از۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جمشید
کفایت اللہ صاحب کا درون باطن یہ عقیدہ ہوتوہولیکن تاحال انہوں نے ظاہر نہیں کیاہےبلکہ ان کی بات صرف امام طحاوی کے تعلق سے ہے۔
درج ذیل بحث کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اولاکچھ مقدمات کو سمجھ لیں۔
حافظ ذہبی متقدمین اورمتاخرین کے درمیان علم وفہم میں واضح طورپر تفریق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ متاخرین متقدمین کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے۔
حافظ ذہبی مشہور محدث اسماعیلی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔
" صَنَّف ( يعني الإسماعيلي ) مسند عمر رضي الله عنه ، طالعته وعلقت منه وابتهرت بحفظ هذا الإمام ، وجزمت على أن المتأخرين على إياس من أن يلحقوا المتقدمين ۔
تذکرۃ الحفاظ849
اس میں حافظ ذہبی نے واضح طورپر کہہ دیاہے کہ مجھے یقین جازم ہوگیاکہ متاخرین متقدمین کے علم وفضل کو نہیں پہنچ سکتے۔
ایک دوسری جگہ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ محدثین ہوں یافقہاء دونوں متقدمین محدثین اورفقہاء کے مرتبہ کونہیں پہنچ سکتے۔
" يا شيخ ارفق بنفسك والزم الإنصاف ولا تنظر إلى هؤلاء الحفاظ النظر الشَّزْر ولا ترمقنهم بعين النقص ، ولا تعتقد فيهم أنهم من جنس محدثي زماننا حاشا وكلا ، وليس في كبار محدثي زماننا أحد يبلغ ربتة أولئك في المعرفة فإني أحسبك لفرط هواك تقول بلسان الحال إن أعوزك المقال : من أحمد ؟ وما ابن المديني ؟ وأي شيء أبو زرعة وأبو داود فاسكت بحلم أو انطق بعلم ، فالعلم النافع هو ما جاء عن أمثال هؤلاء ولكن نسبتك إلى أئمة الفقه كنسبة محدثي عصرنا إلى أئمة الحديث فلا نحن ولا أنت ، وإنما يعرف الفضل لأهل الفضل ذو الفضل (1).
تذكرة الحفاظ ص : 726 – 826 .
ان دونوں نصوص سے یہ واضح ہورہاہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ متقدمین محدثین یافقہاء کے مقام ومرتبہ کو بعد کے متاخرین نہیں پہنچ سکتے۔
اب صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ امام طحاوی کا شمار متاخرین میں ہے یامتقدمین میں ہے۔تواس گتھی کو بھی سلجھاتے چلیں۔
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متقدمین اورمتاخرین کے درمیان حدفاصل تیسری صدی ہجری کو ماناہے لیکن اپنے قول کے خلاف اسماعیلی جن کی وفات371میں ہوئی ہے ان کو متقدمین میں شمار کیاہے تواس لحاظ سے امام طحاوی جن کی وفات اسماعیلی سے بہت پہلے ہوئی ہے یعنی 321میں ۔ان کاشمار توبدرجہ اولیٰ متقدمین میں ہوناچاہئے۔
2:انسان جس سے ملاقات کرتاہے جس کے ساتھ طویل عرصہ رہتاہے اس کے بارے میں ظاہر ہے زیادہ جانتاہے اوراس کے متعلق زیادہ کلام کرسکتاہے اوراس کی خصوصیات وامتیازات پر اچھے طریقے سے روشنی ڈال سکتاہے لیکن وہ لوگ جن سے اس کو براہ راست ملنے جلنے اورتعلیم وتعلم کاشرف حاصل نہیں ہے اس کی بنیاد پر وہی بات لکھے گا جو کتب تاریخ میں موجود ہے اوراگروہ کتاب تذکرہ کی ہو تواس مین اختصار مطلوب ہوتاہے کیونکہ اس میں دیگر محدثین اورعیان ونادرہ روزگارافراد کابھی تذکرہ ہوتاہے۔لہذا اس میں مختصراًباتیں ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے حافظ ذہبی اورابن تیمیہ کےدیگرمعاصرین نے ان کے بارے میں جوکچھ لکھاہے اوربعد والوں نے جوکچھ لکھاہے دونوں کو دیکھ لیں۔دونوں میں واضح طورپر فرق نظرآئے گا۔ وجہ یہی ہے کہ انسان جس سے ملتاہے اختلاط رکھتاہے اس کے بارے میں اسکے تاثرات کچھ اورہوتے ہین اورجس کووہ تاریخ اورکتابوں سے جانتاہے اس کے بارے میں تاثرات کچھ اورہوتے ہیں اوریہی چیز پھر قلم اورتحریر کی صورت میں بھی نظرآتی ہے۔
3:انسان کااپناذاتی میلان اوررجحان بھی ہواکرتاہے۔خود حافظ ذہبی کو دیکھیں ۔محدثین کا تذکرہ پورے شرح وبسط کے ساتھ کیاہے اوردیگر اصناف سے تعلق رکھنے والے مثلاریاضی داں،شاعر ،اوردیگرفنون سے تعلق رکھنے والوں میں اختصاربرتاہے۔
اگران تمام امور کو نگاہ میں رکھیں اوراس کے بعد حافظ ذہبی نے امام طحاوی کے ترجمہ میں جوکچھ لکھاہے اس پر دھیان دیں تومیرے خیال سے بہت سے مزعومات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
حافظ ذہبی دوراجتہاد اوربعد کے ادوار کے تعلق سے لکھتے ہیں
فَالمُقَلَّدُوْنَ صحَابَةُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرْطِ ثُبُوْتِ الإِسْنَادِ إِلَيْهِم، ثُمَّ أَئِمَّةُ التَّابِعِيْنَ كَعَلْقَمَةَ، وَمَسْرُوْقٍ, وَعَبِيْدَةَ السَّلْمَانِيِّ, وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ, وَأَبِي الشَّعْثَاءِ, وَسَعِيْدِ بنِ جُبَيْرٍ، وَعُبَيْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ اللهِ, وَعُرْوَةَ, وَالقَاسِمِ, وَالشَّعْبِيِّ, وَالحَسَنِ، وَابْنِ سِيْرِيْنَ، وَإِبْرَاهِيْمَ النَّخَعِيِّ. ثُمَّ كَالزُّهْرِيِّ, وَأَبِي الزِّنَادِ, وَأَيُّوْبَ السِّخْتِيَانِيِّ, وَرَبِيْعَةَ, وَطَبَقَتِهِم.
ثم كأبي حنيفة ومالك والأوزارعي وَابْنِ جُرَيْجٍ وَمَعْمَرٍ وَابْنِ أَبِي عَرُوْبَةَ وَسُفْيَانَ الثوري والحمادين وشعبة والليثي وَابْنِ المَاجِشُوْنِ وَابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ثُمَّ كَابْنِ المُبَارَكِ، وَمُسْلِمٍ الزَّنْجِيِّ وَالقَاضِي أَبِي يُوْسُفَ والهِقْل بنِ زِيَادٍ وَوَكِيْعٍ وَالوَلِيْدِ بنِ مُسْلِمٍ, وَطَبَقَتِهِم.
ثُمَّ كَالشَّافِعِيِّ وَأَبِي عُبَيْدٍ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَأَبِي ثَوْرٍ وَالبُوَيْطِيِّ وَأَبِي بَكْرٍ بنِ أَبِي شَيْبَةَ ثم كالمزني وأبي بكر بن الأَثْرَمِ وَالبُخَارِيِّ وَدَاوُدَ بنِ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بنِ نَصْرٍ المَرْوَزِيِّ وَإِبْرَاهِيْمَ الحَرْبِيِّ، وَإِسْمَاعِيْلَ القَاضِي.
ثُمَّ كَمُحَمَّدِ بنِ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ خُزَيْمَةَ، وَأَبِي عَبَّاسٍ بنِ سُرَيْجٍ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ المُنْذِرِ, وَأَبِي جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ الخَلاَّلِ.
ثُمَّ مِنْ بَعْدِ هَذَا النَّمَطِ تناقص الاجتهاد، ووضعت المختصرات، وأخذ الفُقَهَاءُ إِلَى التَّقْلِيْدِ مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ فِي الأَعْلَمِ، بَلْ بِحَسبِ الاتِّفَاقِ، وَالتَّشَهِّي، وَالتَّعْظِيْمِ، وَالعَادَةِ، وَالبَلَدِ
(سیراعلام النبلاء/54)
اس اقتباس میں واضح طورپر ہے کہ اولاتوصحابہ کرام مقلدہیں یعنی جن کی تقلید کی جاتی ہے اب تقلید کو خلاف دین بتانے والے اس پرغورکرین اورکوئی شاندار ساعذرتلاش کریں
پھرانہوں نے زمانی اعتبار سے مجتہدین کرام کی تفصیلات پیش کیں۔
بالآخر ختم کیاانہوں نے محمد بن جریرالطبری،ابوبکر بن خزیمہ،ابوعباس بن سریج،ابوبکرالمنذر،ابوجعفرالطحاوی،ابوبکرالخلال پر۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ا سکے بعد اجتہاد میں واضح طورپر کمی آنی شروع ہوگئی۔گویافقہی لحاظ سے یہ متقدمین اورمتاخرین کے درمیان انہوں نے حد فاصل بیان کردیا۔اورفقہ کے بھی لحاظ سے امام طحاوی کاشمار متقدمین میں ہے نہ کہ متاخرین میں۔
اولاتوفقہ پر کلام وہ شخص کررہاہے جس سے عربی عبارت کا درست ترجمہ نہیں ہوسکتا اورعربی عبارت کو سمجھنے میں بارہا وہ ٹھوکریں کھاتاہے۔اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں امام طحاوی کی کتابوں کا توذکر جانے دیں خود ابن تیمیہ کی کتابوں کاصحیح سے مطالعہ نہیں کیاہوگا۔اوریہی مشکل ہے دورحاضر کے اہل حدیث کے ساتھ کہ وہ کسی شخص کے بارے میں کچھ کلام واقوال دیکھ کر اس کی حیثیت کا تعین نہ کرتے ہیں نہ کہ براہ راست اس کی تصانیف کو دیکھیں ،غورکریں اورسمجھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
حافظ ذہبی نے من نظرفی توالیف الامام کی شرط لگاکر یہ واضح کردیاکہ جوامام طحاوی کی کتابوں میں بغیرغوروفکر کے کلام کرے گا وہ یوں ہی ہانکے گاجیسے کفایت اللہ صاحب ہانک رہے ہیں کہ ابن تیمیہ کاصرف فتاوی ہی ان کی تمام کتابوں پر بھاری ہے سبحان اللہ ۔
دارالعلوم دیوبند کے تعلق سے ایک عالم نے ایک واقعہ سنایاکہ ایک استاد نےفاتحہ خلف الامام پر ایک ہفتہ تقریر کی ۔جب کہ علامہ ابراہیم بلیاوی نے اسی موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی اوران کی یہ ایک گھنٹہ کی تقریر اس ایک ہفتہ کی تقریر پر بھاری تھی اورانہوں نے ایک ہفتہ کی تقریر میں جوکچھ فرمایاتھا اختصارکے ساتھ ان تمام مشمولات پر حاوی ہونے کے اس ایک گھنٹہ کی تقریر میں مزید کچھ نئی اورزائد باتیں تھیں۔
ابن تیمیہ کسی بھی موضوع کو پھیلاکرلکھتے ہیں اوراس میں شک نہیں کہ اس میں بہت ساری کام کی دیگر باتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں لیکن اسی کے ساتھ اس میں بھی شک نہیں کہ ان کا موضوع انجم مان پوری کے کردار کلو کی زبان میں کہیں تو ہفت قلم ہوجاتاہے۔ایک موضوع میں وہ بہت سارے موضوع چھیڑدیتے ہین جس کی وجہ سے بسااوقات موضوع سے ربط ٹوٹ جاتاہے اورقاری پریشان خیالی کا شکار ہوجاتاہے۔
یہ بات صرف راقم الحروف کی نہیں ہے۔مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی تاریخ دعوت وعزیمت میں اس کا ذکر کیاہے۔
توکسی بات کو طوالت کے ساتھ لکھنا اورکسی کااسی بات کو اختصار کے ساتھ ذکر کردینااس کو مستلزم نہیں ہے کہ طوالت کے ساتھ لکھنے والا زیادہ اعلم اورافقہ ہے۔بلکہ دیکھئے تو اختصار کواپنانے والا زیادہ اعلم اورافقہ قرارپاتاہے۔دیکھئے اسی موضوع پر حافظ ابن رجب جوحافظ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں کیاکہتے ہیں۔
وقد فتن كثير من المتأخرين بهذا فظنوا أن من كثر كلامه وجداله وخصامه في مسائل الدين فهو أعلم ممن ليس كذلك. وهذا جهل محض. وانظر إلى أكابر الصحابة وعلمائهم كأبي بكر وعمر وعلي ومعاذ وابن مسعود وزيد بن ثابت كيف كانوا. كلامهم أقل من كلام ابن عباس وهم أعلم منه وكذلك كلام التابعين أكثر من كلام الصحابة والصحابة أعلم منهم وكذلك تابعوا التابعين كلامهم أكثر من كلام التابعين والتابعون أعلم منهم. فليس العلم بكثرة الرواية ولا بكثرة المقال ولكنه نور يقذف في القلب يفهم به العبد الحق ويميز به بينه وبين الباطل ويعبر عن ذلك بعبارات وجيزة محصلة للمقاصد.
(بیان فضل علم السلف علی الخلف5)
اس کتاب سے کچھ دیگر اقتباسات دیکھتے چلئے۔
وقد ابتلينا بجهلة من الناس يعتقدون في بعض من توسع في القول من المتأخرين انه أعلم ممن تقدم. فمنهم من يظن في شخص أنه أعلم من كل من تقدم من الصحابة ومن بعدهم لكثرة بيانه ومقاله. ومنهم من يقول هو أعلم من الفقهاء المشهورين المتبوعين. وهذا يلزم منه ما قبله لأن هؤلاء الفقهاء المشهورين المتبوعين أكثر قولا ممن كان قبلهم فإذا كان من بعدهم أعلم منهم لاتساع قوله كان أعلم ممن كان أقل منهم قولا بطريق الأولى. كالثوري والأوزاعي والليث. وابن المبارك. وطبقتهم. وممن قبلهم من التابعين والصحابة أيضاً.
(المصدرالسابق)
یہ اقتباس بھی دیکھتے چلیں اوراگراس مین اپناعکس نظرآتاہو توکچھ دیر غوروفکر بھی کرلیں
وفي زماننا يتعين كتابة كلام أئمة السلف المقتدى بهم إلى زمن الشافعي وأحمد وإسحاق وأبي عبيد: وليكن الإنسان على حذر مما حدث بعدهم فإنه حدث بعدهم حوادث كثيرة وحدث من انتسب إلى متابعة السنة والحديث من الظاهرية ونحوهم وهو أشد مخالفة لها لشذوذه عن الأئمة وانفراده عنهم بفهم يفهمه أو يأخذ مالم يأخذ به الأئمة من قبله.
(المصدرالسابق6)
اس اقتباس مین اچھی طرح غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں کہاجارہاہے کہ سلف صالحین کے زمانہ کے بعد بہت سارے حوادث وقوع پذیر ہوئے اس میں سے یہ ایک حادثہ یہ بھی وقوع پذیر ہوا کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کی متابعت کاجھنڈالے کر کھڑے ہوگئے حالانکہ ان کا دعویٰ درست نہیں بلکہ نہایت غلط ہے۔کیونکہ وہ ماقبل کے ائمہ کی مخالفت کرتے ہیں اوراپنی انفرادی رائے کوقابل ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہمارے دور کابھی المیہ یہی ہے کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کا نام لے کر کھڑے ہوئے ہیں اوراپنے سواسبھی کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ عقائد اورفروعات مین بس وہی ایک درست ہیں اوربقیہ تمام کفروشرکت میں لت پت یاپھربدعت اعتقادی وعملی سے مخلوط وممزوج وملوث ہیں۔
بہرحال بات اس کی چل رہی تھی کہ امام طحاوی فقہ اورحدیث میں ابن تیمیہ سے بلند مقام کے حامل ہیں۔اوراگرابن تیمیہ کسی موضوع پر تفصیلاکلام کرتے ہیں اورامام طحاوی اس موضوع پر تفصیلاکلام نہیں کرتے تواس کو زیادہ فقہ وعلم حدیث کی بنیاد بناناقطعاغلط ہے۔
ویسے گزارش ہے کہ کفایت اللہ صاحب وہ معیار بتادیں جس کی بنیاد پر وہ ابن تیمیہ کو امام طحاوی سے زیادہ افقہ واعلم مانتے ہیں۔انہوں نے ایک مبہم بات توکہہ دی ہے لیکن اپنے استدلال کو واضح نہیں کیا۔محض یہ کہناکہ ان کی کوئی بھی کتاب اٹھالیں فقاہت کا شاہکار نظرآتی ہےسے بات نہیں بنتی ہے۔
حضرت ابن تیمیہ کی کسی بھی کتاب کو لے لیں ا س میں ایک موضوع میں کئی موضوع مخلتط اورممزوج نظرآئیں گے۔اورظاہر سی بات ہے کہ اگرکوئی کسی ایک بحث میں کئی بحث چھیڑ دے تو اس کی کتاب میں عبارات اورنقول کی بہتات ہونی لازمی ہے۔حضرت ابن تیمیہ کے طرز تصنیف کی ایک مثال مولانا مناظراحسن گیلانی کی تصانیف میں ملتی ہے کہ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اورقاری حیران رہتاہے کہ بحث کا سراکہاں سے ڈھونڈےاوراپنے مطلب کی بات کو کیسے ڈھونڈے۔
ویسے ہمیں بھی یہ بات کسی لطیفہ سے کم نہیں لگی ہے اورمیرااحساس ہے کہ لطیفیوں کے مقابلے میں اگر اول دوم نہیں توتیسرے نمبرپر یہ لطیفہ ضرور آئے گا۔
امام طحاوی حیات وخدمات - URDU MAJLIS FORUM
امام طحاوی کے تعلق سے کفایت اللہ صاحب نے آگے مزید وہی باتیں نقل کی ہیں جس کی اس مضمون میں ماقبل میں تردید کی جاچکی ہے اوریہ کوئی بعید بھی نہیں کہ موصوف نے اعتراضات کے یہ نقول وہیں سے لئے ہوں۔کیوں موصوف کا مانناہے کہ ایک مصنف اگرکوئی بات ماقبل میں نقل کردیتاہے توبعد والالازمی طورپر اسی سے اخذ کرتاہے یہ ممکن نہیں ہے کہ مصنف نے جہاں سے اخذ کیاہو دوسرابھی وہیں سے اخذ کرلے۔
کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق دیکھیں تویہ تمام باتیں جو اعتراضات کے طورپر وہ نقل کررہے ہیں وہ میرے اس مذکورہ مضمون میں بتمام وکمال موجود ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے وہی قابل نقد طریقہ اختیار کیاکہ جرح نقل کردی اوراس کی تردید میں جوکچھ تھااس سے سکوت اختیار کرلیا۔
امام طحاوی فقہ الحدیث اورعلم حدیث دونوں میں امام ابن تیمیہ سے آگے ہیں۔اولاضرورت اس بات کی ہے کہ متقدمین اورمتاخرین کے درمیان علم وفضل میں جو فرق ہے اس کو سمجھاجائے۔بعض لوگ ذہبی وغیرہ کی ان ہی تعریفات سے سوئے فہم کا شکار ہوکر سمجھنے لگے کہ ابن تیمیہ ائمہ اربعہ سے بھی زیادہ اعلم وافقہ ہیں۔یہاں آپ نے امام طحاوی کی شان میں بلاوجہ غلو کردیا ، اس کے بارے میں ہم کچھ عرض کریں گے۔
امام طحاوی کا بلندمقام آپ کے نظریے کے اعتبار سے دو حیثیت سے ہوسکتاہے۔
o فقہ حدیث میں بلندمقام ۔
o علم حدیث میں بلند مقام۔
جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
آپ تدوین فقہ کو فقاہت کی دلیل سمجھتے ہیں تو کیا یہ بتلانے کی کوشش کریں گے کہ فقہ طحاوی کا مجموعہ کہاں ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ہمیں تو ان کی فقاہت فقط ان کی چندکتابوں میں ہی نظر آتی ہے۔
اس کے برخلاف ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کوئی بھی کتاب اٹھاکر دیکھ لیں فقاہت کی ایک شاہکار ہے۔
نیز صرف ان کافتاوی ہی امام طحاوی کی ساری کتابوں پر بھاری ہے۔
کفایت اللہ صاحب کا درون باطن یہ عقیدہ ہوتوہولیکن تاحال انہوں نے ظاہر نہیں کیاہےبلکہ ان کی بات صرف امام طحاوی کے تعلق سے ہے۔
درج ذیل بحث کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم اولاکچھ مقدمات کو سمجھ لیں۔
حافظ ذہبی متقدمین اورمتاخرین کے درمیان علم وفہم میں واضح طورپر تفریق کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ متاخرین متقدمین کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے۔
حافظ ذہبی مشہور محدث اسماعیلی کے تذکرہ میں لکھتے ہیں۔
" صَنَّف ( يعني الإسماعيلي ) مسند عمر رضي الله عنه ، طالعته وعلقت منه وابتهرت بحفظ هذا الإمام ، وجزمت على أن المتأخرين على إياس من أن يلحقوا المتقدمين ۔
تذکرۃ الحفاظ849
اس میں حافظ ذہبی نے واضح طورپر کہہ دیاہے کہ مجھے یقین جازم ہوگیاکہ متاخرین متقدمین کے علم وفضل کو نہیں پہنچ سکتے۔
ایک دوسری جگہ حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ محدثین ہوں یافقہاء دونوں متقدمین محدثین اورفقہاء کے مرتبہ کونہیں پہنچ سکتے۔
" يا شيخ ارفق بنفسك والزم الإنصاف ولا تنظر إلى هؤلاء الحفاظ النظر الشَّزْر ولا ترمقنهم بعين النقص ، ولا تعتقد فيهم أنهم من جنس محدثي زماننا حاشا وكلا ، وليس في كبار محدثي زماننا أحد يبلغ ربتة أولئك في المعرفة فإني أحسبك لفرط هواك تقول بلسان الحال إن أعوزك المقال : من أحمد ؟ وما ابن المديني ؟ وأي شيء أبو زرعة وأبو داود فاسكت بحلم أو انطق بعلم ، فالعلم النافع هو ما جاء عن أمثال هؤلاء ولكن نسبتك إلى أئمة الفقه كنسبة محدثي عصرنا إلى أئمة الحديث فلا نحن ولا أنت ، وإنما يعرف الفضل لأهل الفضل ذو الفضل (1).
تذكرة الحفاظ ص : 726 – 826 .
ان دونوں نصوص سے یہ واضح ہورہاہے کہ حافظ ذہبی کے نزدیک یہ بات واضح ہے کہ متقدمین محدثین یافقہاء کے مقام ومرتبہ کو بعد کے متاخرین نہیں پہنچ سکتے۔
اب صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ امام طحاوی کا شمار متاخرین میں ہے یامتقدمین میں ہے۔تواس گتھی کو بھی سلجھاتے چلیں۔
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں متقدمین اورمتاخرین کے درمیان حدفاصل تیسری صدی ہجری کو ماناہے لیکن اپنے قول کے خلاف اسماعیلی جن کی وفات371میں ہوئی ہے ان کو متقدمین میں شمار کیاہے تواس لحاظ سے امام طحاوی جن کی وفات اسماعیلی سے بہت پہلے ہوئی ہے یعنی 321میں ۔ان کاشمار توبدرجہ اولیٰ متقدمین میں ہوناچاہئے۔
2:انسان جس سے ملاقات کرتاہے جس کے ساتھ طویل عرصہ رہتاہے اس کے بارے میں ظاہر ہے زیادہ جانتاہے اوراس کے متعلق زیادہ کلام کرسکتاہے اوراس کی خصوصیات وامتیازات پر اچھے طریقے سے روشنی ڈال سکتاہے لیکن وہ لوگ جن سے اس کو براہ راست ملنے جلنے اورتعلیم وتعلم کاشرف حاصل نہیں ہے اس کی بنیاد پر وہی بات لکھے گا جو کتب تاریخ میں موجود ہے اوراگروہ کتاب تذکرہ کی ہو تواس مین اختصار مطلوب ہوتاہے کیونکہ اس میں دیگر محدثین اورعیان ونادرہ روزگارافراد کابھی تذکرہ ہوتاہے۔لہذا اس میں مختصراًباتیں ہوتی ہیں۔اس لحاظ سے حافظ ذہبی اورابن تیمیہ کےدیگرمعاصرین نے ان کے بارے میں جوکچھ لکھاہے اوربعد والوں نے جوکچھ لکھاہے دونوں کو دیکھ لیں۔دونوں میں واضح طورپر فرق نظرآئے گا۔ وجہ یہی ہے کہ انسان جس سے ملتاہے اختلاط رکھتاہے اس کے بارے میں اسکے تاثرات کچھ اورہوتے ہین اورجس کووہ تاریخ اورکتابوں سے جانتاہے اس کے بارے میں تاثرات کچھ اورہوتے ہیں اوریہی چیز پھر قلم اورتحریر کی صورت میں بھی نظرآتی ہے۔
3:انسان کااپناذاتی میلان اوررجحان بھی ہواکرتاہے۔خود حافظ ذہبی کو دیکھیں ۔محدثین کا تذکرہ پورے شرح وبسط کے ساتھ کیاہے اوردیگر اصناف سے تعلق رکھنے والے مثلاریاضی داں،شاعر ،اوردیگرفنون سے تعلق رکھنے والوں میں اختصاربرتاہے۔
اگران تمام امور کو نگاہ میں رکھیں اوراس کے بعد حافظ ذہبی نے امام طحاوی کے ترجمہ میں جوکچھ لکھاہے اس پر دھیان دیں تومیرے خیال سے بہت سے مزعومات کی اصلاح ہوسکتی ہے۔
حافظ ذہبی دوراجتہاد اوربعد کے ادوار کے تعلق سے لکھتے ہیں
فَالمُقَلَّدُوْنَ صحَابَةُ رَسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرْطِ ثُبُوْتِ الإِسْنَادِ إِلَيْهِم، ثُمَّ أَئِمَّةُ التَّابِعِيْنَ كَعَلْقَمَةَ، وَمَسْرُوْقٍ, وَعَبِيْدَةَ السَّلْمَانِيِّ, وَسَعِيْدِ بنِ المُسَيِّبِ, وَأَبِي الشَّعْثَاءِ, وَسَعِيْدِ بنِ جُبَيْرٍ، وَعُبَيْدِ اللهِ بنِ عَبْدِ اللهِ, وَعُرْوَةَ, وَالقَاسِمِ, وَالشَّعْبِيِّ, وَالحَسَنِ، وَابْنِ سِيْرِيْنَ، وَإِبْرَاهِيْمَ النَّخَعِيِّ. ثُمَّ كَالزُّهْرِيِّ, وَأَبِي الزِّنَادِ, وَأَيُّوْبَ السِّخْتِيَانِيِّ, وَرَبِيْعَةَ, وَطَبَقَتِهِم.
ثم كأبي حنيفة ومالك والأوزارعي وَابْنِ جُرَيْجٍ وَمَعْمَرٍ وَابْنِ أَبِي عَرُوْبَةَ وَسُفْيَانَ الثوري والحمادين وشعبة والليثي وَابْنِ المَاجِشُوْنِ وَابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ثُمَّ كَابْنِ المُبَارَكِ، وَمُسْلِمٍ الزَّنْجِيِّ وَالقَاضِي أَبِي يُوْسُفَ والهِقْل بنِ زِيَادٍ وَوَكِيْعٍ وَالوَلِيْدِ بنِ مُسْلِمٍ, وَطَبَقَتِهِم.
ثُمَّ كَالشَّافِعِيِّ وَأَبِي عُبَيْدٍ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَأَبِي ثَوْرٍ وَالبُوَيْطِيِّ وَأَبِي بَكْرٍ بنِ أَبِي شَيْبَةَ ثم كالمزني وأبي بكر بن الأَثْرَمِ وَالبُخَارِيِّ وَدَاوُدَ بنِ عَلِيٍّ وَمُحَمَّدِ بنِ نَصْرٍ المَرْوَزِيِّ وَإِبْرَاهِيْمَ الحَرْبِيِّ، وَإِسْمَاعِيْلَ القَاضِي.
ثُمَّ كَمُحَمَّدِ بنِ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ خُزَيْمَةَ، وَأَبِي عَبَّاسٍ بنِ سُرَيْجٍ، وَأَبِي بَكْرٍ بنِ المُنْذِرِ, وَأَبِي جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيِّ، وَأَبِي بَكْرٍ الخَلاَّلِ.
ثُمَّ مِنْ بَعْدِ هَذَا النَّمَطِ تناقص الاجتهاد، ووضعت المختصرات، وأخذ الفُقَهَاءُ إِلَى التَّقْلِيْدِ مِنْ غَيْرِ نَظَرٍ فِي الأَعْلَمِ، بَلْ بِحَسبِ الاتِّفَاقِ، وَالتَّشَهِّي، وَالتَّعْظِيْمِ، وَالعَادَةِ، وَالبَلَدِ
(سیراعلام النبلاء/54)
اس اقتباس میں واضح طورپر ہے کہ اولاتوصحابہ کرام مقلدہیں یعنی جن کی تقلید کی جاتی ہے اب تقلید کو خلاف دین بتانے والے اس پرغورکرین اورکوئی شاندار ساعذرتلاش کریں
پھرانہوں نے زمانی اعتبار سے مجتہدین کرام کی تفصیلات پیش کیں۔
بالآخر ختم کیاانہوں نے محمد بن جریرالطبری،ابوبکر بن خزیمہ،ابوعباس بن سریج،ابوبکرالمنذر،ابوجعفرالطحاوی،ابوبکرالخلال پر۔
اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ا سکے بعد اجتہاد میں واضح طورپر کمی آنی شروع ہوگئی۔گویافقہی لحاظ سے یہ متقدمین اورمتاخرین کے درمیان انہوں نے حد فاصل بیان کردیا۔اورفقہ کے بھی لحاظ سے امام طحاوی کاشمار متقدمین میں ہے نہ کہ متاخرین میں۔
کفایت اللہ صاحب نے جذبہ دروں سے مجبور ہوکر یہ لفظ لکھ تودیالیکن اس کے محتویات اورمشتملات پر غوروفکر نہیں کیا۔جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
اولاتوفقہ پر کلام وہ شخص کررہاہے جس سے عربی عبارت کا درست ترجمہ نہیں ہوسکتا اورعربی عبارت کو سمجھنے میں بارہا وہ ٹھوکریں کھاتاہے۔اس کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں امام طحاوی کی کتابوں کا توذکر جانے دیں خود ابن تیمیہ کی کتابوں کاصحیح سے مطالعہ نہیں کیاہوگا۔اوریہی مشکل ہے دورحاضر کے اہل حدیث کے ساتھ کہ وہ کسی شخص کے بارے میں کچھ کلام واقوال دیکھ کر اس کی حیثیت کا تعین نہ کرتے ہیں نہ کہ براہ راست اس کی تصانیف کو دیکھیں ،غورکریں اورسمجھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے۔
حافظ ذہبی لکھتے ہیں۔
سیراعلام النبلاء11/362قُلْتُ: مَنْ نَظر فِي توَالِيف هَذَا الإِمَام عَلِمَ محلَّه مِنَ العِلْم، وَسعَة مَعَارِفه
حافظ ذہبی نے من نظرفی توالیف الامام کی شرط لگاکر یہ واضح کردیاکہ جوامام طحاوی کی کتابوں میں بغیرغوروفکر کے کلام کرے گا وہ یوں ہی ہانکے گاجیسے کفایت اللہ صاحب ہانک رہے ہیں کہ ابن تیمیہ کاصرف فتاوی ہی ان کی تمام کتابوں پر بھاری ہے سبحان اللہ ۔
یہ ماقبل سے بھی زیادہ عجیب وغریب بات ہے ۔جہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
دارالعلوم دیوبند کے تعلق سے ایک عالم نے ایک واقعہ سنایاکہ ایک استاد نےفاتحہ خلف الامام پر ایک ہفتہ تقریر کی ۔جب کہ علامہ ابراہیم بلیاوی نے اسی موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی اوران کی یہ ایک گھنٹہ کی تقریر اس ایک ہفتہ کی تقریر پر بھاری تھی اورانہوں نے ایک ہفتہ کی تقریر میں جوکچھ فرمایاتھا اختصارکے ساتھ ان تمام مشمولات پر حاوی ہونے کے اس ایک گھنٹہ کی تقریر میں مزید کچھ نئی اورزائد باتیں تھیں۔
ابن تیمیہ کسی بھی موضوع کو پھیلاکرلکھتے ہیں اوراس میں شک نہیں کہ اس میں بہت ساری کام کی دیگر باتیں بھی شامل ہوجاتی ہیں لیکن اسی کے ساتھ اس میں بھی شک نہیں کہ ان کا موضوع انجم مان پوری کے کردار کلو کی زبان میں کہیں تو ہفت قلم ہوجاتاہے۔ایک موضوع میں وہ بہت سارے موضوع چھیڑدیتے ہین جس کی وجہ سے بسااوقات موضوع سے ربط ٹوٹ جاتاہے اورقاری پریشان خیالی کا شکار ہوجاتاہے۔
یہ بات صرف راقم الحروف کی نہیں ہے۔مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بھی تاریخ دعوت وعزیمت میں اس کا ذکر کیاہے۔
توکسی بات کو طوالت کے ساتھ لکھنا اورکسی کااسی بات کو اختصار کے ساتھ ذکر کردینااس کو مستلزم نہیں ہے کہ طوالت کے ساتھ لکھنے والا زیادہ اعلم اورافقہ ہے۔بلکہ دیکھئے تو اختصار کواپنانے والا زیادہ اعلم اورافقہ قرارپاتاہے۔دیکھئے اسی موضوع پر حافظ ابن رجب جوحافظ ابن تیمیہ کے شاگرد ہیں کیاکہتے ہیں۔
وقد فتن كثير من المتأخرين بهذا فظنوا أن من كثر كلامه وجداله وخصامه في مسائل الدين فهو أعلم ممن ليس كذلك. وهذا جهل محض. وانظر إلى أكابر الصحابة وعلمائهم كأبي بكر وعمر وعلي ومعاذ وابن مسعود وزيد بن ثابت كيف كانوا. كلامهم أقل من كلام ابن عباس وهم أعلم منه وكذلك كلام التابعين أكثر من كلام الصحابة والصحابة أعلم منهم وكذلك تابعوا التابعين كلامهم أكثر من كلام التابعين والتابعون أعلم منهم. فليس العلم بكثرة الرواية ولا بكثرة المقال ولكنه نور يقذف في القلب يفهم به العبد الحق ويميز به بينه وبين الباطل ويعبر عن ذلك بعبارات وجيزة محصلة للمقاصد.
(بیان فضل علم السلف علی الخلف5)
اس کتاب سے کچھ دیگر اقتباسات دیکھتے چلئے۔
وقد ابتلينا بجهلة من الناس يعتقدون في بعض من توسع في القول من المتأخرين انه أعلم ممن تقدم. فمنهم من يظن في شخص أنه أعلم من كل من تقدم من الصحابة ومن بعدهم لكثرة بيانه ومقاله. ومنهم من يقول هو أعلم من الفقهاء المشهورين المتبوعين. وهذا يلزم منه ما قبله لأن هؤلاء الفقهاء المشهورين المتبوعين أكثر قولا ممن كان قبلهم فإذا كان من بعدهم أعلم منهم لاتساع قوله كان أعلم ممن كان أقل منهم قولا بطريق الأولى. كالثوري والأوزاعي والليث. وابن المبارك. وطبقتهم. وممن قبلهم من التابعين والصحابة أيضاً.
(المصدرالسابق)
یہ اقتباس بھی دیکھتے چلیں اوراگراس مین اپناعکس نظرآتاہو توکچھ دیر غوروفکر بھی کرلیں
وفي زماننا يتعين كتابة كلام أئمة السلف المقتدى بهم إلى زمن الشافعي وأحمد وإسحاق وأبي عبيد: وليكن الإنسان على حذر مما حدث بعدهم فإنه حدث بعدهم حوادث كثيرة وحدث من انتسب إلى متابعة السنة والحديث من الظاهرية ونحوهم وهو أشد مخالفة لها لشذوذه عن الأئمة وانفراده عنهم بفهم يفهمه أو يأخذ مالم يأخذ به الأئمة من قبله.
(المصدرالسابق6)
اس اقتباس مین اچھی طرح غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں کہاجارہاہے کہ سلف صالحین کے زمانہ کے بعد بہت سارے حوادث وقوع پذیر ہوئے اس میں سے یہ ایک حادثہ یہ بھی وقوع پذیر ہوا کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کی متابعت کاجھنڈالے کر کھڑے ہوگئے حالانکہ ان کا دعویٰ درست نہیں بلکہ نہایت غلط ہے۔کیونکہ وہ ماقبل کے ائمہ کی مخالفت کرتے ہیں اوراپنی انفرادی رائے کوقابل ترجیح سمجھتے ہیں۔
ہمارے دور کابھی المیہ یہی ہے کہ کچھ لوگ کتاب وسنت کا نام لے کر کھڑے ہوئے ہیں اوراپنے سواسبھی کو غلط سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ عقائد اورفروعات مین بس وہی ایک درست ہیں اوربقیہ تمام کفروشرکت میں لت پت یاپھربدعت اعتقادی وعملی سے مخلوط وممزوج وملوث ہیں۔
بہرحال بات اس کی چل رہی تھی کہ امام طحاوی فقہ اورحدیث میں ابن تیمیہ سے بلند مقام کے حامل ہیں۔اوراگرابن تیمیہ کسی موضوع پر تفصیلاکلام کرتے ہیں اورامام طحاوی اس موضوع پر تفصیلاکلام نہیں کرتے تواس کو زیادہ فقہ وعلم حدیث کی بنیاد بناناقطعاغلط ہے۔
ویسے گزارش ہے کہ کفایت اللہ صاحب وہ معیار بتادیں جس کی بنیاد پر وہ ابن تیمیہ کو امام طحاوی سے زیادہ افقہ واعلم مانتے ہیں۔انہوں نے ایک مبہم بات توکہہ دی ہے لیکن اپنے استدلال کو واضح نہیں کیا۔محض یہ کہناکہ ان کی کوئی بھی کتاب اٹھالیں فقاہت کا شاہکار نظرآتی ہےسے بات نہیں بنتی ہے۔
حضرت ابن تیمیہ کی کسی بھی کتاب کو لے لیں ا س میں ایک موضوع میں کئی موضوع مخلتط اورممزوج نظرآئیں گے۔اورظاہر سی بات ہے کہ اگرکوئی کسی ایک بحث میں کئی بحث چھیڑ دے تو اس کی کتاب میں عبارات اورنقول کی بہتات ہونی لازمی ہے۔حضرت ابن تیمیہ کے طرز تصنیف کی ایک مثال مولانا مناظراحسن گیلانی کی تصانیف میں ملتی ہے کہ بات کہیں سے شروع ہوتی ہے اوربات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اورقاری حیران رہتاہے کہ بحث کا سراکہاں سے ڈھونڈےاوراپنے مطلب کی بات کو کیسے ڈھونڈے۔
ویسے ہمیں بھی یہ بات کسی لطیفہ سے کم نہیں لگی ہے اورمیرااحساس ہے کہ لطیفیوں کے مقابلے میں اگر اول دوم نہیں توتیسرے نمبرپر یہ لطیفہ ضرور آئے گا۔
قارئین اس لطیفے کو یاد رکھیں اورامام طحاوی کے تعلق سے اس لنک کا مطالعہ کریںجہاں تک فقہ حدیث کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ موصوف ایک فقیہ تھے مگر ان کی فقاہت کا موازنہ ابن تیمیہ کی فقاہت سےکرنا ایک لطیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ خود امام طحاوی پر بہت بڑا ظلم ہے، اللہ رحم کرے !! کہاں امام ابن تیمیہ اورکہاں امام طحاوی !!!!
امام طحاوی حیات وخدمات - URDU MAJLIS FORUM
امام طحاوی کے تعلق سے کفایت اللہ صاحب نے آگے مزید وہی باتیں نقل کی ہیں جس کی اس مضمون میں ماقبل میں تردید کی جاچکی ہے اوریہ کوئی بعید بھی نہیں کہ موصوف نے اعتراضات کے یہ نقول وہیں سے لئے ہوں۔کیوں موصوف کا مانناہے کہ ایک مصنف اگرکوئی بات ماقبل میں نقل کردیتاہے توبعد والالازمی طورپر اسی سے اخذ کرتاہے یہ ممکن نہیں ہے کہ مصنف نے جہاں سے اخذ کیاہو دوسرابھی وہیں سے اخذ کرلے۔
کفایت اللہ صاحب کے اصول کے مطابق دیکھیں تویہ تمام باتیں جو اعتراضات کے طورپر وہ نقل کررہے ہیں وہ میرے اس مذکورہ مضمون میں بتمام وکمال موجود ہیں لیکن افسوس کہ انہوں نے وہی قابل نقد طریقہ اختیار کیاکہ جرح نقل کردی اوراس کی تردید میں جوکچھ تھااس سے سکوت اختیار کرلیا۔