں ان کویاد رہی تھی وہ یہاں کیسے نسیان اورذہول میں تبدیل ہوگئی۔
میری نقل کردہ عبارت اور آپ کی نقل کردہ عبارت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میری نقل کردہ عبارت میں جوکچھ ہے وہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کا اپنا تبصرہ ہے جب کہ آپ کی نقل کردہ عبارت میں جو کچھ ہے وہ واقعات کی حکایت ہے جس سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بالکل متفق نہیں کیونکہ ان کا اپنا تبصرہ اس پر شاہد ہے ۔جناب اگر نقل کردہ حکایت مولف کا موقف ہے یا ہر نقل کردہ بات درست ہے تو کیا خیال ہے امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں بھی بہت کچھ نقل کررکھا ہے کیا وہ سب درست ے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟یقینا وہ سب درست نہیں ہے البتہ جو بات مستند ذرائع سے ثابت ہے وہی درست ہے ، اگر آپ سے ہوسکے تو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے تعلق سے مستند باتیں نقل کریں ، ادھر ادھر کی باتوں پر ایمان لائیں گے ، تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اسلام سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔
ثانیااگرکفایت اللہ صاحب کے استدلال کو مان لیاجائے کہ چونکہ صفدی کی کتاب میں ایک قابل نقد یاایسی چیز نکل آئی جسے مکمل طور سے صحیح قرارنہیں دیاجاسکتالہذا دیگرباتیں بھی غیرمعتبر توزیادہ نقصان غیرمقلدین کو ہی ہوگا۔ امام ابوحنیفہ کے خلاف ان کے پیش کردہ محدثین کے تمام حوالہ بیکار اورردی کی ٹوکری میں ڈالے جانے کے قابل قرارپائیں گے

کیونکہ اگر وہ امام بخاری کا حوالہ لیں گے توان کی تاریخ میں متعدد غلطیاں راویوں کے تعلق سے ہیں۔

امام مسلم کاحوالہ لیں گے تولقاء اورمعاصرت کا سوال ہی کھڑاہوجائے گااس کے علاوہ صحیحین کی متکلم فیہ احادیث اوردیگر بہت سی باتیں ایسی ہیں جس سے امام مسلم سے اتفاق نہیں کیاجاسکتاپھران کی جرح کیوں مانی جائے ۔
ابن حبان کو لیں یاپھر حاکم کو یاپھر کسی بھی دوسرے شخص کو ایسی بات کسی کی بھی نہیں ملے گی جس کی تمام باتیں قابل اعتبار ہوں۔لہذا امام ابوحنیفہ پر کوئی جرح قابل اعتبار نہیں ہوگی۔

کفایت اللہ صاحب نے اپنے اس استدلال پر اس جہت سے غورنہیں کیاہے لیکن ہماری فرمائش کے بعد وہ فورااس استدلال کوترک کردیں گے کیونکہ پھرتوان کے مزعومات کا ایک بڑاحصہ باطل ہوجائے گا اوراس وہ اپنے ہاتھوں اپنے پیر پر کلہاری مارلیں گے۔

ثالثاماقبل مین یہ بات کہی گئی کہ صفدی اورعلائی کی یہ باتیں مکمل طورپر بے بنیاد نہیں ہیں۔ اس میں حقیقت کا عنصر موجود ہے ہاں یہ بات ضرور ہے کہ کوئی مبالغہ سے کام لے کر اس کو بڑھاچڑھاکر پیش کردے تو مبالغہ کی نفی کرنی چاہئے نہ کہ حقیقت سے بھی آنکھیں موند لینی چاہئے۔

حقیقت یہ ہے کہ صفدی کی بات اس سلسلے میں بہت زیادہ قابل اعتبار ہے مورخانہ اعتبار سے بھی اورتحقیقی اعتبار سے بھی ۔اوردیگرمورخین کے واقعات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیساکہ آخر میں راقم الحروف اس سلسلے تمام شواہد ایک جگہ جمع کردے گا۔


حافظ سخاوی

حافظ سخاوی نے بھی ابن تیمیہ کی شدت وحدت کی جانب اشارہ کیاہے
وکذلک ممن حصل من بعض الناس منھم نفرۃ وتحامی عن الانتفاع بعلمھم من جلالتھم علماوورعا وزہدا،لاطلاق لسانھم وعدم مداراتھم ،بحیث یتکلمون ویجرحون بمافیہ مبالغۃ کابن حزم وابن تیمیہ،وھماممن امتحن واوذی وکل اھد من الامۃ یوخذ من قولہ ویترک الارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الاعلان بالتاریخ لمن ذم التاریخ۔119)
اسی طرح ایسے علماء جو علم ،ورع اورزہد میں بڑے مقام کے حامل تھے۔ اس کے باوجود لوگوں نے ان سے نفرت کی اوران سے استفادہ کرنے سے بازرہے ۔ایساان کے قول میں احتیاط نہ کرنے اورعدم مدارات کے سبب ہوا اس طورپر کہ وہ کلام اورجرح مبالغہ کے ساتھ کرتے تھے۔ جیسے کہ ابن حزم اورابن تیمیہ اوریہ دونوں ان علماء میں سے ہیں جوکئی مرتبہ ازمائشوں سے گزرے اورہرایک امتی کے قول کو لیاجاسکتاہے اورترک کیاجاسکتاہے سوائے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے۔

یہ کتنی واضح تحریر ہے۔کیااس واضح تحریر کا جواب یہی ہوسکتاہے کہ یہ صفدی کی صدائے بازگشت ہے۔جب حافظ سخاوی نے خود اس کو صفدی کی بات کے طورپر نقل نہیں کیا بلکہ اپنی بات بناکر پیش کی توپھر کسی دوسرے کو یہ حق کہاں سے پہنچ جاتاہے کہ وہ سخاوی کے اس جملہ کو صفدی کی صدائے بازگشت قراردے کر رد کردے ۔بالخصوص ایسے افراد کیلئے جو حافظ سخاوی کے نقل بالمعنی عبارت میں توان کی فہم کو حجت تسلیم کریں یہ قطعازیبانہیں ہے کہ وہ اس صاف اورصریح عبارت کو صدائے بازگشت قراردے کر رد کریں۔

اگربالفرض ہم مان بھی لیں کہ یہ صفدی کی صدائے بازگشت ہی ہے تو اس سے صفدی کی بات کو مزید تقویت حاصل ہوتی ہے کہ صفدی کی بات جس کو کفایت اللہ نے صفدی کاخیال سمجھ کر ردکردیاتھاوہ ان کا صرف خیال نہیں ہے حافظ سخاوی جیسے دیگر اعلام نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔


شیخ ابوزہرہ


ایک حوالہ ابن تیمیہ کی شدت پسندی میں شیخ ابوزہرہ کا پیش کیاگیاتھا۔
لم یبرز لنا من بین سجایاہ شی الاصفۃ واحدۃ وھی الحدۃ فی القول،والشدۃ فیہ،حتی ان لیوجع احیانا فیکرہ الناس الشفاء لالم الدواء،بل ان تلک الحدۃ کانت تخرج بہ من نطاق الحجۃ القویۃ والنقد اللاذع الی الطعن احیانا
اس پر عصر حاضر کے اھل الجرح والتجریح کے اقوال نقل کرکے چاندماری کی کوشش شروع کردی گئی ہے۔ بھلاملتقی اہل الحدیث اوراس کے مشارکین کب سے قابل استناد ہوگئے اوران کی باتیں حجت ہوگئیں۔جب کہ صفدی اور سخاوی کی باتیں معبترنہیں اورخیال کر ٹرخادی جاتی ہیں۔
کفایت اللہ صاحب لکھتے ہیں
اورسلفی حضرات سے موصوف کی عداوت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، ظاہر ہے جب ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان عقائد کے خلاف بات کی ہے جس کے ابوزہرہ لوگ حامل ہیں اورکتاب و سنت کی روشنی میں ان عقائد کی حقیقت واضح کردی ہے تو ایسی صورت میں ابوزہرہ نے وہی کیا جو احناف نے کیا ہے یعنی ان کے عقائد کےخلاف ابن تیمیہ رحمہ اللہ خدمات کو تشدد کے خانہ میں ڈال دیا جائے۔
حیات حضرت امام ابوحنیفہ نامی کتاب جو شیخ ابوزہرہ کی عربی کتاب کا ترجمہ ہے جو مکتبہ سلفیہ لاہور سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کے مترجم غلام احمد حریری تھے تعلیق مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی نے کی۔مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ہی اس کتاب کی اشاعت وطباعت کے پس پشت تھے ساراکام انہی کی نگرانی میں ہواتھا۔ انہوں نے پوری کتاب کے ترجمہ پر بھی نظرثانی کی تھی۔

غلام احمد حریری نے مقدمہ میں جوکچھ لکھاہے اس کو عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی بھی آواز سمجھنی چاہئے ۔وہ کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔

"یہی وجہ ہے کہ اعتدال،عدم تعصب وسعت نظر اورغیرجانبداری ابوزہرہ کی تصانیف کا طرہ امتیاز ہے آپ نے متعدد ائمہ دین کے سوانح پر بڑی جاندار کتابیں لکھی مگر آپ کی کوئی تصنیف تعصب اورتنگ نظری سے داغدار نہیں ہونے پائی۔(حیات امام ابوحنیفہ ص27)
مقدمہ میں ہی ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں۔
دورحاضر میں جیساکہ گروہی عصبیت کا سکہ جاری ہے۔ہرفرقہ اپنے مذہبی پیشوا کی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان ہے اوردوسروں کی تحقیر وتنقیص کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا۔ایک دوسرے پر کیچراچھالنا اپناگروہی شعار سمجھاجاتاہے۔تکفیروتفسیق کی گرم بازاری ہے۔ ان ظروف واحوال میں ابوزہرہ ایسے وسیع المطالعہ بے تعصب اورمتبحر فقیہ کی کتب کا مطالعہ بیش بہافوائد کا موجب ہوسکتاہے۔(المصدرالسابق)
اسی کے ساتھ موصوف لکھتے ہیں
شیخ ابوزہرہ کی تصانیف کی افادیت کا ایک پہلویہ بھی ہے کہ ائمہ دین کے سیروسوانح کے آزادانہ مطالعہ سے تقلیدی جمود ٹوٹتا اوراصل سرچشمہ ہدایت کتاب وسنت کے اتباع کا جذبہ ابھرتاہے۔آئمہ دین کی تعلیم بھی یہی تھی ۔(المصدرالسابق)
محمد أبو زهرة • الموقع الرسمي للمكتبة الشاملة
شیخ ابوزہرہ کی جرات اورحق گوئی اتنی واضح ہے کہ اس کے مقابلے میں شاید ہی کسی غیرمقلد عالم کو پیش کیاجاسکے۔انہوں نے مطلق العنان اورلادین سربراہ مملکت کو بھرے مجمع میں اشتراک اوراسلام کے درمیان نسبت اتحاد کی بات کرنے پر ٹوک دیاتھااورآج کسی کے منہ میں اتنے دانت ہیں کہ بادشاہ سلامت کے کہے ہوئے فرمان پر شک وشبہ بھی کرنے کی جرات دکھاسکے۔یاکم ازکم نظرثانی کی درخواست ہی کرسکے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top